Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 115

سورة النحل

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحۡمَ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۱۵﴾

He has only forbidden to you dead animals, blood, the flesh of swine, and that which has been dedicated to other than Allah . But whoever is forced [by necessity], neither desiring [it] nor transgressing [its limit] - then indeed, Allah is Forgiving and Merciful.

تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے حرام ہیں پھر اگر کوئی شخص بے بس کر دیا جائے نہ وہ خواہشمند ہو اور نہ حد سے گزر جانے والا ہو تو یقیناً اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالْدَّمَ وَلَحْمَ الْخَنزِيرِ ... So eat of the lawful and good food which Allah has provided for you. And be grateful for Allah's favor, if it is He Whom you worship. He has only forbidden dead flesh, blood, the flesh of swine, and any animal which is slaughtered as a sacrifice for other than Allah. Allah orders His believing servants to eat the good and lawful things that He has provided, and to give thanks to Him for that, for He is the Giver and Originator of all favors, Who alone deserves to be worshipped, having no partners or associate. Then Allah mentions what He has forbidden things which harm them in both religious and worldly affairs, i.e., dead meat, blood and the flesh of pigs. ... وَمَأ أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ ... and any animal which is slaughtered as a sacrifice for other than Allah. meaning, it was slaughtered with the mention of a name other than that of Allah. Nevertheless, ... فَمَنِ اضْطُرَّ ... But if one is forced by necessity, meaning, if one needs to do it, ... غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ ... without willful disobedience, nor transgressing, i.e. without deliberately disobeying or transgressing, then, ... فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ Allah is Pardoning, Most Merciful. We have already discussed a similar Ayah in Surah Al-Baqarah, and there is no need to repeat it here. And to Allah be praise. Then Allah forbids us to follow the ways of the idolators who declare things to be permitted or forbidden based upon their own whims and whatever names they agree on, such as; the Bahirah (a she-camel whose milk was spared for the idols and nobody was allowed to milk it), the Sa'ibah (a she-camel let loose for free pasture for their false gods, idols, etc., and nothing was allowed to be carried on it), the Wasilah (a she-camel set free for idols because it has given birth to a she-camel at its first delivery and then again gives birth to a she-camel at its second delivery), and the Ham (a stallion camel freed from work for the sake of their idols, after it had finished a number of acts of copulation assigned for it), and so on. All of these were laws and customs that were invented during jahiliyyah. Then Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

115۔ 1 یہ آیت اس سے قبل تین مرتبہ پہلے بھی گزر چکی ہے۔ (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :183) ۔ (حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيْحَةُ وَمَآ اَ كَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ ۣ وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بالْاَزْلَامِ ۭذٰلِكُمْ فِسْقٌ ۭ اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۭ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 5 ۔ المائدہ :3) ۔ (قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗٓ اِلَّآ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 6 ۔ الانعام :145) میں۔ یہ چوتھا مقام ہے۔ یعنی مخاطبین کے عقیدے اور خیال کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا گیا ہے۔ ورنہ دوسرے جانور اور درندے وغیرہ بھی حرام ہیں، البتہ ان آیات سے یہ واضح ہے کہ ان میں جن چار محرکات کا ذکر ہے، اللہ تعالیٰ ان سے مسلمانوں کو نہایت تاکید کے ساتھ بچانا چاہتا ہے۔ اس کی ضروری تشریح گزشتہ مقامات پر کی جا چکی ہے، تاہم اس میں (جس چیز پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے) جو چوتھی قسم ہے۔ اس کے مفہوم میں حقیر عذر کو سامنے رکھ کر شرک کے لئے چور دروازہ تلاش کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کی مزید وضاحت پیش خدمت ہے۔ جو جانور غیر اللہ کے لیے نامزد کردیا جائے اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ غیر اللہ کے تقرب اور اس کی خوشنودی کے لیے اسے ذبح کیا جائے اور ذبح کرتے وقت نام بھی اسی بت یا بزرگ کا لیا جائے بزعم خویش جس کو راضی کرنا مقصود ہے دوسری صورت یہ ہے کہ مقصود تو غیر اللہ کا تقرب ہی ہو۔ لیکن ذبح اللہ کے نام پر ہی کیا جائے جس طرح کہ قبر پرستوں میں یہ سلسلہ عام ہے۔ وہ جانوروں کو بزرگوں کیلیے نامزد تو کرتے ہیں مثلا یہ بکرا فلاں پیر کا ہے یہ گائے فلاں پیر کی ہے، یہ جانور گیارہویں کے لیے یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی کے لیے ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور ان کو وہ بسم اللہ پڑھ کر ہی ذبح کرتے ہیں۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ پہلی صورت تو یقیناً حرام ہے لیکن یہ دوسری صورت حرام نہیں بلکہ جائز ہے کیونکہ یہ غیر اللہ کے نام پر ذبح نہیں کیا گیا ہے اور یوں شرک کا راستہ کھول دیا گیا ہے۔ حالانکہ فقہاء نے اس دوسری صورت کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ یہ بھی وما اھل لغیر اللہ بہ میں داخل ہے چناچہ حاشیہ بیضاوی میں ہے ہر وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے حرام ہے اگرچہ ذبح کے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا جائے اس لیے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ کوئی مسلمان اگر غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی غرض سے جانور ذبح کرے گا تو وہ مرتد ہوجائے گا اور اس کا ذبیح مرتد کا ذبیحہ ہوگا اور فقہ حنفی کی مشہور کتاب درمختار میں ہے کہ کسی حاکم اور کسی طرح کسی بڑے کی آمد پر حسن خلق یا شرع ضیافت کی نیت سے نہیں بلکہ اس کی رضامندی اور اس کی تعظیم کے طور پر جانور ذبح کیا جائے تو وہ حرام ہوگا اس لیے کہ وہ وما اھل لغیر اللہ میں داخل ہے اگرچہ اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو اور علامہ شامی نے اس کی تائید کی ہے۔ البتہ بعض فقہاء اس دوسری صورت کو وما اھل لغیر اللہ کا مدلول اور اس میں داخل نہیں سمجھتے اور اشتراک علت کی وجہ سے اسے حرام سمجھتے ہیں۔ گویا حرمت میں کوئی اختلاف نہیں صرف استدلال و احتجاج کے طریقے میں اختلاف ہے۔ علاوہ ازیں یہ دوسری صورت وماذبح علی النصب (جو بتوں کے پاس یا تھانوں پر ذبح کیے جائیں) بھی داخل ہے، جسے سورة المائدہ میں محرمات میں ذکر کیا گیا ہے اور احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آستانوں درباروں اور تھانوں پر ذبح کیے گئے جانور بھی حرام ہیں اس لیے کہ وہاں ذبح کرنے کا یا وہاں لے جا کر تقسیم کرنے کا مقصد تقرب لغیر اللہ ہی ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے ایک شخص نے آ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ کیا وہاں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی پرستش کی جاتی تھی ؟ لوگوں نے بتلایا نہیں پھر آپ نے پوچھا کہ وہاں ان کی عیدوں میں سے کوئی عید تو نہیں منائی جاتی تھی ؟ لوگوں نے اس کی بھی نفی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سائل کو نذر پوری کرنے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بتوں کے ہٹائے جانے کے بعد بھی غیر آباد آستانوں پر جا کر جانور ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔ چہ جائیکہ ان آستانوں اور درباروں پر جا کر ذبح کیے جائیں جو پرستش اور نذر ونیاز کے لیے مرجع عوام ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٨] حرام اشیاء کون کون سی ہی ؟ اس آیت کی تفسیر سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٧٣ سورة مائدہ کی آیت نمبر ٣ اور سورة انعام کی آیت نمبر ١٣٥ کے تحت گزر چکی ہے۔ وہ دیکھ لی جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ : یعنی جس جانور کو بھی غیر اللہ کے نام کے ساتھ شہرت دی جائے، مثلاً گنج بخش کا بکرا، چشتی اجمیری کی گائے یا فلاں شاہ کا مرغا، تو یقیناً وہ جانور حرام ہوگیا اور ” اُهِلَّ “ کا لفظ ذبح کے علاوہ اس کو بھی شامل ہے، کیونکہ ” اُهِلَّ “ کا معنی آواز بلند کرنا ہے، لہٰذا جس پر غیر اللہ کا نام آگیا اس میں ایسی خباثت آگئی جو مردار میں بھی نہیں، کیونکہ مردار پر تو صرف اللہ کا نام نہیں لیا گیا مگر ” مَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ “ (جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے) میں اس جانور کی روح اس کے خالق کے سوا دوسرے کے نام پر بھینٹ چڑھا دی گئی۔ یہ آیت شریفہ قرآن میں چار مرتبہ آئی ہے، سورة بقرہ (١٧٣) ، مائدہ (٣) ، انعام ( ١٤٥) اور یہاں سورة نحل (١١٥) میں، تمام مقامات پر نظر ڈال لیں۔ اس کے معنی ” مَا رُفِعَ الصَّوْتُ بِہِ لِغَیْرٍ “ ہیں (یعنی جس پر غیر اللہ کا نام بلند کیا جائے) ، نہ کہ ” مَا ذُبِحَ باسْمِ غَیْرِ اللّٰہِ “ (یعنی جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے) ۔ گو یہ اس میں بطریق اولیٰ داخل ہے، جس کی بنا پر بعض مفسرین نے ” اُهِلَّ “ کی تفسیر ” ذُبِحَ “ کی ہے، جو اس وقت کی صورت حال کے پیش نظر اور بیان واقعہ کے لیے ہے۔ ہمارے دور میں اس نئے شرک کا وقوع ہوا ہے، اس برصغیر پاک و ہند کے علماء نے اسے خوب حل فرمایا ہے اور شاہ عبد العزیز کی تفسیر عزیزی اس پر شاہد عدل ہے۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٧٣) ، مائدہ (٣) اور سورة انعام (١٤٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Nature of Prohibitions: The Correct View The restrictive particle: اَنَّمَا (innama: only) appearing in verse 115 seems to give the impression that things Haram are no more than the four mentioned in the verse. This impression emerges more clearly in another verse: قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّ‌مًا (Say, I do not find, in what has been revealed to me, anything prohibited... - Surah a1-An` am, 6:145). It seems to be suggestive of nothing being Haram other than the things mentioned in the verse while the fact is that according to clarifications of the Qur&an and Sunnah and by the Consensus of the Muslim Ummah, there are many more things rated as Haram. The answer to this difficulty comes through deliberation into the context of these very verses which tells us that the purpose at this place is not to describe Halal and Haram as they are commonly understood. Instead, the purpose is to point out to what the mushrikin of the period of Jahiliyah had done. They had made many things Haram on their own although Allah Ta’ ala had never or¬dered them about their unlawfulness. It amounts to saying: Out of the things you have (arbitrarily) made out as Haram, only that which is real¬ly Haram is being mentioned here. A comprehensive explanation of this verse along with a detailed description of these four prohibitions has ap¬peared in the Commentary of Surah al-Baqarah, Ma` ariful-Qur’ an, Vo¬lume I, pages 424-438, under Verses 173-174. Those interested may see it there.

معارف و مسائل : محرمات مذکورہ میں حصر اضافی ہے حقیقی نہیں : اس آیت میں لفظ انما سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام چیزیں صرف یہی چار ہیں جو آیت میں مذکور ہیں اور اس سے زیادہ صریح طور پر ( آیت) قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا الایۃ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان چیزوں کے سوا کوئی چیز حرام نہیں حالانکہ قرآن وسنت کی تصریحات کے مطابق باجماع امت اور بھی بہت سی چیزیں حرام ہیں اس اشکال کا جواب خود انہی آیات کے سیاق وسباق پر غور کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس جگہ عام حرام و حلال کا بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ مشرکین جاہلیت نے جو بہت سی چیزوں کو اپنی طرف سے حرام کرلیا تھا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حرمت کا حکم نہیں دیا تھا ان کا بیان کرنا مقصود ہے کہ تمہاری حرام کردہ اشیاء میں سے اللہ کے نزدیک صرف یہی چیزیں حرام ہیں اس آیت کی مکمل تفسیر اور ان چاروں محرمات کے احکام کا مفصل بیان سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٧٣ میں معارف القرآن جلد اول صفحہ ٣٥٨ سے صفحہ ٣٧٠ تک آچکا ہے وہاں دیکھ لیا جائے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ١١٥؁ حرم الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» «1» . وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ ميتة وَالمَيْتةُ من الحَيوان : ما زال روحه بغیر تذكية، قال : حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ [ المائدة/ 3] ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً [ الأنعام/ 145] المیتہ اس حیوان کو کہتے ہیں جس کی روح بغیر تذیہ کئ زائل ہوگئی ہو قرآن میں ہے : ۔ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ [ المائدة/ 3] تم پر مرا ہوا جانور حرام ہے ۔ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً [ الأنعام/ 145] بخیر اس کئ کہ وہ امر ہوا جانور ہو ۔ دم أصل الدّم دمي، وهو معروف، قال اللہ تعالی: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة/ 3] ، وجمعه دِمَاء، وقال : لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] ، وقد دَمِيَتِ الجراحةُ ، وفرس مَدْمِيٌّ: شدید الشّقرة، کالدّم في اللّون، والدُّمْيَة صورة حسنة، وشجّة دامية . ( د م ی ) الدم ۔ خون ۔ یہ اصل میں دمامی تھا ( یاء کو برائے تخفیف حذف کردیا ہے ) قرآن میں ہے :۔ :۔ ح ُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة/ 3] تم مردا جانور اور ( بہتا ) لہو یہ سب حرام ہیں ۔ دم کی جمع دمآء ہے ۔ قرآن میں ہے لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا ۔ دمیت ( د) الجراحۃ ۔ زخم سے خون بہنا ۔ فرس مدعی ۔ خون کی طرح نہایت سرخ رنگ کا گھوڑا ۔ الدمیۃ ۔ گڑیا ( جو خون کی مانند سرخ اور منقوش ہو ) شکجۃ دامیہ ۔ سر کا زخم جس سے خون بہہ رہا ہو ۔ لحم اللَّحْمُ جمعه : لِحَامٌ ، ولُحُومٌ ، ولُحْمَانٌ. قال : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة/ 173] . ولَحُمَ الرّجل : كثر عليه اللّحم فضخم، فهو لَحِيمٌ ، ولَاحِمٌ وشاحم : صار ذا لَحْمٍ وشحم . نحو : لابن وتامر، ولَحِمَ : ضري باللّحم، ومنه : باز لَحِمٌ ، وذئب لحم . أي : كثيرُ أَكْلِ اللّحم . وبیت لَحْمٍ : أي : فيه لحم، وفي الحدیث : «إنّ اللہ يبغض قوما لَحِمِينَ» «1» . وأَلْحَمَهُ : أطعمه اللّحم، وبه شبّه المرزوق من الصّيد، فقیل : مُلْحِمٌ ، وقد يوصف المرزوق من غيره به، وبه شبّه ثوب مُلْحَمٌ: إذا تداخل سداه «2» ، ويسمّى ذلک الغزل لُحْمَةٌ تشبيها بلحمة البازي، ومنه قيل : «الولاء لُحْمَةٌ کلحمة النّسب» «3» . وشجّة مُتَلَاحِمَةٌ: اکتست اللّحم، ولَحَمْتُ اللّحم عن العظم : قشرته، ولَحَمْتُ الشیءَ ، وأَلْحَمْتُهُ ، ولَاحَمْتُ بين الشّيئين : لأمتهما تشبيها بالجسم إذا صار بين عظامه لحمٌ يلحم به، واللِّحَامُ : ما يلحم به الإناء، وأَلْحَمْتُ فلانا : قتلته وجعلته لحما للسّباع، وأَلْحَمْتُ الطائر : أطعمته اللّحم، وأَلْحَمْتُكَ فلانا : أمکنتک من شتمه وثلبه، وذلک کتسمية الاغتیاب والوقیعة بأكل اللَّحْمِ. نحو قوله تعالی: أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات/ 12] ، وفلان لَحِيمٌ فعیل كأنّه جعل لحما للسّباع، والمَلْحَمَةُ : المعرکة، والجمع المَلَاحِمُ. ( ل ح م ) اللحم ( گوشت ) کی جمع لحام ، لحوم ، اور لحمان آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة/ 173] اور سور کا گوشت لحم الرجل فھولحیم کے معنی ہیں وہ پر گوشت اور موٹا ہوگیا ۔ اور ہوئے چربی چڑھے ہوئے آدمی کو لاحم شاحم کہاجاتا ہے جیسے : لابن وتامر ۔ لحم ( س) کے معنی گوشت کھانے کا حریص ہونا کے ہیں اسی سے بہت زیادہ گوشت خور باز یا بھیڑیئے کو لحم کہاجاتا ہے ۔ بیت لحم ۔ وہ گھر جہاں لوگوں کی اکثر غیبتیں کی جائیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (107) ان اللہ یبغض قوما لحمین کہ اللہ تعالیٰ بہت گوشت خور لوگوں کو ناپسند کرتا ہے ۔ یعنی جو ہر وقت لوگوں کی غیبت کرتے رہتے ہیں ۔ الحمہ کے معنی کسی کو گوشت کھلانے کے ہیں ۔ اور اسی سے تشبیہ کے طور پر اس آدمی کو جس کی گزراں شکار پر ہو رجل ملحم کہاجاتا ہے ۔ پھر مطلقا تشبیہا ہر کھاتے پییتے آدمی کو ملحم کہہ دیتے ہیں اور اسی سے ثوب ملحم لگا محاورہ ہے جس کے معنی بنے ہوئے کپڑا کے ہیں کپڑے کے بانا کو لحمہ کہاجاتا ہے جو کہ لحمہ البازی سے مشتق ہے ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ؛ (108) الولآء لحمۃ کلحمۃ النسب کہ والا کا رشتہ بھی نسب کے رشتہ کیطرح ہے شجۃ متلاحمۃ رخم جس پر گوشت چڑھ گیا ہو ۔ لحمت اللحم عن العظم میں نے ہڈی سے گوشت کو الگ کردیا ۔ لحمت الشیئین میں نے ایک چیز کو دوسری کے ساتھ اس طرح گھتی کردیا ۔ جیسے ہڈی گے ساتھ گوشت پیوست ہوتا ہے ۔ اللحام ۔ وہ چیز جس سے برتن کو ٹا نکا لگا جائے ۔ الحمت فلانا کسی کو قتل کرکے اس کا گوشت درندوں کو کھلا دیا ۔ الحمت الطائر ۔ میں نے پرند کا گوشت کھلایا ۔ الحمتک فلانا ۔ میں نے فلاں کی غیبت کا موقع دیا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے غیبت وبدگوئی کو اکل اللحم یعنی گوشت کھانے سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات/ 12] کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ۔ فلان لحیم فلاں کو قتل کردیا گیا ۔ گویا اسے درندوں کی خوراک بنادیا گیا ۔ الملحمۃ معرکن ملاحم ۔ خنزیر قوله تعالی: وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنازِيرَ [ المائدة/ 60] ، قيل : عنی الحیوان المخصوص، وقیل : عنی من أخلاقه وأفعاله مشابهة لأخلاقها، لا من خلقته خلقتها، والأمران مرادان بالآية، فقد روي «أنّ قوما مسخوا خلقة» «1» ، وکذا أيضا في الناس قوم إذا اعتبرت أخلاقهم وجدوا کالقردة والخنازیر، وإن کانت صورهم صور الناس . ( خ ن ز ر ) الخنزیر ۔ کے معنی سور کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنازِيرَ [ المائدة/ 60] اور ( جن کو ) ان میں سے بندر اور سور بنادیا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ خاص کر سور ہی مراد ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ خاص کر سور ہی مراد ہیں اور بعض کے نزدیک اس سے وہ لوگ مراد ہیں َ جن کے افعال و عادات بندر اور سور جیسے ہوگئے تھے ۔ نہ کہ وہ بلحاظ صورت کے بندر اور سور بن گئے تھے ۔ مگر زیر بحث آیت میں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں کیونکہ مروی ہے کہ ایک قوم کی صورتیں مسخ ہوگئی تھیں اور وہ بندر سور بن گئے تھے ۔ اسی طرح انسانوں میں ایسے لوگوں بھی موجود ہیں جو شکل و صورت کے لحاظ سے گو انسان نظر آتے ہیں ۔ لیکن اخلاق و عادات کے اعتبار سے بندر اور سور بنے ہوئے ہیں ۔ هلل الْهِلَالُ : القمر في أوّل ليلة والثّانية، ثم يقال له القمر، ولا يقال : له هِلَالٌ ، وجمعه : أَهِلَّةٌ ، قال اللہ تعالی: يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَواقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِ [ البقرة/ 189] وقد کانوا سألوه عن علّة تَهَلُّلِهِ وتغيّره . وشبّه به في الهيئة السّنان الذي يصاد به وله شعبتان کرمي الهلال، وضرب من الحيّات، والماء المستدیر القلیل في أسفل الرّكيّ ، وطرف الرّحا، فيقال لكلّ واحد منهما : هِلَالٌ ، وأَهَلَّ الهلال : رؤي، واسْتَهَلَّ : طلب رؤيته . ثم قد يعبّر عن الْإِهْلَالِ بِالاسْتِهْلَالِ نحو : الإجابة والاستجابة، والإهْلالُ : رفع الصّوت عند رؤية الهلال، ثم استعمل لكلّ صوت، وبه شبّه إِهْلَالُ الصّبيّ ، وقوله : وَما أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ [ البقرة/ 173] أي : ما ذکر عليه غير اسم الله، وهو ما کان يذبح لأجل الأصنام، وقیل : الْإِهْلَالُ والتَّهَلُّلُ : أن يقول لا إله إلّا الله، ومن هذه الجملة ركّبت هذه اللّفظة کقولهم : التّبسمل والبسملة والتّحولق والحوقلة إذا قال بسم اللہ الرحمن الرحیم، ولا حول ولا قوّة إلّا بالله، ومنه الْإِهْلَالُ بالحجّ ، وتَهَلَّلَ السّحاب ببرقه : تلألأ، ويشبّه في ذلک بالهلال، وثوب مُهَلَّلٌ: سخیف النّسج، ومنه شعر مُهَلْهَلٌ. هَلْ : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] . وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته . ( ھ ل ل ) الھلال مہینے کی پہلی اور دوسری تاریخ کے چاند کو کہتے ہیں پھر اس کے بعد اسے قمر کہا جاتا ہے اس کی جمع اھلۃ ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَواقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِ [ البقرة/ 189]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں در یافت کرتے ہیں ( کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے کہدو کہ وہ لوگوں کے کاموں کی میعادیں اور ھض کے وقت معلوم ہو نیکا ذریعہ ہے یعنی بلال کے طلوع ہونے اور اس کے کم وبیش ہونے کی حکمت پوچھتے ہیں ۔ ےشبیہ کے طور پر ھلال کا لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے ( 1 ) شکار کرنے کا نیزہ جو ہلال کی طرح دو شاخ کا ہوتا ہے ( 2 ) ایک قسم کا زہر یلا سانپ ( 3 ) کنویں کے تلے میں تھوڑا سا پانی جو گول دائرے کی شکل پر ہوتا ہے ( 4 ) چکی کا کنارہ ( جب کہ ٹوٹ جائے ) اھل الھلال کے معنی چاند نظر آنے کے ہیں ۔ اور استھل کے معنی روئت ہلال ہیں لیکن کبھی استہلال بمعنی ھلال بھی آجاتا ہے جیسے استجا بۃ بمعنی اجابۃ الا ھلال کے معنی چاند نظر آنے پر آواز بلند کرنے کے ہیں پھر یہ لفظ عام آواز بلند کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اسی سے تشبیہا اھل الصبی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں بچے نے آواز بلند کی اور آیت : ۔ وَما أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ [ البقرة/ 173] اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نما پکارا جائے کے معنی ہیں کہ جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے یعنی جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ۔ بعض نے کہا ہے کہ اھلال اور تھلل کے معنی لا الہ الا للہ کہنے کے ہیں اور یہ لفظ جملہ مخفف ہے جیسا کہ تبسمل وبسملۃ اور تحویل وحو قلۃ کے معنی بسم اللہ الرحمن الرحیم، اور کہنے کے ہیں اور اسی سے اھلال بالحج ہے جس کے معنی بلند آواز سے تلبیہ کہنے کے ہیں اور باریک جھر جھر کپڑے کو ثوب مھلھل کہا جاتا ہے اور اسی سے شعر مھلھل ہے جس کے معنی عمدہ شعر کے ہیں ۔ الاضْطِرَارُ : حمل الإنسان علی ما يَضُرُّهُ ، وهو في التّعارف حمله علی أمر يكرهه، وذلک علی ضربین : أحدهما : اضطرار بسبب خارج کمن يضرب، أو يهدّد، حتی يفعل منقادا، ويؤخذ قهرا، فيحمل علی ذلك كما قال : ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلى عَذابِ النَّارِ [ البقرة/ 126] والثاني : بسبب داخل وذلک إمّا بقهر قوّة له لا يناله بدفعها هلاك، كمن غلب عليه شهوة خمر أو قمار، وإمّا بقهر قوّة يناله بدفعها الهلاك، كمن اشتدّ به الجوع فَاضْطُرَّ إلى أكل ميتة، وعلی هذا قوله : فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة/ 173] الاضطرار کے اصل معنی کسی کو نقصان وہ کام پر مجبور کرنے کے ہیں اور عرف میں اس کا استعمال ایسے کام پر مجبور کرنے کے لئ ہوتا ہے جسے وہ ناپسند کرتا ہو ۔ اور اس کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ مجبوری کسی خارجی سبب کی بنا پر ہو مثلا مار پٹائی کی جائے یا دھمکی دی جائے حتی ٰ کہ وہ کسی کام کے کرنے پر رضا مند ہوجائے یا زبردستی پکڑکر اس سے کوئی کام کروایا جائے جیسے فرمایا : ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلى عَذابِ النَّارِ [ البقرة/ 126] پھر اس عذاب دوزخ کے بھگتنے کے لئے ناچار کردوں گا ۔ ۔ دوم یہ کہ وہ مجبوری کسی داخلی سبب کی بنا پر ہو اس کی دوقسمیں ہیں (1) کسی ایسے جذبہ کے تحت وہ کام کرے جسے نہ کرنے سے اسے ہلاک ہونیکا خوف نہ ہو مثلا شراب یا قمار بازی کی خواہش سے مغلوب ہوکر انکا ارتکاب کرے (2) کسی ایسی مجبوری کے تحت اس کا ارتکاب کرے جس کے نہ کرنے سے اسے جان کا خطرہ ہو مثلا بھوک سے مجبور ہوکر مردار کا گوشت کھانا ۔ چناچہ آیت کریمہ : فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة/ 173] ہاں جو ناچار ہوجائے بشرطیکہ خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد ( ضرورت ) سے باہر نہ نکل جائے ۔ باغ في أكثر المواضع مذموم، وقوله : غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة/ 173] ، أي : غير طالب ما ليس له طلبه ولا متجاوز لما رسم له . قال الحسن : غير متناول للذّة ولا متجاوز سدّ الجوعة «1» . وقال مجاهد رحمه اللہ : غير باغ علی إمام ولا عاد في المعصية طریق الحق «2» . گو لغت میں بغی کا لفظ محمود اور مذموم دونوں قسم کے تجاوز پر بولا جاتا ہے مکر قرآن میں اکثر جگہ معنی مذموم کے لئے استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا : ۔ { يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ } ( سورة يونس 23) تو ملک میں ناھق شرارت کرنے لگتے ہیں ۔ ۔ { إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ } ( سورة يونس 23) تمباری شرارت کا وبال تمہاری ہی جانوں پر ہوگا ۔ { ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنْصُرَنَّهُ اللهُ } ( سورة الحج 60) پھر اس شخص پر زیادتی کی جائے تو خدا اسکی مدد کریگا ۔ { إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَى فَبَغَى عَلَيْهِمْ } ( سورة القصص 76) قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا اور ان پر تعدی کرتا تھا ۔ { فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا } ( سورة الحجرات 9) اور لوگ ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو ۔ آیت کریمہ ؛{ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ } ( سورة البقرة 173) بشرطیکہ ) خدا کی نافرمانی نہ کرے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اتنا ہی لے جتنی اسے ضرورت ہے اور حد متعین سے آگے نہ بڑھے ۔ امام حسین نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ نہ تو محض لذت کے لئے کھائے ۔ اور نہ ہی سدر حق ( یعنی ضرورت سے ) تجاوز کرے ۔ مجاہد (رح) نے کہا ہے کہ کے یہ معنی میں بشرطیکہ وہ نہ تو امام وقت سے باعنی ہو اور نہ ہی معصیت کا ارتکاب کرکے راہ حق سے تجاوز کرنے والا ہو ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٥) تم پر تو صرف مردار کو حرام کیا ہے اور بہتے ہوئے خون کو اور خنزیر کے گوشت کو اور جو کہ غیر اللہ کے نام پر یا بتوں کے نام ذبح کیا جائے پھر جو شخص فاقے کی وجہ سے ان چیزوں کے کھانے پر جن کو اللہ تعالیٰ حرام کردیا ہے بالکل مجبور ہوجائے، بشرطیکہ مسلمانوں سے بغض نہ رکھتا ہو مطلب یہ ہے کہ مردار کے گوشت کو حلال نہ سمجھتا ہو اور نہ یہ کہ بغیر شدید ضرورت کے کھانے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس قدر شدید ضرورت کے وقت مردار کے کھانے کی اجازت دی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) یعنی انتہائی مجبوری کی حالت میں جان بچانے کے لیے وقتی طور پر بقدر ضرورت ان حرام اشیاء کو استعمال میں لا کر جان بچائی جاسکتی ہے مگر نہ تو دل میں ان کی طلب ہو نہ اللہ سے سرکشی کا ارادہ اور نہ ہی ایسی حالت میں وہ چیز ضرورت سے زیادہ کھائی جائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

115. Please refer also to (Surah Al-Baqarah, Ayat 173), (Surah Al-Maidah, Ayat 3) and (Surah Al-Anaam, Ayat 145).

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :115 یہ حکم سورہ بقرہ آیت نمبر ۳ ، سورہ مائدہ آیت نمبر ۱۷۳ اور سورہ انعام آیت نمبر ۳۵ میں بھی گزر چکا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

50: اس کی تفصیل سورۃ مائدہ آیت 3 میں گزر چکی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:115) ما اھل لغیر اللہ بہ۔ الہلال سے ہے الہلالمہینے کی پہلی اور دوسری تاریخ کے چاند کو کہتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اسے قمر کہا جاتا ہے اس کی جمع اھلۃ ہے الاھلال کے معنی چاند نظر آنے پر آواز کرنے کے ہیں۔ پھر یہ لفظ عام آواز بلند کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اسی سے محاورہ ہے اہل الصبی ولادت کے وقت بچے نے رونے میں آواز بلند کی۔ اور حاجیوں کے بآواز بلند لبیک اللہم لبیک کہنے کو بھی اھلال کہا جاتا ہے۔ اسی طرح پکارنا۔ آواز لگانا۔ بلند آواز سے ذکر کرنا۔ نامزد کرنا۔ کسی چیز کو شہرت دینا سب کے معنی میں مستعمل ہے۔ اھل۔ اھلال سے ماضی مجہول کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے اس جملہ میں ما اسم موصول ہے اور بہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع ہے۔ ما اھل بہ جس کا نام لے کر آواز بلند کی گئی۔ جس کا نام پکارا گیا۔ یعنی ذبح کرتے وقت جس کا نام لیا گیا۔ اھل بمعنی ذبح کی سند کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول پیش کیا گیا ہے۔ اذا سمعتم الیھود والنصاری یھلون لغیر اللہ فلا تاکلوھا واذا لم تسمعوہم فکلوا فان اللہ قد احل ذبائہم وھو یعلم ما یقولون۔ (جب تم سنو کہ یہود و نصاریٰ غیر خدا کا نام لے کر ذبح کرتے ہیں تو ان کا ذبیحہ نہ کھائو اور اگر نہ سنو تو کھالو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذبیحہ کو حلال کیا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ وہ کہتے ہیں۔ تو گویا ما اھل بہ کا ترجمہ ہوا۔ ذبح کے وقت جس کا نام پکارا گیا۔ اور ما اھل لغیر اللہ بہ جسے نام لے کر غیر اللہ کے لئے ذبح کیا گیا۔ مثلاً میں ذبح کرتا ہوں لات کے لئے (کہ ذبح لات کے نام پر ہوا ہے خدا کی ذات کے لئے نہیں) ذکر عند ذبحہ اسم غیرہ تعالیٰ (محمد مخلوف) اضطر۔ اضطرار (افتعال) سے ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ وہ بےاختیار کیا گیا وہ لاچار کیا گیا الضر (ض رر) کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل وعفت کی کمی۔ خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا۔ یا قلت مال کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا۔ اضطرار کے معنی کسی کو نقصان دہ کام پر مجبور کرنے کے ہیں اور عرف میں اس کا استعمال ایسے کام پر مجبور کرنے کے ہیں جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔ اس کی دو صورتیں ہیں : (1) ایک یہ کہ مجبوری کسی خارجی سبب کی بناء پر ہو۔ مثلا مارپٹائی کی جائے یا دھمکی دی جائے حتی کہ وہ کام کرنے پر رضا مند ہوجائے یا زبردستی پکڑ کر اس سے کوئی کام کروایا جائے۔ مثلاً ثم اضطرہ الی عذاب النار۔ (2:126) پھر میں اس کو عذاب دوزخ کے بھگتنے کے لئے لاچار کر دوں گا۔ (2) دوسری صورت یہ ہے کہ وہ مجبوری کسی داخلی سبب کی بناء پر ہو۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں (الف) کسی ایسے جذبے کے تحت وہ کام کر جسے نہ کرنے سے اسے ہلاک ہونے کا خوف ہو۔ مثلاً شراب یا قمار بازی کی خواہش سے مغلوب ہو کر شراب نوشی یا قمار بازی کا ارتکاب کر بیٹھے۔ (ب) کسی ایسی مجبوری کے تحت اس کا ارتکاب کرے کہ جس کے نہ کرنے سے اسے جان کا خطرہ ہو مثلاً بھوک سے مجبور ہو کر مردار کا گوشت کھانا۔ فمن اضطر فی مخمصۃ (5:3) ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہوجائے۔ آیۃ ہذا میں بھی یہی صورت ہے (نیز ملاحظہ ہو 6:145) باغ وعاد اصل میں باغی وعادو تھا۔ باغی۔ ضمہ ی پر دشوار تھا۔ جس کی وجہ سے گرگیا۔ یساکن ہوا۔ اب ی ساکن اور تنوین دو ساکن اکٹھے ہوئے ی اجتماع ساکنین کی وجہ سے گرگئی باغ ہوا۔ عادو کی واو اسم فاعل میں کلمہ کے آخر میں واقع ہونے کی وجہ سے اور ما قبل مکسور ہونے کی وجہ سے یہو گئی اور پھر عمل متذکرہ بالا سے یگر گئی۔ غیر باغ ولا عاد جو لذت کا جو یا نہ ہو۔ اور نہ ہی حد سے تجاوز کرنے والا ہو۔ فمن اضطر غیر باغ ولا عاد کے بعد فلا اثم علیہ محذوف ہے یعنی بحالتِ لاچاری گناہ نہیں۔ (نیز ملاحظہ ہو 2:173) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی جس جانور کو بھی غیر اللہ کے نام سے شہرت دی جائے۔ مثلاًً شیخ سدو کا بکراہ یا سید احمد کبیر کی گائے یا فلاں شاہ کا مرغا وغیرہ۔ ہرحال میں وہ جانور حرام ہوگیا اور اھل کا لفظ ذبح کے علاوہ اس کو بھی شامل ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ ملعون من ذبح لغیر اللہ (سسن ابی دائود) لہٰذا جس پر غیر اللہ کا نام آگیا تو اس میں ایسی خباثت آگئی جو مردار ہیں بھی نہیں کیونکہ مردار پر تو صرف اللہ کا نام نہیں لیا گیا۔ مگر ” اھل لغین اللہ ہمیں اس جانوروں کی روح اس کے خالق کے سوا دوسرے کے نام پر بھینٹ چڑھا دی گئی اور یہ شرک ہے لہٰذا ایسا ذبیحہ حرام ہے یہ آیت شریفہ قرآن میں چار متربہ آئی ہے۔ اس کے معنی مارفع بہ الصوت بغیر اللہ “ ہیں نہ کہ ” ماذبح باسم غیر اللہ “ گویہ اس میں بطریق اولیٰ داخل ہے جس کی بنا پر بعض مفسرین نے اھل کی تفسیر ” ذبح “ جو اس وقت کی صورت حال کے پیش نظر اور بیان واقعہ کے لئے ہے۔ ہمارے دور میں اس نئے شرک کا وقوع ہوا ہے اس لئے برصغیر پاک و ہند کے علما نے اسے خوب حل فرمایا ہے اور شاہ عبدلاعزیز کی تفسیر عزیزی اس پر شاہد عدل ہے (ترجمان نواب)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیت میں حکم ہوا ہے کہ اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ اور پیوحرام خور آدمی اس فرمان سے غلط فائدہ اٹھا سکتا تھا۔ اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ حرام کی وضاحت کردی جائے۔ مذکورہ بالا وجہ کے ساتھ حرام کردہ چیزوں کی نشاندہی اس لیے کی جا رہی ہے کہ یہودیوں نے بہت سی اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو اپنے اوپر حرام اور حرام کردہ چیزوں کو اپنے لیے حلال کرلیا تھا۔ اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے یہودی رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ بھی اعتراض کرتے تھے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جو چیزیں تورات اور انجیل میں حلال ہیں آپ اسے حرام کیوں قرار دیتے ہیں ؟ ان کا یہ الزام تھا کہ حرام و حلال کی فہرست میں آپ نے اپنی مرضی سے ترمیم واضافہ کرلیا ہے۔ اس کی وضاحت میں مختلف سیاق وسباق کے تناظر میں چوتھی مرتبہ یہ آیت نازل کی گئی جس کے نزول کا مقصود یہ ہے کہ اے یہود و نصاریٰ ! جن حرام چیزوں کو تم اپنے لیے حرام سمجھ بیٹھے ہو یہ تورات اور انجیل میں بھی حرام تھیں۔ یہ رہتی دنیا تک سب کے لیے حرام ہیں سوائے اس شخص کے جو نہایت اضطراری حالت میں کھانے پر مجبور ہوجائے۔ اسے یقیناً اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا کیونکہ وہ معاف کرنے والا اور بخش دینے والا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ اضطراری حالت میں کھانے والا شخص نہ باغی ہو اور نہ ہی حد سے گزرنے والا ہو۔ ان شرط کے پیش نظر تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ مجبور شخص مجبوری کے وقت حرام چیزوں کو اتنا ہی کھا سکتا ہے جس سے اس کی زندگی بچ جائے۔ (٤) غیر اللہ کے نام پر ذبح کی یا پکائی ہوئی چیز اس لیے حرام کی گئی کہ یہ ایمان کے خلاف ہے۔ ایک غیرت مند ایمان دار سے یہ کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ گردانے گئے شریک کے نام پر چڑھائی گئی چیز کھانے یا اسے استعمال کرنے پر آمادہ ہوجائے ؟ یہ نہ صرف غیرت ایمانی کے منافی ہے بلکہ فطرت بھی اس بات کو گوارا نہیں کرتی بشرطیکہ کسی کی فطرت مسخ نہ ہوچکی ہو۔ فطرت سلیم کا ثبوت اس فرمان کے نازل ہونے سے پہلے مکہ میں پایا گیا ہے۔ (عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَ نَّہٗ لَقِیَ زَیْدَ بْنَ عَمْرِ و بْنِ نُفَیْلٍ بِأَسْفَلَ بَلْدَحٍ وَذَاکَ قَبْلَ أَنْ یُّنْزَلَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ الْوَحْیُ فَقُدِّمَتْ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سُفْرَۃٌ فَأَبٰی أَنْ یَّأْکُلَ مِنْھَا ثُمَّ قَالَ زَیْدٌ إِنِّیْ لَسْتُ آکُلُ مِمَّا تَذْبَحُوْنَ عََلٰٓی أَنْصَابِکُمْ وَلَآ آکُلُ إِلَّا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ ) [ رواہ البخا ری : کتاب الذبائح والصید، باب ماذبح علی النصب والأصنام ] ” وحی نازل ہونے سے پہلے بلدح کے نشیبی علاقے میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات زید بن عمر وبن نفیل سے ہوئی۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک دستر خوان لایا گیا جس پر غیر اللہ کے نام کی کوئی چیز تھی۔ آپ نے اسے کھانے سے انکار کردیا۔ اس کے ساتھ ہی جناب زید (رض) نے کہا کہ میں بھی ان ذبیحوں کا گوشت نہیں کھاتا جو تم اپنے آستانوں پر ذبح کرتے ہو اور نہ اس جیسی کوئی اور چیز کھاتا ہوں سوائے اس چیز کے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ “ ” ثابت بن ضحاک (رض) نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں ایک آدمی نے بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر عرض کی میں نے نذر مانی ہے کہ میں بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کروں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی ؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے پوچھا : کیا وہاں کوئی میلہ لگتا تھا ؟ صحابہ نے نفی میں جواب دیا آپ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو کیونکہ اللہ کی نافرمانی والی نذر پوری نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ نذر پوری کرنا لازم ہے جس کی انسان طاقت نہیں رکھتا۔ “ [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الأیمان وا لنذور ] اللہ تعالیٰ کا رحم وکرم دیکھیے کہ ان چار چیزوں سے سختی کے ساتھ منع کرنے کے باوجود ایسے شخص کے لیے ان کو کھانے کی اجازت دی ہے جسے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہو۔ لیکن اس کے ساتھ یہ شرط رکھی کہ نہ وہ پہلے سے ان چیزوں کے کھانے کا عادی ہو اور نہ ہی حرام خوری کی طرف اس کا دل مائل ہو۔ عمومًا یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس جانور پر ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے، صرف وہی حرام ہوتا ہے۔ یہ تصور بالکل غلط ہے، کیونکہ قرآن کے الفاظ میں نہ جانور کا ذکر ہے نہ ذبح کا بلکہ ” ما “ کا لفظ ہے جس میں عمومیت پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس کا معنی یہ ہوگا کہ جو چیز کسی بزرگ، دیوی، دیوتا کا تقرب حاصل کرنے اور اس کے نام پر مشہور کردی جائے جیسے امام جعفر کے کو نڈے، بی بی کی صحنک، مزار کے لیے بکرا وغیرہ یہ سب چیزیں حرام ہیں۔ بعض علما لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے کہتے ہیں دودھ، چاول حلال ہیں اگر کھیر کسی کے نام کی پکائی جائے تو یہ حرام کیسے ہوگئی ؟ بیشک دودھ اور چاول چیز جو فی نفسہٖ حلال ہیں۔ لیکن جو کھیر غیر اللہ کے نام پر پکائی گئی ہے وہ حرام ہوگی۔ کیونکہ غیر اللہ کے نام کی نیت رکھنے سے ہی چیز حرام ہوجاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص صدقہ و خیرات یا قربانی کرتا ہے اور اس سے اس کی نیت یہ ہو کہ اس کا ثواب میرے فوت شدہ والدین یا فلاں رشتہ دار یا فلاں بزرگ کو پہنچے تو اس میں کوئی حرج نہیں، یہ نیک عمل ہے اور سنت سے ثابت ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے مردار، خون، خنزیر کا گوشت حرام قرار دیا ہے۔ ٢۔ غیر اللہ کے نام پر دی ہوئی نذرونیاز حرام ہے۔ ٣۔ انسان کو جان کا خطرہ ہو تو مذکورہ بالا اشیا میں سے کچھ کھاسکتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر باالقرآن قرآن مجید میں حرام کردہ چیزیں : ١۔ اس نے تم پر خون، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر دی ہوئی چیز کو حرام قرار دیا ہے۔ (النحل : ١١٠) ٢۔ اللہ نے ظاہری اور باطنی فحاشی کو حرام قرار دیا ہے۔ (الاعراف : ٣٣) ٣۔ تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت، غیر اللہ کے نام پر دی ہوئی چیز، گلا گھٹنے، کسی ضرب سے، گر کر، سینگ لگنے سے، جس کو درندوں نے کھایا ہو اور استھانوں پر ذبح کیا ہوا حرام ہیں۔ (المائدۃ : ٣) ٤۔ اور یہودیوں پر ناخن والے جانور حرام تھے اور گائے، بکری کی چربی بھی حرام تھی۔ (الانعام : ١٤٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ چیزیں مختلف وجوہات سے حرام کی گئی ہیں یا تو اس لئے کہ ان میں جسمانی مصرت ہے یا حسی مضرت ہے مثلاً مردار ، خون اور لحم لغنزیز میں یا نفسیاتی اور نظریاتی مضرت ہے مثلاً وہ ذبحیے جن پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہے۔ آیت : فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فان اللہ غفور رحیم۔ (٥٢١) ۔ ترجمہ :” البتہ بھوک سے مجبور اور بےقرار ہو کر اگر کوئی ان چیزوں کو کھانے ، بغیر اس کے کہ وہ قانون الٰہی کی خلاف ورزی کا خواہش مند ہو یا حد ضرورت سے تجاوز کا مرتکب ہو ، تو یقینا اللہ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے “۔ اس لئے کہ دین اسلام ایک سہل دین ہے اور اس میں کسی پر غیر ضروری سختی نہیں ہے۔ جس شخص کو موت کا ڈر ہو ، یا بھوک سے سخت بیماری کا اندیشہ ہو یا سخت پیاس کا اندیشہ ہو تو وہ بقدر ضرورت ان چیزوں کو استعمال کرسکتا ہے۔ اس بارے میں فقہی اختلافات ہیں جن کا تذکرہ پہلے ہم کر آئے ہیں۔ غیر باغ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اصول حرمت کو توڑنے والا نہ ہو اور غیر عاد کا مطلب یہ ہے کہ وہ قدر ضرورت سے آگے بڑھنے والا نہ ہو کیونکہ صرف بقدر ضرورت اجازت دی گئی ہے۔ یہ ہیں حدود حلال و حرام جو اللہ نے مطعومات میں وضع کیے ہیں۔ لہٰذا بت پرسانہ اوہام کے نتیجے میں حلال و حرام کے ان حدود سے تجاوز مت کرو ور نہ جھوٹ بولو ، اس طرح کہ اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دو اور یہ کہو کہ یہ اللہ کا حکم ہے کیونکہ حلال و حرام کے حدود قیود وضع کرنا صرف اللہ کے اختیارات میں ہے۔ اس کا تعلق قانون سازی سے ہے اور قانون سازی کا اختیار صرف اللہ کو ہے۔ جو شخص اللہ کے اذن کے سوا اور قرآن و سنت کی دلیل کے سوا قانون سازی کرے گا اور اپنے آپ کو اس کا مستحق سمجھے گا وہ جھوٹا ہے اور جھوٹے اللہ کے ہاں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

94:۔ اس میں نذر غیر اللہ کی نفی کی گئی ہے۔ یعنی جن چیزوں مثلاً بحیرہ، سائبہ وغیرہ کو تم حرام سمجھتے ہو اللہ نے تو ان کو حرام نہیں کیا وہ تو حلال ہیں اس لیے ان کو کھاؤ اللہ نے تو ان چیزوں کو حرام کیا ہے مردار، دم مسفوح (ذبح کے وقت بہنے والا خون) خنزیر اور نذر غیر اللہ یہ حرام ہیں ان کو مت کھاؤ اس کی تفسیر گذر چکی ہے ملاحطہ ہو تفسیر سورة بقرہ حاشیہ 314 ص 84 ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

115 ۔ سوائے اس کے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تو تم پر جو چیزیں حرام کی ہیں وہ مرا ہواجانور ہے اور خون ہے اور سورکا گوشت ہے اور وہ چیزیں جس کو غیر اللہ کے نامزد کرد یا گیا ہو پھر جو شخص بھوک سے بالکل ہی بےقرار ہوجائے بشرطیکہ وہ طالب لذت نہ ہو اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا ہو تو بلا شبہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ یعنی جن چیزوں میں تم گفتگو کرتے رہتے ہو ان میں تو صرف یہ چیزیں حرام ہیں مرا ہوا جانور ہے جو خود مرجائے اور دم مسفوح اور خزیر کا گوشت اور تقرب کی نیت سے جو غیر اللہ کے نام سے نامزد کردیا گیا ہو پھر اگر فاقہ ہو اور کوئی شخص بھوک سے مضطر اور بیقرار ہوجائے اور زندگی بچانے کے لئے کچھ تھوڑا سا کھالے تو اجازت ہے بشرطیکہ مقصد لذت حاصل کرنا نہ ہو اور حد سے تجاوز کرنے والا بھی نہ ہو ۔ سورة مائدہ میں تفصیل گزر چکی ہے۔