Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 64

سورة النحل

وَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِی اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ ﴿۶۴﴾

And We have not revealed to you the Book, [O Muhammad], except for you to make clear to them that wherein they have differed and as guidance and mercy for a people who believe.

اس کتاب کو ہم نے آپ پر اس لئے اتارا ہے کہ آپ ان کے لئے ہر اس چیز کو واضح کر دیں جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اور یہ ایمان داروں کے لئے راہنمائی اور رحمت ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلاَّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُواْ فِيهِ ... And We have not revealed the Book to you, except that you may clearly explain to them those things in which they differ, Allah says to His Messenger that He has revealed the Book to him to explain the truth to mankind in matters which they dispute over. So the Qur'an is a decisive arbitrator for every issue that they argue about. ... وَهُدًى ... and (as) a guidance, meaning, for their hearts. ... وَرَحْمَةً ... and a mercy, meaning, for the one who adheres to it. ... لِّقَوْمٍ يُوْمِنُونَ for a people who believe.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

64۔ 1 اس میں نبی کا یہ منصب بیان کیا گیا کہ عقائد و احکام شرعیہ کے سلسلے میں یہود و انصاری کے درمیان اور اسی طرح مجوسیوں اور مشرکین کے درمیان اور دیگر اہل مذاہب کے درمیان جو باہم اختلاف ہے، اس کی اس طرح تفصیل بیان فرمائیں کہ حق اور باطل واضح ہوجائے تاکہ لوگ حق کو اختیار اور باطل سے پرہیز کریں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦١] اختلافات کا خاتمہ کیسے ممکن ہے ؟ کفار مکہ سے اختلاف یہ تھے کہ آیا اللہ اکیلا ہی الٰہ ہے یا اس کے ساتھ دوسرے الٰہ بھی ہونا ضروری ہیں۔ قیامت قائم ہوگی یا یہ محض ایک وہم ہے فلاں حلال چیز کو اللہ نے حرام کیا ہے یا دوسروں نے یا فلاں حرام چیز کو کس نے حلال بنایا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ اور قرآن اس لیے اتارا گیا کہ ایسے سب مسائل کو وضاحت اور تحقیق کے ساتھ بیان کر دے تاکہ کچھ اشکال یا اشتباہ باقی نہ رہے اور رسول اللہ کا یہ کام تھا کہ آپ ایسی تمام اختلافی باتوں کا دو ٹوک فیصلہ سنا کر بندوں پر اللہ کی حجت قائم کردیں یہ تو دور نبوی کے اختلاف تھے اور آج کے اختلافی مسائل ان مسائل سے کچھ ملتے جلتے بھی ہیں اور کچھ الگ نوعیت کے بھی ہیں۔ تاہم ان کا بھی علاج وہی ہے جو کفار مکہ کے لیے تجویز کیا گیا تھا یعنی کتاب و سنت کو اگر مستحکم بنیاد قرار دے دیا جائے تو آج بھی اختلافی مسائل کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور فرقوں میں بٹی ہوئی امت متحد ہوسکتی ہے۔ لہذا یہ قرآن اور اللہ کا رسول یا اس کی سنت ہر دور کے لیے ہدایت اور رحمت کا باعث بن سکتے ہیں بشرطیکہ لوگ انھیں حکم تسلیم کرلیں اور ایسے ایمان لائیں جیسے ایمان لانے کا حق ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ ۔۔ : پہلی امتوں کی طرح اس وقت بھی جو لوگ شیطان کے خوش نما پھندوں میں گرفتار ہیں، ان کے لیے ہر اختلاف کا فیصلہ کرکے اصل حقیقت کھول کر بیان کرنے ہی کے لیے ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے۔ معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کتاب نازل کرنے کا مقصد ان تمام چیزوں کی تبیین و وضاحت بھی ہے جس میں لوگ خود فیصلہ نہیں کرسکتے، اس لیے قرآن کی ہر بات کی تفصیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول و عمل اور تقریر سے فرمائی، ورنہ اللہ کی عبادت نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ غرض سب کچھ اختلاف کی نذر ہوجاتا، لوگ ایک طریقے پر متفق ہی نہ ہوسکتے، نہ کتاب اللہ پر عمل ہوسکتا۔ منکرین حدیث نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضاحت کو ماننے کے لیے تیار نہیں، اس لیے وہ اس ہدایت اور رحمت سے بھی محروم ہیں جو اس کتاب سے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبیین و وضاحت سے اہل ایمان ” لِقَوْمٍ یُّوْمِنُوْنَ “ کو حاصل ہوتی ہے اور درحقیقت وہ قرآن کو بھی نہیں مانتے، ورنہ قرآن کی متعدد آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر جھگڑے اور اختلاف میں فیصل ماننے، ان کا اتباع کرنے اور ان کی اطاعت کرنے کا حکم موجود ہے۔ مزید دیکھیے اسی سورت کی آیت (٨٩) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُـبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوْا فِيْهِ ۙ وَهُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ 64؀ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا الاختلافُ والمخالفة والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٤) اور ہم نے آپ پر یہ قرآن حکیم صرف اس لیے نازل کیا ہے کہ جن امور دین میں لوگوں میں اختلاف ہیں آپ لوگوں پر اس کو ظاہر کردیں اور اس پر ایمان لانے والوں کی گمراہیوں سے ہدایت اور عذاب سے رحمت کی غرض سے نازل فرمایا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَهُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ) اس آیت کو پڑھتے ہوئے سورة یونس کی یہ دو آیات بھی ذہن میں رکھیے : (يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ڏ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ 57؀ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا ۭ ھُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ ) ” اے لوگو ! آگئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور تمہارے سینوں (کے جو روگ ہیں ان) کی شفا اور ہدایت اور اہل ایمان کے حق میں (بہت بڑی) رحمت۔ (اے نبی ! ان سے) کہہ دیجیے کہ یہ ( قرآن) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے (نازل ہوا) ہے تو چاہیے کہ لوگ اس پر خوشیاں منائیں وہ بہتر ہے ان چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

53. That is, this Book has afforded them an excellent opportunity to resolve their differences which have been caused by the superstitious creeds of their forefathers, and which have divided, them into warring factions. They can then unite on the permanent basis of the truth presented by the Quran, but those foolish people preferring their former condition even after the coming of this blessing, shall meet with disgrace and torment. On the other hand, only those, who believe in this Book, will find the right way and blessed with mercy and favors from Allah. 65. And Allah sends down from the sky water, then He revives therewith the earth after its death. Indeed, in this is a sure sign for a people who listen. 53a. That is, had you listened to the message of the Prophet (peace be upon him), and observed those signs carefully, you would have cried from the core of your heart. These signs support his message. Year after year you witness these signs. There is the land, all barren before you, without any sign of life, no blade of grass, no bud or flower, and no insect. Then comes rain. All of a sudden, the same land is covered with life. There crop upon numerous kinds of insects of which no vestige had been left. You witness this process of life and death, and death and life, repeated year after year. Yet you doubt this when the Prophet (peace be upon him) tells you that Allah will again bring to life all human beings after their death. This is because you see these signs as animals do, who do not see the wisdom of the Creator underlying this phenomenon; otherwise you would have discovered that these signs support the message of the Prophet (peace be upon him).

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :53 دوسرے الفاظ میں ، اس کتاب کے نزول سے ان لوگوں کو اس بات کا بہترین موقع ملا ہے کہ اوہام اور تقلیدی تخیلات کی بنا پر جن بے شمار مختلف مسلکوں اور مذہبوں میں یہ بٹ گئے ہیں ان کے بجائے صداقت کی ایک بڑی پائیدار بنیاد پالیں جس پر یہ سب متفق ہو سکیں ۔ اب جو لوگ اتنے بے وقوف ہیں کہ اس نعمت کے آجانے پر بھی اپنی پچھلی حالت ہی کو ترجیح دے رہے ہیں وہ تباہی اور ذلت کے سوا اور کوئی انجام دیکھنے والے نہیں ہیں ۔ اب تو سیدھا راستہ وہی پائے گا اور وہی برکتوں اور رحمتوں سے مالا مال ہوگا جو اس کتاب کو مان لے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:64) لتبین لام تعلیل کا ہے۔ تبین مضارع واحد مذکر حاضر۔ تاکہ تو صاف صاف بیان کرے۔ ھدی ورحمۃ۔ انزلنا کے مفعول لہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔ یعنی ہم نے اسے ہدایت اور رحمت بنا کر نازل کیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بیشک مشرکوں کے بد عقیدہ ہونے کی وجہ سے ان پر شیطان مسلّط ہوچکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو سمجھاتے رہیں۔ منصب نبّوت کی ذمہ داریوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پہلی ذمہ داری یہ تھی کہ آپ لوگوں کو اللہ کا قرآن سنائیں اور سمجھائیں۔ بیشک اس کے مقابلے میں کتنی ہی مشکلات برداشت کرنا پڑیں۔ بالخصوص عقیدۂ توحید اور ان مسائل کو کھول کر بیان کریں جن میں لوگ اختلاف کرتے ہیں۔ جو لوگ اخلاص نیت سے توحید سمجھنے اور دینی مسائل جاننے کی کوشش کریں گے اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے ضرور ہدایت عنایت فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت بنا کر بھیجا گیا جو اس پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں۔ مسائل ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ نے کتاب نازل فرمائی۔ ٢۔ قرآن مجید کو لوگوں کے سامنے کھول کھول کر بیان کرنا چاہیے۔ ٣۔ ایمان والوں کے لیے کتاب اللہ با عث ہدایت اور رحمت ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کا ایک منظر : ١۔ قرآن مجید ایمان والوں کے لیے باعث ہدایت و رحمت ہے۔ (النحل : ٦٤) ٢۔ قرآن مجید شک و شبہ سے بالا تر کتاب ہے۔ (البقرۃ : ٢) ٣۔ قرآن کریم برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٨٥) ٤۔ قرآن حمید کے نزول کا مقصد لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانا ہے۔ (ابراہیم : ١) ٥۔ قرآن مجید اللہ کی طرف سے واضح کتاب ہے۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ : ١٨٥) ٦۔ ہم نے قرآن کو نازل کیا جو مومنوں کے لیے باعث رحمت اور شفا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (وَ مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ ) (الآیۃ) اور ہم نے آپ پر قرآن اسی لیے نازل کیا کہ جن چیزوں میں لوگ اختلاف کر رہے ہیں آپ ان کے سامنے واضح طور پر حق واضح فرما دیں آپ کی تشریف آوری سے پہلے لوگوں میں اختلاف تھا کہ مردے زندہ ہوں گے یا نہیں اور فلاں چیز اللہ کے نزدیک حلال ہے یا حرام اور توحید میں بھی اختلاف رکھتے تھے بعض لوگ توحید کے قائل تھے اور اکثر شرک میں مبتلا تھے، شرک والے بھی اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو واضح طور پر حق بیان فرما دیا اب جو شخص حق کو نہ مانے گا وہ اپنا برا کرے گا۔ (وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ) (اور یہ قرآن ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے جو ایمان لاتے ہیں) حقیقت میں تو قرآن سبھی کے لیے ہدایت ہے لیکن چونکہ سب لوگ اس کی ہدایت کو قبول نہیں کرتے اور صرف اہل ایمان ہی قبول کرتے ہیں اس لیے نتیجہ کے طور پر ان ہی کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ اس قرآن مجید میں جو ایمان اور روحانی غذا ہے اس کے نازل فرمانے کا ذکر کرکے جسمانی غذا کا تذکرہ فرمایا

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

64 ۔ اور اے پیغمبر ہم نے یہ کتاب یعنی قرآن کریم آپ پر صرف اس لئے اتارا ہے کہ جن باتوں میں اور جن امور میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں آپ عام لوگوں کے لئے اس کی حقیقت واضح کردیں اور صاف طور سے بیان کردیں اور اہل ایمان اور جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ان کے لئے یہ قرآن کریم سبب ہدایت اور سبب رحمت ہو۔ یعنی یوں تو اخلاقی امور مثلاً حلال حرام توحید ، شرک وغیرہ کی حقیقت اس قرآن کریم کے ذریعہ سب پر واضح کردیں یہ تو عام اث رہے اس قرآن کریم کا ۔ رہے مومن تو ان کی خاص ہدایت و رحمت کیلئے نازل فرمایا ہے جو اس سے ہدایت حاصل کرتا ہے اس کے لئے ہدایت و رحمت ہے۔