Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 67

سورة الحجر

وَ جَآءَ اَہۡلُ الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ ﴿۶۷﴾

And the people of the city came rejoicing.

اور شہر والے خوشیاں مناتے ہوئے آئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The People of the City arrive upon the Angels, thinking that they are Men Allah tells: وَجَاء أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ And the inhabitants of the city came rejoicing. Allah tells us about how Lut's people came to him when they found out about his handsome guests, and they came happily rejoicing about them. قَالَ إِنَّ هَوُلاء ضَيْفِي فَلَ تَفْضَحُونِ ...    Show more

قوم لوط کی خر مستیاں قوم لوط کو جب معلوم ہوا کہ حضرت لوط علیہ السلام کے گھر نوجوان خوبصورت مہمان آئے ہیں تو وہ اپنے بد ارادے سے خوشیاں مناتے ہوئے چڑھ دوڑے ۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں سمجھانا شروع کیا کہ اللہ سے ڈرو ، میرے مہمانوں میں مجھے رسوا نہ کرو ۔ اس وقت خود حضرت لوط علیہ السلام کو...  یہ معلوم نہ تھا کہ یہ فرشتے ہیں ۔ جیسے کہ سورہ ہود میں ہے ۔ یہاں گو اس کا ذکر بعد میں ہے اور فرشتوں کا ظاہر ہوجا نا پہلے ذکر ہوا ہے لیکن اس سے ترتیب مقصود نہیں ۔ واؤ ترتیب کے لئے ہوتا بھی نہیں اور خصو صاً ایسی جگہ جہاں اس کے خلاف دلیل موجود ہو ۔ آپ ان سے کہتے ہیں کہ میری آبرو ریزی کے درپے ہو جاؤ ۔ لیکن وہ جواب دیتے ہیں کہ جب آپ کو یہ خیال تھا تو انہیں آپ نے اپنا مہمان کیوں بنایا ؟ ہم تو آپ کو اس سے منع کر چکے ہیں ۔ تب آپ نے انہیں مزید سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری عورتیں جو میری لڑکیاں ہیں ، وہ خواہش پوری کرنے کی چیزیں ہیں نہ کہ یہ ۔ اس کا پورا بیان نہایت وضاحت کے ساتھ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اس لئے دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ چونکہ یہ بد لوگ اپنی خرمستی میں تھے اور جو قضا اور عذاب ان کے سروں پر جھوم رہا تھا اس سے غافل تھے اس لیے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر ان کی یہ حالت بیان فرما رہا ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تکریم اور تعظیم ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی جتنی مخلوق پیدا کی ہے ان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں ۔ اللہ نے آپ کی حیات کے سوا کسی کی حیات کی قسم نہیں کھائی ۔ سکرۃ سے مراد ضلالت و گمراہی ہے ، اسی میں وہ کھیل رہے تھے اور تردد میں تھے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

67۔ 1 ادھر تو حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر میں قوم کی ہلاکت کا یہ فیصلہ ہو رہا تھا۔ ادھر قوم لوط کو پتہ چلا کہ لوط (علیہ السلام) کے گھر میں خوش شکل نوجوان مہمان آئے ہیں تو اپنی امرد پرستی کی وجہ سے بڑے خوش ہوئے اور خوشی خوشی حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے اور مطالبہ کیا کہ ان نوجوانوں کو ان کے س... پرد کیا جائے تاکہ وہ ان سے بےحیائی کا ارتکاب کر کے اپنی تسکین کرسکیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤] غنڈوں کا سیدنا لوط کے گھر میں گھس آنا :۔ اہل سدوم لواطت کے معاملہ میں اس قدر بےحیا اور بیباک ہوچکے تھے کہ سیدنا لوط کا بھی کچھ لحاظ نہ کرتے تھے بلکہ الٹا انھیں یہ کہتے تھے کہ اگر تم اتنے پاکباز بنتے ہو تو ہمارے شہر سے نکل جاؤ۔ چناچہ یہ خوبصورت لڑکے لوط کے گھر پہنچے ہی تھے کہ آپ کی بیوی نے مخبر... ی کردی اور وہ دیوار پھاند کر آپ کے گھر میں گھس آئے۔ سیدنا لوط نے ان کی منت کرتے ہوئے کہ دیکھو ! یہ میرے مہمان ہیں ان پر دست درازی کرکے مجھے رسوا نہ کرو۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَجَاۗءَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ : ” الْمَدِيْنَةِ “ کا ترجمہ ” اس شہر “ الف لام برائے عہد کی و جہ سے کیا ہے۔ مفسرین نے اس کا نام ” سدوم “ بتایا ہے۔ قوم لوط کا عمل کرنے والوں کو بہت سی زبانوں میں ” سدومی “ کہا جاتا ہے، اس لیے عربی یا اردو میں اس کے لیے ” لوطی “ کا جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ مناسب نہ... یں۔ اس میں لوط (علیہ السلام) کی ایک طرح سے توہین ہے۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ بروں کے ساتھ رہنے میں بھی بدنامی ہے، خواہ کتنا نیک ہو، اب لوط (علیہ السلام) کے اس بدبخت قوم کے پیغمبر ہونے کے باعث کتنے برے فعل کی نسبت ان کے مبارک نام کی طرف کی جاتی ہے۔ يَسْـتَبْشِرُوْنَ : ” بَشَرَ “ (ض، س) ، ” أَبْشَرَ “ اور ” اِسْتَبْشَرَ “ تینوں کا معنی خوش ہونا ہے، صرف حروف کے اضافے کی وجہ سے معنی میں اضافہ ہوتا جائے گا، اس لیے معنی کیا گیا ہے ” بہت خوش ہو رہے تھے “ یعنی لوط (علیہ السلام) کے گھر نہایت خوبصورت لڑکوں کے آنے کی خبر سن کر نہایت خوش خوش بےاختیار دوڑتے ہوئے آئے۔ (دیکھیے ہود : ٧٨) اس سے ظاہر ہے کہ وہ لوگ شرم و حیا سے خالی ہو کر کتنی پستی میں گر چکے تھے۔ واضح رہے کہ ” وَجَاۗءَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ “ میں ” واؤ “ ترتیب کے لیے نہیں، بلکہ صرف واقعہ کے مختلف حصوں کو ملانے کے لیے ہے، کیونکہ اگر پہلے وحی آچکی ہوتی اور لوط (علیہ السلام) مہمانوں کو جان چکے ہوتے کہ یہ فرشتے ہیں تو انھیں پریشان ہونے کی، قوم کی منتیں کرنے کی اور اپنی یعنی قوم کی بیٹیاں پیش کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ انبیاء ( علیہ السلام) غیب دان نہیں ہوتے، انھیں صرف وہی معلوم ہوتا ہے جو انھیں وحی کے ذریعے سے بتادیا جائے۔ سورة ہود ( ٧٧ تا ٨١) میں لوط (علیہ السلام) کی پریشانی کا نقشہ اور فرشتوں کا انھیں تسلی دینا ملاحظہ فرمائیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَاۗءَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ يَسْـتَبْشِرُوْنَ 67؀ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَة... ِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (وَجَاۗءَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ يَسْـتَبْشِرُوْنَ ) حضرت لوط کے ہاں خوبصورت لڑکوں کو دیکھ کر بد قماش قسم کے لوگوں نے خوشی خوشی آپ کے گھر پر یلغار کردی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39. This shows that those People had gone to the lowest depths of immorality. No sooner did they hear the news of the arrival of handsome strangers in their town than they rushed rejoicing to the house of Prophet Lot (peace be upon him) and impudently demanded that he should hand over his guests to them for the gratification of their lust. The pity is that there had remained not a single person am... ong them to make a protest against such a heinous sin. Moreover, this shows that all of them, as a community, had totally lost every sense of decency, and they felt no shame at all to make such a wicked demand on him openly. The very fact, that they felt no hesitation in making such a wicked demand brazen facedly from a pious and holy man like Prophet Lot (peace be upon him), shows that the heinous crime was so common among them that they would not spare anyone. The Talmud records many instances of the all round moral degradation of the people of Lot. Once a stranger was passing through their territory. As the darkness approached, he was forced to pass the night near Sodom. As he had his own provisions with him, he did not stand in any need of help from the town’s folks, so he lay under a tree to pass the night. But a Sodomite entreated him to accompany him to his house. During the night he did away with the donkey and merchandise of the stranger. When he began to cry for help in the morning, the town’s folk came there not to help him but to rob him of what had been left with him. On one occasion Sarah sent her slave to Sodom to inquire after Prophet Lot’s household. When the slave entered the town, he saw that a Sodomite was beating a stranger. Naturally the slave of Sarah tried to rouse his sense of decency, saying, why do you ill treat helpless strangers like this? In answer to this appeal, his head was broken in public. On another occasion a poor man happened to come to Sodom but no one gave him anything to eat. When he was half dead with starvation, he fell to the ground in a helpless plight. A daughter of Prophet Lot saw him and sent some food for him. At this the Sodomites reproached Prophet Lot and his daughter and threatened to expel them from there if they would not refrain from such deeds. After citing several similar incidents, the Talmud says that those people had become so cruel, so deceitful and so dishonest in their dealings that no traveler could pass safe through their territory nor could a poor person expect any food or help from them. Many a time it so happened that a poor stranger came there, and died from hunger. Then they would strip the clothes from his body and bury him naked. If a foreigner committed the blunder of visiting their territory, they would publicly rob him of everything, and make fool of him if he appealed to them to redress the wrong. Then they would openly commit shameless deeds in the gardens which they had grown in their valley because there was none to rebuke them except Prophet Lot (peace be upon him). The Quran has summed up the whole of their wicked story in two concise sentences: (1) They had already been committing very wicked deeds, (Surah Houd, Ayat 78), and (2) You gratify your lust with males: you rob travelers, and you commit wicked deeds publicly in your assemblies.  Show more

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :39 “اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس قوم کی بد اخلاقی کس حد کو پہنچ چکی تھی ۔ بستی کے ایک شخص کے ہاں چند خوبصورت مہمانوں کا آجانا اس بات کے لیے کافی تھا کہ اس کے گھر پر اوباشوں کا ایک ہجوم امنڈ آئے اور علانیہ وہ اس سے مطالبہ کریں کہ اپنے مہمانوں کو بدکاری کے لیے ہمارے حو... الے کر دے ۔ ان کی پوری آبادی میں کوئی ایسا عنصر باقی نہ رہا تھا جو ان حرکات کے خلاف آواز اٹھاتا ، اور نہ ان کی قوم میں کوئی اخلاقی حِس باقی رہ گئی تھی جس کی وجہ سے لوگوں کو علی الاعلان یہ زیادتیاں کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس ہوتی ۔ حضرت لوط علیہ السلام جیسے مقدس انسان اور معلم اخلاق کے گھر پر بھی جب بدمعاشوں کا حملہ اس بے باکی کے ساتھ ہو سکتا تھا تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عام انسانوں کے ساتھ ان بستیوں میں کیا کچھ ہو رہا ہوگا ۔ تلمود میں اس قوم کے جو حالات لکھے ہیں ان کا ایک خلاصہ ہم یہاں دیتے ہیں جس سے کچھ زیادہ تفصیل کے ساتھ معلوم ہوگا کہ یہ قوم اخلاقی فساد کی کس انتہا کو پہنچ چکی تھی ۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک عیلامی مسافر ان کے علاقے سے گزر رہا تھا ۔ راستہ میں شام ہوگئی اور اسے مجبورا ان کے شہر سدوم میں ٹھیرنا پڑا ۔ اس کے ساتھ اپنا زار راہ تھا ۔ کسی سے اس نے میزبانی کی درخواست نہ کی ۔ بس ایک درخت کے نیچے اتر گیا ۔ مگر ایک سدومی اصرار کے ساتھ اٹھا کر اسے اپنے گھر لے گیا ۔ رات اسے اپنے ہاں رکھا اور صبح ہونے سے پہلے اس کا گدھا اس کے زین اور مال تجارت سمیت اڑا دیا ۔ اس نے شور مچایا ۔ مگر کسی نے اسی کی فریاد نہ سنی ۔ بلکہ بستی کے لوگوں نے اس کا رہا سہا مال بھی لوٹ کر اسے نکال باہر کیا ۔ ایک مرتبہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہ نے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے اپنے غلام العیزر کو سدوم بھیجا ۔ الیعزر جب شہر میں داخل ہو تو اس نے دیکھا کہ ایک سدومی ایک اجنبی کو مار رہا ہے ۔ الیعزر نے اسے شرم دلائی کہ تم بےکس مسافروں سے یہ سلوک کرتے ہو ۔ مگر جواب میں سربازار الیعزر کا سر پھاڑ دیا گیا ۔ ایک مرتبہ ایک غریب آدمی کہیں سے ان کے شہر میں آیا اور کسی نے اسے کھانے کو کچھ نہ دیا ۔ وہ فاقے سے بدحال ہو کر ایک جگہ گرا پڑا تھا کہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹی نے اسے دیکھ لیا اور اس کے لیے کھانا پہنچایا ۔ اس پر حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی بیٹی کو سخت ملامت کی گئی اور انہیں دھمکیاں دی گئیں کہ ان حرکتوں کے ساتھ تم لوگ ہماری بستی میں نہیں رہ سکتے ۔ اس طرح کے متعدد واقعات بیان کرنے کے بعد تلمود کا مصنف لکھتا ہے کہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں یہ لوگ سخت ظالم ، دھوکہ باز اور بعد معاملہ تھے ۔ کوئی مسافر ان کے علاقے سے بخیریت نہ گزر سکتا تھا ۔ کوئی غریب ان کی بستیوں سے راٹی کا ایک ٹکڑا نہ پا سکتا تھا ۔ بارہا ایسا ہوتا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے میں پہنچ کر فاقوں سے مرجاتا اور یہ اس کو کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن کر دیتے ۔ بیرونی تاجر اگر شامت کے مارے وہاں چلے جاتے تو برسرعام لوٹ لیے جاتے اور ان کی فریاد کو ٹھٹھوں میں اڑا دیا جاتا ۔ اپنی وادی کو انہوں نے ایک باغ بنا رکھا تھا جس کا سلسہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا ۔ اس باغ میں وہ انتہائی بے حیائی کے ساتھ علانیہ بدکاریاں کرتے تھے اور ایک لوط علیہ السلام کی زبان کے سوا کوئی زبان ان کو ٹوکنے والی نہ تھی ۔ قرآن مجید میں اس پوری داستان کو سمیٹ کر صرف دو فقروں میں بیان کر دیا گیا ہے کہ وَمِنْ قَبْلُ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ ۔ ( وہ پہلے سے بہت برے برے کام کر رہے تھے ) اور اَءِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ ( تم مردوں سے خواہش نفس پوری کرتے ہو ، مسافروں کی راہ مارتے ہو اور اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا بدکاریاں کرتے ہو؟ )   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: یہ فرشتے خوبصورت نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے اس لیے جیسا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو اندیشہ تھا۔ یہ لوگ اپنی ہوس کو پوری کرنے کے شوق میں خوشی مناتے ہوئے آئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٧۔ ٧٢۔ جب لوط (علیہ السلام) کی قوم کو یہ خبر ہوگئی کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر میں دو تین مہمان آئے ہیں تو وہ لوگ دوڑے ہوئے لوط (علیہ السلام) کے مکان پر آئے اور ان مہمانوں کو خوبصورت چودہ پندرہ برس کے کم سن دیکھ کر اپنے جی میں بہت خوش ہوئے۔ لوط (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے کہا کہ یہ لوگ میرے ع... زیز مہمان ہیں ان کی طرف کسی قسم کا برا خیال نہ کرو اور میری رسوائی نہ چاہو اور خدا سے ڈرو کسی کی آبرو کے پیچھے پڑنے سے کیا حاصل۔ کیوں میری عزت کے در پے ہورہے ہو۔ ان کی قوم نے جواب دیا کیا ہم نے تم کو منع نہیں کر رکھا ہے کہ تم کسی کی حمایت نہ تم کسی کو کیوں اپنا مہمان بناتے ہو ساری دنیا سے تمہیں کیا سرو کار سورت ہود میں ترتیب کے ساتھ یہ قصہ بیان ہوچکا ہے یہاں قصے میں ترتیب نہیں ہے سورت ہود میں لوط (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ یہ مہمان دراصل فرشتے ہیں جب قوم نے بےحد اصرار کیا اور کوئی بات نہ مانی تو فرشتوں نے کہا تھا کہ تم اپنے دل میں رنجیدہ نہ ہو یہ ہمارا کیا کرسکتے ہیں ہم آدمی نہیں ہیں خدا کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ اسی قوم کو اس کے بد افعال کی سزا دینے آئے ہیں غرض کہ لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بہتیرا سمجھایا یہاں تک کہا کہ تمہیں لڑکوں کے ساتھ فعل بد کے مرتکب ہونے سے شرم نہیں آتی لو یہ میری لڑکیاں حاضر ہیں ان سے نکاح کرلو خدا نے عورتوں کو مردوں کے واسطے پیدا کیا ہے ان سے نفع اٹھاؤ۔ اور لڑکوں کی رغبت چھوڑ دو لڑکوں کے ساتھ بد فعلی کرنے کی عادت سے کیوں اپنے کو ہلاک کرنا چاہتے ہو سورت قمر میں آوے گا کہ جب ان لوگوں نے حضرت لوط کی نصیحت نہ سنی اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر کا دروازہ توڑ کر گھر کے اندر گھس جانے اور مہمانوں کو چھین لینے کا ارادہ کیا تو حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے ایک پر مار کر ان سب کو اندھا کردیا یہ لوگ صبح کر پھر آنے کی دھمکی دے کر وہاں سے خبر دیتا ہے کہ اے ہمارے رسول ہم تیری حیات اور عمر کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ لوگ اپنی بد مستی میں بیہوش ہو رہے تھے وہ کب کسی کی سنتے مفسروں نے یہاں یہ بات بیان کی ہے کہ حضرت کی عمر کی قسم جو اللہ پاک نے کھائی ہے اس سے آپ کا مرتبہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ اور کسی رسول و نبی کی حیات کی قسم اللہ تعالیٰ نے نہیں کھائی ابن جریر نے حضرت ابن عباس (رض) کی ایک حدیث نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی جان ایسی نہیں پیدا کی جو حضرت رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر ہو اور اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی جان کی قسم نہیں کھائی سوائے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان کے ١ ؎۔ جیسا اس آیت میں مذکور ہوا۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ (رض) اشعری کی حدیث جو اوپر گزر چکی ٢ ؎ ہے، اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مہلت کے زمانہ تک ان لوگوں کی سرکشی کا یہ حال تھا کہ اللہ کے رسول کے گھر کا دروازہ توڑ کر گھر کے اندر گھس جاتے اور مہمانوں کے چھین لینے پر مستعد تھے مہلت کا وقت گزرتے ہی آنکھوں سے اپاہج اور اسی اپاہجی کی حالت میں تھوڑی دیر کے بعد ہلاک ہوگئے اور صبح کو پھر اللہ کے رسول کے گھر پر چڑھ کر آنے اور مہمانوں کو زبردستی چھین لینے کی دھمکی جو ان لوگوں نے دی اس دھمکی کے ظہور کی تمنا ان لوگوں کے دل میں ہی رہی۔ معتبر سند سے مسند ابو یعلی میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا قول ہے جس میں انہوں نے لعمرک کی تفسیر بحیاتک فرمائی ہے ٣ ؎۔ معتبر سند سے طبرانی میں حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عین صبح کی اذان کے وقت قوم لوط پر عذاب آیا۔ ١ ؎ تفسیر ابن جریر ص ٤٤ ج ١٤۔ ٢ ؎ یعنی صفحہ ٢٩٩ پر۔ ٣ ؎ مجمع الزوائد ص ٤٦ ج ٧ تفسیر سورت الحجر۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:67) یستبشرون۔ مضارع جمع مذکر غائب استبشار (استفعال) خوشیاں مناتے خوش خوش۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اور لوط سے مطالبہ کیا کہ ان مہمانوں کو بدکاری کے لئے ہمارے حوالہ کردو۔ گویا ان کی پوری آبادی میں کوئی ایسا عنصر باقی نہ رہا تھا جو اس قسم کی غنڈہ گردی کے خلاف آواز اٹھاتا۔ اس سے ان کی اخلاقی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

12۔ یہ خبر سن کر کہ لوط (علیہ السلام) کے یہاں حسین حسین لڑکے آئے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اوباشوں کا مہمانوں کو دیکھ کر حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر پر یلغار کرنا۔ بڑے بڑے مفسرین نے تاریخ کے حوالے سے یہ بات تحریر فرمائی ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آنے والے ملائکہ انتہائی خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تشریف لائے۔ کیونکہ لوط (علیہ السلام) کی قوم ... کے لوگ ہم جنسی کے مرض کا شکار تھے یہ لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات رکھنے اور نوجوان عورتوں سے شادی کرنے کے بجائے لڑکوں کے ساتھ بدکاری کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا کہ دنیا میں تم پہلے لوگ ہو جو اس جرم میں ملوث ہو۔ اسی سبب جب انہیں معلوم ہوا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس خوبصورت مہمان آئے ہیں تو وہ مسٹنڈوں کی طرح اچھلتے کودتے حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر پہنچے حضرت لوط (علیہ السلام) اس صورت حال پر اس قدر پریشان ہوئے کہ بےساختہ کہنے لگے کہ آج کا دن بڑا مشکل دن ہے۔ پھر انہیں سمجھایا ” اے میری قوم کے لوگو ! یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمہارے لیے جائز ہیں بس اللہ سے ڈرو۔ میرے مہمانوں میں مجھے رسوا نہ کرو۔ جب دیکھا کہ یہ لوگ باز نہیں آرہے تو فرمایا کیا تم میں کوئی بھی شریف آدمی نہیں ہے جو تمہیں اس کام سے منع کرے وہ کہنے لگے تو جانتا ہے کہ ہمیں تیری بیٹیوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ہم جو کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اسے جانتا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) انتہائی غمزدہ ہو کر ٹھنڈی آہ بھر کر فرماتے ہیں کہ اے کاش ! میں تمہارا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتا یا پھر میں مضبوط سہارے کی پناہ لیتا۔ اس پر ملائکہ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ آپ فکر نہ کریں یہ لوگ آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ بس آپ نکلنے کی جلد تیاری کریں۔ انہیں صبح کے وقت عذاب آلے گا اور صبح ہونے ہی والی ہے۔ ( ھود : ٧٧۔ ٨١) حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود وہ آپ کا دروازہ توڑنے کی پے در پے کوشش کرتے رہے جب دروازہ نہ کھلا تو دیواریں پھلانگ کر اندر آئے اور گستاخانہ لہجے میں کہا کہ کیا ہم نے آپ کو بارہا نہیں کہا کہ آپ ساری دنیا کا ٹھیکہ لینے کی کوشش نہ کیا کریں ؟ اس پر حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ میری بیٹیاں حاضر ہیں۔ (الاعراف : ٨١ کی رو سے ان بدکاروں کی بیویوں کے لیے لوط (علیہ السلام) نے میری بیٹیوں کے الفاظ استعمال کیے۔ النساء کا لفظ قرآن میں بیویوں کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ (النساء : ٤) (ا لطلاق : ١) بیٹیاں حاضر ہونے سے مراد نعوذ باللہ یہ نہیں کہ تم ان سے بدکاری کرسکتے ہو۔ اس جملے کا مقصد یہ ہے کہ تم جائز طریقہ اختیار کرکے ان سے نکاح کرسکتے ہو یہ بھی حقیقت ہے کہ نبی اپنی قوم کا روحانی باپ ہوتا ہے۔ اس لیے انہوں نے قوم کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں قرار دیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں شرم دلانے کے لیے یہ الفاظ کہے تھے لیکن دل نہیں مانتا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اس ارادے سے یہ الفاظ استعمال کیے ہوں۔ کیونکہ عام شخص تو یہ الفاظ کہہ سکتا ہے مگر پیغمبر بےانتہا غیور ہوا کرتے ہیں جن سے ایسے الفاظ کے بارے میں سوچا نہیں جاسکتا۔ (عَنِ الْمُغِیرَۃِ قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ لَوْ رَأَیْتُ رَجُلاً مَعَ امْرَأَتِی لَضَرَبْتُہُ بالسَّیْفِ غَیْرَ مُصْفِحٍ ، فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَیْرَۃِ سَعْدٍ ، لأَنَا أَغْیَرُ مِنْہُ وَاللَّہُ أَغْیَرُ مِنِّی)[ رواہ البخاری : باب الغیرۃ ] ” حضرت مغیرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے کہا کہ میں کسی آدمی کو اپنی عورت کے پاس پاؤں ‘ میں تو اسے قتل کردوں گا اور تلوار الٹی نہیں ماروں گا۔ جب نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی خبر ملی ‘ تو آپ نے فرمایا تم سعد کی غیرت پر تعجب کررہے ہو۔ اللہ کی قسم ! میں اس سے بھی زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔ “ مسائل ١۔ مہمانوں کی عزت و آبرو کا خیال رکھنا معاشرے کے لیے لازم ہے۔ تفسیر بالقرآن انسانوں کو ہر حال میں اللہ سے ڈرنا چاہیے : ١۔ اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۔ (الحجر : ٦٩) ٢۔ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے۔ (آل عمران : ١٠٢) ٣۔ اللہ سے ڈرو اور اطاعت کرو۔ (التغابن : ١٦) ٤۔ اس اللہ سے ڈرو جس کے سامنے تم اکٹھے کیے جاؤ گے۔ (المائدۃ : ٩٦) ٥۔ اے مومن بندو ! اپنے پروردگار سے ڈرو۔ (الاحزاب : ٧٠) ٦۔ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ (المائدۃ : ٥٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٦٧ اس انداز تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ فسق و فجور اور فحاشی وبے حیائی کی حدیں پار کر گئے تھے اور یہ قوم سب کی سب اخلاقی مریض تھی۔ یہ منظر کس قدر عجیب و شرمناک ہے کہ یہ لوگ گروہ در گروہ آرہے ہیں ، خوشیاں منا رہے ہیں اور اعلانیہ کہہ رہے کہ آج خوب شکار ہاتھ آیا ہے۔ ایک تو برائی اور بےرا... ہ روی ہے ، دوسرے یہ کہ یہ اعلانیہ اور دیدہ دلیری سے کی جا رہی ہے۔ کوئی بھی صحت مند انسانی معاشرہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ایک فرد تو یہ رویہ کبھی کبھار اختیار کرسکتا ہے لیکن وہ بھی اپنی بیماری کو چھپاتا ہے۔ وہ یہ بےراہ لذت خفیہ طور پر حاصل کرسکتا ہے اور اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے شرمندگی سے بچا سکتا ہے ۔ لیکن ایک پورا معاشرہ اعلانیہ ایسا کرے اس لیے کہ اگر جنسی لذت سے کوئی سلیم الفطرت شخص جائز حدود کے اندر بھی لطف اندوز ہوتا ہے تو وہ بھی خفیہ طور پر ایسا کرتا ہے۔ بعض حیوانات بھی جنسی ملاپ کو چھپاتے ہیں لیکن ان لوگوں کو دیکھو کہ یہ لوگ میلے ٹھیلے کی طرح اعلانیہ اس فحاشی کے لئے جا رہے ہیں ، اس کا اعلانیہ مطالبہ کرتے ہیں ، ارادہ ظاہر کرتے ہیں اور اجتماعی شکل میں اس کام کے لئے آتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی حالت ہے کہ انسانی سوسائٹی کی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ ان حالات میں ، نہایت بےبسی کے حالات میں ، حضرت لوط (علیہ السلام) نہایت ہی کربناک اور اندوہناک حال پریشانی میں کھڑے ہیں ، وہ اپنے مہمانوں اور اپنی آبرو بچانے کی سعی کرتے ہیں ، وہ انہیں انسانی شرافت اور انسانی قدروں کا واسطہ دے رہے ہیں ، وہ ان کو خدا سے ڈراتے ہیں ، وہ اللہ کا واسطہ دے رہے ہیں ، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ان لوگوں کے دل خدا خوفی سے عاری ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان لوگوں میں نہ آدمیت کا احساس ہے ، نہ انسانی شعور ہے ، اور نہ ان کے اندر خدا خوفی اور تقویٰ نام کی کوئی چیز ہے۔ لیکن وہ اس حالت پریشانی میں بھی بہرحال اپنی آخری کوشش کرتے ہیں اور انہیں انسانیت کا واسطہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ تو مہمان ہیں اور خدا سے ڈراتے ہیں کہ تمہارے جو ارادے ہیں وہ خدا کے حکم کے خلاف ہیں ، بہرحال وہ سعی کرتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ واؤ مطلق جمع کے لیے ہے یہاں سے ” یَعْمَھُوْنَ “ تک ترتیب واقعہ میں ” قَالُوْا بَلْ جِئْنٰکَ الخ “ سے پہلے ہے۔ ” اَ وَلَمْ نَنْھَکَ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ “ جب فرشتوں کو خوبصورت نوجوانوں کی شکلوں میں دیکھ کر قوم کے بدمعاش لوگ بری نیت سے ان کی طرف بڑھے تو حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرمایا خدا سے ڈرو ا... ور شرم کرو، یہ میرے مہمان ہیں اور مہمانوں میں مجھے رسوا نہ کرو۔ تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کیا ہم نے تمہیں منع نہیں کر رکھا کہ تم لوگوں کو پناہ دے کر ہم سے بچانے کی کوشش نہ کیا کرو۔ لہذا ان کی حمایت مت کرو اور ہمارے راستے سے ہٹ جاؤ۔ ای عن اجازۃ احد منھم و حیلولتک بیننا وبینھم الخ (روح ج 14 ص 72) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

67 ۔ اور شہر کے لوگ مہمانوں کی خبر پا کر خوش ہوئے اور خوشیاں کرتے ہوئے حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر پہنچے۔ یعنی جب شہر کے بد اطوار اور بد اعمال لوگوں کو یہ خبر لگی کہ لوط (علیہ السلام) کے ہاں خوبصورت لڑکے اور امرو مہمان آئے ہیں تو وہ بری اور فاسد نیت کے ساتھ خوشی خوشی لوط (علیہ السلام) کے گھر کی جا... نب چلے ۔  Show more