Surat ul Hijir

The Rock

Surah: 15

Verses: 99

Ruku: 6

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر نام : آیت ۸۰ کے فقرے کَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَ سے ماخوذ ہے ۔ زمانہ نزول : “مضامین اور انداز بیان سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ اس سورہ کا زمانہ نزول سورہ ابراہیم سے متصل ہے ۔ اس کے پس منظر میں دو چیزیں بالکل نمایاں نظر آتی ہیں ۔ ایک یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت ... دیتے ایک مُدّت گزر چکی ہے اور مخاطب قوم کی مسلسل ہٹ دھرمی ، استہزا ، مزاحمت اور ظلم و ستم کی حد ہوگئی ہے ، جس کے بعد اب تفہیم کا موقع کم اور تنبیہ کا موقع زیادہ ہے ۔ دوسرے یہ کہ اپنی قوم کے کفر و جحود اور مزاحمت کے پہاڑ توڑتے توڑتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھکے جا رہے ہیں اور دل شکستگی کی کیفیت بار بار آپ پر طاری ہو رہی ہے ، جسے دیکھ کر اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دے رہا ہے اور آپ کی ہمت بندھا رہا ہے ۔ موضوع اور مرکزی مضمون : یہی دو مضمون اس سورہ میں بیان ہو ئے ہیں ۔ یعنی تنبیہ ان لوگوں کو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا انکار کر رہے تھے اور آپ کا مذاق اڑاتے اور آپ کے کام میں طرح طرح کی مزاحمتیں کرتے تھے ۔ اور تسلی وہمت افزائی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سورہ تفہیم اور نصیحت سے خالی ہے ۔ قرآن میں کہیں بھی اللہ تعالی نے مجرد تنبیہ ، یا خالص زجر و توبیخ سے کام نہیں لیا ہے ۔ سخت سے سخت دھمکیوں اور ملامتوں کے درمیان بھی وہ سمجھانے اور نصیحت کرنے میں کمی نہیں کرتا ۔ چنانچہ اس سورہ میں بھی ایک طرف توحید کے دلائل کی طرف مختصر اشارے کیے گئے ہیں ، اور دوسری طرف قصہ آدم و ابلیس سنا کر نصیحت فرمائی گئی ہے ۔  Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

سورۃ الحجر تعارف اس سورت کی آیت نمبر ٩٤ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکہ مکرمہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھی، کیونکہ اس آیت میں پہلی بار آپ کو کھل کر اسلام کی عام تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔ سورت کے شروع میں یہ حقیقت بیان فرمائی گئی ہے کہ قرآن کریم اللہ تعا... لیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے، اور جو لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں، ایک وقت آئے گا جب وہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ اسلام لے آتے۔ یہ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی ( معاذ اللہ) مجنون کہتے، اور کبھی کاہن قرار دیتے تھے۔ ان باتوں کی تردید کرتے ہوئے کہانت کی حقیقت آیت نمبر ١٧ اور ١٨ میں بیان فرمائی گئی ہے۔ ان لوگوں کے کفر کی اصل وجہ ان کا تکبر تھا، اس لیے ابلیس کا واقعہ آیات نمبر ٢٦ تا ٤٤ میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے تکبر نے کس طرح اس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کیا۔ کفار کی عبرت کے لیے حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت شعیب اور حضرت صالح علیہم السلام کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کافروں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی محنت بیکار جارہی ہے۔ ان کا فریضہ اتنا ہے کہ وہ موثر انداز میں تبلیغ کریں، جو وہ بہترین طریقے پر انجام دے رہے ہیں۔ نتائج کی ذمہ داری ان پر نہیں ہے۔ سورت کا نام قوم ثمود کی بستیوں کے نام پر رکھا گیا ہے جو حجر کہلاتی تھیں، اور ان کا ذکر اس سورت کی آیت نمبر ٨٠ میں آیا ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورۃ الحجر سورة نمبر 15 رکوع 6 آیات 99 الفاظ و کلمات 663 حروف 2907 مقام نزول مکہ مکرمہ الحجر قوم ثمود کا مرکزی شہر تھا جو وادی القریٰ میں مدینہ منورہ سے ملک شام جاتے ہوئے لب سڑک پڑتا ہے ٩ ھ غزوہ تبوک میں کے موقع پر جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام اس ... مقام سے گذرے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ اس جگہ ٹھہرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیزی سے آگے بڑھ جاؤ کیونکہ یہاں قوم ثمود پر عذاب نازل ہوا تھا۔ قوم عاد کی طرح قوم ثمود بھی عرب کی قدیم اور عظیم قوموں میں سے ایک قوم تھی جن کی تعمیرات کے فن کا یہ حال تھا کہ انہوں نے پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر بیس بیس منزلہ عمارتیں بنا رکھی تھیں۔ مال و دولت کی کثرت ، خوش حالی اور بت پرستی نے اس قوم کو اتنا کھوکھلا کردیا تھا کہ جب حضرت صالح نے اس قوم کو ایمان اور عمل صالح کی طرف دعوت دی اور بتایا کہ جن بتوں کو تم پوجتے ہو ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ تمہارے کسی کام نہ آسکیں گے۔ اس قوم نے غرور اور تکبر سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ اللہ کے حکم کے باوجود انہوں نے اس اونٹنی کو بھی ذبح کردیا جو معجزہ کے طور پر ان کو ید گئی تھی۔ جب نافرمانیوں کی انتہا ہوگئی تب اللہ نے اس قوم پر عذاب نازل کیا اور ان کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ ان کی تہذیب و تمدن، تعمیر و ترقی، مال و دولت ان کے کسی کام نہ آسکے۔ ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ جن کے شہروں کے کھنڈرات آج بھی نشان عبرت بنے ہوئے ہیں۔ فرمایا گیا کہ ہر قوم کو ایک موقع پر مہلت دی جاتی ہے اگر وہ اس سے فائدہ اٹھاتی ہے تو اس کی نجات کا سامان ہوجاتا ہے ورنہ قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور دوسری ظالم قوموں کے ساتھ ان کو ان کے انجام سے دوچار کردیا جاتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ نے قرآن کریم کی شکل میں ایک ایسی کتاب زندگی عطا فرمئای ہے جس کے اصول نہایت صاف ستھرے اور واضح ہیں۔ انداز بیان شگفتہ اور فیصلہ کن ہے اس کا کوئی انداز ایسا نہیں ہے جس کے سمجھنے میں کسی کو بھی کوئی دشواری یا الجھن ہو سکتی ہو۔ وہی ایک سچائی کی روشنی ہے جس سے دلوں کو منور روشن کیا جاسکتا ہے لیکن ایسے بد نصیب لوگ بھی ہیں جو اس سچائی کو ماننے کے بجائے اس کے متعلق کہتے ہیں کہ شاید ہماری آنکھوں پر جادو کردیا گیا ہے اس کے برخلاف وہ خوش نصیب بھی ہیں جو اس حقیقت کو مان کر خود راہ زندگی کے روشن ساترے بن چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو شیطانی وسوسوں سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ شیطان نے ابتدائے کائنات کے وقت ہی یہ کہہ دیا تھا کہ اے اللہ مجھے اتنی مہلت دیجیے کہ میں ثابت کرسکوں کہ انسان بالکل بےحقیقت چیز ہے۔ فرمایا کہ شیطان اپنے جال بچھا کر اس میں اللہ کے بندوں کا شکار کرتا ہے اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ جو لوگ شیطان کے چکر میں آجائیں گے ان سے میں جہنم کو بھر دوں گا اور جو نیک اور پرہیز گار ہوں گے وہ جنت کی ابدی راحتوں کے مستحق ہوں گے۔ آخر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کفار و مشرکین کی پرواہ نہ کیجیے کھلم کھلا اللہ کے دین کی دعوت دیجیے یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ جو لوگ آج اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑا رہے ہیں اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو خود ان کی زندگیاں مذاق بن کر رہ جائیں گی۔ * یہ سورت بھی مکی دور کے آخری زمانہ کی سورتوں میں سے ایک سورت ہے جس میں مکہ و مدینہ میں آباد کفار و مشرکین کو قوم عاد اور قوم ثمود کے واقعات سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ تم ان کھنڈرات سے گذرتے ہو جو کبھی خوب آباد تھے مگر نافرمانیوں کی وجہ سے آج وہ نشان عبرت بن چکے ہیں۔ * اس سورت میں ایک ہی وقت میں حضرت ابراہیم کو بیٹے کی خوش خبری دی گئی ہے اور ان ہی فرشتوں نے اللہ کے حکم سے قوم لوط کی تباہی کی اطلاع دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خوشی اور غم سب اللہ کی طرف سے ہیں۔   Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

بسم اللہ الرحمن الرحیم تعارف سورة الحجر حجاز سے ملک شام کی طرف جانے والے راستہ پر حجر کا علاقہ پایا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورت کا نام الحجر رکھا گیا ہے۔ جس کا ذکر اس سورت کی آیت ٨٠ میں موجود ہے۔ یہ سورت چھ رکوع اور ننانوے آیات پر مشتمل ہے۔ سورة الحجر مکہ معظمہ اور اس کے گرد نواح میں نازل ہوئ... ی۔ سورت کی ابتدا میں قرآن مجید کو روشن کتاب قرار دینے کے بعد کفار کو اس بات کا انتباہ کیا گیا ہے۔ کھاؤ، پیو اور عیش کرو۔ مگر عنقریب تمہیں اس بات کا پچھتاوا ہوگا کہ کاش ! ہم مسلمان ہوتے یعنی اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان بنتے۔ انہیں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ قرآن مجید کی تکذیب کرنے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون قرار دینے کے باوجود تم پر اللہ تعالیٰ کی گرفت نازل نہیں ہوئی۔ تو یہ مہلت اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر فرد اور قوم کی اجل کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جو کسی کی نیکی یا نافرمانی کی وجہ سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک قرآن مجید کا منجانب اللہ ہونا اور اس کی سچائی کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ ہی نے اسے نازل فرمایا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرے گا۔ درحقیقت تم لوگ جس قسم کی الزام تراشی اور مطالبے کرتے ہو اسی طرح کے الزمات اور مطالبے تم سے پہلے مجرم کرچکے ہیں۔ اس کے بعد آسمان کا ذکر ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے برج بنائے اور ستاروں کے ذریعے اسے خوبصورت بنایا ہے۔ ستارے ایک طرف آسمان کی خوبصورتی کا سبب ہیں اور دوسری طرف شیاطین کے لیے بھڑکتے ہوئے شعلوں کا کام دیتے ہیں۔ تیسرے رکوع میں یہ بیان کیا ہے کہ انسان کو کھڑکھڑانے والی اور بدبودار مٹی سے اور جنات کو آگ کی لپیٹ سے پیدا کیا گیا ہے، پھر موقع کی مناسبت سے آدم (علیہ السلام) کے سامنے ملائکہ کا سجدہ کرنا اور شیطان کا سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے لعین قرار پانا اور شیطان کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے قیامت تک اسے مہلت دینے کا تذکرہ ہوا ہے۔ اس بیان کے بعد قوم لوط کی تباہی کے لیے بھیجے جانے والے ملائکہ کے سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے ان کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جانا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ان کی مہمان نوازی کا اہتمام کرنا۔ ملائکہ کا کھانے سے انکار اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی خوشخبری دینے کا ذکر ہے۔ بعد ازاں ملائکہ کا حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچنا۔ ملائکہ کی آمد سے حضرت لوط (علیہ السلام) کا پریشان ہونا۔ ملائکہ کا حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دیتے ہوئے یہ اعلان کرنا کہ صبح کے وقت آپ کی قوم کے مجرموں کو نیست و نابود کردیا جائے گا۔ سورة الحجر کے آخر میں قوم حجر کی ترقی اور تباہی کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ آپ کو دنیا کی عیش و عشرت کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنے ساتھیوں کی طرف توجہ مبذول رکھنی چاہیے۔ جہاں تک آپ کے مخالفوں کا تعلق ہے ان سے اعراض فرمائیں۔ کیونکہ مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں آپ کا رب آپ کے لیے کافی ہے۔ آپ کا رب جانتا ہے کہ ان کے الزامات اور استہزا کی وجہ سے آپ کا دل غمگین ہوتا ہے۔ آپ کو نصیحت کی جاتی ہے کہ آپ اپنے مخالفوں کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنے رب کی عبادت میں مصروف ہوجایا کریں۔ یہ کام آپ نے اپنی موت تک کرتے رہنا ہے۔   Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

١ ۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔ ١٢٨ درس نمبر ١١٦ ایک نظر میں اس سورة کا موضوع یہ ہے کہ کافروں اور جھٹلانے والوں کو اس خوفناک انجام سے خبردار کردیا جائے جس کی طرف وہ غفلت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس موضوع کو سمجھانے کے لئے مختلف انداز میں بار بار کوشش کی گئی ہے اور اس کے لئے ، بات کو ہیر پھیر کر مختلف اسا لیب میں ... اور مختلف موضوعات کی صورت میں لایا گیا ہے لیکن مقصد ایک ہی ہے کہ لوگوں کو انجام بد سے ڈرایا جائے۔ قصص ، کائناتی مشاہد ، قیامت کے مناظر اور ان کے درمیان تبصرے اور ہدایات سب کے سب ایک ہی ہدف پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ سورة رعد کی فضا اور مضامین و موضوعات اگر سورة انعام کی یاد دلاتے ہیں تو اس سورة یعنی سورة حجر کے مضامین اور گفتگو کا ماحول سورة اعراف کے مماثل ہے۔ سورة اعراف کا آغاز ڈراوے سے تھا ، اس میں بھی بات خوفناک انداز میں آگے بڑھی ہے۔ انداز کلام ڈراوے ہی کا ہے اگرچہ جا بجا دونوں سورتوں میں ذوق اور چاشنی مختلف بھی ہے۔ سورة اعراف کے آغاز میں نہایت صراحت کے ساتھ ڈراوا تھا۔ کتب انزل ۔۔۔۔۔۔ للمومنین (٧ : ٢) ” یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ، پس اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو ، اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے ڈراؤ، اور ایمان لانے والے لوگوں کو یاد دہانی کراؤ “ اس سورة کی چوتھی آیت یہ تھی۔ وکم من قریۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔ قائلون (١٤ : ٤) ” کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا۔ ان پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت ٹوٹ پڑا ، یا دن دہاڑے ایسے وقت آیا جبکہ وہ آرام کر رہے تھے “۔ اس کے بعد آدم و ابلیس کے بعد اس دنیا کے خاتمہ کا بیان آتا ہے اور سب لوگ اپنے رب کے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں اور ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ڈرانے والے کی دعوت کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کائنات کے بعض مناظر لائے جاتے ہیں۔ زمین و آسمان ، رات اور دن ، سورج اور چاند ، ستارے اور سیارے فضاؤں میں مسخر ، ہوائیں ، بارش اور پانی اور اس کے نیتجے میں روئیدگی اور پھل پھول ، پھر تاریخ کی جھلکیاں ، قصہ نوح ، ہود ، صالح ، لوط ، شعیب اور موسیٰ علیہ السلام۔ ان سب قصص کا مقصد یہ ہے کہ ڈرانے والوں کی دعوت کے انکارکا انجام کیا ہوتا ہے۔ اب ذرا سورة الحجر پر ایک نظر ڈالیں ، اس کا آغاز بھی ڈراوے سے ہوتا ہے ، یہ ڈراوا قدرے مجمل ہے۔ ربما یود ۔۔۔۔۔۔۔ مسلمین (٢) ذرھم یاکلوا ۔۔۔۔۔ یعلمون (٣) وما اھلکنا ۔۔۔۔۔ معلوم (٤) ما تسبق ۔۔۔۔۔ یستاخرون (٥) (١٥ : ٢ تا ٥) ” بعید نہیں کہ ایک وقت وہ آجائے جب وہی لوگ جنہوں نے آج انکار کردیا ہے پچھتا پچھتا کر کہیں گے کہ کاش ہم نے سر تسلیم خم کردیا ہوتا۔ چھوڑو انہیں ، کھائیں پئیں ، مزے کریں اور بھلا وے میں ڈالے رکھے ان کو جھوٹی امید۔ عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا ۔ ہم نے اس سے پہلے جس بستی کو بھی ہلاک کیا ہے اس کے لئے ایک مہلت عمل لکھی جا چکی تھی۔ کوئی قوم نہ اپنے وقت مقرر سے پہلے ہلاک ہو سکتی ہے ، نہ اس کے بعد چھوٹ سکتی ہے “۔ اس کے بعد کائنات کے بعض اہم مناظر پیش کئے جاتے ہیں ، آسمان اور اس کے اندر پائے جانے والے برج ، زمین اور اس میں پھیلے ہوئے بلند پہاڑ ، نباتا ، متنوع و موزوں ، پانی سے لدے بادل ، زمین کی سیرابی اور موت وحیات اور حشر و نشر پھر قصہ آدم و ابلیس حضرت ابراہیم ، حضرت لوط ، حضرت صالح (علیہم السلام) کے قصص اور ان کے اندر مکذبین کا انجام۔ یہ ہیں دونوں سورتوں کے مضامین۔ غرض دونوں سورتوں کا محور اور موضوع ایک ہے۔ البتہ دونوں سورتوں کی شخصیت کے الگ الگ خدو خال بھی ہیں ، اگرچہ ان کے اثرات ایک ہیں۔ قرآن کریم کا یہ مخصوص انداز ہے کہ وہ بالکل ایک جیسے مضامین کو جب دہراتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے بالکل جدا اور مستقل نظر آتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ بات اور معانی وہی ہوتے ہیں جبکہ کہیں بھی تکرار کا احساس نہیں ہوتا۔ اس سورة کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ان پانچ ٹکڑوں میں سے ہر ایک کا پھر اپنا موضوع اور دائرہ کلام ہے۔ پہلا ٹکڑا سنت الہٰیہ کے بیان کے ساتھ مخصوص ہے۔ رسالت ، اس پر ایمان اور اس کی تکذیب اس کا موضوع اساسی ہے لیکن انداز بیان ایسا ہے کہ اس کے اندر خوفناک ڈراوا پوشیدہ۔ ربما یود ۔۔۔۔۔۔۔ مسلمین (٢) ذرھم یاکلوا ۔۔۔۔۔ یعلمون (٣) (١٥ : ٢- ٣) ” بعید نہیں کہ ایک وقت وہ آجائے جب وہی لوگ جنہوں نے آج انکار کردیا ہے پچھتا پچھتا کر کہیں گے کہ کاش ہم نے سر تسلیم خم کردیا ہوتا۔ چھوڑو انہیں ، کھائیں پئیں ، مزے کریں اور بھلا وے میں ڈالے رکھے ان کو جھوٹی امید۔ عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا “۔ اس حصے کے آخر میں یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ تکذیب کرنے والے اس لیے تکذیب نہیں کرتے کہ دعوت میں کوئی کمی ہے یا دلائل موثر نہیں ہیں بلکہ یہ لوگ عناد محض کی وجہ سے تکذیب کرتے ہیں۔ ولو فتحنا ۔۔۔۔ فیہ یعرجون (١٤) لقالوا انما ۔۔۔۔۔۔ مسحورون (١٥) (١٥ : ١٤- ١٥) ” اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیتے اور وہ دن دھاڑے اس میں چڑھنے بھی لگتے تب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں کو دھوکہ ہو رہا ہے بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے “۔ غرض یہ سب لوگ ایک جیسے ہیں اور ایمان لانے والے نہیں۔ لا یومنون بہ وقد خلت سنۃ الاولین (١٥ : ١٣) ” یہ لوگ اس پر ایمان نہیں لایا کرتے۔ قدیم سے اس قماش کے لوگوں کا یہی طریقہ چلا آرہا ہے “۔ اس سورة کے دوسرے حصے میں بعض تکوینی دلائل و شواہد پیش کئے گئے ہیں۔ یہ شواہد آسمانوں سے بھی ہیں ، زمین سے بھی ہیں اور بلند فضاؤں اور خلاؤں سے بھی ہیں۔ یہ سب شواہد نہایت ہی حکیمانہ اور مدبرانہ ہیں کہ کائنات کی ساخت میں ہر چیز کی تعداد کو متعین کیا گیا ہے۔ وان من شییء ۔۔۔۔۔ بقدر معلوم (١٥ : ٢١) ” کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں ، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں “۔ ہر چیز کا مآل اور مرجع اللہ ہی ہے۔ ہاں ہر چیز کے لئے اللہ نے ایک وقت مقرر کردیا ہے۔ وانا لنحن نحی ۔۔۔۔۔۔۔ علمنا المستاخرین (٢٤) وان ربک ۔۔۔۔۔۔ حکیم علیم (٢٥) (١٥ : ٢٤- ٢٥) ” زندگی اور موت ہم دیتے ہیں اور ہم ہی سب کے وارث ہونے والے ہیں ، پہلے جو لوگ تم میں سے ہو گزرے ہیں ان کو بھی ہم نے دیکھ رکھا ہے اور بعد میں آنے والے بھی ہماری نگاہ میں ہیں۔ یقیناً تمہارا رب ان سب کو اکٹھا کرے گا ، وہ حکیم بھی ہے اور علیم بھی “۔ تیسرے حصے میں تخلیق انسانیت کی کہانی اور فلسفہ ہدایت و ضلالت بتایا گیا ہے۔ مثلاً یہ کہ ہدایت کے اسباب کیا ہیں مثلاً یہ کہ کن اسباب کی بنا پر کس کو گمراہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ گمراہوں کا انجام کیا ہوتا ہے اور اہل ہدایت کا انجام کیا ہوتا ہے۔ آدم کو سیاہ مٹی کے کیچڑ سے پیدا کیا گیا اور اس کیچڑ میں بھی اللہ نے اپنی روح یعنی حیات کو پھونکا۔ اس کے بعد ابلیس کے غرور اور استکبار کا واقعہ آتا ہے اور یہ اعلان ہوتا ہے کہ ابلیس تمام گمراہوں کی سرپرستی کرے گا۔ چوتھے حصے میں گذشتہ گمراہ اقوام کی ہلاکت کے واقعات ہیں۔ قوم لوط (علیہ السلام) ، قوم شعیب (علیہ السلام) ، قوم صالح (علیہ السلام) ، یہ حصہ یوں شروع ہوتا ہے۔ نبیء عبادی ۔۔۔۔۔ الرحیم (٣٩) وان عذبی ھو العذاب الالیم (٥٠) (١٥ : ٣٩- ٥٠) ” میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ میں ہی غفورو رحیم ہوں اور میرا عذاب بھی دردناک عذاب ہے “۔ اس کے بعد مسلسل قصص لائے گئے ہیں جن میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر رحمت خداوندی اور حضرت لوط (علیہ السلام) کو مع اہل بچانا اور لوط ، شعیب اور صالح (علیہم السلام) کی اقوام کی ہلاکت کے واقعات ہیں۔ پانچویں حصے میں بتایا گیا ہے کہ اس کائنات میں حق پوشیدہ ہے اور یہ حق پر قائم ہے اور اس کائنات کی تخلیق اس بات کی متقاضی ہے کہ حشر ونشر قائم ہو اور اس میں لوگوں کو حقیقی جزاو سزا دی جائے اور یہی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت ہے۔ دعوت اسلامی دراصل اس پوری کائنات میں ودیعت کردہ حق کا ایک پہلو ہے جس کے مطابق ہر چیز کا آغاز اور انجام ہوتا ہے۔ پہلے سبق میں پہلے تین حصے آگئے ہیں۔ اب تفصیلات ملاحظہ فرمائیں۔   Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi