Surat ul Hijir
Surah: 15
Verse: 61
سورة الحجر
فَلَمَّا جَآءَ اٰلَ لُوۡطِ ۣ الۡمُرۡسَلُوۡنَ ﴿ۙ۶۱﴾
And when the messengers came to the family of Lot,
جب بھیجے ہوئے فرشتے آل لوط کے پاس پہنچے ۔
فَلَمَّا جَآءَ اٰلَ لُوۡطِ ۣ الۡمُرۡسَلُوۡنَ ﴿ۙ۶۱﴾
And when the messengers came to the family of Lot,
جب بھیجے ہوئے فرشتے آل لوط کے پاس پہنچے ۔
The Angels coming to Lut Allah tells: فَلَمَّا جَاء الَ لُوطٍ الْمُرْسَلُونَ Then when the messengers (the angels) came to the family of Lut, Allah tells us about when the angels came to Lut in the form of young men with handsome faces. When they entered his home, قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنكَرُونَ
دو حسین لڑکے یہ فرشتے نو جوان حسین لڑکوں کی شکل میں حضور لوط علیہ السلام کے پاس گئے ۔ تو حضرت لوط علیہ السلام نے کہا تم بالکل ناشناس اور انجان لوگ ہو ۔ تو فرشتوں نے راز کھول دیا کہ ہم اللہ کا عذاب لے کر آئے ہیں جسے آپ کی قوم نہیں مانتی اور جس کے آنے میں شک شبہ کر رہی تھی ۔ ہم حق بات اور قطعی حکم لے کر آئے ہیں اور فرشتے حقانیت کے ساتھ ہی نازل ہوا کرتے ہیں اور ہم ہیں بھی سچے ۔ جو خبر آپ کو دے رہے ہیں وہ ہو کر رہے گی کہ آپ نجات پائیں اور آپ کی یہ کافر قوم ہلاک ہو گی ۔
فَلَمَّا جَاۗءَ اٰلَ لُوْطِۨ الْمُرْسَلُوْنَ 61ۙ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ لوط لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبد» وهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له . ( ل و ط ) لوط ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلنا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط س مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔
(٦١۔ ٦٢) چناچہ حضرت جبریل (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی خاندان لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے اور وہ کہنے لگے تم تو ہمارے اس شہر میں اجنبی آدمی معلوم ہوتے ہو۔
35. Please compare this with (Surah Al-Aaraf, Ayats 80-84) and (Surah Houd, Ayats 77-83).
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :35 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف رکوع ۱۰ و سورہ ہود رکوع ۷ ۔
(رکوع نمبر ٥) اسرارومعارف جب وہ فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو ان کے لوگ بڑے پریشان ہوئے کہ وہ خوبصورت لڑکوں کی شکل پر تھے اور قوم لوط بچوں سے غیر فطری فعل ہی جیسے گناہ فاسد میں مبتلا تھی لہذا ان کا گھبرانا ایک قدرتی امر تھا کہ یہ کیسے خوبصورت اور شریف بچے ہیں مگر اہل شہر کو خبر ہوگی تو وہ چڑھ دوڑیں گے جس میں جہاں ان کی رسوائی ہوگی وہاں عزت بھی نہ رہے گی اور اللہ جل جلالہ کی نافرمانی اور گستاخی کا یہ فعل اللہ جل جلالہ نہ کرے کہ ہمارے گھر سے شروع ہو چناچہ وہ بہت گھبرائے اور وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا شہر کے لوگ چڑھ دوڑے کہ یہ خوبصورت لڑکے ہیں انہیں ہمارے سپرد کیا جائے اس کا تذکرہ یہاں موخر کردیا گیا ہے حالانکہ دوسری جگہ یہ مقدم ہے اور بعد میں فرشتوں نے اپنا فرشتہ ہونا حضرت لوط (علیہ السلام) پہ ظاہر فرمایا اور اللہ کریم کا پیغام پہنچایا ۔ (کشف کی حقیقت) اس واقعہ سے بھی کشف کی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ جب چاہے اور جس بات سے چاہے نیز جتنا چاہے پردہ ہٹا دیتا ہے ورنہ انبیاء کو بھی علم نہیں ہو سکتا اور جب چاہتا ہے ہوجاتا ہے اس قصد میں نہ ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے فرشتہ ہونے کا پتہ چلا نہ لوط (علیہ السلام) کو حتی کہ بہت گھبرائے تاآنکہ خود فرشتوں نے بتایا لہذا کشف اللہ جل جلالہ کی طرف سے ایک ذریعہ علم ہے علم غیب نہیں ہے وہ صرف اس کی ذات کا خاصہ ہے ۔ لہذا فرشتوں نے انہیں بتایا کہ ہم کو حسین لڑکوں کی صورت تو محض ان پر حجت تمام کرنے کو دی گئی ہے کہ اگر اب بھی آپ کی اطاعت کرلیں تو بچ جائیں گے ورنہ یہ نہ کہہ سکیں گے کہ ہمیں موقعہ نہ ملا تھا ہم تو اللہ جل جلالہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور ان لوگوں کا جھگڑا چکانے کو آئے ہیں جس بات میں یہ آپ سے جھگڑتے ہی رہتے ہیں اور اطاعت نہیں کرتے لہذا ہم حق کے ساتھ آئے ہیں اور یہ بالکل سچی اور کھری بات ہے لہذا آپ کچھ رات گئے اپنے لوگوں کو ساتھ لے یہاں سے کوچ کر جائیے اور جہاں آپ کو جانے کا حکم ہے تشریف لے چلیں مفسرین کرام کے مطابق آپ کو ملک شام چلے جانے کا کہا گیا تھا ، اور آپ سب کو روانہ کر کے ان کے پیچھے چلیں کہ کوئی مسلمان رہ نہ جائے نیز کوئی بھی مڑ کر پیچھے نہ دیکھے کہ ان کا حشر کیا ہوتا ہے کہ اللہ کریم نے ان کا فیصلہ فرما دیا ہے کہ صبح ہوتے ہوتے یہ تباہ وبرباد کردیئے جائیں گے ۔ اب پھر قصہ وہاں سے شروع فرماتے ہیں کہ جب وہ فرشتے نو عمر لڑکوں کی صورت حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں پہنچے اور شہر میں خبر ہوئی تو اہل شہر خوشی سے اچھلتے کودتے وہاں پہنچے حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کا مقصد بھانپ کر فرمایا کہ شرم کرو یہ میرے مہمان ہیں تم ان سے زیادتی کرو گے تو میری رسوائی ہوگی اللہ جل جلالہ سے حیا کرو اور اس کی گرفت سے ڈرو نیز میری عزت بھی خراب نہ کرو کہ تم صرف گناہ کا ارادہ ہی نہیں کر رہے ساتھ اللہ جل جلالہ کے نبی کی رسوائی بھی کرنا چاہتے ہو اور یہ ایسا جرم ہے جس پر فوری گرفت کا قوی امکان ہے لیکن انہوں نے ایک نہ سنی الٹا کہنے لگے آپ کیوں سارے جہان کا ٹھیکہ لیتے ہیں جبکہ ۔۔۔۔۔۔ منع بھی کردیا تھا کہ آپ لوگوں کے اور ہمارے درمیان نہ آیا کریں حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرمایا یہ میری بیٹیاں یعنی جو تمہاری منکوحہ بیبیاں ہیں آخر تم ان سے قضاء شہوت کیوں نہیں کرتے جبکہ یہ تم پر حلال بھی ہیں ۔ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت کی ایک انوکھی دلیل) مگر آپ کی زندگی کی قسم ، سبحان اللہ یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات پاک کی قسم کھائی گئی ہے جس سے مراد ہے کہ آپ کی تمام عمر قبل بعثت اور بعد بعثت اللہ جل جلالہ کی اطاعت عشق الہی اور اس کی رضا کی طلب کا ایسا نمونہ ہے جس کی مثال کسی مقرب فرشتہ میں ملتی ہے نہ کسی نبی اور رسول کی حیات میں کہ اللہ جل جلالہ نے اور کسی کی زندگی کی قسم نہیں کھائی اور قسم سے مراد جس کی قسم کھائی جائے اسے بات مذکورہ پہ بطور گواہ پیش کرنا ہوتا ہے اسی لیے مخلوق کے لیے اللہ کریم کے سوا کسی کی قسم کھانا جائز نہیں مگر اللہ کریم جس بات کو بطور دلیل پیش کریں اس کی قسم کھاتے ہیں تو یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ کو گواہ بنایا کہ وہ راہ راست سے کس قدر دور تھے کہ راہ راست تو آپکی حیات ہے اب انہیں دیکھیں جو اپنی مستی میں ہر بات بھول رہے تھے کہ اچانک سورج نکلنے کے وقت انہیں ایک سخت چنگھاڑ نے آدبوچا جس سے جگر تک پھٹنے لگے مگر اسی پر بس کہاں اس کی زمین ہی کو نیچے تک اکھیڑ کر الٹا کر پھینک دیا گیا نیچے کی طرف اوپر آگئی اور اوپر والے نیچے دھنس گئے نیز آسمانوں سے ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی یعنی ایک دردناک چیخ نے حواس گم کردیئے پھر آسمانوں سے پتھر برسنے لگے اور آخر زمین ہی الٹ دی گئی ان کے حالات پر غور وفکر کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سامان عبرت ہے اور وہ مقام تاحال ایک بڑے راستے پر ان کی بربادی کو اپنی زبان حال سے بیان کر رہا ہے ۔ یہ جگہ اردن میں عرب سے شام جانے والے بڑے راستے پر ہے جہاں ایک بہت بڑا رقبہ سطح سمندر سے بہت نیچے واقعہ ہے اور جس پر ایک سیاہ پانی کا سمندر سا موجود ہے جس میں کوئی حیات نہیں مینڈک اور آبی گھونگا تک نہیں ملتا ہے بلکہ اس کا نام ہی بحر میت (DEAD SEA) ہے جدید تحقیق کے مطابق اس میں پانی کے اجزا کم اور تیل کے اجزاء زیادہ ہیں اس لیے حیات ممکن نہیں مگر یہ شہادت تو موجود ہے کہ کتنی گہرائی تک زمین کو الٹا گیا کہ تیل اوپر آگیا جو سمندروں میں بھی ہزاروں فٹ نیچے کھودنے سے ملتا ہے ۔ (سامان عبرت) یہ جگہیں بھی سامان عبرت ہیں مگر ایمان نصیب ہو تب اسی لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی ایسی جگہ سے گزرتے تو آپ پر ہیبت طاری ہوجاتی اور سرمبارک جھکا کر گزر جاتے مگر افسوس آجکل اسے تفریح گاہ بنایا گیا ہے اور ہوٹل وغیرہ بنا کر وہاں سیاحوں کو رکھا جاتا ہے جیسے اپنے ہاں موہنجوداڑو ہڑپہ اور ٹیکسلا وغیرہ سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے انہیں سیرگاہ بنایا گیا ہے ، ایسے ہی اصحاب الکیہ یعنی ایک بن میں رہنے والے جن کی طرف حضرت شعیب (علیہ السلام) مبعوث ہوئے بھی بڑے ظالم تھے انہوں نے بھی اپنے کئے کی سزا پائی اور انتقام الہی کا شکار ہوئے وہ جگہ بھی ایک بڑے راستے یہ پڑتی ہے یہ وادی حجاز اور شام کے درمیان واقع ہے ۔
لغات القرآن آیت نمبر 61 تا 79 منکرون (منکر) ، اجنبی، نا آشنا ۔ یمترون (مترائ) ، وہ شک و شبہ کرتے ہیں۔ اسر تو چل دے، تو چل پڑ قطع ٹکڑا، حصہ ادبار صدبر) ، پیٹھ پیچھے۔ لایلتفت مڑ کر مت دیکھ۔ متوجہ نہ ہو۔ امضوا چلتے رہو، چلے جاؤ۔ حیث جیسے۔ تو مرون تمہیں حکم دیا گیا ہے ۔ قضینا ہم نے فیصلہ کردیا۔ دابر جڑ۔ ھولاء یہ سب ۔ مقطوع کاٹ دی گئی۔ مصبحین صبح ہوتے ہوئے۔ صبح صبح اھل المدینۃ شہر والے۔ یستبشرون خوش ہوتے ہیں۔ لاتفضحون تم مجھے رسوا نہ کرو۔ لاتخزون تم مجھے رنجیدہ نہ کرو ۔ ننھی ہم منع کرتے ہیں بنتی میری بیٹیاں (بڑوں کے لئے سب کی بیٹیاں اپنی بیٹیاں کہی جاتی ہیں) فعلین کرنے والے۔ لعمرک البتہ تیری جان (کی قسم) ۔ سکرہ نشہ، مدہوش۔ یعمھون مستی میں اندھا بن جاتے ہیں ۔ الصیحۃ چنگھاڑ، ہیبت ناک آواز ۔ مشرقین سورج نکلنے کے وقت۔ عالی بلند۔ سافل نیچے۔ امطرنا ہم نے برسایا۔ حجارۃ پتھر۔ سجیل کھردرا پتھر، پتھر نما۔ متوسمین غور و فکر کرنے والے۔ دھیان دینے والے ۔ مقیم سیدھا۔ امام سامنے، راستہ تشریح : آیت نمبر 61 تا 79 گزشتہ آیات میں اس بات کو تفصیل سے بیان کردیا گیا ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر بےانتہا مہربان ہے اور جو بھی دامن مراد پھیلا کر آتا ہے وہ اس کے دامن کو اپنی رحمتوں سے بھر دیتا ہے لیکن جب کوئی قوم اپنے برے اعمال اور نافرمانیوں میں حد سے آگے بڑھ جاتی ہے اور کسی نصیحت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی تب اللہ کا وہ فیصلہ آجاتا ہے جس کے بعد معافی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ آپ نے اسی سورت میں کفار و مشرکین کے اس مطالبہ کو پڑھ لیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر آپ سچے ہیں تو آپ کے ساتھ فرشتے کیوں نہیں بھیجے گئے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اللہ اس سے مجبور اور بےبس نہیں ہے لیکن اس کا اپنا قانون یہ ہے کہ فرشتے اس وقت بھیجے جاتے ہیں جب کسی قوم کی تقدیر کا آخری فیصلہ کر دیاجاتا ہے۔ چناچہ قوم لوط جو اپنی بیحیائی اور خلاف فطرت اعمال میں اتنی آگے بڑھ گئی تھی کہ انسانیت کو اس پر شرم آنے لگی تھی۔ تب اللہ نے چند خوبصورت لڑکوں کی شکل میں اپنے فرشتوں کو بھیجا تاکہ اس قوم کو آخری مرتبہ سمجھا دیا جائے۔ اگر اب بھی وہ ناسمجھی کی اس راہ پر چلتے رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر اللہ کا فیصلہ یعنی عذاب الٰہی اس قوم پر ٹوٹ پڑے گا۔ اور یہی ہوا حضرت ابراہیم کو حضرت سارہ کے بطن سے حضرت اسحاق کی خوش خبری سنا کر یہ فرشتے حضرت لوط کے گھر پہنچ گئے۔ حضرت لوط بھی ان فرشتوں کو پہچان نہ سکے اور کہنے لگے کہ شاید تم اجنبی ہو۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے لوط ہم تو اللہ کا وہ عذاب لے کر آئے ہیں جس کے متعلق ان لوگوں کا یہ گمان تھا کہ شاید ان پر عذاب الٰہی نہیں آئے گا۔ فرشتوں نے کہا کہ ہم اللہ کے حکم سے آئے ہیں اور اس قوم کا فیصلہ کردیا گیا ہے۔ لہٰذا آپ کے اہل خانہ اور آپ کے ماننے والے جب کچھ رات گذر جائے تو اس بستی سے اس طرح نکل جائیں کہ کوئی پیچھے پلٹ نہ کر دیکھے ہر شخص اس حکم کی تعمیل کرے جو اللہ کی طرف سے ان کو دیا گیا ہے۔ کیونکہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ جب اس قوم کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ دیا جائے گا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت لوط کی بیوی جو اللہ کے نافرمانوں کے ساتھ ملی ہوئی تھی اور اس نے ایمان قبول نہیں کیا تھا اس نے شہر کے لوگوں کو اس بات کی اطلاع کردی کہ حضرت لوط کے پاس کچھ خوبصورت لڑکے بطور مہمان آئے ہوئے ہیں۔ یہ قوم جو اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکی تھی یہ سن کر حضرت لوط کے دروازے پر پہنچ گئی اور انداز ایسا تھا جیسے ان لوگوں کو اس اطلاع سے بہت زیادہ خوشی ہوئی ہے کہ کچھ خوبصورت لڑکے ان کے شہر میں آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے آتے ہی اس بات کا مطالبہ کیا کہ اے لوط ان لڑکوں کو ہمارے حوالے کردیا جائے۔ حضرت لوط نے فرمایا کہ دیکھو یہ میرے مہمان ہیں مجھے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو۔ اللہ کا خوف کرو اور مجھے رنجیدہ نہ کرو۔ لڑکیوں کی موجوگدی میں لڑکوں کی طرف کیوں مائل ہوتے ہو۔ ہماری بیٹیاں ہیں اگر تم ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو تو کونسی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا لوط ہم نے تم سے پہلے بھی کہا تھا کہ تم سارے جہاں کی حمایت نہ کیا کرو یعنی اپنے کام سے کام رکھو۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر کی قسم کھا کر فرمایا کہ اے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کی عمر کی قسم وہ لوگ اپنی بدمستی میں اندھے بن چکے تھے یعنی ہر طرح کے خیر اور شرکا احسان ان کے دلوں سے مٹ چکا تھا۔ اس قوم کے لئے یہ آخری موقع تھا مگر اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے چناچہ حضرت لوط اور ان کے گھر والوں (سوائے ان کی بیوی کے) اور ان پر ایمان والوں کو نجات عطا کردی گئی اور پھر ان کی پوری بستی کو ان پر اس طرح الٹ دیا گیا کہ نیچے کی زمین اوپر آگئی اور اوپر کی زمین نیچے چلی گئی اور پتھروں کی بارش کردی گئی اور سمندر کا پانی ان کی بستیوں پر اس طرح چڑھا دیا گیا کہ آج اس سمندر کا جانور بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس سمندر کے غیض و غضب کا آج بھی یہ عالم ہے کہ اس پانی کو یہ بھی گوارا نہیں کہ اس میں کوئی کشتی چل سکے۔ سنا ہے کہ اگر کوئی اس پانی پر لیٹ جائے تو یہ سمندر اس کو ڈبوتا نہیں بلکہ کس بھی وجود کو اپنے اندر لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ غرضیکہ سمندر کے اس پانی کو ان کی بستیوں پر چڑھا کر ان کو ڈبو دیا گیا۔ ان پر پہلے پتھروں کی بارش کی گئی پھر پوری بستیوں کو ان پر الٹ دیا گیا۔ آج یہ قوم اپنے برے اعمال کی وجہ سے ساری دنیا کے لئے نشان عبرت بن کرگئی ہے۔ اس واقعہ کو بیان کر کے اللہ نے ” اصحاب الایکہ “ کی نافرمانیوں اور ان کی تباہی کا بھی ذکر کیا ہے ایکہ کے معنی گھنے اور گنجان درخت کے ہیں۔ یہ حضرت شعیب کی قوم تھی یعنی بن اور جنگل والے۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اہل مدین اور اصحاب الایکہ ایک ہی قوم کے دو نام ہیں۔ ان کی ہدایت کے لئے حضرت شعیب کو بھیجا گیا تھا۔ یہ قوم بھی بہت ظالم و جابر کفر و شرک ڈاکہ زنی اور ناپ تول میں کمی اور عیاشیوں میں بہت مشہور ہے۔ اس قوم کا بھی یہی حال ہوا کہ جب ان کی نافرمانیاں حد سے بڑھ گئیں اور حضرت شعیب کی بات کو انہوں نے نہیں مانا آخر کار اللہ کا فیصلہ آگیا سات دن اور سات رات اتنی شدید گرمی پڑی کہ اس گرمی سے وہ لوگ بوکھلا اٹھے۔ آٹھویں دن بڑے گہرے بادل فضاؤں پر چھا گئے وہ قوم بہت خوش تھی کہ اب بارش ہوگی اور گرمی کی یہ شدت کم ہوجائے گی۔ مگر اچانک ان بادلوں سے آگ برسنا شروع ہوگئی اور پوری قوم راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گئی وہ ان کی عمارتیں، خوبصورت سڑکیں اونچی اونچی بلڈنگیں ۔ مال و دولت قوم وو طاقت سب ایک لمحہ میں بھسم ہو کر رہ گئی مدینہ منورہ سے ملک شام کی طرف جاتے ہوئے آج ان کی بستیوں کے کھنڈرات اور جلی ہوئی بستیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان آیات میں چند باتوں کی مزید وضاحت عرض ہے : 1) قوم لوط کو خلاف فطرت جس فعل کی اتنی بھیانک سزا دی گئی کہ آج بحرمیت معمولی سی جان کو بھی اپنے اندر پنپنے کا موقع نہیں دیتا اور کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ ہمارے دور میں پھر سا فعل بد کو بڑے پیمانے پر تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ قوم لوط کا تو یہ جرم تھا کہ لڑکوں سے بدفعلی کرتے تھے۔ ان کے فیشن اور معاشرہ کا ایک حصہ بن گیا تھا۔ لیکن آج کل یورپ اور بر اعظم امریکہ میں تو اس بات کو بھی قانونی تحفظ دیدیا گیا ہے کہ ایک عورت دوسری عورت کے ساتھ شادی کرسکتی ہے۔ شادی کا تو صرف نام ہے درحقیقت یہ بھی بدکاری کو تحفظ دینا ہے۔ اسی طرح ہر مرد مرد سے شادی کرسکتا ہے اس کو بھی قانونی تحفظ دیدیا گیا ہے آج جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایسے بدکار مرد اور بد کار عورتیں جلوس نکال کر اپنے حقوق اور مزید آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور جمہوریت کے نام پر یہ حکومتیں مجبور ہیں کہ جو عوام چاہتے ہیں وہی کام کئے جائیں۔ مجھے ایک بہت بڑا ڈر ہے کہ ان بدکاروں کی وجہ سے ایک دفعہ پھر یہ ساری دنیا تباہ و برباد ہو کر نہ رہ جائے۔ آثار تو شروع ہوچکے ہیں اور یہ پیشین گوئیاں شروع ہوچکی ہیں کہ امریکہ کا آدھا حصہ کسی بھی وقت کسی زلزلے کے نتیجے میں سمندر کے نیچے چلا جائے گا۔ یہ ہماری ظاہری آنکھیں دیکھ رہی ہیں نجانے قدرت کا کیا فیصلہ ہے اس کا تو کسی کو علم نہیں ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا اس فعل بد کی وجہ سے تباہ و برباد ہو کر رہ جائے۔ 2) دوسری بات یہ ہے کہ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کو بتا دیا کہ نجات صرف ان ہی لوگوں کو مل سکتی ہے اور ملتی رہی ہے جنہوں نے اللہ سے اور اس کے رسولوں سے وابستگی اختیار کی ہے۔ چناچہ حضرت لوط اور حضرت شعیب کے ان لوگوں کو بچا لیا گیا جو صاحب ایمان تھے اور بےایمانوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا گیا۔ 3) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ اے نبی تمہاری جان کی قسم یہ قوم اپنی بدمستی میں اندھی ہوچکی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں زمین و آسمان، چاند، سورج اور ستاروں کی قسم کھائی ہے جو اس کی شان کے مطابق ہے اور سات مقامات پر اللہ نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے اور اس جگہ اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر کی قسم کھائی ہے حضرت ابن عباس نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک کی قسم کھائی ہے یہ وہ اعزاز اور شرف ہے جو کسی نبی کو حاصل نہیں ہوا۔ اس سے معلمو ہوا کہ تمام انبیاء کرام میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے افضل و برتر ہیں۔ عرب کا عام رواج یہ تھا کہ جب کسی چیز کی قسم کھائی جاتی تھی تو وہ اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ جو بات کی جا رہی ہے وہ یقینی ہے۔ ہمیں اور آپ کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بھی قسم کھائیں لیکن اللہ جس چیز کی بھی قسم کھائیں یہ ان کی شان کے مطابق ہے کیونکہ ساری کائنات ان ہی کی ملکیت ہے۔
فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کے غضب کی زندہ مثال۔ ملائکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے الوداع ہونے کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح ملائکہ کو پہچان نہ سکے۔ فرمانے لگے آپ لوگ تو بالکل اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔ ملائکہ عرض کرتے ہیں کہ ہم آپ کے پاس اس کام کے لیے آئے ہیں۔ جس کام کی آمد کے بارے میں آپ کی قوم بےیقینی کا شکار ہے۔ جس کام کے لیے ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں وہ حقیقت اور ہو کر رہے گا۔ یقین جانیے کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں وہ سو فیصد سچ ہے۔ بس آپ جتنا جلدی ہو سکے رات کے آخری پہر اپنے اہل کو لے کر اس بستی سے نکل جائیں۔ آپ کے لیے خصوصی ہدایت یہ ہے کہ آپ نکلنے والے قافلے کے پیچھے پیچھے رہیں اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیں کہ ان میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے اور ادھر کی طرف چلے جاؤ جدھر جانے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ ہم نے لوط (علیہ السلام) کو یہ فیصلہ سنا دیا کہ صبح ہوتے ہی ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم ہلاک ہونے والی پہلی اقوام کی طرح نہ صرف حق کا انکار کرتی تھی بلکہ حضرت لوط (علیہ السلام) جب انہیں سمجھاتے تو وہ انہیں یہ کہہ کر طعنہ اور دھمکی دیتے کہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو بستی سے نکال باہر پھینکو کیونکہ یہ اپنے آپ کو بڑے پاکباز اور حق پر سمجھتے ہیں۔ (الاعراف : ٨٢) لیکن حضرت لوط (علیہ السلام) ان کو بار بار سمجھاتے رہے۔ مگر قوم سمجھنے کی بجائے حضرت لوط (علیہ السلام) سے عذاب لانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں پھر سمجھایا کہ برے کاموں سے باز آؤ اور اللہ تعالیٰ سے عذاب کا مطالبہ نہ کرو اگر تم برے اعمال سے باز نہیں آؤ گے تو اللہ تعالیٰ کا عذاب بالیقین آکر رہے گا۔ لیکن قوم نے ان کی کسی بات پر یقین نہ کیا یہاں تک کہ غضب ناک عذاب کا وقت آن پہنچا۔ اس کے بارے میں حضرت لوط (علیہ السلام) کو نہ صرف اس کا وقت بتلا دیا گیا بلکہ یہ ہدایت بھی کردی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرف نکل جانے کی آپ کو ہدایت کی ہے آپ اپنی کافر بیوی کے سوا اہل ایمان کو لے کر جلد از جلد نکل جائیں۔ قرآن مجید نے حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے جائے ہجرت کا ذکر نہیں کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس کا قول ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو شام کی طرف جانے کا حکم ہوا تھا۔ (تفسیر رازی) مسائل ١۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرشتوں کو نہ پہچانا۔ ٢۔ فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو رات کے اندھیرے میں نکل جانے کا حکم دیا۔ ٣۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو بتلایا دیا گیا کہ صبح ہونے سے پہلے ان کی قوم پر عذاب آجائے گا۔ تفسیر بالقرآن ملائکہ کا مختلف مواقعوں پر انسانی شکل میں آنا : ١۔ جب ہمارے بھیجے ہوئے لوط کے پاس آئے تو انہوں نے کہا تم اجنبی معلوم ہوتے ہو۔ (الحجر : ٦١۔ ٦٢) ٢۔ ہمارے ملائکہ ابراہیم کے پاس آئے اور انہوں نے سلام کہا جواباََ ابراہیم نے بھی سلام کہا۔ (ھود : ٦٩) ٣۔ ابراہیم نے فرشتوں سے خوف محسوس کیا تو انہوں نے کہا خوف کھانے کی ضرورت نہیں (ہم ملائکہ ہیں) ۔ (الذاریات : ٢٨) ٤۔ جب لوط کے پاس فرشتے آئے تو وہ ان کی وجہ سے مغموم ہوئے۔ (العنکبوت : ٣٣)
آیت نمبر ٦١ تا ٦٦ یہ فرشتے جلدی سے لوط (علیہ السلام) کو بتا دیتے ہیں کہ وہ فرشتے ہیں ، وہ اس کام کے لئے آگئے ہیں جس میں ان کی قوم شک میں مبتلا تھی ، یعنی یہ کہ بد اعمالیاں کر رہے ہیں اس پر ان کا کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ وہ اللہ کے عذاب کو بروئے کار لانے کے لئے آئے ہیں اور جب فرشتے آجاتے ہیں تو پھر اللہ کے عذاب کے نزول میں دیر نہیں ہوتی۔ وہ فوراً آتا ہے اس لیے یہاں بھی بات جلد ختم کی جا رہی ہے۔ قال انکم قوم منکرون (١٥ : ٦٢) ” آپ لوگ اجنبی معلوم ہوتے ہیں “۔ یہ بات حضرت لوط (علیہ السلام) نے اس لیے کہی کہ ان کو ان مہمانوں کے بارے میں پریشانی لاحق ہوگئی تھی ، وہ اپنی قوم کو اچھی طرح جانتے تھے ۔ ان کو یقین تھا کہ یہ قوم ان کے مہمانوں کے ساتھ برا سلوک کرے گی۔ نیز یہ کہ وہ اپنی قوم میں کمزور ہیں اور لوگ طاقتور اور فساق و فجار ہیں ، یعنی وہ کہہ رہے ہیں کہ تم عجیب لوگ ہو کہ اس گاؤں میں آگئے ہو حالانکہ یہ لوگ جس فسق و فجور میں مبتلا ہیں اور تم جیسے لوگوں کے ساتھ وہ جو سلوک کرتے ہیں وہ معروف و مشہور ہے لیکن فرشتوں نے وضاحت کردی : قالوا بل ۔۔۔۔ فیہ یمترون (٦٣) واتینک ۔۔۔۔۔ لصدقون (٦٤) (١٥ : ٦٣- ٦٤) ” انہوں نے جواب دیا نہیں بلکہ ہم وہی چیز لے کر آئے ہیں جس آنے کے میں یہ لوگ شک کر رہے تھے۔ ہم تم سے سچ کہتے ہیں کہ ہم حق کے ساتھ تمہارے پاس آئے ہیں۔ ان تاکیدان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) اس معاملے میں کس قدر بےبس ہوگئے تھے اور ان کی بےچینی کا عالم کیا تھا۔ وہ حیران تھے کہ ایک طرف سے وہ اپنے مہمانوں کے حوالے سے ذمہ دار ہیں اور دوسری جانب وہ قوم کے مقابلے میں بےبس ہیں۔ چناچہ فرشتوں نے نہایت ہی تاکیدی الفاظ میں ان کو تسلی دی اور ان کو فائنل ہدایات دینے سے قبل ان کو اچھی طرح مطمئن کردیا کہ اب ان لوگوں کا وقت ختم ہے۔ فاسر باھلک ۔۔۔۔۔۔ حیث تومرون (١٥ : ٦٥) ” لہٰذا اب تم کچھ رات رہے اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جاؤ اور خود ان کے پیچھے پیچھے چلو۔ تم میں سے کوئی بات پلٹ کر نہ دیکھے۔ بس سیدھے چلے جاؤ جدھر جانے کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے “۔ سری ، رات کے سفر کو کہتے ہیں۔ رات کا قطعہ یعنی اس کا ایک حصہ ، حضرت لوط (علیہ السلام) کو حکم تھا کہ اپنے اہل و عیال کو لے کر رات کے وقت نکل جائیں ، صبح سے پہلے پہلے ، حضرت خود ان کے پیچھے پیچھے جائیں۔ ان میں سے کوئی تذبذب نہ کرے ، پیچھے نہ دیکھے یعنی اپنے علاقے کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھے۔ انسان جب اپنا محبوب علاقہ چھوڑتا ہے تو وہ نکلنے میں سست روی اختیار کرتا ہے۔ بار بار پیچھے دیکھتا ہے اور یہاں چونکہ صبح کے وقت ہی عذاب آنے والا تھا اور وقت مقرر تھا اس لیے ان کو بروقت نکلنے کی سخت تاکید کی گئی ۔ وقضینا الیہ۔۔۔۔۔ مصبحین (١٥ : ٦٦) ” اور اسے ہم نے اپنا یہ فیصلہ پہنچا دیا کہ صبح ہوتے ہوتے ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جائے گی “۔ یہ عظیم فیصلہ تھا اور پیغمبر کو قبل از وقت اس سے آگاہ کردیا گیا تھا کہ صبح سے پہلے پہلے ان کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔ جب ان کی جڑ کٹ گئی تو شاخیں خود بخود کٹ گئیں۔ یہ انداز تعبیر ایسا ہے کہ اس سے ان کا مکمل استیصال ظاہر ہوتا ہے ، لہٰذا اہل اسلام کو سختی سے ہدایت کی گئی کہ ان میں سے کوئی پیچھے نہ دیکھے۔ یہ نہ ہو کہ کفار کی طرح یہ بھی عذاب کی لپیٹ میں آجائے۔ کیونکہ پیچھے رہنے والے عمومی عذاب سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ یہاں سیاق کلام میں اس انجام کو دوسرے واقعات سے قبل ہی پیش کردیا گیا کیونکہ سورة کے موضوع اور محل کا تقاضا ہی یہ تھا۔ اس کے بعد وہ واقعات دے دئیے جو مہمانوں کی آمد کے موقع پر پیش آئے۔ انہوں نے جب سنا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر چاند جیسے چہروں والے نوجوان لڑکے آئے ہوئے ہیں ، (بعض روایات میں آیا ہے کہ ان مہمانوں کے بارے میں اطلاع خود حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی نے ان اوباشوں کو دی تھی ) تو یہ لوگ بہت خوش ہوئے کہ خوب شکار ملا ہے۔