Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 29

سورة الحجر

فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۲۹﴾

And when I have proportioned him and breathed into him of My [created] soul, then fall down to him in prostration."

تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لئے سجدے میں گر پڑنا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَسَجَدَ الْمَليِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 سجدے کا یہ حکم بطور تعظیم کے تھا، عبادت کے طور پر نہیں، اور یہ چونکہ اللہ کا حکم تھا، اس لئے اس کے وجوب میں کوئی شک نہیں۔ تاہم شریعت محمدیہ میں بطور تعظیم بھی کسی کے لئے سجدہ کرنا جائز نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩ ١] فرشتوں کو آدم کو سجدہ کرنے کا حکم :۔ جب انسان کا پتلا تیار ہوگیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ && میں کھنکھناتی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے لگا ہوں۔ جب میں اس کی نوک پلک درست کرکے اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم اسی وقت اس کے سامنے سجدہ میں گرپڑنا && روح پھونکنے سے مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا ہلکا سا پر تو انسان میں پیدا ہوجائے اور انسان کو جو دوسری تمام جانداروں سے زیادہ عقل وتمیز، قوت ارادہ و اختیار، مختلف اشیاء کے خواص معلوم کرنے کا علم نیز غور و فکر کے ذریعہ استنباط یا تنائج حاصل کرنے کا علم دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ اسی نفخہ کا نتیجہ ہے اور اسی بنا پر انسان زمین میں اللہ کا خلیفہ بنایا گیا۔ عقیدہ حلول اور ارتقاء کا رد :۔ (نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ 29؀) 15 ۔ الحجر :29) کے الفاظ سے بعض لوگوں نے بڑا گمراہ کن مفہوم اخذ کیا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ انسان کی ذات میں حلول کر گیا ہے۔ بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ جتنا حصہ اللہ نے اپنی روح کا آدم میں پھونکا تو اتنا اس سے کم ہوگیا۔ (نَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ) حالانکہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے سورج اپنی شعاعیں زمین پر ڈالتا ہے تو وہ روشنی سے جگمگا اٹھتی ہے اس سے نہ سورج کی روشنی میں کچھ کمی واقع ہوتی ہے اور نہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ سورج زمین میں حلول کر گیا ہے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کسی ارتقاء کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ نظریہ چونکہ آج کل ہمارے کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے اور بعض مسلمان بھی اس نظریہ سے مرعوب ہوچکے ہیں۔ نیز اس نظریہ نے مذہبی دنیا میں ایک اضطراب سا پیدا کردیا ہے لہذا یہاں ہم کچھ اس کی تفصیل پیش کر رہے ہیں : واضح رہے کہ انسان اور دوسرے حیوانات کی تخلیق کے متعلق دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بحیثیت انسان ہی پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ اس آیت اور قرآن کریم کی بعض دوسری آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم کو پیدا کیا پھر اس سے اس کی بیوی پیدا کی۔ پھر اس سے بنی نوع انسان تمام دنیا میں پھیلی۔ آدم کا پتلا جب اللہ تعالیٰ نے بنایا تو اس میں اپنی روح سے پھونکا۔ اور ایسی روح کسی دوسری چیز میں نہیں پھونکی گئی۔ یہ اسی روح کا اثر ہے کہ انسان میں دوسرے تمام حیوانات سے بہت زیادہ عقل و شعور، قوت ارادہ و اختیار اور تکلم کی صفات پائی جاتی ہیں۔ اس طبقہ کے قائلین اگرچہ زیادہ تر الہامی مذاہب کے لوگ ہیں تاہم بعض مغربی مفکرین نے بھی اس نظریہ کی حمایت کی ہے۔ تخلیق انسانی سے متعلق مختلف نظریات :۔ دوسرا گروہ مادہ پرستوں کا ہے جو اسے خالص ارتقائی شکل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق زندگی اربوں سال پہلے ساحل سمندر سے نمودار ہوئی۔ پھر اس سے نباتات اور اس کی مختلف انواع وجود میں آئیں۔ پھر نباتات ہی سے ترقی کرتے کرتے حیوانات پیدا ہوئے۔ انہی حیوانات سے انسانی غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچا ہے۔ اس تدریجی اور ارتقائی سفر کے دوران کوئی ایسا نقطہ متعین نہیں کیا جاسکتا جہاں سے غیر انسانی حالت کا وجود ختم کرکے نوع انسانی کا آغاز تسلیم کیا جائے۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظریہ سب سے پہلے ارسطو (٣٨٤۔ ٣٢٢ ق م) نے پیش کیا تھا۔ قدیم زمانہ میں تھیلیس، عناکسی میندر، عناکسی مینس، ایمپی ووکل اور جوہر پسند فلاسفہ بھی مسئلہ ارتقاء کے قائل تھے۔ مسلمان مفکرین میں سے ابن خلدون، ابن مسکویہ اور حافظ مسعودی نے بھی اشیائے کائنات میں مشابہت دیکھ کر کسی حد تک اس نظریہ ارتقاء کی حمایت کی ہے۔ (انسائیکلو پیڈیا مطبوعہ فیروز سنز، زیر عنوان ارتقائیت) کیا انسان بندر کی اولاد ہے ؟:۔ انیسویں صدی عیسوی سے پہلے یہ نظریہ ایک گمنام سا نظریہ تھا۔ انیسویں صدی میں سر چارلس ڈارون (١٨٠٨ ء۔ ١٨٨٢ ئ) نے ایک کتاب اصل الانواع (Spices of Origin) لکھ کر اس نظریہ کو باضابطہ طور پر پیش کیا۔ اس نظریہ کو ماننے والوں میں بھی کافی اختلاف ہوئے۔ ڈارون نے بندر اور انسان کو ایک ہی نوع قرار دیا کیونکہ حس و ادراک کے پہلو سے ان دونوں میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے۔ گویا ڈارون کے نظریہ کے مطابق انسان بندر کا چچیرا بھائی ہے۔ لیکن کچھ انتہا پسندوں نے انسان کو بندر ہی کی اولاد قرار دیا۔ کچھ ان سے بھی آگے بڑھے تو کہا کہ تمام سفید فام انسان تو چیمپیزی (Chimpazy) سے پیدا ہوئے ہیں۔ سیاہ فام انسانوں کا باپ گوریلا ہے اور لمبے سرخ ہاتھوں والے انسان تگنان بندر کی اولاد ہیں۔ مورخین نے تو ان مختلف اللون انسانوں کو سیدنا نوح کے بیٹوں حام، سام اور یافث کی اولاد قرار دیا تھا۔ مگر یہ حضرات انھیں چیمپیزی، گوریلا اور تگنان کی اولاد قرار دیتے ہیں۔ پھر کچھ مفکرین کا یہ خیال بھی ہے کہ انسان بندر کی اولاد نہیں بلکہ بندر انسان کی اولاد ہے۔ اس رجعت قہقری کی مثالیں بھی اس کائنات میں موجود ہیں۔ قرآن سے بھی اس نظریہ کی کسی حد تک تائید ہوجاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کچھ بدکردار اور نافرمان لوگوں کو فرمایا (كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـــِٕيْنَ 65۝ۚ ) 2 ۔ البقرة :65) تخلیق کائنات بشمولیت انسان سے متعلق تیسرا نظریہ آفت گیری (CataStrophism) ہے جس کا بانی کو پیئر (Cupier) (١٧٩٦۔ ١٨٣٢ ئ) ہے جو فرانس کا باشندہ اور تشریح الاعضاء کا ماہر تھا۔ اس کے نظریہ کے مطابق تمام اقسام کے تابئے علیحدہ علیحدہ طور پر تخلیق ہوئے۔ یہ ارضی و سماوی آفات میں مبتلا ہو کر نیست و نابود ہوگئے۔ پھر کچھ اور حیوانات پیدا ہوئے۔ یہ بھی کچھ عرصہ بعد نیست و نابود ہوگئے۔ اسی طرح مختلف ادوار میں نئے حیوانات پیدا ہوتے اور فنا ہوتے رہے ہیں (اسلام اور نظریہ ارتقاء ص ٨٥ ازاحمد باشمیل۔ ادارہ معارف اسلامی کراچی مطبوعہ البدر پبلی کیشنز لاہور) ڈارون کے نظریہ کے مطابق زندگی کی ابتداء ساحل سمندر پر پایاب پانی سے ہوئی۔ پانی کی سطح پر کائی نمودار ہوئی پھر اس کائی کے نیچے حرکت پیدا ہوئی۔ یہ زندگی کی ابتدا تھی پھر اس سے نباتات کی مختلف قسمیں بنتی گئیں۔ پھر جرثومہ حیات ترقی کرکے حیوانچہ بن گیا۔ پھر یہ حیوان بنا۔ یہ حیوان ترقی کرتے کرتے پر دار اور بازوؤں والے حیوانات میں تبدیل ہوا۔ پھر اس نے فقری جانور (ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے) کی شکل اختیار کی پھر انسان کے مشابہ حیوان بنا۔ اور اس کے بعد انسان اول بنا جس میں عقل & فہم اور تکلم کی صلاحیتیں نہیں تھیں۔ بالآخر وہ صاحب فہم و ذکاء انسان بن گیا۔ ان تمام تبدلات، تغیرات اور ارتقائے زندگی کے سفر کی مدت کا اندازہ کچھ اس طرح بتلایا جاتا ہے۔ ارتقائی انسان کتنی مدت میں وجود میں آیا ؟:۔ آج سے دو ارب سال پیشتر سمندر کے کنارے پایاب پانی میں کائی نمودار ہوئی۔ یہ زندگی کا آغاز تھا۔ ٦٠ کروڑ سال قبل یک خلوی جانور پیدا ہوئے۔ پھر ٣ کروڑ سال بعد اسفنج اور سہ خلوی جانور پیدا ہوئے۔ ٤٥ کروڑ سال قبل پتوں کے بغیر پودے ظاہر ہوئے اور اسی دور میں ریڑھ کی ہڈی والے جانور پیدا ہوئے۔ ٤٠ کروڑ سال قبل مچھلیوں اور کنکھجوروں کی نمود ہوئی۔ ٣٠ کروڑ سال قبل بڑے بڑے دلدلی جانور پیدا ہوئے۔ یہ عظیم الجثہ جانور ٤٠ فٹ لمبے اور ٣٥ ٹن تک وزنی تھے۔ ١٣ کروڑ سال بعد یا آج سے ١٧ کروڑ سال پہلے بےدم بوز نہ سیدھا ہو کر چلنے لگا (یعنی وہ بندر ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کا جد اعلیٰ ہے) اس سے ٣٠ لاکھ سال بعد یا آج سے ستر لاکھ سال پہلے اس بےدم بوز نے کی ایک قسم تپھکن تھروپس سے پہلی انسانی نسل پیدا ہوئی۔ مزید ٥٠ لاکھ سال بعد یا آج سے ٢٠ لاکھ سال پہلے پہلی باشعور انسانی نسل پیدا ہوئی۔ جس نے پتھر کا ہتھیار اٹھایا۔ مزید ٢ لاکھ سال بعد اس میں ذہنی ارتقاء ہوا اور انسانی نسل نے غاروں میں رہنا شروع کیا۔ (زریں معلومات مطبوعہ فیروز سنز ص ٧ تا ٩) ڈارون نے اپنی پہلی کتاب اصل الانواع ١٨٥٩ ء میں لکھی پھر اصل الانسان man) of in Orig) اور پھر تسلسل انسانی man) of (Decent لکھ کر اپنے نظریہ کی تائید مزید کی۔ اور اپنے اس نظریہ کو مندرجہ ذیل چار اصولوں پر استوار کیا ہے : ١۔ تنازع للبقاء existence) for Struggle) اس سے مراد زندگی کی بقا کے لیے کشمکش ہے جس میں صرف وہ جاندار باقی رہ جاتے ہیں جو زیادہ مکمل اور طاقتور ہوں اور کمزور جاندار ختم ہوجاتے ہیں مثلاً کسی جنگل میں وحشی بیل ایک ساتھ چرتے ہیں۔ ان میں سے جو طاقتور ہوتا ہے وہ گھاس پر قبضہ جما لیتا ہے اور اس طرح مزید طاقتور ہوجاتا ہے مگر کمزور خوراک کی نایابی کے باعث مزید کمزور ہو کر بالآخر ختم ہوجاتا ہے اسی کشمکش کا نام تنازع للبقاء ہے۔ ٢۔ دوسرا اصول طبعی انتخاب ( Selection Natural) ہے مثلاً اوپر کی مثال میں وہی وحشی بیل دور کی مسافت طے کرنے اور دشوار گزار راستوں سے گزرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو طاقتور اور مضبوط ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو خطرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور کمزور خود بخود ختم ہوتے جاتے ہیں گویا فطرت خود طاقتور اور مضبوط کو باقی رکھتی اور کمزور اور ناقص کو ختم کرتی رہتی ہے۔ ٣۔ ماحول سے ہم آہنگی (Adaption) اس کی مثال یوں سمجھئے کہ شیر ایک گوشت خور درندہ جانور ہے فطرت نے اسے شکار کے لیے پنجے اور گوشت کھانے کے لیے نوکیلے دانت عطا کیے ہیں۔ اب اگر اسے مدت دراز تک گوشت نہ ملے تو اس کی دو ہی صورتیں ہیں۔ یا تو وہ بھوک سے مرجائے گا یا نباتات کھانا شروع کردے گا۔ اس دوسری صورت میں اس کے تیز دانت اور پنجے رفتہ رفتہ خود بخود ختم ہوجائیں گے اور ایسے نئے اعضاء وجود میں آنے لگیں گے جو موجودہ ہیئت کے مطابق ہوں۔ اس کی آنتیں بھی طویل ہو کر سبزی خور جانوروں کے مشابہ ہوجائیں گی۔ اسی طرح اگر شیر کو خوراک ملنے کی واحد صورت یہ ہو کہ اسے کسی درخت پر چڑھ کر حاصل کرنی پڑے تو ایسے اعضاء پیدا ہونا شروع ہوجائیں گے جو اسے درختوں پر چڑھنے میں مدد دے سکیں۔ ٤۔ قانون وراثت (Heritenceof (Law اس کا مطلب یہ ہے کہ اصول نمبر ٢ یعنی ہیئت اور ماحول کے اختلاف سے جو تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں وہ نسلاً بعد نسل آگے منتقل ہوتی جاتی ہیں تاآنکہ یہ اختلاف فروعی نہیں بلکہ نوعی بن جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ نسلیں ہیں جیسے گدھا اور گھوڑا ایک ہی نوع ہے مگر گدھا گھوڑے سے اس لیے مختلف ہوگیا کہ اس کی معاشی صورت حال بھی بدل گئی اور حصول معاش کے لیے اس کی جدوجہد میں بھی اضافہ ہوگیا۔ سو یہ ہے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کا خلاصہ، جو اس وقت بھی صرف ایک نظریہ ہی تھا اور آج بھی نظریہ سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ اس نظریہ کو کوئی ایسی ٹھوس بنیاد مہیا نہیں ہوسکی جس کی بنا پر یہ نظریہ سائنس کا قانون ( Law Scientific) بن سکے اس نظریہ پر بعد کے مفکرین نے شدید اعتراض کیے ہیں مثلاً : ١۔ نظریہ ارتقاء پر اعتراضات :۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ زندگی کی ابتدا کیسے ہوگئی ؟ معلول تو موجود ہے لیکن علت کی کڑی نہیں ملتی گویا اس نظریہ کی بنیاد ہی غیر سائنسی یا ان سائینٹفک ہے۔ اس سلسلہ میں پرویز صاحب اپنی کتاب && انسان نے کیا سوچا && کے صفحہ ٥٥ پر لکھتے ہیں کہ : && یہ تو ڈارون نے کہا تھا لیکن خود ہمارے زمانے کا ماہر ارتقاء (Simpson) زندگی کی ابتدا اور سلسلہ ئعلت ومعلول کی اولیں کڑی کے متعلق لکھتا ہے کہ زندگی کی ابتداء کیسے ہوگئی ؟ نہایت دیانتداری سے اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں اس کا کچھ علم نہیں۔۔ یہ معمہ سائنس کے انکشافات کی دسترس سے باہر ہے اور شاید انسان کے حیطہ ادراک سے بھی باہر۔۔ اور میرا خیال ہے کہ ذہن انسانی اس راز کو کبھی پا نہیں سکے گا۔ ہم اگر چاہیں تو اپنے اپنے طریق پر اس علت اولیٰ (اللہ تعالیٰ ) کے حضور اپنے سر جھکا سکتے ہیں لیکن اسے اپنے ادراک کے دائرے میں کبھی نہیں لاسکتے && ٢۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ارتقاء کا کوئی ایک چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بھی آج تک انسان کے مشاہدہ میں نہیں آیا۔ یعنی کوئی چڑیا ارتقاء کرکے مرغا بن گئی ہو یا گدھا ارتقاء کرکے گھوڑا بن گیا ہو یا لوگوں نے کسی چمیپنزی یا گوریلا یا بندر یا بن مانس کو انسان بنتے دیکھا ہو۔ نہ ہی یہ معلوم ہوسکا ہے کہ فلاں دور میں ارتقاء ہوا تھا بلکہ جس طرح حیوانات ابتدائے آفرینش سے تخلیق کیے گئے ہیں آج تک اسی طرح چلے آتے ہیں اور جو اوپر ارتقائی مدت اربوں اور کروڑوں سال کے حساب سے بیان کی گئی ہے وہ محض ظن وتخمین پر مبنی ہے جسے سائینٹفک نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ بعض ایسی مثالیں ضرور مل جاتی ہیں جو اس نظریہ ارتقاء کی تردید کردیتی ہیں مثلاً حشرات الارض جیسی کمزور مخلوق کو آج تک فناہ ہوجانا چاہیے تھا مگر وہ بدستور موجود اور اپنے موسم پر پیدا ہوجاتی ہے۔ ریشم کے کیڑے کی داستان حیات اس کی پرزور تردید کرتی ہے۔ اسی طرح بعض کمتر درجے کے بحری جانور جو ابتدائے زمانہ میں پائے جاتے تھے آج بھی اسی شکل میں موجود اور اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں اسی لیے بہت سے منکرین اس نظریہ ارتقاء کے منکر ہیں اور وہ اس نظریہ کے بجائے تخلیق خصوصی (Creation Special) یعنی ہر نوع زندگی کی تخلیق بالکل الگ طور پر ہونا کے قائل ہیں۔ ٣۔ اس نظریہ پر تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ارتقائی سلسلہ کی درمیانی کڑیاں غائب ہیں۔ مثلاً جوڑوں والے اور بغیر جوڑوں والے جانوروں کی درمیانی کڑی موجود نہیں۔ فقری اور غیر فقری جانوروں کی درمیانی کڑی بھی مفقود ہے۔ مچھلیوں اور ان حیوانات کے درمیان کی کڑی بھی مفقود ہے جو خشکی اور پانی کے جانور کہلاتے ہیں اسی طرح رینگنے والے جانوروں اور پرندوں اور رینگنے والے ممالیہ جانوروں کی درمیانی کڑیاں بھی مفقود ہیں۔ اس نظریہ کی یہ وہ دشواری ہے جو سو سال سے زیر بحث چلی آرہی ہے۔ بعض نظریہ قائلین اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ درمیانی کڑی کا کام جب پورا ہو چکتا ہے تو وہ از خود غائب ہوجاتی ہے اس جواب میں جتنا وزن یا معقولیت ہے اس کا آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں۔ ٤۔ چوتھا اعتراض یہ ہے کہ اس نظریہ کی رو سے پہلا انسان کمزور جسم اور ناقص العقل ثابت کیا جاتا ہے اب سوال یہ ہے کہ اگر یہی صورت تھی تو اس نے شیروں اور چیتوں کے درمیان گزارہ کیسے کرلیا ؟ اور اس کمزوری اور بےعقلی کے باوجود وہ تنازع للبقاء میں کامیاب کیسے ہوگیا ؟ ٥۔ پانچواں اعتراض بڑا وزنی ہے جو یہ ہے کہ ابتدائے زندگی سے بندر تک جو شعوری ترقی دو ارب سال میں واقع ہوئی ہے اور بندر اور انسان کے درمیان جو شعوری فرق ہے اس کے لیے تو اس حساب سے ارب ہا سال کی مدت درکار ہے جبکہ زمین کی عمر صرف ٣ ارب سال بتلائی جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس قدر عظیم الشان ذہنی ترقی انسان میں یکدم کیونکر آگئی ؟ ٦۔ چھٹا اعتراض یہ کہ ڈارون نے ارتقاء کے جو اصول بتلائے ہیں وہ مشاہدات کی رو سے صحیح ثابت نہیں ہوتے مثلاً : الف۔ قانون وراثت کے متعلق ڈارون کہتا ہے کہ لوگ کچھ عرصہ تک کتوں کی دم کاٹتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کتے بےدم پیدا ہونے لگے۔ جس پر اعتراض یہ ہوتا ہے کہ عرب اور عبرانی لوگ عرصہ دراز سے ختنہ کرواتے چلے آئے ہیں لیکن آج تک کوئی مختون بچہ پیدا نہیں ہوا۔ ب۔ ماحول سے ہم آہنگی پر اعتراض یہ ہے کہ انسان کے پستانوں کا بدنما داغ آج تک کیوں باقی ہے جس کی کسی دور میں بھی کبھی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی۔ نیز انسان سے کمتر درجہ کے جانوروں (نروں) میں یہ داغ موجود نہیں تو انسان میں کیسے آگیا ؟ علاوہ ازیں یہ کہ ایک ہی جغرافیائی ماحول میں رہنے والے جانوروں کے درمیان فرق کیوں ہوتا ہے ؟ ٧۔ رکاز (Palaentology) کی دریافت بھی نظریہ ارتقاء کو باطل قرار دیتی ہے۔ رکاز سے مراد انسانی کھوپڑیاں یا جانوروں کے وہ پنجر اور ہڈیاں ہیں جو زمین میں مدفون پائی جاتی ہیں۔ نظریہ ارتقاء کی رو سے کمتر درجہ کے جانوروں کی ہڈیاں زمین کے زیریں حصہ میں اور اعلیٰ انسان کے رکاز زمین کے بالائی حصہ میں پائے جانے چاہئیں۔ جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے اور رکاز کی دریافت اس نظریہ کی پرزور تردید کرتی ہے۔ یہ ہیں وہ اعتراضات جنہوں نے اس نظریہ کے انجر پنجر تک ہلا دیئے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ صدی نے اس نظریہ میں استحکام کے بجائے اس کی جڑیں تک ہلا دیں ہیں۔ اب اس نظریہ کے متعلق چند مغربی مفکرین کے اقوال بھی ملاحظہ فرما لیجئے : نظریہ ارتقاء پر مغربی مفکرین کے تبصرے ١۔ ایک اطالوی سائنسدان روزا کہتا ہے کہ گذشتہ ساٹھ سال کے تجربات نظریہ ڈارون کو باطل قرار دے چکے ہیں۔ (اسلام اور نظریہ ارتقائ) ٢۔ ڈی وریز (Viries De) ارتقاء کو باطل قرار دیتا ہے وہ اس کے بجائے انتقال نوع (Mutation) کا قائل ہے جسے آج کل فجائی ارتقائ (Evelutionemergence) کا نام دیا جاتا ہے اور یہ نظریہ علت و معلول کی کڑیاں ملانے سے آزاد ہے۔ (ایضاً ، ص ٥٩) ٣۔ ول اس (Wallace) عام ارتقاء کا تو قائل ہے لیکن وہ انسان سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ (ایضاً ص ٦١) ٤۔ فرخو کہتا ہے کہ انسان اور بندر میں بہت فرق ہے اور یہ کہنا بالکل لغو ہے کہ انسان بندر کی اولاد ہے۔ (ایضاً ) ٥۔ میفرٹ کہتا ہے کہ ڈارون کے مذہب کی تائید ناممکن ہے اور اس کی رائے بچوں کی باتوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ ٦۔ آغا سیز کہتا ہے کہ ڈارون کا مذہب سائنسی لحاظ سے بالکل غلط اور بےاصل ہے اور اس قسم کی باتوں کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ (ایضاً ص ٦٢) ٧۔ ہکسلے (Huxley) کہتا ہے کہ جو دلائل ارتقاء کے لیے دیئے جاتے ہیں ان سے یہ بات قطعاً ثابت نہیں ہوتی کہ نباتات یا حیوانات کی کوئی نوع کبھی طبعی انتخاب سے پیدا ہوئی ہو۔ (ایضاً ص ٦٣) ٨۔ ٹنڈل کہتا ہے کہ نظریہ ڈارون قطعاً ناقابل التفات ہے کیونکہ جن مقدمات پر اس نظریہ کی بنیاد ہے وہ ناقابل تسلیم ہی نہیں ہیں۔ (ایضاً ص ٦٣) خنظریہ ارتقاء کی مقبولیت کے اسباب :۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ نظریہ ارتقاء اتنا ہی غیر سائینٹیفک ہے تو یہ مقبول کیسے ہوگیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا پرچار کرنے والوں میں مادہ پرست، دہریت پسند اور اشتراکیت نواز سب شامل ہوجاتے ہیں۔ دہریت مادہ پرستی، لا ادریت، اور اشتراکیت بذات خود الگ الگ مذہب ہیں۔ یہ نظریہ چونکہ الحاد اور اللہ کی ہستی سے انکار کی طرف لے جاتا ہے لہذا ان سب کو ایک دلیل کا کام دیتا ہے۔ ڈارون اصل الانواع لکھنے سے پہلے خدا پرست تھا۔ یہ کتاب لکھنے کے بعد لا ادریت کے مقام پر آگیا۔ پھر جب اور بھی دو کتابیں لکھ کر اپنے نظریہ میں پختہ ہوگیا تو اللہ تعالیٰ کی ہستی کا منکر بن گیا اور اہل کلیسا نے اس پر کفر و الحاد کا فتویٰ لگا دیا۔ نظریہ ارتقاء کی برصغیر میں درآمد اور منکرین قرآن :۔ ہمارے ہاں مغربی افکار سے مرعوب قرآنی مفکرین نے اسے فوراً اپنا لیا۔ سرسید احمد خاں نے جنہوں نے یورپ میں ایک عرصہ گزارا اور ڈارون کے ہم عصر اور سوامی دیانند سے شدید متاثر تھے اس نظریہ کو فطرت کے مطابق پایا تو اسے قبول کرلیا اور آج ادارہ طلوع اسلام سرسید کی تقلید میں اس نظریہ کے پرچار میں سرگرم ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جس نظریہ کو بہت سے مغربی مفکرین مادی اور سائنسی لحاظ سے بھی مردود قرار دے چکے ہیں اسے ہمارے قرآنی مفکرین کو حدیث سے ظنی علم کو رد کرکے اس && یقینی علم && کو سینے سے لگانے کی کیا ضرورت تھی سائنسی نظریات کا تو یہ حال ہے کہ جب وہ اپنے تجرباتی اور تحقیقی مراحل سے گزرنے کے بعد سائنسی (Law) قانون بن جاتے ہیں تب بھی انھیں آخری حقیقت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بعد میں آنے والے مفکر ایسے قوانین کو رد کردیتے ہیں۔ نیوٹن کے دریافت کردہ قانون کشش ثقل کو آئن سٹائن نے مشکوک قرار دیا یہی صورت حال اس کے قوانین حرکت کی ہے تو ایسی صورت میں ان نظریات کو تحریف و تاویل کے ذریعہ ثابت کرنا کوئی دینی خدمت یا قرآنی فکر قرار دیا جاسکتا ہے ؟ پرویز صاحب نے اس نظریہ ارتقاء کو دو شرائط کے ساتھ اپنایا ہے ایک یہ کہ پہلے جرثومہ حیات میں زندگی کسی طرح خود بخود ہی پیدا نہیں ہوگئی تھی بلکہ یہ زندگی خدا نے عطا کی تھی اور دوسری یہ کہ انسان کا فکر و شعور ارتقاء کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ نفخ خداوندی کا نتیجہ ہے اور یہ نفخ روح خداوندی فجائی ارتقاء کے طور پر واقع ہوا۔ فجائی ارتقاء کے نظریہ کا موجد موجودہ دور کا امام لائڈ مارگن ہے جس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ فجائی ارتقاء ممکن العمل ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اللہ ہی کو خالق زندگی اور نفخ روح خداوندی کو بطور فجائی ارتقاء عامل تسلیم کرنا ہے تو پھر کیوں نہ آدم (علیہ السلام) کی خصوصی تخلیق ہی کو تسلیم کرلیا جائے ؟ تاکہ نظریہ ارتقاء پر پیدا ہونے والے کئی اعتراضات کا ازالہ بھی ہوجائے۔ مثلاً یہ کہ جب نوع انسان پہلے سے چلی آرہی تھی تو کیا نفخ روح اس نوع کے سارے افراد میں ہوا تھا یا کسی فرد واحد میں ؟ اور اگر کسی فرد واحد میں ہوا تھا تو وہ کون تھا۔ اور یہ واقعہ کس دور میں ہوا تھا ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا ان حضرات کے پاس کوئی جواب نہیں۔ نظریہ ارتقاء کے حق میں قرآنی دلائل :۔ اب ہم ان قرآنی دلائل کا جائزہ لیں گے جن سے یہ حضرات اپنے اس نظریہ ارتقاء کو کشید کرتے ہیں پہلی دلیل سورة نساء کی پہلی آیت ہے && کہ اے لوگو ! اپنے اس پروردگار سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں نفس واحدہ سے پیدا کیا۔ پھر اس سے اس کا زوج بنایا پھر ان دونوں سے کثیر مرد اور عورتیں روئے زمین پر پھیلا دیئے && (٤: ١) یہ آیت اپنے مطلب میں صاف ہے کہ نفس واحدہ سے مراد آدم اور زوج سے مراد ان کی بیوی حوا ہیں اور یہی کچھ کتاب و سنت اور آثار سے معلوم ہوتا ہے مگر ہمارے یہ دوست نفس واحد سے مراد پہلا جرثومہ حیات لیتے ہیں اس جرثومہ کے متعلق نظریہ یہ ہے کہ وہ کٹ کردو ٹکڑے ہوگیا۔ پھر ان میں سے ہر ایک ٹکڑا کٹ کردو دو ٹکڑے ہوتا گیا۔ اس طرح زندگی میں وسعت پیدا ہوتی گئی۔ جو بالآخر جمادات سے نباتات، نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے انسان تک پہنچی ہے۔ یہ تصور اس لحاظ سے غلط ہے کہ آج بھی جراثیم کی افزائش اسی طرح ہوتی ہے یعنی ایک جرثومہ کٹ کردو ٹکڑے ہوتا چلا جاتا ہے پھر کسی جرثومہ کو آج تک کسی نے نباتات میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے ؟ لہذا لامحالہ ہمیں یہی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نفس واحدہ سے مراد آدم، زوج سے مراد ان کی بیوی ہے اور توالد و تناسل کے ذریعہ ان کی اولاد مرد اور عورتیں روئے زمین پر پھیل گئے۔ ٢۔ دوسری دلیل سورة علق کی ابتدائی دو آیات ہیں (&& اے محمد) اپنے پروردگار کے نام سے پڑھئے جس نے (کائنات کو) پیدا کیا اور انسان کو علق (جما ہوا خون) سے پیدا کیا && (٩٦: ١، ٢) دوسری دلیل علق کا مفہوم :۔ علق کا لغوی مفہوم نرو مادہ کے ملاپ کے بعد نطفہ کا جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کرلینا ہے۔ کہتے ہیں عَلَّقَتِ الاُنْثٰی بالْوَلَدِ مادہ حاملہ ہوگئی (المنجد) اور چونکہ یہ جما ہوا خون جونک جیسی لمبوتری شکل اختیار کرلیتا ہے لہذا جونک کو بھی علق کہہ دیتے ہیں۔ ہمارے یہ کرم فرما اس سے دوسرا معنی یعنی جونک مراد لیتے ہیں اور رحم مادر کی کیفیت قرار نہیں دیتے بلکہ ارتقائی زندگی کے سفر کا وہ دور مراد لیتے ہیں جب جونک کی قسم کے جانور وجود میں آئے اور کہتے ہیں کہ انسان انہی جانداروں کی ارتقائی شکل ہے۔ رہی یہ بات کہ آیا یہ رحم مادر کا قصہ ہے یا ارتقائے زندگی کے سفر کی داستان ہے تو اس اشکال کو قرآن ہی کی سورة مومنون کی یہ آیت دور کردیتی ہے : && پھر ہم نے نطفہ کو علق بنایا پھر علق کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر انسان کو نئی صورت میں بنادیا۔ اللہ بڑی بابرکت ہستی ہے جو سب سے بہتر خالق ہے && (٢٣ : ١٤) اب سوال یہ ہے کہ اگر علق سے مراد رحم مادر کا قصہ نہیں بلکہ وہ دور مراد ہے جب جونک کی قسم کے جانور وجود میں آئے تھے تو یہ بھی بتلانا پڑے گا کہ نطفہ سے ارتقائی سفر کا کون سا دور مراد ہے کیونکہ اللہ نے علق کو نطفہ سے بنایا ہے اور دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا قرآن کے اولین مخاطب یعنی صحابہ کرام (رض) علق سے وہ مفہوم سمجھ سکتے ہیں جو یہ حضرات آج کل ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں ؟ ٣۔ تیسری دلیل۔ اطوار مختلفہ :۔ ان حضرات کی تیسری دلیل سورة نوح کی آیت ( وَقَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا 14؀) 71 ۔ نوح :14) تمام مفسرین نے اطوار سے مراد وہ تخلیقی مراحل لیے ہیں جو رحم مادر میں واقع ہوتے ہیں جبکہ پرویز صاحب اس آیت سے ارتقائے زندگی کے مراحل مراد لیتے ہیں۔ اس پر بھی وہی سوال پیدا ہوتے ہیں جو دوسری دلیل میں بیان کئے جا چکے ہیں۔ ٤۔ چوتھی دلیل۔ زمین سے روئیدگی :۔ چوتھی دلیل سورة نوح کی یہ آیت ہے ( وَاللّٰهُ اَنْۢبَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا 17؀ۙ ) 71 ۔ نوح :17) اس کا پرویز صاحب یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ && ہم نے تمہیں زمین سے اگایا، ایک طرح کا اگانا && اور مراد یہ لیتے ہیں کہ انسان نباتات اور حیوانات کے راستہ سے ہوتا ہوا وجود میں آیا ہے۔ جہاں تک انسان کا مٹی یا زمین سے پیدا ہونے کا تعلق ہے اس میں تو کسی کو کچھ اختلاف نہیں۔ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ انبت کا معنی صرف اگانا ہے یا کچھ اور بھی ؟ لغوی لحاظ سے یہ لفظ خلق یعنی پیدا کرنے کے معنوں میں بھی آتا ہے کہتے ہیں نبت ثدی الجاریۃ بمعنی لڑکی کے پستان پیدا ہوگئے یا ابھر آئے۔ چناچہ اکثر مفسرین نے انبت کا معنی پیدا کرنا ہی لکھا ہے پھر اس لفظ کا معنی اچھی طرح پرورش کرنا بھی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّاَنْۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَـنًا ۙ وَّكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ڝ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ ۙ وَجَدَ عِنْدَھَا رِزْقًا ۚ قَالَ يٰمَرْيَـمُ اَنّٰى لَكِ ھٰذَا ۭ قَالَتْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ 37؀) 3 ۔ آل عمران :37) && تو اللہ نے مریم کو پسندیدگی سے قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا && لہذا یہ آیت بھی ذومعنی ہونے کی بنا پر نظریہ ارتقاء کے لیے دلیل نہیں بن سکتی۔ ٥۔ پانچویں دلیل نسل انسانی کے بعد فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنا :۔ پرویز صاحب کی پانچویں دلیل سورة اعراف کی یہ آیت ہے : (وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰئِکَۃِ اسْجُدُوْا لاِدَمَ ) (٧: ١١) && اور ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری شکل وصورت بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو && اس سے آپ ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ آیت مذکورہ میں جمع کا صیغہ اس بات کی دلیل ہے کہ آدم سے پہلے نوع انسانی موجود تھی کیونکہ فرشتوں کو سجدہ کا حکم بعد میں ہوا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سورة اعراف کی ابتدا میں دور نبوی کے تمام موجود انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ && اپنے پروردگار کی طرف سے نازل شدہ وحی کی تابعداری کرو && پھر آگے چل کر آدم آپ کی بیوی اور ابلیس کا قصہ مذکور ہے تو قرآن میں حسب موقع صیغوں کا استعمال ہوا۔ ان آیات کے مخاطب آدم اور ان کی اولاد ہے نہ کہ آدم اور ان کے آباء و اجداد اور بھائی بند۔ جو پرویز صاحب کے خیال کے مطابق اس جنت میں رہتے تھے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : && اے آدم ! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو && (٢: ٢٥) اگر آدم اور آدم کے آباء و اجداد پہلے ہی اس جنت میں رہتے تھے تو صرف آدم اور اس کی بیوی کو جنت میں رہنے کی ہدایت بالکل بےمعنی ہوجاتی ہے۔ نظریہ ارتقاء کے ابطال پر قرآنی دلائل :۔ اب ہم قرآن سے ایسے دلائل پیش کریں گے جن سے نظریہ ارتقاء باطل قرار پاتا ہے۔ تخلیق انسانی کے مراحل :۔ پہلی دلیل تخلیق انسانی کے وہ مراحل ہیں جو قرآن سے معلوم ہوتے ہیں اور وہ مٹی پر ہی وارد ہونے والی مختلف صورتیں ہیں اور وہ یہ ہیں : ١۔ اللہ نے انسان کو تراب یعنی خشک مٹی سے پیدا کیا۔ (٤٠: ٦٧) ٢۔ ارض یعنی زمین یا عام مٹی سے پیدا کیا۔ (٧١: ١٧) ٣۔ اسے طین یعنی گیلی مٹی یا گاڑے سے پیدا کیا۔ (٦: ٢) ٤۔ اسے طین لازب یعنی لیسدار اور چپکدار مٹی سے پیدا کیا۔ (٣٧: ١١) ٥۔ اسے حماٍ مسنون بمعنی بدبودار مٹی اور گلے سڑے کیچڑ سے پیدا کیا۔ (١٥: ٢٦) ٦۔ اسے صلصال یعنی حرارت سے پکائی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (١٥: ٢٦) ٧۔ اسے صلصال کالفخار یعنی ٹن سے بجنے والی ٹھیکری سے پیدا کیا۔ (٥٥: ١٤) یہ ہیں وہ مٹی پر وارد ہونے والے اطوار یا مراحل جن کا قرآن نے ذکر کیا کہ ان اطوار کے بعد آدم کا پتلا تیار ہوا تھا۔ اور یہ ساتوں مراحل بس جمادات میں ہی پورے ہوجاتے ہیں۔ مٹی میں پانی کی آمیزش ضرور ہوئی لیکن بعد میں وہ پوری طرح خشک کردیا گیا۔ اب دیکھئے ان مراحل میں کہیں نباتات اور حیوانات کا ذکر آیا ہے کہ اس راستہ سے انسان وجود میں آیا ہے ؟ ٢۔ دوسری دلیل درج ذیل آیات ہے : (ھَلْ اَتٰی عَلَی الاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یِکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا) 76 ۔ الدهر |"1) && بلاشبہ انسان پر زمانے سے ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا && ٢۔ تخلیق انسان سے پہلے کا زمانہ قابل ذکر چیز نہیں :۔ اب دیکھئے دھر سے مراد وہ زمانہ ہے جس کا آغاز زمین و آسمان کی پیدائش سے ہوا۔ اور عصر سے مراد وہ زمانہ ہے جس کا آغاز تخلیق آدم سے ہوا۔ کیونکہ اللہ نے انسانی افعال و اعمال پر عصر کو بطور شہادت پیش کیا ہے۔ دہر کو نہیں کیا۔ ارشاد باری ہے کہ اس دہر میں انسان پر ایسا وقت بھی آیا ہے۔ جبکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔ اگر وہ نباتات، حیوانات یا بندر کی اولاد ہوتا تو یہ سب چیزیں قابل ذکر ہیں اور ان مراحل میں اربوں سال بھی صرف ہوئے تو ان کا نام لینے میں کیا حرج تھا ؟ ہمارے خیال میں یہی آیت ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو کلی طور پر مردود قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ ٣۔ نظریہ ارتقاء کے ابطال پر تیسری دلیل یہ آیت ہے : ( قَالَ يٰٓـاِبْلِيْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۭ اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِيْنَ 75؀) 38 ۔ ص :75) اللہ نے فرمایا : && اے ابلیس ! جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اسے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا ؟ && آدم کی خصوصی تخلیق :۔ معتزلین اور پرویزی حضرات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ تسلیم کرنے کے قائل نہیں لہذا وہ لفظ ید کا ترجمہ قوت یا قدرت یا دست قدرت سے کرلیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہاں بیدی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی && اپنے دونوں ہاتھوں سے && اب اگر ید کا معنی قوت یا قدرت کیا جائے تو اس لفظ کا کیا مفہوم ہوگا کہ جسے میں نے دو قوتوں یا دو قدرتوں سے بنایا ہے ؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز کو اپنی قدرت اور قوت ہی سے بنایا ہے پھر صرف سیدنا آدم کے متعلق خصوصی ذکر کی کیا ضرورت تھی کہ میں نے آدم کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ ٤۔ نظریہ ارتقاء کے ابطال پر چوتھی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے : ( اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ 59؀) 3 ۔ آل عمران :59) && اللہ کے ہاں عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے جسے اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر کہا (انسان) بن جا تو وہ انسان بن گئے && آدم کی بن باپ تخلیق :۔ ٩ ھ میں نجران کے عیسائی رسول اللہ کے پاس مدینہ آئے اور ابنیت مسیح کے موضوع پر آپ سے مناظرہ کی ٹھانی۔ عیسائی بھی سیدنا عیسیٰ کی بن باپ پیدائش کے قائل تھے اور مسلمان بھی۔ عیسائیوں کی دلیل یہ تھی کہ جب تم مسلمان یہ تسلیم کرتے ہو کہ عیسیٰ کا باپ نہ تھا اور یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے تو بتاؤ اگر وہ اللہ کے بیٹے نہ تھے تو ان کا باپ کون تھا ؟ اسی دوران یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا کہ اگر باپ کا نہ ہونا ہی اللہ کے بیٹے یا الوہیت مسیح کی دلیل بن سکتا ہے تو آدم الوہیت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ان کی باپ کے علاوہ ماں بھی نہ تھی۔ لیکن تم آدم کو الٰہ نہیں کہتے تو عیسیٰ کیسے الٰہ ہوسکتے ہیں ؟ مگر آج کے مسلمانوں میں ایک فرقہ ایسا ہے جو آدم کی بن باپ پیدائش کو تسلیم کرتا ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں مگر سیدنا عیسیٰ کی بن باپ پیدائش کو تسلیم نہیں کرتا اور دوسرا مفکرین قرآن کا ہے جو نہ عیسیٰ کی بن باپ پیدائش کے قائل ہیں اور نہ سیدنا آدم کی بن ماں باپ پیدائش کے۔ اس آیت میں ان دونوں فرقوں کا رد موجود ہے۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ کی پیدائش کو آدم کی پیدائش کے مثل قرار دیا ہے اور اس مثلیث کی ممکنہ صورتیں یہ ہوسکتی ہیں : ١۔ دونوں کی پیدائش مٹی سے ہے۔ یہ توجیہہ اس لیے غلط ہے کہ تمام انسانوں کی پیدائش مٹی سے ہوئی اس میں آدم و عیسیٰ کو کوئی خصوصیت نہیں۔ ٢۔ دونوں کی پیدائش ماں باپ کے ذریعہ ہوئی ہو۔ یہ توجیہہ اس لیے غلط ہے کہ انسان کی پیدائش کے لیے عام دستور یہی ہے اور اس میں بھی آدم و عیسیٰ کی کوئی خصوصیات نہیں۔ ٣۔ اب تیسری صورت یہ رہ جاتی ہے کہ دونوں کا باپ نہ ہونا تسلیم کیا جائے اور یہی ان دونوں کی پیدائش میں مثلیت کا پہلو نکل سکتا ہے جس میں دوسرے انسان شامل نہیں۔ اس طرح یہ آیت بھی نظریہ ارتقاء کو مکمل طور پر مردود قرار دیتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ ۔۔ : یعنی جب میں اسے برابر کرلوں، مکمل بنا لوں۔ ” مِنْ رُّوْحِيْ “ اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں۔ یہاں ” رُّوْحِيْ “ میں ” رُوْحٌ“ کی ” یاء “ کی طرف اضافت، اضافت تشریفی کہلاتی ہے، یعنی اس کا عزو شرف بڑھانے کے لیے اسے اپنی روح قرار دیا، یہاں ” میری روح “ سے مراد اللہ تعالیٰ کی مخلوق روح ہے، کیونکہ اس کی ذات کی مثل تو کوئی چیز نہیں، وہ ”ۚلَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ “ ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی ذاتی روح تو کسی صورت مراد نہیں ہوسکتی، صرف آدم ہی نہیں دوسری جگہ ہر انسان کی روح کو اللہ نے اپنی روح قرار دیا ہے، فرمایا : (ثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ ) [ دیکھیے السجدۃ : ٧ تا ٩ ] اور ظاہر ہے کہ انسان مخلوق ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ ساری زمین اور اس کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، مگر مسجد حرام کو بیت اللہ (اللہ کا گھر) اور صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کو اللہ کی اونٹنی قرار دیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Blowing of Spirit into the Human Body and Making Angels Prostrate to him: A Brief Review Is the spirit (Ruh) a physical entity, or pure essence? On this subject, there has been a difference of opinion among the learned since a long time. According to Ash-Shaykh ` Abd Al-Rauf Al-Munawi, there are upto a thousand positions taken by them. But, they are all based on conjec¬tures. None of them can be called certain. Imam Al-Ghazali, Imam Razi and mystic scholars and thinkers maintain that it is no physical entity. It is pure essence. Imam Razi has advanced twelve arguments in support of this view. But, the majority of the ` Ulama& of the Muslim Ummah declare Ruh (spirit, soul) to be a highly refined physical entity. The word: (nafkh) means to blow, to breathe into. If we were to go by the consensus of the majority of Ulama and take Ruh to be a refined physical entity, then breathing into it becomes evident by itself. And if we were to accept it to be pure essence, then breathing into it would mean establishing its con¬nection to the body. (Bayan a1-Qur&an) Ruh (spirit) and Nafs (self): The View of Qagli Than& ullah (رح) Leaving this long-winding debate aside, we consider it sufficient to refer the reader to a special research presented by Qadi Thana&ullah Panipati (رح) in his Tafsir Mazhari. The respected commentator says that Ruh has two kinds: (1) Higher (`’ Ulwi) and (2) Lower (Sifli). The higher Ruh is bereft of matter and is a creation of Allah Ta’ ala the comprehension of whose reality is difficult. The masters of insight by illumination (ahl al-kashf) see its real station to be above the Throne (&Arsh عَرش) because it is more refined than the ` Arsh. And this higher Ruh, as seen through illumination, is sensed in five de¬grees at upper and lower levels. Their number is five and they are: (1) The heart (Qalb) (2) The spirit (Ruh) (3) The mystery (Sirr) (4) The se¬cret (Khafii) (5) The most secret (Akhfa). These are all from the refine-ments of the domain of Divine command towards which the Holy Qur’ an has hinted by declaring: قُلِ الرُّ‌وحُ مِنْ أَمْرِ‌ رَ‌بِّي (Say, |"The spirit is from the com¬mand of my Lord - 17:85). As for the lower Ruh, it is a refined vapour which emerges from the combination of the four elements of the human body, that is, from fire, water, dust and air, and this lower Ruh is called the self (nafs). Allah Ta’ ala has made this lower spirit called self a mirror of the higher spirits mentioned above. An illustration would make it clear. If we were to hold a mirror against the sun, then, despite that the sun is far far away, its reflection comes into the mirror. And because of the light, that too starts glowing like the sun. It even receives the heat of the sun in it which could burn a piece of cloth. The same thing applies to the higher spirits. Though they are, because of their purity and detachment, very high and elevated in station, and far distant too, yet their reflection appears in the mirror of the lower spirit and transfers the states and ef¬fects of the higher spirits into it. When these very effects take root in human selves, they become known as subordinate parts of each individu¬al&s spirit. Then, this lower form of spirit which is identified as Nafs or self armed with the states and effects which it has acquired from the higher forms of spirits first gets connected with the heart muscle of the human body. This connection itself is another name for life. Once the lower spir¬it relates to the human heart, it infuses in it life and cognitions which it has acquired from the higher spirits. This lower spirit then starts cir¬culating through the thin veins spread throughout the body and thus reaches every part of it. It is this infusion of the lower spirit into the human body which has been called the &blowing or breathing of the spirit& (نَفَخ اَلرُوح): the nafkh of ruh) because it bears close resemblance to blowing or breathing into something. And, in the present verse, Allah Ta’ ala has attributed the spirit to Himself. He has said: مَن رُوحِی (from My spirit) so that the superior stat¬us of the human spirit out of the entire creation becomes evident - because, it has come into existence, without any material substance, only under Divine command. In addition to that, it has a unique ability to ac¬cept and absorb the manifestations of Divine light, an ability which does not exist in the spirit of any other living creature other than that of the human person. Though, dust is the dominant element in the creation of man - and that is why the creation of man has been attributed to clay - but, the re¬ality is that man is a combination of ten elements out of which five be-long to the universe of creation (عَالم الخلق) while the other five to the uni¬verse of Divine command (& عَالم الأمر). The four elements of the universe of creation are fire, water, dust and air. The fifth is the refined vapour from these four which is called the lower spirit or nafs. As for the five ele¬ments of the universe of Divine command mentioned above, they are: (1) heart (qalb) (2) spirit (ruh) (3) mystery (sirr) (4) secret (khafiyy) (5) totally hidden (akhfa). It is because of this comprehensive making of the human model that man became deserving of Divine vice-regency, and very much capable of absorbing the light which helps him know his Lord and, of course, sus¬taining his own burning quest on the path of love and longing for Him. The outcome, though unspecified as to its actual state, is communion with the Divine because the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: اَلمَرُء مَعَ مَن اَحَبَّ (One shall be with whoever one loves). And since human beings have the ability to absorb the manifesta¬tions of Divine light, and since they have been given the honour of being in communion with the Divine, it came to be the dictate of Divine wis¬dom that man be made the object of prostration by the angels. It was said: فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ & (you fall down before him, prostrating - 29)

معارف و مسائل : بدن انسانی میں نفخ روح اور اس کو مسجود ملائکہ بنانے کی مختصر تحقیق : روح کوئی جسم ہے یا جوہر مجرد اس میں علماء وحکماء کا اختلاف قدیم زمانے سے چلا آتا ہے شیخ عبد الرءوف منادی نے فرمایا کہ اس میں حکماء کے اقوال ایک ہزار تک پہنچنے ہیں مگر سب قیاسات اور تخمینے ہی ہیں کسی کو یقینی نہیں کہا جاسکتا امام غزالی، امام رازی اور عموما صوفیہ اور فلاسفہ کا قول یہ ہے کہ وہ جسم نہیں بلکہ جوہر مجرد ہے امام رازی نے اس کے بارہ دلائل پیش کئے ہیں مگر جمہور علماء امت روح کو ایک جسم لطیف قرار دیتے ہیں نفخ کے معنی پھونک مارنے کے ہیں اگر بقول جمہور روح کو جسم لطیف قرار دیا جائے تو اس کو پھونکنا ظاہر ہے اور جوہر مجرد مان لیا جائے تو پھونکنے کے معنی اس کا بدن سے تعلق پیدا کردینا ہوگا (بیان القرآن) روح اور نفس کے متعلق حضرت قاضی ثناء اللہ کی تحقیق : یہاں اس طویل الذیل بحث کو چھوڑ کر ایک خاص تحقیق پر اکتفاء کیا جاتا ہے جو تفسیر مظہری میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تحریر فرمائی ہے حضرت قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ روح کی دو قسم ہیں، علوی اور سفلی، روح علوی مادہ سے مجرد اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے جس کی حقیقت کا ادراک مشکل ہے اہل کشف کو اس کا اصل مقام عرش کے اوپر دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ عرش سے زیادہ لطیف ہے اور روح علوی بنظر کشفی اوپر نیچے پانچ درجات میں محسوس کی جاتی ہے وہ پانچ یہ ہیں قلب، روح، سر، خفی، اخفی، اور یہ سب عالم امر کے لطائف میں سے ہیں جس کی طرف قرآن کریم نے اشارہ فرمایا ہے (آیت) قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ اور روح سفلی وہ بخار لطیف ہے جو بدن انسانی کے عناصر اربعہ آگ پانی مٹی ہوا سے پیدا ہوتا ہے اور اسی روح سفلی کو نفس کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس روح سفلی کو جسے نفس کہا جاتا ہے ارواح علویہ مذکورہ کا آئینہ بنادیا ہے جس طرح آئینہ جس آفتاب کے مقابل کیا جائے تو آفتاب کے بہت بعید ہونے کے باوجود اس میں آفتاب کا عکس آجاتا ہے اور روشنی کی وجہ سے وہ بھی آفتاب کی طرح چمک اٹھتا ہے اور آفتاب کی حرارت بھی اس میں آجاتی ہے جو کپڑے کو جلا سکتی ہے اسی طرح ارواح علویہ اگرچہ اپنے تجرد کی وجہ سے بہت اعلیٰ وارفع اور بہت مسافت بعیدہ پر ہیں مگر ان کا عکس اس روح سفلی کے آئینہ میں آ کر ارواح علویہ کی کیفیات وآثار اس میں منتقل کردیتا ہے اور یہی آثار جو نفوس میں پیدا ہوجاتے ہیں ہر ہر فرد کے لئے ارواح جزئیہ کہلاتے ہیں پھر یہ روح سفلی جس کو نفس کہتے ہیں اپنی ان کیفیات وآثار کے ساتھ جن کو ارواح علویہ سے حاصل کیا ہے اس کا تعلق بدن انسانی میں سب سے پہلے مضغہ قلبیہ سے ہوتا ہے اور اس تعلق ہی کا نام حیات اور زندگی ہے روح سفلی کے تعلق سے سب سے پہلے انسان کے قلب میں حیات اور وہ ادراکات پیدا ہوتے ہیں جن کو نفس نے ارواح علویہ سے حاصل کیا ہے یہ روح سفلی پورے بدن میں پھیلی ہوئی باریک رگوں میں سرایت کرتی ہے جن کو شرائین کہا جاتا ہے اور اس طرح وہ تمام بدن انسانی کے ہر حصہ میں پہنچ جاتی ہے۔ روح سفلی کے بدن انسانی میں سرایت کرنے ہی کو نفخ روح سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ یہ کسی چیز میں پھونک بھرنے سے بہت مشابہ ہے۔ اور آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے روح کو اپنی طرف منسوب کر کے من روحی اسی لئے فرمایا ہے کہ تمام مخلوقات میں روح انسانی کا اشرف واعلیٰ ہونا واضح ہوجائے کیونکہ وہ بغیر مادے کے محض امر الہی سے پیدا ہوئی ہے نیز اس میں تجلیات رحمانیہ کے قبول کرنے کی ایسی استعداد ہے جو انسان کے علاوہ کسی دوسرے جاندار کی روح میں نہیں ہے۔ اور انسان کی پیدائش میں اگرچہ عنصر غالب مٹی کا ہے اور اسی لئے قرآن عزیز میں انسان کی پیدائش کو مٹی کی طرف منسوب کیا گیا ہے لیکن درحقیقت وہ دس چیزوں کا جامع ہے جن میں پانچ عالم خلق کی ہیں اور پانچ عالم امر کی عالم خلق کے چار عنصر آگ پانی مٹی ہوا اور پانچواں ان چاروں سے پیدا ہونے والا بخار لطیف جس کو روح سفلی یا نفس کہا جاتا ہے اور عالم امر کی پانچ چیزیں وہ ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے یعنی قلب، روح، سر، خفی، اخفی، اسی جامعیت کے سبب انسان خلافت الہیہ کا مستحق بنا اور نور معرفت اور نار عشق و محبت کا متحمل ہوا جس کا نتیجہ بےکیف معیت الہیہ کا حصول ہے کیونکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (المرء مع من احب) یعنی ہر انسان اس فرد کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہے۔ اور انسان میں تجلیات الہیہ کی قابلیت اور معیت الہیہ کا جو درجہ اس کو حاصل ہے اسی کی وجہ سے حکمت الہیہ کا تقاضا یہ ہوا کہ اس کو مسجود ملائکہ بنایا جائے ارشاد ہوا (آیت) فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ 29؀ سوا الْمُسَاوَاةُ : المعادلة المعتبرة بالذّرع والوزن، والکيل، وتَسْوِيَةُ الشیء : جعله سواء، إمّا في الرّفعة، أو في الضّعة، وقوله : الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] ، أي : جعل خلقتک علی ما اقتضت الحکمة، وقوله : وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] ، فإشارة إلى القوی التي جعلها مقوّمة للنّفس، فنسب الفعل إليها، وکذا قوله : فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، ( س و ی ) المسا واۃ کے معنی وزن کیل یا مسا حت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونے کے ہیں التسویۃ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے ہیں اور آیت : ۔ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] دو ہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور تیرے اعضاء کو ٹھیک کیا ۔ میں سواک سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے اقتضاء کے مطابق بنایا اور آیت : ۔ وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے قوی کو برابر بنایا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] جب اس کو ( صورت انسانیہ میں ) درست کرلوں اور اس میں ( اپنی بےبہا چیز یعنی ) روح پھونک دوں ۔ نفخ النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ( ن ف خ ) النفخ کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر/ 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔ روح الرَّوْحُ والرُّوحُ في الأصل واحد، وجعل الرّوح اسما للنّفس، وذلک لکون النّفس بعض الرّوح کتسمية النوع باسم الجنس، نحو تسمية الإنسان بالحیوان، وجعل اسما للجزء الذي به تحصل الحیاة والتّحرّك، واستجلاب المنافع واستدفاع المضارّ ، وهو المذکور في قوله : وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء/ 85] ، وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وإضافته إلى نفسه إضافة ملك، وتخصیصه بالإضافة تشریفا له وتعظیما، کقوله : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج/ 26] ، ويا عِبادِيَ [ الزمر/ 53] ( رو ح ) الروح والروح دراصل ایک ہی ہیں ( روح کا اطلاق سانس پر ہوتا ہے اور سانس بھی چونکہ روح کا ایک جزء ہے اس لئے مجازا اسے روح کہہ دیا ہے جیسا کہ نوع کو اسم جنس سے تعبیر کرلیتے ہیں مثلا تسمیۃ الانسان بالحیوان اور کبھی روح کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جس کے ذریعہ زندگی حرکت منافع کا حصوال ومضرات سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء/ 85] اور تجھ سے روح کی حقیقت دریافت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ یہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] اور میں نے اس میں اپنی ( طرف سے ) روح پھونک دی ۔ میں روح کے یہی معنی مراد ہیں اور اللہ تعالٰیے کا اسے اپنی ذات کی طرف منسوب کرنا اضافت ملک کے طور پر ہے جس سے اس کی شرافت کا اظہار مقصود ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج/ 26] میں بیت کیا اضافت اپنی ذات کی طرف کی ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ويا عِبادِيَ [ الزمر/ 53] اے میرے بند و جنہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی ۔ میں عباد کی نسبت بھی یا متکلم ( ذات باری تعالیٰ ) کی طرف اضافت تشریفی ہے ۔ وقع الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة/ 1- 2] ، ( و ق ع ) الوقوع کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔ إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة/ 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٩) سو جب میں اس کو پورا یعنی اس کے ہاتھوں پیروں، آنکھوں وغیرہ کو بنالوں اور اس میں اپنی طرف سے جان ڈال دوں، سو تم سب اس کو سجدہ تحیہ کرنا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ (فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ ) کسی بھی تخلیق کے بعد اس کا تسویہ ضروری ہوتا ہے۔ پہلے بنیادی ڈھانچہ بنایا جاتا ہے اور پھر اس کی نوک پلک سنواری جاتی ہے۔ جیسے ایک عمارت کا ڈھانچہ کھڑا کرنے کے بعد اس کی آرائش و زیبائش کی جاتی ہے اور رنگ و روغن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19. “And have breathed into him of My Spirit” means when I have cast a reflection of My divine characteristics on him. This shows that the soul of man implies life, knowledge, power, will, discretion and other human characteristics in the aggregate. These are in reality a slight reflection of divine characteristics that has been cast on the human body, which was originally created from dried clay. And it is this divine reflection on the human body which has raised him to the position of the vicegerent of Allah and made him that worthy being before whom angels and every earthly thing should bow down. As a matter of fact, the source of each characteristic of everything is one divine characteristic or the other, as is borne by a tradition: Allah divided mercy into one hundred parts: then He reserved ninety-nine parts for Himself and sent down the remaining one part to the earth. It is because of that one part that the creatures show mercy to one another. So much so that it is due to this that an animal refrains from placing the hoof on its young ones. In this connection one has to be on strict guard against the notion that the possession of a part of any divine characteristic amounts to the possession of a part of Godhead. This is because Godhead is absolutely beyond the reach of each and every creation.

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :19 اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفات الہٰی کا ایک عکس یا پرتَو ہے ۔ حیات ، علم ، قدرت ، ارادہ ، اختیار اور دوسری جتنی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں ، جن کے مجموعہ کا نام روح ہے ، یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتو ہے جو اس کا لبد خاکی پر ڈالا گیا ہے ، اور اسی پرتَو کی وجہ سے انسان زمین پر خدا کا خلیفہ اور ملائکہ سمیت تمام موجودات ارضی کا مسجود قرار پایا ہے ۔ یوں تو ہر صفت جو مخلوقات میں پائی جاتی ہے ، اس کا مصدر و منبع اللہ تعالیٰ ہی کی کوئی نہ کوئی صفت ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جَعَلَ اللہْ الرَّحْمَۃَ مِأَ ۃَ جُزْءٍ فَاَمْسَکَ عِنْدَہ تِسْعَۃً وَّ تِسْعِیْنَ وَاَنْزَلَ فِی الْاَرْضِ جُزْ ءً ا وَّ احِدًا فَمِنْ ذٰلِکَ الْجُزْ ءِ یَتَرَ ا حَمُ الْخَلَا ئِقُ حَتّٰی تَرْفَعُ الدَّآ بَّۃُ حَا فِرَ ھَا عَنْ وَّلَدِھَا خَشْیَۃِ اَنْ تُصِیْبَہ ( بخاری و مسلم ) ۔ ” اللہ تعالیٰ نے رحمت کو سو حصوں میں تقسیم فرمایا ، پھر ان میں سے ۹۹ حصے اپنے پاس رکھے اور صرف ایک حصہ زمین میں اتارا ۔ یہ اسی ایک حصے کی برکت ہے کہ جس کی وجہ سے مخلوقات آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر جانور اپنے بچے پر سے اپنا کھرا اٹھاتا ہے تاکہ اسے ضرر نہ پہنچ جائے ، تو یہ بھی دراصل اسی حصہ رحمت کا اثر ہے“ ۔ مگر جو چیز انسان کی دوسری مخلوقات پر فضیلت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ جس جامعیت کے ساتھ اللہ کی صفات کا پرتو اس پر ڈالا گیا ہے اس سے کوئی دوسری مخلوق سرفراز نہیں کی گئی ۔ یہ ایک ایسا باریک مضمون ہے جس کے سمجھنے میں ذرا سی غلطی بھی آدمی کر جائے تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ صفات الہٰی میں سے ایک حصہ پانا الوہیت کا کوئی جز پالینے کا ہم معنی ہے ۔ حالانکہ الوہیت اس سے وراء الوراء ہے کہ کوئی مخلوق اس کا ایک ادنیٰ شائبہ بھی پا سکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:29) سویتہ۔ سویت۔ ماضی واحد متکلم ۔ تسویۃ (تفعیل) سے ہُ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ میں نے اس کو پورا پورا بنادیا۔ میں اس کو پورا پورا بنا دوں (ماضی بمعنی مستقبل) سوی مادہ۔ نفخت۔ ماضی واحد متکلم نفخ سے (باب نصر) جب میں پھونک دوں۔ ماضی بمعنی مستقبل ۔ قعوا۔ امر جمع مذکر حاصر وقوع مصدر (دقع ثلاثی مجرد مثال وادی) باب فتح۔ وقع یقع سے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر قع ہوگا۔ قاعدہ : اگر علامت مضارع کا مابعد متحرک ہے تو آخر کو جزم دے دیں گے جیسے وھب یھب سے ھب۔ ربنا ھب لنا من الدنک رحمۃ) قع امرو احد مذکر حاضر سے جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہوا قعوا گرپڑو۔ یعنی تم بلاتاخیر سجدے میں گر پڑو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ اولا ً انسان کی تخلیق کو بطور دلیل ذکر فرمایا۔ اب اس کے بعد اس کا قصہ ذکر فرمادیا۔ (رازی) یہاں آدم میں جو روح پھونکی گئی اس کی ” روحی “ فرما کر اپنی طرف نسبت کیا ہے تو یہ نسبت صرف تشریف و تکریم اور انسانی روح کا امتیاز ظاہر کرنے کے لئے ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح حضرت صالح کیا انٹنی کو ” ناقہ اللہ “ اور خانہ کعبہ کو ” بیت اللہ “ کہا گیا۔ (کذافی الشوکانی) ۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : ” اپنی جان “ یعنی خاص جس میں نمونہ ہے اللہ تعالیٰ کی صفات کا، علم اور تدبیر اور یاد حق کی اور لگائو اللہ سے۔ (از موضح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

29 ۔ پھر جب میں اس کو درست کر دوں اور اس کے اعضاء جسمانیہ کو ایک تناسب کے ساتھ پورا کر دوں اور اس پتلے میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں اور اس پر روح کا فیضان کر دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گرپڑنا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اپنی جان یعنی خاص جس میں نمونہ ہے اللہ کی صفات کا علم اور تدبیر اور راہ حق کی اور اللہ سے لگائو۔ 12 خلاصہ ! یہ کہ جب اس کو ہم تسویہ اعضاء اور نفح روح سے مکمل کردیں تب اس کے روبرو سجدے میں دفع ہوجانا۔