Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 24

سورة الحجر

وَ لَقَدۡ عَلِمۡنَا الۡمُسۡتَقۡدِمِیۡنَ مِنۡکُمۡ وَ لَقَدۡ عَلِمۡنَا الۡمُسۡتَاۡخِرِیۡنَ ﴿۲۴﴾

And We have already known the preceding [generations] among you, and We have already known the later [ones to come].

اور تم میں سے آگے بڑھنے والے اور پیچھے ہٹنے والے بھی ہمارے علم میں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنكُمْ ... And indeed, We know the first generations of you who had passed away.... Ibn Abbas said, "The first generations are all those who have passed away since the time of Adam. The present generations and those who will come afterward refer to those who are alive now and who are yet to come, until the Day of Resurrection." Something similar was narrated from Ikrimah, Mujahid, Ad-Dahhak, Qatadah, Muhammad bin Ka`b, Ash-Sha`bi and others. Ibn Jarir reported from Muhammad bin Abi Ma`shar, from his father, that; he heard Awn bin Abdullah discussing the following Ayah with Muhammad bin Ka`b: وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ And indeed, We know the first generations of you who had passed away, and indeed, We know the present generations of you (mankind), and also those who will come afterwards, and it was stated that it refers to the rows for prayer. Muhammad bin Ka`b said, "This is not the case. وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنكُمْ (And indeed, We know the first generations of you who had passed away), it refers to those who are dead or have been killed, and; الْمُسْتَأْخِرِينَ (and also those who will come afterwards), meaning those who have yet to be created. وَإِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَحْشُرُهُمْ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥ ١] الفاظ میں عمومیت ہے اور ان سے مراد وہ لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو پہلے گزر چکے ہیں اور جو بعد میں آنے والے ہیں اور یہ بھی کہ جو اسلام لانے میں آگے نکل جانے والے ہیں یا پیچھے رہنے والے ہیں۔ یا کسی بھی نیک کام میں یا برے کام میں آگے نکل جانے اور پیچھے والے۔ اللہ ان سب پوری طرح باخبر ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِيْنَ ۔۔ : اس میں بہت سی چیزیں آجاتی ہیں : 1 وہ لوگ جو ہم سے پہلے گزر چکے اور جو ہمارے بعد آنے والے ہیں اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے۔ اس کا علم ازلی اور ابدی ہے۔ 2 وہ لوگ جو اذان کا پہلا لفظ ” اللہ اکبر “ سنتے ہی اللہ تعالیٰ کو سب سے بڑا سمجھتے ہوئے سب سے پہلے نماز کے لیے چل پڑتے ہیں اور جو پیچھے رہ جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے۔ 3 مستقدمین و مستاخرین، یعنی جہاد اور دوسری نیکیوں میں آگے بڑھنے والے اور پیچھے رہنے والے سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Going Ahead and Remaining Behind in Righteous Deeds: The Difference in Degrees Some exegetic interpretations of the words: (al-mustaqdimin) : &those who go ahead& and: (al-musta&khirin) : &those who remain behind& appearing in verse 24: الْمُسْتَقْدِمِينَ ~.A11 have been variously reported from Tafsir authorities among the Sahabah (رض) and Tabi` in. These are: 1. &Al-Mustaqdimin& are those born to date, and &Al-Musta&khirin& are those not born yet [ Qatadah and ` Ikrimah ]. 2. &Al-Mustaqdimin& means the dead, and &Al-Musta&khirin& means those alive till now [ Ibn ` Abbas and Dahhak ] 3. &Al-Mustaqdimin& signifies good people who came before the ap¬pearance of the Ummah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and &Al-Mustakhirin& re¬fers to his Ummah itself [ Mujahid ]. 4. &Al-Mustaqdimin& denotes people who obey Allah and do good deeds while &Al-Musta&khirin& refers to people who disobey Him and ne¬glect what is good [ Hasan and Qatadah ] 5. &Al-Mustaqdimin& are people who remain ahead in the rows of Sal, or in the front lines of Jihad, and in other righteous deeds - and &Al-Musta&khirin& are those who remain behind in these deeds of merit, stay in the rear rows and are used to being late [ which is the Tafsir given by leading authorities Hasan al-Basri, Said ibn al-Musaiyyab, al-Qurtubi, al-Sha` bi and others ] It is obvious that there is no distinct conflict or contradiction in these sayings, in the real sense. They can be accommodated all in one because the all-encompassing knowledge of Allah Ta` ala covers all kinds of peo¬ple &who go ahead& or &remain behind.& In his Tafsir, Al-Qurtubi has said that this verse indicates the merit of performing Salah in the first row, and soon after the time it becomes due. This is in accordance with the Hadith where the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said: If people were to find out the enormous merit of calling the Adhan and standing in the first row of Salah, everyone would have started making the effort to necessarily stand in the first row, and when there would remain no space for everybody to stand there, lots would have to be drawn. With this, Al-Qurtubi has also reported the saying of Sayyidn Ka&b (رض) : &There are some people in this Ummah who, when they put their forehead on the ground for their Sajdah, forgiveness is granted to all those who are praying behind them.& Therefore, Sayyidna Ka&b liked to be in the last row in the hope that &perhaps, there may be in the front rows, some servant of Allah of the class, because of whose barakah (bliss¬ful presence), I may be forgiven.& What is apparent here is that real merit does lie in praying in the first row - as stands proved from the clear statements of the Qur&an and Sunnah. But, a person who does not, for some reason, find a place in the first row, then, he too will have a sort of merit in that there may perhaps be some righteous servant of Allah praying in the front rows for whose sake, he too may be forgiven. And the way praying in the first row of Salah stands proved from this verse, also proved is the superiority of being in the front lines of Jihad.

نیک کاموں میں آگے بڑھنے اور پیچھے رہنے میں درجات کا فرق : وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِيْنَ میں مستقدمین اور مستاخرین کی چند تفسیریں ائمہ صحابہ وتابعین سے مختلف منقول ہیں مستقدمین وہ لوگ وہ جواب تک پیدا ہوچکے ہیں اور مستاخرین وہ جو ابھی پیدا نہیں ہوئے (قتادہ و عکرمہ) مستقدمین سے مراد اموات ہیں اور مستاخرین سے وہ لوگ جو اب زندہ ہیں (ابن عباس وضحاک) مستقدمین سے مراد امت محمدیہ سے پہلے حضرات ہیں اور مستاخرین سے مراد امت محمدیہ (مجاہد) مستقدمین سے مراد اہل اطاعت وخیر ہیں اور مستاخرین سے اہل معصیت و غفلت (حسن و قتادہ) مستقدمین وہ لوگ ہیں جو نماز کی صفوف یا جہاد کی صفوف اور دوسرے نیک کاموں میں آگے رہنے والے ہیں اور مستاخرین وہ جو ان چیزوں میں پچھلی صفوں میں رہنے والے اور دیر کرنے والے ہیں حسن بصری، سعید بن مسیب، قرطبی، شعبی وغیرہ ائمہ تفسیر کی یہ تفسیر ہے اور یہ ظاہر ہے کہ درحقیقت ان اقوال میں کوئی خاص اختلاف نہیں سب جمع ہو سکتے ہیں کیونکہ اللہ جل شانہ کا علم محیط ان تمام اقسام کے مستقدمین ومستاخرین پر حاوی ہے۔ قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ اسی آیۃ سے نماز میں صف اول اور شروع وقت میں نماز ادا کرنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوجاتا کہ اذان کہنے اور نماز کی صف اول میں کھڑے ہونے کی کتنی بڑی فضیلت ہے تو تمام آدمی اس کی کوشش میں لگ جاتے کہ پہلی ہی صف میں کھڑے ہوں اور سب کے لئے جگہ نہ ہوتی تو قرعہ اندازی کرنا پڑتی۔ قرطبی نے اس کے ساتھ حضرت کعب کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ اس امت میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ جب وہ سجدے میں جاتے ہیں تو جتنے آدمی اس کے پیچھے ہیں سب کی مغفرت ہوجاتی ہے اسی لئے حضرت کعب آخری صف میں رہنا پسند کرتے تھے کہ شاید اگلی صفوف میں اللہ کا کوئی بندہ اس شان کا ہو تو اس کی برکت سے میری مغفرت ہوجائے انتہی کلامہ۔ اور ظاہر یہ ہے کہ اصل فضیلت تو صف اول ہی میں ہے جیسا کہ آیت قرآن اور حدیث کی تصریحات سے ثابت ہوا لیکن جس شخص کو کسی وجہ سے صف اول میں جگہ نہ ملی تو اس کو بھی ایک گونہ فضیلت یہ حاصل رہے گی کہ شاید اگلی صفوف کے کسی نیک بندے کی بدولت اس کی بھی مغفرت ہوجائے اور آیت مذکورہ میں جیسے نماز کی صف اول کی فضیلت ثابت ہوئی اسی طرح جہاد کی صف اول کی افضلیت بھی ثابت ہوگئی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِيْنَ 24؀ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤) اور تمہارے آباء و اجداد میں سے جو مرچکے ہیں یا یہ کہ تم میں سے جو صف اول میں ہوں گے اور اس طرح تمہارے بیٹے، پوتے، وغیرہ جو زندہ ہیں یا یہ کہ تم میں سے جو پچھلی صف میں ہوں گے، ہم سب کو جانتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” ولقد علمنا المستقدمین “۔ (الخ) امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، نسائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور حاکم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ تمام لوگوں میں ایک سب سے زیادہ خوبصورت عورت حسناء رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھا کرتی تھی تو کچھ لوگ آگے بڑے کر پہلی صف میں کھڑے ہوا کرتے تھے تاکہ اس عورت پر نظر نہ پڑے اور کچھ لوگ پیچھے ہٹ کر پچھلی صف میں کھڑے ہوا کرتے تھے تاکہ اپنی بغلوں کے درمیان سے اس کو دیکھ سکیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ہم تمہارے اگلوں کو بھی جانتے ہیں اور ہم تمہارے پچھلوں کو بھی جانتے ہیں، اور ابن مردویہ نے داؤد بن صالح سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے سہل بن حنیف انصاری سے آیت کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا یہ آیت جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہوں نے کہا نہیں بلکہ نمازوں کی صفوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِيْنَ ) چونکہ یہ نبوت کے بالکل ابتدائی زمانے کی سورت ہے اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم جانتے ہیں ان لوگوں کو جو حق کی اس دعوت پر فوراً لبیک کہیں گے اور آگے بڑھ کر قرآن کو سینوں سے لگائیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ (وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ) ( التوبہ : 100) کے مصداق کون لوگ ہوں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ابوبکر قبول حق کے لیے ایک لمحے کی دیر نہیں لگائے گا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عثمان بھی اس دعوت کو فوراً قبول کرلے گا۔ یہ بھی ہمارے علم میں ہے کہ ابوبکر کی تبلیغ سے طلحہ زبیر عبدالرحمن بن عوف اور سعید بن زید جیسے لوگ فوراً ایمان لے آئیں گے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ کون کون بدنصیب ہیں جو اس سعادت کو سمیٹنے میں پیچھے رہ جائیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو قومیں تم سے پہلے گذر چکی ہیں اُن کے حالات سے بھی ہم واقف ہیں، اور جو قومیں آگے آنے والی ہیں، اُن کے حالات سے بھی۔ اور یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ تم میں سے جو لوگ نیک کاموں میں دُوسروں سے آگے بڑھ گئے ہیں اُن کو بھی ہم جانتے ہیں اور جو پیچھے رہ گئے ہیں، اُن کو بھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٤۔ ترمذی، نسائی، حاکم، ابن ماجہ وغیرہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت میں عورتیں اور مرد جماعت میں آن کر بعضی بد رویہ عورتیں اگلی صف میں اور بد رویہ مرد اس صف کی پچھلی صف میں کھڑے ہو کر وہ مرد عورتوں کو گھورتے رہتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ہے لیکن اس شان نزول میں تردد ہے کہ اس شان نزول کی روایت صحیح طور پر حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) تک نہیں پہنچے کس لئے کہ ترمذی میں عمرو بن مالک سے نوح بن قیس اور جعفر بن سلیمان ان دونوں شخصوں نے اس شان نزول کو مختلف طور پر روایت کیا ہے جس میں نوح بن قیس نے تو روایت کو حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) تک پہنچایا ہے اور جعفر بن سلیمان نے نہیں پہنچایا بلکہ ابو جوزا اوس بن عبد اللہ تابعی پر ہی روایت کو موقوف رکھا ہے اور ترمذی نے جعفری بن سلیمان کی روایت کو بہ نسبت نوح بن قیس کی روایت کے زیادہ معتبر کہا ہے ١ ؎۔ اس سبب سے صحیح شان نزول وہی ہے جو معتبر سند سے تفسیر ابن جریر وغیرہ کی دوسری روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے آئی ہے کہ اولاد آدم میں سے جو لوگ آج تک مرچکے ہیں اور جو آیت کے نزول کے وقت موجود ہیں اور جو آئندہ پیدا ہوں گے ٢ ؎۔ ان سب اگلے پچھلوں کا ایک ایک کا حال اللہ کو معلوم ہے۔ اوپر کی آیت میں لوگوں کے مرنے اور اللہ کے ان کے وارث ہونے کا ذکر ہے اس لئے اس شان نزول کو سیاق کلام سے بھی ایک ربط اور لگاؤ اوپر کے کلام سے ہے۔ غرض یہ ہے کہ جب اس شان نزول کو مجاہد بن جبیر نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت کیا ہے جنہوں نے تیس دفعہ سارا قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے تفسیر کے آجانے اور روایتوں کے یاد رہنے کی غرض سے پڑھا ہے اسی واسطے سفیان ثوری (رض) نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ تفسیر کے باب میں مجاہد کی روایت آجاوے تو پھر دوسرے کسی کی روایت کی ضرورت نہیں اور اسی واسطے امام بخاری نے صحیح بخاری کی کتاب التفسیر میں مجاہد کی روایت پر زیادہ بھروسہ کیا ہے تو یہی شان نزول زیادہ مقبول ہے۔ مشرکین مکہ کا حشر پہ یہ اعتراض تھا کہ انسان کے مرجانے کے بعد اس کی خاک رواں دواں ہوگئی تو پھر یہ خاک کیوں کر جمع ہوجاوے گی اور اس کا پتلہ کیوں کر بن جاوے گا اس آیت میں تو اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے اس اعتراض کا جواب مختصر طور پر دیا ہے سورت ق میں آوے گا کہ ہوا میں اڑ جانے یا پانی کے ریلے میں بہ جانے سے انسان کی خاک جہاں جہاں رواں دواں ہوگی اس کا سب حال لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اس لئے آسانی سے وہ سب خاک جمع ہوسکتی ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث گزر چکی ہے ٣ ؎۔ کہ ایک شخص نے اپنے مر نے کے بعد اپنی لاش کو جلانے کی اور آدھی خاک کو ہوا میں اڑا دینے اور آدھی کو دریا میں بہا دینے کی وصیت کی اور وصیت کے موافق عمل بھی ہوا۔ جنگل اور دریا میں سے اللہ تعالیٰ نے اس خاک کے جمع ہوجانے کا حکم دیا جب وہ خاک جمع ہوگئی تو اس کا پتلا بنایا گیا اور اس پتلے میں روح پھونکی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص سے پوچھا کہ تو نے یہ وصیت کیوں کی اس نے جواب دیا کہ یا اللہ مجھ کو تیرے روبرو کھڑے ہونے کی دہشت بہت تھی اس پر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے سب گناہوں کو معاف کردیا۔ رواں دواں خاک کے جمع ہوجانے کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٤٩۔ ٥٥٠۔ ج ٢ اور اس روایت کو بوجہ شدید ضعف مسترد کردیا ہے۔ ٢ ؎ ص ٣١٩ ج ٢ باب تحریم الظلم۔ ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٢ باب الایمان بالقدر و جامع ترمذی ص ١٢٠ ج ٢ تفسیر سورت البقر۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:24) المستقدمین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ استقدام (استفعال) مصدر۔ پہلے زمانہ میں گذرے ہوئے لوگ۔ اگلے لوگ۔ یا نیکیوں میں سبقت کرنے والے۔ یا اسلام لانے میں اولیت حاصل کرنے والے۔ مستاخرین۔ پیچھے آنے والے۔ بعد میں آنے والے ۔ نیکیوں میں پیچھے رہ جانے والے۔ اسلام لانے میں تاخیر کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مستقدمین اور مستاخرین کی تفسیر پھر فرمایا (وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنْکُمْ وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِیْنَ ) (اور بلاشبہ ہمیں وہ معلوم ہیں جو تم میں سے پہلے تھے اور بلاشبہ ہمیں وہ لوگ معلوم ہیں جو تمہارے بعد آنے والے ہیں) اس آیت میں لفظ (الْمُسْتَقْدِمِیْنَ ) اور (الْمُسْتَاْخِرِیْنَ ) وارد ہوا ہے صاحب معالم التنزیل ص ٤٨ ج ٣ نے اس کی تفسیر میں بہت سے اقوال نقل کیے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ مستقدمین سے اموات اور مستاخرین سے احیاء یعنی زندہ لوگ مراد ہیں، حضرت مجاہد نے فرمایا کہ مستقدمین سے قرون اولیٰ اور مستاخرین سے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتحیۃ مراد ہے، حضرت حسن نے فرمایا کہ مستقدمین سے وہ لوگ مراد ہیں جو طاعت اور خیر میں آگے بڑھنے والے ہیں اور مستاخرین سے وہ لوگ مراد ہیں جو طاعت اور خیر میں دیر لگانے والے ہیں، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ نماز میں اگلی صفوں میں جگہ لینے والے مستقدمین ہیں اور اگلی صفوں سے پیچھے رہ جانے والے مستاخرین ہیں، آیت کا عموم ان تمام معانی کو شامل ہے، زمانہ کے اعتبار سے اگلے پچھلے اور اعمال خیر کے اعتبار سے اعمال میں آگے بڑھنے والے اور پیچھے رہ جانے والے اللہ تعالیٰ کو ان سب کا علم ہے اللہ تعالیٰ ان کو اپنے علم کے موافق جزا دے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ یہ دوسرا دعوی ہے یعنی سب کچھ جاننے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں کیونکہ ” اَلْمُسْتَقْدِمِیْنَ “ اور ” اَلْمُسْتَاخِرِیْنَ “ جمیع ماکان ومایکون سے کنایہ ہے۔ اس میں بھی حصر ہوگا کیونکہ دلیل کے پہلے حصوں میں حصر ہے۔ ” وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ الخ “ یہ بھی دلیل ہی کا حصہ ہے اے انسان ! ذرا اپنی حقیقت کو تو دیکھ کہ تجھے ہم نے ایک متعفن کیچڑ سے پیدا کیا اور تمام ظاہری اور باطنی انعامات کی تجھ پر بارش کردی مگر پھر بھی تو سرکشی کرتا ہے توحید سے منہ موڑتا اور پیغمبروں کا انکار کرتا ہے۔ اور جن شیاطین کے بہکانے سے تو شرک کرتا اور توحید کو نہیں مانتا ان کی پیدائش بھی دیکھ کہ یہ سب جن ہیں اور انہیں آتش سوزاں سے پیدا کیا گیا۔ یہ شیاطین ابلیس کی ذریت و اولاد ہیں جو تمہارا پرانا اور جدی دشمن ہے اس لیے اس کی پیروی نہ کرو۔ تمہیں عقل و فکر جیسی نعمتیں دی ہیں اور ہر قسم کے دلائل بھی بیان کردئیے ہیں اس لیے ذرا غور تو کرو تمہاری سمجھ میں آجائے گا کہ اللہ کی توحید ایک برحق مسئلہ ہے۔ ” نَارِ السَّمُوْمِ “ میں اضافت بیانیہ ہے۔ السموم وہ آگ جو نہایت شدید گرم ہو اور جس کی حرارت بدن کے مسامات میں فورًا نٖفوز کر جائے۔ من نار الحر الشدید النافذ فی المسام الخ (ابو السعود ج 5 ص 393) ۔ یا یہ اضافت موصوف بصفت ہے یعنی آتش سوزاں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

24 ۔ اور یقینا ہم تم میں آگے بڑھنے والوں کو بھی جانتے ہیں اور پیچھے رہنے والوں کو بھی جانتے ہیں ۔ یعنی خواہ عمر میں یا نیک اعمال میں یا جہاد اور اسلام میں با جماعت کی صفوں میں غرض اگلوں اور پچھلوں سب سے با خبر ہیں۔