Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 70

سورة النحل

وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ ثُمَّ یَتَوَفّٰىکُمۡ ۟ ۙ وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرَدُّ اِلٰۤی اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ لِکَیۡ لَا یَعۡلَمَ بَعۡدَ عِلۡمٍ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ قَدِیۡرٌ ﴿٪۷۰﴾  15

And Allah created you; then He will take you in death. And among you is he who is reversed to the most decrepit [old] age so that he will not know, after [having had] knowledge, a thing. Indeed, Allah is Knowing and Competent.

اللہ تعالٰی نے ہی تم سب کو پیدا کیا ہے وہی پھر تمہیں فوت کرے گا تم میں ایسے بھی ہیں جو بدترین عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں کہ بہت کچھ جانتے بوجھنے کے بعد بھی نہ جانیں بیشک اللہ دانا اور توانا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

In Man there is a Lesson Allah says, وَاللّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لاَ يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْيًا إِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ And Allah created you and then He will cause you to die; and among you there are some who are sent back to senility, so that they know nothing after having known (much). Truly... , Allah is Knowing, capable of all things. Allah tells us that He is controlling the affairs of His servants. He is the One Who created them out of nothing, then He will cause them to die. But there are some of them that He allows to grow old, which is a physical weakness, as Allah says: اللَّهُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةٍ Allah is He Who created you in (a state of) weakness, then gave you strength after weakness, then after strength gave (you) weakness. (30:54) ... لِكَيْ لاَ يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْيًا ... so that they know nothing after having known. meaning, after he knew things, he will reach a stage where he knows nothing because of weakness of mind due to old age and senility. Thus Al-Bukhari, when commenting on this Ayah, reported a narration from Anas bin Malik that the Messenger of Allah used to pray: أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْكَسَلِ وَالْهَرَمِ وَأَرْذَلِ الْعُمُرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَفِتْنَةِ الدَّجَّالِ وَفِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَات I seek refuge with You from miserliness, laziness, old age, senility, the punishment of the grave, the Fitnah of the Dajjal and the trials of life and death. Zuhayr bin Abi Sulma said, in his famous Mu`allaqah: "I became exhausted from the responsibilities of life. Whoever lives for eighty years, no wonder he is tired. I saw death hitting people like a crazed camel, and whoever it hit dies, but whoever is not hit lives until he grows old."   Show more

بہترین دعا تمام بندوں پر قبضہ اللہ تعالیٰ کا ہے ، وہی انہیں عدم وجود میں لایا ہے ، وہی انہیں پھر فوت کرے گا بعض لوگوں کو بہت بڑی عمر تک پہنچاتا ہے کہ وہ پھر سے بچوں جیسے ناتواں بن جاتے ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں پچھتر سال کی عمر میں عموما انسان ایسا ہی ہو جاتا ہے طاقت ختم...  ہو جاتی ہے حافظہ جاتا رہتا ہے ۔ علم کی کمی ہو جاتی ہے عالم ہونے کے بعد بےعلم ہو جاتا ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں فرماتے تھے ( اللھم انی اعوذبک من البخل والکسل والھرم وارذل العمر و عذاب القبر وفتنتہ الدجال وفتنتہ المحیا و الممات ) یعنی اے اللہ میں بخیلی سے ، عاجزی سے ، بڑھاپے سے ، ذلیل عمر سے ، قبر کے عذاب سے ، دجال کے فتنے سے ، زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں ۔ زہیر بن ابو سلمہ نے بھی اپنے مشہور قصیدہ معلقہ میں اس عمر کو رنج و غم کا مخزن و منبع بتایا ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

70۔ 1 جب انسان طبعی عمر سے تجاوز کرجاتا ہے تو پھر اس کا حافظہ بھی کمزور ہوجاتا ہے اور بعض دفعہ عقل بھی ماؤف، اور وہ نادان بچے کی طرح ہوجاتا ہے۔ یہی طویل عمر ہے جس سے نبی نے بھی پناہ مانگی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٩] کوئی مخلوق اپنی مقررہ حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی :۔ ان خارجی مثالوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کی اپنی مثال پیش کی۔ کہ پہلے وہ بچہ ہوتا ہے اپنی تربیت کے لیے خوراک کھاتا ہے جس سے اس کا قد بھی بڑھتا ہے، ہمت بھی بڑھتی ہے، عقل اور علم میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے جو ایک مخصوص حد تک جاکر رک جاتا ہے اس ... کے بعد انسان وہی غذائیں کھاتا ہے جو پہلے کھاتا تھا مگر اس کے اثرات بالکل برعکس برآمد ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کے جسم میں طاقت کے بجائے کمزوری واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے عقل بہت کم ہونے لگتی ہے۔ یادداشت کمزور ہوتی جاتی ہے حتیٰ کہ پہلے کی سیکھی ہوئی باتیں بھی بھولنے لگتا ہے۔ اعضاء مضمحل ہونے لگتے ہیں اور قد بڑا ہونے کے باوجود بچوں کی سی باتیں، بچوں کی سی ضدیں اور بچوں کی سی حرکات کرنے لگ جاتا ہے حتیٰ کہ اسے تن بدن کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ حالانکہ غذا وہی کھاتا ہے جو بچپن میں کھایا کرتا تھا یا اس سے بھی اچھی غذائیں کھاتا ہے پھر اسے موت کا کڑوا گھونٹ بھی پینا پڑتا ہے۔ اَرذل العمر سے پناہ :۔ انسان نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ یا اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسی قادر اور حکیم ہستی موجود ہے جو اپنی منشا کے مطابق انسان پر ایسے تغیرات وارد کرتی اور کرسکتی ہے اور اللہ کے سوا کوئی ایسا الٰہ نہیں جو ان تغیرات کو روک سکتا ہو۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو اس ارذل العمر میں بھی انسان کو ایسی ذلت سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ چناچہ رسول اللہ ایسی زندگی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اور ایسی عمر سے بچاؤ کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسا وقت آنے سے پہلے ہی موت دے دے۔ دوسرے یہ کہ ایسا وقت آنے پر بھی تندرست اور حواس کو برقرار رکھے اور اللہ ان دونوں باتوں پر قادر ہے &&  Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفّٰىكُمْ ۔۔ : بارش اور اس کے اثرات، چوپاؤں اور ان سے حاصل ہونے والے دودھ، کھجور اور انگور اور ان سے حاصل ہونے والی اشیاء اور شہد کی مکھی کی عجیب و غریب کارکردگی میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل بیان کرنے کے بعد اب خود انسان کے اندر پائے جانے والے دلائل میں سے چند کا ... بیان فرمایا۔ اس آیت میں انسان کی زندگی کے چار پانچ دور مذکور ہیں۔ سب سے پہلے پیدائش، اس کے ساتھ فوت کرنے کا ذکر فرمایا، باقی ادوار کا بعد میں ذکر فرمایا، کیونکہ پیدائش کے بعد ہر شخص پر ان تمام ادوار کا گزرنا ضروری نہیں۔ وفات کبھی پیٹ ہی میں ہوجاتی ہے، کبھی زندگی کے کسی اور مرحلے میں۔ کچھ لوگ سب سے نکمی عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں، جس میں انسان پھر بالکل بچپن والی حالت کی طرح کمزور ہوجاتا ہے۔ اس کی بےبسی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اس کے ہوش و حواس سلب ہوجاتے ہیں اور جو کچھ سیکھا پڑھا تھا، یا زندگی میں گزرا تھا سب بھول جاتا ہے۔ ہر کام میں دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔ بچپن اور ارذل العمر کے درمیان کے مرحلے ذکر نہیں فرمائے، کیونکہ وہ خود بخود سمجھ میں آ رہے ہیں۔ بچپن، لڑکپن جوانی، کمال قوت کو پہنچنا، ادھیڑ عمر، بڑھاپا اور آخر میں ارذل العمر۔ اگر اللہ چاہے تو ان میں سے کسی مرحلے کو بھی ارذل العمر میں بدل دے۔ اس آیت کی مزید وضاحت کے لیے دیکھیے سورة روم (٥٤) اور سورة یٰس (٦٨) ۔ ثُمَّ يَتَوَفّٰىكُمْ : یہاں پیدائش کے بعد وفات کو بھی بطور آیت و نعمت ذکر فرمایا۔ آیت (نشانی) تو مومن و کافر ہر ایک کے لیے ہے، البتہ نعمت صرف مومن کے لیے ہے، خواہ وہ زندگی کے کسی مرحلے میں فوت ہو، کیونکہ نکمی عمر سے اس کے بغیر نجات کی کوئی صورت نہیں اور زندگی کے جس دور میں بھی فوت ہو قید خانے سے نکلنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ ) [ مسلم، الزھد والرقائق، باب الدنیا سجن للمؤمن وجنۃ للکافر : ٢٩٥٦، عن أبي ہریرہ (رض) ] ” دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔ “ پھر موت کے نعمت ہونے میں کیا شک ہے۔ 3 سعد بن ابی وقاص (رض) نے فرمایا : ” ان کلمات کے ساتھ پناہ مانگا کرو جن کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پناہ مانگا کرتے تھے : ( اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ أَنْ أُرَدَّ إِلٰی أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ ) [ بخاری، الدعوات، باب الاستعاذۃ من أرذل العمر۔۔ : ٦٣٧٤ ] ” اے اللہ ! میں بزدلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور بخل سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ مجھے ارذل العمر (سب سے نکمّی عمر) کی طرف لوٹایا جائے اور میں دنیا کی آزمائشوں اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ “ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ : زندگی کے یہ تمام ادوار اور موت کمال علم و قدرت کے بغیر کوئی پیدا نہیں کرسکتا اور وہ ہستی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ۔ 3 بعض اہل علم نے فرمایا کہ باعمل علماء ارذل العمر سے محفوظ رہتے ہیں، اگر ان کی عمر زیادہ ہو تب بھی ان کی عقل اور حافظہ قائم رہتے ہیں۔ اس کا اشارہ اس آیت کی بعض تفسیروں سے نکلتا ہے : (ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ ۝ ۙاِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ) [ التین : ٥، ٦ ] ” پھر ہم نے اسے لوٹا کر نیچوں میں سے سب سے نیچا کردیا، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے۔ “ شنقیطی (رض) اور بہت سے محدثین کا سو سے زیادہ عمر کے باوجود عقل و حافظہ محفوظ رہا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned previously were various states of water, vegetation, cattle and honey bee through which Allah Ta’ ala had reminded human beings of His perfect power of creation and of His blessings for the created. Now, through the words of the present verse, they have been invited to ponder over the very state they are in. Human beings were nothing. Allah Ta’ ala blessed them with existence....  Then, by sending death when He willed, He terminated that blessing. As for some others, they are, much before their death, carried to such a stage of extreme old age that their senses do not work, they lose the strength of their hands and feet. They understand nothing, nor can they remember what they do. This change in their world-view and self-view proves that knowledge and power reside in the exclusive domain of the One who is the Creator and Master. The expression مِنكُم مَّن يُرَ‌دُّ إِلَىٰ أَرْ‌ذَلِ الْعُمُرِ‌ (and there are some among you who are carried back to-the worst part of the age) gives a hint that man has seen a time of weakness earlier too. This was the early stage of child-hood marked by its lack of understanding and physical strength, and de¬pendence on others in eating, drinking, getting up and sitting down. Then came youth, the time to prosper and move ahead. Then, gradually, man is carried to a stage of the same age of helplessness as it was in early childhood. The expression أَرْ‌ذَلِ الْعُمُرِ‌ (translated as &the worst part of the age& ) means the extreme old age when all physical and mental faculties become weak and confused. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) always prayed: اللھُمَّ اِنِّی اَعُوذُبِکَ مَن سُوءِ العُمَرِ مِن اَن اُرَدَّ اَلٰی اَرذَلِ العُمرِ &0 Allah, I seek refuge with You from the evil of age& and according to another narration: اللَّھُمَّ اِنِّی اَعُوذُ بِکَ مِن اَن اَرُدَّ اِلٰی اَرذَلِ العُمِرُ &0 Allah, I seek refuge with you from that I be carried to the worst part of the age.& The definition of: أَرْ‌ذَلِ الْعُمُرِ‌ (the worst part of the age) remains undeter¬mined. However, the definition appearing above seems to be weightier, something to which the Qur’ an too has alluded by saying: لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا (that he knows nothing after having knowledge) that is, the age in which he is in, senses do not remain active as a result of which a person forgets everything he knows. This &worst part of the age& أَرْ‌ذَلِ الْعُمُرِ‌ has been defined variously. Some say it is the age of eighty years while some others say it is ninety. Also reported from Sayyidna Ali (رض) ، there is a statement which puts it at seventy five. (Sahilhayn as quoted by Mazhari) After that appears the tersely-phrased sentence also mentioned above: (that he knows nothing after having knowledge). This is about the phenomena of old age (which, in our time, has given birth to the study of gerontology). When one is made to reach its extreme stage, one is left with no functional strength, neither physical nor rational. What he knows now, he may not know moments later. All information he has, he may forget and become like a child born yesterday who has no knowledge or awareness or understanding or intelligence. Hadrat ` Ikrimah (رض) says: &This state will not prevail upon the reciter of the Qur’ an.& In the last sentence of the verse, it was said: إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ‌ (Surely, Allah is All-Knowing, All-Powerful). It means that from knowledge He knows everyone&s age, and from power He does what He wills. If He wills, He can have a strong young man be overtaken by the signs of the worst part of old age, and should He so will, even a hundred-year old aged man could remain a strong youngman. All this lies within the power of that sole Being in whose divinity there is no partner or associate.  Show more

خلاصہ تفسیر : اور (اپنی حالت بھی سوچنے کے قابل ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے تم کو (اول) پیدا کیا پھر (عمر ختم ہونے پر) تمہاری جان قبض کرتا ہے (جن میں بعض تو ہوش و حواس میں چلتے ہاتھ پاؤں اٹھ جاتے ہیں) اور بعض تم میں وہ ہیں جو ناکارہ عمر تک پہنچائے جاتے ہیں (جن میں نہ قوت جسمانیہ رہے نہ قوت عقلیہ رہے) جس ک... ا یہ اثر ہوتا ہے کہ ایک چیز سے باخبر ہو کر پھر بیخبر ہوجاتا ہے (جیسا کہ اکثر ایسے بوڑھوں کو دیکھا جاتا ہے کہ ابھی ان کو ایک بات بتلائی اور ابھی بھول گئے اور پھر اس کو پوچھ رہے ہیں) بیشک اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی قدرت والے ہیں (علم سے ہر ایک مصلحت جانتے ہیں اور قدرت سے ویسا ہی کردیتے ہیں اس لئے حیات و وفات کی حالتیں مختلف کردیں پس یہ بھی دلیل ہے توحید کی) معارف و مسائل : اس سے قبل اللہ تعالیٰ نے پانی نباتات چوپائے اور شہد کی مکھی کے مختلف احوال بیان فرما کر انسان کو اپنی قدرت کاملہ اور مخلوق کے لئے اپنے انعامات پر متنبہ کیا اب ان آیات سے اس کو اپنے اندرونی حالات پر غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ انسان کچھ نہ تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو وجود کی دولت سے نوازا پھر جب چاہا موت بھیج کر وہ نعمت ختم کردی اور بعضوں کو تو موت سے پہلے ہی پیرانہ سالی کے ایسے درجہ میں پہنچا دیتے ہیں کہ ان کے ہوش و حواس ٹھکانے نہیں رہتے ان کے ہاتھ پاؤں کی طاقت ختم ہوجاتی ہے نہ وہ کوئی بات سمجھ سکتے ہیں اور نہ سمجھی ہوئی یاد رکھ سکتے ہیں یہ آفاقی اور انفسی تغیر وتبدل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ علم وقدرت اسی ذات کے خزانہ میں ہے جو خالق ومالک ہے۔ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ ، مَّنْ يُّرَدُّ کے لفظ سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ انسان پر پہلے بھی ایک ضعف اور کمزوری کا وقت گزر چکا ہے یہ اس کے بچپن کا ابتدائی دور تھا جس میں یہ کسی سوجھ بوجھ کا مالک نہ تھا اس کے قوی بالکل ضعیف وناتواں تھے یہ اپنی بھوک پیاس کو دور کرنے اور اپنے اٹھنے بیٹھنے میں غیروں کا محتاج تھا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو جوانی عطا کی یہ اس کی ترقی کا زمانہ ہے پھر رفتہ رفتہ اس کو بڑھاپے کے ایسے درجہ میں پہنچا دیتے ہیں جس میں یہ بالکل اسی طرح کمزوری ضعف اور اضمحلال کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے جیسا کہ بچپن میں تھا۔ اَرْذَلِ الْعُمُرِ اس سے مراد پیرانہ سالی کی وہ عمر ہے جس میں انسان کے تمام جسمانی اور دماغی قوی مختل ہوجاتے ہیں نبی کریم اس عمر سے پناہ مانگتے تھے ارشاد ہے اللہم انی اعوذ بک من سوء العمر وفی روایۃ من ان ارد الی ارذل العمر۔ یعنی یا اللہ میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں بری عمر سے اور ایک روایت میں ہے کہ پناہ مانگتا ہوں ارذل عمر سے۔ ارذل العمر کی تعریف میں کوئی تعیین نہیں ہے البتہ مذکورہ تعریف راجح معلوم ہوتی ہے جس کی طرف قرآن نے بھی لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَـيْــــًٔـا سے اشارہ کیا ہے کہ وہ ایسی عمر ہے جس میں ہوش و حواس باقی نہیں رہتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی تمام معلومات بھول جاتا ہے۔ ارذل العمر کی تعریف میں اور بھی اقوال ہیں بعض نے اسی سال کی عمر کو ارذل العمر قرار دیا ہے اور بعض نے نوے سال کو حضرت علی سے بھی پچھتر سال کا قول منقول ہے (صحیحین بحوالہ مظہری) لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَـيْــــًٔـا پیرانہ سال کے انتہائی درجہ میں پہنچنے کے بعد آدمی میں نہ قوت جسمانیہ رہتی ہے اور نہ ہی عقلیہ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ایک چیز سے باخبر ہو کر پھر بیخبر ہوجاتا ہے وہ تمام معلومات بھول کر بالکل کل کے بچے کی مانند ہوجاتا ہے جس کو نہ علم و خبر ہے اور نہ ہی فہم و فراست، حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ قرآن پڑھنے والے کی یہ حالت نہیں ہوگی۔ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ قَدِيْر بیشک اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی قدرت والے ہیں (علم سے ہر شخص کی عمر کو جانتے ہیں اور قدرت سے جو چاہتے ہیں کرتے ہیں اگر چاہیں تو طاقت رو نوجوان پر ارذل العمر کے آثار طاری کردیں اور چاہیں تو سو سال کا معمر انسان بھی طاقت ور جوان رہے یہ سب کچھ اسی ذات کے دست قدرت میں ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفّٰىكُمْ ڐوَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَـيْــــًٔـا ۭاِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ 70؀ۧ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْل... َمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ وفی وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس/ 46] ( و ف ی) الوافی اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس/ 46] یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ رذل الرَّذْلُ والرُّذَالُ : المرغوب عنه لرداء ته، قال تعالی: وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل/ 70] ، وقال : إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَراذِلُنا بادِيَ الرَّأْيِ [هود/ 27] ، ( رذل ) الرذل والرذال وہ چیز جس سے اس کے روی ہونے کی وجہ سے بےرغبتی کی جائے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل/ 70] اور تم میں سے ایسے بھی ہیں جو بدترین حالت کی طرف لوٹائے جاتے ہیں ۔ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَراذِلُنا بادِيَ الرَّأْيِ [هود/ 27] مگر جو ہم میں رذاے ہیں اور پرو ہو بھی گئے ہیں تو لے سوچے سمجھے ) سر سری نظر سے ۔ عمر ( زندگی) والْعَمْرُ والْعُمُرُ : اسم لمدّة عمارة البدن بالحیاة، فهو دون البقاء، فإذا قيل : طال عُمُرُهُ ، فمعناه : عِمَارَةُ بدنِهِ بروحه، وإذا قيل : بقاؤه فلیس يقتضي ذلك، فإنّ البقاء ضدّ الفناء، ولفضل البقاء علی العمر وصف اللہ به، وقلّما وصف بالعمر . والتَّعْمِيرُ : إعطاء العمر بالفعل، أو بالقول علی سبیل الدّعاء . قال : أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] ، وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] ، وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] ، وقوله تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] ، قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] ، وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] . والعُمُرُ والْعَمْرُ واحد لکن خُصَّ القَسَمُ بِالْعَمْرِ دون العُمُرِ «3» ، نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] ، وعمّرک الله، أي : سألت اللہ عمرک، وخصّ هاهنا لفظ عمر لما قصد به قصد القسم، ( ع م ر ) العمارۃ اور العمر والعمر اس مدت کو کہتے میں جس میں بدن زندگی کے ساتھ آباد رہتا ہے اور یہ بقا سے فرو تر ہے چنناچہ طال عمر ہ کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ اس کا بدن روح سے آباد رہے لیکن طال بقاء ہ اس مفہوم کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ البقاء تو فناء کی ضد ہے اور چونکہ بقاء کو عمر پر فضیلت ہے اس لئے حق تعالیٰ بقاء کے ساتھ تو موصؤف ہوتا ہے مگر عمر کے ساتھ بہت کم متصف ہوتا ہے ۔ التعمیر کے معنی ہیں بالفعل عمر بڑھانا نا یا زبان کے ساتھ عمر ک اللہ کہنا یعنی خدا تیری عمر دراز کرے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا ۔ وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے ۔ وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] اگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی ۔ اور آیت : ۔ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] اور جس کو بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] یہاں تک کہ ( اسی حالت میں ) ان کی عمر ین بسر ہوگئیں ۔ وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] اور تم نے برسوں ہمارے عمر بسر کی ۔ العمر والعمر کے ایک ہی معنی ہیں لیکن قسم کے موقعہ پر خاص کر العمر کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے ۔ عمر کا لفظ نہیں بولا جاتا جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] تمہاری زندگی کی قسم وہ اپنی مستی میں عمرک اللہ خدا تمہاری عمر دارز کرے یہاں بھی چونکہ قسم کی طرح تاکید مراد ہے اس لئے لفظ عمر کو خاص کیا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٠) اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہلے پیدا کی اور پھر تمہاری عمریں ختم ہونے پر تمہیں موت دیتا ہے اور بعض لوگ تم میں سے وہ ہیں جو ناکارہ عمر تک پہنچائے جاتے ہیں جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ آدمی ایک چیز سے باخبر ہو کر پھر بیخبر ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ مخلوق کی حالتوں کی تبدیلی کو جاننے والا ہے اور ایک حالت سے دوس... ری حالت میں تبدیل کرنے پر قادر ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠ (وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفّٰىكُمْ ڐوَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ ) ایسی عمر جس میں آدمی ناکارہ ہو کر دوسروں پر بوجھ بن جاتا ہے۔ (لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَـيْــــًٔـا ۭاِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ) بڑھاپے میں اکثر لوگوں کی قوت فکر متاثر ہوجاتی ہے ا... ور زیادہ عمر رسیدہ لوگوں کو تو dementia ہوجاتا ہے جس سے ذہنی صلاحیتیں ختم ہوجاتی ہیں اور یادداشت جواب دے جاتی ہے۔ اس کیفیت میں بڑے بڑے فلسفی اور دانشور بچوں جیسی باتیں کرنے لگتے ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

60. It is to emphasize this: Allah not only provides you with the necessities and good things of life (as stated in the preceding verses), but also has full power over your life and death. None else has any power to give lift or cause death. 61. This fact has been mentioned to bring home to the disbelievers and the mushriks that knowledge, which gives superiority to man over all creatures on this...  earth, has been given by Allah, as if to say: You yourselves have seen that when a man, who once possessed much knowledge, becomes very old, he is reduced to a mere lump of flesh. Then that man who once taught knowledge to others loses all his senses and cannot look even after his own self.  Show more

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :60 یعنی حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ تمہاری پرورش اور رزق رسانی کا سارا انتظام اللہ کے ہاتھ میں ہے بلکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ تمہاری زندگی اور موت دونوں اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں ۔ کوئی دوسرا نہ زندگی بخشنے کا اختیار رکھتا ہے نہ موت دینے کا ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :61...  یعنی یہ علم جس پر تم ناز کرتے ہو اور جس کی بدولت ہی زمین کی دوسری مخلوقات پر تم کو شرف حاصل ہے ، یہ بھی خدا کا بخشا ہوا ہے ۔ تم اپنی آنکھوں سے یہ عبرت ناک منظر دیکھتے رہتے ہو کہ جب کسی انسان کو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ لمبی عمر دے دیتا ہے تو وہی شخص جو کبھی جوانی میں دوسروں کو عقل سکھاتا تھا ، کس طرح گوشت کا ایک لوتھڑا بن کر رہ جاتا ہے جسے اپنے تن بدن کا بھی ہوش نہیں رہتا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

29: انتہائی بڑھاپے کی حالت کو ’’ ناکارہ عمر‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے جس میں انسان کی جسمانی اور ذہنی قوتیں ناکارہ ہوجاتی ہیں۔ اور سب کچھ جاننے کے باوجود کچھ نہ جاننے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ بڑھاپے کے اس حصے میں انسان اس علم کا اکثر حصہ بھول جاتا ہے جو اس نے اپنی پچھلی زندگی میں حاصل کیا تھا، اور دوسرا ... مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں بکثرت ایسا ہوتا ہے کہ ابھی اسے ایک بات بتائی گئی، اور تھوڑی سی دیر میں وہ ایسا ہوگیا جیسے اس کو کچھ بتایا ہی نہیں گیا تھا۔ یہ حقائق بیان فرما کر غافل انسان کو اس طرف متوجہ کیا جا رہا ہے کہ اسے اپنی کسی طاقت اور صلاحیت پر غرور نہیں کرنا چاہئے۔ جو کوئی طاقت اسے ملی ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، اور جب وہ چاہے واپس لے لیتا ہے۔ ان تغیرات سے اسے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ یہ سارا کارخانہ ایک بڑے علم والے، بڑی قدرت والے خدا کا بنایا ہوا ہے جس کا کوئی شریک نہیں، اور بالآخر ہر شخص کو اسی کے پاس واپس جانا ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٠۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ساٹھ برس کی عمر کا ہو کر جو شخص دنیا کی مکروہات میں پھنسا رہے اس طرح کا شخص اگر اللہ کے روبرو توبہ کرنے اور نیک کام کرنے کا موقع نہ پانے کا عذر کرے گا تو اس کا عذر مقبول نہ ہوگا ١ ؎۔ کیونکہ اتنی بڑی عم... ر پانے سے اس کو اللہ کی طرف جھک جانے کا اچھا موقع مل چکا ہے۔ اسی طرح کی روایتوں سے علماء نے انسان کی عمر کے چار درجے ٹھہرائے ہیں اول درجہ تو دن بدن بڑھنے کا ہے اس کی مدت تینتیس برس تک ہے پھر چالیس تک ایک ہی حالت پر آدمی رہتا ہے اسی کو سن وقوف کہتے ہیں پھر چالیس سے ساٹھ تک اندرونی گھٹاؤ انسان کی حالت میں شروع ہوجاتا ہے ایسی ہی عمر کو ادھیڑ کہتے ہیں اس کے بعد سے طرح طرح کے اندرونی مرض پیدا ہو کر وہ ادھیڑ پنے کی حالت بھی باقی نہیں رہتی اور بات کہہ کر بھول جانا اور خرابیاں اس ناکارہ عمر کی شروع ہوجاتی ہیں۔ جس ناکارہ عمر کا ذکر آیت میں ہے حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے کہ اس امت کے لوگوں کے لئے پچھتر برس کی عمر وہی ناکارہ عمر ہے ٢ ؎، جس کا ذکر آیت میں ہے۔ بخاری اور مسلم میں انس بن مالک (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح کی عمر سے اللہ کی پناہ چاہی ہے ٣ ؎۔ بعضے علماء نے یہاں یہ ایک شبہ کیا ہے کہ مسند امام احمد، ترمذی، دارمی، طبرانی اور مستدرک میں ابی بکرہ (رض) اور عبد اللہ بن بسر (رض) کی صحیح روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کی عمر بڑی ہو اور عمل نیک ہوں وہ اچھا شخص ہے ٤ ؎۔ پھر آپ نے بڑی عمر سے اللہ کی پناہ جو چاہی ہے اس کا کیا مطلب ہے جواب اس شبہہ کا یہ ہے کہ جس عمر تک آدمی سے نیک کام ہو سکے نہ اس کا آیت میں ذکر ہے نہ آپ نے اس سے پناہ چاہی ہے بلکہ آپ نے ناکارہ عمر سے پناہ چاہی ہے اور اسی کا ذکر آیت میں ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آدمی کی عمر کا انقلاب یاد دلا کر یہ تنبیہہ فرمائی ہے کہ ان انقلابوں پر جو قادر ہے اس نے ایک اس انقلاب کا بھی مضبوط وعدہ کیا ہے کہ ہر ایک انسان کو مر کر پھر جینا ہے اس پر ایمان لانا اور عقبیٰ کی فکر کا کرنا ہر مسلمان کا جز ایمان ہے۔ ان اللہ علیم قدیر اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس اپنے علم اور قدرت کے موافق پہلی دفعہ انسان کو پیدا کیا ہے اسی کے موافق وہ انسان کو پھر دوبارہ پیدا کرے گا جو لوگ اس کے منکر ہیں وہ گویا اپنی پہلی پیدائش کے منکر ہیں۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٩٥٠ ج ٢ باب من بلغ ستین سنۃ الخ۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٧٧ ج ٢۔ ٣ ؎ صحیح بخاری ص ٩٤٢ ج ٢ باب الاستعاوۃ من ارؤل العمر۔ ٤ ؎ جامع ترمذی ص ٥٦ ج ٢ باب ماجاء فی طول العمر للمؤمنین۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:70) یتوفکم۔ مضارع واحد مذکر غائب کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر توفی سے (باب تفعل) وہ تمہاری جانوں کو لے لیتا ہے یرد۔ مضارع مجہول واحد مذکر غائب۔ رد مصدر باب نصر۔ وہ لوٹایا جاتا ہے۔ ارذل العمر۔ عمر کا بڑھاپا۔ جب انسان کے قویٰ مضمحل اور ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ یعنی بہت بڑی عمر تک جب جسمانی ودماغی قوتی... ں کمزور پڑجاتی ہیں۔ لکی میں لام عاقبت یا نتیجہ کا ہے ای نتیجۃ۔ کی حرف تعلیل ہے فعل مضارع پر داخل ہوتا ہے اور اسے نصب دیتا ہے لکی لا یعلم۔ لکی لا یعلم بعد علم شیئا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ چیزوں کا علم رکھنے کے بعد بیخبر ہوجاتا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 حیوانات میں قدرت کے دلائل بیان کرنے کے بعد اب خود انسان کے اندر جو دلائل پائے جاتے ہیں ان کو بیان فرمایا اور حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی ابدتائے نشات سے لے کر عالم شباب، کہولت اور سب سے آخر میں شیخوختہ ان مختلف اطوار پر غور کرے تو صانع حکیم کے علم وقدرت کا عجیب نقشہ سامنے آتا ہے کہ عمر کی اس منزل ... میں پہنچ کر انسان بالکل بچہ بن جاتا ہے اور اس کی بےبسی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اس کے ہوش و حواس سلب ہوجاتے ہیں اور کوئی اس کی حفاظت کرنے والا نہیں ہوتا۔ اسے قرآن نے ارزدل العمر قرار دیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت نکمی عمر کی طرف لوٹائے جانے سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ فتح القدیر) 2 یعنی اس امت میں بھی کامل پیدا ہو کر پھر ناقص ہونے لگیں گے۔ (موضح)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دودھ اور شہد کی بناوٹ کا ذکر کرنے کے بعد انسان کو اس کی تخلیق اور اس کی زندگی کے مختلف مراحل کا احساس دلایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی پیدائش اور زندگی کے مختلف مراحل کی طرف توجہ دلانے سے پہلے تخلیق کے عجب کرشمے بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ اے لوگو ! ذرا غور کرو کہ اللہ ت... عالیٰ نے چوپائے کے پیٹ میں خون اور گوبر کے بیچ میں سے کس طرح تمہارے لیے صاف شفاف سفید اور میٹھا دودھ پیدا کیا ہے۔ پھر پھلوں کی طرف دیکھو بالخصوص کھجور اور انگور سے کتنا میٹھا اور عمدہ مشروب تمہارے لیے تیار کیا۔ اگر تھوڑی سی عقل استعمال کرو تو یقیناً اپنے رب پر ایمان لانے کے لیے تیار ہوجاؤ گے۔ مزید سوچو اور دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو کس قدر بصیرت اور رہنمائی سے نوازا ہے کہ دور دراز سے پھلوں کا رس چوس کر تمہارے لیے مختلف رنگ اور ذائقوں کا شہد تیار کرتی ہے۔ غوروفکر کرنے والوں کے لیے مکھی اور اس کے بنائے ہوئے شہد میں کس قدر سبق آموزی کے دلائل ہیں۔ اب اپنے آپ پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کس طرح پیدا فرمایا۔ وہی تمہیں بچپن، جوانی اور ادھیڑ عمر میں موت دیتا ہے۔ تم میں کچھ لوگ عمر کے اس حصہ میں پہنچ جاتے ہیں جس میں ان کی جسمانی اور دماغی صلاحیتیں اس قدر کمزور ہوجاتی ہیں کہ انہیں گزرے ہوئے اوقات میں سے کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور ہر چیز پر قادر ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق اور اس کے مختلف مراحل کا تذکرہ کرنے کے بعد اسے یہ احساس دلانے کی کوشش فرمائی ہے کہ اے انسانو ! اپنی تخلیق کی طرف توجہ کرو۔ تاکہ تمہیں اپنی حقیقت اور حیثیت کا ادراک ہو سکے۔ بالخصوص موت وحیات کے مسئلہ پر غور کرو کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی کی مرضی سے پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی موت کسی کے اختیار میں ہے کوئی دوسرا کجا خود انسان اپنی موت وحیات پر ذرّہ برابر اختیار نہیں رکھتا۔ یہاں تک کہ زندہ ہونے کے باوجود زندگی کے اس حصہ یعنی ارزل العمر میں پہنچ جاتا ہے کہ جس میں نہ صرف اسے اپنے گزرے ہوئے ماضی کی کوئی خبر نہیں رہتی بلکہ اس کی یادداشت اور اعضا اس قدر کمزور ہوجاتے ہیں کہ دوسروں کو پہچاننا تو درکنار اسے اپنی اولاد تک کو پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اسے پاکی، پلیدی کی خبر نہیں ہوتی۔ ارذل العمر کے عوارض بیان کرنے کے بعد انسان کو احساس دلایا ہے کہ تو جیتے جی سب کچھ بھول گیا ہے۔ مگر تیرا رب تیری زندگی کے ایک ایک لمحے سے واقف ہے۔ لہٰذا تجھے صحت اور خوشحالی میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے اور جس طرح چاہے تیری گرفت کرنے پر قادر ہے۔ (عَنْ سَعْدٍ (رض) اَنَّہٗ کَانَ ےُعَلِّمُ بَنِےْہِ ھٓؤُلَآءِ الْکَلِمٰتِ وَےَقُوْلُ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ ےَتَعَوَّذُ بِھِنَّ دُبُرَ الصَّلٰوۃِ اَللّٰھُمَّ انیْْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ اَرْذَلِ الْعُمُرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْےَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ ) [ رواہ البخاری : باب یتعوذ من الجبن ] ” حضرت سعد (رض) اپنے بیٹوں کو یہ کلمات یاد کروایا کرتے تھے۔ سعد کہتے ہیں۔ اللہ کے رسول نماز کے بعدپناہ مانگا کرتے تھے۔” الٰہی میں بزدلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں، الٰہی میں کنجوسی سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں، الٰہی میں نہایت بےبس زندگی سے پناہ مانگتا ہوں الٰہی میں دنیا کے شر اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ کا طلبگارہوں۔ “ مسائل ١۔ موت وحیات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا، قدرت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن انسانی تخلیق کے مختلف مراحل : ١۔ انسان مٹی سے پیدا ہوا۔ (آل عمران : ٥٩) ٢۔ حوا آدم سے پیدا ہوئی۔ (النساء : ١) ٣۔ اللہ نے انسانوں میں سے ہی ان کی بیویاں بنائیں اور ان سے بچے پیدا فرمائے۔ (النحل : ٧٢) ٤۔ اللہ نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الحجر : ٢٧) ٥۔ انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا گیا۔ (الدھر : ٢) ٦۔ تخلیق انسانی کے مختلف مراحل۔ (المؤمنون : ١٢۔ ١٣۔ ١٤)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب روئے سخن جانوروں ، درختوں ، پھلوں ، شہد کی مکھیوں ، شہد کے انعامات کے مقابلے میں نفس انسانی کے قریب تر ، انسانی شخصیت کی گہرائیوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے موضوع کی طرف مڑ جاتا ہے۔ انسانی زندگی کے مختلف مراحل ، انسان کی عمر ، اس کا رزق ، اس کا جوڑا ، بچے اور پوتے وغیرہ جو انسانی دلچسپی کے مخصوص تری... ن موضوعات ہیں۔ انسان ایسی باتوں سے بہت ہی متاثر ہوتا ہے کیونکہ یہ اس کی سرگرمیوں اور دلچسپیوں کے میدان ہیں۔ آیت نمبر ٧٠ تا ٧٣ ان حساس موضوعات میں سے پہلا موضوع انسانی زندگی ، انسانی موت اور زندگی کے مراحل کے بارے میں ہے اور یہ تمام انسانوں کی دلچسپی کا محبوب موضوع ہے۔ انسانی زندگی پر غور کرنے سے انسان یقیناً بعض اوقات سخت سے سخت دل انسان بھی نرمی کا احساس کرلیتے ہیں اور انسان سوچنے لگتا ہے کہ اس پر ہونے والے تمام انعامات تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور جب انسان کے دل میں ان انعامات کے زوال کی بات ڈال دی جائے تو فطرت انسانی کے اندر ودیعت کردہ خدا خوفی کا احساس ، تقویٰ کا وجدان اور اس زندگی کے عطا کرنے والے کی طرف میلان پیدا ہو سکتا ہے۔ خصوصاً بڑھاپے کی صورت حالات میں جب انسان ارذل العمر میں داخل ہوتا ہے وہ علوم کو بھولنا شروع کردیتا ہے اور دوبارہ ایک بچے کی طرح سادہ ، عاجز اور انجان ہوجاتا ہے۔ جب انسان ایسے حالات پر سنجیدگی سے غور کرے تو وہ اپنے موجودہ جوانی ، قوت ، علم اور عزت و وقار پر سوچے تو وہ کافی حد تک راہ راست پر آسکتا ہے۔ ان اللہ علیم قدیر (١٦ : ٧٠) “ بیشک اللہ علیم و قدیر ہے ”۔ یہ نتیجہ یہاں اس لیے بتایا گیا کہ انسان کو اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے کہ مکمل ازلی اور ابدی علم صرف اللہ کا ہے اور حقیقی ازلی اور ابدی قدرت بھی صرف اللہ کے پاس ہے۔ انسان کا علم بھی محدود ہے اور زوال پذیر بھی ہے۔ انسان کی قدرت بھی محدود ہے اور قابل زوال بھی ہے ، اس کے علم اور اس کی قدرت میں بھی جزئی علم وقدرت۔ ان آیات میں دوسرا ٹچ انسان کے وسائل رزق سے متعلق ہے۔ رزق کے میدان میں ایک فرد اور دوسرے فرد کے درمیان تفاوت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ قرآن کریم اس بات کی تصریح کرتا ہے کہ رزق کے معاملے میں لوگوں کے درمیان فرق ہے اور اللہ نے بعض کو بعض پر برتری دی ہے اور یہ برتری بھی سنت الٰہیہ کے تابع ہے۔ مراتب میں یہ تفاوت بھی محض اتفاقی نہیں ہے بلکہ اس میں بھی اللہ کی گہری حکمت پوشیدہ ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بڑا عالم ، مفکر اور عقلمند ہوتا ہے لیکن وسائل رزق اور ان میں ترقی کی صلاحیتیں اس میں محدود ہوتی ہیں کیونکہ دوسرے شعبوں میں اللہ نے ایسے لوگوں کو قیمتی صلاحیتیں دی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسرا انسان بہت ہی سادہ ، باغی اور جاہلی نظر آئے گا لیکن حصول رزق اور اس کی ترقی کے میدان میں یہ شخص بہت ہی ماہر ہوگا۔ پھر لوگوں کے درمیان صلاحیتوں میں تفاوت اور تنوع پایا جاتا ہے۔ بعض اوقات لوگ غور نہیں کرتے اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ رزق کو صلاحیتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ، حالانکہ حصول رزق بھی صلاحیتوں میں سے ایک صلاحیت ہوتی ہے۔ نیز بعض اوقات رزق کی فراوانی اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہوتی ہے جبکہ رزق کی تنگی میں بھی بعض اوقات کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے اور اس حکمت کی بنا پر اللہ بعض لوگوں کو آزماتا ہے۔ بہرحال رزق اور وسائل رزق میں تفاوت ایک ایسی حقیقت ہے جو موجود ہے اور اس کا مدار صلاحیتوں کے اختلاف کی وجہ سے ہے۔ تاہم رزق کا اختلاف صلاحیتوں کے مطابق تب ہوگا جب معاشرے میں مواقع حصول رزق پر ظالمانہ کنٹرول اور مصنوعی تفاوت نہ ہو جس طرح آج کل کے فساد زدہ معاشروں میں ہے۔ اس آیت میں اشارہ اس معاشرے کی طرف ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت دور جاہلیت میں موجود تھا۔ اس صورت حال کو ایک مثال کے طور پر پیش کر کے اللہ تعالیٰ مشرکانہ افکار کے نظام عقائد میں سے ایک عقیدے کی تصحیح فرماتا ہے۔ مکہ کے بت پرستانہ معاشرے میں یہ رواج تھا ، جس طرح ہم نے اس سے قبل اس کی تشریح کردی ہے کہ یہ لوگ اللہ کے دئیے ہوئے اموال میں سے بعض چیزوں کو بتوں کے لئے مخصوص کردیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دیکھو ، تمہارے بھی غلام ہیں ، جس طرح تم اللہ کے غلام ہو ، (یاد رہے کہ اس وقت کے جاہلی معاشرے میں غلامی کا ادارہ موجود تھا ) ۔ تم ہرگز اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ یہ غلام تمہاری کمائی میں تمہارے ساتھ برابر کے شریک ہوجائیں تو اللہ کس طرح یہ بات پسند کرے گا کہ اس کی مخلوقات و مملوکات میں سے بعض چیزیں ان لوگوں کی ہوجائیں جنہیں ناحق اللہ کی خدائی کے امور میں شریک کردیا گیا ہے۔ افبنعمۃ اللہ یجحدون (١٦ : ٧١) “ کیا یہ اللہ کے انعامات و احسانات کا انکار کرتے ہیں ”۔ اللہ نے تو ان پر انعامات کی بارش کردی اور انہوں نے مقابلے میں دوسروں کو اللہ کا شریک ٹھہرا لیا۔ حالانکہ ان کی جانب سے شکر کا واحد طریقہ یہ تھا کہ وہ اللہ وحدہ کو الٰہ سمجھتے۔ یہ تیسری احساس جگانے والی تنبیہ نفس انسانی ، اس کے جوڑے ، بیٹوں ، پوتوں اور دوسری اولاد کے بارے میں ہے۔ سب سے پہلے ذکر مخالف جنس پر مشتمل جوڑنے اور ان کے باہم زندہ تعلق کے بارے میں ہے۔ جعل لکم من انفسکم ازواجا (١٦ : ٧٢) “ جس نے تمہارے لیے تمہاری ہی ہم جنس بیویاں بنائیں ”۔ وہ تمہارے ہی نفس کا حصہ ہیں ، وہ تمہارا ہی حصہ ہیں ، یہ تم سے کوئی کم تر درجے کی مخلوق نہیں ہے کہ تمہیں عورتوں کی پیدائش سے شرم آتی ہے۔ وجعل لکم من ازواجم بنین وحفدۃ (١٦ : ٧٢) “ اور اسی نے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے اور پوتے عطا کئے ”۔ انسان فانی ہے لیکن وہ اپنی ذات کا تسلسل بذریعہ اولاد و احفاد چاہتا ہے۔ حیات انسانی کا یہ پہلو نہایت ہی حساس ہے اور اس تار کو معمولی طور پر چھوٹے ہی سے زمزمہ حیات گونجنے لگتا ہے۔ وسائل رزق کے مقابلے میں اولاد و احفاد کا یہاں ذکر کیا گیا بطور نعمت تا کہ انسانی شعور کے سامنے یہ سوال رکھا جائے۔ افبالباطل یومنون وبنعمت اللہ ھم یکفرون (١٦ : ٧٢) “ تو اب بھی یہ لوگ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں ”۔ یوں کہ وہ اللہ کے شریک قرار دیتے ہیں اور اللہ کے احکام کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ یہ تمام انعامات اللہ کے عطا کردہ ہیں اور یہ نعمات اللہ کی الوہیت و حاکمیت پر گواہ بھی ہیں اور عملاً ان کی زندگی میں یہ نعمتیں موجود بھی ہیں اور ہر وقت ان کے ساتھ رہتی ہیں۔ کیا یہ لوگ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کے سوا جو بھی ہے وہ باطل ہے۔ اور یہ الٰہ جن کو یہ پکارتے ہیں لا محالہ باطل ہیں ، محض اوہام ہیں ، ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ان کے بارے میں ایسی سوچ اور مرتبے کا کوئی حق و حقیقت نہیں ہے۔ لہٰذا اس حرکت کا ارتکاب کر کے وہ انعامات الٰہیہ کا انکار کرتے ہیں ۔ جبکہ اس حقیقت کو وہ خود بھی اپنی فطری صلاحیت سے محسوس بھی کرتے ہیں اور احساس ہوتے ہوئے انکار کرتے ہیں۔ ویعبدون من ۔۔۔۔ یستطیعون (١٦ : ٧٣) “ اور اللہ کو چھوڑ کر ان کو پوجتے ہیں جن کے ہاتھ میں نہ آسمانوں سے انہیں کچھ بھی رزق دینا ہے نہ زمین سے اور نہ یہ کام وہ کر ہی سکتے ہیں ”۔ یہ عجیب بات ہے کہ انسانی فطرت اس حد تک منحرف ہوجائے اور ایسی چیزوں کی بندگی کرے جن کے ہاتھ میں لوگوں کا رزق نہیں ہے اور نہ وہ ایک ہی دن کے لئے لوگوں کے رزق کا انتظام کرنے کے اہل ہیں۔ جبکہ یہ لوگ اللہ کو خالق ، رازق ، فریاد رس مانتے بھی ہیں اور اس کا انکار نہیں کرسکتے لیکن اس کے باوجود اللہ کے مماثل اور اس جیسی شخصیات کے قائل ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ ثُمَّ یَتَوَفّٰکُمْ ) (اور اللہ نے تمہیں پیدا فرمایا پھر وہ تمہیں اٹھالے گا یعنی موت دے گا) (وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ الآی اَرْذَلِ الْعُمُرِلِکَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْءًا) (اور تم میں سے بعض وہ ہوتے ہیں جو نکمی عمر کی طرف لوٹا دئیے جاتے ہیں جس کا اثر یہ ... ہوتا ہے کہ جاننے کے بعد کچھ بھی نہیں جانتے) سمجھ اور حافظہ کی جو قوت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی جس سے جوانی میں اور بڑھاپے میں خوب کام لیا جاتا رہتا ہے جب خوب زیادہ بڑھاپا آجاتا ہے تو آدمی نکما ہوجاتا ہے جو چیزیں جانتا تھا اب انہیں نہیں جانتا اور ایک چیز کے بارے میں بار بار پوچھتا ہے حتیٰ کہ بتانے والے بھی زچ ہوجاتے ہیں، زندگی بھر کھایا کمایا قوت و ہمت کے ساتھ محنت کی چیزوں کو جانا اور پہچانا زیادہ بڑھاپا آگیا تو اس نے بالکل ہی نکما کردیا، اللہ تعالیٰ شانہ جس طرح چاہتا ہے تصرف فرماتا ہے اور جس حال میں رکھنا چاہتا ہے مخلوق کو اسی حال میں رہنا پڑتا ہے (اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ) (بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے بڑی قدرت والا ہے۔ )  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

53:۔ موت وحیات بھی اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے اسی نے تم سب کو خلعت حیات عطا فرمائی موت بھی اسی کے قبضہ میں ہے کسی کو بچپن میں موت سے ہمکنار فرما دیتا ہے، کسی کو جوانی میں اور کسی کو بڑھاپے میں ” ان اللہ علیم قدیر “ وہ سب کچھ جاننے والا اور بڑی قدرت والا ہے۔ جس طرح وہ نطفہ بےجان سے لے کر انسان ک... ے بڑھاپے تک کے تمام درمیانی انقلابات پر قادر ہے اسی طرح وہ مردوں کو دوبارہ زندگی عطا کرنے پر بھی قادر ہے، یہ منکرینِ قیامت پر احتجاج ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

70 ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہی تم کو پیدا کیا ہے پھر وہی مقررہ عمر پوری ہونے کے بعد تم کو قبض کرلیتا ہے اور بعض تم میں سے وہ ہے جس کو نکمی اور ناکارہ عمر تک پہنچا دیا جاتا ہے جس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ سب کچھ سننے اور سمجھنے کے بعد انجان ونادان ہوجاتا ہے اور کچھ نہیں سمجھتا اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ... اور کمال قدرت کا مالک ہے۔ یعنی بعض تو جلدی مرجاتے ہیں اور بعض بڑھاپے کی آخری حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ سمجھدار ہوتے ہوئے آخری میں بھولا اور انجان بن جاتا ہے اور کسی شے کو نہیں سمجھتا اور بالکل بچہ بن جاتا ہے۔ ومن نعمرہ ننکسہ فی الخلق حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اس امت میں کامل ہونے کے بعد پھر ناقص ہونے لگیں گے۔ 12  Show more