Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 31

سورة الحجر

اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَ ﴿۳۱﴾

Except Iblees, he refused to be with those who prostrated.

مگر ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شمولیت کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلاَّ تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Command to Prostrate was Given to Angels - Iblis was to Follow Suit Addressing Iblis in Surah Al-A` raf, it was said: مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْ‌تُكَ (What stopped you from prostrating when I ordered you? - 7:12). This shows that the command to prostrate was given, along with the angels, to Iblis as well. However, the verses you have gone through a little earli¬er apparently give the sense that the command was particular to the an-gels. This could mean that the command was originally given to the angels but, as Iblis too was present among the angels, therefore, he too was covered by this command as a corollary - because, when the command went forth for the most august creation of Allah Ta’ ala, that is, the an-gels, that they pay their homage to Sayyidna &Adam (علیہ السلام) ، it was obvious that any other creation was bound to follow suit under this command. It was for this reason that Iblis did not respond by saying that he was never asked to prostrate to begin with, so he could not be charged with the crime of non-compliance of the order. Perhaps, the words of the Qur’ an here: & أَبَىٰ أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ & (He refused to be among those who pros¬trated - 30) may contain a hint in that direction. Rather than say: أَبَىٰ أَن یَّسجُدَ 1 that is, &he refused to prostrate&, what was actually said was: & أَبَىٰ أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ & he refused to be among those who prostrated. This indi¬cates that the main prostraters were after all the angels but Iblis too, being present with them, was reason-bound to join the prostrating an-gels. So, the Divine wrath was against his failure to join.

حکم سجدہ فرشتوں کو ہوا تھا ابلیس اس میں تبعا شامل قرار دیا گیا : سورة اعراف میں ابلیس کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا ہے مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سجدہ کا حکم فرشتوں کے ساتھ ابلیس کو بھی دیا گیا تھا اسی لئے اس سورت کی جو آیات ابھی آپ نے پڑھی ہیں جن سے بظاہر اس حکم کا فرشتوں کے لئے مخصوص ہونا معلوم ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اصالۃً یہ حکم فرشتوں کو دیا گیا مگر ابلیس بھی چونکہ فرشتوں کے اندر موجود تھا اس لئے تبعا وہ بھی اس حکم میں شامل تھا کیونکہ آدم (علیہ السلام) کی تعظیم و تکریم کے لئے جب اللہ تعالیٰ کی بزرگ ترین مخلوق فرشتوں کو حکم دیا گیا تو دوسری مخلوق کا تبعا اس حکم میں داخل ہونا بالکل ظاہر تھا اسی لئے ابلیس نے جواب میں یہ نہیں کہا کہ مجھے سجدہ کا حکم دیا ہی نہیں گیا تو عدم تعمیل کا جرم مجھ پر عائد نہیں ہوتا اور شاید قرآن کریم کے الفاظ (آیت) اَبٰٓى اَنْ يَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ میں اس کی طرف اشارہ ہو کہ اَبٰٓى اَنْ یسجُدَ کے بجائے اَنْ يَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ ذکر فرمایا جس سے اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ اصل ساجدین تو فرشتے ہی تھے مگر عقلا لازم تھا کہ ابلیس بھی جب ان میں موجود تھا تو وہ بھی ملائکہ ساجدین کے ساتھ شامل ہوجاتا اس کے عدم شمول پر عتاب فرمایا گیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ اَبٰٓى اَنْ يَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ 31؀ أبى الإباء : شدة الامتناع، فکل إباء امتناع ولیس کل امتناع إباءا . قوله تعالی: وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة/ 32] ، وقال : وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقوله تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] ، وقوله تعالی: إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى [ طه/ 116] ( اب ی ) الاباء ۔ کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکارکرنا ہیں ۔ یہ لفظ الامتناع سے خاص ہے لہذا ہر اباء کو امتناع کہہ سکتے ہیں مگر ہر امتناع کو اباء نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے ۔ { وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ } [ التوبة : 32] اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں ۔ { وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ } ( سورة التوبة 8) لیکن ان کے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔{ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ } [ البقرة : 34] اس نے سخت سے انکار کیا اور تکبیر کیا {إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى } [ البقرة : 34] مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔ ایک روایت میں ہے (3) کلکم فی الجنۃ الامن ابیٰ ( کہ ) تم سب جنتی ہو مگر وہ شخص جس نے ( اطاعت الہی سے ) انکار کیا ۔ رجل ابی ۔ خود دار آدمی جو کسی کا ظلم برداشت نہ کرے ابیت الضیر ( مضارع تابیٰ ) تجھے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے ۔ تیس آبیٰ ۔ وہ بکرا چوپہاڑی بکردں کا بول ملا ہوا پانی پی کر بیمار ہوجائے اور پانی نہ پی سکے اس کا مونث ابواء ہے بلس الإِبْلَاس : الحزن المعترض من شدة البأس، يقال : أَبْلَسَ ، ومنه اشتق إبلیس فيما قيل . قال عزّ وجلّ : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم/ 12] ، وقال تعالی: أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام/ 44] ، وقال تعالی: وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم/ 49] . ولمّا کان المبلس کثيرا ما يلزم السکوت وينسی ما يعنيه قيل : أَبْلَسَ فلان : إذا سکت وإذا انقطعت حجّته، وأَبْلَسَتِ الناقة فهي مِبْلَاس : إذا لم ترع من شدة الضبعة . وأمّا البَلَاس : للمسح، ففارسيّ معرّب «1» . ( ب ل س ) الا بلاس ( افعال ) کے معنی سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم/ 12] اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے ۔ أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام/ 44] توہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے ۔ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم/ 49] اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے ۔ اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے ب کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :20 تقابل کے لیے سورہ بقرہ رکوع٤ ، سورہ ٔ نساء ، رکوع ۱۸ ، اور سورہ اعراف ، رکوع۲ ، پیش نظر رہے ۔ نیز ہمارے ان حواشی پر بھی ایک نگاہ ڈال لی جائے جو ان مقامات پر لکھے گئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:31) ابی۔ اس نے سختی سے انکار کیا۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ الاباء کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکار کرنے کے ہیں۔ ہر اباء امتناع اباء نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے۔ ویأبی اللہ الا ان یتم نورہ۔ (9:32) اور خدا تعالیٰ اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں۔ یا ابی واسکتبر (2:34) اس نے سختی سے انکار کیا اور تکبر کیا۔ (باب ضرب فتح) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی سجدہ نہ کیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ابلیس کا سجدہ کرنے سے انکاری ہونا انسان اور جن کی تخلیق کا تذکرہ فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم سے پہلے ہی فرشتوں سے فرما دیا تھا کہ میں ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں جو بجتی ہوئی کالی سڑی ہوئی مٹی سے بنایا جائے گا جب وہ بن جائے اور میں اس میں روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدہ ریز ہوجانا یعنی اسے تعظیمی سجدہ کرنا چناچہ فرشتوں نے حکم مانا فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا اور سب نے بیک وقت مجتمع ہو کر آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کردیا یہ سجدہ تعظیمی تھا سجدہ عبادت نہیں تھا عبادت تو غیر اللہ کے لیے کبھی بھی جائز نہیں تھی البتہ سجدہ تعظیمی بعض شرائع سابقہ میں جائز تھا شریعت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والتحیۃ میں سجدہ تعظیمی بھی منسوخ کردیا گیا۔ اب سجدہ تعظیمی غیر اللہ کے لیے حرام ہے۔ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ نہیں کیا وہ تھا تو جنات میں سے لیکن فرشتوں کے ساتھ عالم بالا میں رہتا تھا اس کو بھی سجدہ کا حکم دیا گیا جیسا کہ سورة اعراف میں اس کی تصریح ہے، ابلیس نے کہا کہ میں اس کو سجدہ نہیں کرتا اللہ جل شانہٗ نے فرمایا (مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ ) اس کا کیا باعث ہے کہ تو اس کو سجدہ نہ کرے جبکہ میں نے تجھے حکم دیا اس پر اس نے تکبر کے ساتھ جواب دیا اور اللہ تعالیٰ شانہٗ کی جو حکم عدولی کی تھی اسے صحیح ثابت کرنے کے لیے کہنے لگا (لَمْ اَکُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ ) (میں ایسا نہیں ہوں کہ اس بشر کو سجدہ کروں جسے آپ نے کالی سڑی ہوئی مٹی سے پیدا کیا) سورة کہف میں ہے کہ ابلیس نے یوں کہا (ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا) (کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے آپ نے مٹی سے بنایا ہے) ابلیس نے اول تو نافرمانی کی پھر اوپر سے اللہ تعالیٰ کے حکم کو حکمت کے خلاف بتایا اور جس مخلوق کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا تھا اسے اس نے اپنے سے کم تر ظاہر کیا یہ سب تکبر کی وجہ سے ہوا، ابلیس کو تکبر کھا گیا اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا کہ تو یہاں سے یعنی آسمان سے نکل جا قیامت کے دن تک تجھ پر لعنت ہے (جو شخص قیامت کا صور پھونکنے تک ملعون ہوگیا اس کے بعد بھی ملعون ہی رہے گا کیونکہ کفر پر مرنا ابدالآباد لعنت میں رہنے کا سبب ہے۔ ) ابلیس کی ملعونیت ابلیس نے اب بھی توبہ نہ کی ہمیشہ کے لیے ملعون ہونا منظور کرلیا لیکن یوں نہ کہا کہ مجھے معاف کردیا جائے اب سجدہ کرلیتا ہوں، اس وقت سے اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی ذریت کو بہکانے، ورغلانے گمراہ کرنے کی ٹھان لی، جس کا مقصد یہ تھا کہ جس کی وجہ سے ملعون ہوا ہوں اس سے بدلہ لیا جائے لیکن اس بات کو ظاہر کرنے سے پہلے اس نے اللہ جل شانہ سے قیامت کے دن تک زندہ رہنے کی مہلت مانگی اللہ تعالیٰ شانہ نے اس کو مہلت دے دی اور فرمایا (فَاِِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ اِِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ ) (بےشک تو ان لوگوں میں سے ہے جنہیں وقت معلوم تک مہلت دی گئی) صاحب روح المعانی الوقت المعلوم کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے قیامت کے دن نفخہ اولیٰ یعنی پہلی بار صور پھونکا جانا مراد ہے، حضرت ابن عباس (رض) سے ایسا ہی مروی ہے اور جمہور نے یہی فرمایا ہے قیامت کے آنے کا وقت اللہ تعالیٰ شانہ ہی کو معلوم ہے اس لیے اسے ” الوقت المعلوم “ سے تعبیر فرمایا۔ روح المعانی میں کعب احبار سے نقل کیا ہے کہ نفخہ اولیٰ کے بعد حضرت ملک الموت سے اللہ تعالیٰ شانہ کا خطاب ہوگا کہ ابلیس کی روح قبض کرلو ابلیس حضرت ملک الموت ( علیہ السلام) کو دیکھ کر مشرق کی طرف بھاگے گا پھر مغرب کی طرف، ہر طرف ملک الموت سامنے آئیں گے پھر سمندروں میں گھسنا چاہے گا سمندر بھی قبول نہ کریں گے، اسی طرح زمین میں بھاگا بھاگا پھرے گا لیکن اسے کسی جگہ پناہ نہ ملے گی حضرات ملائکہ جو حضرت ملک الموت ( علیہ السلام) کے ساتھ ہوں گے اسے سنڈاسیوں کے ساتھ پکڑلیں گے اس کی نزع کی کیفیت شروع ہوجائے گی اور الی ماشاء اللہ نزع کے عذاب میں رہے گا پھر اس کی روح قبض کرلی جائے گی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

31 ۔ مگر ابلیس نے اس بات سے انکار کیا اور سر تابی کی کہ وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ شامل ہو۔