Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 105

سورة النحل

اِنَّمَا یَفۡتَرِی الۡکَذِبَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۰۵﴾

They only invent falsehood who do not believe in the verses of Allah , and it is those who are the liars.

جھوٹ افترا تو وہی باندھتے ہیں جنہیں اللہ تعالٰی کی آیتوں پر ایمان نہیں ہوتا ۔ یہی لوگ جھوٹے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

It is only those who do not believe in Allah's Ayat who fabricate the falsehood, and it is they who are liars. Then Allah informs that His Messenger is not a forger nor a liar, because the one who fabricates falsehood about Allah and His Messenger is the most evil of creatures. ... الَّذِينَ لاَ يُوْمِنُونَ بِأيَاتِ اللّهِ ... Verily, those who do not believe in Allah's Ayat, Allah will not guide them, and theirs will be a painful punishment, meaning, the disbelievers and heretics who are known to the people as liars. The Messenger Muhammad, on the other hand, was the most honest and righteous of people, the most perfect in knowledge, deeds, faith and conviction. He was known among his people for his truthfulness and no one among them had any doubts about that - to such an extent that they always addressed him as Al-Amin (the Trustworthy) Muhammad. Thus when Heraclius, the king of the Romans, asked Abu Sufyan about the attributes of the Messenger of Allah, one of the things he said to him was, "Did you ever accuse him of lying before he made his claim?" Abu Sufyan said, "No". Heraclius said, "He would refrain from lying about people and then go and fabricate lies about Allah."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

105۔ 1 اور ہمارا پیغمبر تو ایمانداروں کا سردار اور ان کا قائد ہے، وہ کس طرح اللہ پر افترا باندھ سکتا ہے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے اس پر نازل نہ ہوئی ہو، اور وہ یونہی کہہ دے کہ یہ کتاب مجھ پر اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ اس لئے جھوٹا ہمارا پیغمبر نہیں، یہ خود جھوٹے ہیں جو قرآن کے منزل من اللہ ہونے کے منکر ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٠] افترا کا الزام لگانے والے قریش خود مفتری تھے :۔ قریش یہ جانتے تھے کہ اس نبی نے زندگی بھر نہ کبھی جھوٹ بولا اور نہ ہی کوئی جھوٹی بات کسی کے ذمہ لگائی ہے۔ تو کیا اب وہی شخص اللہ کے ذمہ جھوٹی بات لگا سکتا ہے ؟ اور انھیں یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ کلام مجھ پر اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے درآنحالیکہ واقعتا ایسی بات نہ ہو ؟ بلکہ حقیقتاً جھوٹے اور افتراء پرداز تو یہ لوگ خود ہیں جو سب کچھ جانتے بوجھتے نبی کے متعلق ایسی غلط باتیں کرتے ہیں اور اللہ کی طرف سے نازل شدہ کلام کو دوسروں کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِيْنَ ۔۔ : کفار کا قول جو اوپر آیت (١٠١) میں ذکر ہوا ہے ” اِنَّمَا اَنْتَ مُفْتَرٍ “ (تو تو گھڑ کر لانے والا ہے) یہ اس کا رد ہے کہ جھوٹ تو ان لوگوں کا کام ہے جو ایمان نہیں رکھتے، کیونکہ انھیں اللہ کا خوف نہیں ہوتا، جسے اللہ کا خوف ہو وہ جھوٹ نہیں بولتا۔ باقی رہا نبی تو وہ اہل ایمان کا سردار ہوتا ہے، اس سے قطعی بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایک لفظ بھی جھوٹ باندھے۔ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ : ” وَاُولٰۗىِٕكَ “ سے مراد اللہ پر ایمان نہ رکھنے والے ہیں، یعنی انھی کی عادت جھوٹ ہوتی ہے، کیونکہ وہ ایمان ہی سے محروم ہیں، جو آدمی کو گناہ سے باز رکھتا ہے۔ 3 ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَ إِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَ إِذَا اءْتُمِنَ خَانَ ) [ بخاری، الإیمان، باب علامات المنافق : ٣٣ ] ” منافق کی نشانیاں تین ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب وہ وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ “ شیخ عبد الرحمان معلمی نے ” التنکیل “ میں لکھا ہے کہ اگر غور کیا جائے تو منافق کی تینوں نشانیوں کی بنیاد جھوٹ ہی ہے، کیونکہ وعدہ خلافی پر مؤاخذہ اس وقت ہے جب وعدہ کرتے وقت اسے پورا کرنے کی نیت نہ ہو، اگر وعدہ کرتے وقت پورا کرنے کی نیت ہو، پھر کسی عذر سے پورا نہ کرسکے تو اس پر مؤاخذہ نہیں اور خیانت ہضم نہیں ہوسکتی جب تک جھوٹ نہ بولے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ١٠٥؁ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) القری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٥) سو جھوٹ اور بہتان لگانے والے تو یہی لوگ ہیں جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

108. This verse can also be rendered like this: A Prophet does not forge any false thing but those, who do not believe in the revelations of Allah, invent falsehoods.

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:105) یفتری۔ مضارع واحد مذکر غائب وہ بہتان باندھتا ہے۔ یہاں صیغہ واحد جمع کے لئے استعمال ہوا ہے۔ نیز ملاحظہ ہو 16:101 آیت کا ترجمہ یوں ہے۔ حقیقۃً جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے وہی جھوٹ اور افتراء باندھتے ہیں۔ (انما کے حصر کے ساتھ کذب کا ارتکاب آیات قرآنی پر ایمان نہ رکھنے والوں کے لئے مخصوص ہوگیا) فی ھذہ الایۃ ولا لۃ قویۃ علی ان الکذب من اکبر الکبائر و افحش الفواحش والد لیل علیہ ان کلمۃ انما للحصروا لمعنی ان الکذب والفریۃ لا یقدم علیہما الا من کان غیر مومن بایت اللہ تعالیٰ والامن کان کافرا وھذا تھدید فی النہایۃ۔ اس آیت میں اس امر کی قوی دلیل ہے کہ کذب بدترین گناہ اور بدترین فحش ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ انما کلمہ حصر کا ہے یعنی کذب اور افتراء کے ارتکاب کی جرأت ماسوائے خدا تعالیٰ کی آیات پر ایمان نہ رکھنے والے اور کافر کے کوئی نہیں کرتا اور یہ نہایت سخت تنبیہ ہے۔ اولئک ہم الکاذبون۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب کو لا کر کذب کا فعل منکرین ِ آیات ربانی پر مختص کردیا۔ پس یہی لوگ ہیں جو (پورے کے پورے) جھوٹے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 باقی رہا نبی تو وہ اہل ایمان کا سردار ہوتا ہے اس سے قطعی بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایک لفظ بھی جھوٹ باندھے یہ کفار کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خود تصنیف کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انما یفتری الکذب الذین لا یومنون بایت اللہ واولئک ھم الکذبون (٦١ : ٥٠١) ”(جھوٹی باتیں نبی نہیں گھڑتا بلکہ) جھوٹ وہ لوگ گھڑ رہے ہیں جو اللہ کی آیات کو نہیں مانتے ، وہی حقیقت میں جھوٹے ہیں “۔ جھوٹ اس قدر گھنائونا گناہ ہے کہ کوئی مومن کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں صاف فرمایا ہے کہ کوئی مسلم جھوٹ نہیں بول سکتا اگرچہ مسلم سے دوسرے گناہ سرزد ہوسکتے ہیں۔ اب یہاں سے آگے ان لوگوں کے احکام بیان کیے جات ہیں جو ایمان کے بعد کفر اختیار کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَ ) (جھوٹ کے افتراء کا کام وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے) اس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پاس سے بنا کر یا کسی سے سن کر اپنی باتوں کو اللہ کی طرف نسبت کردیتے ہیں ان لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افتراء کرنے والے نہیں ہیں افتراء کرنے والے وہی ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے اور یہ بات جانتے ہوئے کہ ایک امی شخص ایسی عبارت نہیں بنا سکتا اور جس کی طرف نسبت کرتے ہیں کہ اس نے سکھا دیا وہ عجمی ہے پھر بھی ضد پر اڑے ہوئے ہیں، ان کا یہ کہنا کہ محمد رسول اللہ نے افتراء کرلیا یا ان کو کسی نے سکھا دیا یہ ان لوگوں کا افتراء ہے۔ (وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَ ) اور یہ لوگ جھوٹ کی صفت سے متصف ہیں اور جھوٹ نے ان کے اندر جگہ پکڑلی ہے، قال القرطبی ص ١٧١ ج ١٠ یقال کذب فلان ولا یقال انہ کاذب لان الفعل قد یکون لازما وقد لا یکون لازما فاذا قیل کذب فلان فھو کاذب کان مبالغۃ فی الوصف بالکذب۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

105 ۔ آگے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معاذ اللہ مفتری کہنے کا جواب ہے ارشاد ہوتا ہے سوائے اس کے کچھ نہیں کہ جھوٹی افترا پردازی کے تو وہ ہی لوگ مرتکب ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی لوگ پورے اور کامل جھوٹے ہیں ۔ یعنی معاذ اللہ جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مفتری بتاتے ہیں یہ لوگ خود ہی جھوٹے افترا پر دازیاں کرنے کے عاری اور خوگر ہیں اور یہ لوگ واقعی جھوٹے ہیں ۔