Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 54

سورة الحجر

قَالَ اَبَشَّرۡتُمُوۡنِیۡ عَلٰۤی اَنۡ مَّسَّنِیَ الۡکِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوۡنَ ﴿۵۴﴾

He said, "Have you given me good tidings although old age has come upon me? Then of what [wonder] do you inform?"

کہا کیا اس بڑھاپے کے آجانے کے بعد تم مجھے خوشخبری دیتے ہو! یہ خوشخبری تم کیسے دے رہے ہو؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ ... He said, meaning he spoke with wonder and astonishment, asking for confirmation, because he was old and his wife was old: ... أَبَشَّرْتُمُونِي عَلَى أَن مَّسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ Do you give me this good news while old age has overtaken me! Of what then is your news about! They responded by confirming the good news they had brought, good news after good news: قَالُواْ بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ فَلَ تَكُن مِّنَ الْقَانِطِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اَبَشَّرْتُمُوْنِيْ عَلٰٓي اَنْ مَّسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوْنَ 54؀ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی كبير فلان كَبِيرٌ ، أي : مسنّ. نحو قوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما[ الإسراء/ 23] ، وقال : وَأَصابَهُ الْكِبَرُ [ البقرة/ 266] ، وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ [ آل عمران/ 40] ( ک ب ر ) کبیر اور قرآن میں ہے : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما[ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک تمہارے سامنے پڑھاپے کو پہنچ جائیں ۔ وَأَصابَهُ الْكِبَرُ [ البقرة/ 266] اور اسے بڑھاپے نے آپکڑا۔ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ [ آل عمران/ 40] کہ میں تو بڈھا ہوگیا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٤) کہنے لگے اب بڑھا پے میں مجھے فرزند کی بشارت دیتے ہو تو اس وقت کس چیز کی بشارت دیتے ہو ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (قَالَ اَبَشَّرْتُمُوْنِيْ عَلٰٓي اَنْ مَّسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوْنَ ) عَلٰی یہاں پر ” علی الرغم “ کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے کہ میرے بڑھاپے کے باوجود تم مجھے جو بیٹے کی خوشخبری دے رہے ہو تو کہیں تم لوگوں کو کوئی مغالطہ تو نہیں ہو رہا ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:54) ابشر تمونی۔ بشرتم۔ ماضی بمعنی حال جمع مذکر حاضر۔ وائو اشباع کی ہے۔ (حرف میم مضموم کی حرکت کو پوری طرح ادا کرنے کے لئے) ن وقایہ ہے اور ی ضمیر واحد متکلم ہے۔ ہمزہ استفہامیہ ہے۔ کیا تم مجھے بشارت دیتے ہو۔ علی ۔ یہاں بمعنی مع کے ہے (یعنی باوجودیکہ) جیسے اور جگہ قرآن مجید میں ہے وان ربک لذو مغفرۃ للناس علی ظلمہم۔ (13:6) بیشک تیرا پروردگار صاحب مغفرت ہے لوگوں کے لئے باوجود ان کی زیادتیوں کے۔ ابشرتمونی علی ان مسنی الکبر۔ کیا تم مجھے بشارت دیتے ہو باوجودیکہ (درآں حالیکہ) مجھے بڑھاپا لاحق ہوچکا ہے۔ بم ۔ کس چیز کے ساتھ ب حرف ِجر اور ما استفہامیہ ہے۔ حرف جر کے آنے کی وجہ سے اس کے آخر سے الف حذف کردیا گیا اور فتحہ کو اپنے حال پر باقی رکھا گیا ہے تا کہ ما استفہامیہ اور ما موصولہ میں امتیاز ہو سکے۔ کیونکہ ما موصولہ میں الف کو حذف نہیں کیا جاتا۔ فبم تبشرون۔ سو تم بشارت کس چیز کی دیتے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مطلب یہ کہ یہ امر فی نفسہ عجیب ہے نہ یہ کہ قدرت سے بعید ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

54 ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کیا تم مجھ کو ایسے وقت بشارت دیتے ہو جب کہ مجھ کو بڑھاپا پہنچ چکا تو اب کس چیز کی خوشخبری دیتے ہو اور کا ہے پر خوشی سناتے ہو۔ یعنی عادتا ً اس عمر میں اولاد کہاں ہوتی ہے گو قدرت سے بعید نہیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں معلوم ہوا کہ کامل بھی اسباب پر نظر رکھتے ہیں ۔ 12