Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 41

سورة النحل

وَ الَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا فِی اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا لَـنُبَوِّئَنَّہُمۡ فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً ؕ وَ لَاَجۡرُ الۡاٰخِرَۃِ اَکۡبَرُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۱﴾

And those who emigrated for [the cause of] Allah after they had been wronged - We will surely settle them in this world in a good place; but the reward of the Hereafter is greater, if only they could know.

جن لوگوں نے ظلم برداشت کرنے کے بعد اللہ کی راہ میں ترک وطن کیا ہے ہم انہیں بہتر سے بہتر ٹھکانا دنیا میں عطا فرمائیں گے اور آخرت کا ثواب تو بہت ہی بڑا ہے ، کاش کہ لوگ اس سے واقف ہوتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Reward of the Muhajirin Allah tells: وَالَّذِينَ هَاجَرُواْ فِي اللّهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُواْ ... And as for those who emigrated for the cause of Allah, after they had been wronged, Allah tells us about the reward of those who migrated for His sake, seeking His pleasure, those who left their homeland behind, brothers and friends, hoping for the reward of Allah. This may have been revealed concerning those who migrated to Ethiopia, those whose persecution at the hands of their own people in Makkah was so extreme that they left them and went to Ethiopia so that they would be able to worship their Lord. Among the most prominent of these migrants were Uthman bin Affan and his wife Ruqayyah, the daughter of the Messenger of Allah, Jafar bin Abi Talib, the cousin of the Messenger, and Abu Salamah bin Abdul-Asad, among a group of almost eighty sincere and faithful men and women, may Allah be pleased with them. Allah promised them a great reward in this world and the next. Allah said: ... لَنُبَوِّيَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ... We will certainly give them good residence in this world, Ibn Abbas, Ash-Sha`bi and Qatadah said: (this means) "Al-Madinah." It was also said that; it meant "good provision." This was the opinion of Mujahid. There is no contradiction between these two opinions, for they left their homes and wealth, but Allah compensated them with something better in this world. Whoever gives up something for the sake of Allah, Allah compensates him with something that is better for him than that, and this is what happened. He gave them power throughout the land and caused them to rule over the people, so they became governors and rulers, and each of them became a leader of the pious. Allah tells us that His reward for the Muhajirin in the Hereafter is greater than that which He gave them in this world, as He says: ... وَلاََجْرُ الاخِرَةِ أَكْبَرُ ... but indeed the reward of the Hereafter will be greater, meaning, greater than that which We have given you in this world. ... لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ if they but knew! means, if those who stayed behind and did not migrate with them only knew what Allah prepared for those who obeyed Him and followed His Messenger. Then Allah describes them as: الَّذِينَ صَبَرُواْ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

دین کی پاسبانی میں ہجرت جو لوگ اللہ کی راہ میں ترک وطن کر کے ، دوست ، احباب ، رشتے دار ، کنبے تجارت کو اللہ کے نام پر ترک کر کے دین ربانی کی پاسبانی میں ہجرت کر جاتے ہیں ان کے اجر بیان ہو رہے ہیں کہ دونوں جہان میں یہ اللہ کے ہاں معزز و محترم ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ سبب نزول اس کا مہاجرین حبش ہوں جو مکے میں مشرکین کی سخت ایذائیں سہنے کے بعد ہجرت کر کے حبش چلے گئے کہ آزادی سے دین حق پر عامل رہیں ۔ ان کے بہترین لوگ یہ تھے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے ساتھ آپ کی بیوی صاحبہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے اور حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ ۔ قریب قریب اسی آدمی تھے مرد بھی عورتیں بھی جو سب صدیق اور صدیقہ تھے اللہ ان سب سے خوش ہو اور انہیں بھی خوش رکھے ۔ پس اللہ تعالیٰ ایسے سچے لوگوں سے وعدہ فرماتا ہے کہ انہیں وہ اچھی جگہ عنایت فرمائے گا ۔ جیسے مدینہ اور پاک روزی ، مال کا بھی بدلہ ملا اور وطن کا بھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے خوف سے جیسی چیز کو چھوڑے اللہ تعالیٰ اسی جیسی بلکہ اس سے کہیں بہتر ، پاک اور حلال چیز اسے عطا فرماتا ہے ۔ ان غریب الوطن مہاجرین کو دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حاکم و بادشاہ کر دیا اور دنیا پر ان کو سلطنت عطا کی ۔ ابھی آخرت کا اجر و ثواب باقی ہے ۔ پس ہجرت سے جان چرانے والے مہاجرین کے ثواب سے واقف ہوتے تو ہجرت میں سبقت کرتے ۔ اللہ تعالیٰ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے خوش ہو کہ آپ جب کبھی کسی مہاجر کو اس کا حصہ غنیمت و غیرہ دیتے تو فرماتے لو اللہ تمہیں برکت دے یہ تو دنیا کا اللہ کا وعدہ ہے اور ابھی اجر آخرت جو بہت عظیم الشان ہے ، باقی ہے ۔ پھر اسی آیت مبارک کی تلاوت کرتے ۔ ان پاکباز لوگوں کا اور وصف بیان فرماتا ہے کہ جو تکلیفیں اللہ کی راہ میں انہیں پہنچتی ہیں یہ انہیں جھیل لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر جو انہیں توکل ہے ، اس میں کبھی فرق نہیں آتا ، اسی لئے دونوں جہان کی بھلائیاں یہ لوگ اپنے دونوں ہاتھوں سے سمیٹ لیتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 ہجرت کا مطلب ہے اللہ کے دین کے لئے اللہ کی رضا کی خاطر اپنا وطن، اپنے رشتہ دار اور دوست احباب چھوڑ کر ایسے علاقے میں چلے جانا جہاں آسانی سے اللہ کے دین پر عمل ہو سکے۔ اس آیت میں ان ہی مہاجرین کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے، یہ آیت عام ہے جو تمام مہاجرین کو شامل ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ ان مہاجرین کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنی قوم کی ایذاؤں سے تنگ آ کر حبشہ ہجرت کر گئے تھے۔ ان کی تعداد عورتوں سمیت ایک سو یا اس سے زیادہ تھی، جن میں حضرت عثمان غنی اور ان کی زوجہ۔ دختر رسول حضرت رقیہ بھی تھیں۔ 41۔ 2 اس سے رزق طیب اور بعض نے مدینہ مراد لیا ہے، جو مسلمانوں کا مرکز بنا، امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دونوں قولوں میں منافات نہیں ہے۔ اس لئے کہ جن لوگوں نے اپنے کاروبار اور گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی تھی، اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہی انھیں نعم البدل عطا فرما دیا۔ رزق طیب بھی دیا اور پورے عرب پر انھیں اقتدار و تمکن عطا فرمایا۔ 41۔ 3 حضرت عمر نے جب مہاجرین و انصار کے وظیفے مقرر کئے تو ہر مہاجر کو وظیفہ دیتے ہوئے فرمایا۔ ھَذَا مَا وَ عَدَکَ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا ' یہ وہ ہے جس کا اللہ نے دنیا میں وعدہ کیا ہے '۔ وما ادخر لک فی الآخرۃ افضل۔ اور آخرت میں تیرے لیے جو ذخیرہ ہے وہ اس سے کہییں بہتر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٢] ہجرت حبشہ :۔ یہ سورت چونکہ مکی ہے لہذا یہاں مہاجرین سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور یہ اسی (٨٠) کے قریب صحابہ کرام (رض) تھے جن پر قریش مکہ کی طرف سے مظالم ڈھائے جاتے رہے اور وہ مقدور بھر صبر سے برداشت کرتے رہے لیکن بالآخر قریش مکہ نے انھیں اس قدر نشانہ ستم بنایا کہ وہ اپنا گھر بار، مال و جائیداد اور عزیز و اقارب سب کچھ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور اللہ کے دین کی خاطر اپنے وطن مکہ کو چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ پھر یہی لوگ حبشہ سے دوبارہ ہجرت کرکے مدینہ اس وقت پہنچے جب خیبر فتح ہوچکا تھا۔ اس کے بعد اللہ نے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے نوازا اور یہی لوگ ان مشرکوں اور کافروں کے حاکم بن گئے جنہوں نے انھیں مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِي اللّٰهِ ۔۔ : ” هَاجَرُوْا “ ” ھَجَرَ یَھْجُرُ “ سے باب مفاعلہ ہے۔ ” ھَجَرَ “ اور ” ھَاجَرَ “ کے مفہوم میں فرق ہے۔ ” ھَجَرَ الْمَکَانَ “ ” اس نے فلاں جگہ چھوڑ دی “ ہوسکتا ہے اسے وہ پسند نہ رہی ہو اور وہ اپنے خیال میں اس سے بہتر جگہ چلا گیا ہو، جگہ نے اسے جانے پر مجبور نہیں کیا، وہ اپنی مرضی سے اسے چھوڑ گیا ہے، لیکن ” ھَاجَرَ “ یعنی باب مفاعلہ میں مقابلہ پایا جاتا ہے، یعنی قوم کی طرف سے مزاحمت اور مقابلے نے اسے وطن چھوڑنے پر مجبور کیا، وہ اپنی جگہ چھوڑنے پر ازخود راضی نہ تھا۔ (شعراوی) 3 اللہ کی توحید اور قیامت پر ایمان لانے والوں کا توحید اور قیامت کے منکروں کے ساتھ خوشی سے مل جل کر رہنا ممکن ہی نہ تھا، خصوصاً جب اہل ایمان تعداد اور قوت میں کمزور بھی تھے۔ اپنے وطن کو جہاں بیت اللہ بھی ہو، کون خوشی سے چھوڑ سکتا ہے ؟ اس لیے انھوں نے وطن چھوڑا تو دو وجہوں سے، ایک تو قوم کے ظلم کی وجہ سے، جیسا کہ فرمایا : (مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا) اور دوسرا اس لیے کہ اللہ کے دین پر عمل کرنا وطن میں ممکن نہ رہا، تو انھوں نے گھر بار، خویش، قبیلے، جائداد، غرض ہر چیز کو اللہ کی خاطر چھوڑ دیا اور ایسی جگہ چلے گئے جہاں وہ ظلم سے بھی بچ جائیں اور اللہ کے دین پر بھی عمل کرسکیں۔ چونکہ یہ سورت مکی ہے، اس لیے اس سے مراد وہ مسلمان ہیں جو کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ ان کی تعداد مردوں، عورتوں اور بچوں سمیت ایک سو یا کم و بیش تھی، جن میں عثمان غنی (رض) اور ان کی بیوی رقیہ (رض) (بنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی تھے، مگر لفظ عام ہونے کی وجہ سے اس میں ہر مہاجر شامل ہے، خواہ مکہ سے حبشہ کی طرف ہو یا مدینہ کی طرف، یا کسی بھی ظالم بستی سے امن کی بستی کی طرف۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس آیت میں حبشہ کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت کا پیشگی اشارہ ہو۔ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَـنَةً ۔۔ : ” بَوَّءَ یُبَوِّئُ “ (تفعیل) رہنے کی جگہ دینا، ٹھکانا دینا۔ اللہ تعالیٰ نے لام اور نون ثقیلہ دو تاکیدوں کے ساتھ یہ وعدہ فرمایا، چناچہ اس نے ان ناتواں اور غریب الوطن مہاجرین کو دنیا میں عزت، شرف، عظمت، حکومت، دولت غرض ہر چیز عطا فرمائی۔ وہ جزیرۂ عرب ہی کے نہیں، شام، مصر، عراق، فارس کے مالک بنے اور نصف صدی گزری تھی کہ وہ تمام دنیا پر غالب تھے۔ یہ بھی کوئی اجر صغیر نہیں، اجر کبیر ہے، جو دین کی اشاعت اور آخرت کی تیاری میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کبیر ہی کے مقابلے میں اکبر ہوتا ہے، نہ کہ صغیر کے مقابلے میں، اس لیے فرمایا، یقیناً آخرت کا اجر اکبر ہے، یعنی اس سے بھی بڑا، بلکہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی بہت فضیلت بیان فرمائی ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢١٨) ، آل عمران (١٩٥) اور سورة نساء (١٠٠) ۔ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : اس سے مراد تین طرح کے لوگ ہوسکتے ہیں : 1 کافر کہ وہ علم رکھتے ہوتے تو ایمان لے آتے۔ 2 مہاجر کہ وہ ہجرت کی فضیلت جانتے ہوتے تو انھیں بیحد خوشی ہوتی۔ 3 وہ مومن جنھوں نے ہجرت نہیں کی کہ وہ ہجرت کی فضیلت جانتے ہوتے تو ضرور ہجرت کرتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The verb: هَاجَرُ‌وا (hajaru) is a derivation from hijrat (pausal : hijrah) which literally means to leave one&s homeland. The leaving of one&s home-land done for the sake of Allah is an act of great obedience and worship in Islam. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: اَلھِجرۃ تَھدَمُ مَا کَانَ قَبلَھَا (&Hijrah demol¬ishes all sins that were before it& ). This Hijrah is Farcl (obligatory) and Wajib (necessary) under some situations while it is recommended as desirable and better (Mustahabb) under some others. Related injunctions have appeared in details under comments on verse 97 of Surah An-Nisa& أَلَمْ تَكُنْ أَرْ‌ضُ اللَّـهِ وَاسِعَةً (Was not the earth of Allah wide enough that you might have sought refuge in it? - 3:97) [ Ma` ariful-Qur&an, Volume II ] Mentioned here at this place are particular promises which Allah Ta’ ala has made to Muhajirin, those who do Hijrah, that is, leave their homeland for His sake. How does Hijrah bring Better Life in the Present World? In the verses cited above, two great promises have been made to Mu¬hajirin subject to some conditions: (1) To give them a good place right here in this world, and (2) To bless them with the greater reward of the Hereafter which is limitless. The expression: &a good place in the world& is highly comprehensive. It includes a good residence for the Muhajir (one who does Hijrah) as well as neighbours who are good. It also in¬cludes extended means of living, supremacy over hostile enemies, recog¬nition and fair name among people, and honour which continues through the family, and progeny. (Qurtubi) The background of the revelation of the verse is basically the first Hij¬rah which the noble Companions made to Ethiopea. Then, the probabil¬ity that it may include the Hijrah to Ethiopea as well as the Hijrah to al-Madinah al-Munawwarah which came after that. Mentioned here in this verse are the same Muhajirin to Ethiopea, or the Muhajirin to Madinah. Therefore, some scholars have said that this promise was for these blessed Sahabah (رض) only, that is, those who had made their Hijrah to Ethiopea, or those who had later done it to Madinah. As for the promise of Allah, it stood already fulfilled within the present world, something witnessed openly. Everyone saw how Madinah was made for them the real good place to live. Instead of hostile neighbours, they lived among those who were sympathetic, sharing and sacrificing. Enemies were con¬quered and subdued. Within a short period of time since their Hijrah, doors of ample sustenance were thrown open for them. The poor and needy of yester years became wealthy citizens of the day. Many coun¬tries of the world came under their sway. Such were their achiements in moral greatness and beauty of conduct that they remain receiving words of praise from friends and foes alike even to this day. Allah Ta` ala blessed them with great honour, and their generations as well. These were things that were to take place in this world, which they did. Now, the promise of the Hereafter shall also be fulfilled. But, says Abu Hayy¬an in his Tafslr Al-Bahr Al-Muhit: وَالَّذِینَ ھَاجَرُوا عَام فِی المُھَاجِرِینَ کَایٔنا مَّا کَانُوا فَیَشمَلُ اَوَّلَھُم وآخِرَھُم The expression: الَّذِينَ هَاجَرُ‌وا (And those who migrated) is general and inclusive of all those who leave their homeland whatever their country or time. Therefore, this includes all Muhajirin, from the very first ones down to the last among them who do their Hijrah for the sake of Allah right upto the Last Day, the day of Al-Qiyamah. (v. 5, p. 492) This is also as required by the general exegetic rule under which a commentator relies on the general sense of the word, even though there be a particular event or group as the prime cause of the revelation of the verse. Therefore, included in this promise are Muhajirin of the whole world and of all times - and the fulfillment of both these promises for all Muhajirin is certain. A similar promise has been made for Muhajirin in the following verse of Surah An-Nisa& وَمَن يُهَاجِرْ‌ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ يَجِدْ فِي الْأَرْ‌ضِ مُرَ‌اغَمًا كَثِيرً‌ا وَسَعَةً [ And whoever migrates in the way of Allah he shall find many a place to settle and wide dimension (of resources) - 4:100] particularly promised wherein are spatial abundance and extensive means. But, along with these pro¬mises, the Holy Qur&an has also put forth some qualifications of Muhaji¬rin and some conditions of Hijrah as well. Therefore, those deserving of the fulfillment of these promises can only be the Muhajirin who possess these qualifications and who have satisfied the desired conditions.

خلاصہ تفسیر : اور جن لوگوں نے اللہ کے واسطے اپنا وطن (مکہ) چھوڑ دیا (اور حبشہ چلے گئے) بعد اس کے کہ ان پر (کفار کی طرف سے) ظلم کیا گیا ( کیونکہ ایسی مجبوری میں وطن چھوڑنا بڑا شاق گذرتا ہے ہم ان کو دنیا میں ضرور اچھا ٹھکانا دیں گے (یعنی ان کو مدینہ پہنچا کر خوب امن و راحت دیں گے چناچہ بعد چندے مدینہ میں اللہ تعالیٰ نے پہنچا دیا اور اس کو وطن اصلی قرار دیا گیا اس لئے اس کو ٹھکانا کہا اور ہر طرح کی وہاں ترقی ہوئی اس لئے حسنہ کہا گیا اور حبشہ کا قیام عارضی تھا اس لئے اس کا ٹھکانا نہیں فرمایا) اور آخرت کا ثواب (اس سے) بدرجہا بڑا ہے (کہ خیر بھی ہے اور ابقیٰ بھی) کاش (اس اجر آخرت کی) ان (بےخبر کافروں) کو (بھی) خبر ہوتی (اور اس کے حاصل کرنے کی رغبت سے مسلمان ہوجاتے) وہ (مہاجرین ان وعدوں کے اس لئے مستحق ہیں کہ وہ) ایسے ہیں جو (ناگوار واقعات پر) صبر کرتے ہیں (چنانچہ وطن کا چھوڑنا گو ان کو ناگوار ہے لیکن بدون اس کے دین پر عمل نہیں کرسکتے تھے دین کے لئے وطن چھوڑا اور صبر کیا) اور ( وہ ہر حال میں) اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں (وطن چھوڑنے کے وقت یہ خیال نہیں کرتے کہ کھائیں پئیں گے کہاں سے) معارف و مسائل : تشریح و تفسیر : (آیت) اَلَّذِيْنَ هَاجَرُوْا ہجرت سے مشتق ہے ہجرت کے لغوی معنی ترک وطن کے ہیں ترک وطن جو اللہ کے لئے کیا جائے وہ اسلام میں بڑی اطاعت و عبادت ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الہجرۃ تھدم ماکان قبلہا یعنی ہجرت ان تمام گناہوں کو ختم کردیتی ہے جو انسان نے ہجرت سے پہلے کئے ہوں۔ یہ ہجرت بعض صورتوں میں فرض و واجب اور بعض صورتوں میں مستحب و افضل ہوتی ہے اس کے مفصل احکام تو سورة نساء کی آیت نمبر ٩٧ اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُھَاجِرُوْا فِيْھَا کے تحت میں بیان ہوچکے ہیں اس جگہ صرف ان وعدوں کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے مہاجرین سے کئے ہیں ، کیا ہجرت دنیا میں بھی فراخی عیش کا سبب ہوتی ہے ؟: آیات مذکورہ میں چند شرائط کے ساتھ مہاجرین کے لئے دو عظیم الشان وعدے کئے گئے ہیں اول تو دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دینے کا دوسرے آخرت کے بےحساب ثواب عظیم کا دنیا میں اچھا ٹھکانا ایک نہایت جامع لفظ ہے اس میں یہ بھی داخل ہے کہ مہاجر کو سکونت کے لئے مکان اور پڑوسی اچھے ملیں یہ بھی داخل ہے کہ اس کو رزق اچھا ملے دشمنوں پر فتح و غلبہ نصیب ہو عام لوگوں کی زبان پر ان کی تعریف اور بھلائی ہو عزت وشرف ملے جو ان کے خاندان اور اولاد تک چلے (قرطبی) آیت کا شان نزول اصالۃ وہ پہلی ہجرت ہے جو صحابہ کرام (رض) اجمعین نے حبشہ کی طرف کی اور یہ بھی احتمال ہے کی ہجرت حبشہ اور اس کے بعد کی ہجرت مدینہ منورہ دونوں اس میں داخل ہوں آیت میں یہاں انہی مہاجرین حبشہ یا مہاجرین مدینہ کا ذکر ہے اس لئے بعض علماء نے فرمایا کہ یہ وعدہ انہی حضرات صحابہ کرام (رض) اجمعین کے لئے تھا جنہوں نے حبشہ کی طرف یا پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ دنیا میں پورا ہوچکا جس کا سب نے مشاہدہ کرلیا کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ کو ان کا کیسا اچھا ٹھکانا بنادیا ایذاء دینے والے پڑوسیوں کے بجاے غمخوار ہمدرد وجاں نثار پڑوسی ملے دشمنوں پر فتح و غلبہ نصیب ہوا ہجرت کے تھوڑے ہی عرصہ گذرنے کے بعد ان پر رزق کے دروازے کھول دیئے گئے فقراء و مساکین مال دار ہوگئے دنیا کے ممالک فتح ہوئے ان کے حسن اخلاق حسن عمل کے کارنامے رہتی دنیا تک ہر موافق و مخالف کی زبان پر ہیں ان کو اور ان کی نسلوں کو اللہ تعالیٰ نے بڑی عزت وشرف بخشا یہ تو دنیا میں ہونے والی چیزیں تھیں جو ہو چکیں اور آخرت کا وعدہ پورا ہونا بھی یقینی ہے لیکن تفسیر بحر محیط میں ابو حیان کہتے ہیں۔ والذین ھاجروا عام فی المھاجرین کائنا ماکانوا فیشمل اولہم واخرہم (ص ٤٩٢ ج ٥) الذین ہاجروا کا لفظ تمام مہاجرین عالم کے لئے عام اور شامل ہے کسی بھی خطے اور زمانہ کے مہاجر ہوں اس لئے یہ لفظ مہاجرین اولین کو بھی شامل ہے اور قیامت تک اللہ کے لئے ہر ہجرت کرنے والا اس میں داخل ہے۔ عام تفسیری ضابطہ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آیت کا شان نزول اگرچہ کوئی خاص واقعہ اور خاص جماعت ہو مگر اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے اس لئے وعدہ میں تمام دنیا کے اور ہر زمانہ کے مہاجرین بھی شامل ہیں اور یہ دونوں وعدے تمام مہاجرین کے لئے پورا ہونا امر یقینی ہے۔ اسی طرح کا ایک وعدہ مہاجرین کے لئے سورة نساء کی اس آیت میں کیا گیا ہے وَمَنْ يُّھَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَةً جس میں وسعت مکانی اور فراخی عیش خاص طور سے موعود ہیں مگر قرآن کریم نے ان وعدوں کے ساتھ مہاجرین کے کچھ اوصاف اور ہجرت کی کچھ شرائط بھی بیان فرمائی ہیں اس لئے ان وعدوں کے مستحق وہی مہاجرین ہو سکتے ہیں جو ان اوصاف کے حامل ہوں اور جنہوں نے مطلوبہ شرائط پوری کردی ہوں ، ان میں سب سے پہلی شرط تو فی اللہ کی ہے یعنی ہجرت کرنے کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہو اور میں دنیاوی منافع تجارت، ملازمت وغیرہ اور نفسانی فوائد پیش نظر نہ ہوں دوسری شرط ان مہاجرین کا مظلوم ہونا ہے مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا تیسرا وصف ابتدائی تکالیف و مصائب پر صبر اور ثابت قدم رہنا ہے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِي اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَـنَةً ۭ وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ 41؀ۙ هجر الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی: وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء/ 34] كناية عن عدم قربهنّ ، وقوله تعالی: إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان/ 30] فهذا هَجْر بالقلب، أو بالقلب واللّسان . وقوله : وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل/ 10] يحتمل الثلاثة، ومدعوّ إلى أن يتحرّى أيّ الثلاثة إن أمكنه مع تحرّي المجاملة، وکذا قوله تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] ، وقوله تعالی: وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر/ 5] ، فحثّ علی المفارقة بالوجوه كلّها . والمُهاجرَةُ في الأصل : مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] ، وقوله : وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . وقوله : أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء/ 97] ، وکذا المجاهدة تقتضي مع العدی مجاهدة النّفس کما روي في الخبر : «رجعتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» «1» ، وهو مجاهدة النّفس . وروي : (هاجروا ولا تهجّروا) «2» أي : کونوا من المهاجرین، ولا تتشبّهوا بهم في القول دون الفعل، والهُجْرُ : الکلام القبیح المهجور لقبحه . وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» «3» وأَهْجَرَ فلان : إذا أتى بهجر من الکلام عن قصد، ( ھ ج ر ) الھجر والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء/ 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے اور آیت : ۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان/ 30] کہ میری قوم نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ میں دل یا دل اور زبان دونوں کے ذریعہ جدا ہونا مراد ہے یعنی نہ تو انہوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ ہی اس کی تعلیمات کی طرف دھیان دیا اور آیت : ۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل/ 10] اور وضع داری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہو ۔ میں تینوں طرح الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی جملا کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ حسن سلوک اور مجاملت کیس صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے ۔ اس طرح آیت وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ میں بھی ترک بوجوہ ثلا ثہ مراد ہے اور آیت : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر/ 5] اور ناپاکی سے دور رہو ۔ میں بھی ہر لحاظ سے رجز کو ترک کردینے کی ترغیب ہے ۔ المھاجر رۃ کے اصل معیی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے ) اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ اور فرمایا : ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء/ 97] کیا اللہ تعالیٰ کی ( اتنی لمبی چوڑی ) زمین اس قدر گنجائش نہیں رکھتی تھی کہ تم اس میں کسی طرف کو ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ہاں جس طرح ظاہری ہجرت کا قتضا یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کو خیر باد کہہ دے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں بھی مجاہدۃ بالنفس کے معنی پائے جاتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں مروی ہے آنحضرت نے ایک جہاد سے واپسی کے موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ۔ کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کیطرف لوٹ رہے ہو یعنی دشمن کے ئ ساتھ جہاد کے بعد اب نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے حسنة والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، ( ح س ن ) الحسن الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔ اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤١۔ ٤٢) اور جن حضرات نے اطاعت خداوندی میں مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی، بعد اس کے کہ ان کو مکہ والوں نے طرح طرح کی تکالیف دیں جیسا کہ حضرت عمار بن یاسر (رض) ، حضرت بلال (رض) ، حضرت صہیب (رض) اور ان کے ساتھی رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ ہم ان کو مدینہ منورہ میں ضرور خوب اچھا امن وامان اور غنیمت والا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا ثواب اس دنیاوی ثواب سے کئی درجے بہتر ہے، کاش یہ کفار بھی اس کو سمجھتے اور حضرت عمار بن یاسر (رض) اور ان کے ساتھی ایسے ہیں کہ کافر کی تکالیف پر صبر کرتے ہیں اور اپنے پروردگار کے علاوہ کسی دوسرے پر بھروسا نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37. This is to comfort the Muslim emigrants from Makkah to Habash, who were forced to leave their homes because of the unbearable persecution they suffered at the hands of the disbelievers. The change of the scene from the disbelievers to the emigrants to Habash contains a subtle warning to the disbelievers that they should not remain under any delusion that they would get off free from punishment for their cruel behavior towards those Muslims, so as to say: O cruel people! There shall be Resurrection to reward the oppressed believers and to punish you for your persecution of them.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :37 یہ اشارہ ہے ان مہاجرین کی طرف جو کفار کے ناقابل برداشت مظالم سے تنگ آکر مکے سے حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے ۔ منکرین آخرت کی بات کا جواب دینے کے بعد یکایک مہاجرین حبشہ کا ذکر چھیڑ دینے میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے ۔ اس سے مقصود کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے کہ ظالمو! یہ جفاکاریاں کرنے کے بعد اب تم سمجھتے ہو کہ کبھی تم سے باز پرس اور مظلوموں کی داد رسی کا وقت ہی نہ آئے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

19: جیسا کہ اس سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، یہ آیت ان صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو کفار کے ظلم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ البتہ اس میں جو عام الفاظ استعمال ہوئے ہیں، وہ ہر اس شخص کو شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اپنا وطن چھوڑ کر ہجرت کرے۔ اور آخر میں جو فرمایا گیا کہ ’’ کاش یہ لوگ جان لیتے ‘‘۔ اس سے مراد بظاہر یہ مہاجرین ہی ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کو اس اجر کا علم ہوجائے تو بے وطن ہونے سے انہیں جو تکلیف ہو رہی ہے وہ بالکل باقی نہ رہے۔ اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ان سے مراد کافر لوگ ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ کاش اس حقیقت کا علم ان کافروں کو بھی ہوجائے تو وہ اپنے کفر سے توبہ کرلیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤١۔ ٤٢۔ اس آیت میں اللہ پاک نے ان لوگوں کی جزا کی خبر دی جنہوں نے محض خدا کے واسطے اپنے گھر بار خویش اقارب سب کو چھوڑ اس لئے فرمایا کہ ان ہجرت کرنے والوں کو ہم دنیا ہی میں بہت اچھا بدلہ دیں گے اور بہت ہی اطمینان کی جگہ ان کے رہنے کو عطا کریں گے۔ قتادہ کے موافق یہ آیت ان مہاجروں کی شان میں اتری ہے جو اول اول مکہ سے ہجرت کر کے ملک حبش میں جارہے تھے جن کی تعداد کل مرد و عورت ملا کر اسی کی تھی ان کے حق میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ انہیں اچھی جگہ بسنے کو دیں گے۔ لنبوئنھم فی الدنیا حسنۃ کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد مدینہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کی ایذا رسانی سے گھبرا کر ابھی تو یہ لوگ حبش کو چلے گئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کے ہمیشہ کے لئے رہنے کا انتظام اس بستی میں فرما دے گا جس کا نام مدینہ ہے جہاں خوشحالی عزت حکومت سب چیزیں ان کو مل جاویں گے پھر اللہ پاک نے اس دنیا کی جزا کو عقبیٰ کی جزا کے مقابل میں ہیچ ٹھہرا کر فرمایا کہ آخرت میں ان لوگوں کے لئے جو بدلہ جنت میں ہے وہ اس دنیا کی جزا سے کہیں بڑھ کر ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جنت میں نیک بندوں کے لئے جو کچھ سامان کیا گیا ہے وہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کانوں سے سنا نہ کسی کے دل میں اس کا تصور گزر سکتا ہے ١ ؎۔ یہ حدیث لو کانوا یعلمون کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس ثواب آخرت کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا فرمایا ہے اگر ان ہجرت کرنے والوں کو اس کا تفصیلی حال معلوم ہوجاتا تو مخالفوں کی ایذا رسانی پر صبر کرنے کی ان کو زیادہ ہمت ہوجاتی لیکن حکمت الٰہی اسی کی مقتضی ہے کہ جنت کی نعمتیں قیامت کے دن ایک ہی دفعہ نیک بندوں کی نظروں سے گزریں تاکہ امید سے زیادہ نعمتیں پانے سے ان کا دل حد سے زیادہ خوش ہوجاوے ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ بلال، عمار، صہیب، مقداد (رض) غرض اس طرح کے غریب مسلمانوں کو مشرکین مکہ طرح طرح سے ایذا دیتے تھے تاکہ یہ لوگ اسلام سے پھر جاویں لیکن یہ لوگ اسلام پر قائم رہے۔ یہ حدیث الذین صبروا وعلی ربھم یتوکلون کی گویا تفسیر ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی راہ میں مخالفوں کی ایذا رسانی اور گھر بار چھوڑنے کی تکلیف پر صبر کیا اور اس صبر کے اجر کا بھروسہ اللہ پر رکھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو دین و دنیا کی وہ خوبیاں عنایت فرمائیں جس کا ذکر شروع آیت میں ہے۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٩٥ باب صفۃ الجنتہ واھلھا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:41) لنبوئنہم۔ مضارع بلام تاکید ونون ثقیلہ جمع متکلم۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب یوء یبوء تبوئۃ (باب تفعیل) سے ہم ان کو ضرور جگہ دیں گے۔ ہم ان کو ضرور ٹھہرائیں گے۔ ہم ان کو ضرور اتاریں گے۔ اور جگہ آیا ہے : ولقد بوأنا بنی اسرائیل مبوأ صدق۔ (10:93) اور ہم نے بنی اسرائیل کو رہنے کے لئے عمدہ جگہ دی۔ لو کانوا یعلمون۔ میں ضمیر فاعل جمع مذکر غائب کافروں کی طرف راجع ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 مراد ہیں وہ مسلمان جو کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ (شوکانی) 7 چناچہ اللہ تعالیٰ نے انناتواں اور غریب الوطن مہاجرین کو دنیا میں عزت، شرف، عظمت، حکومت، دولت ہر چیز عنایت فرمائی۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٦) اسرارومعارف ایسے لوگ جنہوں نے اللہ کریم کے لیے وطن چھوڑا کہ وہاں ان پر ظلم ہوتا تھا انہیں ہم دنیا میں بھی بہترین ٹھکانہ دین گے اور آخرت کا انعام تو بہت ہی بڑا ہے ایسے لوگوں کے لیے جو ثابت قدم رہے اور جملہ اسباب اختیار کرکے بھروسہ اللہ پر رکھا یعنی کوئی ایسا سبب اختیار نہ کیا جس میں اللہ جل جلالہ کی نافرمانی ہو اس آیہ مبارکہ میں ہجرت کی فضیلت اور مہاجرین دنیا وآخرت میں انعامات کا وعدہ ہے ہجرت کیا ہے ۔ (ہجرت اور اس پر انعامات کا وعدہ) ہجرت سے مراد ترک وطن ہے اور یہاں فی اللہ کی شرط لگا کر ایسی حالت متعین فرما دی کہ یہ ترک وطن اللہ جل جلالہ کی رضا کے لیے اور دین کے تحفظ کے لیے ہو ، اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کا وہ حال ارشاد فرمایا ہے کہ اہل مکہ کے مظالم سے تنگ آکر بحکم الہی انہوں نے حبشہ کو ہجرت کی اور پھر مدینہ منورہ کو ہجرت کی تو اس پر خلوص کی شرط لگا کر دو وعدے فرمائے اول انہیں دنیا میں بہترین ٹھکانہ دینے کا اور دوم آخرت کے بہت بڑے انعام کا لہذا مدینہ منورہ کا قیام نصیب ہونا جس میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی گئی اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کفار کے ظلم وستم سے نہ صرف مامون ہوگئے بلکہ انہیں کفار پر غلبہ نصیب ہوا مکہ مکرمہ فتح ہوا پھر سارا عرب فتح ہوا اور پھر عہد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین میں ہی روئے زمین پر تاریخ انسانی میں سب سے بڑی ریاست منصہ شہود پر آئی جس کی حدود چین سے ہسپانیہ تک اور سائبریا سے افریقہ تک پھیلی ہوئی تھیں نیز غریب اور فقیر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین بھی بہت دولت مند ہوگئے اور اللہ کریم نے انہیں فراخی بخشی یہ سب کے سب تاریخی واقعات ان کے خلوص کی گہرائی پر شاہد ہیں اور ہر انسان کے روبرو موجود ہیں رہی بات آخرت کی تو اہل ایمان جانتے ہیں کہ یہ شرف بھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین ہی کا ہے کہ اللہ نے رضی اللہ عنھم فرما کر آخرت میں سب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سے اپنی رضا مندی کا اعلان فرما دیا اور یوں انہیں امن سکون عزت وشان حکومت وسلطنت اور فراخی رزق کے ساتھ وہ عظمت نصیب ہوئی کہ جب تک معمورہ عالم آباد ہے لوگ ان کی عظمت کے گیت گاتے رہیں گے آیہ کریمہ میں صبر اور توکل علی اللہ کا بیان اس بات کا اشارہ ہے کہ اگرچہ ہجرت کرتے ہوئے یا چندے بعد تک بھی تکالیف کا سامنا کرنا پڑے وہ اپنی بات پر اللہ جل جلالہ کے بھروسے جمے رہتے ہیں اور اگر مشکلات نہ ہوتیں صبر اور توکل کی ضرورت نہ ہوتی تو ہر کوئی ہجرت کرتا یہی ابتدائی مشکلات ہی تو امتحان کا سبب اور خلوص کی پرکھ بن گئیں ، (ترک وطن اور ہجرت کی اقسام) امام قرطبی (رح) نے ان کو تحریر فرمایا ہے جس میں مندرجہ ذیل اقسام اور ان کے احکام دیئے گئے ہیں ، (اول) دارالکفر سے دارالاسلام کو ہجرت جب کہ دارالکفر میں امن وسلامتی نہ ہو یا آبرو کو خطرہ ہو یا دینی فرائض ادا کرنا مشکل ہوں تو وہاں سے ہجرت فرض ہے اور یہ ہجرت عہد رسالت میں فرض ہوئی جو بشرط استطاعت قیام قیامت تک فرض ہے نہ جانے جو لوگ پاکستان ریاست چھوڑ کر برطانیہ یورپ امریکہ منتقل ہوتے ہیں ان کے پاس کونسی دلیل ہے جب کہ وہاں نہ ایمان ہے نہ امن ہے نہ غذا حلال دستیاب نہ عزت کی حفاظت اور نہ ہی فرائض کی ادئیگی آسان ہے ۔ (دوم) ایسی جگہ سے نکل جانا جہاں بدعات رواج پالیں خصوصا جہاں متقدمین اور سلف صالحین کی توہین کی جاتی ہو وہاں سے ہجرت کرنا ضروری ہوگا یا پھر ایسے منکرات کو روک سکے ۔ (سوم) ایسی جگہ سے ہجرت کرنا جہاں حرام کا غلبہ ہو کہ طلب حلال ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ (چہارم) جہاں دشمن سے جسمانی اذیت کا خطرہ ہو۔ (پنجم) اگر صحت کو خطرہ یا آب وہوا راس نہ آئے تو سفر کرنے کی اجازت ہے ۔ (ششم) ایسی جگہ جہاں چوروں اور ڈاکوؤں سے امن نہ ہو اور مال لٹنے کا خطرہ ہو یہ سب سفر ہجرت میں داخل ہوں گے علاوہ ازیں سفر کرنے کی مختلف اقسام مذکورہ ہیں جو باعث ثواب ہیں جیسے حصول عبرت کے لیے حج کے لیے تجارت کے لیے یا جہاد وغیرہ کے لیے بلکہ عزیزوں سے ملاقات کے لیے سفر بھی باعث ثواب ہے جب یہ سارے حدود شرعی کے مطابق ہوں کفار کا یہ اعتراض کہ بھلا ایک انسان جو کھاتا پیتا سوتا جاگتا ہے کیسے اللہ جل جلالہ کا نبی اور رسول ہو سکتا ہے یہ کام تو کوئی ایسی مخلوق ہی کرسکتی ہے جو انسان سے بہت بلند مقام رکھتی ہو ان کے خیال میں جیسے فرشتہ یا اسی خیال کو آج کل جہلا نے الٹ لیا ہے ۔ (بشریت انبیائ) کہ وہ بشریت کا اقرار کرکے نبوت کا انکار کرتے تھے اور یہ نبوت کا اقرار کرتے ہیں جبکہ بشریت کا انکار کردیتے ہیں العیاذ باللہ ، تو فرمایا کہ محض جاہلانہ باتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں تم کسی بھی صاحب علم سے پوچھ کر دیکھو جو ملل سابقہ کا علم رکھتا ہو کہ ہر عہد اور ہر قوم میں انسانوں ہی کو نبی بنایا گیا اور بشر پر ہی یہ انعام ہوا کہ اللہ کی کتاب نازل ہوئی اور واضح معجزات عطا ہوئے جب تم نہیں جانتے تو جن کے پاس علم ہے ان سے دریافت کرلو ، ایسی آیہ کریمہ پر تقلید پر اثبات کیا گیا ہے کہ نہ جاننے والوں کیلئے ضروری ہے کہ ان لوگوں سے پوچھیں جو جانتے ہیں اور یہی طریقہ ان لوگوں کا بھی ہے تقلید کا انکار کرتے ہیں ۔ (تقلید) تقلید کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ جو لوگ خود عالم نہیں ہیں وہ علماء سے فتوی حاصل کرکے اس پر عمل کریں اور ظاہر ہے کہ انہیں عالم پر اعتماد ہی کرنا ہوگا ورنہ اگر انہیں دلائل بیان بھی کئے جائیں تو وہ سمجھ نہیں سکتے ہاں ایسے لوگ جو قرآن وحدیث سے دلائل کو سمجھنے کو اہلیت رکھتے ہیں اور متقدمین کی آراء سے واقف ہیں وہ اپنی صوابدید پر عمل کریں مگر جہاں ضرورت اجتہاد کی ہوگی وہاں انہیں بھی کسی مجتہد کی طرف متوجہ ہونا پڑیگا ، رہا یہ سوال کہ ایک ہی شخص کی تقلید کیوں کی جائے تو معاملہ انتظامی ہے ۔ rnّ (شخصی تقلید) کہ اگر ہر شخص ہر عالم کی تقلید میں آزاد ہوگا تو ہر طرف سے ایسے احکام تلاش کرے گا جو اس کی خواہش کے مطابق ہوں اور شریعت کے نام پر خواہشات کی تکمیل تو ویسے ہی حرام ہے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی ایک مجتہد کی تقلید کرنے کو کہا جاتا ہے اس سے زیادہ تقلید کی کوئی حیثیت ہے نہ حاجت اور نہ اس کے سبب گروہ بندی کی ضرورت ۔ (قرآن حکیم کو سمجھنے کیلئے ارشادات رسالت کی ضرورت ہے) پھر فرمایا کہ آپ پر بھی کتاب نازل فرمائی کہ آپ لوگوں پر اسے بیان کریں گویا جس طرح الفاظ صرف آپ سے سب کو پہنچے ایسے معانی بیان فرمانا یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام ومنصب ہے اور ہر عربی دان محض قواعد عربی سے قرآن حکیم کے معانی متعین نہیں کرسکتا ، لہذا آج بھی اگر وہی معانی لیے جائیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمائے تو گروہ بندی نہ رہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہر قول وفعل قرآن ہی کی تفسیر ہے جیسے علامہ شاطبی (رح) نے موافقات میں ثابت فرمایا ہے کہ ارشاد ہے (آیت) ” انک لعلی خلق عظیم “۔ اور سیدہ عائشہ الصدیقہ (رض) نے فرمایا ” کان خلقہ القرآن “ کہ آپ کے تمام افعال بھی قرآن ہی کی تعبیرات تھیں اور بعض احکام کا قرآن میں ذکر تک نہیں مگر آپ کے قلب اطہر پر اتارے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمائے یا جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجتہاد فرمایا تو وحی نے تردید کردی یا تبدیلی کردی گئی تو حاصل یہ کہ حدیث رسول بھی قرآن کریم ہی جیسی عظمت رکھتی ہے اور اس کا انکار کتاب اللہ کے انکار کے برابر ہے لہذٓ ارشاد ہوا کہ لوگوں کو ان امور میں پوری طرح غور وفکر سے کام لینا چاہئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حیثیت کو قبول کرنا خود ان کے لیے بہت ضروری ہے ورنہ کیا یہ اپنے برے کرتوتوں کے نتائج سے بےفکر ہوگئے ہیں اس بات سے نہیں ڈرتے کہ اللہ کریم انہیں زمین میں دھنسا دے یا کوئی ایسی وبا بھیج دے جو ان کے گمان میں بھی نہ ہو جیسے پچھلے برسوں میں امریکہ میں شہروں کے شہر زمین میں دھنس گئے اور آج کل لاکھوں افراد ایڈز کا شکار ہو رہے ہیں جسے کوئی سمجھ ہی نہیں پارہا ۔ یا اللہ جل جلالہ کا عذاب انہیں چلتے پھرتے اپنی گرفت میں لے لے جسے روکنا ان کے بس میں نہ ہو ، یا انہیں طرح طرح سے خوفزدہ کیا جائے کہ آپ کا رب بہت درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے گویا خوف سے بھی توبہ کرلیں تو اللہ کریم کی رحمت کو پالیں یہ بھی اس کا بہت بڑا احسان ہے ۔ ورنہ یہ سب تو سامنے ہے کہ اللہ کی ساری تخلیق کے سائے درختوں اور پہاڑوں کی چھاؤں کس طرح دائیں بائیں ڈھل کر اللہ جل جلالہ کے نظام میں اپنی اطاعت اور اپنے سجدوں کا ثبوت پیش کر رہی ہے اور جو کوئی جاندار زمینوں میں ہے یا آسمانوں میں جانور ہے یا نوری مخلوق فرشتے سب اللہ کریم ہی کو سجدہ کرتے ہیں فرشتے اپنی ساری شان اور عظمت کے باوجود اس کی بارگاہ میں لرزاں وترساں رہتے ہیں اور ہر حال میں ہر بات میں اس کی اطاعت کرتے ہیں ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 41 تا 42 ھاجروا جنہوں نے ہجرت کی۔ ظلموا ظلم کیا گیا۔ نبوء ہم ٹھکانا دیں گے۔ اکبر بڑا، بڑھ کر۔ یتوکلون وہ بھروسہ کرتے ہیں۔ تشریح : آیت نمبر 41 تا 42 نبی کریم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دلی خواہش اور تمنا تھی کہ تمام کفار و مشرکین اس غلط راستے کو چھوڑ کر ایمان قبول کرلیں۔ اس کے لئے آپ دن رات جدوجہد فرماتے تھے صبح ہو یا شام آپ کو جہاں اور جیسے موقع ملتا آپ ہر ایک کو سمجھاتے رہتے۔ دوسری طرف کفار عرب اپنی ضد ، ہٹ دھرمی اور شیطانی اعمال میں اس قدر آگے جا چکے تھے کہ وہ حق و صداقت کی کسی بات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے شروع شروع میں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑایا۔ جملے کسے، ہر طرح کی غلط فہمیاں پیدا کیں۔ اس کے بعد طرح طرح سے ستانا شروع کیا وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر طرح کی اذیتیں پہنچاتے اور طرح طرح کے سوالات کرتے رہتے تھے۔ صحابہ کرام پر انہوں نے ناقابل برداشت مظالم کرنے شروع کردیئے۔ جب ان کے ظلم و ستم کی انتہا ہوگئی تب آپ کے جاں نثار صحابہ نے اپنے دین کی حفاظت کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت سے مکہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ سب سے پہلے سولہ مردوں اور عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا۔ اس پہلے قافلے میں حضرت عثمان غنی کے علاوہ حضرت رقیہ بنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شریک تھیں۔ اس کے بعد ایک سو افراد پر مشتمل ایک اور قافلے نے ہجرت فرمائی جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیار بھی شریک تھے۔ ان تمام صحابہ و صحابیات نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنوید کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ قرآن کریم میں ان ہی حضرات کی شان میں یہ آیات نازل ہوئیں فرمایا کہ : 1) جن لوگوں نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور دین اسلام کی سربلندی کے لئے اپنا گھر بار کاروبار اور رشتہ داریوں کو چھوڑ کر ہجرت کی اور ہر طرح کے ظلم و ستم کو برداشت کیا ان کے لئے دنیا میں بہترین ٹھکانا ہے اور آرت میں تو ان کو بہت عظیم انعامات عطا کئے جائیں گے۔ کاش اس حقیقت کو یہ منکرین اور مشرکین جان لیتے فرمایا کہ وہ لوگ جنہوں نے صبر کیا۔ حالات کی سختی کو برداشت کیا اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر نتائج سے بےپرواہ اللہ کی ذات پر بھروسہ کیا ان کے لئے دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں مقدر کردی گئی ہیں ۔ صحابہ کرام اسی طرح ہجرت فرماتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملتے ہی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ اس ہجرت میں صرف سیدنا ابوبکر صدیق آپ کے ساتھ تھے۔ جیسے ہی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق معلوم ہوا کہ آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کرلی ہے تو صحابہ کرام بھی حبشہ سے مدینہ منورہ کی طرف آنا شروع ہوگئے۔ اللہ نے مدینہ منورہ کے بہت سے لوگوں کو ہدایت نصیب فرمائی اور انہوں نے صحابیت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت حاصل کی۔ اس طرح مہاجرین و انصار کو اللہ نے بہترین ٹھکانا عطا فرمایا اور اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ حبشہ کو چلے گئے۔ 1۔ یعنی ان کو مدینہ پہنچا کر خوب امن و راحت دیں گے چناچہ بعد چندے اللہ تعالیٰ نے پہنچا دیا اور اس کو اصلی وطن قرار دیا گیا اس لیے اس کو ٹھکانا کہا اور ہر طرح کی وہاں سے ترقی ہوئی اس لیے حسنہ کہا گیا اور حبشہ کا قیام عارضی تھا اس لیے اس کو ٹھکانا نہیں کہا۔ 2۔ اور اس کے حاصل کرنے کی رغبت سے مسلمان ہوجاتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جب انسان آخرت کا منکر ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کی قوت و سطوت کا فکری یا عملی طور پر انکار کردے تو وہ ظالم بن جاتا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ ظالم لوگ توحید کا عقیدہ رکھنے والے اور صاحب کردار لوگوں پر ظلم کیا کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مظلوم ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب سے دنیا معرض وجود میں آئی ہے اسی وقت سے توحید و رسالت اور آخرت کا عقیدہ رکھنے والوں پر مظالم ڈھائے جاتے رہے یہاں تک کہ انہیں اپنا گھر بار چھوڑنا پڑاصاحب عزیمت لوگوں نے سب کچھ برداشت کرلیا۔ مگر حق پر قائم اور دائم رہے۔ ان کو خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرور انہیں دنیا میں سرخرو کرنے کے ساتھ اپنی نعمتوں سے نوازتے ہوئے آخرت میں انہیں عظیم اجر سے نوازاجائے گا۔ کاش ! لوگ اس حقیقت کو جان جائیں۔ یہ جزا ان لوگوں کو دی جائے گی جنہوں نے اپنے رب پر اعتماد کرتے ہوئے حق پر استقامت اور ظلم پر صبر و حوصلہ اختیار کیا۔ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہ ایسی پل صراط ہے جس کی دھار تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے۔ ہجرت کی تکالیف و مشکلات ایمان سے خالی دل کو ننگا کردیتی ہیں۔ یہ ایسا ترازو ہے جس میں ہر آدمی نہیں بیٹھ سکتا۔ اس پیمانے سے کھرے کھوٹے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے مہاجرین کو اصحاب صدق کے لقب سے نوازا ہے۔ (اَلَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ أُولٓءِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ )[ الحشر : ٨] ” اور جو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے نکالے گئے یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں۔ “ (وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا فِی اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّءَنَّہُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّلَأَجْرُ الْآخِرَۃِ أَکْبَرُ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ )[ النحل : ٤١، ٤٢] ” جو ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کرگئے، ان کو ہم دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔ کاش وہ جان لیں۔ وہ لوگ جنہوں نے صبر کیا اور جو اپنے رب کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ “ (وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ آوَوْا وَّنَصَرُوْا أُولٓءِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ)[ الانفال : ٧٤] ” اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اللہ کے راستے میں گھربار چھوڑا اور جہاد کیا اور جنہوں نے مہاجرین کو پناہ دی اور ان کی مدد کی یہی لوگ سچے اور ایمان دار ہیں۔ ان ہی کے لیے بخشش اور بہترین رزق ہے۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ اشْتَکَی فُقَرَاءُ الْمُہَاجِرِینَ إِلَی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا فَضَّلَ اللَّہُ بِہِ عَلَیْہِمْ أَغْنِیَاءَ ہُمْ فَقَالَ یَا مَعْشَرَ الْفُقَرَاءِ أَلاَ أُبَشِّرُکُمْ أَنَّ فُقَرَاءَ الْمُؤْمِنِینَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ أَغْنِیَاءِہِمْ بِنِصْفِ یَوْمٍ خَمْسِمِاءَۃِ عَامٍ )[ رواہ ابن ماجۃ : باب مَنْزِلَۃِ الْفُقَرَاءِ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ فقیر مہاجرین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی کہ اغنیا کو ہم پر فضیلت حاصل ہے آپ نے فرمایا اے فقیروں کی جماعت کیا میں تمہیں خوشخبری نہ دے دوں کہ فقیر مومن جنت میں اغنیاء سے ڈھائی سو سال پہلے داخل ہوں گے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دنیا میں بہترین ٹھکانہ ملے گا۔ ٢۔ مومنین کو ہجرت کے عوض آخرت میں عظیم اجر سے نوازا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن صبر اور توکل علی اللہ کے فوائد : ١۔ اللہ صبر اور توکل کرنے والوں کو اجر عظیم سے نوازے گا۔ (النحل : ٤١۔ ٤٢) ٢۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہے۔ (الطلاق : ٣) ٣۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

منکرین اور مکذبین کے بالمقابل ذرا مومنین صادقین کی ایک جھلک بھی دکھائی جاتی ہے جو نہ صرف اپنے نظریہ حیات پر پختہ ایمان رکھتے ہیں بلکہ اس کے لئے اپنا مال اور اپنا ملک چھوڑ کر ہجرت بھی کرتے ہیں اور یہ کام وہ صرف رضائے الٰہی کی خاطر کرتے ہیں۔ آیت نمبر ٤١ تا ٤٢ یہ لوگ جنہوں نے اپنے ملک و مال کو چھوڑ کر ہجرت کی ، اپنی جائیداد اور محبب آبائی وطن سے دستکش ہوگئے۔ انہوں نے ملک ، رشتہ داروں اور اپنی محبوب یادوں کی قربانی دی۔ یہ لوگ دار آخرت میں عوضانہ کے مستحق ہیں۔ انہوں نے جو جو قربانیاں دیں اس کا اجر تو انہیں ملنا چاہئے۔ پھر یہ مال اور ملک انہوں نے خوشی سے نہیں چھوڑا بلکہ ظلم سے تنگ آکر چھوڑا۔ اگر یہاں انہوں نے اپنی اچھی رہائش گاہیں چھوڑیں تو لازم ہے کہ دنیا میں بھی ان کو ان حالات سے اچھے حالات نصیب ہوں۔ لنبوئنھم فی الدنیا حسنۃ (١٦ : ٤١) ” ان کو ہم دنیا میں بھی اچھا ٹھکانا دیں گے “۔ اور آخرت میں بھی ان کو ہم اچھے مقامات پر ٹھہرائیں گے۔ ولاجر الاخرۃ اکبر (١٦ : ٤١) ” اور آخرت کا اجر بہرحال بڑا ہے “۔ اے کاش کہ لوگ اس بات کو جانتے۔ الذین صبروا وعلی ربھم یتوکلون (١٦ : ٤٢) ” جنہوں نے صبر کیا اور جو اپنے رب کے بھروسے پر کام کر رہے ہیں “۔ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے ، اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور اسی کی طرف متوجہ ہیں۔ اگر قیامت نہ ہو تو ایسے لوگوں کا اجر کہاں ان کو ملے گا۔ ٭٭٭ اس سے قبل مشرکین کے عذرات کو رد کرتے وقت یہ کہا گیا کہ اللہ کی مرضی نہیں ہے کہ تم یا تمہارے آباء شرک کرو ، ورنہ وہ رسول کیوں بھیجتا۔ جو ہر امت میں بھیجے گئے۔ یہاں اب رسولوں کے منصب کے فرائض ذرا تفصیل سے بیان کئے جاتے ہیں اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض کا بھی تعین کیا جاتا ہے ، اور حکم دیا جاتا ہے کہ وہ جو دعوت دے رہے ہیں اگر تم نے اس کا انکار کیا تو اس کے نتائج اچھے نہ ہوں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فی سبیل اللہ ہجرت کرنے والوں سے دنیا و آخرت کی خیر و خوبی کا وعدہ مکہ معظمہ میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے توحید کی دعوت دینا شروع کی تو مشرکین مکہ کو بہت زیادہ ناگوار ہوا یہ لوگ آپ کے بھی دشمن ہوگئے اور جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے ان سے بھی دشمنی کرتے تھے، شروع میں عموماً ایسے لوگوں نے اسلام قبول کیا جو دنیاوی اعتبار سے بڑے نہیں سمجھے جاتے تھے یہ لوگ پردیسی تھے مالی اعتبار سے کمزور تھے اور ان میں بعض غلام تھے مکہ کے مشرک انہیں مارتے پیٹتے تھے اور بہت تکلیف پہنچاتے تھے۔ لہٰذا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کو حبشہ جانے کی اجازت دے دی، حبشہ میں نصرانی حکومت تھی یہ حضرات وہاں پہنچے آرام سے رہنے لگے لیکن مکہ معظمہ کے مشرکوں نے وہاں بھی پیچھا کیا وہاں جاکر بادشاہ کو بہکایا اور ورغلایا اور کہا کہ ہمارے طن کے کچھ لوگ جو نو عمر ہیں اور بیوقوف ہیں انہوں نے نیا دین اختیار کرلیا ہے۔ اور وہ تمہارے ملک میں آگئے ہیں ان کو واپس کیا جائے، بادشاہ کے دربار میں حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) نے سورة مریم سنائی اور پوری کیفیت بتائی کہ ہم لوگ دینی اعتبار سے ایسے ایسے بدحال تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ایک رسول بھیجا ہم نے ان کا اتباع کرلیا، یہ لوگ دشمنی کرتے ہیں اور ہمیں تکلیف پہنچاتے ہیں اسی لیے ہم تمہارے ملک میں آگئے ہیں، یہ سن کر بادشاہ اور اس کے متعلقین مطمئن ہوگئے اور ان حضرات کو حبشہ میں اطمینان سے رہنے کا موقع مل گیا پھر ان میں سے بعض حضرات واپس مکہ مکرمہ آگئے اور بعض حضرات وہیں رہتے رہے اور ٨ ہجری میں دوسری ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے، ان سے پہلے وہ حضرات مکہ معظمہ سے آچکے تھے جنہوں نے براہ راست مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کو ہجرت کی تھی، بعض حضرات نے دو ہجرتیں کیں حبشہ بھی پہنچے اور وہاں سے مکہ معظمہ کو واپس پہنچے اور وہاں سے مدینہ منورہ چلے آئے اور بعض حضرات نے ایک ہی مرتبہ ہجرت کی یہ ہجرتیں مشرکین کے ظلم کی وجہ سے تھیں، آیت بالا میں ہجرت کرنے والوں سے ایک تو وعدہ فرمایا ہے کہ ہم انہیں دنیا میں اچھا ٹھکانہ دیں گے دوسرے انہیں آخرت کے اجر سے باخبر فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق حبشہ میں بھی ان کو اچھا ٹھکانہ دیا اور مدینہ میں بھی، اپنے وطن اور اعزہ و اقرباء، مال جائیداد وغیرہ کو چھوڑ دینا جہاں پیدا ہوئے پلے بڑھے آسان نہیں ہے لیکن حضرات صحابہ نے سب کچھ قربان کردیا تکلیفیں برداشت کیں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی انہیں اچھا ٹھکانہ دیا اور آخرت کے ثواب کی بھی خوشخبری دی اور فرمایا (وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ ) کہ آخرت کا ثواب اس دنیاوی آرام و راحت اور مال و دولت سے بدرجہا بڑا ہے۔ ساتھ ہی (لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ) بھی فرمایا اس کی ضمیر کس طرف راجع ہے بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ بطور جملہ معترضہ کافروں کے بارے میں فرمایا کہ وہ اسلام قبول کرنے کا اور ہجرت کا آخرت والا ثواب جان لیتے تو یہ بھی مسلمان ہوجاتے، اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس کی ضمیر مہاجرین کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان حضرات کو عین الیقین کے درجہ میں اپنی ہجرت کا ثواب معلوم ہوجاتا تو اور زیادہ دینی کاموں میں مشقت برداشت کرتے اور ہجرت کرنے میں جو سختیاں اور دشواریاں برداشت کیں ان پر اور زیادہ خوش ہوتے۔ (روح المعانی ص ١٤٦ ج ١٤)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

33:۔ مہاجرین کے لیے بشارت دنیوی واخروی ہے۔ اس سے مہاجرین صحابہ (رض) مراد ہیں جنہیں محض توحید کی وجہ سے مشرکین مکہ نے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اور وہ حبشہ اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ ھم رسول اللہ و اصحابہ ظلمھم اھل مکۃ ففروا بدینھم الی اللہ منھم من ھاجر الی الحبشۃ ثم الی المدینۃ فجمع بین الھجرین ومنھم من ھاجر الی المدینۃ (مدارک ج 2 ص 221) اللہ تعالیٰ نے مہاجرین (رض) کو دنیا میں بھی باعزت اور پرشوکت زندگی عطا فرمائی اور آخرت کا اجر وثواب اس سے کہیں بڑھ کر ہوگا۔ ” اَلَّذِیْنَ صَبَرُوْا الخ “ یہ ” اَلَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا “ کی صفت ہے۔ یہ گویا مذکور الصدر اجر وثواب کا سبب ہے یعنی انہوں نے مشرکین تمام مظالم و مصائب کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور دین اسلام کو نہ چھوڑا اور اللہ تعالیٰ کی امداد و نصرت پر بھروسہ کیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

41 ۔ اور جن لوگوں نے بعد اس کے کہ ان پر ہر قسم کے مظالم کئے گئے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے ترک وطن کیا اور مکہ سے ہجرت کی ہم ان کو دنیا میں یقینا اچھا ٹھکانہ عطا فرمائیں گے اور دنیا میں جو کچھ دیا جائے گا آخرت کا ثواب اس سے یقینا بہت بڑا ہے کاش یہ منکر اس ثواب کی حقیقت کو جانتے ۔ یعنی جن صحابہ (رض) نے ابتدائے اسلام میں مختلف مظالم سہے اور آخر کو ترک وطن کر کے حبشہ چلے گئے ان کو بشارت ہے چناچہ تھوڑے سے عرصہ کے بعد مدینہ منورہ دارالہجرت قرار پایا اور سب لوگ وہاں آ کر آباد ہوئے اور ہر قسم کی ترقی پائی۔ کاش ! اگر یہ کافر بھی اس ثواب کو جانتے تو مسلمانوں کو تکلیف نہ پہنچاتے بلکہ مسلمان ہوجاتے اور ہوسکتا ہے کہ مدینہ کی بجائے فتح مکہ کی طرف اشارہ ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لو کانوا یعلمون سے مسلمانوں کی جانب شا ارہ ہو اور یہ مطلب ہو کہ اگر مسلمان اجر وثواب کی پوری پوری حقیقت سے آگاہ ہوجاتے تو اور زیادہ جدوجہد کرتے۔ واللہ اعلم