Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 24

سورة النحل

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ مَّا ذَاۤ اَنۡزَلَ رَبُّکُمۡ ۙ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿ۙ۲۴﴾

And when it is said to them, "What has your Lord sent down?" They say, "Legends of the former peoples,"

ان سے جب دریافت کیا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل فرمایا ہے؟ تو جواب دیتے ہیں کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Destruction of the Disbelievers and Intensification of their Punishment for rejecting the Revelation Allah says: وَإِذَا قِيلَ لَهُم ... And when it is said to them: Allah informs us that when it is said to those liars, ... مَّاذَا أَنزَلَ رَبُّكُمْ قَالُواْ ... "What is it that your Lord has revealed!" They say, not wanting to answer, ... أَسَاطِيرُ الاَ... وَّلِينَ "Tales of the men of old!" meaning nothing is revealed to him, what he is reciting to us is just tales of the men of old, taken from the previous Books. As Allah says, وَقَالُواْ أَسَـطِيرُ الاٌّوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِىَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلً And they say: "Tales of the ancients, which he has written down, and they are dictated to him morning and afternoon." (25:5) i.e., they tell lies against the Messenger and say things contradicting one another, but all of it is false, as Allah says, انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُواْ لَكَ الاٌّمْثَالَ فَضَلُّواْ فَلَ يَسْتَطِيعْونَ سَبِيلً Look at the parables they make of you, so they have gone astray, and they are not able to find the right way. (17:48) Once they have gone beyond the bounds of the truth, whatever they say will be in error. They used to say that he (the Prophet) was a sorcerer, a poet, a soothsayer, or a madman, then they settled on an idea proposed by their leader, an individual known as Al-Walid bin Al-Mughirah Al-Makhzumi, when: إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ثُمَّ نَظَرَ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ فَقَالَ إِنْ هَـذَا إِلاَّ سِحْرٌ يُوْثَرُ He thought, and plotted. So let him be cursed, how he plotted! And once more let him be cursed, how he plotted! Then he thought. Then he frowned and he looked in a bad tempered way; then he turned back, and was proud. Then he said: "This is nothing but the magic of old." (74:18-24) meaning something that had been transmitted and passed down. So they dispersed having agreed on this opinion, may Allah punish them. As Allah says,   Show more

قرآن حکیم کے ارشادات کو دیرینہ کہنا کفر کی علامت ہے ان منکرین قرآن سے جب سوال کیا جائے کہ کلام اللہ میں کیا نازل ہوا تو اصل جواب سے ہٹ کر بک دیتے ہیں کہ سوائے گزرے ہوئے افسانوں کے کیا رکھا ہے؟ وہی لکھ لئے ہیں اور صبح شام دوہرا رہے ہیں پس رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا باندھتے ہیں کبھی کچھ کہتے ہی... ں کبھی اس کے خلاف اور کچھ کہنے لگتے ہیں ۔ دراصل کسی بات پر جم ہی نہیں سکتے اور یہ بہت بری دلیل ہے ان کے تمام اقوال کے باطل ہونے کی ۔ ہر ایک جو حق سے ہٹ جائے وہ یونہی مارا مارا بہکا بہکا پھرتا ہے کبھی حضور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر کہتے ، کبھی شاعر ، کبھی کاھن ، کبھی مجنون ۔ پھر ان کے بڈھے گرو ولید بن مغیرہ مخزومی نے انہیں بڑے غور و خوض کے بعد کہا کہ سب مل کر اس کلام کو موثر جادو کہا کرو ۔ ان کے اس قول کا نتیجہ بد ہو گا اور ہم نے انہیں اس راہ پر اس لئے لگا دیا ہے کہ یہ اپنے پورے گناہوں کے ساتھ ان کے بھی کچھ گناہ اپنے اوپر لادیں جو ان کے مقلد ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے ہدایت کی دعوت دینے والے کو اپنے اجر کے ساتھ اپنے متبع لوگوں کا اجر بھی ملتا ہے لیکن ان کے اجر کم نہیں ہوتے اور برائی کی طرف بلانے والوں کو ان کی ماننے والوں کے گناہ بھی ملتے ہیں لیکن ماننے والوں کے گناہ کم ہو کر نہیں ۔ قرآن کریم کی اور آیت میں ہے ( وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ۡ وَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ) 29 ۔ العنکبوت:13 ) یہ اپنے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ ہی ساتھ اور بوجھ بھی اٹھائیں گے اور ان کے افترا کا سوال ان سے قیامت کے دن ہونا ضروری ہے ۔ پس ماننے والوں کے بوجھ گو ان کی گردنوں پر ہیں لیکن وہ بھی ہلکے نہیں ہوں گے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 یعنی اعراض اور استہزا کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ مکذبین جواب دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو کچھ بھی نہیں اتارا، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں جو پڑھ کر سناتا ہے، وہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو کہیں سے سن کر بیان کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] قرآن میں بس پہلے لوگوں کی کہانیاں ہی ہیں :۔ جب رسول اللہ اور آپ کی دعوت کا چرچا حدود مکہ سے نکل کر آس پاس کے علاقوں میں بھی پھیل گیا تو کفار مکہ جہاں کہیں جاتے اور لوگ ان سے پوچھتے کہ تم میں جو نبی پیدا ہوا ہے اس کی تعلیم کیا ہے اور وہ کس چیز کی دعوت دیتا ہے تو یہ لوگ بڑی بےنیازی اور لاپروائی ... سے کہہ دیتے کہ بس کچھ پہلے لوگوں کی داستانیں اور قصے کہانیاں ہی سنا دیتا ہے۔ کوئی نئی یا کام کی بات ان میں نہیں ہوتی اور ایسی باتیں ہم پہلے ہی بہت سن چکے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۙ قَالُوْٓا ۔۔ : ” اَسَاطِيْرُ “ ” أُسْطُوْرَۃٌ“ کی جمع ہے، جیسے ” اَعَاجِیْبُ “ ” أُعْجُوْبَۃٌ“ کی۔ مراد بےاصل جھوٹی کہانیاں اور افسانے ہیں، یہ ان متکبر کفار کا قرآن مجید کے متعلق تبصرہ ہے جو وہ آپس میں کرتے اور اس کو پھیلاتے تھے کہ یہ اللہ کا کلام ن... ہیں ہے، بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پچھلے لوگوں کے کچھ قصے کہیں سے سن لیے ہیں، انھی کو جوڑ جاڑ کر اللہ کے کلام کے نام سے لوگوں پر پیش کر رہے ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary It will be recalled that, after describing the blessings of Allah and proving that He was unique in the creation of the universe, the text made a pointed reference to how the polytheists chose to stick to their own ways of error. In the present verses, the text describes how they, not content with their own straying, tried that others should also go astray like them. The punishment they...  would get for doing that has also been stated here. Earlier to that (24), there is a question about the Qur’ an, and the addressees of the question, at this place, are the polytheists. It is their haughty and ignorant answer which has been mentioned here along with a warning of consequences for this attitude. Then, after five verses (30), the same question has been addressed to believers who fear Allah which is followed by their answer, and where a promise of reward for it has been mentioned. The Holy Qur&an does not explicitly say as to who asked the question. Therefore, commentators have expressed different views in this matter. Some say that the question was asked by disbelievers. Others say that it was asked by Muslims. Still others take one question to have been asked by the polytheists while the other by Muslims. But, the Holy Qur’ an has kept it ambiguous. This is to indicate that there is no need to are as to where the question came from. What has to be seen is the answer and, more importantly, its ultimate consequence - which, the Qur’ an has it-self chosen to describe. The essence of the answer given by the polytheists is that they simp¬ly refused to acknowledge that there was any word of Allah really revealed from Him. In fact, they dismissed the Qur&an as nothing but tales of people from early ages. Thereupon, the Qur’ an admonished those unjust people for disinforming people about the Qur&an by telling them that it was nothing but the tales of the ancient whereby they make oth¬ers too go astray like them. As for the consequences, these they shall have to face. It means that the total curse of their sins has to fall on them anyway on the Day of Judgment, but part of the curse of the evil consequences of their role in misguiding others will also fall on them. Then it was said that the burden of sins which these people are piling up on their shoulders is a terribly evil burden.  Show more

خلاصہ تفسیر : اور جب ان سے کیا جاتا ہے (یعنی کوئی ناواقف شخص تحقیق کے لئے یا کوئی واقف شخص امتحان کے لئے ان سے پوچھتا ہے) کہ تمہارے رب نے کیا چیز نازل فرمائی ہے (یعنی قرآن جس کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کا نازل کیا ہوا فرماتے ہیں آیا یہ صحیح ہے) تو کہتے ہیں کہ (صاحب وہ رب کا ... نازل کیا ہوا کہاں ہے) وہ تو محض بےسند باتیں ہیں جو پہلوں سے (منقول) چلی آ رہی ہیں (یعنی اہل ملل پہلے سے توحید ونبوت ومعاد کے مدعی ہوتے آئے ہیں ان ہی سے یہ بھی نقل کرنے لگے باقی یہ دعوے اللہ تعالیٰ کے تعلیم دیئے ہوئے نہیں) نتیجہ اس (کہنے) کا یہ ہوگا کہ ان لوگوں کو قیامت کے دن اپنے گناہوں کا پورا بوجھ اور جن کو یہ لوگ بےعلمی سے گمراہ کر رہے تھے ان کے گناہوں کا بھی کچھ بوجھ اپنے اوپر اٹھانا پڑے گا (گمراہ کرنے سے مراد یہی کہنا ہے اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ کا کیونکہ اس سے دوسرے آدمی کا اعتقاد خراب ہوتا ہے اور جو شخص کسی کو گمراہ کیا کرتا ہے اس گمراہ کو تو گمراہی کا گناہ ہوتا ہے اور اس گمراہ کرنے والے کو اس کی گمراہی کے سبب بن جانے کا اس حصہ تسبب کو کچھ بوجھ فرمایا گیا اور اپنے گناہ کا کامل طور پر اٹھانا ظاہر ہے) خوب یاد رکھو کہ جس گناہ کو یہ اپنے اوپر لاد رہے ہیں وہ برا بوجھ ہے (اور انہوں نے جو گمراہ کرنے کی یہ تدبیر نکالی ہے کہ دوسروں کو ایسی باتیں کر کے بہکاتے ہیں سو یہ تدبیریں حق کے مقابلہ میں نہ چلیں گی بلکہ خود انہی پر ان کا وبال ونکال عود کرے گا چنانچہ) جو لوگ ان سے پہلے ہو گذرے ہیں انہوں نے (انبیاء (علیہم السلام) کے مقابلہ اور مخالفت میں) بڑی بڑی تدبیریں کیں سو اللہ تعالیٰ نے ان (کی تدبیروں) کا بنا بنایا گھر جڑ بنیاد سے ڈھا دیا پھر (وہ ایسے ناکام ہوئے جیسے گویا) اوپر سے ان پر (اس گھر کی) چھت آ پڑی (ہو یعنی جس طرح چھت آ پڑنے سے سب دب کر رہ جاتے ہیں اسی طرح وہ لوگ بالکل خائب و خاسر ہوئے) اور (علاوہ ناکامی کے) ان پر (خدا کا) عذاب ایسی طرح آیا کہ ان کو خیال بھی نہ تھا (کیونکہ توقع تو اس تدبیر میں کامیابی کی تھی خلاف توقع ان پر ناکامی سے بڑھ کر عذاب آ گیا جو کوسوں بھی ان کے ذہن میں نہ تھا کفار سابقین پر عذابوں کا آنا معلوم و معروف ہے یہ حالت تو ان کی دنیا میں ہوئی) پھر قیامت کے دن (ان کے واسطے یہ ہوگا کہ) اللہ تعالیٰ ان کو رسوا کرے گا اور (اس میں سے ایک رسوائی یہ ہوگی کہ ان سے) یہ کہے گا کہ (تم نے جو) میرے شریک (بنا رکھے تھے) جن کے بارے میں تم ( انبیاء (علیہم السلام) اور اہل ایمان سے) لڑائی جھگڑا کرتے تھے (وہ اب) کہاں ہیں (اس حالت کو دیکھ کر حق کے) جاننے والے کہیں گے کہ آج پوری رسوائی اور عذاب کافروں پر ہے جن کی جان فرشتوں نے حالت کفر پر قبض کی تھی (یعنی آخر وقت تک کافر رہے شاید ان اہل علم کا قول بیچ میں اس لیے بیان فرمایا ہو کہ کفار کی رسوائی کا عام اور علانیہ ہونا معلوم ہوجائے) پھر کافر لوگ (اپنے شرکاء کے جواب میں) صلح کا پیغام ڈالیں گے (اور کہیں گے) کہ (شرک جو اعلیٰ درجہ کی برائی اور مخالفت حق تعالیٰ کی ہے ہماری کیا مجال تھی کہ ہم اس کے مرتکب ہوتے) ہم تو کوئی برا کام (جس میں ادنیٰ مخالفت بھی حق تعالیٰ کی ہو) نہ کرتے تھے (اس کو صلح کا مضمون اس لئے کہا گیا کہ دنیا میں شرک کا جو کہ مخالفت یقینیہ ہے بڑے جوش و خروش سے اقرار تھا کقولہ تعالیٰ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَآ اَشْرَكنَا اور شرک کا اقرار مخالفت کا اقرار تھا خصوصا انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ تو خود صریح مخالفت کے مدعی تھے وہاں اس شرک کے انکار سے مخالفت کا انکار کریں گے اس لئے اس کو صلح فرمایا اور یہ انکار ایسا ہے جسا دوسری آیت میں ہے (آیت) وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ حق تعالیٰ ان کے اس قول کو رد فرمائیں گے کہ) کیوں نہیں (بلکہ واقعی تم نے بڑے کام مخالفت کے کئے) بیشک اللہ کو تمہارے سب اعمال کی پوری خبر ہے سو (اچھا) جہنم کے دروازوں میں (سے جہنم میں) داخل ہوجاؤ (اور) اس میں ہمیشہ ہمیشہ کو رہو غرض (حق سے) تکبر (اور مخالفت اور مقابلہ) کرنے والوں کا وہ برا ٹھکانا ہے (یہ عذاب آخرت کا ذکر ہوگیا پس حاصل آیات کا یہ ہوا کہ تم نے اپنے سے پہلے کافروں کا حال خسارہ و عذاب دنیا وآخرت کا سن لیا اسی طرح جو تدبیر ومکر دین حق کے مقابلہ میں تم کر رہے ہو اور خلق کو گمراہ کرنا چاہتے ہو یہی انجام تمہارا ہوگا۔ معارف و مسائل : پچھلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور تخلیق عالم میں یکتا ہونے کا ذکر کرکے مشرکین کی اپنی گمراہی کا بیان تھا ان آیات میں دوسروں کو گمراہ کرنے اور اس کے عذاب کا بیان ہے اور اس سے پہلے ایک سوال قرآن کے متعلق اور اس سوال کے مخاطب یہاں تو مشرکین ہیں اور انہی کا جاہلانہ جواب یہاں ذکر کرکے ان پر وعید بیان کی گی ہے اور پانچ آیتوں کے بعد یہی سوال مؤمنین متقین کو خطاب کرکے کیا گیا اور ان کا جواب اور اس پر وعدہ انعامات کا ذکر ہے۔ قرآن کریم نے یہ نہیں کھولا کہ سوال کرنے والا کون تھا اس لئے مفسرین کے اس میں اقوال مختلف ہیں کسی نے کافروں کو سوال کرنے والا قرار دیا کسی نے مسلمانوں کو کسی ایک سوال مشرکین کا اور دوسرا مؤمنین کا قرار دیا لیکن قرآن کریم نے اس کو مبہم رکھ کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ اس بحث میں جانے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ سوال کس کی طرف سے تھا دیکھنا تو جواب اور اس کے نتیجہ کا ہے جن کا قرآن نے خود بیان کردیا ہے۔ مشرکین کی طرف سے خلاصہ جواب یہ ہے کہ انہوں نے ا سی کو تسلیم نہیں کیا کہ کوئی کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا بھی ہے بلکہ قرآن کو پھچلے لوگوں کی کہانیاں قرار دیا قرآن کریم نے اس پر یہ وعید سنائی کہ یہ ظالم قرآن کو کہانیاں بتلا کر دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اس کا یہ نتیجہ ان کو بھگتنا پڑے گا کہ قیامت کے روز اپنے گناہوں کا پورا وبال تو ان پر پڑنا ہی ہے جن کو یہ گمراہ کر رہے ہیں ان کا بھی کچھ وبال ان پر پڑے گا اور پھر فرمایا کہ گناہوں کے جس بوجھ کو یہ لوگ اپنے اوپر لاد رہے ہیں وہ بہت برا بوجھ ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۙ قَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ 24؀ۙ سطر السَّطْرُ والسَّطَرُ : الصّفّ من الکتابة، ومن الشّجر المغروس، ومن القوم الوقوف، وسَطَّرَ فلان کذا : كتب سطرا سطرا، قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] ، وقال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ...  مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] ، وقال : كانَ ذلِكَ فِي الْكِتابِ مَسْطُوراً [ الإسراء/ 58] ، أي : مثبتا محفوظا، وجمع السّطر أَسْطُرٌ ، وسُطُورٌ ، وأَسْطَارٌ ، قال الشاعر : 233- إنّي وأسطار سُطِرْنَ سطرا«6» وأما قوله : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام/ 24] ، فقد قال المبرّد : هي جمع أُسْطُورَةٍ ، نحو : أرجوحة وأراجیح، وأثفيّة وأثافي، وأحدوثة وأحادیث . وقوله تعالی: وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] ، أي : شيء کتبوه کذبا ومینا، فيما زعموا، نحو قوله تعالی: أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] ( س ط ر ) السطر والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کسی کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی ۔ اور سطر فلان کذا کے معنی ایک ایک سطر کر کے لکھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] ن قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] اور کتابت جو لکھی ہوئی ہے ۔ یہ حکم کتاب ( یعنی قرآن میں لکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی غفو ذا اور ثابت ہے ۔ اور سطر کی جمع اسطر وسط ور واسطار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ( 227 ) انی واسطار سطرن سطرا یعنی قسم ہے قرآن کی سطروں کی کہ میں اور آیت کریمہ : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام/ 24] پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ میں مبرد نے کہا ہے کہ یہ اسطرۃ کی جمع ہے جیسے ارجوحۃ کی جمع اراجیع اور اثقیۃ کی جمع اثانی اور احد وثہ کی احادیث آتی ہے ۔ اور آیت : ۔ وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] اور جب ان ( کافروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ۔ تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں یعنی انہوں نے بزعم خود یہ کہا کہ یہ جھوٹ موٹ کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جیسا کہ دوسری جگہ ان کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] اور کہتے ہیں کہ یہ ( پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے وہ صبح وشام ان کو پڑھو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤) جب ان حصے کرنے والوں سے کہا جاتا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے سامنے تمہارے پروردگار کے کیا احکامات بیان کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ وہ تو پہلے لوگوں کی محض بےبنیاد باتیں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ ) نبی اکرم کی دعوت کا چرچا جب مکہ کے اطراف و اکناف میں ہونے لگا تو لوگ اہل مکہ سے پوچھتے کہ محمد جو کہہ رہے ہیں کہ مجھ پر اللہ کا کلام نازل ہوتا ہے تم لوگوں نے تو یہ کلام سنا ہے چناچہ تمہاری اس کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ اس کے مضامین کیا ہیں ؟...  (قَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ ) کہ یہ کلام تو بس پرانے قصے کہانیوں پر مشتمل ہے۔ یہ سب گزشتہ قوموں کے واقعات ہیں جو ادھر ادھر سے سن کر ہمیں سنا دیتے ہیں اور پھر ہم پر دھونس جماتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21. In the preceding (Ayat 23) those arrogant people who were rejecting the message were warned that Allah has full knowledge of all their deeds. Now from (Ayat 24) the Quran takes up those deeds one by one and deals with the arguments they presented against the Messenger (peace be upon him), the objections they raised and the lame excuses they invented for their rejection, and reproaches and admo... nishes them. 22. One of their cunning devices was to create doubts about the Quran. Whenever outsiders came to visit Makkah, they would naturally make inquiries about the Quran, which the Prophet (peace be upon him) declared, was being sent down to him by Allah. The disbelievers would answer that it contained merely fairy tales of the ancients. They would say such things in order to create doubts in the minds of the inquirers so that they should not take any interest in the message of the Prophet (peace be upon him).  Show more

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :22 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا چرچا جب اطراف و اکناف میں پھیلا تو مکے کے لوگ جہاں کہیں جاتے تھے ان سے پوچھا جاتا تھا کہ تمہارے ہاں جو صاحب نبی بن کر اٹھے ہیں وہ کیا تعلیم دیتے ہیں؟ قرآن کس قسم کی کتاب ہے؟ اس کے مضامین کیا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح کے سوالات کا جواب ... کفار مکہ ہمیشہ ایسے الفاظ میں دیتے تھے جن سے سائل کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی کتاب کے متعلق کوئی نہ کوئی شک بیٹھ جائے ، یا کم از کم اس کو آپ سے آپ کی نبوت کے معاملے سے کوئی دلچسپی باقی نہ رہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٤۔ معتبر سند سے تفسیر ابن ابی حاتم میں قتادہ کے قول کے موافق جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حج کے موسم میں دور دور کے لوگ مکہ میں آتے تھے جس سے قریش کو دکھ ہوا کہ باہر کے لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں اور قرآن شریف کی نصیحت کو سن کر بت پرستی چھوڑ دیں گے اس ... لئے قریش نے مکہ کے چاروں طرف لوگ بٹھلا دئیے تھے اور ان سے کہہ دیا تھا کہ جو کوئی قرآن شریف کا حال پوچھتے تو کہہ دینا کہ پہلے لوگوں کی ایک کہانی ہے ١ ؎۔ وہ یہی کہہ دیتے تھے اور جب وہ باہر کے لوگ مکہ کے اندر آتے تو جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے وہ قرآن شریف کی بہت تعریف کرتے تھے اسی ذکر میں اللہ تعالیٰ نے آیت کا یہ ٹکڑا اور اگلا ٹکڑا نازل فرمایا جس میں قرآن شریف کی تعریف کرنے والوں کا ذکر ہے۔ اس آیت کے دوسرے ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ہے کہ جو لوگ اور دل کو بہکاتے ہیں ان پر قیامت میں دوگنا عذاب ہوگا ان کے گناہوں کا جدا ہوگا اور بہکانے کا جدا ہوگا اس کی صراحت اس حدیث میں بھی ہے جو حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے آگے آتی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص نے کوئی ہدایت کا کام لوگوں میں پھیلایا اس کو اس کی نیکی کا اجر بھی خدا دیوے گا اور اس کے ہدایت کے سبب سے جتنے لوگ نیک راہ لگیں گے اور اجر پاویں گے اسی قدر اجر اس کو بھی خدا اپنے پاس سے دیوے گا۔ نیک راہ پر آنے والوں کا ثواب کچھ نہیں گھٹنے کا یہی حال بدی کے پھیلانے والے شخص کی سزا کا ہے غرض اس حدیث میں صاحب وحی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب آیت کے معنے کی صراحت فرما دی ہے تو اب یہ شبہ باقی نہ رہا کہ یہ آیت ولا تزر وازرۃ وزری اخری کے مطلب کے ساتھ کیوں کر موافق ہے کس لئے کہ بدی پھیلانے والے نے دو کام کئے تھے ایک خود بدی کی دوسرے اوروں کو بدی کی راہ سے لگایا اس لئے اس کو دونوں طرح کے عملوں کی سزا ملی کسی دوسرے کا بوجھ اس پر نہیں ڈالا گیا اس لئے یہ آیت سورت والنجم کی آیت لا تزر وازرۃ وزری اخری کے مخالف نہیں ہے کیوں کہ اوپر کی حدیث میں صاف یہ آچکا ہے کہ بہکنے والوں کے گناہ جوں کے توں رہویں گے۔ ١ ؎ تفسیر الدرالمنثور ص ١١٦ ج ٤۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:24) ما ذا ۔ کیا ہے یہ ؟ کیا چیز ہے ؟ ما ذا کی لفظی ساخت میں اختلاف ہے کوئی بسیط (غیر مرکب) اور کوئی اس کو مرکب کہتا ہے۔ بسیط کہنے والوں میں سے بعض قائل ہیں کہ ما ذا پورا اسم جنس ہے یا موصول ہے اور الذی کا ہم معنی یا پورا حرف استفہام ہے۔ مرکب کہنے والے کہتے ہیں کہ ماذا مرکب ہے ما استفہام اور ذا...  موصولہ سے۔ جیسے آیت ہذا یا آیت یسئلونک ما ذا ینفقون۔ (2:219) لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں یا ما استفہامیہ ہے اور ذا اسم اشارہ۔ یا ما زائدہ ہے۔ اور ذا اسم اشارہ۔ یا ما استفہامیہ اور ذا زائدہ ہے۔ اساطیر۔ اسطورۃ کی جمع ہے جیسے ارجوحۃ کی جمع اراجیح۔ اور احدوثۃ کی جمع احادیث ہے۔ اساطیر۔ کہانیاں ۔ من گھڑت لکھی ہوئی باتیں۔ وہ جھوٹی خبر جس کے متعلق یہ اعتقاد ہو کہ وہ جھوٹ گھڑ کر لکھ دی گئی ہے۔ اسطورہ کہلاتی ہے۔ السطر والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کتاب کی ہو یا درختوں کی یا آدمیوں کی۔ سطر فلان کذا کے معنی ایک ایک سطر کر کے لکھنے کے ہیں۔ کتب مسطور۔ لکھی ہوئی کتاب۔ سطر کی جمع سطور ہے جیسے عین کی جمع عیون اسی سے مسیطر۔ بمعنی نگہداشت کرنے والا۔ داروغہ ہے یہ تسیطر۔ فلان علی کذا وسیطر علیہ کذا۔ سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی حفاظت کے لئے اس پر سطر کی طرح سیدھا کھڑا ہونے کے ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے بلکہ محمد (ﷺ) نے پچھلے لوگوں کے کچھ قصے کہیں سے سن لئے ہیں انہی کو جوڑ جاڑ کر اللہ کے کلام کے نام سے لوگوں پر پیش کر رہے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی کوئی ناواقف شخص تحقیق کے لئے یا کوئی واقف شخص امتحان کے لئے ان سے پوچھتا ہے کہ قرآن جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کا نزال کیا ہوا فرماتے ہیں آیا یہ صحیح ہے۔ 2۔ یعنی اہل ملل پہلے سے توحید و نبوة ومعاد کے مدعی ہوتے آئے ہیں ان ہی سے یہ بھی نقل کرنے لگے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منکرین آخرت حقیقت میں متکبر ہوتے ہیں لہٰذا تکبر کرنے کا نتیجہ اور اس کا انجام۔ یہ تکبر کا ہی نتیجہ ہے کہ کفار سے جب یہ کہا جاتا کہ سوچو تمہارے رب نے کیا کیا ارشادات نازل فرمائے ہیں۔ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ہم سے پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ اس طرح نہ صرف خود حق کا انکار ک... رتے ہیں بلکہ اس پروپیگنڈہ کے ذریعے دوسرے لوگوں کو بھی حق سے دور رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہوگا کہ قیامت کے دن یہ اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کے علاوہ ان کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہوں گے جن کو انھوں نے گمراہ کیا ہوگا۔ کتنا ہی برا بوجھ ہے جسے اٹھائے ہوئے ہوں گے اور ہمیشہ کے لیے جہنم میں ذلیل ہوں گے۔ (الفرقان : ٦٩) جہاں تک اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (النجم : ٣٨) اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ لیکن جو لوگ دوسروں کی گمراہی کا سبب بنیں گے کیونکہ ان کا دوہرا گناہ ہوگا اس لیے انہیں بوجھ بھی دوگنا اٹھانا پڑے گا۔ اس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن مجرموں کو ذلیل کرنے کے لیے ان کے گناہوں کو حجم کی شکل دے کر ان کے کندھوں پر لادا جائے گا تاکہ وہ ایک دوسرے کی نظروں میں ذلیل ہوتے رہیں۔ پہلے زمانے میں کچھ لوگ اس وجہ سے گمراہ ہوئے کہ نیکی اور بدی کا وزن نہیں ہوسکتا مگر آج سائنس نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ انسان کے جسم کا ٹمپریچر ماپا اور ہوا کا وزن کیا جاسکتا ہے۔ کیا جس رب نے انسان کو یہ عقل اور صلاحیت دی ہے وہ اس کے اچھے اور برے اعمال کا وزن نہیں کرسکتا ؟ یقیناً لوگوں کے اعمال کو تولا جائے گا۔ (أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَامَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِینَ أَنْزَلَ اللَّہُ (وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الأَقْرَبِینَ ) قَالَ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْکَلِمَۃً نَحْوَہَا۔۔ وَیَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِینِی مَا شِءْتِ مِنْ مَالِی، لاَ أُغْنِی عَنْکِ مِنَ اللَّہِ شَیْءًا)[ رواہ البخاری : باب (وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الأَقْرَبِین۔۔ )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں آپ نے فرمایا اے قریش کی جماعت یا اس طرح کہ دوسرے کلمات ادا فرمائے۔۔ اور کہا اے فاطمہ بنت محمد دنیا کا جو مال مجھ سے لینا چاہتی ہے لے لے میں اللہ کے ہاں تجھے کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکوں گا۔ “ مسائل ١۔ قرآن مجید کو کفار سابقہ امم کے قصے کہانیاں کہتے ہیں۔ ٢۔ قیامت والے دن اپنا اور جس کو گمراہ کیا ہوگا اس کا بھی بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن نیکی اور بدی کا وزن ہوگا : ١۔ قیامت کے دن اپنے اعمال کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔ (النحل : ٢٥) ٢۔ قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور ہوگا۔ (الاعراف : ٨) ٤۔ قیامت کے دن ہم عدل کا میزان قائم کریں گے۔ (الانبیاء : ٤٧) ٥۔ جس کی نیکیوں کا بوجھ زیادہ ہوگا وہ عیش و عشرت میں ہوگا۔ (المومنون : ١٠٢) ٦۔ جس کی نیکیاں زیادہ ہوں گی وہ عیش و عشرت میں ہوگا۔ (القارعۃ : ٦۔ ٧) ٧۔ جن کی نیکیاں کم ہوں گی یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں رکھا ہوگا۔ (المومنون : ١٠٣) ٨۔ جس کی نیکیوں کا وزن کم ہوا اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہے۔ (القارعۃ : ٨۔ ٩) ٩۔ قیامت کے دن چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی اس کے سامنے آجائے گی اور چھوٹی سے چھوٹی برائی بھی۔ (الزلزال : ٧۔ ٨)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٢٤ تا ٢٥ یہ مستکبرین اور منکر دل والوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ ما ذا انزل ربکم (١٦ : ٢٤) “ تمہارے رب نے یہ کیا چیز نازل کی ہے ”۔ یہ لوگ اس سوال کا صحیح جواب نہیں دیتے۔ حالانکہ جواب سیدھا سادہ ہے۔ یہ لوگ قرآن کریم کو پڑھ سکتے ہیں ، اس کے مفہوم کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ اگر ایمان نہ بھی لائیں پھر ... بھی دیانت داری سے صحیح جواب تو دے سکتے تھے لیکن انہوں نے سیدھا جواب دینے کے بجائے یہ جواب دیا : اساطیر الاولین (١٦ : ٢٤) “ وہ تو اگلے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں ”۔ اساطیر ان کہانیوں کو کہا جاتا ہے جو وہم سے پر ہوں اور خرافات پر مشتمل ہوں۔ یہ لوگ قرآن کے بارے میں ایسے ریمارکس پاس کرتے ہیں حالانکہ قرآن مجید انسانی عقل ، انسانی نفسیات ، انسانی طرز زندگی ، لوگوں کے عمومی طرز عمل ، سوسائٹی کے طبقات کے باہم تعلق اور انسان کے ماضی ، اس کے حال اور اس کے مستقبل پر نہایت ہی معقول تنقیدہ تبصرہ کرتا ہے اور حقیقی راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ قرآن نے امم ماضیہ کے واقعات بیان کئے ہیں ، لہٰذا اس کے بارے میں ان کی یہ سطحی رائے ہے۔ یوں یہ لوگ خود اپنے گناہوں کا بوجھ بھی بڑھاتے ہیں اور اپنے متبعین کے گناہوں کا بھی ایک حصہ اپنے بوجھ میں ڈالتے ہیں۔ کیونکہ ان کی باتوں سے ان کے پیروکار گمراہ ہوتے ہیں اور اسلام اور ایمان سے رک جاتے ہیں۔ یہ متبعین چونکہ خود جاہل ہیں کوئی صحیح رائے وہ خود قائم نہیں کرسکتے۔ قرآن کریم ان لوگوں کے گناہوں کی تعبیر ایک ایسے بوجھ سے کرتے ہیں جو کوئی مسافر اٹھاتا ہے۔ یہ بوجھ زیادہ ہوتا ہے لیکن یہ احمق مسافر اس کو اور زیادہ کرتا جاتا ہے۔ یہ بوجھ نفس انسانی کو اس قدر جھکا دیتا ہے ، اس قدر مشقت میں ڈال دیتا ہے جس طرح بھاری بوجھ کمر کو دہرا کردیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روحانی اور نفسیاتی بوجھ بھی انسان کے لئے اس طرح باعث درماندگی ہوتا ہے جس طرح جسمانی بوجھ جسم کے لئے تھکن کا موجب ہوتا ہے بلکہ نفسیاتی بوجھ جسم کو جسمانی بوجھ کے مقابلے میں زیادہ چور چور کردیتا ہے۔ ابن ابو حاتم ، سدی سے روایت کرتے ہیں کہ قریش نے ایک میٹنگ کی اور اس میں قرار دیا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شیریں زبان ہیں۔ جب وہ کسی سے بات کرتے ہیں تو اس کی عقل جاتی رہتی ہے ۔ لہٰذا قریش میں سے چند ایسے افراد کا انتخاب کرو جو معروف ہوں اور ان کا نسب بھی معروف ہو۔ ان کو مکہ کی راہوں پر ایک دو رات کے لئے بٹھا دو تا کہ جو شخص بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کے لئے آئے وہ اسے واپس کردیں۔ چناچہ کچھ لوگ نکلے اور مکہ کے راستے پر بیٹھ گئے۔ جو شخص بھی اپنی قوم کی طرف سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات معلوم کرنے کے لئے مکہ آتا ، تو ان میں سے جو شخص راستے میں بیٹھا ہوتا وہ کہتا میں فلاں ابن فلاں ہوں۔ تو یہ شخص اسے پہچان لیتا کیونکہ وہ مشہور شخص ہوتا۔ پھر وہ کہتا کہ میں تمہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے بتاتا ہوں ۔ وہ ایک بہت بڑا جھوٹا شخص ہے۔ اس معاملے میں اس کے متبعین یا تو بیوقوف لوگ ہیں یا غلام ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ رہے اس کی قوم کے اکابر اور شیوخ تو وہ سب کے سب اس کے خلاف ہیں۔ اس طرح وہ شخص معتبر دیہہ کی بات سن کر واپس ہوجاتا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ واذا قیل لھم ۔۔۔۔۔ الاولین (١٦ : ٢٤) “ اور جب ان سے پوچھا جاتا کہ تمہارے رب نے کیا نازل کیا نازل کیا ہے تو کہتے وہ تو پرانے زمانے کی کہانیاں ہیں ”۔ اب اگر یہ شخص صاحب عزم صمیم ہوتا اور اس کے لئے ہدایت لکھی ہوئی ہوتی تو یہ لوگ جب اپنی بات کرتے تو وہ کہتا میں اپنی قوم کا کس قدر بےکار نمائندہ ہوں گا کہ میں دور کا سفر کر کے آیا اور ایک دن کا سفر رہ گیا اور اب میں اس شخص سے ملے بغیر واپس چلا جاؤں ۔ یہ دیکھے بغیر کہ وہ کیا کہتا ہے اور قوم کے پاس کوئی مصدقہ بیان لے کر نہ جاؤں۔ تو ایسا شخص مکہ میں داخل ہوتا۔ وہ مومنین سے ملتا اور پوچھتا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کیا ہیں ، تو وہ اس کو اچھی باتیں بتاتے ”۔ قریش نے تحریک اسلامی کے خلاف ایک زبردست مخالفانہ پروپیگنڈے کی مہم شروع کر رکھی تھی۔ قریش کے بعد بھی ہر زمان و مکان میں مستکبرین پر تحریک اسلامی کے خلاف ایسی ہی مخالفانہ مہم چلاتے ہیں کیونکہ ان کا غرور اور استکبار ان کو دلیل اور سچائی کے اتباع سے روکتا ہے۔ پس قریش کے یہ مستکبرین ، پہلے منکر اور معاندنہ تھے۔ قرآن کریم ان کے سامنے ان مستکبرین کا انجام واضح طور پر پیش کرتا ہے جس سے ان سے قبل کے مستکبرین دوچار ہوئے ، خصوصاًقیامت کے دن ان کا جو انجام ہونے والا ہے ، بلکہ یہ انجام ان کا قیامت سے بھی پہلے اس وقت شروع ہونے والا ہے جونہی ان کی روح جسد خاکی سے نکل جائے گی۔ قرآن کریم ان کے سامنے ، یہ مناظر نہایت ہی موثر انداز میں پیش کرتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کا اسلوب ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّکُمْ ) (الایۃ) (اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا نازل فرمایا تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ پہلے لوگوں کی لکھی ہوئی باتیں ہیں) صاحب معالم التنزیل فرماتے ہیں کہ یہ آیت مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان لوگوں نے مکہ معظمہ کی گھاٹیوں کو تقس... یم کرلیا تھا۔ مختلف گھاٹیوں پر مختلف لوگ بیٹھ گئے تھے جو لوگ حج کے لیے آتے تھے انہیں بہکاتے اور ورغلاتے تھے تاکہ مسلمان نہ ہوجائیں، باہر سے آنے والے حجاج ان سے دریافت کرتے تھے کہ تمہارے رب کی طرف سے کیا نازل ہوا یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کن چیزوں کی وحی کا تذکرہ فرمایا اور اللہ کی طرف سے جو ان پر نازل ہوا انہوں نے کیا بتایا، اس پر یہ لوگ کہہ دیتے تھے کہ اللہ کی طرف سے نازل کچھ نہیں ہوا وہ تو پہلے لوگوں کی لکھی ہوئی باتیں ہیں انہوں نے بھی سن رکھی ہیں۔ انہیں کو بیان کردیتے ہیں اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ خود تو منکر ہیں ہی نبوت و رسالت کے بارے میں دریافت کرنے والوں کو بھی ایمان نہ لانے دیں۔ انہوں نے اپنے کفر اور اعمال بد کا بوجھ اپنے اوپر اٹھایا اور ساتھ ہی ان لوگوں کا بوجھ بھی اٹھایا جنہیں اپنی جہالت سے گمراہ کرتے ہیں اور اپنے شہر میں آنے والوں کو ایمان لانے سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ توحید پر تین عقلی دلیلوں اور ان کے متعلقات بیان کرنے کے بعد منکرین پر شکوی کیا گیا ہے کہ وہ قرآن کو کلام الٰہی ماننے کے بجائے اسے اگلوں کے قصے کہانیاں قرار دیتے ہیں۔ ” لِیَحْمِلُوْا اَوْزَارَھُمْ الخ “ لام عاقبت کا ہے۔ اور یہ ان معاندین کے لیے تخویف اخروی ہے۔ وہ قرآن کو اگلے لوگوں کی کہانیاں کہ... تے ہیں۔ اچھا اس قول باطل کی عاقبت اور اس کا انجام آخرت میں یہ ہوگا کہ وہ اپنے اور جن کو انہوں نے اس قول باطل سے گمراہ کیا ہے ان کے گناہوں کا بوجھ پیٹھ پر اٹھا کر سیدھے جہنم میں جائیں گے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

24 ۔ اور جب ان دین حق کے منکروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا چیز نازل فرمائی ہے تو جواب دیتے ہیں نازل کہاں فرمائی وہ تو پہلے ہی لوگوں کی بےسروپا کہانیاں ہیں۔