Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 48

سورة الحجر

لَا یَمَسُّہُمۡ فِیۡہَا نَصَبٌ وَّ مَا ہُمۡ مِّنۡہَا بِمُخۡرَجِیۡنَ ﴿۴۸﴾

No fatigue will touch them therein, nor from it will they [ever] be removed.

نہ تو وہاں انہیں کوئی تکلیف چھو سکتی ہے اور نہ وہ وہاں سے کبھی نکالے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لااَ يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ ... No sense of fatigue shall touch them, meaning no harm or hardship, as was reported in the Sahihs: أَنَّ اللهَ أَمَرَنِي أَنْ أُبَشِّرَ خَدِيجَةَ بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لاَ صَخَبَ فِيهِ وَلاَ نَصَب Allah commanded me to tell Khadijah the good news of a jeweled palace in Paradise in which there will be no toil and no fatigue. ... وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَجِينَ nor shall they (ever) be asked to leave it. As was reported in the Hadith: يُقَالُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَ تَمْرَضُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَعِيشُوا فَلَإ تَمُوتُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَإ تَهْرَمُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تُقِيمُوا فَلَإ تَظْعُنُوا أَبَدًا It will be said, O dwellers of Paradise! You will be healthy and never fall sick; you will live and never die; you will be young and never grow old; you will stay here and never leave. Allah says: خَـلِدِينَ فِيهَا لاَ يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلاً Wherein they shall dwell (forever). They will have no desire to be removed from it. (18:108) نَبِّىءْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] یعنی دنیوی زندگی کی طرح اپنا پیٹ پالنے کے لیے وہاں کچھ محنت و مشقت نہیں کرنی پڑے گی۔ ہر مطلوبہ چیز طلب کرنے پر فوراً حاضر کردی جائے گی۔ انھیں ان چیزوں کے حصول کے لیے نقل مکانی کی بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اور ان کے لیے یہ سب نعمتیں دائمی ہوں گی اور ان کی زندگی بھی دائمی زندگی ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَا يَمَسُّهُمْ فِيْهَا نَصَبٌ : دنیا میں کوئی شخص دکھ، مصیبت، مشقت اور تھکن سے خالی نہیں، بلکہ یہ ساری زندگی ہی محنت اور مشقت کی ہے، یہاں زیادہ سے زیادہ خوشی اور لذت کے ساتھ بھی کوئی نہ کوئی مشقت، محنت، تھکن یا غم ضرور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة بلد کے شروع میں کئی قسمیں کھا کر فرمایا : (لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ كَبَدٍ ) [ البلد : ٤ ] ” بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے “ اور سورة انشقاق میں فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِيْهِ ) [ الانشقاق : ٦ ] ” اے انسان ! بیشک تو مشقت کرتے کرتے اپنے رب کی طرف جانے والا ہے، سخت مشقت، پھر اس سے ملنے والا ہے۔ “ جب کہ جنت میں نہ کوئی دکھ ہوگا نہ تھکاوٹ۔ ابوسعید خدری اور ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یُنَادِيْ مُنَادٍ إِنَّ لَکُمْ أَنْ تَصِحُّوْا فَلَا تَسْقَمُوْا أَبَدًا وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَحْیَوْا فَلَا تَمُوْتُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَشِبُّوْا فَلَا تَھْرَمُوْا أَبَدًا، وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَنْعَمُوْا فَلَا تَبْأَسُوْا أَبَدًا فَذٰلِکَ قَوْلُہٗ عَزَّوَجَلَّ : (وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) [ الأعراف : ٤٣ ] )” ایک منادی ندا دے گا (اے جنت والو ! ) بیشک تمہارے لیے یہ ہوگا کہ تم تندرست رہو گے کبھی بیمار نہیں ہو گے اور تمہارے لیے یہ ہوگا کہ تم زندہ رہو گے کبھی تمہیں موت نہیں آئے گی اور تمہارے لیے یہ ہوگا کہ تم جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہیں ہو گے اور تمہارے لیے طے ہوچکا کہ تم خوش حال رہو گے کبھی تنگی اور تکلیف نہیں اٹھاؤ گے۔ “ چناچہ یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) ” اور انھیں آواز دی جائے گی کہ یہی وہ جنت ہے جس کے وارث تم اس کی وجہ سے بنائے گئے ہو جو تم کیا کرتے تھے۔ “ [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب في دوام نعیم أہل الجنۃ۔۔ : ٢٢؍٢٨٣٧ ] وَّمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ : عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا صَارَ أَھْلُ الْجَنَّۃِ إِلَی الْجَنَّۃِ ، وَصَارَ أَھْلُ النَّارِ إِلَی النَّارِ ، أُتِيَ بالْمَوْتِ حَتّٰی یُجْعَلَ بَیْنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ ، ثُمَّ یُذْبَحُ ، ثُمَّ یُنَادِيْ مُنَادٍ یَا أَھْلَ الْجَنَّۃِ ! لَا مَوْتَ ، یَا أَھْلَ النَّارِ ! لَا مَوْتَ ، فَیَزْدَادُ أَھْلُ الْجَنَّۃِ فَرَحًا إِلٰی فَرَحِھِمْ ، وَیَزْدَادُ أَھْلُ النَّارِ حُزْنًا إِلٰی حُزْنِھِمْ ) [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب النار یدخلھا الجبارون۔۔ : ٤٣؍٢٨٥٠ ] ” جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں پہنچ جائیں گے تو موت کو (ایک مینڈھے کی شکل میں) لایا جائے گا اور اسے جنت اور جہنم کے درمیان رکھ دیا جائے گا، پھر اسے ذبح کردیا جائے گا، پھر ایک منادی اعلان کرے گا اے جنت والو ! اب موت نہیں اور اے آگ والو ! اب موت نہیں، تو جنت والے اپنی خوشی کے ساتھ اور زیادہ خوش ہوجائیں گے اور آگ والے اپنے غم کے ساتھ اور زیادہ غم زدہ ہوجائیں گے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

From verse 48: لَا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَ‌جِينَ (No weariness shall touch them therein nor will they be expelled from there), we learn about two features of Jannah: (1) No one shall ever feel tired or weak. This is contrary to what happens in our mortal world where hard work natural¬ly results in fatigue. In fact, even a state of total rest and fun would sometimes tire a person out, no matter how enjoyable are things one is occupied with. (2) The other feature of Jannah we discover is that the blessings once received there shall be eternal. These blessings shall never diminish nor shall anyone be expelled from there. In Surah Sad, it was said:إِنَّ هَـٰذَا لَرِ‌زْقُنَا مَا لَهُ مِن نَّفَادٍ (This is sustenance provided by Us which is never to exhaust - 38:54). And in the present verse, it was said: وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَ‌جِينَ (nor will they be expelled from there) that is, they shall never be deprived of the state of bliss bestowed upon them. This is contrary to the affairs of the mortal world where the recipient of the best of conveniences lives under the apprehension that the Over of the facilities may become displeased with him one of those days and expel him out. As for the third probability, that the blessings of Jannah may remain everlasting, nor one is expelled from there, but one may himself get bored by living there and wish to go out, the Qur’ an has demolished this probability in one sentence of Surah Al-Kahf with the following words: لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا (That is, these people too would never seek to return from there - 18:108).

(آیت) لَا يَمَسُّهُمْ فِيْهَا نَصَبٌ وَّمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ ۔ اس آیت سے جنت کی دو خصوصیات معلوم ہوئیں اول یہ کہ کسی کو کبھی تکان اور ضعف محسوس نہ ہوگا بخلاف دنیا کے کہ یہاں محنت ومشقت کے کاموں سے تو ضعف وتکان ہوتا ہی ہے خاص آرام اور تفریح سے بھی کسی نہ کسی وقت آدمی تھک جاتا ہے اور ضعف محسوس کرنے لگتا ہے خواہ وہ کتنا ہی لذیذ کام اور مشغلہ ہو دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جو آرام و راحت اور نعمتیں وہاں کسی کو مل جائیں گی پھر وہ دائمی ہوں گی نہ وہ نعمتیں کبھی کم ہوں گی اور نہ ان میں سے اس شخص کو نکالا جائے گا سورة ص میں ارشاد ہے (آیت) اِنَّ ھٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهٗ مِنْ نَّفَادٍ یعنی یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا اور اس آیت میں فرمایا (آیت) وَمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ یعنی ان کو کبھی ان نعمتوں راحتوں سے نکالا نہیں جائے گا بخلاف معاملات دنیا کے کہ یہاں اگر کوئی کسی کو بڑے سے بڑا انعام و راحت دے بھی دے تو یہ خطرہ ہر وقت لگا رہتا ہے کہ جس نے یہ انعامات دئیے ہیں وہ کسی وقت ناراض ہو کر یہاں سے نکال دے گا۔ ایک تیسرا احتمال جو یہ تھا کہ نہ جنت کی نعمتیں ختم ہوں اور نہ اس کو وہاں سے نکالا جائے مگر وہ خود ہی وہاں رہتے رہتے اکتا جائے اور باہر جانا چاہے قرآن عزیز نے اس احتمال کو بھی ایک جملہ میں ان الفاظ سے ختم کردیا ہے کہ (آیت) لَا يَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا۔ یعنی یہ لوگ بھی وہاں سے پلٹ کر آنے کی کبھی خواہش نہ کریں گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا يَمَسُّهُمْ فِيْهَا نَصَبٌ وَّمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ 48؀ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی نصب والنُّصْبُ والنَّصَبُ : التَّعَبُ ، وقرئ : بِنُصْبٍ وَعَذابٍ [ ص/ 41] و ( نَصَبٍ ) وذلک مثل : بُخْلٍ وبَخَلٍ. قال تعالی: لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] والنَّصَبُ : التَّعَبُ. قال تعالی: لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . وقد نَصِبَ فهو نَصِبٌ ونَاصِبٌ ، قال تعالی: عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] . ( ن ص ب ) نصب اور نصب ونصب کے معنی تکلیف ومشقت کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] ایذا اور تکلیف میں ایک قراءت نصب بھی ہے اور یہ بخل وبخل کی طرح ہے قرآن میں ہے : ۔ یہاں نہ ہم کو رنج پہنچے گا ۔ النصب کے معنی مشقت کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] اس سفر سے ہم کو بہت تھکان ہوگئی ہے ۔ اور نصب ( س ) فھو نصب وناصب کے معی تھک جائے یا کسی کام میں سخت محنت کرنے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (لَا يَمَسُّهُمْ فِيْهَا نَصَبٌ وَّمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ ) اہل جنت کو جنت میں داخل ہونے کے بعد وہاں سے نکالے جانے کا کھٹکا نہیں ہوگا اور نہ ہی اس میں انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف یا پریشانی ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29. This verse is explained by the following tradition: It will be announced to the dwellers of the Gardens: Now you will remain hale and hearty forever and shall never fall ill, now you will enjoy eternal life and shall never die, now you will remain young forever and never grow old, and now you will remain forever in Paradise and shall never have to move away from it. There are other traditions that further elucidate life in Paradise to this effect: The dwellers shall have no toil to perform for their livelihood and necessities of life. They will get everything without any labor whatsoever.

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :29 اس کی تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ یقال لا ھل الجنۃ ان لکم ان تصحوا ولا تمرضوا ابدًا ، و ان لکم ان تعیشو ا فلا تمو تو ا ابدا ، و ان لکم ان تشبّوا ولا تھرموا ابدًا ، و ان لکم ان تقیمو ا فلا تظعنو ا ابدًا ۔ یعنی” اہل جنت سے کہہ دیا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ تندرست رہو گے ، کبھی بیمار نہ پڑو گے ۔ اور اب تم ہمیشہ زندہ رہو گے ، کبھی موت تم کو نہ آئے گی ۔ اور اب تم ہمیشہ جوان رہو گے ، کبھی بڑھاپا تم پر نہ آئے گا ۔ اور اب تم ہمیشہ مقیم رہو گے ، کبھی کوچ کرنے کی تمہیں ضرورت نہ ہوگی“ ۔ اس کی مزید تشریح ان آیات و احادیث سے ہوتی ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ جنت میں انسان کو اپنی معاش اور اپنی ضروریات کی فراہمی کے لیے کوئی محنت نہ کرنی پڑے گی ، سب کچھ اسے بلا سعی و مشقت ملے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:48) لا یمسہم مضارع منفی واحد مذکر غائب ہم ضمیر جمع مذکر غائب۔ نہیں پہنچے گا۔ نہیں چھوئے گا ان کو۔ نصب۔ کوفت ۔ تھکن۔ مشقت۔ تکلیف۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اہل جنت سے کہہ دیا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ تندرست رہو گے، کبھی بیمار نہ پڑو گے اور تم ہمیشہ زندہ ہو گے تمہیں کبھی موت نہ آئے گی اور تم ہمیشہ جو ان رہوں گے اور تم پر کبھی بڑھاپا نہ آئے گا اور ہمیشہ قیام پذیر رہو گے کبھی اس سے کوچ کی ضرورت نہ ہوگی۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

48 ۔ ان اہل تقویٰ کو جنت میں نہ کسی قسم کی تکلیف پہنچے گی اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔ یعنی یہ آرام اور عیش دائمی ہوگا ۔