Commentary The verb: هَاجَرُوا (hajaru) is a derivation from hijrat (pausal : hijrah) which literally means to leave one&s homeland. The leaving of one&s home-land done for the sake of Allah is an act of great obedience and worship in Islam. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: اَلھِجرۃ تَھدَمُ مَا کَانَ قَبلَھَا (&Hijrah demol¬ishes all sins that were before it& ). This Hijrah is Farcl (obligatory) and Wajib (necessary) under some situations while it is recommended as desirable and better (Mustahabb) under some others. Related injunctions have appeared in details under comments on verse 97 of Surah An-Nisa& أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّـهِ وَاسِعَةً (Was not the earth of Allah wide enough that you might have sought refuge in it? - 3:97) [ Ma` ariful-Qur&an, Volume II ] Mentioned here at this place are particular promises which Allah Ta’ ala has made to Muhajirin, those who do Hijrah, that is, leave their homeland for His sake. How does Hijrah bring Better Life in the Present World? In the verses cited above, two great promises have been made to Mu¬hajirin subject to some conditions: (1) To give them a good place right here in this world, and (2) To bless them with the greater reward of the Hereafter which is limitless. The expression: &a good place in the world& is highly comprehensive. It includes a good residence for the Muhajir (one who does Hijrah) as well as neighbours who are good. It also in¬cludes extended means of living, supremacy over hostile enemies, recog¬nition and fair name among people, and honour which continues through the family, and progeny. (Qurtubi) The background of the revelation of the verse is basically the first Hij¬rah which the noble Companions made to Ethiopea. Then, the probabil¬ity that it may include the Hijrah to Ethiopea as well as the Hijrah to al-Madinah al-Munawwarah which came after that. Mentioned here in this verse are the same Muhajirin to Ethiopea, or the Muhajirin to Madinah. Therefore, some scholars have said that this promise was for these blessed Sahabah (رض) only, that is, those who had made their Hijrah to Ethiopea, or those who had later done it to Madinah. As for the promise of Allah, it stood already fulfilled within the present world, something witnessed openly. Everyone saw how Madinah was made for them the real good place to live. Instead of hostile neighbours, they lived among those who were sympathetic, sharing and sacrificing. Enemies were con¬quered and subdued. Within a short period of time since their Hijrah, doors of ample sustenance were thrown open for them. The poor and needy of yester years became wealthy citizens of the day. Many coun¬tries of the world came under their sway. Such were their achiements in moral greatness and beauty of conduct that they remain receiving words of praise from friends and foes alike even to this day. Allah Ta` ala blessed them with great honour, and their generations as well. These were things that were to take place in this world, which they did. Now, the promise of the Hereafter shall also be fulfilled. But, says Abu Hayy¬an in his Tafslr Al-Bahr Al-Muhit: وَالَّذِینَ ھَاجَرُوا عَام فِی المُھَاجِرِینَ کَایٔنا مَّا کَانُوا فَیَشمَلُ اَوَّلَھُم وآخِرَھُم The expression: الَّذِينَ هَاجَرُوا (And those who migrated) is general and inclusive of all those who leave their homeland whatever their country or time. Therefore, this includes all Muhajirin, from the very first ones down to the last among them who do their Hijrah for the sake of Allah right upto the Last Day, the day of Al-Qiyamah. (v. 5, p. 492) This is also as required by the general exegetic rule under which a commentator relies on the general sense of the word, even though there be a particular event or group as the prime cause of the revelation of the verse. Therefore, included in this promise are Muhajirin of the whole world and of all times - and the fulfillment of both these promises for all Muhajirin is certain. A similar promise has been made for Muhajirin in the following verse of Surah An-Nisa& وَمَن يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً [ And whoever migrates in the way of Allah he shall find many a place to settle and wide dimension (of resources) - 4:100] particularly promised wherein are spatial abundance and extensive means. But, along with these pro¬mises, the Holy Qur&an has also put forth some qualifications of Muhaji¬rin and some conditions of Hijrah as well. Therefore, those deserving of the fulfillment of these promises can only be the Muhajirin who possess these qualifications and who have satisfied the desired conditions.
خلاصہ تفسیر : اور جن لوگوں نے اللہ کے واسطے اپنا وطن (مکہ) چھوڑ دیا (اور حبشہ چلے گئے) بعد اس کے کہ ان پر (کفار کی طرف سے) ظلم کیا گیا ( کیونکہ ایسی مجبوری میں وطن چھوڑنا بڑا شاق گذرتا ہے ہم ان کو دنیا میں ضرور اچھا ٹھکانا دیں گے (یعنی ان کو مدینہ پہنچا کر خوب امن و راحت دیں گے چناچہ بعد چندے مدینہ میں اللہ تعالیٰ نے پہنچا دیا اور اس کو وطن اصلی قرار دیا گیا اس لئے اس کو ٹھکانا کہا اور ہر طرح کی وہاں ترقی ہوئی اس لئے حسنہ کہا گیا اور حبشہ کا قیام عارضی تھا اس لئے اس کا ٹھکانا نہیں فرمایا) اور آخرت کا ثواب (اس سے) بدرجہا بڑا ہے (کہ خیر بھی ہے اور ابقیٰ بھی) کاش (اس اجر آخرت کی) ان (بےخبر کافروں) کو (بھی) خبر ہوتی (اور اس کے حاصل کرنے کی رغبت سے مسلمان ہوجاتے) وہ (مہاجرین ان وعدوں کے اس لئے مستحق ہیں کہ وہ) ایسے ہیں جو (ناگوار واقعات پر) صبر کرتے ہیں (چنانچہ وطن کا چھوڑنا گو ان کو ناگوار ہے لیکن بدون اس کے دین پر عمل نہیں کرسکتے تھے دین کے لئے وطن چھوڑا اور صبر کیا) اور ( وہ ہر حال میں) اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں (وطن چھوڑنے کے وقت یہ خیال نہیں کرتے کہ کھائیں پئیں گے کہاں سے) معارف و مسائل : تشریح و تفسیر : (آیت) اَلَّذِيْنَ هَاجَرُوْا ہجرت سے مشتق ہے ہجرت کے لغوی معنی ترک وطن کے ہیں ترک وطن جو اللہ کے لئے کیا جائے وہ اسلام میں بڑی اطاعت و عبادت ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الہجرۃ تھدم ماکان قبلہا یعنی ہجرت ان تمام گناہوں کو ختم کردیتی ہے جو انسان نے ہجرت سے پہلے کئے ہوں۔ یہ ہجرت بعض صورتوں میں فرض و واجب اور بعض صورتوں میں مستحب و افضل ہوتی ہے اس کے مفصل احکام تو سورة نساء کی آیت نمبر ٩٧ اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُھَاجِرُوْا فِيْھَا کے تحت میں بیان ہوچکے ہیں اس جگہ صرف ان وعدوں کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے مہاجرین سے کئے ہیں ، کیا ہجرت دنیا میں بھی فراخی عیش کا سبب ہوتی ہے ؟: آیات مذکورہ میں چند شرائط کے ساتھ مہاجرین کے لئے دو عظیم الشان وعدے کئے گئے ہیں اول تو دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دینے کا دوسرے آخرت کے بےحساب ثواب عظیم کا دنیا میں اچھا ٹھکانا ایک نہایت جامع لفظ ہے اس میں یہ بھی داخل ہے کہ مہاجر کو سکونت کے لئے مکان اور پڑوسی اچھے ملیں یہ بھی داخل ہے کہ اس کو رزق اچھا ملے دشمنوں پر فتح و غلبہ نصیب ہو عام لوگوں کی زبان پر ان کی تعریف اور بھلائی ہو عزت وشرف ملے جو ان کے خاندان اور اولاد تک چلے (قرطبی) آیت کا شان نزول اصالۃ وہ پہلی ہجرت ہے جو صحابہ کرام (رض) اجمعین نے حبشہ کی طرف کی اور یہ بھی احتمال ہے کی ہجرت حبشہ اور اس کے بعد کی ہجرت مدینہ منورہ دونوں اس میں داخل ہوں آیت میں یہاں انہی مہاجرین حبشہ یا مہاجرین مدینہ کا ذکر ہے اس لئے بعض علماء نے فرمایا کہ یہ وعدہ انہی حضرات صحابہ کرام (رض) اجمعین کے لئے تھا جنہوں نے حبشہ کی طرف یا پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ دنیا میں پورا ہوچکا جس کا سب نے مشاہدہ کرلیا کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ کو ان کا کیسا اچھا ٹھکانا بنادیا ایذاء دینے والے پڑوسیوں کے بجاے غمخوار ہمدرد وجاں نثار پڑوسی ملے دشمنوں پر فتح و غلبہ نصیب ہوا ہجرت کے تھوڑے ہی عرصہ گذرنے کے بعد ان پر رزق کے دروازے کھول دیئے گئے فقراء و مساکین مال دار ہوگئے دنیا کے ممالک فتح ہوئے ان کے حسن اخلاق حسن عمل کے کارنامے رہتی دنیا تک ہر موافق و مخالف کی زبان پر ہیں ان کو اور ان کی نسلوں کو اللہ تعالیٰ نے بڑی عزت وشرف بخشا یہ تو دنیا میں ہونے والی چیزیں تھیں جو ہو چکیں اور آخرت کا وعدہ پورا ہونا بھی یقینی ہے لیکن تفسیر بحر محیط میں ابو حیان کہتے ہیں۔ والذین ھاجروا عام فی المھاجرین کائنا ماکانوا فیشمل اولہم واخرہم (ص ٤٩٢ ج ٥) الذین ہاجروا کا لفظ تمام مہاجرین عالم کے لئے عام اور شامل ہے کسی بھی خطے اور زمانہ کے مہاجر ہوں اس لئے یہ لفظ مہاجرین اولین کو بھی شامل ہے اور قیامت تک اللہ کے لئے ہر ہجرت کرنے والا اس میں داخل ہے۔ عام تفسیری ضابطہ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آیت کا شان نزول اگرچہ کوئی خاص واقعہ اور خاص جماعت ہو مگر اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے اس لئے وعدہ میں تمام دنیا کے اور ہر زمانہ کے مہاجرین بھی شامل ہیں اور یہ دونوں وعدے تمام مہاجرین کے لئے پورا ہونا امر یقینی ہے۔ اسی طرح کا ایک وعدہ مہاجرین کے لئے سورة نساء کی اس آیت میں کیا گیا ہے وَمَنْ يُّھَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَةً جس میں وسعت مکانی اور فراخی عیش خاص طور سے موعود ہیں مگر قرآن کریم نے ان وعدوں کے ساتھ مہاجرین کے کچھ اوصاف اور ہجرت کی کچھ شرائط بھی بیان فرمائی ہیں اس لئے ان وعدوں کے مستحق وہی مہاجرین ہو سکتے ہیں جو ان اوصاف کے حامل ہوں اور جنہوں نے مطلوبہ شرائط پوری کردی ہوں ، ان میں سب سے پہلی شرط تو فی اللہ کی ہے یعنی ہجرت کرنے کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہو اور میں دنیاوی منافع تجارت، ملازمت وغیرہ اور نفسانی فوائد پیش نظر نہ ہوں دوسری شرط ان مہاجرین کا مظلوم ہونا ہے مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا تیسرا وصف ابتدائی تکالیف و مصائب پر صبر اور ثابت قدم رہنا ہے