Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 18

سورة النحل

وَ اِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحۡصُوۡہَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۸﴾

And if you should count the favors of Allah , you could not enumerate them. Indeed, Allah is Forgiving and Merciful.

اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں کر سکتے ۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And if you would try to count the favors of Allah, you would never be able to count them. Truly, Allah is Forgiving, Most Merciful. meaning that He pardons and forgives them. If He were to ask you to thank Him for all of His blessings, you would not be able to do so, and if He were to command you to do so, you would be incapable of it. If He punishes you, He is never unjust in His punishment, but He is Forgiving and Most Merciful, He forgives much and rewards for little. Ibn Jarir said: "It means that Allah is Forgiving when you fail to thank Him properly, if you repent and turn to Him in obedience, and strive to do that which pleases Him. He is Merciful to you and does not punish you if you turn to Him and repent."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] اللہ کی نعمتوں کا شمار ناممکن ہے :۔ یہ چند موٹی موٹی چیزیں ذکر کی گئی ہیں لیکن اگر تم ان کی جزئیات میں یا دوسری چیزوں میں غور کرو تو اللہ کی اس قدر نعمتیں معلوم ہوں گی جو شمار میں بھی نہیں آسکتیں۔ انسان کو چاہئے تو یہ تھا کہ ان نعمتوں کی وجہ سے وہ اللہ کا شکرگزار بنتا۔ مگر اس نے الٹا اللہ کے شریک بنانا شروع کردیئے پھر بھی اللہ ان کے ایسے جرائم کو درگزر کرتے ہوئے از راہ مہربانی انھیں ان تمام نعمتوں سے فیضیاب کر رہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا : شمار ہی نہیں کرسکتے تو شکر کس طرح ادا کرسکتے ہو ؟ دیکھیے سورة ابراہیم (٣٤) کی تفسیر۔ اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : یعنی یہ اس کی بخشش اور مہربانی ہے کہ تمہاری ناشکری کے باوجود تمہیں بیشمار نعمتیں عطا کرتا ہے اور توبہ کرنے اور پلٹ آنے پر تمہارے تمام گناہ معاف کردیتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ ، ثُمَّ تَابَ تَاب اللّٰہُ عَلَیْہِ ) ” بندہ جب اعتراف کرلے، پھر توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس پر مہربان ہوجاتا ہے۔ “ [ بخاري، المغازي، باب حدیث الإفک : ٤١٤١۔ مسلم : ٢٧٧٠ ] پھر تھوڑے سے شکر پر بہترین جزا دیتا ہے، مقصد امید کا دروازہ کھلا رکھنا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 18؀ عد العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ( ع د د ) العدد ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ حصا الإحصاء : التحصیل بالعدد، يقال : قد أحصیت کذا، وذلک من لفظ الحصا، واستعمال ذلک فيه من حيث إنهم کانوا يعتمدونه بالعدّ کا عتمادنا فيه علی الأصابع، قال اللہ تعالی: وَأَحْصى كُلَّ شَيْءٍ عَدَداً [ الجن/ 28] ، أي : حصّله وأحاط به . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «من أحصاها دخل الجنّة» «2» وقال : «نفس تنجيها خير لک من إمارة لا تحصيها» ( ح ص ی ) الا حصاء ( افعال ) کے معنی عدد کو حاصل کرنا کہا جاتا ہے احصیت کذا میں نے اسے شمار کیا ۔ اصل میں یہ لفظ حصی ( کنکر یاں ) سے مشتق ہے اور اس سے گننے کا معنی اس لئے لیا گیا ہے کہ عرب لوگ گنتی میں کنکریوں پر اس طرح اعتماد کرتے تھے جس طرح ہم انگلیوں پر کرتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحْصى كُلَّ شَيْءٍ عَدَداً [ الجن/ 28] یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو گن رکھا ہے ۔ اور اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ«من أحصاها دخل الجنّة» «2» وقال : «نفس تنجيها خير لک من إمارة لا تحصيها» جو شخص ان ( اسمائے حسنٰی ) کا احصا لرلیگا ( یعنی یاد کرلے گا ) ( وہ جنت میں داخل ہوگا نیز آنحضرت نے فرمایا کہ ایک جان کو ہلاکت سے بچالینا اس امارت سے بہتر ہے جسے تم نباہ سکو غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨) اگر تم اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو گننے لگو تو کبھی نہ گن سکو یا یہ کہ ہرگز شکر نہ ادا کرسکو واقعی اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے اور توبہ کرنے والے پر بڑی رحمت والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی تو کجا اس کی بیشمار نعمتیں ایسی ہیں جن سے انسان فیض یاب تو ہو رہا ہے لیکن ان تک انسان کے علم اور شعور کی ابھی پہنچ ہی نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17. Here the connection of Allah’s attributes, “Forgiving and Compassionate”, with the preceding verse is so obvious that it has been left unmentioned. It is this: Though Allah goes on showering countless blessings upon people, they behave in an ungrateful, faithless and rebellious manner towards Him. He does not punish them immediately, but gives them respite, for He is Forgiving and Compassionate. This is true of both individuals and communities. There are people, who deny even the existence of God, yet He goes on bestowing His favors on them for years. There are others who set up partners with Him in his attributes, power and rights, and show their gratitude to others than Him for His blessings, yet He does not withhold His favors from them. There are still others who profess to acknowledge Him as their Creator and Benefactor, yet rebel against Him and are disobedient to Him and consider freedom from Him to be their birth right, but in spite of all this He continues to shower His countless blessings on them as long as they live.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :17 پہلے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک پوری داستان ان کہی چھوڑ دی ہے ، اس لیے کہ وہ اس قدر عیاں ہے اور اس کے بیان کی حاجت نہیں ۔ اسکی طرف محض یہ لطیف اشارہ ہی کافی ہے کہ اللہ کے بے پایاں احسانات کا ذکر کرنے معا بعد اس کے غفور و رحیم ہونے کا ذکر کر دیا جائے ۔ اسی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جس انسان کا بال بال اللہ کے احسانات میں بندھا ہوا ہے وہ اپنے محسن کی نعمتوں کا جواب کیسی کیسی نمک حرامیوں ، بے وفائیوں ، غداریوں اور سر کشیوں سے دے رہا ہے ، اور پھر اس کا محسن کیسا رحیم اور حلیم ہے کہ ان ساری حرکتوں کے باوجود سالہا سال ایک نمک حرام شخص کو اور صدہا برس ایک باغی قوم کو اپنی نعمتوں سے نوازتا چلا جاتا ہے ۔ یہاں وہ بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو علانیہ خالق کی ہستی ہی کے منکر ہیں اور پھر نعمتوں سے مالا مال ہوئے جا رہے ہیں ۔ وہ بھی پائے جاتے ہیں جو خالق کی ذات ، صفات ، اختیارات ، حقوق ، سب میں غیر خالق ہستیوں کو اس کا شریک ٹھیرا رہے ہیں اور منعم کی نعمتوں کا شکریہ غیر منعموں کو ادا کر رہے ہیں ، پھر بھی نعمت دینے والا ہاتھ نعمت دینے سے نہیں رکتا ۔ وہ بھی ہیں جو خالق کو خالق اور منعم ماننے کے باوجود اس کے مقابلے میں سر کشی و نافرمانی ہی کو اپنا شیوہ اور اس کی اطاعت سے آزادی ہی کو اپنا مسلک بنائے رکھتے ہیں ، پھر مدت العمر اس کے بے حد و حساب احسانات کا سلسلہ ان پر جاری رہتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: یعنی اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں جب اتنی زیادہ ہیں کہ شمار میں نہیں آ سکتیں تو ان کا حق تو یہ تھا کہ اِنسان ہر آن اﷲ تعالیٰ کا شکر ہی ادا کرتا رہے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ اِنسان کے بس میں نہیں ہے۔ اس لئے وہ اپنی مغفرت اور رحمت کا معاملہ فرما کر شکر کی اس کوتاہی معاف فرماتا رہتا ہے۔ البتہ یہ مطالبہ ضرور ہے کہ وہ اُس کے احکام کے مطابق زندگی گذارے، اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے اﷲ تعالیٰ کا فرماں بردار رہے۔ اس کے لئے اُسے یہ حقیقت پیشِ نظر رکھنی چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ اُس کے ہر کام کو جانتا ہے، چاہے وہ چھپ کر کرے یا علانیہ۔ چنانچہ اگلی آیت میں یہی حقیقت بیان فرمائی گئی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:18) تعدوا مضارع جمع مذکر حاضر۔ اصل میں تعدون تھا۔ ان شرطیہ کے عمل سے نون اعرابی ساقط ہوگیا۔ عد مصدر۔ عدیعد (باب نصر) ان تعدوا اگر تم شمار کرنے لگو۔ اگر تم گننے لگو تو ان کو گن نہ سکو گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 کجا کہ تم ان کا شکر ادا کرسکو۔ 4 یعنی یہ اس کی بخشش اور مہربان ہے کہ تمہاری ناشکری کے باوجود تمہیں لاکھوں نعمتیں عطا کرتا ہے اور توبہ وانابت کے بعد تمہارے تمام گناہ معاف کردیتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ کوئی شرک سے توبہ کرلے تو مغفرت ہوجاتی ہے اور نہ کرے جب بھی تمام نعمتیں حیات تک منقطع نہیں ہوتیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بڑی بڑی نعمتوں کے ذکر کے بعد انسان کو احساس دلایا ہے کہ تو اگر اپنے رب کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہے تو تمہارے لیے ان کا گننا اور شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔ آفاقی، زمینی اور بحری نعمتوں کے تذکرے کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ یہ چند نعمتوں کا بیان ہوا ہے اگر تم اپنے رب کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تم سب مل کر اپنے بنائے کمپیوٹرز اور دیگر ذرائع سے بھی ان کا شمار نہیں کرسکتے۔ اس کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت عقیدۂ توحید ہے۔ جس کی نشاندہی اللہ کی نعمتیں کر رہی ہیں۔ تم اس کی نعمتوں کی ناشکری اور اس کی ذات اور صفات میں اس کی مخلوق کو شریک کرتے ہو لیکن پھر بھی وہ درگزر کرتا اور تم پر رحم فرماتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا ہے جو تم کھلے عام کہتے اور کرتے ہو اور جو تم اپنے دلوں میں لوگوں سے چھپاتے ہو۔ جن مدفون لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے اور حاجت روا، مشکل کشا سمجھتے ہو۔ بتاؤ آسمانوں، زمین، فضاؤں اور سمندروں میں کونسی چیز انہوں نے پیدا کی ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اس وسیع ترین کائنات میں ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کیا۔ وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ اب وہ مرچکے تمہاری مدد کس طرح کرسکتے ہیں ؟ کیونکہ نہ سنتے ہیں اور نہ حرکت کرسکتے ہیں یہاں تک کہ انہیں یہ بھی خبر نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ یہ بات ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ ” من دون اللّٰہ “ سے مراد ہر جگہ بت مراد نہیں ہوتے۔ یہاں یہ حقیقت کس قدر کھلے الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ ” من دون اللّٰہ “ سے مراد یہاں بت نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایک مکتبۂ فکر کے مفسر نے یہاں بھی ” من دون اللّٰہ “ سے مراد بت ہی لیے ہیں۔ حالانکہ شرک کے پردے ہٹا کر دیکھتے اور معمولی سا غور کرتے تو انہیں معلوم ہوجاتا ہے کیا قیامت کے دن پتھروں کو پیدا کیا جائے گا۔ یہ عقیدہ تو دنیا میں کسی جاہل سے جاہل آدمی کا بھی نہیں ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ خدا کے باغی لوگوں اور پتھروں کو جہنم میں پھینکا اور تپایا جائے گا۔ (البقرۃ : ٢٤) بالخصوص جن پتھروں کے بت بنائے گئے۔ انہیں تو ضرور جہنم میں جھونکا جائے گا تاکہ ان کے ماننے والے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ جنہیں ہم بزرگوں کا اوتار سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور وسیلہ بناتے تھے وہ بھی ہماری طرح بےبس ہو کر جہنم کا ایندھن بن چکے ہیں۔ ( الانبیاء : ٩٨) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو کوئی شمار نہیں کرسکتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ ٤۔ اللہ کے سوا کسی نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا۔ بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ ٥۔ ” من دون اللّٰہ “ کو اتنا بھی علم نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن ” من دون اللّٰہ “ نے کچھ پیدا نہیں کیا : ١۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود مخلوق ہیں۔ (النحل : ٢٠) ٢۔ کیا تم ان کو شریک بناتے ہو ؟ جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (الاعراف : ١٩١) ٣۔ انہوں نے ان کو معبود بنا لیا جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی حالانکہ وہ خود مخلوق ہیں۔ (الفرقان : ٣) ٤۔ بیشک جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی نہیں پیدا کرسکتے اگرچہ سارے بھی جمع ہوجائیں۔ (الحج : ٧٣) ٥۔ کیا یہ لوگ بغیر کسی چیز کے پیدا ہوگئے ہیں یا یہ اپنے خالق خود ہی ہیں ؟ (الطور : ٣٥) ٦۔ من دون اللہ یعنی ” غیر اللہ “ سے مت مانگو۔ (یونس : ١٠٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتوں میں سے اگر صرف ایک ہی میں غور و فکر کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قدرت و صفت میں اور استحقاق عبادت میں واحد و یکتا ہے۔ سارے جہاں میں نہ اس کے سوا کوئی متصرف و کارساز ہے، نہ عبادت اور پکار کے لائق ہے، چہ جائے کہ اس کی نعمتیں بےحد و حساب اور شمار سے باہر ہوں اور پھر وہ ایسا رحیم و کریم اور غفور و حلیم ہے کہ بندوں کو ان کی ناشکری پر فورًا نہیں پکڑتا اور کوتاہیوں سے درگذر فرماتا ہے اور بندوں کے کفران نعمت کی وجہ سے انعام و احسان کا دروازہ بند نہیں کرتا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

18 ۔ اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنے اور گنے لگو تو ان نعمتوں کو شمار بھی نہیں کرسکتے بلا شبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور بڑی رحمت کرنے والا ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ کی نعمتیں اس قدر ہیں کہ تم ان کو گننے لگو تو گن بھی نہیں سکتے یہ اس کی بڑی رحمت اور مغفرت ہے کہ باوجود نافرمانی کے بیشمار نعمتیں جاری رکھتا ہے اور ان گنت احسانات کے دروازے بند نہیں کرتا ۔