Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 95

سورة الحجر

اِنَّا کَفَیۡنٰکَ الۡمُسۡتَہۡزِءِیۡنَ ﴿ۙ۹۵﴾

Indeed, We are sufficient for you against the mockers

آپ سے جو لوگ مسخرا پن کرتے ہیں ان کی سزا کے لئے ہم کافی ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Truly, We will suffice you against the mockers. Do not fear them because Allah will suffice you against them, and He will protect you from them. This is like the Ayah: يَـأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَأ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ O Messenger! Proclaim that which has been revealed to you from your Lord. And if you do not do it, then you have not conveyed His Message. Allah will protect you from mankind. (5:67) Muhammad bin Ishaq said: "The great ones of the mockers were five people, who were elders and noblemen among their people. From Bani Asad bin Abd Al-Uzza bin Qusayy there was Al-Aswad bin Al-Muttalib Abu Zam`ah. According to what I heard, the Messenger of Allah had supplicated against him because of the pain and mockery he had suffered at his hands. He had said, اللَّهُمَّ أَعِمْ بَصَرَهُ وَأَثْكِلْهُ وَلَدَه O Allah, make him blind and take (the life of) his son. From Bani Zahrah there was Al-Aswad bin Abd Yaghuth bin Wahb bin Abd Manaf bin Zahrah. From Bani Makhzum there was Al-Walid bin Al-Mughirah bin Abdullah bin Umar bin Makhzum. From Bani Sahm bin Amr bin Husays bin Ka`b bin Lu'ayy there was Al-`As bin Wa'il bin Hisham bin Sa`id bin Sa`d. From Khuza`ah there was Al-Harith bin At-Talatilah bin Amr bin Al-Harith bin Abd Amr bin Malkan. When their evil went to extremes and their mockery of the Messenger of Allah went too far, Allah revealed: فَاصْدَعْ بِمَا تُوْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِيِينَ الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللّهِ إِلـهًا اخَرَ فَسَوْفَ يَعْمَلُونَ Therefore openly proclaim that which you are commanded, and turn away from the idolators. Truly, We will suffice you against the mockers, who make another god along with Allah; but they will come to know. Ibn Ishaq said: Yazid bin Ruman told me that Urwah bin Az-Zubayr or one of the other scholars said that Jibril came to the Messenger of Allah when he was performing Tawaf around the House (the Ka`bah). He stood and the Messenger of Allah stood next to him. Al-Aswad Ibn Al-Mutalib passed by, and he threw a green leaf in his face, and he became blind. Al-Aswad bin Abd Yaghuth passed by, and he pointed to his stomach, which swelled up and he died (of dropsy). Al-Walid bin Al-Mughirah passed by, and he pointed at a wound on lower of his ankle, which he got two years earlier when He once was trailing his garment and he passed by a man who was feathering his arrows. One of the arrows got caught in his garment and scratched his foot. It was an insignificant wound, but now it opened again and he died of it. Al-`As bin Wa'il passed by, and he pointed to the instep of his foot. He (Al-`As) set off on his donkey, heading for At-Ta'if. He rested by a thorny tree, a thorn pierced his foot and he died from it. Al-Harith bin At-Talatilah passed by and he pointed at his head. It filled with pus and killed him." Allah said, الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللّهِ إِلـهًا اخَرَ فَسَوْفَ يَعْمَلُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ : ہم ان سے نبٹ لیں گے، آپ بےخوف و خطر دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے رہیے۔ عبداللہ بن عباس (رض) نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی اور فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑانے والے (بڑے بڑے یہ پانچ) آدمی تھے، ولید بن مغیرہ، اسود بن عبد یغوث زہری، ابوزمعہ اسود بن مطلب، حارث بن عیطل سہمی اور عاص بن وائل۔ جبریل (علیہ السلام) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو آپ نے ان سے مذاق اڑانے والوں کی شکایت کی۔ حدیث لمبی ہے، خلاصہ یہ کہ جبریل (علیہ السلام) نے ان کے جسم کے کسی نہ کسی حصے کی طرف اشارہ کیا اور وہ پانچوں بری طرح فوت ہوئے۔ [ السنن الکبریٰ للبیہقی : ٩؍٨، ح : ١٨١٨٧ ] جو مذاق اڑانے والے باقی رہے ان کا انجام عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان فرمایا : ( أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّيْ عِنْدَ الْبَیْتِ ، وَ أَبُوْجَھْلٍ وَأَصْحَابٌ لَہُ جُلُوْسٌ، إذْ قَالَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ أَیُّکُمْ یَجِيْءُ بِسَلَی جَزُوْرِ بَنِيْ فُلاَنٍ فَیَضَعُہُ عَلٰی ظَھْرِ مُحَمَّدٍ إِذَا سَجَدَ ؟ فَانْبَعَثَ أَشْقَی الْقَوْمِ ، فَجَاءَ بِہِ فَنَظَرَ حتّٰی إِذَا سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَضَعَہُ عَلٰی ظَھْرِہِ بَیْنَ کَتِفَیْہِ وَأَنَا أَنْظُرُ ، لاَ أُغْنِيْ شَیْءًا، لَوْ کَانَتْ لِيْ مَنَعَۃٌ، قَالَ فَجَعَلُوْا یَضْحَکُوْنَ وَیُحِیْلُ بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ ، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ لاَ یَرْفَعُ رَأْسَہُ حَتّٰی جَاءَ تْہُ فَاطِمَۃُ فَطَرَحَتْہُ عَنْ ظَہْرِہِ ، فَرَفَعَ رَأْسَہُ ثُمَّ قَالَ اَللّٰھُمَّ عَلَیْکَ بِقُرَیْشٍ ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، فَشَقَّ عَلَیْھِمْ إِذْ دَعَا عَلَیْھِمْ ، قَالَ وَکَانُوْا یَرَوْنَ أنَّ الدَّعْوَۃَ فِيْ ذٰلِکَ الْبَلَدِ مُسْتَجَابَۃٌ، ثُمَّ سَمَّی اَللّٰھُمَّ عَلَیْکَ بِأَبِيْ جَھْلٍ ، وَعَلَیْکَ بِعُتْبَۃَ بْنِ رَبِیْعَۃَ ، وَشَیْبَۃَ بْنِ رَبِیْعَۃَ ، وَالْوَلیْدِ بْنِ عُتْبَۃَ ، وَأُمَیَّۃَ بْنِ خَلَفٍ ، وَعُقَبَۃَ بْنِ أَبِيْ مُعَیْطٍ ، وَعَدَّ السَّابِعَ فَلَمْ نَحْفَظْہُ ، قَالَ فَوَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَقَدْ رَأَیْتُ الَّذِیْنَ عَدَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَرْعَی فِي الْقَلِیْبِ قَلِیْبِ بَدْرٍ ) [ بخاری، الوضوء، باب إذا ألقي علٰی ظہر المصلي قدر۔۔ : ٢٤٠ ] ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے کچھ ساتھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے آپس میں کہا کہ تم میں سے کون ہے جو بنو فلاں کی ذبح کردہ اونٹنی کی اوجھڑی و بچہ دانی وغیرہ اٹھا کر لائے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سجدہ کرے تو اس کی پیٹھ پر رکھ دے۔ تو ان میں سے سب سے بدبخت شخص اٹھا اور اس نے وہ اوجھڑی وغیرہ لا کر آپ کے کندھوں کے درمیان رکھ دی۔ میں دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کرسکتا تھا، کاش ! مجھ میں آپ کے دفاع کی طاقت ہوتی۔ تو وہ سب ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدے ہی میں رہے، سر نہیں اٹھایا، یہاں تک کہ فاطمہ (رض) آئیں اور اسے آپ کی کمر سے اتار پھینکا، تو آپ نے سر اٹھایا اور کہا : ” یا اللہ ! قریش کو پکڑ۔ “ آپ کی یہ بددعا ان پر بڑی شاق گزری، وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر میں دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر آپ نے نام لے کر فرمایا : ” اے اللہ ! ابوجہل کو پکڑ، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو پکڑ۔ “ ایک ساتواں بھی گنا جو ہمیں یاد نہیں رہا۔ “ ابن مسعود (رض) نے فرمایا : ” پھر اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں نے ان تمام آدمیوں کو جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گنے تھے، بدر کے کنویں میں ہلاک شدہ گرے ہوئے دیکھا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The people who have been referred to in the verse: إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ (Surely, We are sufficient for you against those who deride - 95) their ring leaders were five in number: (1) Al-` As ibn Wa’ il (2) Aswad ibn al-Muttalib (3) Aswad ibn ` Abd Yaghuth (4) Walid ibn Mughirah (5) Harith ibn Talhah. They were killed simultaneously and miraculously when signalled by Sayyidna Jibra&il (علیہ السلام) . This event provides a guideline in matters of Tabligh and Da&wah. In places and under circumstances where a worker in the way of Allah sees no good coming out of saying what is true and right openly, rather appre¬hends harm coming to him in doing so, then, under such conditions, doing so secretly is also correct and permissible. However, when there is the option and ability to proclaim things openly, then, no delay should be made in taking a public stance.

(آیت) اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ میں جن لوگوں کا ذکر ہے ان کے لیڈر پانچ آدمی تھے عاص بن وائل، اسود بن المطلب، اسود بن عبدی، غوث ولید بن مغیرہ، حارث بن الطلاطلۃ یہ پانچوں معجزانہ طور پر ایک ہی وقت میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے اشارے سے ہلاک کردیئے گئے اس واقعہ سے تبلیغ و دعوت کے معاملہ میں یہ حاصل ہوا کہ اگر انسان کسی ایسے مقام یا ایسے حال میں مبتلا ہوجائے کہ وہاں حق بات کو علی الاعلان کہنے سے ان لوگوں کو تو کوئی فائدہ پہنچنے کی توقع نہ ہو اور اپنے آپ کو نقصان و تکلیف اندیشہ ہو تو ایسی حالت میں یہ کام خفیہ طور پر کرنا بھی درست اور جائز ہے البتہ جب اظہار و اعلان کی قدرت ہوجائے تو پھر اعلان میں کوتاہی نہ کی جائے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ 95؀ۙ كفى الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل . ( ک ف ی ) الکفایۃ وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔ اسْتِهْزَاءُ : ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] ، وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] ، ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] ، إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] ، وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] والِاسْتِهْزَاءُ من اللہ في الحقیقة لا يصحّ ، كما لا يصحّ من اللہ اللهو واللّعب، تعالیٰ اللہ عنه . وقوله : اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] أي : يجازيهم جزاء الهزؤ . ومعناه : أنه أمهلهم مدّة ثمّ أخذهم مغافصة «1» ، فسمّى إمهاله إيّاهم استهزاء من حيث إنهم اغترّوا به اغترارهم بالهزؤ، فيكون ذلک کالاستدراج من حيث لا يعلمون، أو لأنهم استهزء وا فعرف ذلک منهم، فصار كأنه يهزأ بهم كما قيل : من خدعک وفطنت له ولم تعرّفه فاحترزت منه فقد خدعته . وقد روي : [أنّ الْمُسْتَهْزِئِينَ في الدّنيا يفتح لهم باب من الجنّة فيسرعون نحوه فإذا انتهوا إليه سدّ عليهم فذلک قوله : فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] «2» وعلی هذه الوجوه قوله عزّ وجلّ : سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] . الا ستھزاء اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزاء کیا کرتے ۔ تھے وہ ان کو گھر لے گی ۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] اور ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا تھا مگر اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے ۔إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] کہ جب تم ( کہیں ) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہوراہا ہے ا اور ان کی ہنسی ارائی جاتی ہے ۔ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ تمسخر ہوتے ہے ۔ حقیقی معنی کے لحاظ سے استزاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح نہیں ہے جیسا کہ لہو ولعب کا استعمال باری تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں ہے لہذا آیت : ۔ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15]( ان ) منافقوں سے ) خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسر کشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ میں یستھزئ کے معنی یا تو استھزاء کی سزا تک مہلت دی اور پھر انہیں دفعتہ پکڑ لیا یہاں انہوں نے ھزء کی طرح دھوکا کھا یا پس یا اس مارج کے ہم معنی ہے جیسے فرمایا : ۔ ان کو بتریج اس طرح سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا ۔ اور آہت کے معنی یہ ہیں کہ جس قدر وہ استہزار اڑا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے استہزار سے باخبر ہے تو گو یا اللہ تعالیٰ بھی ان کا مذاق اڑارہا ہے ۔ مثلا ایک شخص کسی کو دھوکہ دے ۔ اور وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہوکر اسے اطلاع دیئے بغیر اسے سے احتراز کرے تو کہا جاتا ہے ۔ خدعنہ یعنی وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ان للستھزبین فی الدنیا الفتح لھم باب من الجنتہ فیسر عون نحوہ فاذا انتھرا الیہ سد علیھم ۔ کہ جو لوگ دنیا میں دین الہٰی کا مذاق اڑاتے ہیں قیامت کے دن ان کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائیگا جب یہ لوگ اس میں داخل ہونے کے لئے سرپ دوڑ کر وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائیگا چناچہ آیت : ۔ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] تو آج مومن کافروں سے ہنسی کریں گے ۔ میں بعض کے نزدیک ضحک سے یہی معنی مراد ہیں اور آیت سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] خدا ان پر ہنستا ہے اور ان کے لئے تکلیف دینے والا عذاب تیار ہے ۔ میں بھی اسی قسم کی تاویل ہوسکتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٥۔ ٩٦) اور یہ لوگ جو آپ پر ہنستے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ انہوں نے اور دوسرے معبود قرار دے رکھے ہیں تو ہم ان ہنسنے والوں کی ہنسی کو ضرور آپ سے دور کردیں گے، سو ان کو ابھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کیا معاملہ فرماتے ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ایک دن ایک رات میں ہر ایک پر نیا عذاب نازل کرکے ہلاک کردیا اور یہ بدبخت پانچ تھے چناچہ عاص بن وائل سہمی کو تو کسی چیز نے ڈس لیا اور وہ اسی جگہ فورا امر گیا۔ اور حارث بن قیس سہمی نے نمکین یا تازہ مچھلی کھالی، اس کے بعد اسے پیاس لگی، اس نے پانی پی لیا، بدبخت کا اس سے پیٹ پھٹ گیا اور اسی جگہ پر مرگیا۔ اور اسود بن عبدالمطلب کا سر حضرت جبریل (علیہ السلام) نے درخت سے اور اس کا منہ کانٹوں سے ٹکرا دیا اور وہ اسی مرگیا، اور اسود بن عبد یغوث سخت گرمی میں باہر نکلا تو اس کو زہر چڑھ گیا جس سے حبشی کی طرح سیاہ فام ہوگیا اپنے گھر واپس آیا تو گھروالوں نے دروازہ نہیں کھولا تو اس نے اپنا سر دروازہ پر مارا اسی سے مرگیا، اللہ تعالیٰ اس کو رسوا کرے۔ اور ولید بن مغیرہ مخزومی کے تیر کی نوک لگ گئی، اسی سے مرگیا، اللہ تعالیٰ ان بدبختوں کو اپنی رحمت سے دور کرے، سب کے سب مرنے کے وقت یہی کہہ رہے تھے کہ مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار نے مار ڈالا۔ شان نزول : (آیت ) ” انا کفینک “۔ (الخ) بزار، طبرانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انس بن مالک (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکہ مکرمہ میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزر ہوا تو وہ بدبخت آپ کی گدی میں کو نچے مارنے لگے کہ یہ شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں نبی ہوں اور میرے ساتھ جبریل امین (علیہ السلام) نے اپنی انگلی سے ایک کونچا مارا جو ان کے جسموں میں ناخن کی طرح لگا اور اس سے ایسے بدبودار زخم ہوئے کہ کوئی ان کے قریب بھی نہ جاسکتا (اور اسی حالت میں مرگئے) تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی یعنی یہ لوگ جو ہنستے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرا معبود قرار دیتے ہیں ان سے آپ کے لیے ہم ہی کافی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٥ (اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ ) آپ ان کی مخالفت کی پروا نہ کریں ہم ان سے اچھی طرح نمٹ لیں گے۔ یہ لوگ آپ کا بال بھی بیکا نہیں کرسکیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:95) انا کفینک۔ تحقیق ہم کافی ہیں تیرے لئے (بمقابلہ تمسخر کرنے والوں کے) یعنی وہ آپ کو گزند نہیں پہنچا سکیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 ہم ان سے نبٹ لیں گے آپ بےخوف و خطر دعوت تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے رہے مفسرین کا بیان ہے کہ مراد کفار کے پانچ سردار ہیں (ولید بن مغیرہ) عاص بن وائل اسود بن مطلب، سود بن عبدالغیوث اور حارث بن طلہ طلہ) اللہ تعالیٰ نے ان سب کا ایک ہی دن میں کام تمام کرڈ الا۔ (فتح القدیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہنسی کرنے والوں کے لیے ہم کافی ہیں اس کے بعد فرمایا (اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِءِ یْنَ الَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ) (بلاشبہ جو لوگ ہنسی کرنے والے ہیں، جو اللہ کے ساتھ دوسرا معبود تجویز کرتے ہیں ان کی جانب سے ہم آپ کے لیے کافی ہیں، سو عنقریب وہ جان لیں گے) ہنسی کرنے والے یوں تو سب ہی مشرکین تھے لیکن خصوصی طور پر علمائے تفسیر نے ولید بن مغیرہ اور اس کے چار ساتھیوں کا نام لیا ہے یہ لوگ ہنسی کرنے اور مذاق اڑانے میں بہت آگے آگے تھے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے ان کے مختلف اعضاء کی طرف اشارہ فرمایا کسی کے پیٹ کی طرف کسی کی آنکھوں کی طرف کسی کے سر کی طرف اور یہ بتادیا کہ ان اعضاء میں تکلیف پیدا ہوجانے سے ہلاک ہوں گے علامہ کرمانی نے شرح بخاری میں لکھا ہے کہ ان مسخرہ کرنے والوں سے وہ سات افراد مراد ہیں جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کمر مبارک پر گندگی ڈال دی تھی جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے یہ لوگ بدر میں مقتول ہوئے (راجع روح المعانی ص ٧٦ ج ١٤) معالم التنزیل ص ٥٩ ج ٣ میں لکھا ہے کہ مستہزئین مذاق بنانے والے پانچ افراد تھے اول ولید بن مغیرہ جو ان سب کا سردار تھا دوسرا عاص بن وائل تیسرا اسود بن عبد المطلب چوتھا اسود بن عبد یغوث پانچواں حارث بن قیس تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو استھزا کی سزا دی اور یہ لوگ بری موت مرے ایک دن یہ لوگ کعبہ شریف کا طواف کر رہے تھے (زمانہ جاہلیت میں بھی کعبہ شریف کا طواف کیا جاتا تھا) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس موقعہ پر وہاں موجود تھے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) بھی تشریف لے آئے جب ولید بن مغیرہ کا گزر ہوا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اس شخص کو کیسا پاتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یہ برا بندہ ہے۔ حضرت جبرائیل نے فرمایا اس کی طرف سے آپ کی حفاظت کردی گئی، اور یہ فرماتے ہوئے ولید کی پنڈلی کی طرف اشارہ فرمایا اس کے بعد ولید وہاں سے چلا گیا یمانی چادریں پہنے ہوئے تھا۔ تہمد کو گھسیٹتا ہوا جا رہا تھا راستہ میں بنی خزاعہ کا ایک شخص کھڑا تھا جس کے تیروں کے پر بکھرے ہوئے تھے۔ ان تیروں کا دھار دار حصہ ولید کے پاؤں میں چبھ گیا۔ اس نے تکبر کی جہ سے جھکنا گوارا نہیں کیا تاکہ اسے اپنے پاؤں سے نکال دے بالآخر وہ دھار دار حصہ آگے بڑھتا رہا جس نے اس کی پنڈلی کو زخمی کردیا۔ جس سے وہ مریض ہوگیا اور اس مرض میں مرگیا، پھر عاص بن وائل وہاں سے گزرا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کیسا شخص ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ برا بندہ ہے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کے قدموں کے تلووں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ آپ کی اس سے حفاظت ہوگئی اس کے بعد عاص بن وائل اپنے دو لڑکوں کے ساتھ تفریح کرنے نکلا ایک گھاٹی پر پہنچا تو اس کا پاؤں ایک خار دار درخت پر پڑگیا اس کا ایک کانٹا اس کے پاؤں کے تلوے میں گھس گیا جس سے اس کا پاؤں پھول کر اونٹ کی گردن کے برابر ہوگیا اور وہی اس کی موت کا سبب بن گیا تھوڑی دیر میں اسود بن عبد المطلب گزرا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ یہ کیسا شخص ہے ؟ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ برا شخص ہے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ آپ اس سے محفوظ ہوگئے۔ چناچہ وہ اندھا ہوگیا اور برابر دیوار میں سر مارتا رہا اور یہ کہتے ہوئے مرگیا قَتَلَنِیْ رَبُّ مُحَمَّدٍ (مجھے رب محمد نے قتل کردیا) پھر اسود بن عبد یغوث گزرا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اسے کیسا شخص پاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ برا بندہ ہے حالانکہ میرے ماموں کا لڑکا ہے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کی کہ اس کی طرف سے آپ کی حفاظت کردی گئی، یہ کہہ کر اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا۔ لہٰذا اس کو استسقاء کا مرض لگ گیا اس کے بعد حارث بن قیس کا گزر ہوا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اسے کیسا پاتے ہیں آپ نے فرمایا یہ برا بندہ ہے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کے سر کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا اس سے آپ کی حفاظت کردی گئی۔ اس کے بعد اس کی ناک سے مسلسل پیپ نکلنے لگی جو اس کی موت کا ذریعہ بن گئی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35:۔ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے چوتھی بار تسلی کا ذکر اور تخویف دنیوی کا پانچواں نمونہ ہے۔ ” اَلْمُسْتَھْزِءِیْنَ “ سے مشرکین مکہ کے وہ پانچ یا کم و پیش آدمی مراد ہیں جو ہر وقت قرآن اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے استہزاء و تمسخر کی نئی نئی صورتیں نکالتے رہتے تھے اور آپ کی ہر بات کا مذاق اڑاتے رہتے تھے۔ ان کے نام یہ ہیں۔ ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، اسود بن مطلب، ابو زمعہ، اسود بن عبد یغوث (بحر ج 5 ص 470) مقتسمین اور مستہزئین کی تعداد اور ان کے ناموں کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ یہ لوگ مختلف طریقوں سے آپ کو ستاتے اور آپ سے تمسخر کرتے تھے۔ کبھی راستہ میں کانٹے بچھاتے، کبھی اوپر سے کوڑا کرکٹ پھنکواتے کبھی گندگی اٹھا کر عین حالت نماز آپ کے اوپر ڈال دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان خبثاء کو ہلاک کرنے کا وعدہ فرمایا کہ آپ اپنا کام کیے جائیں ان کی پرواہ نہ کریں ان سے میں خود نمٹ لوں گا۔ چناچہ ان کو مختلف تکلیفوں میں مبتلا کر کے ہلاک کردیا گیا۔ ” اَلَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ “ یہ ” اَلْمُسْتَھْزِءِیْنَ “ کے لیے صفت کاشفہ ہے۔ ان بدبختوں نے صرف استہزاء پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اللہ کے ساتھ شرک بھی کرتے ہیں۔ انہم لم یقتصروا علی الاستہزاء بہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بل اجترء وا علی العطیمۃ التیھی الاشراک بہ سبحانہ (روح ج 14 ص 86) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

95 ۔ اور کچھ خوف نہ کیجئے کیونکہ ہم آپ کی طرف سے ان مذاق اڑانے والے اور استہزا کرنے والوں کے لئے کافی ہیں۔