Surat un Nahal

The Bee

Surah: 16

Verses: 128

Ruku: 16

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Name of the Surah This Surah has been called Al-Nahl, that is, the honey bee because it mentions it as a unique Divine marvel. Another name for this Surah is Surah Al-Ni` am. (Qurtubi) The word Ni am is the plural of Ni mah (bless¬ing) because the great blessings of Allah Ta’ ala have been particularly mentioned in this Surah. Commentary The Surah begins without any particular introduction with a direct, stern and awesome note of warning. The reason behind it was the saying of the polytheists that Muhammad (al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) keeps warning them of the day of Qiyamah and the punishment of Allah and telling them that Allah Ta’ ala has promised victory for him and punish¬ment for his opponents. All this, they challenged, they do not see coming upon them. In reply, it was said: أَتَىٰ أَمْرُ‌ اللَّـهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ (The command of Allah is bound to come. So, do not ask for it to come sooner - 1). Here, the expression: أَمْرُ‌ اللَّـهِ (amrullah : the command of Allah) means the promise Allah has made to His Rasul - that his enemies will be made to surrender, and that Muslims will be blessed with victory and honour. In this verse, it is in a distinctly awesome tone that Allah Ta’ ala has said: أَتَىٰ أَمْرُ‌ اللَّـهِ (ata amrullah: translated here as the command of Allah is bound to come ). Literally (the nuance of the original expression remaining untranslatable), the sense is that issued is the command of Al¬lah, that is, it is bound to come which you will soon see. Some commentators say that the command of Allah here means the day of Qiyamah. The sense of its being bound to come is that it is going to come soon. And if we were to look at it in the frame of the life of the entire world itself, its being close, or its actual coming does not remain much distant. (Al-Bahr Al-Muhit) As for the second sentence in the first verse where it is said that Allah Ta’ ala is free of Shirk (the ascribing of partners to Him), it means that the act of these people who are belying the promise of Allah Ta’ ala is itself an act of Kufr (infidelity) and Shirk. Allah Ta’ ala is absolutely free from it. (Al-Bahr Al-Muhit) The essential message of the first verse is to call people to believe in the Oneness of Allah (Tauhid) through a stern warning. The second verse carries an affirmation of Tauhid through a reported proof, the substance of which is that every Rasul or messenger of Allah, from Sayyidna Adam (علیہ السلام) to the Last of the Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، who has come in different parts of the world at different times, has but preached this belief in the Oneness of Allah - though, none of them knew anything about the life and work of each other because of obvious causes. Just imagine if at least one hundred and twenty thousand blessed wise men who are born in different ages, countries and regions, and believe in and adhere to one single principle, then, one is naturally compelled to accept that their saying so cannot be false. In order to have faith, this single proof is sufficient. The word: رُوح (ruh: spirit) as used in this verse, according to Sayyidna ibn ` Abbas (رض) ، means Wahy (revelation); and according to some commentators, it means Hidayah (guidance). (Al-Bahr Al-Muhit) After having presented the reported proof of Tauhid in the second verse, the same belief has been proved rationally by turning the focus on the blessings of Allah Ta` ala as it follows next in verses 3-8.

خلاصہ تفسیر : اس سورة کا نام سورة نحل اس مناسبت سے رکھا گیا ہے کہ اس میں نحل یعنی شہد کی مکھیوں کا ذکر قدرت کی عجیب و غریب صنعت کے بیان کے سلسلے میں ہوا ہے اس کا دوسرا نام سورة نعم بھی ہے (قرطبی) نعم بکسر نون نعمت کی جمع ہے اس لئے کہ اس سورة میں خاص طور پر اللہ جل شانہ کی عظیم نعمتوں کا ذکر ہے۔ خدا تعالیٰ کا حکم (یعنی سزائے کفر کا وقت قریب) آپہنچا سو تم اس میں (منکرانہ) جلدی مت مچاؤ (بلکہ توحید اختیار کرو اور اس کی حقیقت سنو کہ) وہ لوگوں کے شرک سے پاک اور برتر ہے وہ اللہ تعالیٰ فرشتوں (کی جنس یعنی جبرئیل) کو وحی یعنی اپنا حکم دے کر اپنے بندوں میں جس پر چاہیں (یعنی انبیاء (علیہم السلام) پر) نازل فرماتے ہیں (اور وہ حکم) یہ (ہے) کہ لوگوں کو خبردار کردو کہ میرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں سو مجھ سے ہی ڈرتے رہو (یعنی میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ورنہ سزا ہوگی ) معارف و مسائل : اس سورة کو بغیر کسی خاص تمہید کے ایک شدید وعید اور ہیبت ناک عنوان سے شروع کیا گیا جس کی وجہ مشرکین کا یہ کہنا تھا کہ محمد (مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں قیامت سے اور اللہ کے عذاب سے ڈراتے رہتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو غالب کرنے اور مخالفوں کو سزا دینے کا وعدہ کیا ہے ہمیں تو یہ کچھ ہوتا نظر نہیں آتا اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ آپہنچا حکم اللہ کا تم جلد بازی نہ کرو۔ حکم اللہ سے اس جگہ مراد وہ وعدہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول سے کیا ہے کہ ان کے دشمنوں کو زیر و مغلوب کیا جاوے گا اور مسلمانوں کو فتح ونصرت اور عزت و شوکت حاصل ہوگی اس آیت میں حق تعالیٰ نے ہیبت ناک لہجہ میں ارشاد فرمایا کہ حکم اللہ کا آپہنچا یعنی پہنچنے ہی والا ہے جس کو تم عنقریب دیکھ لو گے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس میں حکم اللہ سے مراد قیامت ہے اس کے آ پہنچنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس کا وقوع قریب ہے اور پوری دنیا کی عمر کے اعتبار سے دیکھا جائے تو قیامت کا قریب ہونا یا آ پہنچنا بھی کچھ بعید نہیں رہتا (بحر محیط) اس کے بعد کے جملے میں جو یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شرک سے پاک ہے اس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ جو حق تعالیٰ کے وعدہ کو غلط قرار دے رہے ہیں یہ کفر و شرک ہے اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہیں (بحر) اس آیت کا خلاصہ ایک وعید شدید کے ذریعہ توحید کی دعوت دینا ہے دوسری آیت میں دلیل نقلی سے توحید کا اثبات ہے کہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک دنیا کے مختلف خطوں مختلف زمانوں میں جو بھی رسول آیا ہے اس نے یہی عقیدہ توحید پیش کیا ہے حالانکہ ایک کو دوسرے کے حال اور تعلیم کی بظاہر اسباب کوئی اطلاع بھی نہ تھی غور کرو کہ کم از کم ایک لاکھ بیس ہزار حضرات عقلاء جو مختلف اوقات میں مختلف ملکوں مختلف خطوں میں پیدا ہوں اور وہ سب ایک ہی بات کے قائل ہوں تو فطرۃ انسان یہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ بات غلط نہیں ہو سکتی ایمان لانے کے لئے تنہا یہ دلیل بھی کافی ہے۔ لفظ روح سے مراد اس آیت میں بقول ابن عباس اور بقول بعض مفسرین ہدایت ہے (بحر) اس آیت میں توحید کا روایتی اور نقلی ثبوت پیش کرنیکے بعد اگلی آیتوں میں اسی عقیدہ توحید کو عقلی طور سے حق تعالیٰ کی نعمتیں پیش نظر کر کے ثابت کیا جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل نام : آیت ٦۸ کے فقرے وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ سے ماخوذ ہے ۔ یہ بھی محض علامت ہے نہ کہ موضوع بحث کا عنوان ۔ زمانہ نزول : متعدد اندرونی شہادتوں سے اس کے زمانہ نزول پر روشنی پڑتی ہے ۔ مثلًا: آیت ٤۱ کے فقرے وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِی اللہِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہجرت حبشہ واقع ہو چکی تھی ۔ آیت ۱۰٦ مَنْ کَفَرَ بِاللہِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہ الآ یہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ظلم و ستم پوری شدت کے ساتھ ہو رہا تھا اور یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ اگر کوئی شخص ناقابل برداشت اذیت سے مجبور ہو کر کلمہ کفر کہہ بیٹھے تو اس کا کیا حکم ہے ۔ آیات ۱۱۲ – ۱۱٤ وَضَرَ بَ اللہُ مَثَلًا قَرْ یَۃً ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّا ہُ تَعْبُدُوْنَ کا صاف اشارہ اس طرف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد مکہ میں جو زبردست قحط رونما ہوا تھا وہ اس سورے کے نزول کے وقت ختم ہو چکا تھا ۔ اس سورہ میں آیت ۱۱۵ ۔ ایسی ہے جس کا حوالہ سورہ انعام آیت ۱۱۹ میں دیا گیا ہے ، اور دوسری آیت ( نمبر ۱۱۸ ) ایسی ہے جس میں سورہ انعام کی آیت ۱٤٦ کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں سورتوں کا نزول قریب العہد ہے ۔ ان شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس سورہ کا زمانہ نزول بھی مکے کا آخری دور ہی ہے ، اور اسی کی تائید سورہ کے عام انداز بیان سے بھی ہوتی ہے ۔ موضوع اور مرکزی مضمون : ”شرک کا ابطال ، توحید کا اثبات ، دعوت پیغمبر کو نہ ماننے کے برے نتائج پر تنبیہ و فہمائش ، اور حق کی مخالفت و مزاحمت پر زجرو توبیخ ۔ مباحث : “سورہ کا آغاز بغیر کسی تمہید کے یک لخت ایک تنبیہی جملے سے ہوتا ہے ۔ کفار مکہ بار بار کہتے تھے کہ ”جب ہم تمہیں جھٹلا چکے ہیں اور کھلم کھلا تمہاری مخالفت کر رہے ہیں تو آخر وہ خدا کا عذاب آکیوں نہیں جاتا جس کی تم ہمیں دھمکیاں دیتے ہو“ ۔ اس بات کو وہ بالکل تکیہ کلام کی طرح اس لیے دہراتے تھے کہ ان کے نزدیک یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبر نہ ہونے کا سب سے زیادہ صریح ثبوت تھا ۔ اس پر فرمایا کہ بیوقوفو! خدا کا عذاب تو تمہارے سر پر تلا کھڑا ہے ، اب اسکے ٹوٹ پڑنے کے لیے جلدی نہ مچاؤ بلکہ جو ذرا سی مہلت باقی ہے اس سے فائدہ اٹھا کہ بات سمجھنے کی کوشش کرو ۔ اس کے بعد فورا ہی تفہیم کی تقریر شروع ہو جاتی ہے اور حسب ذیل مضامین بار بار یکے بعد دیگرے سامنے آنے شروع ہوتے ہیں: ( ۱ ) دل لگتے دلائل اور آفاق و انفس کے آثار کی کھلی کھلی شہادتوں سے سمجھایا جاتا ہے کہ شرک باطل ہے اور توحید ہی حق ہے ۔ ( ۲ ) منکرین کے اعتراضات ، شکوک ، حجتوں اور حیلوں کا ایک ایک کر کے جواب دیا جاتا ہے ۔ ( ۳ ) باطل پر اصرار اور حق کے مقابلہ میں استکبار کے برے نتائج سے ڈرایا جاتا ہے ۔ ( ٤ ) ان اخلاقی اور عملی تغیرات کو مجمل مگر دل نشین انداز سے بیان کیا جاتا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین انسانی زندگی میں لانا چاہتا ہے ، اور اس سلسلہ میں مشرکین کو بتایا جاتا ہے کہ خدا کو رب ماننا ، جس کا انہیں دعویٰ تھا ، محض خالی خولی مان لینا ہی نہیں ہے بلکہ اپنے کچھ تقاضے بھی رکھتا ہے جو عقائد ، اخلاق اور عملی زندگی میں نمودار ہونے چاہییں ۔ ( ۵ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کی ڈھارس بندھائی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کفار کی مزاحمتوں اور جفاکاریوں کے مقابلہ میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

سورۃ النحل تعارف اس سورت کا بنیادی موضوع اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا مفصل بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں انسان کے فائدے کے لیے پیدا فرمائی ہیں۔ اسی لیے اس سورت کو سورۃ النعم (نعمتوں کی سورت) بھی کہا جاتا ہے۔ عرب کے مشرکین عام طور سے یہ مانتے تھے کہ ان میں سے بیشتر نعمتیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی خدائی میں وہ بت بھی شریک ہیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا تذکرہ فرما کر انہیں توحید پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور ایمان نہ لانے کی صورت میں انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔ یہ سورت جس زمانے میں نازل ہوئی، اس وقت بہت سے مسلمان کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہورہے تھے۔ آیت نمبر ٤١ و ٤٢ میں ان کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کے مصائب و آلام کا دور ختم ہونے والا ہے۔ اور انہیں دنیا میں بھی اچھا ٹھکانا عطا ہوگا، اور آخرت میں بھی ان کے لیے بڑا اجر و ثواب ہے، بشرطیکہ وہ صبر سے کام لیں، اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔ سورت کے آخری حصے میں اسلامی شریعت کے کچھ اہم احکام بھی بیان فرمائے گئے ہیں جو ایک مسلمان کے طرز عمل کی بنیاد ہونے چاہیئں۔ نحل عربی میں شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ اس سورت کی آیت نمبر ٦٨ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات کا تذکرہ کرتے ہوئے شہد کی مکھی کا حوالہ دیا ہے کہ وہ کس طرح اللہ کے حکم سے پہاڑوں اور جنگلوں میں اپنے چھتے بناتی اور شہد پیدا کرتی ہے۔ اسی لیے سورت کا نام نحل رکھا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورۃ النحل سورة نمبر 16 رکوع 6 آیات 128 الفاظ و کلمات 1871 حروف 7974 مقام نزول مکہ مکرمہ اس سورة میں ایک جگہ النحل کا لفظ آیا ہے جس کے معنی شہد کی مکھی کے ہیں اسی مناسبت سے اس سورة کا نام سورة النحل رکھا گیا ہے۔ مکہ مکرمہ میں خاص طور پر ایسی آیتیں نازل کی گئی ہیں جن میں اس بات کو واضح طریقہ پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ اپنا پیغام پہنچایا اور بتایا کہ وہ اس پر چلیں اور اللہ کے رسولوں اور نبیوں کی مکمل اطاعت کریں ورنہ اللہ کا وہ فیصلہ آجائے گا جس کے سامنے پوری کائنات کی قوتیں بےبس ہو کر رہ جاتی ہیں اور مال و دولت اونچی اونچی عمارتیں اور تہذیب و تمدن کی ترقی کام نہیں آتی۔ چناچہ جن لوگوں نے انبیاء کرام کی تعلیمات کو اپنا کر کفر و شرک سے توبہ کرلی ان کی نجات ہوگئی اور جنہوں نے انکار کیا اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی قائم رہے اللہ نے ان کو عذاب سے دوچار کردیا۔ جب اللہ نے اپنے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیغام حق دے کر بھیجا اور ان کو گزشتہ قوموں کے ہولناک انجام سے آگاہ کیا تو انہوں نے اس مہلت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے جو ان کو دی گئی تھی کہنے لگے کہ اے محمد ہم یہ سن سن کر تنگ آگئے ہیں کہ ہم پر کوئی عذاب نازل ہو سکتا ہے اگر ایسا ہے تو ہم کھلے عام آپ کی تعلیمات کا انکار کرتے ہیں وہ عذاب جس کی تم باتیں کرتے ہو وہ لے آؤ آخر اس کے آنے میں دیر کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان نادانوں سے یہی کہا ہے کہ اگر وہ اس وقت کو غنیمت جانتے اور قدر کرتے اور مہلت عمل سے فائدہ اٹھاتے تو ان کے حق میں بہتر تھا۔ ان کو اس فیصلے کی جلدی مچانے کی ضرورت ہی نہیں ہے جو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کے حق میں فیصلہ ہوچکا ہے۔ فرمایا کہ اگر وہ دنیا کی معمولی معمولی چیزوں پر غور کرتے تو اللہ کی ذات کا انکار کبھی نہ کرتے۔ فرمایا کہ انسان اپنے وجود پر ہی غور کرلے کہ ایک معملوی سے ناپاک قطرے سے اس کے وجود کو بنایا گیا ہے لیکن اس نطفہ کی ناپاکی کا اس کے جسم و جان پر کوئی اثر نہیں ہے۔ گوبر اور خون کے درمیان سے اللہ تعالیٰ ایسا دودھ پیدا کرتا ہے جس میں نہ تو خون کی رنگت ہوتی ہے اور نہ گوبر کی بدبو۔ اسی طرح ایک زہریلی شہد کی مکھی کے پیٹ میں ایک ایسا مادہ پیدا کیا جاتا ہے جس میں زہر کی کوئی آمیزش نہیں ہے بلکہ شہد میں سراسر شفا ہی شفا رکھی گئی ہے اگر انسان اس پر ہی غور کرلے کہ ان تمام چیزوں کا اور زمین و آسمان کے ذرے ذرے کا نظام کون چلا رہا ہے تو انسان پھر خیر کی جلدی کرے گا شر کے لئے نہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو سات باتوں کا خاص طور پر حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ ہمیشہ عدل و انصاف، احسان و کرم، صلہ رحمی اور حسن معاملہ اختیار کریں اور ہر بےحیائی، بےغیرتی، برائی اور ضد اور ہٹ دھرمی سے دور رہیں ہر وعدہ کو پورا کریں۔ حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھیں اور صبر و استقامت سے ثابت قدم رہیں۔ اللہ قدم قدم پر ان کی امداد و اعانت فرمائے گا۔ * یہ سورة بھی مکہ مکرمہ کے آخری دور میں نازل کی گئی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انسانی وجود ، شہد کی مکھی، خون اور گوبر کے درمیان سے دودھ جیسی شفا بخش غذا پیدا کی ہے جو اس کی قدرت کا شاہکار ہے۔ * اس سورة میں سات باتوں کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے عدل و انصاف، دوسروں سے نیکی اور بھلائی، رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور حسن سلوک ہر طرح کی بےحیائیوں، برائیوں اور سرکشی سے بچنا۔ ہر وعدہ کو پورا کرنا۔ اسی میں مومن کی کامیابی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

تعارف سورة النحل سورۃ النحل مکی دور کے آخر میں نازل ہوئی۔ اس کے ١٦ رکوع اور ١٢٨ آیات ہیں۔ سورة کا نام، آیت ٦٨ سے لیا گیا ہے۔ النحل کا معنی ہے ” شہد کی مکھی۔ “ مکہ اور اس کے گرد و نواح کے لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اکثر یہ مطالبہ کرتے تھے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈراتے ہو وہ ہم پر نازل کیوں نہیں ہوتا ؟ سورة کی ابتداء میں کفار کو چیلنج دیا گیا ہے کہ جس عذاب کا تم مطالبہ کرتے ہو وہ عنقریب تم پر نازل ہونے والا ہے۔ اس وارننگ کے بعد ہر انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ تجھے اللہ تعالیٰ نے ایک نطفہ سے پیدا کیا ہے لیکن انسان اپنے خالق کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ باور کروایا ہے کہ قیامت کے دن کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر امت کی طرف رسول مبعوث فرمایا اور ہر نبی کا پیغام یہ تھا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور شیطان کی پیروی سے بچ جاؤ۔ کچھ لوگ ہدایت پا گئے اور باقی پر گمراہی مسلط ہوگئی۔ گمراہوں کا انجام دیکھنا چاہو تو دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ اس پر گواہ ہیں۔ اس کے بعد ہجرت کا دنیا اور آخرت میں صلہ ذکر کیا گیا ہے۔ ساتویں رکوع کی ابتداء میں یہ ارشاد فرمایا کہ زمین و آسمان میں دو الٰہ نہیں ہیں۔ الٰہ صرف ایک ہی ہے۔ اس لیے صرف ایک ہی سے ڈرو۔ اس کے بعد فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے ظلم کی وجہ سے انہیں فی الفور پکڑنا چاہے تو انسان تو درکنار زمین پر کوئی چوپایہ بھی باقی نہ رہے۔ پھر شرک کی حقیقت سمجھاتے ہوئے دو قسم کے آدمیوں کی مثال دی گئی ہے۔ اس خطاب کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ہر امت پر اس کا پیغمبر شہادت دے گا اور نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت پر گواہ ہوں گے۔ اٹھارہویں رکوع کے آغاز میں عدل و انصاف احسان اور رشتہ داروں کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا، برائی، بےحیائی اور ہر قسم کی سرکشی اور نافرمانی سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ لوگو ! اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کی پاسداری کرو۔ تمہارا کردار اس عورت کی طرح نہیں ہونا چاہیے جو شام کے وقت اپنے ہاتھوں سے کا تے ہوئے سوت کو ریزہ ریزہ کردیتی ہے، پھر قرآن مجید کی تلاوت کے آداب بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو پہلے اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھ لیا کرو۔ اس سورة مبارکہ کا اختتام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حیات مبارکہ کے تذکرے کے ساتھ کیا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے رب کے نہایت ہی تابع فرماں اور اس کی اطاعت میں سراپا اخلاص ہونے کی وجہ سے مشرکوں کے ساتھ ان کا ہرگز تعلق نہ تھا وہ۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی طرف بھی ہم نے یہی وحی بھیجی ہے کہ آپ بھی پوری یکسوئی کے ساتھ ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے کو اپناتے ہوئے مشرکوں سے بےپروا ہوجائیں

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ١١٩ ایک نظر میں یہ سورة نہایت ہی دھیمے انداز کی ہے۔ اس کا زمزمہ معمول کے مطابق ہے ، لیکن اس کے موضوعات مختلف اور بھر پور ہیں۔ اس کا دائرہ کلام وسیع ہے اور اس کے اندر مختلف قطعات اور زاوئیے ہیں جن سے بات کی گئی ہے اور نہایت ہی موثر انداز میں کی گئی ہے۔ اس میں جو رنگا رنگ سائے ہیں ان کے خطوط نہایت ہی گہرے اور دیرپا ہیں۔ تمام دوسری مکی سورتوں کی طرح اس کا مرکزی مضمون بھی اسلام کا مرکزی عقیدہ ، عقیدۂ توحید ہے۔ یعنی اللہ کی الوہیت اور اللہ کی حاکمیت ، وحی الٰہی ، بعث بعد الموت کا عقیدہ۔ لیکن اس میں بعض دیگر موضوعات بھی زیر بحث آئے ہیں جو ان موضوعات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ اس سورة میں عقیدۂ توحید پر مفصل بحث کی گئی ہے۔ ایک تو یہ اسلام کے اہم موضوعات میں سے ہے اور دوسرے یہ کہ دین محمدی اور دین ابراہیم (علیہ السلام) کے درمیان مسئلہ توحید کی وجہ سے ایک خاص نسبت بھی پائی جاتی ہے۔ ایمان ، کفر اور ہدایت وضلالت کے بارے میں اللہ کے ارادے اور انسانی ارادے کے دائرہ کار سے بھی اس سورة میں بحث کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ رسولوں کے فرائض کیا ہیں اور جو لوگ رسولوں کی تکذیب کرتے ہیں ، ان کے بارے میں اللہ کی سنت کیا ہے ؟ نیز اس سورة میں حلال و حرام کے بعض قواعد بھی بتائے گئے ہیں اور بت پرستوں نے اس میدان میں جن اوہام و خرافات کو سینے سے لگا رکھا تھا اس پر بھی بحث کی گئی ہے۔ پھر ہجرت فی سبیل اللہ اور دیار کفر میں مسلمانوں پر تشدد اور مظالم کا بھی ذکر ہے۔ نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایمان کے بعد کفر اختیار کرنا کس قدر جرم ہے۔ عقائد و نظریات کے مسائل سے آگے بڑھ کر معاملات پر بھی اس میں بحث موجود ہے۔ عدل ، احسان ، انفاق فی سبیل اللہ ، وفائے عہد وغیرہ اسلامی اعمال اور اخلاقی رویوں کا بھی ذکر ہے جو اسلامی نظریہ حیات کے منطقی تقاضے ہیں۔ وہ میدان اور دائرہ کار جس میں یہ موضوعات چلتے ہیں وہ بہت وسیع ہے۔ یعنی زمین اور آسمان ، آسمانوں سے پانی کا آنا اور زمین میں روئیدگی کا نمودار ہونا ، رات اور دن ، سورج اور چاند ، سمندر اور پہاڑ ، زمین اور اس کے نشانات راہ اور راستے ، نہریں اور دریا وغیرہ مختلف النوع موضوعات ہیں جو اس سورة کا حصہ ہیں۔ پھر دنیا ، اس میں ہونے والے واقعات اور ان کے نتائج ، آخرت اور اس کی قدریں اور مشاہد قیامت ، عالم غیب کے واقعات اور نفس انسانی اور اس کے میلانات اور انسان کے اردگرد پھیلے ہوئے آفاق۔ موضوعات کے اس طویل و عریض میدان میں آغاز کلام ایک ایسے انداز میں ہوتا ہے کہ گویا یہ ایک عظیم مہم ہے جس میں انسانی ضمیر اور انسانی عقل کو متاثر کر کے اسے ہدایت قبول کرنے کی سعی کی گئی۔ انسان کو راہ ہدایت پر آنے کا جوش دلایا گیا ہے۔ یہ مہم نہایت ہی دھیمے انداز میں شروع کی گئی ہے لیکن اس کا مضراب عقل و خرد کے مختلف تاروں کو چھیڑتا ہے۔ نہایت ہی دھیمے ٹون میں ، آواز میں گھن گرج نہیں ، لیکن یہ دھیما ٹون ہمہ گیر ہے اور انسانی شخصیت کے تمام تاروں کو چھیڑتا ہے۔ یہ مضراب عقل کے تاروں کو بھی چھیڑتا ہے اور انسان کے حساس وجدان کو بھی جگاتا ہے۔ آنکھوں کو بھی کھولا جاتا ہے کہ دیکھو ، کانوں کو چھیڑا جاتا ہے کہ سنو ، انسانی شعور کو چھوا جاتا ہے کہ احساس کرو ، انسانی وجدان کو خوراک دی جاتی ہے۔ عقل کو تدبر کی دعوت دی جاتی ہے کہ یہ کائنات تو علامات و نشانات سے بھری پڑی ہے۔ ذرا آسمان و زمین کو دیکھو ، ذرا شمس و قمر پر غور کرو ، ذرا رات اور دن کے نظام اور حرکت اجرام فلکی پر غور کرو ، ذرا پہاڑوں اور دریاؤں پر غور کرو ، ذرا اوروں اور نالوں کو دیکھو ، ذرا درختوں اور ان کی چھاؤں پر غور کرو ، نباتات اور پھلوں کو دیکھو ، حیوانات اور پرندوں کو دیکھو ، اور پھر ذرا آخرت اور اس کے مناظر اور خصوصاً اس کے ان مناظر کو دیکھو جو نظروں سے غائب ہیں۔ یہ تمام مضراب ہیں جو انسان کے حواس ، عقل ، اعضاء اور قلب و نظر کو متاثر کرسکتے ہیں اور ان کو تازہ زمزمہ دے سکتے ہیں۔ غرض یہ بتایا جاتا ہے کہ ان تمام علامات و نشانات کے ہوتے ہوئے ، اگر کسی کے رباب حیات کے تار زمزمہ پیدا نہیں کرسکتے تو سمجھ لیا جائے کہ اس کی عقل کے دروازے بند ہیں ، اس کا دل مردہ ہوگیا ہے اور اس حس و شعور کے قویٰ ناکارہ ہوچکے ہیں۔ یہ زمزمہ انسان کو ان نشانات کی طرف متوجہ کرتا ہے جو اللہ نے اس کائنات کے اندر بکھیر دئیے ہیں اور جن کے ذریعے اللہ نے انسانوں پر بیشمار احسانات فرمائے۔ ان میں مشاہد قیامت بھی ہیں اور ان میں اللہ کے سامنے پیشی کے مناظر اور مکذبین کی ہلاکت کے سین بھی ہیں۔ اس میں بعض وجدانی ٹچ ایسے ہیں جو انسانی نفسیات کے اسر اور موز کو اجاگر کرتے ہیں اور خود حضرت انسان کے تناسل اور تخلیق کے مناظر بھی ہیں۔ انسان ایک وقت ماں کے پیٹ میں جنین ہوتا ہے ، پھر یہ جوان ہوتا ہے اور پھر بوڑھا ہوجاتا ہے اور پھر ضعیف وناتواں ہوتا ہے۔ اس پر اعلیٰ قوت اور اعلیٰ درجے کے ضعف کے حالات بھی آتے ہیں ، کبھی وہ نازونعم میں پلتا ہے اور کبھی اس پر فاقے بھی آتے ہیں۔ یوں یہ سورة ایک نمائش گاہ ہے جس میں مناظر اور مکالمے ، قصے اور دلائل بطور اشیائے نمائش پیش کئے جاتے ہیں۔ لیکن اس پوری سورة کو جو سائے نہایت ہی خوبصورت رنگ دیتے ہیں وہ دلائل کو نیہ ہیں جن سے اس تخلیق کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ پھر وہ انسان کے لئے جس قدر مفید ہیں ، ان سے انسان پر اللہ کے عظیم انعامات و احسانات ثابت ہوتے ہیں اور پھر ان میں جس قدر حکمت اور ٹیکنالوجی ہے اس سے علیم و حکیم کا تدبر ظاہر ہوتا ہے۔ یہ سب امور ایک ساتھ چلتے ہیں۔ یہ عظیم کائنات ، اپنی عظمت اور نشان قدرت ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کے لئے نعمت بھی ہے۔ یہ کائنات نہ صرف یہ کہ انسان کی مادی ضروریات کو پورا کرتی ہے بلکہ یہ انسان کے ذوق جمال کے لئے سر و سامان بھی فراہم کرتی ہے۔ انسان کی تمام ضروریات اس کے اندر موجود ہیں۔ اس میں انسان کے لئے زیب وزینت کے سامان ہیں۔ انسان کی جسمانی سہولیات کی وافر مقدار ، انسان کے لئے روحانی سکون کا سامان بھی ۔ یہ سب کچھ اس لیے کہ انسان اللہ کا شکر ادا کرے۔ چناچہ اس سورة کے صحراؤں میں اللہ کے انعامات و احسانات اور اس کے شکر کی گھنی چھاؤں موجود ہے ، اس کے اندر انسان کی ہدایت کے لئے وسیع اشارات موجود ہیں اور سورة کے تمام اسباق کے آخر میں ان سے نتائج اخذ کر کے انسان کی ہدایت کا سروسامان کیا گیا ہے۔ امثال کے ذریعے بھی مدغا کو ثابت کیا گیا ہے۔ ہر موضوع کے لئے نمونے پیش کئے گئے ہیں۔ اعلیٰ نمونہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی کا نمونہ ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے۔ شاکرا لانعمہ اجتبہ وھدہ الی صراط مستقیم (١٦ : ١٢١) “ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا۔ اللہ نے اسے منتخب کرلیا ، اور اسے سیدھا راسہ دکھایا ”۔ یہ تمام مضامین نہایت ہی مرتب انداز میں بیان ہوئے ہیں۔ تصویر کشی اور تصاویر کے سایوں میں ، عبادات اور ان کے اثرات میں ، مسائل و موضوعات میں ، مکمل ہم آہنگی ہے۔ انشاء اللہ ہم تشریح آیات کے ضمن میں بعض نکات کی مزید تشریح کریں گے۔ پہلا سبق موضوع توحید کے بارے میں ہے اور اس کے اوپر جو دلائل دئیے گئے ہیں وہ اس کائنات کے تکوینی دلائل ہیں۔ پھر کائنات کے اندر انسان کے لئے فائدہ اور ضروریات کے لئے جو انعامات رکھے گئے ہیں ان کی طرف اشارے ہیں اور پھر اللہ کی وسعت عکم کو سمجھایا گیا ہے جو ظاہر اور مفید اور دنیا و آخرت سب کو جانتا ہے ۔ مناسب یہ ہے کہ اس سبق کا آغاز تشریح آیات ہی سے کردیا جائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi