Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 21

سورة الحجر

وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا عِنۡدَنَا خَزَآئِنُہٗ ۫ وَ مَا نُنَزِّلُہٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ ﴿۲۱﴾

And there is not a thing but that with Us are its depositories, and We do not send it down except according to a known measure.

اور جتنی بھی چیزیں ہیں ان سب کے خزانے ہمارے پاس ہیں ، اور ہم ہرچیز کو اس کے مقررہ انداز سے اتارتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Supplies for All Things are with Allah Allah says: وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلاَّ عِندَنَا خَزَايِنُهُ ... And there is not a thing, but the supplies for it are with Us, Allah tells us that He is the Owner of all things, and that everything is easy for Him. He has the supplies for all things with Him. ... وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ and We do not send it down but in a known measure. meaning, as He wills and as He wants. Doing so out of His great wisdom and mercy towards His servants, in a way that He is under no obligation to do. But He has decreed mercy for Himself. Yazid bin Abi Ziyad reported from Abu Juhayfah that Abdullah said: "No year has more rain than another, but Allah divides the rain between them as He wills, it rains here a year and there a year. Then he recited: وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلاَّ عِندَنَا خَزَايِنُهُ (And there is not a thing, but the supplies for it are with Us...). Reported by Ibn Jarir. Benefits of the Winds Allah says:

اللہ تعالیٰ کے خزانے تمام چیزوں کا تنہا مالک اللہ تعالیٰ ہے ۔ ہر کام اس پر آسان ہے ۔ ہر قسم کی چیزوں کے خزانے اس کے پاس موجود ہیں ۔ جتنا ، جب اور جہاں چاہتا ہے ، نازل فرماتا ہے ۔ اپنی حکمتوں کا عالم وہی ہے ۔ بندوں کی مصلحتوں سے بھی واقف ہے ۔ یہ محض اس کی مہربانی ہے ورنہ کون ہے جو اس پر جبر کر سکے ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہر سال بارش برابر ہی برستی ہے ۔ ہاں تقسم اللہ کے ہاتھ ہے ، پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ حکم بن عینیہ سے بھی یہی قول مروی ہے ، کہتے ہیں کہ بارش کے ساتھ اس قدر فرشتے اترتے ہیں ، جن کی گنتی کل انسانوں اور جنات سے زیادہ ہوتی ہے ، ایک ایک قطرے کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ کہاں برسا اور اس سے کیا اگا ۔ بزار میں ہے کہ اللہ کے پاس کے خزانے کیا ہیں ؟ صرف کلام ہے جب کہا ہو جا ہو گیا ۔ اس کا ایک روای قوی نہیں ۔ ہوا چلا کر ہم بادلوں کو پانی سے بوجھل کر دیتے ہیں ، اس میں پانی برسنے لگتا ہے ۔ یہی ہوائیں چل کر درختوں کو بار دار کر دیتی ہیں کہ پتے اور کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں ، اس وصف کو بھی خیال میں رکھئے کہ یہاں جمع کا صیغہ لائے ہیں اور ریح عقیمہ میں وصف وحدت کے ساتھ کیا ہے تاکہ کثرت سے نتیجہ بر آمد ہو ۔ بارداری کم از کم دو چیزوں کے بغیر ناممکن ہے ۔ ہوا چلتی ہے وہ آسمان سے پانی اٹھاتی ہے اور بادلوں کو پر کر دیتی ہے ۔ ایک ہوا ہوتی ہے جو زمین میں پیداوار کی قوت پیدا کرتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو بادلوں کو ادھر ادھر سے اٹھاتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو انہیں جمع کر کے تہ بہ تہ کر دیتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو انہیں پانی سے بوجھل کر دیتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو درختوں کو پھل دار ہونے کے قابل کر دیتی ہے ۔ ابن جریر میں بہ سند ضعیف ایک حدیث مروی ہے کہ جنوبی ہوا جنتی ہے اس میں لوگوں کے منافع ہیں اور اسی کا ذکر کتاب اللہ میں ہے ۔ مسند حمیدی کی حدیث کی حدیث میں ہے کہ ہواؤں کے سات سال بعد اللہ تعالیٰ نے جنت میں ایک ہوا پیدا کی ہے جو ایک دروازے سے رکی ہوئی ہے ۔ اسی بند دروازے سے تمہیں ہوا پہنچتی رہتی ہے ، اگر وہ کھل جائے تو زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہوا سے الٹ پلٹ ہو جائیں ۔ اللہ کے ہاں اس کا نام اذیب ہے ، تم اسے جنوبی ہوا کہتے ہو ، پھر فرماتا ہے کہ اس کے بعد ہم تم پر میٹھا پانی برساتے ہیں کہ تم پیو اور کام میں لاؤ ۔ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا اور کھاری کر دیں ۔ جیسے سورہ واقعہ میں فرمان ہے کہ جس میٹھے پانی کو تم پیا کرتے ہو اسے بادل سے برسانے والے بھی کیا تم ہی ہو ؟ یا ہم ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا کر دیں تعجب ہے کہ تم ہماری شکر گزاری نہیں کرتے ؟ اور آیت میں ہے اسی اللہ نے تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا ہے ۔ الخ ۔ تم اس کے خازن یعنی مانع اور حافظ نہیں ہو ۔ ہم ہی برساتے ہیں ہم ہی جہاں چاہتے ہیں ، پہنچاتے ہیں ، جہاں چاہتے ہیں ، محفوظ کر دیتے ہیں ۔ اگر ہم چاہیں زمین میں دھنسا دیں ۔ یہ صرف ہماری رحمت ہے کہ اسے برسایا ، بچایا ، میٹھا کیا ، ستھرا کیا تاکہ تم پیو ، اپنے جانوروں کو پلاؤ ۔ اپنی کھیتیاں اور باغات بساؤ ، ؟ اپنی ضرورتیں پوری کرو ۔ ہم مخلوق کی ابتدا اور پھر اس کے اعادہ پر قادر ہیں ۔ سب کو عدم سے وجود میں لائے ۔ سب کو پھر معدوم ہم کریں گے ۔ پھر قیامت کے دن سب کو اٹھا بٹھائیں گے ۔ زمین کے اور زمین والوں کے وارث ہم ہی ہیں ۔ سب کے سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے ۔ ہمارے علم کی کوئی انتہا نہیں ۔ اول آخر سب ہمارے علم میں ہے ۔ پس آگے والوں سے مراد تو اس زمانے سے پہلے کے لوگ ہیں حضرت آدم علیہ السلام تک کے ۔ اور پچھلوں سے مراد اس زمانے کے اور آئندہ زمانے کے لوگ ہیں ۔ مروان بن حکم سے مروی ہے کہ بعض لوگ بوجہ عورتوں کے پچھلی صفوں میں رہا کرتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ اس بارے میں ایک بہت ہی غریب حدیث بھی وارد ہوئی ہے ابن جریر میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بہت ہی خوش شکل عورت نماز میں آیا کرتی تھی تو بعض مسلمان اس خیال سے کہ اس پر نگاہ نہ پڑے ۔ آگے بڑھ جاتے تھے اور بعض ان کے خلاف اور پیچھے ہٹ آتے تھے اور سجدے کی حالت میں اپنے ہاتھوں تلے سے دیکھتے تھے پس یہ آیت اتری لیکن اس روایت میں سخت نکارت ہے ۔ عبدالرزاق میں ابو الجواز کا قول اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ نماز کی صفوں میں آگے بڑھنے والے اور پیچھے ہٹنے والے ۔ یہ صرف ان کا قول ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس میں ذکر نہیں ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں یہی مشابہ ہے واللہ اعلم ۔ محمد بن کعب کے سامنے عون بن عبداللہ جب یہ کہتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں یہ مطلب نہیں بلکہ اگلوں سے مراد وہ ہیں جو مر چکے اور پچھلوں سے مراد اب پیدا شدہ اور پیدا ہونے والے ہیں ۔ تیرا رب سب کو جمع کرے گا وہ حکمت و علم والا ہے ۔ یہ سن کر حضرت عون رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اللہ آپ کو توفیق اور جزائے خیر دے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 بعض نے خزائن سے مراد بارش لی ہے کیونکہ بارش ہی پیداوار کا ذریعہ ہے لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے اس سے مراد تمام کائنات کے خزانے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ حسب مشیت و ارادہ عدم سے وجود میں لاتا رہتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢ ١] ضروریات زندگی کی مناسب مقدار میں فراہمی :۔ اللہ کے پاس ہر چیز کے خزانے موجود ہیں لہذا وہ چاہتا تو تمام انسانوں کو وافر رزق اور مال و دولت عطا کرسکتا تھا۔ مگر اس کی حکمت کا تقاضا ایسا نہیں کیونکہ ایک تو رزق کی فراوانی عموماً اللہ کو بھول جانے اور گمراہ ہوجانے کا سبب بن جاتی ہے۔ الاماشاء اللہ اور دوسرے اگر تمام لوگ ہی مالدار ہوتے اور محتاج کوئی بھی نہ ہوتا تو دنیا کا موجودہ نظام چل ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ اسی صورت میں چل سکتا ہے کہ ایک کو دوسرے کی احتیاج ہو۔ امیر کو غریب کی احتیاج ہو اور غریب کو امیر کی۔ پھر اس میں انسان کی آزمائش بھی ہے لہذا رزق کی کمی بیشی کا تمام تر معاملہ اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ پھر یہ معاملہ صرف رزق تک محدود نہیں بلکہ اس میں ضروریات زندگی کی تمام اشیاء شامل ہیں۔ مثلاً ہوا، پانی، روشنی، حرارت، گرمی، سردی، ان میں سے کوئی بھی چیز اپنی مقرر حد سے بڑھ جائے یا کم ہوجائے تو انسان کی زندگی محال ہوجائے۔ گویا اللہ کے پاس خزانے تو ہر چیز کے ہیں مگر وہ انھیں اپنی حکمت اور طے شدہ مقدار کے مطابق ہی مہیا کرتا ہے۔ مثلاً پانی کی افراط بھی اگر طوفان کی صورت اختیار کرجائے تو وہ بھی انسان کی ہلاکت کا موجب ہے اور تفریط ہو تو وہ بھی۔ یہی حال دوسری ضروریات زندگی کا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا۔۔ : یعنی کوئی بھی چیز، قیمتی سے قیمتی ہو یا معمولی سے معمولی، ہمارے پاس اس کے کئی خزانے ہیں، مگر ہم اس کو معلوم اندازے کے مطابق ہی ظاہر کرتے ہیں، مثلاً جلانے اور روشنی کے لیے لکڑی استعمال ہوتی تھی، جب آبادی زیادہ ہوئی تو کوئلہ نکل آیا، مزید بڑھی تو پٹرولیم عطا ہوا، اس سے بھی بڑھی تو گیس نکل آئی، بجلی کے او ون ایجاد ہوگئے۔ توانائی اور سواری کے لیے جانور استعمال ہوتے تھے، پھر پہیہ ایجاد ہوا، پھر کوئلہ استعمال ہونے لگا، پھر پٹرولیم، گیس، بجلی اور ایٹم، الغرض ! ایجادات بھی ضرورت کے مطابق اپنے اپنے وقت پر ہوئیں۔ اس سے ان ملحد لوگوں، خصوصاً حکمرانوں کی بات کا غلط ہونا صاف واضح ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ آبادی زیادہ بڑھ رہی ہے، جب کہ ہمارے پاس وسائل کم ہیں، ہم سب کی خوراک کا بندوبست نہیں کرسکتے، اس لیے آبادی کم کرو، ضبط ولادت کرو، ایک یا دو بچے پیدا ہونے دو ۔ یہ لوگ درحقیقت اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، جس نے فرمایا کہ ہمارے پاس ہر چیز کے بیشمار خزانے ہیں، مگر ہم مقرر اندازے کے ساتھ ہی اسے نازل کرتے ہیں۔ ان حکمرانوں نے کسی کو خوراک کیا دینی ہے، یہ تو خود عوام کی کمائی پر پلتے ہیں۔ اللہ کا کرم دیکھو، جو زمین پہلے دس من غلہ پیدا کرتی تھی اب سو من نکالتی ہے، بجلی اور دوسری ایجادات سے جو آسائشیں آج عام آدمی کو میسر ہیں وہ چند سو سال پہلے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی میسر نہ تھیں، بلکہ ان کے خیال میں بھی نہ تھیں، الا یہ کہ وہ سلیمان (علیہ السلام) جیسا ہو، پیدل سفر اور اونٹوں، گھوڑوں کی جگہ گاڑیاں اور جہاز اور لق و دق صحراؤں کی جگہ آبادیاں اور نہایت صاف اور کشادہ سڑکیں اور ریلویز۔ اُون اور کپاس کی جگہ پٹرولیم کے کپڑے۔ الغرض ! کس کس نئی نعمت اور خزانے کا ذکر کیا جائے۔ رہا آبادی اور وسائل کا تناسب، تو وہ اللہ تعالیٰ سے بہتر کون جانتا ہے، اگر آبادی کم کرنے کی ضرورت ہو تو وہ اپنی غیبی تدبیر سے خود ہی کم کرلیتا ہے، کبھی طوفانوں سے، کبھی جنگوں سے، کبھی زلزلوں سے، کبھی وباؤں کے ذریعے سے۔ الغرض ہر جان دار کا رزق اللہ کے ذمے ہے اور ہر شخص کو اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک منہ کھانے کے لیے اور دو ہاتھ کمانے کے لیے دے کر بھیجتا ہے اور ایک ایک شخص کئی کئی افراد کی ضروریات مہیا کرتا ہے۔ دراصل یہ حکمران اس بہانے سے بدکاری اور بےحیائی پھیلانا چاہتے ہیں اور بےحیائی پھیلانے کے خواہش مند لوگوں کی سزا اللہ تعالیٰ نے سورة نور (١٩) میں بیان کی ہوئی ہے۔ ہمیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہی حکم ہے کہ آبادی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرو، دنیا میں غلبے کا یہ ایک مضبوط ذریعہ بھی ہے اور قیامت کے دن ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے دوسرے انبیاء سے اپنی امت کے زیادہ ہونے کی خوشی اور فخر کا باعث بھی، جیسا کہ معقل بن یسار (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے : ( تَزَوَّجُوا الْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَ فَإِنِّيْ مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْأُمَمَ ) ” ایسی عورت سے نکاح کرو جو (خاوند سے) بہت محبت کرنے والی ہو اور بہت بچے جننے والی ہو، کیونکہ میں دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت پر فخر کرنے والا ہوں گا۔ “ [ أبوداوٗد، النکاح، باب النھي عن تزویج من لم یلد من النسآء : ٢٠٥٠۔ نسائی : ٣٢٢٩، و صححہ الألباني ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُهٗ ۡ وَمَا نُنَزِّلُهٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ 21؀ خزن الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر/ 21] ( خ زن ) الخزن کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھیدہ وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر/ 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں قدر تَقْدِيرُ اللہ علی وجهين : أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] . والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله : فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١) اور جتنی بھی چیزیں نباتات ہوں خواہ پھل ہوں یا بارش سب کی کنجیاں (اور خزانے بھرے ہوئے) ہمارے قبضہ میں ہیں تمہارے قبضہ میں کچھ نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُهٗ ) کوئی شے ایسی نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں۔ ہمارے خزانے اور وسائل لامحدود ہیں ‘ لیکن : (وَمَا نُنَزِّلُهٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ ) ان لامتناہی اور لا محدود خزانوں سے صرف ضرورت کے مطابق اشیاء دنیا میں بھیجی جاتی ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں بڑے بڑے گوداموں سے ضرورت کے مطابق چیزوں کی ترسیل کی جاتی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14. This is to bring home the fact that it is not vegetable life alone that has a fixed limit to its growth, etc. The same is true of everything that exists, whether it be air, water, light, heat, cold, mineral, vegetable, animal or power or energy, in short, each and every thing exists in the prescribed quantity, number, etc. which neither decreases nor increases. It is this determined course in each and every thing which has produced appropriate balance and proportion in the entire system of the universe to such a perfection that one is led to the inevitable conclusion that the whole thing has been designed by its All-Wise Creator. For, had the universe come into existence by mere accident or had it been created by many gods, it was impossible to have such a perfect balance and appropriate proportion with perpetual consistence in so many different things and powers.

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :14 یہاں اس حقیقت پر متنبہ فرمایا کہ یہ معاملہ صرف نباتات ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام موجودات کے معاملہ میں عام ہے ۔ ہوا ، پانی ، روشنی ، گرمی ، سردی ، جمادات ، نباتات ، حیوانات ، غرض ہر چیز ، ہر نوع ، ہر جنس ، اور ہر قوت و طاقت کے لیے ایک حد مقرر ہے جس پر وہ ٹھیری ہوئی ہے اور ایک مقدار ہے جس سے نہ وہ گھٹتی ہے نہ بڑھتی ہے ۔ اسی تقدیر اور کمال درجہ کی حکیمانہ تقدیر ہی کا یہ کرشمہ ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک پورے نظام کائنات میں یہ توازن ، یہ اعتدال ، اور یہ تناسب نظر آرہا ہے ۔ اگر یہ کائنات کا ایک اتفاقی حادثہ ہوتی ، یا بہت سے خداؤں کی کاریگری و کارفرمائی کا نتیجہ ہوتی تو کس طرح ممکن تھا کہ بے شمار مختلف اشیاء اور قوتوں کے درمیان ایسا مکمل توازن و تناسب قائم ہوتا اور مسلسل قائم رہ سکتا ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢١۔ ٢٣۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ جتنی چیزیں دنیا میں ہیں خواہ کسی قسم کی ہوں ان سب کا خزانہ اللہ کے پاس ہے۔ جب جتنی ضرورت ہوتی ہے اس میں سے ضرورت کے موافق دنیا میں اتاری جاتی ہیں۔ اکثر مفسرین خزائن کے معنے مینہ کا خزانہ بیان کرتے ہیں اور بقدر معلوم کی تفسیر میں یہ کہتے ہیں کہ ایک جگہ کم بارش ہوتی ہے اور دوسری جگہ زیادہ ایک جگہ بالکل بارش نہیں ہوتی اور دوسری جگہ خوب ہوتی ہے اور بارش کے ایک ایک قطرے کے ساتھ فرشتے مقرر ہوتے ہیں جو اس قطرے کو وہیں گرنے دیتے ہیں جہاں حکم ہوتا ہے اور یہ بات یاد رکھتے ہیں کہ اس قطرے سے کیا کیا پیداوار ہوئی۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہوا کو حکم دیتا ہے وہ چلنے لگتی ہے اور بادلوں کو ادھر سے ادھر لی جاتی ہے اور جس طرح دودھ والے جانوروں کا دودھ دوہا جاتا ہے اسی طرح بادلوں میں سے مینہ برسنے لگتا ہے۔ جس سے ندی نالے تالاب بھر جایا کرتے ہیں اور لوگ پھر اس کو کام میں لاتے ہیں آپ بھی پیتے ہیں اپنے جانوروں کو بھی پلاتے ہیں اور کھیتوں اور باغوں کو سیراب کرتے ہیں کسی میں یہ قدرت نہیں ہے جو پانی کو جمع کر کے رکھ چھوڑے یہ اسی کی ادنیٰ قدرت اور بندوں پر مہربانی ہے کہ ہر جگہ خزانے پانی کے مہیا رکھتا ہے اگر وہ چاہے تو فوراً پانی خشک ہوجائے۔ سورت حم السجدہ میں آوے گا۔ { وبارک فیھا وقدر فیھا اقواتھا } (٤١: ١٠) جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے کھانے پینے کی چیزیں اس طرح برکت دے کر زمین میں رکھی ہیں کہ ایک اناج کے دانہ سے سینکڑوں دانے اور ایک گٹھلی سے ہر طرح کے بہت سے پھل ہمیشہ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ معتبر سند سے تفسیر ابن جریر میں عبد اللہ بن مسعود (رض) کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ مینہ برسنے سے پہلے ہوا کو حکم دیتا ہے وہ آسمان کے دریا میں سے پانی لے کر بادلوں میں پہنچاتی ہے اور پھر بادلوں میں سے پانی برستا ١ ؎ ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ آسمان و زمین میں اللہ کی قدرت سے ہر چیز کا ہمیشہ کے لئے جو یہ ذخیرہ ہے اسی کو فرمایا کہ جتنی چیزیں دنیا میں ہیں ان سب کا خزانہ اللہ کے پاس ہے اکثر سلف نے مینہ کو جو اللہ تعالیٰ کا خزانہ بتلایا ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ زمین میں اللہ کی قدرت سے ہر چیز کی پیداوار کے جو خزانے ہیں ان کا ظہور مینہ کے سبب سے ہوتا ہے ایک سال مینہ نہ ہو تو اناج میوہ اور ترکاریوں کی پیداوار میں کمی پڑجاتی ہے اس لئے اصل سب چیزوں کا خزانہ گویا مینہ ہے ورنہ آسمان و زمین دونوں میں اللہ کے خزانے موجود ہیں چناچہ سورت انعام میں گزر چکا ہے کہ سب غیب کے خزانوں کی کنجیاں اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں سوا اس کے اور کسی کو ان کنجیوں کا حال معلوم نہیں۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اس کے خزانوں میں سے بہتے ہوئے پانی کی طرح ہر چیز خرچ ہو رہی ہے مگر اس کے خزانوں میں کچھ کمی نہیں ٢ ؎ ہوئی۔ صحیح مسلم میں ابوذر (رض) کی روایت سے حدیث قدسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمام دنیا کے جنات اور انسان ایک جگہ اکٹھے ہو کر اپنا اپنا مطلب چاہیں اور اللہ تعالیٰ ہر ایک کے مطلب کو پورا کرے تو اللہ تعالیٰ کے خزانوں کے آگے یہ اتنا خرچ ہے جیسے دریا میں سے کوئی ایک سوئی ڈبو کر نکال لے ٣ ؎۔ ان حدیثوں سے اللہ تعالیٰ کے خزانوں کی کثرت اور ان کے بےانتہا ہونے کی تفسیر اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ پھر فرمایا یہ سب انتظام دنیا کے قیام تک ہے آخر جس نے دنیا کو پیدا کیا ہے اسی کے حکم سے ساری دنیا فنا ہوجاوے گی اور دنیا کی چیزوں پر سے لوگوں کا عارضی قبضہ اٹھ کر سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے قبضے میں چلی جاویں گی۔ یہاں مختصر طور پر { وانا لنحن نحی و نمیت ونحن الوارثون } فرمایا سورت مریم میں آوے گا۔ { انا نحن نرث الارض ومن علیھا والینا یرجعون } [١٩: ٤] ۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا کے فنا ہوجانے اور دنیا کی چیزوں پر سے لوگوں کا عارضی قبضہ اٹھ جانے کے بعد ان چیزوں کے برتنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑے ہو کر یہ حساب دینا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو ان لوگوں نے کیوں کر برتا۔ ترمذی مسند بزار اور طبرانی کے حوالہ سے ابو برزہ اور معاویہ بن جبل (رض) کی صحح روایتیں ایک جگہ گزر چکی ہیں ٤ ؎ کہ قیامت کے دن چار چیزوں کے حساب کے لئے ہر شخص کو اللہ تعالیٰ کے رو برو کھڑا ہونا پڑے گا (١) تمام عمر کن کاموں میں صرف کی (٢) جوانی میں کیا کیا (٣) دنیا میں مال کیوں کر کمایا اور کہاں کہاں خرچ کیا (٤) دین کا کوئی مسئلہ سیکھا تو اس پر کیا عمل کیا۔ سورت مریم کی آیت اور اس حدیث سے { ونحن الوارثون } کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی اختیار کی چیزوں پر جس طرح کسی کا عارضی قبضہ نہ تھا دنیا کے فنا ہوجانے کے بعد وہی حال پھر ہو آوے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس عارضی برتاؤ کا حساب ہر شخص سے لیوے گا۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ٥٤٩ ج ٢۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٢١ باب الایمان بالقدر۔ ٣ ؎ ص ٣١٩ ج ٢ باب تحریم الظلم (الترغیب ص ٢٩٧ ج ١۔ ٤ ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ص ١٠٠۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:12) ان۔ نافیہ ہے۔ خزائنہ میں ہُ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع شیء ہے۔ ان من شیء الا عندنا خزائنہ۔ نہیں کوئی چیز مگر ہمارے پاس اس کے خزانے (بھرے پڑے) ہیں۔ ما ننزلہ الا بقدر معلوم۔ ہم اس چیز کو نہیں اتارتے مگر ایک معلوم اندازے کے مطابق ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ یعنی ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے لیکن ہم بندوں کو ضرورت کے پیش نظر اسے ایک خاص مقدار میں آسمان سے اتارتے یا زمین سے پیدا کرتے ہیں۔ ہر چیز کے خزانے اللہ تعالیٰ کے پاس ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ اکثر مفسرین (رح) کا خیال ہے کہ یہاں خزائن سے مراد بارش ہے کیونکہ دنیا میں تمام تر رزق و معیشت کا مدار اسی پر ہے مگر اولیٰ یہ ہے کہ اسے عموم پر رکھا جائے۔ (شوکانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٢١ لہٰذا مخلوقات میں سے کوئی نوع بھی کسی چیز کی مالک نہیں ہے ، تمام خزانے اللہ کی حاکمیت میں ہیں ، اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہیں۔ اللہ اپنی مخلوق کے لئے جو خزانے چاہتا ہے ، ایک معلوم اور متعین مقدار کے مطابق اتارتا ہے ، کوئی چیز بھی آگ پر نازل نہیں ہوتی اور نہ کوئی چیز اتفاقاً وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جن چیزوں کو ایک معلوم مقدار کے مطابق بھیجتا ہے ، ان میں سے ہوائیں اور بارشیں بھی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں پھر فرمایا (وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآءِنُہٗ ) (اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں) (وَ مَا نُنَزِّلُہٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ ) (اور ہم اس کو صرف بقدر معلوم ہی نازل کرتے ہیں) اس میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت بہت بڑی ہے جو کچھ پیدا ہوتا ہے اس کی مشیت سے پیدا ہوتا رہتا ہے اس کی حکمت کے مطابق ہے، اس کی قدرت غیر متناہی ہے مخلوق کو رزق دینے اور کھلانے پلانے کے لیے اسے میزانیہ بنانے کی ضرورت نہیں اس کے قبضہ قدرت میں بےانتہا خزانے ہیں جب چاہے جتنا چاہے صرف ایک کلمہ کن سے پیدا فرما سکتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ حرف نفی اور حرف استثناء مفید حسر ہے۔ یعنی ہر چیز کے خزانے اور ذخیرے ہمارے ہی علم میں اور ہمارے ہی اختیار و تصرف میں ہیں، بارش، رزق، تندرستی، دولت، اولاد، آرام و راحت غرضیکہ ہر چیز ہمارے تصرف میں ہے اور ان خزانوں میں سے ہم اپنی حکمت بالغہ کے مطابق جتنا چاہتے اور جس پر چاہتے ہیں نازل کرتے ہیں اس میں کسی اور کا کوئی دخل نہیں۔ ” وَ اَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ الخ “ ہم ہوائیں بھیجتے ہیں جو اپنے جوف میں پانی سے لبریز بادل اٹھائے ہوتی ہیں ان سے بارش برسا کر ہم تمہیں، تمہارے چوپایوں اور تمہاری زمینوں کو سیراب کرتے ہیں۔ و ارسلنا الریح حوامل بالسحاب لانھا تتحمل السحاب فی جو فھا (مدارک ج 2 ص 209) ۔ ” وَ مَا اَنْتُمْ الخ “ خطاب جنس مخلوق سے ہے یعنی اے انسانو ! فرشتو ! اور جنو ! تم میں سے کوئی بھی پانی کا خازن اور اس کو اتارنے والا نہیں۔ ” وَ اِنَّا لَنَحْنُ نُحْیٖ “ پیدا کرنا اور ہمارے ہی اختیار میں ہے اور جب تمام مخلوق ختم ہوجائے گی اس وقت صرف ذات خداوندی ہی باقی ہوگی۔ اس آیت میں ” نَحْنُ “ ضمیر فصل حصر کا فائدہ دے رہی ہے۔ ان مزکورہ بالا تمام باتوں سے معلوم ہوا کہ سب کچھ کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

21 ۔ اور کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ اس کے خزانے کے خزانے ہمارے پاس بھرے ہوئے ہیں اور ہم ان خزانوں کو نہیں اتارتے مگر ایک معین اور مقرر مقدار کے ساتھ یعنی ہونے کو سب کچھ ہمارے پاس موجود ہے مگر زمین پر اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق ایک مقررہ مقدار سے نازل فرماتے ہیں۔