Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 12

سورة النحل

وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ ۙ وَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ وَ النُّجُوۡمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمۡرِہٖ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿ۙ۱۲﴾

And He has subjected for you the night and day and the sun and moon, and the stars are subjected by His command. Indeed in that are signs for a people who reason.

اسی نے رات دن اور سورج چاند کو تمہارے لئے تابع کر دیا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم کے ماتحت ہیں ۔ یقیناً اس میں عقلمند لوگوں کے لئے کئی ایک نشانیاں موجود ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Signs in the Subjection of Night and Day, the Sun and the Moon, and in that which grows on Earth Allah says: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالْنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالْنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِهِ ... And He has subjected the night and the day for you, and the sun and the moon; and the stars are subjected by His command. Allah mentions the mighty signs and immense blessings to be found in His subjection of night and day, which follow one another; the sun and moon, which revolve; the stars, both fixed and moving through the skies, offering light by which people may find their way in the darkness. Each of (these heavenly bodies) travels in its own orbit, which Allah has ordained for it, and travels in the manner prescribed for it, without deviating in any way. All of them are under His subjugation, His control and His decree, as Allah says: إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِى خَلَقَ السَمَـوَتِ وَالاٌّرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِى الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَتٍ بِأَمْرِهِ أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالاٌّمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَـلَمِينَ Indeed, your Lord is Allah, Who created the heavens and the earth in Six Days, and then He rose (Istawa) over the Throne. He brings the night as a cover over the day, seeking it rapidly, and (He created) the sun, the moon, the stars (all) subjected to His command. Surely, His is the creation and commandment. Blessed is Allah, the Lord of all that exists! (7:54) Thus Allah says; ... إِنَّ فِي ذَلِكَ لاَيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ Surely, in this are proofs for people who understand. meaning, they are indications of His immense power and might, for those who think about Allah and understand His signs.

سورج چاند کی گردش میں پوشیدہ فوائد اللہ تعالیٰ اپنی اور نعمتیں یاد دلاتا ہے کہ دن رات برابر تمہارے فائدے کے لئے آتے جاتے ہیں ۔ سورج چاند گردش میں ہیں ، ستارے چمک چمک کر تمہیں روشنی پہنچا رہے ہیں ، ہر ایک ایسا صحیح اندازہ اللہ نے مقرر کر رکھا ہے جس سے وہ نہ ادھر ادھر ہوں نہ تمہیں کوئی نقصان ہو ۔ ہر ایک رب کی قدرت میں اور اس کے غلبے تلے ہے ۔ اس نے چھ دن میں آسمان زمین پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا دن رات برابر پے درپے آتے رہتے ہیں سورج چاند ستارے اس کے حکم سے کام میں لگے ہوئے ہیں خلق و امر کا مالک وہی ہے وہ رب العالمین بڑی برکتوں والا ہے ۔ جو سوچ سمجھ رکھتا ہو اس کے لئے تو اس میں اللہ کی قدرت و سلطنت کی بڑی نشانیاں ہیں ۔ ان آسمانی چیزوں کے بعد اب تم زمینی چیزیں دیکھو کہ حیوان ، کان ، نباتات ، جمادات ، وغیرہ مختلف رنگ روپ کی چیزیں بیشمار فوائد کی چیزیں اسی نے تمہارے لئے زمین پر پیدا کر رکھی ہیں ۔ جو لوگ اللہ کی نعمتوں کو سوچیں اور قدر کریں ان کے لئے تو یہ زبردست نشان ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 کس طرح رات اور دن چھوٹے بڑے ہوتے ہیں، چاند اور سورج کس طرح اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں رہتے ہیں اور ان میں کبھی فرق واقع نہیں ہوتا، ستارے کس طرح آسمان کی زینت اور رات کے اندھیروں میں بھٹکے ہوئے مسافروں کے لئے دلیل راہ ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور سلطنت عظیمہ پر دلالت کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] چاند سورج کی گردش کے فوائد :۔ اس آیت میں انسان کی ایک اور اہم ضرورت کا ذکر ہے یعنی انسان جب تک پوری طرح آرام نہ کرلے وہ آگے نہ کام کرسکتا ہے نہ زندہ رہ سکتا ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کے ایک مقررہ حساب کے تحت آنے جانے کا انتظام فرما دیا۔ سورج کی گردش سے دن رات پیدا ہوتے ہیں۔ نیز سورج ہمیں روشنی بھی پہنچاتا ہے اور دھوپ اور حرارت بھی جو ہماری زندگی کے لیے نہایت ضروری چیزیں ہیں۔ اسی طرح چاند اور ستارے ہمیں رات کو روشنی بہم پہنچاتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتے تو رات اس قدر تاریک اور گھناؤنی ہوجاتی ہے کہ راہ کا نظر آنا تو درکنار، انسان ایک دوسرے کو بھی دیکھ نہ سکتے۔ ان چیزوں کے علاوہ انسان کے لیے سورج، چاند اور ستاروں میں اور بھی بہت سے فوائد ہیں اور یہ صرف اس وجہ سے حاصل ہو رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سیاروں کو انسان کی خدمت کے لیے مقررہ قواعد کا پابند بنادیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۔۔ : تسخیر کا معنی کسی چیز کو اس کا اختیار اور مرضی ختم کرکے اپنا تابع بنا کر اپنی مرضی کے مطابق چلانا ہے۔ رات اور دن کے ساتھ سورج اور چاند کے تعلق کی بنا پر چاروں کا ذکر اکٹھا کیا۔ ” لَكُمُ “ (تمھارے لیے) کا یہ مطلب نہیں کہ رات دن اور سورج چاند تمہارے تابع فرمان کردیے ہیں، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے زبردست حکم ہی کے تابع ہیں، اس کے مقرر کردہ نظام سے نہ بال برابر ادھر ادھر ہوسکتے ہیں نہ آنکھ جھپکنے کے برابر ادھر ادھر۔ (دیکھیے فاطر : ٤١) ” لَکُمْ “ کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو تمہاری بقا، ضروریات اور منافع کے لیے پابند کر رکھا ہے۔ اسے لام انتفاع کہتے ہیں، اسی لیے ترجمہ ” تمہاری خاطر “ کیا گیا ہے۔ ” وَسَخَّرَ “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی یا اختیار استعمال ہی نہیں کرسکتے، صرف انسان کو آزمائش کے لیے کچھ اختیار دیا ہے، وہ بھی صحیح یا غلط راستہ اختیار کرنے کا، باقی وہ بھی اللہ تعالیٰ کے زبردست حکم کے آگے بےبس ہے، زندگی اور موت پر، فقرو غنا پر، صحت و بیماری پر، الغرض بیشمار چیزیں ہیں جن پر انسان کا کچھ اختیار نہیں۔ باقی تمام مخلوق کو جو مکمل مسخر کردیا اور ان کی مرضی بالکل ختم کردی تو یہ ان سے پوچھ کر ہی کیا، اگر وہ بھی آزمائش قبول کر کے کچھ اختیار چاہتے تو انھیں مل جاتا، مگر انھوں نے جرأت ہی نہیں کی اور مکمل خود سپردگی اختیار کی، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ۭ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا) [ الأحزاب : ٧٢ ] ” بیشک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈرگئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بلاشبہ وہ ہمیشہ سے بہت ظالم، بہت جاہل ہے۔ “ اور انسان کے فائدے کی مثالوں کے لیے دیکھیے سورة نبا کی ابتدائی آیات اور سورة قصص (٧١، ٧٢) ۔ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ ۔۔ : ” وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ “ یہ ” وَسَخَّرَ “ کے مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب تھے، ” النُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌ“ کو مرفوع اور مبتدا و خبر کی صورت میں الگ فرمایا، کیونکہ سیاروں کا معاملہ سورج چاند سے بھی بیحد وسیع ہے۔ انسان کو اب تک جو کچھ معلوم ہوا ہے اس کے مطابق ایک ایک سیارہ اتنا عظیم ہے کہ سورج چاند اس کے مقابلے میں کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتے اور ایسی بیشمار کہکشائیں ہیں جن کا ہر سیارہ ہمارے سورج سے بھی بڑا ہے اور ہم سے اتنے دور ہیں کہ لاکھوں نوری سالوں میں بعض کی روشنی اب زمین تک پہنچی ہے اور بعض کی اب بھی نہیں، حالانکہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔ ہمیں تو ان کے یہی فوائد معلوم ہیں کہ یہ رات کی تاریکی میں چراغ، آسمان کے لیے زینت، شیاطین سے آسمان کی حفاظت کا ذریعہ اور بر و بحر کی ظلمتوں میں راستہ بتانے والے ہیں، مگر جب چاند کی اتنی تاثیر ہے کہ اس کے عروج و زوال سے سمندر جیسی عظیم مخلوق مدو جزر کا شکار ہوجاتی ہے تو ان ستاروں کی کائنات پر تاثیر تو انھیں پیدا کرنے والا ہی جانتا ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ”(پہلی) چار چیزوں سے تو بندوں کے کام صریح طور پر وابستہ نظر آتے ہیں، مگر ستاروں سے انسانی فوائد کا تعلق ہونا صریح نہ تھا، اس لیے ان کو جدا کردیا۔ (فَتَدَبَّرْ ) “ ہاں سورج، چاند یا ستاروں کا تقدیر سے یا غیب کی بات معلوم کرنے سے کوئی تعلق نہیں، نہ ان کے پاس بارش برسانے یا نفع نقصان کا کچھ اختیار ہے۔ جو شخص یہ عقیدہ رکھے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا اور ستاروں پر ایمان رکھنے والا ہے۔ (دیکھیے بخاری : ١٠٣٨) ستاروں کی تسخیر میں اللہ تعالیٰ کی توحید کی ایک نہیں بہت سی نشانیاں ہیں، اس لیے لفظ آیات جمع ذکر فرمایا، مگر ان کے لیے جو عقل کو استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے نہیں جن کا ذکر سورة انفال (٢٢) یا سورة حج (٤٦) وغیرہ میں آیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Before we move to the next verse, let us clarify the first sentence of verse 12: سَخَّرَ‌ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ‌ (And He has subjugated for you the day and the night). Here, &subjugating the day and the night& means that Allah made them subservient to His command in order that they can serve man, pur¬suant to which the night brings comfort to him and the day smooths out the avenues of his work. &Subjugating them& never means that the day and the night start alternating under human command.

(آیت) وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۔ رات اور دن کو مسخر بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو انسان کے کام میں لگانے کے لئے اپنی قدرت کا مسخر بنادیا کہ رات انسان کو آرام کے سامان مہیا کرتی ہے اور دن اس کے کام کے راستے ہموار کرتا ہے ان کو مسخر کرنے کے یہ معنی نہیں کہ رات اور دن انسان کے حکم کے تابع چلیں۔ (آیت) اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ۔ یعنی ان چیزوں میں چند دلائل ہیں عقل والوں کے لئے اس میں اشارہ اس کی طرف ہے کہ ان چیزوں کا حکم الہی کا مسخر ہونا ایسا ظاہر کہ اس میں بہت کچھ غور و فکر کی ضرورت نہیں جس کو ذرا بھی عقل ہوگی وہ سمجھ لے گا کیونکہ نباتات اور درختوں کے اگانے میں تو بظاہر کچھ نہ کچھ انسانی عمل کا دخل تھا بھی یہاں وہ بھی نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۙ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ 12۝ۙ سخر التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] ( س خ ر ) التسخیر ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔ نجم أصل النَّجْم : الكوكب الطالع، وجمعه : نُجُومٌ ، ونَجَمَ : طَلَعَ ، نُجُوماً ونَجْماً ، فصار النَّجْمُ مرّة اسما، ومرّة مصدرا، فَالنُّجُوم مرّة اسما کالقلُوب والجُيُوب، ومرّة مصدرا کالطُّلوع والغروب، ومنه شُبِّهَ به طلوعُ النّبات، والرّأي، فقیل : نَجَمَ النَّبْت والقَرْن، ونَجَمَ لي رأي نَجْما ونُجُوماً ، ونَجَمَ فلانٌ علی السّلطان : صار عاصیا، ونَجَّمْتُ المالَ عليه : إذا وَزَّعْتُهُ ، كأنّك فرضت أن يدفع عند طلوع کلّ نَجْمٍ نصیباً ، ثم صار متعارفا في تقدیر دفعه بأيّ شيء قَدَّرْتَ ذلك . قال تعالی: وَعَلاماتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل/ 16] ، وقال : فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات/ 88] أي : في علم النُّجُوم، وقوله : وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم/ 1] ، قيل : أراد به الكوكب، وإنما خصّ الهُوِيَّ دون الطّلوع، فإنّ لفظة النَّجْم تدلّ علی طلوعه، وقیل : أراد بِالنَّجْم الثُّرَيَّا، والعرب إذا أطلقتْ لفظَ النَّجم قصدتْ به الثُّرَيَّا . نحو : طلع النَّجْمُ غُدَيَّه ... وابْتَغَى الرَّاعِي شُكَيَّه «1» وقیل : أراد بذلک القرآن المُنَجَّم المنزَّل قَدْراً فَقَدْراً ، ويعني بقوله : هَوى نزولَهُ ، وعلی هذا قوله : فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] فقد فُسِّرَ علی الوجهين، والتَّنَجُّم : الحکم بالنّجوم، وقوله تعالی: وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن/ 6] فَالنَّجْمُ : ما لا ساق له من النّبات، وقیل : أراد الکواكبَ. ( ن ج م ) النجم اصل میں طلوع ہونے ولاے ستارے کو کہتے ہیں اس کی جمع نجوم آتی ہے ۔ اور نجم ( ن ) نجوما ونجاما کے معنی طلوع ہونے کے ہیں نجم کا لفظ کبھی اسم ہوتا ہے اور کبھی مصدر اسی طرح نجوم کا لفظ کبھی قلوب وجیوب کی طرح جمع ہوتا ہے اور کبھی طلوع و غروب کی طرح مصدر اور تشبیہ کے طور پر سبزہ کے اگنے اور کسی رائے کے ظاہر ہونے پر بھی نجم النبت والقرن ونجم لی رای نجما کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ نجم فلان علی السلطان بادشاہ سے لغایت کرنا نجمت المال علیہ اس کے اصل منعی تو ستاروں کے طلوع کے لحاظ سے قرض کی قسطیں مقرر کرنے کے ہیں ۔ مثلا فلاں ستارے کے طلوع پر مال کی اتنی قسط ادا کرتا رہوں گا ۔ مگر عرف میں لطلق اقساط مقرر کرنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل/ 16] اور لوگ ستاروں سے بھی رستے معلوم کرتے ہیں ۔ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات/ 88] تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی ۔ یعنی علم نجوم سے حساب نکالا ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم/ 1] تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نجم سے مراد ستارہ ہے اور طلع کی بجائے ھوی کا لفظ لانے کی وجہ یہ ہے کہ طلوع کے معنی پر تو لفظ نجم ہی دلالت کر رہا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ جنم سے مراد ثریا یعنی پر دین ہے کیونکہ اہل عرب جب مطلق النجم کا لفظ بولتے ہیں تو پر دین ہی مراد ہے جیسا کہ مقولہ ہے طلع النجم غد یہ وابتغی الراعی سکیہ صبح کا ستارہ طلوع ہوا اور چر واہے نے اپنا مشکیزہ سنبھالا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت مذکورہ میں النجم سے مراد نجوم القرآن ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی تد ریجا معین مقدار میں نازل ہوتا رہا ہے اور ھوی سے اس کا نزول مراد ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ میں بھی مواقع النجوم کی دو طرح تفسیر بیان کی گئی ہے یعنی بعض نے مواقع النجوم سے مراد ستاروں کے منازل لئے ہیں اور بعض نے نجوم القرآن مراد لئے ہیں ۔ التنجم علم نجوم کے حساب سے کوئی پیش گوئی کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن/ 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدے کر رہے ہیں ۔ میں نجم سے بےتنہ نباتات یعنی جڑی بوٹیاں مراد ہیں اور بعض نے ستارے مراد لئے ہیں ۔ عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) اور اس نے تمہارے فوائد کے لیے رات دن کو مسخر کیا اور ستارے بھی اس کے حکم کے تابع ہے یقیناً ان مذکورہ چیزوں کے مسخر کرنے میں چند دلیلیں موجود ہیں، ان لوگوں کے لیے جو اس بات کو جانتے اور اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ ہی نے مسخر کیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ ) انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں رات اپنی جگہ اہم ہے اور دن کی اپنی اہمیت ہے۔ رات میں مجموعی طور پر ایک سکون ہے۔ یہ انسانوں اور دوسرے جانداروں کے لیے باعث راحت ہے ‘ اس میں وہ آرام کرتے ہیں ‘ سوتے ہیں اور صبح تازہ دم ہو کر اٹھتے ہیں۔ دوسری طرف دن میں بھاگ دوڑ ‘ محنت ‘ جدوجہد اور مختلف النوع انسانی سرگرمیاں ممکن ہوتی ہیں۔ اگر اس پہلو سے دنیا کے اجتماعی نظام کو دیکھا جائے تو یہ پورا نظام رات اور دن کے وجود کا مرہون منت نظر آتا ہے۔ نباتاتی نظام کو ہی لے لیجیے۔ اس کے لیے رات اور دن دونوں ہی ناگزیر ہیں۔ دن کو سورج کی روشنی اور تمازت سے نباتات کے لیے Photosynthesis کا عمل ممکن ہوتا ہے جو ان کی نشوونما کے لیے ناگزیر ہے۔ فصلوں اور پھلوں کو بھی پکنے کے لیے سورج کی روشنی اور حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری طرف رات کو نباتات respiration کے عمل کے ذریعے سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔ گویا رات اور دن کے بغیر نباتات کا وجود ممکن ہی نہیں ہے اور انسانی زندگی میں نباتات کے عمل دخل کا تصور کریں تو اس ایک مثال سے ہی یہ حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دن اور رات کو انسان کے لیے مسخر کردینا کتنی بڑی نعمت ہے۔ (وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ ) پورا نظام شمسی اور تمام اجرام فلکی اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسان کی نفع رسانی میں مصروف ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢۔ ١٣۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے رات دن چاند سورج ستاروں کے پیدا کرنے میں جو نفع انسان کے لئے رکھا ہے اس کا بیان فرمایا کہ اللہ نے تمہارے ہی فائدہ کے لئے یہ رات اور دن بنائے ہیں جہاں ایک دن میں سے ختم ہوا دوسرا آن موجود ہوا دن کو لوگ اپنے اپنے کاروبار سے جا لگتے ہیں اور اپنی روزی حاصل کرتے ہیں راتوں کو تھکے ماندے آگر آرام کرتے ہیں چاند و سورج سے مہینوں اور برسوں کا حساب ہوا کرتا ہے۔ چاند اٹھائیس دن میں اپنا دورہ پورا کرتا ہے اور پھر دو یا ایک رات پوشیدہ رہ کر ہلاک کی صورت میں نکلتا ہے تو ایک مہینہ ہوتا ہے۔ سورج تین سو ساٹھ دن میں پورا دورہ آسمان کا طے کرتا ہے تو ایک سال ہوتا ہے اس عرصے میں گرمی جاڑے برسات کی فصلیں ہوتی ہیں۔ ان فصلوں کے سبب سے ایک بڑا تغیر ہوتا ہے پھول لگتے ہیں اور پھر پھل کچے سے پکے ہوجاتے ہیں اور ستارے جو آسمان پر پیدا کئے ہیں اس سے بھی بڑا نفع حاصل ہوتا ہے۔ اندھیری راتوں میں سفر کرنے والے اس سے پورب پچھم اتر دکھن پہچانتے ہیں یہ سب خدا کی قدرت کا ادنیٰ نمونہ ہے اور یہ سب کے سب اسی کے حکم کے تابع ہیں عقلمند ان نشانیوں سے خدا کی قدرت کا پتہ لگا لیتا ہے پھر اس کے بعد زمین کا حال بیان فرمایا کہ کیسے کیسے مختلف رنگ کے پھل پھول جن کا ذائقہ جدا جدا ہے بصورت علیحدہ علیحدہ جانور مختلف قسم کے ایک کی صورت ایک سے نہیں ملتی ہر ایک کی طبیعتیں الگ الگ ہیں یہ سب کچھ تمہارے ہی کام کے لئے بنایا ہے تاکہ تم ان سے طرح طرح کا فائدہ اٹھاؤ اور جو لوگ خدا کی نعمتوں کو سوچتے سمجھتے رہتے ہیں ان کے واسطے یہ بہت بڑی نشانی ہے کہ جو ان کا حقیقی پیدا کرنے والا ہے اس کی ذات ایسی بےمثال ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور اس میں ہر ایک بات کی قدرت ہے۔ فلسفی، نجومی اور مشرکین کہ سورج چاند تاروں میں جن تاثیرات مستقل کے قائل ہیں وہ اعتقاد مسخرات بامرہ سے غلط قرار پاتا ہے کیونکہ مسخرات بامرہ کا یہ مطلب ہے کہ سورج چاند تاروں کا طلوع غروب اور ان کی گردش سب اللہ کے حکم سے ہے ان میں کوئی مستقل تاثیر نہیں ہے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) اور زید بن خالد جہنی (رض) کی اور صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایتیں جو اوپر گزر چکی ہیں ان روایتوں کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سورج چاند تاروں میں بغیر حکم الٰہی کے کوئی مستقل تاثیر نہیں ہے جو لوگ اس مستقل تاثیر کے قائل ہیں وہ بڑی غلطی پر ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:12) مسخرات۔ اسم مفعول ۔ جمع مؤنث مسخرۃ واحد۔ تسخیر (تفعیل) مصدر۔ زیر تسخیر۔ مغلوب ۔ تابع فرمان۔ ابواب ثلاثی مجرد سے باب سمع سے بمعنی ٹھٹھا کرنا کے آتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اور جس کام کے لئے ان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اس میں لگے ہوئے ہیں۔ اس آیت سے ان نجومیوں کا روہوا جو سمجھتے ہیں کہ تاروں کی حرکت سے دنیا میں طرح طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں حالانکہ تارے بیچارے کیا کرسکتے ہیں وہ تو حکم کے تابع ہیں جو کچھ ہوتا ہے خدا کے حکم سے ہوتا ہے۔ (فتح البیان) موضع میں پہلی (پہلی) چار چیزوں سے تو بندوں کے کام صریح طور پر وابستہ نظر آتی ہیں۔ مگر ستاروں سے انسانی فوائد کا متعلق ہونا صریح نہ تھا۔ اس لئے ان کو جدا کردیا۔ فتدبر 12

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نباتات، کھیتوں اور پھلوں کی پیداوار میں رات اور دن، چاند اور سورج کا بڑا دخل ہے اسی لیے دانشور حضرات کو ان کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بارہا یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن، سورج، چاند اور ستاروں کو اپنے حکم سے لوگوں کے لیے مسخر کردیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و سطوت کی نشانیاں اور دانشوروں کے لیے ہدایت کے بیشمار دلائل موجود ہیں۔ رات اور دن، چاند، سورج اور ستاروں کو لوگوں کے لیے مسخر کرنے کا یہ معنیٰ نہیں کہ انسان کسی وقت اس قدر ترقی کر جائے گا کہ وہ رات دن کی گردش، سورج اور چاند کی آمدورفت اور ستاروں کی چمک دمک میں دخل انداز ہو سکے گا۔ یہ پورے کا پورا نظام اور اس کا کنٹرول صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس میں سائنس اور کسی کی ولایت کو دخل کا اختیار نہیں ہوسکتا۔ تسخیر سے مراد یہ ہے کہ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں۔ رات لوگوں کے سکون کے لیے ہے اور دن کام کاج کے لیے۔ اے انسان ذرا سوچ کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم کے مطابق رات اور دن کا آنا جانا، سورج کا صبح کے وقت طلوع ہو کر مغرب کے وقت غروب ہونا، چاند اور ستاروں کا رات کو اپنے اپنے وقت میں نمودار ہونا یقینی بنا دیا ہے۔ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کا حکم صادر ہوگا تو نہ صرف یہ اپنے اپنے مقام پر جامد ہوجائیں گے بلکہ یہ بےحرکت ہو کر زمین پر گرپڑیں گے۔ اس نظام کی طرف اشارہ کرنے کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ ا انسان ! تیرے لیے سوچنے کی بات ہے کہ یہ چیزیں وجود کے اعتبار سے تجھ سے کروڑوں گنا بڑی ہونے کے باوجود اپنے رب کے حکم کی بجا آوری اور تیری خدمت میں لگی ہوئی ہیں۔ تیرا وجود ان کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا مگر پھر بھی تو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے بجائے نافرمانی سے نہیں چوکتا۔ تجھے اپنے فکر و عمل پر غور کرنا چاہیے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کو انسان کے لیے مسخر کردیا۔ ٢۔ نظامِ کائنات میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے چاند، سورج اور ستاروں کو اپنے حکم سے مسخر کردیا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب آیات دلائل کائنات کا تیسرا گروپ۔ آیت نمبر ١٢ تدبیر مخلوقات اور انسان پر اس کے انعامات کا ایک مظہر گردش لیل و نہار ہے۔ شمس و قمر کی گردش اور سیاروں اور ستاروں کا یہ نظام بھی انسان کے لئے ممد حیات ہے۔ یہ تمام مظاہر انسانوں کی ڈیوٹی میں لگے ہوئے ہیں ، اپنے یوم تخلیق سے یہ خدمت انسان پر مامور ہیں۔ گردش لیل ونہار تو حیات انسان میں فیصلہ کن اثر رکھتی ہے۔ ذرا سوچو کہ اگر دن بھی قائم و دائم ہوجائے اور رات نہ آئے یا رات ہی قائم رہ جائے اور دن نہ آئے تو ؟ پہلی صورت میں زمین جل جائے اور دوسری صورت میں زمین جم جائے۔ شمس وقمر اور اس کرۂ ارض پر نظام حیات سے اس کا تعلق بالکل واضح ہے۔ شمس و قمر کی گردش سے انسانی زندگی براہ راست متعلق ہے۔ والنجوم مسخرت بامرہ ( ١٦ : ١٢) ” سب ستارے اس کے حکم سے مسخر ہیں “۔ یہ سب انسان اور غیر انسانی مخلوقات کے لئے مفید اور ممد حیات ہیں جن کی افادیت کا حقیقی علم صرف اللہ کو ہے “۔ یہ باتیں اللہ کی حکمت و تدبیر کا ایک حصہ ہیں اور اللہ کے تمام قوانین مدبرہ باہم ہم آہنگ ہیں ، ان قوانین مدبرہ اور حکمت تدبیر کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے جو غوروفکر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مظاہر فطرت کے پیچھے ایک قوت مدبرہ کارفرما ہے۔ ان فی ذلک لایت لقوم یعقلون (١٦ : ١٢) ” اس میں بہت نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوم : لیل و نہار (رات دن) کی تسخیر بیان فرمائی، اللہ تعالیٰ شانہٗ رات کو پیدا فرماتا ہے جس میں آرام کرتے ہیں، اور دن کو پیدا فرماتا ہے جس میں معاش کی طلب میں لگتے ہیں۔ سوم : شمس و قمر کی تسخیر کا تذکرہ فرمایا اللہ تعالیٰ کے حکم سے آفتاب اپنی حرارت اور روشنی کے ساتھ طلوع ہوتا ہے پھر غروب ہوجاتا ہے اس عرصہ میں اس سے بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ روشنی اور گرمی کا فائدہ تو سبھی کو معلوم ہے اس کی حرارت کی وجہ سے کھیتیاں بھی پکتی ہیں اور پھل تیار ہوتے ہیں، اور اب تو آفتاب سے بجلی بھی حاصل کرتے ہیں، اور چاند کو بھی مسخر فرما دیا جس کی دھیمی دھیمی روشنی میں ایک خاص کیف ہوتا ہے سفر و حضر میں چلنے والوں کو چاند کے ذریعے راستے معلوم ہوتے ہیں۔ چہارم : ستاروں کی تسخیر کا تذکرہ فرمایا، یہ سب ستارے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہیں اس کی مشیت اور ارادہ کے پابند ہیں ہزاروں سال گزر گئے جو رفتاریں ان کی مقرر فرما دی ہیں انہیں کے مطابق چلتے ہیں، کسی آلہ یا انجن کے بغیر محض امر الٰہی سے رواں اور دواں ہیں، ان امور کا تذکرہ فرما کر ارشاد فرمایا (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ) (بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ سارا نظام شمسی بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار و تصرف میں ہے جسے اس نے اپنے حکم سے بنی آدم کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ نظام شمسی میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے دلائل کے انبار ہیں جو توحید باری تعالیٰ پر دلالت کرتے ہیں۔ ” وَ مَا ذَرَاَ لَکُمْ الخ “ زمین میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی پیدا کیا مثلاً انسان، حیوان، حجر و شجر وگیرہ سب کے رنگ مختلف ہیں خواص جداگانہ ہیں حالانکہ ہر چیز کی پیدائش مٹی اور پانی سے ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور کمال قدرت کی دلیل ہے مگر ان لوگوں کے لیے جو کائنات کے گہرے مطالبہ سے عبرت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ای یتعظمون و یعلمون ان فی تسخیرھذہ المکونات لعلامت علی وحدانیۃ اللہ تعالیٰ وانہ لا یقدر علی ذلک احد غیرہ (قرطبی ج 10 ص 85) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

12 ۔ اور اسی اللہ تعالیٰ نے تمارے لئے رات اور دن کو اور چاند اور سورج کو مسخر کر رکھا ہے اور تمام ستارے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع اور مسخر ہیں یقینا ان مذکورہ چیزوں کی تسخیر میں صحیح عقل رکھنے والوں کے لئے قدرت خداوندی اور توحید الٰہی کے بڑے بڑے دلائل موجود ہیں ۔ یعنی عالم علوی کی تسخیر سوائے اس کے اور کسی کے ہاتھ میں نہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں چار چیزوں سے بندوں کے کام لگ رہے ہیں صریح لیکن اور ستاروں سے کچھ ظاہر میں کام نہیں ان کو جدا فرمایا۔ 12