Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 84

سورة الحجر

فَمَاۤ اَغۡنٰی عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿ؕ۸۴﴾

So nothing availed them [from] what they used to earn.

پس ان کی کسی تدبیر و عمل نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And all that they used to earn availed them not. meaning all of the benefits that they used to gain from their crops and fruits, and the water which they did not want to share with the she-camel that they killed so that it would not reduce their share of the water - all of that wealth would not protect them or help them when the command of their Lord came to pass.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٥] قوم ثمود کی تباہ شدہ بستیاں :۔ ان پر جو عذاب الٰہی نازل ہوا وہ ایک زبردست قسم کی دہشت ناک آواز تھی ان کے مکان جو باقی ہر طرح کی ارضی و سماوی آفات سے مامون تھے اس عذاب کے لیے کچھ بھی کارآمد ثابت نہ ہوسکے۔ اللہ نے ان پر عذاب ہی ایسا بھیجا جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ آسکتا تھا۔ اور اس کے مقابلہ میں ان کی کوئی تدبیر بھی کارگر نہ ہوسکتی تھی۔ چناچہ وہ اپنے گھروں میں ہی مرگئے اور وہیں گلتے سڑتے رہے۔ ان کا علاقہ اس راستہ پر پڑتا ہے جو مدینہ سے تبوک جاتا ہے اور ان کے بہت سے آثار طویل مدت تک دوسروں کے لیے باعث عبرت بنے رہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے : عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ سفر تبوک میں جب آپ حجر کے مقام پر پہنچے تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ && ان کے کنوئیں سے نہ پانی پیئیں اور نہ ڈول بھریں && صحابہ نے عرض کیا کہ && ہم نے تو اس سے آٹا گوندھ لیا ہے اور اسے بھر بھی لیا ہے && آپ نے فرمایا && آٹا پھینک دو اور پانی بہا دو && پھر آپ نے آٹا اونٹوں کو کھلانے کی اجازت دے دی۔ آپ نے حکم دیا کہ && اس کنوئیں سے پانی پلاؤ جس سے (صالح کی) اونٹنی پانی پیتی تھی۔ اور ان ظالموں کے گھروں میں داخل نہ ہو بجز اس صورت کے کہ تم رو رہے ہو اور اگر رونا نہ آئے تو وہاں سے مت گزرو۔ ایسا نہ ہو کہ ان کا سا عذاب تم پر بھی نازل ہو && پھر آپ نے چادر سے اپنا سر ڈھانک لیا اور تیزی سے اپنی سواری کو چلاتے ہوئے وہاں سے نکل گئے (بخاری، کتاب الانبیائ، باب قولہ تعالیٰ والی ثمود اخاہم صالحا۔ نیز کتاب التفسیر۔ نیز کتاب الصلوٰۃ۔ باب الصلٰوۃ فی مواضع الخسف)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 84؀ۭ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٤ (فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ) وہ خوشحال قوم تھی مگر انہوں نے جو مال و اسباب جمع کر رکھا تھا وہ انہیں عذاب الٰہی سے بچانے کے لیے کچھ بھی مفید ثابت نہ ہوسکا۔ اس سورة مبارکہ میں اب تک تین رسولوں کا ذکر ” انباء الرسل “ کے انداز میں ہوا ہے۔ ان میں سے حضرت شعیب اور حضرت صالح کا نام لیے بغیر ان کی قوموں کا ذکر کیا گیا ہے جب کہ حضرت لوط کا ذکر نام لے کر کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس حضرت ابراہیم کا ذکر یہاں بھی قصص النبیین کے انداز میں آیا ہے بالکل اسی طرح جس طرح سورة ہود میں آیا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :46 یعنی ان کے سنگین مکانات جو انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے اندر بنائے تھے ان کی کچھ بھی حفاظت نہ کر سکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ان پر عذاب کی تفصیل کے لئے دیکھتے اعراف رکوع 10 سورة ہود رکوع 7

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ ان ہی مستحکم گھروں میں عذاب سے کام تمام ہوگیا، اس آفت سے ان کے گھروں نے نہ بچا لیا، بلکہ اس آفت کا ان کو احتمال بھی نہ تھا اور اگر ہوتا بھی تو کیا کرتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

28:۔ ” مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ “ سے شرک اور اعمال مشرکانہ (معبودان باطلہ کو پکارنا وغیرہ) اور افعال خبیثہ مراد ہیں۔ ” مَا کَانُوْا یکسبون من الشرک والاعمال الخببیثة “ (معالم و خازن ج 4 ص 72) یعنی جب ہمارا عذاب آگیا تو غیر اللہ کی پکار سے انہیں کوئی فائدہ نہ ہوا اور نہ ان کے مزعونہ کارسازوں نے ان کی مدد اور دستگیری کی مشرکین مکہ ! تمہارا بھی یہی حشر ہوگا اور جن کو تم نے خدا کے سوا کارساز اور متصرف سمجھ رکھا ہے آڑے وقت میں ان میں سے کوئی بھی تمہارے کام نہیں آئے گا۔ یہی مضمون قرآن مجید میں کئی جگہ مذکور ہے۔ مثلاً ” فَمَا اَغْنَتْ عَنْھُمْ اٰلِھَتُھُمُ الَّتِیْ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ الخ “ (ھود رکوع 9) اور دوسری جگہ ارشاد ہے ” وَ لَوْلَا نَصَرَھُمُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ قُرْبَانًا اٰلِھَةً “ (الاحقاف رکوع 4) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

84 ۔ سورة اعمال اور ان کی کاریگری جو وہ مکان بنانے میں کیا کرتے تھے ان کے کچھ کام نہ آئی۔ یعنی چنگھاڑ کو پہاڑ کیا روکتے سب کو برابرکر دیا گیا اور وہ ان کا ہنر عذاب الٰہی کو نہ روک سکا۔