Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 102

سورة النحل

قُلۡ نَزَّلَہٗ رُوۡحُ الۡقُدُسِ مِنۡ رَّبِّکَ بِالۡحَقِّ لِیُـثَبِّتَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہُدًی وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۱۰۲﴾

Say, [O Muhammad], "The Pure Spirit has brought it down from your Lord in truth to make firm those who believe and as guidance and good tidings to the Muslims."

کہہ دیجئے کہ اسے آپ کے رب کی طرف سے جبرائیل حق کے ساتھ لے کر آئے ہیں تاکہ ایمان والوں کو اللہ تعالٰی استقامت عطا فرمائے اور مسلمانوں کی رہنمائی اور بشارت ہو جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ ... Say: "Ruh-ul-Qudus has brought it..." (meaning, Jibril), ... مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ ... from your Lord with truth, meaning, with truthfulness and justice ... لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ امَنُواْ ... for the conviction of those who believe, so that they will believe what was revealed earlier and what was revealed later, and humble themselves towards Allah. ... وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ and as a guide and good news for the Muslims. meaning He has made it a guide and good news to the Muslims who believe in Allah and His Messengers.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

102۔ 1 یعنی یہ قرآن محمد کا اپنا گھڑا ہوا نہیں بلکہ اسے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جیسے پاکیزہ ہستی نے سچائی کے ساتھ رب کی طرف سے اتارا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر ہے، (نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ 193؀ۙ عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ 194؀ۙ ) 26 ۔ الشعراء :194-193) اسے الروح الامین (جبرائیل علیہ السلام) نے تیرے دل پر اتارا ہے '۔ 102۔ 2 اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ منسوخ کرنے والا اور منسوخ دونوں رب کی طرف سے ہیں۔ علاوہ ازیں منسوخی کی مصلحتیں بھی جب ان کے سامنے آتی ہیں تو ان کے اندر مزید ثبات قدمی اور ایمان میں رسوخ پیدا ہوتا ہے۔ 102۔ 3 اور یہ قرآن مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت کا ذریعہ ہے، کیونکہ قرآن بھی بارش کی طرح ہے، جس سے بعض زمینیں خوب شاداب ہوتی ہیں اور بعض میں کانٹے دار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہیں اگتا۔ مومن کا دل صاف اور شفاف ہے جو قرآن کی برکت سے اور ایمان کے نور سے منور ہوجاتا ہے اور کافر کا دل زمین شور کی طرح ہے جو کفر و ضلالت کی تاریکیوں سے بھرا ہوا ہے، جہاں قرآن کی ضیا پاشیاں بھی بےاثر رہتی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٦] روح القدس سے مراد ؟ پاکیزہ روح یا پاکیزگی کی روح اور اس سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں جو ہر طرح کی بشری کمزوریوں سے پاک ہیں۔ وہ نہ خائن ہیں نہ کذاب ہیں اور نہ مفتری۔ نہ وہ اللہ کے نازل کردہ کلام میں سے کچھ حذف کرتے ہیں اور نہ اس میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ نہ ترمیم و تنسیخ کرسکتے ہیں بلکہ اللہ کا کلام جوں کا توں نبی کے دل پہ نازل کرتے ہیں۔ [١٠٧] نزول قرآن میں تدریج کے فائدے :۔ قرآن اتارنے میں جو حالات کے تقاضوں کے تحت تدریج کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس کے دو بڑے فائدے ہیں ایک یہ کہ تکرار احکام سے ایمان میں بتدریج پختگی واقع ہوتی رہتی ہے اور ان میں ثبات و استقلال پیدا ہوتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ جو کفار مکہ آئے دن مسلمانوں پر ناجائز مظالم اور سختیاں کرتے رہتے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو بھی بار بار تسلی دینے، مصائب میں ثابت قدم رہنے۔ اس دنیا میں بھی سیدھی راہ پر گامزن رکھنے پر اور مصائب کی برداشت پر اور جنت کی خوشخبری دینے کی ضرورت پیش آتی رہی۔ (احکام میں تدریج اور تبدیلی کے سلسلہ میں سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٠٦ کا حاشیہ بھی ملاحظہ فرمالیجئے)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بالْحَقِّ : ” نَزَّلَ “ میں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنے کا معنی پایا جاتا ہے۔ (دیکھیے بنی اسرائیل : ١٠٦) ” رُوْحُ الْقُدُسِ “ یعنی جبریل (علیہ السلام) ، یہاں ” رُوْحُ “ (موصوف) ” الْقُدُسِ “ (صفت) کی طرف مضاف ہے جو مصدر ہے۔ اس کا معنی طہر اور پاکیزگی ہے، مگر یہاں مصدر بمعنی اسم مفعول ” مُقَدَّسٌ“ ہے، یعنی ” اَلرُّوْحُ الْمُقَدَّسُ “ مبالغے کے لیے اسم مفعول کی جگہ مصدر لائے ہیں، یعنی وہ روح جو سراپا پاکیزگی و طہارت ہے، جیسے ” رَجُلُ صِدْقٍ “ اور ” خَبَرُ سُوْءٍ “ ہے، جو اصل میں ” اَلرَّجُلُ الصَّادِقُ “ اور ” اَلْخَبَرُ السَّيِّءُ “ تھا۔ ” بِالْحَقِّ “ کا مطلب ہے کہ قرآن نازل کرنا اللہ کی طرف سے ہے، کسی مخلوق کا کلام نہیں اور اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے، ورنہ تربیت مکمل نہ ہوسکتی اور ” مِنْ رَّبِّکَ “ کا مطلب ہے کہ اس میں کوئی بات ایسی نہیں جو باطل ہو، یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لے کر قیامت تک کے تمام ادوار کے تقاضوں کے عین مطابق اور حق ہے۔ لِيُثَبِّتَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : تاکہ وہ ایمان والوں کو ایمان پر خوب قائم رکھے اور وہ ناسخ و منسوخ دونوں کو اللہ کی طرف سے سمجھیں۔ اس لیے جب وہ اس حکمت کو سمجھیں گے جو بعض احکام کے ناسخ و منسوخ ہونے میں پائی جاتی ہے تو ایمان پر ان کے قدم جمیں گے اور ان کے عقائد پختہ ہوں گے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” قرآن پاک میں اکثر اللہ تعالیٰ نے نسخ فرمایا ہے، اس پر کافر شبہ کرتے ہیں، اس کا جواب سمجھا دیا، یعنی ہر وقت پر موافق اس وقت کے حکم بھیجے تو یقین والوں کا ایمان قوی ہو کہ ہمارا رب ہر حال سے خبر رکھتا ہے۔ “ (موضح) وَهُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ : ” ھُدیً “ یعنی ہر حال میں اس کے مطابق راہ سمجھا دے اور ” بُشْرٰى“ ہر کام پر ویسی خوش خبری سنا دے۔ (موضح) اس کا صحیح اور مکمل مطلب سمجھنے کے لیے سورة عنکبوت کی آیات (٥٠، ٥١) کی تفسیر ضرور ملاحظہ فرمائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ ١٠٢؁ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا روح ( فرشته) وسمّي أشراف الملائكة أَرْوَاحاً ، نحو : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ/ 38] ، تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] ، نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] ، سمّي به جبریل، وسمّاه بِرُوحِ القدس في قوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل/ 102] ، وَأَيَّدْناهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ البقرة/ 253] ، وسمّي عيسى عليه السلام روحاً في قوله : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء/ 171] ، وذلک لما کان له من إحياء الأموات، وسمّي القرآن روحاً في قوله : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری/ 52] ، وذلک لکون القرآن سببا للحیاة الأخرويّة الموصوفة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، والرَّوْحُ التّنفّس، وقد أَرَاحَ الإنسان إذا تنفّس . وقوله : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة/ 89] روح اور قرآن نے ذو شرف ملائکہ کو بھی ارواح سے موسوم کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ/ 38] جس روز کہ روح فرشتہ اور دیگر ملائکہ صفیں باندھ کھڑے ہوں گے ۔ تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] فرشتے اور جبریل اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ اور اٰت کریمہ : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اسے روح امین لے کر اترا ۔ میں روح امین سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں ۔ اور دوسری آیت میں جبریل (علیہ السلام) کو روح القدس بھی کہا ہے ۔ جیسے فرمایا : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل/ 102] اس قرآن کو روح القدس لے کر آتے ہیں ۔ قرآن نے حضرت عیٰسی (علیہ السلام) کو روح کہہ کر پکارا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء/ 171] اور وہ ایک روح تھی جو خدا کی طرف سے آئی اور عیٰسی کو روح اس لئے کہا ہے کہ وہ دو مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اور قرآن کو بھی روح کہا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری/ 52] اس طرح ہم نے اپنے حکم سے ( دین کی ) جان ( یعنی یہ کتاب) تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیجی ۔ اس لئے قرآن سے حیات اخردی حاصل ہوتی ہے جس کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور دار آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔ اور روح ( بفتح الراء ) کے معنی سانس کے ہیں اور اراح الانسان کے معنی تنفس یعنی سانس لینے کے اور آیت : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة/ 89] توراحت اور مذاق ہے ۔ میں ریحان سے خوشبودار چیزیں مراد ہیں اور بعض نے رزق مراد لیا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا بخشنے والا پروردگار ،۔ ثبت الثَّبَات ضدّ الزوال، يقال : ثَبَتَ يَثْبُتُ ثَبَاتاً ، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] ( ث ب ت ) الثبات یہ زوال کی ضد ہے اور ثبت ( ن ) ثباتا کے معنی ایک حالت پر جمے رہنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] مومنو جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٢) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سے کہہ دیجیے کہ اس قرآن کریم کو حضرت جبریل امین (علیہ السلام) اپ کے رب کے طرف سے ناسخ ومنسوخ کی طرح لاتے رہتے ہیں۔ تنزل کے صیغہ کو تشدید کے ساتھ ذکر کیا ہے کیوں کہ تھوڑا تھوڑا حکمت کے مطابق قرآن حکیم نازل ہوا ہے تاکہ ایمان والوں کے دلوں کو ایمان پر ثابت قدم اور خوش رکھے اور مسلمانوں کے لیے گمراہی سے ہدایت اور جنت کی خوشخبری کا ذریعہ ہوجائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٢ (قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بالْحَقِّ ) یہاں پر روح القدس کا لفظ حضرت جبرائیل کے لیے آیا ہے کہ ایک پاک فرشتہ اس کلام کو لے کر آیا ہے۔ (لِيُثَبِّتَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا) سورۃ الفرقان میں یہی مضمون اس طرح بیان کیا گیا ہے : (کَذٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًا) ” تاکہ ہم مضبوط کریں اس کے ساتھ آپ کے دل کو اور (اسی لیے) ہم نے پڑھ سنایا اسے ٹھہر ٹھہر کر۔ “ (وَهُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ ) جیسے جیسے حالات میں تبدیلی آرہی ہے ویسے ویسے اس قرآن کے ذریعے مسلمانوں کے لیے ہدایت و راہنمائی کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ مثلاً قصہ آدم و ابلیس جب پہلی دفعہ بیان کیا گیا تو اس میں وہ تفصیلات بیان کی گئیں جو اس وقت کے مخصوص معروضی حالات میں حضور اور مسلمانوں کے لیے جاننا ضروری تھیں۔ پھر جب حالات میں تبدیلی آئی تو یہی قصہ کچھ مزید تفصیلات کے ساتھ پھر نازل کیا گیا اور اسی اصول اور ضرورت کے تحت اس کا نزول بار بار ہوا تاکہ ہر دور کے حالات کے مطابق اہل حق اس میں سے اپنی راہنمائی کے لیے سبق حاصل کرسکیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

103. The Holy Spirit: Gibril. Instead of using the name of the angel who brought revelation, his title has been deliberately mentioned to warn the disbelievers that the Holy Spirit who brought revelation is free from human frailties. He is neither dishonest that he should add something to or take away something from the message he brought, nor is he a liar and forger that he should invent and state something in the name of Allah. Nor does he suffer from any human lust that he should practice a deceit. He is wholly pure and holy and conveys the Word of Allah intact. 104. That is, the fact that Allah sends down His message piecemeal does not mean that Allah’s knowledge and wisdom are defective as you consider because of your folly. Allah sends His revelations gradually because human intelligence and capacity to grasp are limited and defective which do not let him understand the whole theme at one and the same time and make it firm in his mind. Therefore, Allah in His wisdom conveyed His revelation piecemeal through the Holy Spirit. He sends a theme gradually and gives its details by and by and uses different methods and ways to make it plain to human beings so that they might grasp it according to their abilities and capabilities and become firm in their faith and knowledge. 105. The second practical wisdom of sending down the Quran piecemeal was that those believers who obediently followed it, should get necessary instructions for the propagation of Islam and the solution of other problems of life at the time when they were actually needed. It is obvious that if those instructions had been sent down before time and at one and the same time they would not have been useful. 106. The third practical wisdom of not sending down the Quran as a whole at one and the same time was to give good tidings and encouragement to the obedient servants who were suffering from persecution and encountering great obstacles because they needed it over and over again. That is why they were assured of ultimate success time and again to fill them with hope to carry on their mission.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :103 ”روح القدس“ کا لفظی ترجمہ ہے ” پاک روح“ یا ”پاکیزگی“ ۔ اور اصطلاحا یہ لقب حضرت جبریل علیہ السلام کو دیا گیا ہے ۔ یہاں وحی لانے والے فرشتے کا نام لینے کے بجائے اس کا لقب استعمال کرنے سے مقصود سامعین کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ اس کلام کو ایک ایسی روح لے کر آرہی ہے جو بشری کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے ۔ وہ نہ خائن ہے کہ اللہ کچھ بھیجے اور وہ اپنی طرف سے کمی بیشی کر کے کچھ اور بنا دے ۔ نہ کذاب و مفتری ہے کہ خود کوئی بات گھڑ کے اللہ کے نام سے بیان کر دے ۔ نہ بدنیت ہے کہ اپنی کسی نفسانی غرض کی بنا پر دھوکے اور فریب سے کام لے ۔ وہ سراسر ایک مقدس و مطہر روح ہے جو اللہ کا کلام پوری امانت کے ساتھ لا کر پہنچاتی ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :104 یعنی اس کے بتدریج اس کلام کو لے کر آنے اور بیک وقت سب کچھ نہ لے آنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ کے علم و دانش میں کوئی نقص ہے ، جیسا کہ تم نے اپنی نادانی سے سمجھا ، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی قوت فہم اور قوت اخذ میں نقص ہے جس کے سبب سے وہ بیک وقت ساری بات کو نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ ایک وقت کی سمجھی ہوئی بات میں پختہ ہو سکتا ہے ۔ اس لیے اللہ تعالی کی حکمت اس بات کی مقتضی ہوئی کہ روح القدس اس کلام کو تھوڑا تھوڑا کر کے لائے ، کبھی اجمال سے کام لے اور کبھی اسی بات کی تفصیل بتائے ، کبھی ایک طریقہ سے بات سمجھائے اور کبھی دوسرے طریقے سے ، کبھی ایک پیرایہ بیان اختیار کرے اور کبھی دوسرا ، اور ایک ہی بات کو بار بار طریقے طریقے سےذہن نشینن کر نے کی کوشش کرے ، تاکہ مختلف قابلیتوں اور استعدادوں کے طالبین حق ایمان لا سکیں اور ایمان لانے کے بعد علم و یقین اور فہم و ادراک میں پختہ ہو سکیں ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :105 یہ اس تدریج کی دوسری مصلحت ہے ۔ یعنی یہ کہ جو لوگ ایمان لا کر فرمانبرداری کی راہ پر چل رہے ہیں ان کو دعوت اسلامی کے کام میں اور زندگی کے پیش آمدہ مسائل میں جس موقع پر جس قسم کی ہدایات درکار ہوں وہ بروقت دے دی جائیں ۔ ظاہر ہے کہ نہ انہیں قبل از وقت بھیجنا مناسب ہوسکتا ہے ، اور نہ بیک وقت ساری ہدایات دے دینا مفید ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :106 یہ اس کی تیسری مصلحت ہے ۔ یعنی یہ کہ فرماں برداروں کو جن مزاحمتوں اور مخالفتوں سے سابقہ پیش آرہا ہے اور جس جس طرح انہیں ستایا اور تنگ کیا جا رہا ہے اور دعوت اسلامی کے کام میں مشکلات کے جو پہاڑ سد راہ ہو رہے ہیں ، ان کی وجہ سے وہ بار بار اس کے محتاج ہوتے ہیں کہ بشارتوں سے ان کی ہمت بندھائی جاتی رہے اور ان کو آخری نتائج کی کامیابی کا یقین دلایا جاتا رہے تاکہ وہ پر امید رہیں اور دل شکستہ نہ ہونے پائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:102) نزلہ میں ہٗ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع القران ہے۔ روح القدس۔ سے مراد حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ہیں۔ لیثبت۔ میں لام تعلیل کے لئے ہے تا کہ۔ یثبت مضارع کا صیغہ واحد مذکر غائب (باب تفعیل) تاکہ ثابت قدم رکھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 اور وہ ناسخ و منسوخ دونوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھیں اور اس لئے کہ جب وہ اس حکمت کو سمجھیں گے جو بعض احکام کے ناسخ و منسوخ ہونے میں پائی جاتی ہے تو ایمان پر ان کے قدم جمیں گے اور ان کے عقائد پختہ ہوں گے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : قرآن پاک میں اکثر اللہ تعالیٰ نے نسخ فرمایا ہے اس پر کا فرشتہ کرتے ہیں۔ اس کا جواب سمجھا دیا۔ یعنی ہر وقت موافق اس حکم کے حکم بھیجے تو یقین والوں کا ایمان قوی ہو کہ ہمارا رب ہرحال سے خبر رکھتا ہے۔ (موضح) 4 یعنی ہرحال میں اس کے موافق راہ سمجھا دے اور ہر کام پر ایسی خوش خبری سنا دے۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی جبریل علیہ السلام۔ 7۔ پس یہ اللہ کا کلام ہے اور تبدیل احکام بوجہ حکمت کے ہے 8۔ اس غایت کے بڑھانے سے تعریض ہوگئی کہ ایسی نافع چیز سے یہ مخالفین منتفع نہیں ہوتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منکرین قرآن کے ایک اور الزام کا جواب۔ کفار یہ کہہ کر قرآن مجید کا انکار کرتے تھے کہ اس نبی نے اسے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے۔ جبکہ اہل کتاب کا یہ اعتراض تھا کہ اس رسول پر قرآن لانے والا جبرائیل (علیہ السلام) ہے جس کے ساتھ ہماری پرانی دشمنی ہے۔ یہودی یہاں تک ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ جبریل ظالم اور خائن فرشتہ ہے۔ اس نے ہماری کئی نسلوں کو تباہ کیا جو جبریل (علیہ السلام) کی ہم پر کھلی زیادتی ہے۔ سورة البقرہ آیت ٩٧، ٩٨ میں اس ہرزہ سرائی کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ ” اے اللہ کے رسول ! آپ فرمادیں جو جبریل کا دشمن ہو وہ اللہ، اس کے ملائکہ، اس کے رسولوں اور میکائیل کا دشمن ہے۔ “ جہاں تک جبریل امین (علیہ السلام) کا تعلق ہے اس نے اللہ کے حکم سے اس قرآن کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر پر نازل کیا ہے جو مومنوں کے لیے ہدایت کا سر چشمہ اور سراسر خوشخبری ہے۔ یہاں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو روح القدس قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ آپ کے رب کی طرف سے حق لے کر آیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کے ایمان کو مضبوط بنائے۔ قرآن مجید اپنے ماننے والوں کے لیے ہدایت کا سر چشمہ اور خوشخبری کا پیغام ہے۔ حق سے مراد قرآن مجید ہے۔ جو دلائل، الفاظ، انداز اور اپنے احکام کے حوالے سے سچائی کا سرچشمہ اور حق کا ترجمان ہے۔ اسے نازل کرنے والا اور لانے والا فرشتہ سچا ہے۔ روح القدس کا معنیٰ ” پاکیزہ روح “ یعنی وہ شخصیت جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی غلطی، زیادتی، بھول اور خیانت سے پاک پیدا کیا ہو۔ ظاہر ہے کہ وہ فرشتے کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ہر قسم کی آلائش اور غلطی سے پاک پیدا کیا ہے۔ اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تمام ملائکہ کے سردار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اعزاز اور مقام بخشا کہ وہ تمام انبیاء ( علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کے احکام لاتے اور پاک باز اور عظیم ترین ہستیوں سے بار بار شرف ملاقات پات رہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو مختلف القابات سے نوازا ہے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے پر اور شخصیت : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ رَأَی رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جِبْرِیلَ فِی صُورَتِہِ وَلَہٗ سِتُّمِاءَۃِ جَنَاحٍ کُلُّ جَنَاحٍ مِّنْہَا قَدْ سَدَّ الأُفُقَ یَسْقُطُ مِنْ جَنَاحِہٖ مِنَ التَّہَاوِیْلِ وَالدُّرِّ وَالْیَاقُوتِ مَا اللَّہُ بِہٖ عَلِیْمٌ)[ رواہ احمد ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل (علیہ السلام) کو اس کی اصلی حالت میں دیکھا اس کے چھ سو پر تھے۔ ہر پر نے آسمان کے کناروں کو ڈھانپ رکھا تھا۔ اس کے پروں سے سرخ، زرد اور سبز رنگ کے موتی اور یاقوت گر رہے تھے۔ جن کے حسن و جمال کے بارے میں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ “ قَالَ جَابِرٌ (رض) أُحَدِّثُکُمْ مَا حَدَّثَنَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ شَہْرًا فَلَمَّا قَضَیْتُ جِوَارِی نَزَلْتُ فَاسْتَبْطَنْتُ بَطْنَ الْوَادِی فَنُودِیتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِی وَخَلْفِی وَعَنْ یَمِینِی وَعَنْ شِمَالِی فَلَمْ أَرَ أَحَدًا ثُمَّ نُودِیتُ فَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَ أَحَدًا ثُمَّ نُودِیتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِی فَإِذَا ہُوَ عَلَی الْعَرْشِ فِی الْہَوَاءِ یَعْنِی جِبْرِیلَ فَأَخَذَتْنِی رَجْفَۃٌ شَدِیدَۃٌ فَأَتَیْتُ خَدِیجَۃَ فَقُلْتُ دَثِّرُونِی فَدَثَّرُونِی فَصَبُّوا عَلَیَّ مَاءً فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ (یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ )[ رواہ مسلم : باب بدء الوحی الی رسول اللہ ] حضرت جابر (رض) کہنے لگے کہ میں تمہیں وہ حدیث سنا تا ہوں۔ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائی آپ نے فرمایا میں ایک مہینے کے لیے غارحرا میں گوشہ نشینی اختیار کی جب میں نے ایک مہینہ کی میعاد پوری کرلی تو میں وادی کی طرف اترا تو مجھے آواز دی گئی میں نے اپنے سر کو اٹھایا تو جبر ائیل امین کو ہوا میں عرش پر بیٹھے ہوئے پایا تو مجھے سخت خوف لاحق ہوا میں خدیجہ (رض) کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے چادر اڑھادو اور مجھ پر پانی بہاؤ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں (یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا۔ ٢۔ قرآن مجید مسلمانوں کے لیے باعث ہدایت و بشارت ہے۔ ٣۔ قرآن مجید کی آیات کو نازل کرنے کا مقصد مومنوں کو ثابت قدم رکھنا ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت جبریل (علیہ السلام) کے اوصاف اور القابات : ١۔ آپ فرما دیں کہ اسے روح القدس نے آپ کے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ اتارا ہے۔ (النحل : ١٠٢) ٢۔ قرآن مجید کو روح الامین نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتارا ہے۔ (الشعراء : ١٩٣) ٣۔ جبریل امین ملائکہ کے سردار ہیں۔ (التکویر : ٢١) ٤۔ شب قدر کی رات فرشتے اور روح (جبریل) اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔ (القدر : ٤) ٥۔ اور ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح القدس سے مدد کی۔ (البقرۃ : ٨٧) ٦۔ جبریل امین مقرب ترین فرشتہ ہے۔ (النجم : ٨) ٧۔ جبریل امین طاقتور فرشتہ ہے۔ (النجم : ٥) ٨۔ جبریل امین نے آپ کے قلب اطہر پر قرآن اتارا ہے۔ (البقرۃ : ٩٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل نزلہ روح القدس من ربک بالحق (٦١ : ٢٠١) ” کہہ دو اسے تو روح القدس مانے ٹھیک ٹھیک تیرے رب کی طرف سے بتدریج مجھ پر نازل کیا ہے “۔ لہٰذا اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ افتراء ہو۔ اسے روح القدس لے کر آئے ہیں ، اللہ کی طرف سے لائے ہیں اور اس کی تعلیمات سچائی پر مشتمل ہیں۔ ان میں باطل کا شائبہ تک نہیں ہے اور یہ اس لئے آئی کہ یشت الذین امنوا (٦١ : ٢٠١) ” تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کریں “۔ ان کے دل اللہ کے ساتھ جڑ جائیں اور وہ معلوم کرلیں کہ یہ تعلیمات اللہ کی طرف سے ہیں۔ وہ حق پر جم جائیں اور ان کی سچائی پر مطمئن ہوجائیں تاکہ وھدی و بشری للمسلمین (٦١ : ٢٠١) ” اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے اور انہیں سعادت اور فلاح کی خوشخبری دے “۔ یہ خوشخبری خصوصا نصرت اور تمکین فی الارض کے بارے میں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ ) (الآیۃ) اس میں ان لوگوں کی تردید ہے جنہوں نے یوں کہا کہ آپ اپنی طرف سے بات کہتے ہیں اور اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہ کلام میرا بنایا ہوا نہیں اور احکام میں جو نسخ ہے وہ میری طرف سے نہیں۔ حضرت روح القدس یعنی جبرائیل (علیہ السلام) نے اسے اللہ کی طرف سے نازل فرمایا ہے یہ بالکل حق ہے جیسے جیسے قرآن نازل ہوتا ہے اہل ایمان کے ایمان میں مضبوطی اور پختگی آتی ہے اور قرآن کے ذریعہ انہیں ہدایت بھی ملتی ہے اور قرآن پر عمل کرنے پر جو انعام ملیں گے ان کی خوشخبری بھی معلوم ہوجاتی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

85:۔ یہ جواب شکوی ہے اور شبہ اولیٰ کا رد ہے۔ یعنی یہ قرآن میرا افتراء نہیں بلکہ یہ روح القدس یعنی حضرت جبریل (علیہ السلام) نے اللہ کی جانب سے مجھ پر نازل کیا ہے تاکہ نسخ کے ذریعہ مومنوں کا امتحان کرے۔ چناچہ جب کوئی آیت منسوخ کی جاتی ہے تو مؤمنوں کا ایمان اور پختہ ہوجاتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اب منسوخ کے بجائے ناسخ ہمارے حق میں زیادہ مفید ہے اور اسی میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے۔ لیبلوھم بالنسخ حتی اذا قالوا فیہ ھو الحق من ربنا والحکمۃ لانہ حکیم لا یفعل الا ما ھو حکمۃ وصواب حکم لھم بثبات القدم و صحۃ الیقین و طمانیۃ القلب (مدارک ج 2 ص 231) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

102 ۔ اے پیغمبر آپ فرما دیجئے کہ اس قرآن کریم کی روح القدس یعنی جبرئیل (علیہ السلام) آپ کے پروردگار کی طرف سے حکمت کے موافق لایا ہے تا کہ اہل ایمان کو یہ کلام ایمان پر ثابت رکھے اور مسلمانوں اور فرمانبرداروں کے لئے ذریعہ ہدایت اور خوشخبری ہو ۔ یعنی جبرئیل امین (علیہ السلام) لاتے ہیں اور ضرورت کے موافق حکمت الٰہی کے ساتھ نازل ہوتا ہے تا کہ اہل ایمان کا ایمان مضبوط ہو اور اطاعت گزاروں کو ہدایت و بشارت میسرہوتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ہر حال میں اس کے موافق راہ سمجھا دے اور ہر کام پردیسی خوشخبری پہنچادے۔