Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 48

سورة إبراهيم

یَوۡمَ تُبَدَّلُ الۡاَرۡضُ غَیۡرَ الۡاَرۡضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوۡا لِلّٰہِ الۡوَاحِدِ الۡقَہَّارِ ﴿۴۸﴾

[It will be] on the Day the earth will be replaced by another earth, and the heavens [as well], and all creatures will come out before Allah , the One, the Prevailing.

جس دن زمین اس زمین کے سوا اور ہی بدل دی جائے گی اور آسمان بھی ، اور سب کے سب اللہ واحد غلبے والے کے رو بُرو ہونگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَوْمَ تُبَدَّلُ الاَرْضُ غَيْرَ الاَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ ... On the Day when the earth will be changed to another earth and so will be the heavens, meaning, His promise shall come to pass on the Day when the earth will be changed to an earth other than this earth that we know and recognize. It is recorded in the Two Sahihs that Sahl bin Sa`d said that the Messenger of Allah said, يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى أَرْضٍ بَيْضَاءَ عَفْرَاءَ كَقُرْصَةِ النَّقِيِّ لَيْسَ فِيهَا مَعْلَمٌ لاَِحَد On the Day of Resurrection, the people will be gathered on a white (barren), flat earth just like the wheat bread, it has no recognizable features for anyone. Imam Ahmad recorded that A'ishah said, "I was the first among all people who asked the Messenger of Allah about this Ayah, يَوْمَ تُبَدَّلُ الاَرْضُ غَيْرَ الاَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ (On the Day when the earth will be changed to another earth and so will be the heavens), saying, `O Allah's Messenger! Where will the people be then?' He said, عَلَى الصِّرَاط On the Sirat." Muslim, but not Al-Bukhari, collected this Hadith. At-Tirmidhi and Ibn Majah also recorded it, and At-Tirmidhi said "Hasan Sahih". Imam Muslim bin Al-Hajjaj recorded in his Sahih that Thawban the servant of the Messenger of Allah said, "I was standing next to the Messenger of Allah when a Jewish rabbi came to him and said, `Peace be to you, O Muhammad.' I pushed him with such a force that almost caused him to fall down and he asked me why I did that. I said, `Why did you not say, `O Messenger of Allah!' The Jew said, `We call him by the name which his family gave him.' The Messenger of Allah said, إِنَّ اسْمِي مُحَمَّدٌ الَّذِي سَمَّانِي بِهِ أهْلِي Muhammad is indeed the name which my family gave me. The Jew said, `I came to ask you about something.' The Messenger of Allah replied, أَيَنْفَعُكَ شَيْيًا إِنْ حَدَّثْتُكَ Would it benefit you if I replied to your question? He said, `I will hear it with my ear.' The Messenger of Allah poked the ground with a staff he had and said, سَل (Ask). The Jew said, `Where will the people be when the earth will be changed to another earth and so will the heavens?' The Messenger of Allah said, هُمْ فِي الظُّلْمَةِ دُونَ الْجَسْر In the darkness before the Bridge (Jasr). قال: فمن أول الناس إجازة ؟ He asked, `Who will be the first to pass it?' فقال: فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِين He said, The poor emigrants (Muhajirin). فقال اليهودي: فما تحفتهم حين يدخلون الجنة؟ He asked, `What will their (refreshment) be when they enter Paradise?' قال: زِيَادَةُ كَبِدِ النُّون He said, The caul of fish liver. قال: فما غذاؤهم في إثرها؟ He asked, `What will they have after that?' قال: يُنْحَرُ لَهُمْ ثَوْرُ الْجَنَّةِ الَّذِي كَانَ يَأْكُلُ مِنْ أَطْرَافِهَا He said, A bull of Paradise which grazed through its pathways will be slaughtered for them. قال: فما شرابهم عليه؟ He asked, `From what will they drink?' قال: مِنْ عَيْنٍ فِيهَا تُسَمَّى سَلْسَبِيلً He said, From a fountain whose name is Salsabil. قال: صدقت، قال: وجئت أسألك عن شيء لا يعلمه أحد من أهل الأرض إلا نبي أو رجل أو رجلان He said, `You have said the truth. I have come to ask you something about which none of the inhabitants of the earth knows, with the exception of a Prophet or one or two other men.' قال: أَيَنْفَعُكَ إِنْ حَدَّثْتُكَ He said, Would you benefit by me informing you about it? قال: أسمع بأذني قال: جئت أسألك عن الولد He replied, `I would listen. I have come to ask you about the child.' قال: مَاءُ الرُّجُلِ أَبْيَضُ وَمَاءُ الْمَرْأَةِ أَصْفَرُ فَإِذَا اجْتَمَعَا فَعَلَا مَنِيُّ الرُّجُلِ مَنِيَّ الْمَرْأَةِ أَذْكَرَا بِإِذْنِ اللهِ تَعَالَى وَإِذَا عَلَا مَنِيُّ الْمَرْأَةِ مَنِيَّ الرَّجُلِ أَنَّثَا بِإِذْنِ الله He said, The fluid of the man is white, and the woman's is yellow. When they meet, if the discharge of the man is greater than that of the woman, then it becomes a male, by Allah's permission. When the woman's discharge is greater than the man's, it becomes a female by Allah's permission. قال اليهودي: لقد صدقت وإنك لنبي ثم انصرف The Jew said, `You have told the truth and are indeed a Prophet.' Then he left. فقال رسول اللهصلى الله عليه وسلّم لَقَدْ سَأَلَنِي هَذَا عَنِ الَّذِي سَأَلَنِي عَنْهُ وَمَا لِي عِلْمٌ بِشَيْءٍ مِنْهُ حَتَّى أَتَانِي اللهُ بِه So Allah's Messenger said; He asked me such things that I had no knowledge of it until Allah gave it to me. Allah said next, ... وَبَرَزُواْ للّهِ ... and they will appear before Allah, describing when the creatures will be resurrected before Allah from their graves, ... الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ the One, the Irresistible. Who has full power and control over all things and to Whom the necks and minds are subservient.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 امام شوکانی فرماتے ہیں کہ آیت میں دونوں احتمال ہیں کہ یہ تبدیلی صفات کے لحاظ سے ہو یا ذات کے لحاظ سے۔ یعنی یہ آسمان و زمین اپنے صفات کے اعتبار سے بدل جائیں گے یا ویسے ہی ذاتی طور پر یہ تبدیلی آئے گی، نہ زمین رہے گی اور نہ یہ آسمان۔ زمین بھی کوئی اور ہوگی اور آسمان بھی کوئی اور حدیث میں آتا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا '۔ یحشر الناس یوم القیامۃ علی الارض بیضاء عفراء کقرصہ النقی لیس فیھا علم لا حد۔ صحیح مسلم قیامت والے دن لوگ سفید بھوری زمین پر اکھٹے ہونگے جو میدہ کی روٹی کی طرح ہوگی۔ اس میں کسی کا کوئی جھنڈا (یا علامتی نشان) نہیں ہوگا۔ حضرت عائشہ (رض) نے پوچھا کہ جب یہ آسمان و زمین بدل دئیے جائیں گے تو پھر لوگ اس دن کہاں ہونگے ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' صراط پر ' یعنی پل صراط پر (حوالہ مزکور) ایک یہودی کے پوچھنے پر آپ نے فرمایا کہ ' لوگ اس دن پل کے قریب اندھیرے میں ہونگے (صحیح مسلم)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٨] اللہ کی عدالت میں لوگوں کی پیشی اور حساب :۔ نفخہ صور اول کے وقت موجودہ نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا جیسا کہ سورة تکویر اور بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد نفخہ صور ثانی تک کیا کیا تغیرات واقع ہوں گے اور یہ درمیانی عرصہ کتنا ہوگا۔ یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ نفخہ صور ثانی پر ایک نیا نظام کائنات وجود میں لایا جائے گا جس میں یا تو موجودہ زمین و آسمان کی ذوات ہی تبدیل کردی جائیں گی یا ان کی ہیئت میں خاصا تغیر و تبدل واقع ہوگا۔ آیت کے الفاظ میں دونوں معنوں کی گنجائش ہے۔ اسی نفخہ ثانی کے وقت آدم سے لے کر قیامت تک پیدا شدہ سب انسانوں کو دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا۔ انہی واقعات کا نام قرآن کی اصطلاح میں حشر ونشر ہے۔ اس نئی زمین اور نئے آسمان کے لیے طبعی قوانین بھی موجودہ قوانین سے الگ ہوں گے اور اسی زمین پر اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہوگی۔ میزان الاعمال رکھی جائے گی اور لوگوں کے اعمال کے مطابق ان کی جزاو سزا کے فیصلے ہوں گے۔ قرآن کی بعض آیات سے زمین میں تبدیلی کی جو صورت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین میں اس دن کوئی بلندی یا پستی نہیں رہے گی۔ سب پہاڑ زمین بوس کردیئے جائیں گے اور سب کھڈے بھر دیئے جائیں گے اس طرح سطح زمین ہموار اور پہلے سے بہت زیادہ بڑھ جائے گی اور سب سے اہم تبدیلی یہ ہوگی کہ سمندروں، دریاؤں اور ندی نالوں کو خشک کردیا جائے۔ اور سمندر کی سطح کا رقبہ خشکی کے رقبہ سے تین گناہ زیادہ ہے اس طرح موجودہ زمین سے اس وقت کی تبدیل شدہ زمین کم از کم چار گنا بڑھ جائے گی اور دوسرے وہ زمین بالکل ہموار ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ : اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز زمین و آسمان کی موجودہ شکل و صورت بدل جائے گی۔ ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( تَکُوْنُ الْأَرْضُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خُبْزَۃً وَاحِدَۃً یَتَکَفَّؤُھَا الْجَبَّارُ بِیَدِہِ کَمَ ٥ ا یَکْفَؤُ أَحَدُکُمْ خُبْزَتَہُ فِي السَّفَرِ نُزُلًا لِأَھْلِ الْجَنَّۃِ ) [ بخاري، الرقاق، باب یقبض اللہ الأرض یوم القیامۃ : ٦٥٢٠۔ مسلم : ٢٧٩٢ ] ” قیامت کے دن زمین ایک روٹی بن جائے گی، جبار (اللہ تعالیٰ ) اسے اپنے ہاتھ میں الٹ پلٹ کرے گا جس طرح تم میں سے کوئی شخص سفر میں اپنی روٹی الٹ پلٹ کرتا ہے، اہل جنت کی مہمان نوازی کے لیے۔ “ سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، فرماتے تھے : ( یُحْشَرُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی أَرْضٍ بَیْضَاءَ عَفْرَاءَ کَقُرْصَۃِ نَقِيٍّ ، لَیْسَ فِیْہَا مَعْلَمٌ لِأَحَدٍ ) [ بخاري، الرقاق، باب یقبض اللّٰہ الأرض یوم القیامۃ : ٦٥٢١۔ مسلم : ٢٧٩٠ ] ” لوگ قیامت کے دن سفید مٹیالی زمین پر اکٹھے کیے جائیں گے، جیسے میدے کی روٹی ہوتی ہے، اس میں کسی کا کوئی نشان نہیں ہوگا۔ “ قرآن مجید میں بھی ہے کہ قیامت کے دن زمین صاف چٹیل میدان بن جائے گی جس میں کوئی بلندی یا پستی نظر نہیں آئے گی۔ (دیکھے طٰہٰ : ١٠٥ تا ١٠٧) رہا یہ سوال کہ یہ تبدیلی زمین و آسمان کی ذات میں ہوگی یا ان کی صفات میں، تو اس کے بارے میں قرآن مجید یا حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی چیز ثابت نہیں، اس لیے ہمیں اسی پر یقین رکھنا ہوگا جو قرآن کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ : یہ ان مشرکین کے ردّ کے لیے فرمایا جو اپنے شرکاء کا بھی کچھ اختیار سمجھتے ہیں کہ اس دن سب لوگ اس اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے جو اکیلا ہے، بڑا زبردست ہے، کوئی دوسرا کسی اختیار کا مالک نہ ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the verses which appear onwards from here (48-51), the text re-turns to the awe-inspiring happenings of the day of Qiyamah. It is said: يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْ‌ضُ غَيْرَ‌ الْأَرْ‌ضِ وَالسَّمَاوَاتُ ۖ وَبَرَ‌زُوا لِلَّـهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ‌ The day on which this earth will be turned into some other earth, and the skies as well. And they all shall appear before Allah, the One, the All-Dominant. The statement that the earth and the sky will be turned into some other earth and sky may also mean that their distinctive characteristics and appearances will be changed. There are other verses of the Holy Qur’ an, and narrations from Hadith, which say that the whole earth will be transformed into a levelled surface having no house, tree, mountain and mound blocking the view, nor shall there remain any cave and abyss. It is this very state of change which the Qur&an refers to elsewhere in the following words: لَّا تَرَ‌ىٰ فِيهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا (you will not see in it any crookedness, or curvature - 20:107). It means that things will not remain the way they are. Roads and pathways we see today wind their way past buildings and mountains negotiating all sorts of twists and turns on sur¬faces high and low. This will change and the whole thing would turn into flat, unobstructed ground. And this act of changing the earth and the sky could also be taken to mean that another set of the earth and the sky would be made in the place of the present ones. Out of the narrations of Hadith reported on this subject, only some of them seem to indicate either a change in fea¬tures only while others suggest a change of the thing itself. Hadith authority, Al-Baihaqi has reported from Sayyidna ` Abdullah ibn Mas’ ud (رض) as based on authentic chains of narration that, about this verse, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &The ground of Al-Mahshar (the plain of Resurrection) will be brand new, radiant white like silver. And this earth surface would be such that no sin would have been committed over it by anyone, and on which no blood belonging to someone killed unjustly would have been shed.& The same subject appears in the Hadith reported in the Musnad of Ahmad and Tafsir Ibn Jarir, as narrated by Sayyidna Anas (رض) . (Tafsir Mazhari) In the Sahihayn (the two Sahihs) of Al-Bukhari and Muslim, there is a narration from Sayyidna Sahl Ibn Sa&d (رض) which reports that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &On the day of Qiyamah, people will be resurrected on an earth surface which will be clean and white like refined pita bread with no trace of anything else (such as house, garden, tree, mountain, mound etc.,). A1-Biahaqi has reported the same subject from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas & (رض) as in his Tafsir of this particular verse. And Hakim, backed by a strong chain of authority, has reported from a narration of Sayyidna Jabir (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &On the day of Qiyamah, this earth will be stretched like leather so that its wrin¬kles and crinkles are smoothed out (because of which caves and moun¬tains of the earth would be all levelled down turning it into a flat sur¬face), and at that time gathered on these plains there shall be the whole progeny of Adam. Such will be the multitude of people that one human being would have only as much land in his or her share as he or she can stand on. Then, I shall be the first to be called on the plains of Resurrec¬tion. There I shall fall down in prostration before the Almighty Lord, and when I shall be given the permission to intercede, I shall intercede for the whole creation so that they go through the reckoning of their deeds swiftly.& This last report obviously seems to indicate that the change made in the earth will be restricted to a change in its physical features, that is, caves, mountains, buildings and trees will not remain there. But, the earth itself will remain as it is. And all other narrations mentioned earli¬er tell us that the earth of the day of Resurrection (Al-Mahshar) will be an earth other than the present one. As for the change mentioned in this verse, it means the change of the earth itself. In Bayan al-Qur&an, Maulana Ashraf Thanavi (رح) has said that there is no contradiction here. It is possible that the features of the present earth will be changed at the time the first Horn is blown, then people will be transferred to some other earth for the purpose of reckoning of deeds. A saying of Sayyidna ` Ikrimah (رض) appearing in the Musnad of ` Abd ibn al-Humaid and reported in Tafsir Mazhari supports the view given above. The words used there can be translated as: &This earth will contract and it will have another earth by its side on which people will stand for reckoning.& As based on a narration of Sayyidna Thawban (رض) ، it has been reported in the Sahih of Muslim that a Jewish rabbi came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and asked him: When this earth is changed, where would people be? He said: They would be in a dark area near the Bridge of Sirat. From here we also learn that people will be transferred from the present earth over to the other through the Bridge of Sirat. And Ibn Jarir has reported from several Sahabah and Tabi` in in his Tafsir that the present earth and all its rivers will turn into fire at that time. In other words, all this territory which now holds the population of the world will become the territory of Hell. However, the reality of things is known to Allah Ta` ala alone. A servant of His can do nothing but to live by his commitment to Him and not go about seeking the cause of His workings. In verses 50 and 51 towards the end, given there is the state in which the people of Jahannam will find themselves. Culprits will be shackled together in chains, that is, each group huddled separately and then shackled together. And the dress they would be made to wear will be from &Qatiran& which is a highly inflammable tar-like oil and would catch fire instantly. Finally, in the last verse (52), it was made clear that the description of conditions to be faced by people on the day of Qiyamah was to warn them so that they would realize that there is no Being worthy of worship and obedience except the One Being of Allah T, and so that whoever from among them has some sense left in him or her would desist from Shirk while there was still the time to do so.

اس کے بعد کی آیات میں پھر قیامت کے ہولناک حالات و واقعات کا ذکر ہے ارشاد فرمایا (آیت) يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّار یعنی قیامت کا دن ایسا ہوگا کہ اس میں موجودہ زمین بھی بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب کے سب اللہ واحد وقہار کے سامنے حاضر ہوں گے۔ زمین و آسمان کے بدل دینے کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ان کی صفات اور شکل و صورت بدل دی جائے جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیات اور روایات حدیث میں ہے کہ پوری زمین ایک سطح مستوی بنادی جائے گی جس میں نہ کسی مکان کی آڑ ہوگی نہ درخت وغیرہ کی نہ کوئی پہاڑ اور ٹیلہ رہے گا نہ غار اور گہرائی قرآن کریم میں اسی حال کا ذکر اس طرح فرمایا ہے۔ (آیت) لَا تَرٰى فِيْهَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا یعنی تعمیرات اور پہاڑوں کی وجہ سے جو آج کل راستے اور سڑکیں مڑ کر گذرتی ہیں اور کہیں اونچائی ہے کہیں گہرائی یہ صورت نہ رہے گی بلکہ سب صاف میدان ہوجائے گا اور تبدیل زمین و آسمان کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ بالکل ہی اس زمین کے بدلے میں دوسری زمین اور اس آسمان کی جگہ دوسرے آسمان بنا دئیے جائیں روایات حدیث جو اس کے متعلق منقول ہیں ان میں بھی بعض دوسرے آسمان بنا دیئے جائیں روایات حدیث جو اس کے متعلق منقول ہیں ان میں بھی بعض سے صرف صفات کی تبدیلی معلوم ہوتی ہے بعض سے ذات کی تبدیلی امام حدیث بیہقی نے بسند صحیح حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) سے اس آیت کے بارے میں یہ نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ محشر کی زمین بالکل نئی زمین چاندی کی طرح سفید ہوگی اور یہ زمین ایسی ہوگی جس پر کسی نے کوئی گناہ نہیں کیا ہوگا جس پر کسی کا ناحق خون نہیں گرایا گیا اسی طرح مسند احمد اور تفسیر ابن جریر کی حدیث میں یہی مضمون بروایت حضرت انس مذکور ہے (تفسیر مظہری) صحیحین بخاری ومسلم میں حضرت سہل بن سعد (رض) کی روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز لوگ ایک ایسی زمین پر اٹھائے جائیں گے جو ایسی صاف وسفید ہوگی جیسے میدے کی روٹی اس میں کسی کی کوئی علامت (مکان، باغ، درخت، پہاڑ، ٹیلہ وغیرہ کی) کچھ نہ ہوگی یہی مضمون بیہقی نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے۔ اور حاکم نے سند قوی کے ساتھ حضرت جابر (رض) سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز یہ زمین اس طرح کھینچی جائے جیسے چمڑے کو کھینچا جائے جس سے اس کی سلوٹیں اور شکن نکل جائیں (اس کی وجہ سے زمین کے غار اور پہاڑ سب برابر ہو کر ایک سطح مستوی بن جائے گی اور اس وقت تمام اولاد آدم اس زمین پر جمع ہوگی اس ہجوم کی وجہ سے ایک انسان کے حصہ میں صرف اتنی ہی زمین ہوگی جس پر وہ کھڑا ہو سکے پھر محشر میں سب سے پہلے مجھے بلایا جائے گا میں رب العزت کے سامنے سجدہ میں گر پڑوں گا پھر مجھے شفاعت کی اجازت دی جائے گی تو میں تمام مخلوق کے لئے شفاعت کروں گا کہ ان کا حساب کتاب جلد ہوجائے۔ اس آخری روایت سے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین میں تبدیلی صرف صفت کی ہوگی کہ غار اور پہاڑ اور عمارت اور درخت نہ رہیں گے مگر ذات زمین یہی باقی رہے گی اور پہلی سب روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ محشر کی زمین اس موجودہ زمین کے علاوہ کوئی اور ہوگی اور جس تبدیلی کا ذکر اس آیت میں ہے اس سے ذات کی تبدیلی مراد ہے۔ بیان القرآن میں حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہوسکتا ہے کہ پہلے نفخہ صور کے وقت اسی موجودہ زمین کی صفات تبدیل کی جائیں اور پھر حساب کتاب کے لئے ان کو کسی دوسری زمین کی طرف منتقل کیا جائے۔ تفسیر مظہری میں مسند عبدابن حمید سے حضرت عکرمہ کا ایک قول نقل کیا ہے جس سے اس کی تائید ہوتی ہے اس کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے کہ یہ زمین سمٹ جائے گی اور اس کے پہلو میں ایک دوسری زمین ہوگی جس پر لوگوں کو حساب کتاب کے لئے کھڑا کیا جائے گا۔ صحیح مسلم میں بروایت حضرت ثوبان (رض) منقول ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک یہودی عالم آیا اور یہ سوال کیا کہ جس دن یہ زمین بدلی جاوے گی تو آدمی کہاں ہوں گے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ پل صراط کے پاس ایک اندہیری میں ہوں گے۔ اس بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمین سے بذریعہ پل صراط دوسری طرف منتقل کئے جائیں گے اور ابن جریر نے اپنی تفسیر میں متعدد صحابہ وتابعین کے یہ اقوال نقل کئے ہیں کہ اس وقت موجودہ زمین اور اس کے سب دریا آگ ہوجائیں گے گویا یہ سارا علاقہ جس میں اب دنیا آباد ہے اس وقت جہنم کا علاقہ ہوجائے گا اور حقیقت حال اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے بندہ کے لئے اس کے سوا چارہ نہیں۔ زبان تازہ کردن باقرار تو۔ نینگیختن علت از کار تو آخری آیات میں اہل جہنم کا یہ حال بتلایا گیا ہے کہ مجرم لوگوں کو ایک زنجیر میں باندھ دیا جائے گا یعنی ہر جرم کے مجرم الگ الگ جمع کر کے یک جاباندھ دیئے جائیں گے اور ان کو جو لباس پہنایا جائے گا وہ قطران کا ہوگا جس کو تارکول کہا جاتا ہے اور وہ ایک آتش گیر مادہ ہے کہ آگ فورا پکڑ لیتا ہے۔ آخری آیت میں ارشاد فرمایا کہ یہ سب حوال قیامت کا بیان کرنا لوگوں کو تنبیہ کرنے کے لئے ہے تاکہ وہ اب بھی سمجھ لیں کہ قابل عبادت و اطاعت صرف ایک ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور تاکہ جن میں کچھ بھی عقل وہوش ہے وہ شرک سے باز آجائیں۔ سورة ابراہیم ختم شد :

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ 48؁ بدل الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے برز البَرَاز : الفضاء، وبَرَزَ : حصل في براز، وذلک إمّا أن يظهر بذاته نحو : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف/ 47] تنبيها أنه تبطل فيها الأبنية وسكّانها، ومنه : المبارزة للقتال، وهي الظهور من الصف، قال تعالی: لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] ، وقال عزّ وجلّ : وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة/ 250] ، وإمّا أن يظهر بفضله، وهو أن يسبق في فعل محمود، وإمّا أن ينكشف عنه ما کان مستورا منه، ومنه قوله تعالی: وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم/ 48] ، وقال تعالی: يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر/ 16] ، وقوله : عزّ وجلّ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] تنبيها أنهم يعرضون عليها، ويقال : تَبَرَّزَ فلان، كناية عن التغوّط «1» . وامرأة بَرْزَة «2» ، عفیفة، لأنّ رفعتها بالعفة، لا أنّ اللفظة اقتضت ذلك . ( ب رز ) البراز کے معنی فضا یعنی کھلی جگہ کے ہیں ۔ اور برزرن کے معنی ہیں کھلی جگہ میں چلے جانا اور برود ( ظہور ) کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) خود کسی چیز کا ظاہر ہوجانا جیسے فرمایا : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف/ 47] اور تم زمین کو صاف یہاں دیکھو گے ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ زمین پر سے عمارات اور ان کے ساکنین سب ختم ہوجائیں گے اسی سے مبارزۃ ہے جسکے معنی صفوف جنگ سے آگے نکل کر مقابلہ کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے ۔ وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة/ 250] اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے بالمقابل میں آئے ۔ ( 2) دوم بروز کے معنی فضیلت ظاہر ہونے کے ہیں جو کسی محمود کام میں سبقت لے جانے سے حاصل ہوتی ہے ۔ ( 3 ) کسی مستور چیز کا منکشف ہو کر سامنے آجانا جیسے فرمایا : وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم/ 48] اور سب لوگ خدائے یگا نہ زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے ۔ { وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا } ( سورة إِبراهيم 21) اور قیامت کے دن سب لوگ خدا کے سامنے کھڑے ہونگے ۔ يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر/ 16] جس روز وہ نکل پڑیں گے ۔ اور آیت کریمہ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے کہ انہیں دو زخ کے سامنے لایا جائیگا محاورہ ہے تبرز فلان کنایہ از قضائے حاجت اور پاکدامن عورت کو امراءۃ برزۃ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی رفعت پاک دامنی اور عفت میں مضمر ہوتی ہے نہ یہ کہ برزۃ کا لفظ اس معنی کا مقتضی ہے ۔ قهر القَهْرُ : الغلبة والتّذلیل معا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقال : وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد/ 16] ( ق ھ ر ) القھر ۔ کے معنی کسی پر غلبہ پاکر اسے ذلیل کرنے کے ہیں اور ان دنوں ( یعنی غلبہ اور تذلیل ) میں ستے ہر ایک معنی میں علیدہ علیدہ بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد/ 16] اور وہ یکتا اور زبردست ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٨) جس دن دوسری زمین بدل دی جائے گی یعنی اس موجودہ حالت کے علاوہ اس کی دوسری حالت ہوجائے گی اور اس میں کمی و زیادتی کردی جائے گی اور اس کے پہاڑوں اور گھاٹیوں کو برابر کردیا جائے گا اور آسمان اللہ تعالیٰ کے دائیں ہاتھ سے لپٹے ہوئے ہوں گے اور سب کے سب ایک اللہ کے روبرو پیش ہوں گے جو تمام مخلوق کو موت دینے میں زبردست ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ ) یہ روز محشر کے منظر کی طرف اشارہ ہے۔ اس سلسلے میں قبل ازیں بھی کئی دفعہ ذکر کیا گیا ہے کہ قرآن کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق یوں لگتا ہے جیسے محشر کا میدان اسی زمین کو بنایا جائے گا۔ اس کے لیے زمین کی شکل میں مناسب تبدیلی کی جائے گی ‘ جیسا کہ اس آیت میں فرمایا گیا ہے۔ سورة الفجر میں اس تبدیلی کی ایک صورت اس طرح بتائی گئی ہے : (اِذَا دُکَّتِ الْاَرْضُ دَکًّا دَکًّا) ” جب زمین کو کوٹ کوٹ کر ہموار کردیا جائے گا “۔ پھر سورة الانشقاق میں فرمایا گیا ہے : (وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ ) ” اور جب زمین کو کھینچا جائے گا “۔ اس طرح تمام تفصیلات کو جمع کر کے جو صورت حال ممکن ہوتی محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین کے تمام نشیب و فراز کو ختم کر کے اسے بالکل ہموار بھی کیا جائے گا اور وسیع بھی۔ اس طرح اسے ایک بہت بڑے میدان کی شکل دے دی جائے گی۔ جب زمین کو ہموار کیا جائے گا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے ‘ زمین کے پچکنے سے اس کے اندر کا سارا لاوا باہر نکل آئے گا اور سمندر بھاپ بن کر اڑ جائیں گے۔ اسی طرح نظام سماوی میں بھی ضروری ردّ وبدل کیا جائے گا ‘ جس کے بارے میں سورة القیامہ میں اس طرح بتایا گیا ہے : (وَجُمِعَ الشَمْسُ وَالْقَمَرُ ) یعنی سورج اور چاند کو یکجا کردیا جائے گا۔ واللہ اعلم ! حال ہی میں ایک صاحب نے ” The Machanics of the Doom&s Day “ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ یہ صاحب ماہر طبیعیات ہیں۔ میں نے اس کتاب کا پیش لفظ بھی لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے بہت سی ایسی باتیں لکھی ہیں جن کی طرف اس سے پہلے توجہ نہیں کی گئی۔ اس لحاظ سے ان کی یہ باتیں یقیناً قابل غور ہیں۔ انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ قیامت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس وقت پوری کائنات ختم ہوجائے گی ‘ بلکہ یہ واقعہ صرف ہمارے نظام شمسی میں رونما ہوگا۔ جس طرح اس کائنات کے اندر کسی گلی کسی یا کسی گلی کسی کے کسی حصے کی موت واقع ہوتی رہتی ہے اسی طرح ایک وقت آئے گا جب ہمارا نظام شمسی تباہ ہوجائے گا اور تباہ ہونے کے بعد کچھ اور شکل اختیار کرلے گا۔ ہماری زمین بھی چونکہ اس نظام کا حصہ ہے لہٰذا اس پر بھی ہرچیز تباہ ہوجائے گی ‘ اور یہی قیامت ہوگی۔ واللہ اعلم ! (وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ) سورۃ الفجر میں اس وقت کا منظر بایں الفاظ بیان ہوا ہے : (وَّجَآءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا وَجِایْٓءَ یَوْمَءِذٍم بِجَہَنَّمَ ) ” اور اللہ تعالیٰ اس وقت نزول فرمائے گا ‘ فرشتے بھی قطار در قطار آئیں گے اور جہنم بھی سامنے پیش کردی جائے گی “ اللہ تعالیٰ کے نزول فرمانے کی کیفیت کا ہم تصور نہیں کرسکتے۔ جس طرح ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے ‘ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ اس نزول کی کیفیت کیا ہوتی ہے ‘ اسی طرح آج ہم نہیں جان سکتے کہ روز قیامت جب اللہ تعالیٰ زمین پر نزول فرمائے گا تو اس کی کیفیت کیا ہوگی۔ ممکن ہے تب اس کی حقیقت ہم پر منکشف کردی جائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

57. It is obvious from this verse and some hints in the Quran that on the occasion of Resurrection, the Earth and the Heavens will not be totally destroyed but at the blowing of the First Trumpet, the existing physical system shall be disarranged. After this, between the blowing of the First and the Last Trumpet (Allah alone knows how long this interval will last), the present form and aspect of the earth and the heavens shall be transformed and a new physical system with new physical laws will come into existence. That will be the world of the Hereafter. When the Last Trumpet will be blown, all human beings from Adam to those born before the First Trumpet, shall be brought to life and appear before Allah. The Quran calls this Hashr which literally means “to muster and gather together”. It appears from the wording of the Quran and some clear statements in the traditions that this will take place on this Earth. The Seat of Judgment and the Scales will be established on the Earth and the decisions will be passed here. This is also clear from the Quran and the traditions that the life in the Hereafter will not merely be a spiritual life but the very physical and spiritual life which we are living now on this earth; and every individual shall receive his reward or punishment exactly in that personality in which he or she is living in the life of this world.

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :57 اس آیت سے اور قرآن کے دوسرے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت میں زمین و آسمان بالکل نیست و نابود نہیں ہو جائیں گے بلکہ صرف موجودہ نظام طبیعی کو درہم برہم کر ڈالا جائے گا ۔ اس کے بعد نفخ صور اول اور نفخ صور آخر کے درمیان ایک خاص مدت میں ، جسے اللہ تعالی ہی جانتا ہے ، زمین اور آسمانوں کی موجودہ ہیئت بدل دی جائے گی اور ایک دوسرا نظام طبیعت ، دوسرے قوانین فطرت کے ساتھ بنا دیا جائے گا ۔ وہی عالم آخرت ہوگا ۔ پھر نفخ صور آخر کے ساتھ ہی تمام وہ انسان جو تخلیق آدم سے لے کر قیامت تک پیدا ہوئے تھے ، از سر نو زندہ کیے جائیں گے اور اللہ تعالی کے حضور پیش ہوں گے ۔ اسی کا نام قرآن کی زبان میں حشر ہے جس کے لغوی معنی سمیٹنے اور اکٹھا کرنے کے ہیں ۔ قرآن کے اشارات اور حدیث کی تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ حشر اسی زمین پر برپا ہوگا ، یہیں عدالت قائم ہوگی ، یہیں میزان لگائی جائے گی اور قضیہ زمین برسر زمین ہی چکایا جائے گا ۔ نیز یہ بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ ہماری وہ دوسری زندگی جس میں یہ معاملات پیش آئیں گے محض روحانی نہیں ہوگی بلکہ ٹھیک اسی طرح جسم و روح کے ساتھ ہم زندہ کیے جائیں گے جس طرح آج زندہ ہیں ، اور ہر شخص ٹھیک اسی شخصیت کے ساتھ وہاں موجود ہوگا جسے لیے ہو ئے وہ دنیا سے رخصت ہوا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٨۔ بعضے مفسروں نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ قیامت کے دن زمین و آسمان کی کچھ حالت بدل جاوے گی مثلاً زمین کے پہاڑ ٹیلے سب برابر کئے جا کر ایک چورس میدان کردیا جاوے گا اور آسمان کے چاند سورج تارے نکال دئیے جاویں گے یا اصل میں زمین و آسمان بدل جاویں گے۔ رفع اس اختلاف کا یہ ہے کہ خود صاحب وحی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس اختلاف کو رفع فرمایا ہے۔ چناچہ مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، مسند امام احمد بن حنبل وغیرہ میں حضرت عائشہ (رض) کی جو حدیث ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کو پڑھ کر پوچھا کہ جب زمین بدل جاوے گی تو اس وقت سب آدمی کہاں ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کو پڑھ کر پوچھا کہ جب زمین بدل جاوے گی تو اس وقت سب آدمی کہاں جاویں گے آپ نے فرمایا سب آدمی اس وقت پل صراط پر ہوں ١ ؎ گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت کا یہی مطلب قرار دیا ہے کہ اصل زمین بدل جاوے گی ورنہ اب حضرت عائشہ (رض) کو یہ جواب دیتے کہ زمین کے پہاڑ ٹیلے بدل جاویں گے اور آدمی جس طرح دنیا کے بسنے کے زمانہ میں کے چورس ٹکڑے پر بستے رہے تھے ویسے ہی قیامت کے دن رہویں گے غرض آیت کے مطلب کو خود صاحب وحی نے حل کردیا ہے۔ جو علماء اس بات کے قائل ہیں کہ زمین کی فقط حالت بدلی جاوے گی۔ خود زمین نہیں بدلی جاوے گی وہ علماء اپنے قول کی تائید میں مستدرک حاکم کی عبد اللہ بن عمرو بن العاص اور جابر بن عبد اللہ (رض) کی وہ روایتیں پیش کرتے ہیں جن میں یہ ہے کہ قیامت کے دن زمین کے ٹیلے اور پہاڑوں کو چورس کردیا جاوے گا ٢ ؎۔ اول تو یہ روایتیں صحیح مسلم کی روایت کے رتبہ کو نہیں پہنچ سکتیں دوسری ان روایتوں کے صحابہ کے نام میں نیچے کے راویوں کا اختلاف ہے کوئی کسی صحابی کا نام لیتا ہے اور کوئی دوسرے کا (وبرزوا للہ الواحد القہار) اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آسمان و زمین بدلے جاویں گے اس دن یہ مشرک لوگ شرک کی جواب دہی کے لئے اس کے روبرو کھڑے ہوں گے جو اکیلا وحدہ لا شریک ہے اور اس جو ابدی میں جب یہ لوگ لا جواب ہوجاویں گے تو قہاری کی صفت کے موافق ان لوگوں کے حق میں وہ سزا تجویز کی جاوے گی جس کا ذکر آگے کی آیت میں ہے صحیح مسلم کے حوالے سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قہاری کی صفت کی تفصیل لوگوں کو معلوم ہوجاوے تو کسی شخص کے دل میں جنت کی خواہش باقی نہ رہے اور اگر اس کی رحمت کی تفصیل لوگوں کو معلوم ہوجاوے تو اس کی رحمت سے کوئی شخص ناامید نہ ہو۔ یہ حدیث اللہ تعالیٰ کی قہاری اور رحیمی دونوں صفتوں کی گویا تفسیر ہے۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٤٣ ج ٢۔ ٢ ؎ الترغیب ص ٢٦٠ ج ٢ باب الترغیب فی الخوف۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:48) یوم۔ یا انتقام کا ظرف زمان ہے یعنی وہ انتقام اس روز ملے گا جس روز کہ زمین بدل کر دوسری زمین کردی جائے گی۔ یا یہ اذکر (محذوف کا مفعول ہے۔ یاد کرو اس دن کو۔ تبدل ۔ مضارع مجہول واحد مؤنث غائب۔ تبدیل (تفعیل) مصدر۔ وہ بدل دی جائے گی۔ غیر الارض۔ ایک دوسری زمین کی صورت میں۔ السموت۔ ای وتبدل السموت غیر السموت اور آسمان بدل کر دوسرے آسمان کر دئیے جائیں گے۔ وبرزوا۔ وہ کھلم کھلا خدا کے سامنے پیش ہوں گے (ملاحظہ ہو 14:21) ۔ القھار۔ مبالغہ کا صیغہ ہے۔ ایسا زبردست غالب جس کے مقابلہ میں سب ذلیل ہوں۔ قھر۔ مصدر۔ جس کا معنی کسی پر غلبہ پا کر اسے ذلیل کرنے کے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز زمین و آسمان کی موجودہ شکل و صورت بدل جائے گی۔ حضرت ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ جس روز زمین کو دوسری زمین سے بدلا جائے گا انسان کہاں ہوں گے ؟ فرمایا ” تاریکی میں پل صراط سے درے ہوں گے۔ “ (مسلم) ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ قیامت کے روز زمین روٹی ہوگی جیسے جبار (اللہ تعالیٰ ) اپنے ہاتھ سے پلٹے گا۔ (بخاری مسلم) ۔ حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے “ قیامت کے کے روز لوگ چاندی کی طرف سفید صاف زمین پر جمع کئے جائیں گے۔ (بخاری مسلم) اب رہایہ سوال کہ آیا یہ تبدیل زمین و آسمان کی ذات میں ہوگی یا صرف ان کی صفات میں، دوسرا قول حضرت ابن عباس سے اور پہلا قول یعنی تبدیل ذات حضرت ابن مسعود سے منقول ہے اور آیت کے الفاظ اور روایات میں دونوں کا احتمال ہے۔ گو بعض نے تبدل صفت کو ترجیح دی ہے۔ (شوکانی۔ رازی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 48 تا 52 تبدیل بدل دے گا۔ برزوا وہ ظاہر ہئے، سامنے ہوئے۔ القھار زبردست۔ مقرنین ملا کر جکڑے ہوئے۔ الاصفاد زنجیریں۔ سرائیل کرتے۔ قطران گندھک ، سیاہ تیل۔ تغشی ڈھانپ لے گی۔ وجوہ (وجہ) چہرے۔ لیجزی تاکہ بدل دے۔ کل نفس ہر شخص، ہر جان۔ کسبت کمایا۔ سریع جلد۔ بلغ پہنچانا۔ اولوا والا۔ الالباب (لب) ، عقلیں ۔ تشریح :- آیت نمبر 48 تا 52 سورة ابراہیم کو ان آیات پر ختم کیا گیا ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی کتاب ہدایت ہے جو انسانوں کے ضمیر کو ہلاک کر رکھ دینے والی ہے۔ یہ وہ آخری پیغام الٰہی ہے جو دنیا بھر کے غافلوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے والا ہے کہ اے لوگو ! تمہارے لئے یہ آخری موقع ہے جس سے فائدہ اٹھا لو۔ اس کے ماننے میں ساری انساینت کی بھلائی اور کامیابی ہے ورنہ وہ دن زیادہ دور نہیں ہے جب موجودہ زمین کو ختم کرکے ایک نئی زمین تیار کی جائے گی جو اس زمین سے بہت مختلف ہوگی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ” محشر کی زمین (جہاں واولین و آخرین کو جمع کیا جائے گا) چاندی کی طرح سفید ہوگی۔ یہ زمین ایسی ہوگی جس پر کوئی گناہ نہیں کیا گیا ہوگا۔ جس پر کسی کا خون نہیں بہایا گیا ہوگا۔ (بیہقی ) یہ روایت تو حضرت عبداللہ ابن مسعود کی بیان کی ہوئی تھی۔ اسی طرح حضرت سہل بن سعد نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت نقل کی ہے جس میں آپ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن لوگ ایسی زمین پر اٹھائے جائیں گے جو نہایت صاف ، روشن اور میدے کی روٹی کی طرح سفید ہوگی۔ (بخاری و مسلم) یعنی جس زمین پر ساری دنیا کے انسانوں کو جمع کیا جائے گا جس کو میدان حشر کہتے ہیں وہ ایک ہموار زمین ہوگی اس میں مکان، باغ ، درخت، ٹیلہ پہاڑ وغیرہ نہیں ہوں گے۔ وہ دن مجرموں کے لئے بڑا ہیبت ناک ہوگا ۔ وہ مجرم زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔ ان کے کرتے گندھک کے اور آگ سے ان کے چہرے جھلس رہے ہوں گے۔ ہر ایک سے اس کے تمام کاموں کا حساب لیا جائے گا جیسا جس نے کیا ہوگا۔ اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ آخر میں فرمایا کہ یہ قرآن کریم ایک (آخری) پیغام الٰہی ہے جس میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اگر کسی میں ذرا بھی عقل اور فہم کا مادہ ہے تو وہ یقینا اس بات کی حقیقت تک پہنچ جائیگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اہل عقل و فکر لوگوں میں شامل فرما لے گا جو اللہ کی توحید اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے سچے دل سے قائل ہوں اور اعمال صالح کرنے والے ہوں۔ الحمد للہ اس مضمون کے ساتھ سورة ابراہیم کا ترجمہ اور تشریح تکمیل تک پہنچی۔ واخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی آسمان بھی دوسرے بدل دیے جائیں گے ان آسمانوں کے علاوہ کیونکہ پہلی مرتبہ نفخ صور سے سب زمین و آسمان ٹوٹ پھوٹ جائیں گے پھر دوسری مرتبہ ازسرنو زمین و آسمان بنیں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے منکرین حق کو دنیا میں تباہ و برباد کیا اور آخرت میں بھی انہیں شدید ترین عذاب دے گا۔ جب قیامت برپا ہوگی تو ایک دفعہ ہر چیز کو نیست ونابود کردیا جائے گا، پھر محشر کا میدان لگے گا اور اللہ تعالیٰ ساری مخلوق کو دوبارہ زندہ فرمائے گا۔ لیکن مخلوق کو زندہ کرنے سے پہلے زمین و آسمان بدل دیے جائیں گے اس کے بعد لوگوں کو صرف رب ذوالجلال کے سامنے پیش ہونا ہوگا۔ آج دنیا میں حق کے منکر، فاسق اور ظالم لوگ اپنے اثرورسوخ کی وجہ سے دندناتے پھرتے ہیں۔ مگر قیامت کے دن انہیں بھاری زنجیروں میں جکڑ کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ پھر انہیں جہنم میں دھکیلتے ہوئے تار کول کے کپڑے پہنا کر آگ میں جھونکاجائے گا۔ وہ آگ ان کے چہروں تک پہنچ جائے گی۔ یہ اس لیے ہوگا تاکہ مجرموں کو ان کے جرائم کی پوری طرح سزادی جائے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔ دین کے بنیادی عقائد میں تیسرا عقیدہ فکرآخرت ہے۔ جسے قرآن مجید پوری شرح وبسط کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہاں ہم قیامت کے مختلف مراحل کے بارے میں قرآن مجید کی چند آیات اور احادیث کی چند مستند روایات کا حوالہ دیں گے تاکہ موقع کی مناسبت سے قیامت کے منظر کی ایک جھلک ہمارے سامنے آجائے اور ہم رب ذوالجلال کی بارگاہ میں پیشی کی تیاری کرلیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیں۔ (عن أَنَس بن مالِکٍ أَنَّ رَجُلاً قَالَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ یُحْشَرُ الْکَافِرُ عَلٰی وَجْہِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ أَلَیْسَ الَّذِیْ أَمْشَاہُ عَلَی الرِّجْلَیْنِ فِی الدُّنْیَا قَادِرًا عَلَی أَنْ یُّمْشِیَہٗ عَلٰی وَجْہِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ قَتَادَۃُ بَلٰی وَعِزَّۃِ رَبِّنَا)[ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قَوْلِہِ (الَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰی وُجُوہِہِمْ إِلٰی جَہَنَّمَ أُولٰٓءِکَ شَرٌّ مَّکَانًا وَّأَضَلُّ سَبِیْلاً ] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے نبی ! کافروں کو چہروں کے بل قیامت کے دن کیسے جمع کیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا کیا وہ ذات جو دنیا میں ان کو قدموں پر چلانے پر قادر ہے کیا وہ ذات چہرے کے بل نہیں چلا سکتی ؟ قتادہ نے کہا کیوں نہیں ! “ (عَنْ سَھْلِ ابْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُحْشَرُالنَّاسُ یَوْ مَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی اَرْضٍ بَیْضَآءَ عَفْرَآءَ کَقُرْصَۃِ النَقِیِّ لَیْسَ فِیْھَا عَلََمٌ لِاَحَدٍ ) [ متفق علیہ ] ” حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے روز لوگوں کو سرخی مائل سفید زمین پر جمع کیا جائے گا زمین میدے کی روٹی کی مانند ہوگی زمین پر کسی قسم کا ٹیلہ نہیں ہوگا۔ “ (عَنِ الْمِقْدَادِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ تُدْ نَیْ الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مِنَ الْخَلْقِ حَتّٰی تَکُوْنَ مِنْھُمْ کَمِقْدَارِ مِیْلٍ فَیَکُوْنُ النَّا سُ عَلٰی قَدْرِ اَعْمَالِھِمْ فِیْ الْعََرَ قِ فَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی حَقْوَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یُّلْجِمُھُمُ الْعَرَقُ اِلْجَامًا وَاَشَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِیَدِہٖ اِلٰی فِیْہِ )[ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا وأہلہا، باب فِی صِفَۃِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ أَعَانَنَا اللَّہُ عَلَی أَہْوَالِہَا ] ” حضرت مقداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے سروردو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے قیامت کے دن سورج لوگوں سے ایک میل کی مسافت پر ہوگا لوگوں کا پسینہ ان کے اعمال کے مطابق ہوگا بعض لوگوں کے ٹخنوں تک ‘ بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک اور بعض کے منہ تک پسینہ ہوگا یہ بیان کرتے ہوئے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منہ کی طرف اشارہ کیا۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن زمین و آسمان بدل دیے جائیں گے۔ ٢۔ تمام لوگ اللہ تعالیٰ واحد وقہار کے روبرو پیش ہوں گے۔ ٣۔ قیامت کے دن مجرموں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جائے گا۔ ٤۔ قیامت کے دن مجرموں کو گندھک کے کپڑے پہنائے جائیں گے۔ ٥۔ مجرموں کے چہروں کو آگ ڈھانپ رہی ہوگی۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرموں کا براحال ہوگا : ١۔ قیامت کے دن مجرموں کو با ہم زنجیروں میں جکڑدیا جائے گا۔ (ابراہیم : ٤٩) ٢۔ قیامت کے دن کفار کو طوق پہنا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (الحاقۃ : ٣٠۔ ٣١) ٣۔ قیامت کے دن مجرموں کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی۔ (المعارج : ٤٤) ٤۔ قیامت کے دن مجرموں کے ابرو پاؤں کے انگوٹھے کے بال سے باندھ دیے جائیں گے۔ (الرحمن : ٤١) ٥۔ اس دن آپ دیکھیں گے کہ مجرم اپنے سروں کو جھکائے پروردگار کے سامنے پیش ہوں گے۔ (السجدۃ : ١٢) ٦۔ بیشک مجرم ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الزخرف : ٧٤) ٧۔ قیامت کے دن مجرم گرم ہوا اور کھولتے ہوئے پانی اور سیاہ دھویں میں ہوں گے۔ (الواقعۃ : ٤١۔ ٤٣) ٨۔ قیامت کے دن مجرموں کو دھکتی ہوئی آگ میں داخل کیا جائے گا۔ (الغاشیۃ : ٤) ٩۔ مجرموں کا کھانا تھور کا درخت ہوگا۔ (الدخان : ٤٣۔ ٤٤) ١٠۔ مجرم تھور کے درخت سے اپنے پیٹ بھریں گے اور کھولتا ہوا پانی پئیں گے۔ (الصٰفٰت : ٦٦۔ ٦٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ کیونکر ہوگا ، اس کی تفصیلات کا ہمیں علم نہیں ہے ، نہ ہمیں معلوم ہے کہ اس دوسری زمین کی طبیعات کیسی ہوں گی اور یہ ہوگی کہاں ، البتہ قرآن کی یہ آیات ہمارے شعور کے اندر یہ تاثر بٹھاتی ہے کہ یہ لوگ کیا ہیں اور ان کی مکاریاں کیا ہیں ، اللہ کی قدرت کا تو یہ عالم ہے کہ وہ زمین و آسمان کو بدل کر رکھ دے گا۔ ان کی کامیابیاں اللہ کے مقابلے میں حقیر اور معمولی ہیں۔ وہ دیکھو دوسرے منظر میں یہ زمین و آسمان تو قدرت نے بدل کر رکھ دئیے ! ! آیت نمبر ٤٨ ترجمہ : ان کو یہ احساس ہوجائے گا کہ وہ تو اللہ کے سامنے کھلے اور ننگے کھڑے ہیں۔ کوئی انہیں بچانے والا نہیں ہے وہ اپنے گھروں میں نہیں ہیں ! وہ تو قبروں میں بھی نہیں ! وہ تو ایک کھلے میدان میں اللہ واحد وقہار کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہاں “ قہار ” کا لفظ عمداً استعمال ہوا تا کہ سرکشوں اور ڈکٹیٹروں کو ذرا متنبہ کردیا جائے کہ ان کی سرکشی اللہ کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے۔ اگرچہ یہ سرکشی اور مکاری اس قدر سخت ہو کہ اس سے پہاڑوں کو بنایا جاسکتا ہو۔ اب ہمارے سامنے مناظر عذاب قیامت میں سے ایک شدید اور سخت منظر پیش کیا جاتا ہے جو نہایت ذلیل کرنے والا ہے اور سرکشوں اور جابر مکاروں کے لئے موزوں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن زمین اور آسمان میں تغیر اور تبدل، سب لوگوں کی حاضری، مجرمین کی بدحالی، حساب کتاب اور جزا سزا ان آیات میں اول تو یہ فرمایا کہ قیامت کے دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل جائے گی اور آسمان بھی بدل جائیں گے، بدلنے کا کیا مطلب ہے ان کی ذات بدل دی جائے گی یا صفات بدل دی جائیں گی اس کے بارے میں صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ تبدیلی کی دونوں صورتیں ہوسکتی ہے اور آیت کریمہ کسی ایک معنی کے لیے نص صریح نہیں ہے پھر حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ زمین اس طرح بدل دی جائے گی کہ کچھ بڑھا دی جائے گی کچھ کمی کردی جائے گی اس کے ٹیلے اور پہاڑ اور نشیب اور درخت اور اس میں جو بھی کچھ ہے سب ختم ہوجائے گا اور زمین کو چمڑے کی طرح پھیلا دیا جائے گا جو بالکل برابر ہوجائے گی اور اس میں کوئی کجی اور اٹھی ہوئی جگہ نظر نہ آئے گی اور آسمانوں کو اس طرح بدل دیا جائے گا کہ چاند سورج ستارے سب ختم ہوجائیں گے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے جو فرمایا ہے یہ قرآن مجید کی آیات اور بعض احادیث صحیحہ مرفوعہ کے موافق ہے۔ سورة طٰہٰ میں فرمایا (وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُھَا رَبِّیْ نَسْفًا فَیَذَرُھَا قَاعًا صَفْصَفًا لَّا تَرٰی فِیْھَاعِوَجًا وَّ لَآ اَمْتًا) (اور لوگ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں سو آپ فرما دیجیے کہ میرا رب ان کو بالکل اڑا دے گا پھر زمین کو ایک ہموار میدان کردے گا کہ جس میں تو نہ نا ہمواری دیکھے گا نہ کوئی بلندی دیکھے گا) اور سورة زمر میں فرمایا (وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ) (اور ان لوگوں نے اللہ کی عظمت نہ کی جیسی عظمت کرنی چاہیے تھی حالانکہ ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور تمام آسمان لپیٹے ہونگے اس کے داہنے ہاتھ میں، وہ پاک ہے اور برتر ہے ان کے شرک سے) اور سورة انبیاء میں فرمایا (یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ ) وہ دن یاد کرنے کے قابل ہے جس روز ہم آسمانوں کو اس طرح لپیٹ دیں گے جس طرح لکھے ہوئے مضمونوں کا کاغذ لپیٹ لیا جاتا ہے ہم نے جس طرح شروع میں پیدا کیا اسی طرح لوٹا دیں گے۔ اور سورة حاقہ میں فرمایا (فَاِِذَا نُفِخَ فِی الصُّورِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ وَحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَۃً فَیَوْمَءِذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ وَانشَقَّتِ السَّمَآءُ فَہِیَ یَوْمَءِذٍ وَّاھِیَۃٌ) پھر جب صور میں یکبارگی پھونک ماری جائے گی اور زمین اور پہاڑ اٹھا لیے جاویں گے پھر دنوں ایک دفعہ میں ریزہ ریزہ کردئیے جائیں گے تو اس روز وہ ہونے والی چیز ہو پڑے گی اور آسمان پھٹ جاوے گا اور وہ اس روز بالکل بودا ہوگا۔ اور سورة معارج میں فرمایا (یَوْمَ تَکُوْنُ السَّمَآءُ کَالْمُہْلِ وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ ) (جس دن آسمان تیل کی تلچھٹ کی طرح ہوجاوے گا اور پہاڑ رنگین اون کی طرح ہوجاویں گے۔ ) اور سورة التکویر میں فرمایا (وَاِِذَا السَّمَآءُ کُشِطَتْ ) اور جب آسمان کھل جاوے گا اور سورة الانشقاق میں فرمایا (اِِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ وَاِِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ وَاَلْقَتْ مَا فِیْہَا وَتَخَلَّتْ وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ ) (جب آسمان پھٹ جائے گا اور اپنے رب کا حکم سن لے گا اور وہ اسی لائق ہے، اور زمین کھینچ کر بڑھا دی جائے گی اور اپنے اندر کی چیزوں کو باہر ڈال دے گی اور خالی ہوجائے گی اور اپنے رب کا حکم سن لے گی اور وہ اسی لائق ہے۔ ) سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن لوگ سفید زمین پر جمع کیے جائیں گے اس کے سفید رنگ میں کچھ مٹیالے رنگ کی ملاوٹ ہوگی (اور) وہ میدے کی روٹی کی طرح ہوگی اس میں کسی قسم کی کوئی نشانی نہ ہوگی (رواہ البخاری) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن زمین ایک روٹی بنی ہوئی ہوگی جبار جل مجدہ اسے اپنے دست قدرت سے اس طرح الٹ پلٹ فرمائے گا جس طرح تم اپنی روٹی کو سفر میں الٹ پلٹ کرتے ہو یہ زمین اہل جنت کو کھانے کے لیے ابتدائی مہمانی کے طور پر پیش کی جائے گی (رواہ البخاری) تاکہ وہ زمین کے سارے مزے مجموعی طور پر چکھ لیں اور اس کے بعد جنت کے مزے چکھیں تو لطف دوبالا ہو۔ حضرت عائشہ (رض) نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ یہ جو اللہ تعالیٰ نے (یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ ) فرمایا ہے (جس سے آسمان اور زمین کا بدل جانا معلوم ہو رہا ہے) اس کے بارے میں ارشاد فرمائیے کہ اس روز لوگ کہاں ہونگے آپ نے فرمایا کہ اس روز پل صراط پر ہونگے۔ یہ متعدد آیات کریمہ اور احادیث شریف ہیں ان میں تبدیل صفت کا ذکر ہے البتہ حضرت عائشہ (رض) کی حدیث سے (جو سب سے آخر میں نقل کی گئی ہے) زمین کی ذات تبدیل ہونے کی طرف اشارہ مل رہا ہے، مرقاہ شرح مشکوٰۃ میں اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے والظاھر من التبدیل تغییر الذات کما یدل علیہ السؤال والجواب حیث قالت فاین یکون الناس یومئذ قال علی الصراط۔ صاحب روح المعانی نے ابن الانباری کا قول نقل فرمایا ہے کہ آسمان کی تبدیلی بار بار ہوگی کبھی اس کو لپیٹا جائے گا اور کبھی تلچھٹ کی طرح اور کبھی (وردۃ کالدھان) ہوجائے گا۔ اور حضرت ابن مسعود (رض) سے نقل کیا ہے کہ زمین کی تبدیلی اس طرح ہوگی کہ وہ سفید زمین ہوگی گویا کہ چاندی سے ڈھالی گئی ہے اس میں کسی کا خون نہ بہایا گیا ہوگا اور اس پر کوئی گناہ نہ کیا گیا ہوگا، پھر بعض حضرات سے یوں نقل کیا گیا ہے کہ اولاً زمین کی صفت بدل دی جائے گی جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا پھر اس کی ذات بدل دی جائے گی اور یہ ذات کا بدلنا اس کے بعد ہوگا جب وہ اپنی خبریں بتا چکی ہوگی (جس کا ذکر سورة الزلزال میں ہے) اس کے بعد صاحب روح المعانی لکھتے ہیں ولا مانع من ان یکون ھنا تبدیلات علی انحاء شتی اس کے بعد فرمایا (وَ بَرَزُوْا لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ ) (کہ لوگ اللہ واحد قہار کے لیے ظاہر ہوجائیں گے) یعنی قبروں سے نکل کر محشور اور مجتمع ہونگے، تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فیصلے فرمائے، اللہ واحد یعنی تنہا ہے وحدہ لا شریک لہ ہے اور قہار بھی ہے جو ہر چیز پر غالب ہے، جو کچھ چاہے کرسکتا ہے کوئی اس کے فیصلے کو ٹال نہیں سکتا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

45:۔ ظرف مُخْلِفَ کے متعلق ہے (روح) یعنی جس دن زمین و آسمان بدل جائیں گے اور ساری مخلوق ایک صاف میدان میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ہوگی۔ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا۔ زمین و آسمان کے بدل جانے سے مراد یہ ہے کہ سمندر خشک ہوجائیں گے، پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر کے زمین کو ہموار کردیا جائے گا اور آسمان کے تمام ستارے غائب ہوجائیں گے۔ ” عن ابن عباس (رض) تذھب اٰکامھا و جبالھا و اودی تھا و شجرھا و ما فیھا و تمد مد الادیم العکاظ و تصیر مستویۃ لا تری فیھا عوجا ولا امتا و تبدل السموات بذھاب شمسھا و قمرھا و نحوھا “ (روح ج 13 ص 254) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

48 ۔ جس دن اس زمین کے علاوہ دوسری زمین بدل دی جائے گی اور آسمان بھی بدل دیا جائیگا اور سب لوگ اللہ تعالیٰ اکیلے زبردست کے روبرو نکل کھڑے ہوں گے۔ یعنی پہلے نفحہ صور میں سب زمین و آسمان ٹوٹ پھوٹ جائیں گے اور پھر دوبارہ بنیں گے اور سب لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں سے اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہوں گے وہی دن انتقام کا ہوگا ۔