Surat ul Hijir
Surah: 15
Verse: 89
سورة الحجر
وَ قُلۡ اِنِّیۡۤ اَنَا النَّذِیۡرُ الۡمُبِیۡنُ ﴿ۚ۸۹﴾
And say, "Indeed, I am the clear warner" -
اور کہہ دیجئے کہ میں تو کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں ۔
وَ قُلۡ اِنِّیۡۤ اَنَا النَّذِیۡرُ الۡمُبِیۡنُ ﴿ۚ۸۹﴾
And say, "Indeed, I am the clear warner" -
اور کہہ دیجئے کہ میں تو کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں ۔
The Messenger is a Plain Warner Allah commanded His Prophet to tell the people: وَقُلْ إِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْمُبِينُ And say (O Muhammad): "I am indeed a plain warner." coming to warn the people of a severe punishment that they will suffer if they reject him, as happened to those nations before them who disbelieved in their Messengers, upon whom Allah sent His punishment and vengeance. In the two Sahihs it is reported from Abu Musa that the Prophet said: إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللهُ بِهِ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَى قَوْمَهَ فَقَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي رَأَيْتُ الْجَيْشَ بِعَيْنَيَّ وَإِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْعُرْيَانُ فَالنَّجَاءَ النَّجَاءَ فَأَطَاعَهُ طَايِفَةٌ مِنْ قَوْمِهِ فَأَدْلَجُوا وَانْطَلَقُوا عَلَى مُهْلِهِمْ فَنَجَوْا وَكَذَّبَهُ طَايِفَةٌ مِنْهُمْ فَأَصْبَحُوا مَكَانَهُمْ فَصَبَّحَهُمُ الْجَيْشُ فَأَهْلَكَهُمْ وَاجْتَاحَهُمْ فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ أَطَاعَنِي وَاتَّبَعَ مَا جِيْتُ بِهِ وَمَثَلُ مَنْ عَصَانِي وَكَذَّبَ مَا جِيْتُ بِهِ مِنَ الْحَق The parable of myself and that with which Allah has sent me is that of a man who came to his people and said, `O people! I have seen the (invading) army with my own eyes, and I am a naked warner, so escape, escape!' Some of his people obeyed him and set out at nightfall, setting off at a slow pace and managing to escape. Others did not believe him and stayed where they were until the next morning when the (invading) army overtook them and destroyed them, wiping them out. This is the parable of the one who obeys me and follows what I have brought, and the example of the one who disobeys me and rejects the truth that I have brought. Explanation of "Al-Muqtasimin" Allah says: كَمَا أَنزَلْنَا عَلَى المُقْتَسِمِينَ
انبیاء کی تکذیب عذاب الٰہی کا سبب ہے حکم ہوتا ہے کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آپ اعلان کر دیجئے کہ میں تمام لوگوں کو عذاب الہٰی سے صاف صاف ڈرا دینے والا ہوں ۔ یاد رکھو میرے جھٹلانے والے بھی اگلے نبیوں کے جھٹلانے والوں کی طرح عذاب الہٰی کے شکار ہوں گے ۔ المستعین سے مراد قسمیں کھانے والے ہیں جو انبیاء علیہ السلام کی تکذیب اور ان کی مخالفت اور ایذاء دہی پر آپس میں قسما قسمی کر لیتے تھے جیسے کہ قوم صالح کا بیان قرآن حکیم میں ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی قسمیں کھا کر عہد کیا کہ راتوں رات صلح اور ان کے گھرانے کو ہم موت کے گھاٹ اتار دیں گے اسی طرح قرآن میں ہے کہ وہ قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ مردے پھر جینے کے نہیں الخ ۔ اور جگہ ان کا اس بات پر قسمیں کھانے کا ذکر ہے کہ مسلمانوں کو کبھی کوئی رحمت نہیں مل سکتی ۔ الغرض جس چیز کو نہ ما نتے اس پر قسمیں کھانے کی انہیں عادت تھی اس لئے انہیں کہا گیا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری اور ان ہدایات کی مثال جسے دے کر اللہ نے مجھے بھیجا ہے اس شخص کی سی ہے جو اپنی قوم کے پاس آ کر کہے کہ لوگو میں نے دشمن کا لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے دیکھو ہشیار ہو جاؤ بچنے اور ہلاک نہ ہونے کے سامان کر لو ۔ اب کچھ لوگ اس کی بات مان لیتے ہیں اور اسی عرصہ میں چل پڑتے ہیں اور دشمن کے پنجے سے بچ جاتے ہیں لیکن بعض لوگ اسے جھوٹا سمجھتے ہیں اور وہیں بےفکری سے پڑے رہتے ہیں کہ ناگاہ دشمن کا لشکر آ پہنچا ہے اور گھیر گھار کر انہیں قتل کر دیتا ہے پس یہ ہے مثال میرے ماننے والوں کی اور نا ماننے والوں کی ۔ ان لوگوں نے اللہ کی ان کتابوں کو جو ان پر اتری تھیں پارہ پارہ کر دیا جس مسئلے کو جی چاہا مانا جس سے دل گھبرایا چھوڑ دیا ۔ بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد اہل کتاب ہیں کہ کتاب کے بعض حصے کو مانتے تھے اور بعض کو نہیں مانتے تھے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے کفار کا کتاب اللہ کی نسبت یہ کہنا ہے کہ یہ جادو ہے ، یہ کہانت ہے ، یہ اگلوں کی کہانی ہے ، اس کا کہنے والا جادوگر ہے ، مجنوں ہے ، کاہن ہے وغیرہ ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ ولید بن مغیرہ کے پاس سرداران قریش جمع ہوئے حج کا موسم قریب تھا اور یہ شخص ان میں بڑا شریف اور ذی رائے سمجھا جاتا تھا اس نے ان سب سے کہا کہ دیکھو حج کے موقع پر دور دراز سے تمام عرب یہاں جمع ہوں گے ۔ تم دیکھ رہے ہو کہ تمہارے اس ساتھی نے ایک اودھم مچا رکھا ہے لہذا اس کی نسبت ان بیرونی لوگوں سے کیا کہا جائے یہ بتاؤ اور کسی ایک بات پر اجماع کر لو کہ سب وہی کہیں ۔ ایسا نہ ہو کوئی کچھ کہے کوئی کچھ کہے اس سے تو تمہارا اعتبار اٹھ جائے گا اور وہ پردیسی تمہیں جھوٹا خیال کریں گے ۔ انہوں نے کہا ابو عبد شمس آپ ہی کوئی ایسی بات تجویز کر دیجئے اس نے کہا پہلے تم اپنی تو کہو تاکہ مجھے بھی غور و خوض کا موقعہ ملے انہوں نے کہا پھر ہماری رائے میں تو ہر شخص اسے کاہن بتلائے ۔ اس نے کہا یہ تو واقعہ کے خلاف ہے لوگوں نے کہا پھر مجنوں بالکل درست ہے ۔ اس نے کہا یہ بھی غلط ہے کہا اچھا تو شاعر کہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ وہ شعر جانتا ہی نہیں کہا اچھا پھر جادوگر کہیں ؟ کہا اسے جادو سے مس بھی نہیں اس نے کہا سنو واللہ اس کے قول میں عجب مٹھاس ہے ان باتوں میں سے تم جو کہو گے دنیا سمجھ لے گی کہ محض غلط اور سفید جھوٹ ہے ۔ گو کوئی بات نہیں بنتی لیکن کچھ کہنا ضرور ہے اچھا بھائی سب اسے جادوگر بتلائیں ۔ اس امر پر یہ مجمع برخاست ہوا ۔ اور اسی کا ذکر ان آیتوں میں ہے ۔ روزہ قیامت ایک ایک چیز کا سوال ہو گا ان کے اعمال کا سوال ان سے ان کا رب ضرور کرے گا یعنی کلمہ لا الہ الا اللہ سے ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ تم میں سے ہر ایک شخص قیامت کے دن تنہا تنہا اللہ کے سا منے پیش ہو گا جیسے ہر ایک شخص چودہویں رات کے چاند کو اکیلا اکیلا دیکھتا ہے ۔ اللہ فرمائے گا اے انسان تو مجھ سے مغرور کیوں ہو گیا ؟ تونے اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا ؟ تونے میرے رسولوں کو کیا جواب دیا ؟ ابو العالیہ فرماتے ہیں دو چیزوں کا سو ال ہر ایک سے ہو گا معبود کسے بنا رکھا تھا اور رسول کی مانی یا نہیں ؟ ابن عیینہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں عمل اور مال کا سوال ہو گا ۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضور علیہ السلام نے فرمایا اے معاذ انسان سے قیامت کے دن ہر ایک عمل کا سوال ہو گا ۔ یہاں تک کہ اس کے آنکھ کے سرمے اور اس کے ہاتھ کی گندہی ہوئی مٹی کے بارے میں بھی اس سے سوال ہو گا دیکھ معاذ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن اللہ کی نعمتوں کے بارے میں تو کمی والا رہ جائے ۔ اس آیت میں تو ہے کہ ہر ایک سے اس کے عمل کی بابت سوال ہو گا ۔ اور سورہ رحمان کی آیت میں ہے کہ آیت ( فَيَوْمَىِٕذٍ لَّا يُسْـَٔــلُ عَنْ ذَنْۢبِهٖٓ اِنْسٌ وَّلَا جَاۗنٌّ 39ۚ ) 55- الرحمن:39 ) کہ اس دن کسی انسان یا جن سے اس کے گناہوں کا سوال نہ ہو گا ان دونوں آیتوں میں بقول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ تطبیق یہ ہے کہ یہ سو ال نہ ہو گا کہ تونے یہ عمل کیا ؟ بلکہ یہ سوال ہو گا کہ کیوں کیا ؟
وَقُلْ اِنِّىْٓ اَنَا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ : یہاں صرف ڈرانے کا ذکر ہے، خوش خبری کا نہیں، اس لیے کہ بات منکروں کے متعلق ہو رہی ہے۔ ” النذیر المبین “ (کھلم کھلا ڈرانے والا) کی تفسیر میں وہ حدیث عین حسب حال ہے جو ابو موسیٰ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرمائی : ( إِنَّمَا مَثَلِيْ وَمَثَلُ مَا بَعَثَنِیَ اللّٰہُ بِہِ کَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَی قَوْمًا فَقَالَ یَا قَوْمِ ! إِنِّيْ رَأَیْتُ الْجَیْشَ بِعَیْنَيَّ ، وَإِنِّيْ أَنَا النَّذِیْرُ الْعُرْیَانُ ، فَالنَّجَاءَ ، فَأَطَاعَہُ طَاءِفَۃٌ مِنْ قَوْمِہِ فَأَدْلَجُوْا فَانْطَلَقُوْا عَلٰی مَہْلِہِمْ فَنَجَوْا، وَ کَذَّبَتْ طَاءِفَۃٌ مِنْھُمْ فَأَصْبَحُوْا مَکَانَھُمْ ، فَصَبَّحَہُمُ الْجَیْشُ فَأَھْلَکَھُمْ وَاجْتَاحَھُمْ ، فَذٰلِکَ مَثَلُ مَنْ أَطَاعَنِيْ فَاتَّبَعَ مَا جِءْتُ بِہِ ، وَمَثَلُ مَنْ عَصَانِيْ وَکَذَّبَ بِمَا جِءْتُ بِہِ مِنَ الْحَقِّ ) [ بخاري، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ٧٢٨٣ ] ” میری مثال اور اللہ نے جو کچھ دے کر مجھے بھیجا اس کی مثال اس آدمی کی مثال جیسی ہے جو اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا : ” اے میری قوم ! میں نے اپنی آنکھوں سے لشکر دیکھا ہے اور میں ننگا ڈرانے والا ہوں (پہلے زمانے میں لوگ دشمن سے ڈرانے کے لیے چیخنے چلانے کے ساتھ کپڑے بھی اتار دیتے تھے، ان سے تشبیہ دی ہے) سو تم بچ جاؤ، بچ جاؤ، اس کی قوم میں سے ایک گروہ نے اس کا کہنا مان لیا، وہ اندھیرے ہی میں چل پڑے اور آرام سے چلتے ہوئے بچ نکلے اور ایک گروہ نے اسے جھٹلا دیا اور صبح تک اسی جگہ رہے۔ صبح کے وقت لشکر نے ان پر حملہ کیا اور انھیں ہلاک اور نیست و نابود کردیا، سو یہ مثال ہے اس شخص کی جس نے میری اطاعت کی اور جو کچھ میں لے کر آیا ہوں اس کی پیروی کی اور اس کی (مثال) جس نے میری نافرمانی کی اور اس حق کو جھٹلا دیا جو لے کر میں آیا ہوں۔ “
وَقُلْ اِنِّىْٓ اَنَا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ 89ۚ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔
آیت ٨٩ (وَقُلْ اِنِّىْٓ اَنَا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ ) میری اس کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ آپ لوگوں کو واضح طور پر خبردار کر دوں۔
٨٩۔ ٩١۔ اس آیت میں اللہ پاک نے اپنے رسول صلعم کو حکم فرمایا کہ تم لوگوں سے کہہ دو کہ میں ویسا ہی ڈرانے والا ہوں جس طرح پہلے رسول نے اپنی قوم کو ڈرایا تھا اور قوم نے ان رسولوں کو جھٹلایا اور ان کی مخالفت اور ایذا رسانی پر قسمیں کھا بیٹھے آخر ان پر عذاب نازل ہوا مثلاً جیسے ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی مخالفت پر آپس میں قسما قسمی کی تھی جس کا ذکر سورت النحل میں آوے گا۔{ کما انزلنا علی المقتسمین } کی تفسیر میں مفسروں کا بہت اختلاف ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا یہ قول کہ یہ لوگ وہ اہل کتاب ہیں جنہوں نے قرآن کی طرح سے تقسیم کر ڈالی کہ بعض احکام پر اس کے ایمان لائے اور بعض سے بالکل انکار کرتے ہیں ١ ؎۔ دراصل جو باتیں قرآن مجید کی ان کی کتابوں سے ملتی جلتی ہیں ان کو مانتے ہیں اور جو باتیں ان سے مخالف ہیں ان کا انکار کرتے ہیں اور عکرمہ نے یہ بیان کیا ہے کہ یہود نے مسخرا پن سے یہ بات آپس میں مقرر کرلی تھی کہ یہ سورت قرآن کی میری ہے اور دوسرے نے یہ کہا کہ یہ سورت میری ہے غرض قرآن کی سورتوں کی تقسیم کر ڈالی تھی اور بعضوں نے یہ بیان کیا ہے کہ اہل کتاب نے اپنی کتابوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اس لئے ان کو مقتسمین کہا گیا بعض مفسروں نے یہ بیان کیا ہے کہ مقتسمین کفار قریش ہیں یہ چند آدمی تھے انہوں نے ولید بن مغیرہ کے حکم حج کے زمانے میں مکہ کے رستوں کو روکا کہ مسافر شخص ادھر سے گزرے اس کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بہکایا جائے اور یہ کہا جائے (نعوذ باللہ من ذلک) ۔ یہ شخص مجنون ہیں ہمارے دین سے نکل گئے ہیں کوئی ان سے دھوکا نہ کھانا اور کبھی جادوگر کہتے تھے اور کبھی شاعر کہہ دیتے تھے اسی طرح کبھی قرآن کو جادو کہتے تھے کبھی پہلے لوگوں کی کہانیاں حاصل کلام یہ ہے کہ مقتسمین کے معنے بعض سلف نے تقسیم کرنے والوں کے لئے ہیں اور بعضوں نے قسم کھانے والوں کے، عربی زبان میں مقتسمین کا لفظ تقسیم کرنے والوں کے معنوں میں زیادہ مشہور ہے اور قرآن شریف میں عرب کے مشہور لفظوں میں نازل ہوا ہے اس لئے حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں ان ہی معنے کو پسند کیا ہے ٢ ؎۔ آگے کی آیت میں آتا ہے کہ مسخرا پن کے طور پر قرآن کے ناموں کی تقسیم ٹھہرانے والے لوگ کہ ان میں سے کوئی قرآن کو جادو کہتا تھا کوئی شعر اور کوئی پہلی کہانیاں ان میں سے اکثر لوگ طرح طرح کے مرضوں سے فوراً ہلاک ہوگئے اسی واسطے ان آیتوں میں فرمایا اے رسول اللہ کہ تم ان باقی لوگوں کو ڈرا دو کہ اگر یہ لوگ قرآن کی نصیحت کے موافق راہ راست پر نہ آویں گے تو وہی انجام ان کا ہوگا جو مسخرا پن کے طور پر قرآن کے ناموں کی تقسیم ٹھہرانے والوں کا ہوا اور پھر ان سب کو اپنے عملوں کے موافق قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو جواب دہی کرنی پڑے گی۔ جن علمائے سلف نے مقتسمین کی تفسیر اہل کتاب کو قرار دیا ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب کی حالت پر بھی آیت کا مضمون ہجرت کے بعد صادق آیا اور اس مکی سورت میں اہل کتاب کا ذکر شان نزول کے طور پر نہیں آسکتا کیونکہ قرآن شریف میں اہل کتاب کا ذکر مدینہ کی ہجرت کے بعد شروع ہوا ہے۔ تفسیر نیشا پوری میں شان نزول کے طور پر یہود کے ذکر کو پیشین گوئی قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان مکی آیتوں میں یہود پر جس عذاب کے آنے کا ذکر تھا اس کا ظہور ہجرت کے بعد اس طرح ہوا کہ یہود کے تین قبیلے بنی قینقاع بنی قریظہ جو مدینہ کے گردونوح میں رہتے تھے۔ ان میں سے بنی قینقاع اور بنی نضیر جلاوطن ہوئے اور بنی قریظہ کا قتل ہوا۔ معتبر سند سے مستدرک حاکم میں نعمان بن بشیر (رض) سے روایت جس میں یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح جوش میں آن کر لوگوں کو دوزخ سے ڈرایا کرتے تھے کہ آپ کی چادر کاندھے پر سے اتر کر پیروں میں آن پڑا کرتی تھی ٣ ؎۔ ترمذی طبرانی اور مسند بزار کے حوالہ سے ابی برزہ (رض) اور معاذ بن جبل کی صحیح روایتیں ایک جگہ گزر چکی ہیں ٤ ؎ کہ قیامت کے دن ہر شخص سے چار باتوں کا سوال کیا جاوے گا۔ (١) تمام عمر کن کاموں میں گزاری۔ (٢) جوانی میں کیا کیا (٣) روپیہ پیسہ کیوں کر کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ (٤) دین کی باتوں پر کیا عمل کیا ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ لوگوں کے ڈرانے کے حکم کی تعمیل آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑی سرگرمی سے کیا کرتے تھے۔ تمام عمر کے کاموں کی جواب دہی کے وقت ان لوگوں کو بڑی دقت بھگتنی پڑے گی جن کی تمام عمر اللہ کے رسول کو جادو گر اور کلام الٰہی کو جادو گر کہنے میں گزری۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٦٨٣ ج ٢ باب قولہ الذین جعلوا القرآن حضین۔ ٢ ؎ ابن جریر ص ٦٣ ج ٤۔ ٣ ؎ الترغیب ص ٣١٢ ج ٢ الترغیب من العادالخ۔ ٤ ؎ تفسیر جلد ہذاص ٢٨٩۔
(15:89) النذیر۔ کا مفعول عذاب ہے جو کہ محذوف ہے۔ اور اگلی آیت میں کما انزلنا اس مفعول محذوف کی صفت ہے۔ یعنی میں واضح طور پر تم کو ڈراتا ہوں کہ اگر تم ایمان نہ لائے تو خدا کا عذاب تم پر نازل ہوگا مثل اس عذاب کے جو ہم نے (ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے) المقتسمین پر نازل کیا تھا۔
فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اے نبی ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو بےمثال منصب اور علمی، روحانی، دولت سے نوازا ہے۔ لہٰذا آپ کو کسی اور طرف نظر التفات نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم اور سورة فاتحہ جیسی نعمتیں عطا فرما کر اپنے رسول کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ ہم نے دنیا داروں کو جو کچھ دے رکھا ہے، ان کی طرف نظر التفات نہیں کرنی اور نہ ہی ان کی باتوں پر غم زدہ ہونا چاہیے۔ ان کی باتوں اور دنیا داری کی طرف توجہ کرنے کے بجائے اپنے مومن ساتھیوں سے محبت اور ان کی طرف توجہ رکھیں۔ دنیا پرستوں کو بس اتنا فرمائیں کہ میں حق کا انکار کرنے والوں کو کھلے الفاظ میں ان کے انجام سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر اس طرح ہی عذاب نازل کرے گا۔ جس طرح ان سے پہلے ” مُقْتَسِمِیْنَ “ پر عذاب نازل کیا گیا تھا۔ مُقْتَسِمِیْنَ : کے اہل علم نے دو مفہوم بیان کیے ہیں۔ ١۔ جھوٹی قسمیں اٹھانے والے۔ ٢۔ مُقْتَسِمِیْنَ حصے بخرے کرنے والے اہل علم نے اس سے مراد یہود و نصاریٰ لیے گئے ہیں۔ جنہوں نے مذہبی منافرت اور ذاتی مفادات کی بنا پر تورات اور انجیل کے حصے بخرے کردیے تھے۔ اسی طرح آپ کے مخالفین نے اپنے ذہن میں قرآن مجید کے حصے بخرے کر رکھے ہیں۔ توحید کی آیات سے انھیں سخت نفرت تھی۔ باقی آیات کو قدرے برداشت سمجھتے تھے۔ آپ کے رب کی قسم ہم ان سے ضرور باز پرس کریں گے اور ان کے اعمال کا ضرور احتساب ہوگا۔ اس بات کو قرآن مجید نے دوسرے مقام پر یوں بیان کیا ہے کہ بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو تقسیم کردیا اور کئی گروہوں میں تقسیم ہوگئے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے وہ انہیں بتلائے گا جن کاموں میں وہ مصروف تھے۔ (الانعام : ١٥٩) دین میں تفریق پیدا کرنا اور قرآن مجید کو تقسیم کرنے کے بنیادی طور پر دو مفہوم ہوسکتے ہیں۔ ١۔ ذاتی یا گروہی مفاد یا عناد کی بنا پر قرآن مجید کے کچھ احکام کا انکار کرنا اور کچھ کو تسلیم کرلینا۔ جس طرح اہل مکہ اور یہود و نصاریٰ نے رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ اہل مکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کرتے کہ فلاں فلاں آیات کو چھوڑ یا بدل دیا جائے۔ تب ہم قرآن مجید اور آپ کی رسالت پر ایمان لائیں گے۔ یہود و نصاریٰ ان آیات کو تسلیم کرتے تھے اور ہیں جن میں ان کے انبیاء کی تائید اور تورات و انجیل کی تصدیق پائی جاتی ہے۔ جن آیات میں ان کی خود ساختہ شریعت کی مخالفت پائی جاتی ہے یہ لوگ ان آیات کا انکار کرتے ہیں۔ یہی صورت حال ملائکہ کے بارے میں تھی اور ہے۔ بالخصوص یہودی حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) کی ذات کے ساتھ یہ کہہ کر بغض رکھتے ہیں کہ جبرائیل نے ہمارے آباؤ اجداد پر عذاب نازل کیا تھا اس لیے وہ ہمارا دشمن ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ اس لیے نام نہاد علما اور مسلمان اس میں ترمیم و اضافہ نہیں کرسکتے۔ لیکن اس کے متعین مفہوم میں اپنے اپنے عقائد کی تائید میں قرآن مجید کی آیات پیش کر کے دین میں تفریق اور امت میں تقسیم کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ قرآن مجید نے واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ قرآن مجید میں کچھ آیات محکم ہیں جو قرآن مجید کے مفہوم کی بنیاد ہیں اور دوسری آیات متشابہات ہیں۔ جن کے ایک سے زائد مفہوم بھی ہوسکتے ہیں۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے۔ وہ بنیادی آیات اور اس کے مفہوم کو چھوڑ کر فتنہ برپا کرنے کے لیے متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں۔ حالانکہ متشابہات کا صحیح مفہوم اللہ تعالیٰ اور پختہ علم والوں کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (آل عمران : ٧) دین کو تقسیم کرنا سنگین جرم ہے جس کی سنگینی کے پیش نظر فرمایا گیا ہے کہ اے پیغمبر ! تیرے رب کی قسم ان سے ان کے کردار کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ خَطَبَنَا عُمَرُ (رض) بِالْجَابِیَۃِ فَقَالَ یَآ أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ قُمْتُ فِیْکُمْ کَمَقَامِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْنَا فَقَالَ أُوصِیْکُمْ بِأَصْحَابِیْ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُونَہُمْ ثُمَّ یَفْشُو الْکَذِبُ حَتّٰی یَحْلِفَ الرَّجُلُ وَلاَ یُسْتَحْلَفُ وَیَشْہَدَ الشَّاہِدُ وَلاَ یُسْتَشْہَدُ أَلاَ لاَ یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بامْرَأَۃٍ إِلاَّ کَانَ ثَالِثَہُمَا الشَّیْطَانُ عَلَیْکُمْ بالْجَمَاعَۃِ وَإِیَّاکُمْ وَالْفُرْقَۃَ فَإِنَّ الشَّیْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَہُوَ مِنَ الاِثْنَیْنِ أَبْعَدُ مَنْ أَرَادَ بِحَبُوْحَۃَ الْجَنَّۃِ فَلْیَلْزَمِ الْجَمَاعَۃَ مَنْ سَرَّتْہُ حَسَنَتُہٗ وَسَآءَ تْہُ سَیِّءَتُہٗ فَذَلِکَ الْمُؤْمِنُ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الفتن، باب مَا جَاءَ فِی لُزُومِ الْجَمَاعَۃِ ] ” حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت عمر (رض) نے جابیہ کے مقام پر خطبہ دیا کہا اے لوگو ! میں تم میں کھڑا ہوا ہوں جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان کھڑے ہوئے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمہیں اپنے صحابہ کے متعلق وصیت کرتا ہوں پھر ان کے بعد والوں کے لیے اور پھر ان سے بعد آنے والوں کے لیے۔ اس کے بعدجھوٹ پھیل جائے گا یہاں تک کہ آدمی قسم اٹھائے گا حالانکہ اس سے قسم طلب نہیں کی جائے گی۔ آدمی گواہی دے گا حالانکہ گواہی اس سے طلب نہیں کی جائے گی۔ آگاہ رہو ! نہیں خلوت اختیار کرتا کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ مگر تیسرا ان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔ جماعت کو لازم پکڑو اور فرقوں میں بٹنے سے بچو یقیناً شیطان ایک کے ساتھ ہوتا ہے اور دور سے دور ہوتا ہے جو جنت کی خوشبو چاہتا ہے وہ جماعت کے ساتھ منسلک رہے۔ جس کو نیکی اچھی لگے اور برائی بری محسوس ہو وہ مومن ہے۔ “ مسائل ١۔ کفار کے اموال کی طرف للچائی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مومنوں کے ساتھ نرمی کرنے کا حکم دیا گیا۔ ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا گیا۔ ٤۔ کچھ لوگ عملاً قرآن مجید کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ ٥۔ ہر کسی سے اس کے اعمال کے متعلق پوچھا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن دنیا کی اصلیّت اور اس کا انجام : ١۔ جو ہم نے کفار کو دے رکھا ہے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھئے۔ (الحجر : ٨٨) ٢۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر کھیل تماشا۔ (العنکبوت : ٦٤) ٣۔ دنیا کی زندگی صرف دھوکے کا سامان ہے۔ (آل عمران : ١٨٥) ٤۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا قلیل ہے۔ (التوبۃ : ٣٨) ٥۔ آپ فرما دیں کہ دنیا کا سامان تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے۔ (النساء : ٧٧)
(وَ قُلْ اِنِّیْٓ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُ ) (اور آپ فرما دیجیے کہ بلاشبہ میں واضح طور پر ڈرانے والا ہوں) میرا کام اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچانا اور حکم کی مخالفت پر جو عذاب آئے گا، اس سے ڈرانا ہے میرا ڈرانا واضح ہے کھلم کھلا ہے، جو نہ مانے گا اپنا ہی برا کرے گا۔ قال صاحب الروح ای المنذر الکاشف نزول عذاب اللّٰہ تعالیٰ ونقمۃ المخوفۃ بمن لم یومن صاحب روح المعانی فرماتے ہیں یعنی ایمان نہ لانے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نزول سے خوفناک انتقام سے واضح طور پر ڈرانے والا۔
89 ۔ اور آپ ان سے فرما دیجئے کہ میں تم کو کھلے طور پر خدا کے عذاب سے ڈرانے والا ہوں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی تیرا کام دل پھرنا نہیں یہ خدا سے ہوسکتا ہے جو کوئی ایمان نہ لاوے تو تو غم نہ کھا 12 ۔ مدعا یہ ہے کہ آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے وہ کرتے رہیے اور اس کا غم نہ کیجئے کہ لوگ قبول کیوں نہیں کرتے۔