Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 89

سورة النحل

وَ یَوۡمَ نَبۡعَثُ فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیۡدًا عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ جِئۡنَا بِکَ شَہِیۡدًا عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ ؕ وَ نَزَّلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ تِبۡیَانًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿٪۸۹﴾  18

And [mention] the Day when We will resurrect among every nation a witness over them from themselves. And We will bring you, [O Muhammad], as a witness over your nation. And We have sent down to you the Book as clarification for all things and as guidance and mercy and good tidings for the Muslims.

اور جس دن ہم ہر امت میں انہی میں سے ان کے مقابلے پر گواہ کھڑا کریں گے اور تجھے ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے اور ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ہرچیز کا شافی بیان ہے اور ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے مسلمانوں کے لئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Every Prophet will bear Witness against his Nation on the Day of Resurrection Allah addressed His servant and Messenger Muhammad, saying: وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ وَجِيْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَـوُلاء ... And on the Day when We resurrect a witness from each nation from among themselves, and We bring you (O Muhammad) as a witness against these), meaning, your Ummah. The Ayah means: remember that Day and its terrors, and the great honor and high position that Allah has bestowed upon you. This is like the Ayah with which Abdullah bin Mas`ud ended when he recited to the Messenger of Allah from the beginning of Surah An-Nisa'. When he reached the Ayah: فَكَيْفَ إِذَا جِيْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِيْنَا بِكَ عَلَى هَـوُلاءِ شَهِيداً How (will it be) then, when We bring from each nation a witness and We bring you (O Muhammad) as a witness against these! (4:41) the Messenger of Allah said to him: حَسْبُك Enough. Ibn Mas`ud said: "I turned to him and saw his eyes streaming with tears." The Qur'an explains Everything Allah says: ... وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ... (And We revealed the Book (the Qur'an) to you as an explanation of everything,) Ibn Mas`ud said: "﴿Allah﴾ made it clear that in this Qur'an there is complete knowledge and about everything." The Qur'an contains all kinds of beneficial knowledge, such as reports of what happened in the past, information about what is yet to come, what is lawful and unlawful, and what people need to know about their worldly affairs, their religion, their livelihood in this world, and their destiny in the Hereafter. ... وَهُدًى ... a guidance, means, for their hearts. ... وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ a mercy, and good news for the Muslims. Al-Awza`i said: وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ (And We have revealed the Book (the Qur'an) as an explanation of everything), meaning, with the Sunnah. The is the reason why the phrase, وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ (And We have revealed the Book to you), is mentioned immediately after the phrase, ... وَجِيْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَـوُلاء ... And We shall bring you (O Muhammad) as a witness against these. the meaning - and Allah knows best - is that the One Who obligated you to convey the Book which He revealed to you, will also ask you about that on the Day of Resurrection. فَلَنَسْـَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْـَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ Then We shall indeed question those (people) to whom it (the Book) was sent and We shall indeed question the Messengers. (7:6) فَوَرَبِّكَ لَنَسْـَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ عَمَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ So by your Lord We question them all about what they did. (15:92-92) يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُواْ لاَ عِلْمَ لَنَأ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّـمُ الْغُيُوبِ On the Day when Allah gathers the Messengers together and says to them: "What was the response you received (to your Message)!" They will say: "We have no knowledge, indeed only You are the Knower of all that is hidden." (5:109) And Allah says: إِنَّ الَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْءَانَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ Verily, He Who obligated the Qur'an upon you (O Muhammad) will surely bring you back to the return. (28:85) meaning, the One Who gave you the obligation of conveying the Qur'an will bring you back to Him, and your return will be on the Day of Resurrection, and He will question you about you commission of the duty He gave you. This is one of the opinions, and it presents a good understanding of it.

کتاب مبین اللہ تعالیٰ اپنے محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کر کے فرما رہے ہیں کہ اس دن کو یاد کر اور اس دن جو تیری شر افت وکر امت ہو نے والی ہے اس کا بھی ذکر کر ۔ یہ آیت بھی ویسی ہی ہے جیسی سورہ نساء کے شروع کی آیت فکیف اذا جئنا من کل امتہ بشھید و جئنا بک علی ھو لاء شھیدا یعنی کیو نکر گزرے گی جب کہ ہم ہر امت میں سے گواہ لائیں گے اور ان سب پر گواہ بنا کر کھڑا کریں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار حضرت عبداللہ بن مسعود سے سورہ نساء پڑھوائی جب وہ اس آیت تک پہنچے تو آپ نے فرمایا بس کر کافی ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ اس وقت آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پھر فرماتا ہے اپنی اس اتاری ہوئی کتاب میں تیرے سامنے سب کچھ بیان فرما دیا ہے ہر علم اور ہر شے اس قرآن میں ہے ۔ ہر حلال حرام ، ہر ایک نا فع علم ، ہر بھلائی گذشتہ کی خبریں ، آ ئندہ کے واقعات ، دین دنیا ، معاش معاد ، سب کے ضروری احکام واحوال اس میں موجود ہیں ۔ یہ دلوں کی ہدایت ہے ، یہ رحمت ہے ، یہ بشارت ہے ۔ امام اوزاعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ کتاب سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا کر ہر چیز کا بیان ہے ۔ اس آیت کو اوپر والی آیت سے غا لبا یہ تعلق ہے کہ جس نے تجھ پر اس کتاب کی تبلیغ فرض کی ہے اور اسے نازل فرمایا ہے وہ قیامت کے دن تجھ سے اس کی با بت سوال کرنے والا ہے جیسے فرمان ہے کہ امتوں اور رسو لوں سے سب سے سوال ہو گا ۔ واللہ ہم سب سے ان کے اعمال کی باز پرس کریں گے ۔ رسولوں کو جمع کر کے ان سے سوال ہو گا کہ تمہیں کیا جواب ملا ؟ وہ کہیں گے ، ہمیں کوئی علم نہیں ، تو علام الغیوب ہے ۔ اور آیت میں ہے ان لذی فرض علیک القر ان لر ادک الی معاد یعنی جس نے تجھ پر تبلیغ قرآن فرض کی ہے ، وہ تجھے قیامت کے دن اپنے پاس لوٹا کر اپنے سو نپے ہوئے فریضے کی با بت تجھ سے پر سش کرنے والا ہے ۔ یہ ایک قول بھی اس آیت کی تفسیر میں ہے اور ہے بھی معقول اور عمدہ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

89۔ 1 یعنی ہر نبی اپنی امت پر گواہی دے گا اور نبی اور آپ کی امت کے لوگ انبیاء کی بابت گواہی دیں گے کہ یہ سچے ہیں، انہوں نے یقیناً تیرا پیغام پہنچا دیا تھا (صحیح بخاری) 89۔ 2 کتاب سے مراد اللہ کی کتاب اور نبی کی تشریحات (احادیث) ہیں۔ اپنی احادیث کو بھی اللہ کے رسول نے ' کتاب اللہ ' قرار دیا ہے۔ اور ہر چیز کا مطلب ہے، ماضی اور مستقبل کی خبریں جن کا علم ضروری اور مفید ہے، اسی طرح حرام و حلال کی تفصیلات اور وہ باتیں جن کے دین و دنیا اور معاش و معاد کے معاملات میں انسان محتاج ہیں۔ قرآن و حدیث دونوں میں یہ سب چیزیں واضح کردی گئی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٠] آپ کا دوسرے صحابہ سے قرآن سننا :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ نے مجھے فرمایا کہ && مجھے قرآن سناؤ && میں نے عرض کی۔ بھلا میں آپ کو کیا سناؤں، آپ ہی پر تو قرآن نازل ہوا ہے && آپ نے فرمایا && ٹھیک ہے، مگر دوسرے سے سننا مجھے اچھا لگتا ہے && ابن مسعود کہتے ہیں کہ پھر میں نے سورة نساء پڑھنا شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچا (فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰوُلاَءٍ شَھِیْدًا) 4 ۔ النساء :41) تو آپ نے فرمایا && بس کرو && میں نے دیکھا تو اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) قیامت کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گواہی :۔ سورة نساء کی آیت نمبر ٤١ اور سورة نحل کی اس آیت کا مضمون ایک ہی ہے۔ البتہ الفاظ کا اختلاف اور تقدیم و تاخیر ضرور ہے ان دونوں آیات میں ھولاء کا مشار الیہ دوسرے انبیاء بھی ہوسکتے ہیں۔ اور گواہی یہ دینا ہوگی کہ آیا واقعی ان سابقہ انبیاء نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ اس مطلب کے لحاظ سے آپ کی تمام انبیاء پر فضیلت ثابت ہوئی اور اسی فرط مسرت و انبساط سے آپ کے آنسو بہنے لگے کہ یہ آپ پر اللہ کا کتنا بڑا فضل ہے اور اگر ھولاء کا مشارٌ الیہ آپ کی امت کے لوگوں کو سمجھا جائے جو اس وقت موجود تھے تو یہ ایک بڑی گرانبار ذمہ داری بن جاتی ہے کہ آپ ان کے اچھے اور برے سب اعمال پر گواہی دیں خصوصاً اس صورت میں کہ آپ کو صحابہ کرام (رض) سے بےحد محبت تھی اور آپ ان پر بڑے مہربان تھے۔ اسی خیال سے آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ نیز ھٰوُلاَءِ سے مراد آپ کی امت کے وہ لوگ بھی مراد لیے جاسکتے ہیں جو آپ کی وفات کے بعد سے لے کر قیامت تک پیدا ہوں گے۔ اور ان لوگوں پر آپ گواہی دیں گے کہ جنہوں نے قرآن کو پس پشت ڈال رکھا تھا۔ انہوں نے قرآن کو محض ایک عملیات کی کتاب سمجھ رکھا تھا۔ جلسے جلوسوں کا افتتاح تو تلاوت قرآن سے ہوتا تھا اس کے بعد انھیں قرآن کے احکام سے کوئی غرض نہ ہوتی تھی۔ یا ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے قرآنی آیات واحکام کو سمجھنے کے بعد محض دنیوی اغراض یا فرقہ وارانہ تعصب کے طور پر ان کی غلط تاویل کرتے تھے۔ ان سب لوگوں کے خلاف اللہ کے ہاں یہ گواہی دیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ جیسا کہ سورة فرقان کی آیت نمبر ٣٠ سے واضح ہے۔ [٩١] قرآن میں تفصیل کس قسم کی ہے :۔ چونکہ قرآن کریم کا موضوع بنی نوع انسان کی ہدایت ہے لہذا یہاں ہر چیز سے مراد ہر ایسی چیز ہے جو انسان کی ہدایت سے تعلق رکھتی ہو۔ یعنی اس میں تمام اچھے اور برے اعمال اور ان کی جزا و سزا کی خبر دی گئی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دنیا جہان کے علوم و فنون اس میں آگئے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی تفصیلات بھی موجود ہیں جیسا کہ اکثر حضرات اپنے اپنے علوم و فنون کو بہ تکلف قرآن کریم کی طرف منسوب کرنے کی کوشش فرماتے ہیں۔ قرآن کریم میں اگر کوئی بات طب، جغرافیہ یا تاریخ یا ہیئت کی آگئی ہے تو وہ ضمناً ہے ایسے علوم بیان کرنا قرآن کا اصل مقصد نہیں۔ نیز قرآن میں جو چیزیں مذکور ہوئی ہیں ان میں سے بعض کی تو تفصیل بھی قرآن میں آگئی ہے۔ بعض اجمالاً بیان ہوئی ہیں۔ ان کی تفصیل قرآن کے بیان یا آپ کی سنت سے ملتی ہے۔ حتیٰ کہ بیشتر ارکان اسلام تک قرآن میں اجمالاً بیان ہوئے ہیں۔ اور ان کی پوری تفصیل احادیث میں مذکور ہے اور ان قرآنی احکام پر عمل صرف اس صورت میں کیا جاسکتا ہے کہ احادیث سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ اس سے ایک اہم نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ جو لوگ احادیث کے منکر ہیں یا حدیث کو حجت تسلیم نہیں کرتے وہ فی الحقیقت صرف حدیث کے نہیں بلکہ قرآن کے بھی منکر ہوتے ہیں۔ پھر جو مسائل نئے پیدا ہوں اور کتاب و سنت میں مذکور نہ ہو۔ علمائے امت کا فرض ہے کہ وہ کتاب و سنت کو پیش نظر رکھ کر اجتہاد و استنباط کے ذریعہ ایسے مسائل کا حل دریافت کریں اور اجتہاد کرنا بھی سنت نبوی ہے اور سنت نبوی سے ثابت ہے اور یہ دونوں چیزیں بھی قرآن کے تبیان میں شامل ہیں اس طرح قرآن سے ہر شرعی مسئلہ میں تاقیامت رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ [٩٢] قرآن کے تین فائدے :۔ قرآن کریم مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اس لحاظ سے ہے کہ اس میں زندگی کے ہر شعبے کے متعلق تفصیلی احکام و ہدایات موجود ہیں حتی کہ مابعد الطبیعات کے متعلق بھی ہمیں بیش قیمت معلومات بہم پہنچاتا ہے اور ان ہدایات و احکام پر عمل پیرا ہونے سے انسان کی دنیوی زندگی بھی قلبی اطمینان و سکون سے بسر ہوتی ہے اور اخروی زندگی بھی سنور ہوجاتی ہے اور خوشخبری اس لحاظ سے ہے کہ فرمانبردار بندوں کو شاندار مستقبل اور جنت کی دائمی اور لازوال نعمتوں کی بشارت دیتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (١٤٣) اور سورة نساء کی آیت (٤١) ” مِّنْ اَنْفُسِهِمْ “ سے مراد خود ان کے چمڑوں اور دوسرے اعضاء کی شہادت بھی ہوسکتی ہے۔ دیکھیے سورة حٰمٓ السجدہ (٢٠، ٢١) ۔ ۭوَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا ۔۔ : ” تِبْيَانًا “ مصدر ہے، بیان میں مبالغہ ہے، بہت اچھی طرح بیان کرنا، یعنی حلال و حرام اور ہر اس چیز کا واضح بیان ہے جس پر دنیا و آخرت میں انسان کی ہدایت و گمراہی اور کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہے، پھر جن احکام کو قرآن نے مختصر طور پر بیان کیا ہے، یا ان کا بیان چھوڑ دیا ہے ان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و اتباع فرض قرار دے کر سنت و حدیث کی طرف رجوع کا حکم دیا ہے۔ لِّكُلِّ شَيْءٍ : قرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ اس میں ہر چیز کا واضح بیان ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) نے ایک دفعہ فرمایا : ( لَعَنَ اللّٰہُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوْتَشِمَاتِ ، وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ ، الْمُغَیِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰہِ ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ امْرَأَۃً مِنْ بَنِيْ أَسَدٍ یُقَالُ لَھَا أُمُّ یَعْقُوْبَ ، فَجَاءَ تْ فَقَالَتْ إِنَّہُ بَلَغَنِيْ أَنَّکَ لَعَنْتَ کَیْتَ وَکَیْتَ ، فَقَالَ وَمَا لِيْ لَا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَنْ ھُوَ فِيْ کِتَاب اللّٰہِ ؟ فَقَالَتْ لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَیْنَ اللَّوْحَیْنِ فَمَا وَجَدْتُ فِیْہِ مَا تَقُوْلُ ، فَقَالَ لَءِنْ کُنْتِ قَرَأْتِیْہِ لَقَدْ وَجَدْتِیْہِ ، أَمَا قَرَأْتِ : ( ۭ وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ) قَالَتْ : بَلٰی، قَالَ فَإِنَّہُ قَدْ نَھَی عَنْہُ ) [ بخاری، التفسیر، سورة الحشر، باب : ( وما ٰاتاکم الرسول فخذوہ۔۔ ) : ٤٨٨٦ ]” اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو جلد میں سوئی کے ذریعے سے نیل کے ساتھ نقش و نگار بناتی ہیں اور جو بنواتی ہیں اور جو چہرے کے بال اکھڑواتی ہیں اور جو دانتوں کے درمیان فاصلہ کرواتی ہیں، اللہ کی پیدا کردہ چیز کو بدلتی ہیں۔ “ بنو اسد کی ایک خاتون ام یعقوب نامی کو یہ بات پہنچی تو وہ آئی اور کہنے لگی : ” مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے ایسی ایسی عورتوں پر لعنت کی ہے ؟ “ انھوں نے فرمایا : ” میں اس پر کیوں لعنت نہ کروں جس پر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت کی ہے اور جو اللہ کی کتاب میں بھی ہے۔ “ اس نے کہا : ” میں نے دونوں تختیوں کے درمیان (پورا قرآن) پڑھا ہے، اس میں تو تمہاری یہ بات مجھے نہیں ملی۔ “ فرمایا : ” اگر تو نے اسے پڑھا ہوتا تو تجھے مل جاتا، کیا تم نے یہ نہیں پڑھا : ( ۭ وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ) [ الحشر : ٧ ] ” اور رسول تمہیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمہیں روک دے تو رک جاؤ۔ “ اس نے کہا : ” کیوں نہیں ؟ “ فرمایا : ” پھر بات یہ ہے کہ ان کاموں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع کیا ہے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے اپنے الفاظ کے مطابق اس میں ہر چیز کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ دین کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتائے ہوئے ہر حکم پر عمل کرنا اور ہر نہی سے باز رہنا بھی قرآن ہی کا حصہ ہے۔ مفسر شعراوی نے یہاں شیخ محمد عبدہ مصری کا ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ میں پیرس میں تھا، ایک مستشرق (غیر مسلم عربی عالم) نے مجھ سے کہا کہ قرآن میں ہے : (مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ) [ الأنعام : ٣٨ ] ” ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی۔ “ میں نے کہا، ہاں ٹھیک ہے۔ اس نے کہا، اچھا یہ بتاؤ کہ ایک اردب (تقریباً ٤٨ کلو) آٹے کی کتنی روٹیاں بنتی ہیں ؟ میں نے کہا، یہ معمولی بات ہے، آؤ کسی روٹیاں پکانے والے سے پوچھ لیتے ہیں۔ اس نے کہا، نہیں، میں قرآن میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا، قرآن نے تو بتادیا ہے : ( فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) [ الأنبیاء : ٧ ] ” اگر تم نہیں جانتے تو اہل الذکر (اسے سمجھنے والے) سے پوچھ لو۔ “ غرض قرآن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے۔ مزید تفصیل اسی سورت کی آیت (٦٤) اور اس کے حواشی میں ملاحظہ فرمائیں۔ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ : یہاں تینوں لفظ اسم فاعل کے بجائے مصدر ذکر فرمائے ہیں، مثلاً ” ھَادِیٌ“ کے بجائے ” َهُدًى“ اور اسی طرح ” رَحْمَةً “ اور ” بُشْرٰى“ فرمایا ہے، ایسا مبالغہ کے لیے کیا جاتا ہے، مثلاً زید کو بہت ہی زیادہ عادل کہنا ہو تو ” زَیْدٌ عَادِلٌ“ کے بجائے کہتے ہیں ” زَیْدٌ عَدْلٌ“ یعنی زید عین عدل ہے۔ مقصد یہ کہ قرآن مسلمانوں کے لیے ہدایت، رحمت اور بشارت ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In verse 89, by saying: وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ the Qur&an has been credited as the exposition of everything. It means everything about the religion because the objective of Divine revelation and Prophetic mission concerns with these very things. Therefore, the very effort to cull out an¬swers to problems pertaining to economic sciences from the Qur’ an is an exercise in error. However, the appearance of some implied hint some-where there shall not be deemed contrary to this. Now remains the ques¬tion that the Qur’ an does not carry answers to all problems of the relig¬ion itself, how then, would it be correct to say that it is an exposition of everything&? The answer is that the Qur’ an, does carry the basic principles con¬cerning all problems, and it is in their light that the Ahadith of the Rasul of Allah clarify these problems. Then, there are some details which are delegated to the principles of Ijma` (consensus) and Al-Qiyas (analogical deduction following the norms set by the Shari` ah of Islam). This tells us that the religious rulings deduced from the Ahadith of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and from Ijma` and Qiyas are also, in a way, as stated by the Qur’ an itself.

معارف و مسائل : (آیت) وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ اس میں کتاب یعنی قرآن کو ہر چیز کا بیان فرمایا گیا ہے مراد اس سے دین کی سب چیزیں اور باتیں ہیں کیونکہ وحی ونبوت کا مقصد انہی چیزوں سے متعلق ہے اس لئے معاشی فنون اور ان کے مسائل کو قرآن میں ڈھونڈھنا ہی غلط ہے اگر کہیں کوئی ضمنی اشارہ آجائے تو وہ اس کے منافی نہیں رہا یہ سوال کہ قرآن کریم میں دین کے بھی تو سب مسائل مذرکور نہیں تو تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ کہنا کیسے درست ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں اصول تو تمام مسائل کے موجود ہیں انہی کی روشنی میں احادیث رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان مسائل کا بیان کرتی ہیں اور کچھ تفصیلات کو اجماع و قیاس شرعی کے سپرد کردیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ احادیث رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اجماع و قیاس سے جو مسائل نکلے ہیں وہ بھی ایک حیثیت سے قرآن ہی کے بیان کئے ہوئے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا عَلَيْهِمْ مِّنْ اَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيْدًا عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ ۭوَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ 89؀ۧ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قرآن ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرتا ہے قول باری ہے (ونزلنا علیک الکتب تبیانا لکل شی۔ ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کردی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے) اس سے مراد…واللہ اعلم… یہ ہے کہ یہ کتاب امور دین میں سے ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے یہ وضاحت یا تو نص کے ذریعے ہوئی ہے یا دلالت کے ذریعے۔ کوئی بڑا یا چھوٹا واقعہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق اللہ کا کوئی نہ کوئی حکم نص یا دلیل کے طور پر اس کی کتاب میں بیان نہ کردیا گیا ہو۔ جو احکامات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان کئے ہیں وہ بھی کتاب اللہ سے صادر ہوئے ہیں اس لئے کہ قول باری ہے (وما اتاکم الرسول فخذوہ ومانھا کم عنہ وفانتھوا جو کچھ رسول تمہیں دیں اسے لے لو اور جس چیز سے تمہیں روکیں اس سے رک جائو) نیز ارشاد باری ہے (وانک تھدی الی صراط مستقیم صراط اللہ اور یقیناً تم سیدھے راستے یعنی اللہ کے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہو) نیز فرمایا (من یطع الرسول فقد اطاع اللہ جس شخص نے رسول کی فرمانبرداری کی اس نے اللہ کی فرمانبرداری کی) اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ بیان کریں وہ منجانب اللہ ہوگا اور کتاب اللہ کی تشریح اور توضیح میں شمار ہوگا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری اور ان کے حکم کی اتباع کا امر فرمایا ہے۔ اسی طرح جس چیز پر اجماع کا انعقادہو جائے اس کا مصدر بھی کتاب اللہ ہوگا اس لئے کہ اجماع کی حجیت کی صحت پر کتاب اللہ کی دلالت موجود ہے نیز یہ کہ امت گمراہی پر اکٹھی نہیں ہوسکتی۔ قیاس اور اجتہاد رائے کی بنا پر نیز استدلال کی دوسری تمام صورتوں مثلاً استحسان اور قبول خبر واحد کی وجہ سے واجب ہونے والے احکام بھی کتاب اللہ کی تبیان اور اس کی وضاحت کی صورتیں ہیں اس لئے کہ کتاب اللہ ان تمام پر دلالت کرتی ہے۔ دین سے تعلق رکھنے والے ہر حکم کا وجود کتاب اللہ کے اندر ہے جس کی وضاحت ان صورتوں میں ہوتی ہے جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ یہ آیت قیاس کے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے وہ اس طرح کہ جب ہمیں پیدا شدہ نئے مسئلے کے بارے میں کتاب اللہ کے اندر کوئی منصوص حکم نہیں ملے گا، نہ سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر اور نہ ہی اجماع کے اندر اور دوسری طرف اللہ نے یہ فرما دیا ہے کہ کتاب اللہ کے اندر دین کے ہر معاملے کی وضاحت موجود ہے تو سا سے یہ بات ثابت ہوجائے گی اس نئے مسئلے کے متعلق حکم معلوم کرنے کا طریقہ نظر یعنی اجتہاد رائے اور قیاس کے ذریعے استدلال ہے۔ اس لئے کہ اس طریقے کے سوا اس نئے مسئلے کا حکم معلوم کرنے کا اور کوئی ذریعہ باقی نہیں رہتا ہے جو لوگ نص خفی یا استدلال کے ذریعے حکم معلوم کرنے کے قائل ہیں وہ بھی غیر شعوری طور پر اجتہاد رائے نیز نظر و قیاس سے کام لیتے ہیں ان کا یہ قول لفظی طور پر قیاس کے قائلین کے خلاف ہے لیکن منوی طور پر ان کے موافق ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٩) اور جس دن ہم ہر ہر امت میں ایک ایک گواہ جو ان ہی میں سے ہوگا یعنی ان کے نبی کو قائم کریں گے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی امت کے لیے آپ کو گواہ بنا کر لائیں گے یا یہ کہ ان سب کے مقابلہ میں ان کی صفائی کے لیے آپ کو گواہ بنا کر لائیں گے اور میں نے بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) آپ پر قرآن پاک اتارا جو حلال و حرام اوامرو نواہی میں سے ہر ایک بات کو بیان کرنے والا ہے اور مسلمانوں کے لیے گمراہی سے بڑی ہدایت اور عذاب سے بڑی رحمت اور جنت کی خوشخبری سنانے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٩ (وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا عَلَيْهِمْ مِّنْ اَنْفُسِهِمْ ) یہ وہی الفاظ ہیں جو ہم آیت ٨٤ میں پڑھ آئے ہیں۔ قیامت کے دن تمام رسول اپنی اپنی امت پر گواہ ہوں گے۔ سورة الاحزاب میں محمد رسول اللہ کے بارے میں اس حوالے سے فرمایا گیا : (یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا) ” اے نبی ! یقیناً ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہی دینے والا خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر اور بلانے والا اللہ کی طرف اس کے حکم سے اور ایک روشن چراغ “۔ اسی طرح سورة المزمل میں حضور کے بارے میں فرمایا : (اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا لا شاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا) ” یقیناً ہم نے بھیجا ہے تمہاری طرف ایک رسول گواہی دینے والا تم پر جیسے ہم نے بھیجا تھا فرعون کی طرف ایک رسول۔ “ (وَجِئْنَا بِكَ شَهِيْدًا عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ ) قبل ازیں ہم سورة النساء میں بھی اس سے ملتی جلتی یہ آیت پڑھ چکے ہیں : (فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۢ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِيْدًا) ” پھر کیا حال ہوگا جب ہم لائیں گے ہر امت میں سے ایک گواہ اور آپ کو لائیں گے ان پر گواہ “۔ یہاں ہٰٓؤُلَآءِ کے لفظ میں قریش مکہ کی طرف اشارہ ہے جن تک حضور نے براہ راست اللہ کی دعوت پہنچا دی تھی۔ لہٰذا قیامت کے دن آپ ان کے خلاف گواہی دیں گے کہ اے اللہ میں نے آپ کا پیغام بےکم وکاست ان تک پہنچا دیا تھا اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑی تھی۔ میں نے اس ضمن میں برس ہا برس تک ان کے درمیان ہر طرح کی مشقت اٹھائی۔ انہیں تنہائی میں فرداً فرداً بھی ملا اور علی الاعلان اجتماعی طور پر بھی ان سے مخاطب ہوا۔ میں نے اس سلسلے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا تھا۔ رسول اللہ نے اللہ کا یہ پیغام اہل عرب تک براہ راست پہنچا دیا اور باقی دنیا تک قیامت تک کے لیے یہ پیغام پہنچانے کی ذمہ داری آپ نے امت کو منتقل فرما دی۔ اب اگر امت اس فرض میں کوتاہی کرے گی تو لوگوں کی گمراہی کا وبال افراد امت پر آئے گا۔ چناچہ یہ بہت بھاری اور نازک ذمہ داری ہے جو امت مسلمہ کے افراد ہونے کے سبب ہمارے کندھوں پر آپڑی ہے۔ سورة البقرۃ کی آیت ١٤٣ میں امت مسلمہ کی اس ذمہ داری کا ذکر تحویل قبلہ کے ذکر کے فوراً بعد اس طرح فرمایا گیا : (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا) ” اسی طرح ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنے “۔ اس بھاری ذمہ داری کی ادائیگی کے دوران بہت مشکل اور جان گسل مراحل کا آنا نا گزیر ہے۔ اس طرح کے مشکل مراحل سے گزرنے کا طریقہ سورة البقرۃ ہی میں آگے چل کر اس طرح واضح کیا گیا : (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ) ” اے ِ اہل ایمان تم مدد طلب کرو نماز اور صبر کے ساتھ ‘ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے “۔ اور پھر اس راہ میں جان کی بازی لگانے والے خوش نصیب اہل ایمان کی دلجوئی اس طرح فرمائی گئی : (وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ ) ” اور مت کہو انہیں مردہ جو اللہ کے رستے میں قتل کردیے جائیں ‘ بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔ “ (وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ ) یعنی حیات انسانی کے تمام مسائل کا حل قرآن میں موجود ہے۔ قرآن ان لوگوں کے لیے ہدایت ‘ رحمت اور بشارت ہے جو مسلم یعنی اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

86. The Quran makes manifest everything on which depends guidance or deviation, success or failure. Whose knowledge is essential for following the right way. What clearly distinguishes truth from falsehood. In this connection one should guard against that meaning of this sentence and the like in the Quran according to which some people interpret “everything” to mean the knowledge of all sciences, arts, etc. and in order to prove the correctness of their interpretation, they have to pervert the real meaning of the Quran. 87. This Book is a guidance for those who surrender to it as a divine Book and follow it in every aspect of life. Then it will bring Allah’s blessings upon them, and will give them the good news that they will come out successful in the court of Allah on the Day of Judgment. Or, the contrary, those people who reject it shall not only be deprived of guidance and blessing but will also find it as a testimony against themselves on the Day of Resurrection when Allah’s Messenger will stand up to testify against them. This Book will prove to be a strong argument against them. For Allah’s Messenger will say that he had conveyed its message which made manifest the distinction between truth and falsehood.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :86 یعنی ہر ایسی چیز کی وضاحت جس پر ہدایت وضلالت اور فلاح وخسران کا مدار ہے ، جس کا جاننا راست روی کے لیے ضروری ہے ، جس سے حق اور باطل کا فرق نمایاں ہوتا ہے غلطی سے لوگ تبیانا لکل شیء اور اس کی ہم معنی آیات کا مطلب یہ لے لیتے ہیں کہ قرآن میں سب کچھ بیان کردیا گیا ہے ۔ پھر وہ اسے نباہنے کے لیے قرآن سے سائنس اور فنون کے عجیب عجیب مضامین نکالنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :87 یعنی جو لوگ آج اس کتاب کو مان لیں گے اور اطاعت کی راہ اختیار کرلیں گے ان کو یہ زندگی کے ہر معاملہ میں صحیح رہنمائی دے گی اور اس کی پیروی کی وجہ سے ان پر اللہ کی رحمتیں ہوں گی اور انہیں یہ کتاب خوشخبری دے گی کہ فیصلہ کے دن اللہ کی عدالت سے وہ کامیاب ہو کر نکلیں گے ۔ بخلاف اس کے جو لوگ اسے نہ مانیں گے وہ صرف یہی نہیں کہ ہدایت اور رحمت سے محروم رہیں گے ، بلکہ قیامت کے روز جب خدا کا پیغمر ان کے مقابلہ میں گواہی دینے کو کھڑا ہو گا تو یہی دستاویز ان کے خلاف ایک زبر دست حجت ہو گی ۔ کیونکہ پیغمبر یہ ثابت کر دے گا کہ اس نے وہ چیز انہیں پہنچا دی تھی جس میں حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دیا گیا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٩۔ اللہ پاک نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس آیت میں خطاب کر کے فرمایا کہ قیامت کے دن ہر امت کے رسول اس امت کی حالت کی گواہی دیں گے اور جب وہ امتیں اپنے رسولوں کو جھٹلاویں گی تو اے رسول اللہ کے تم ان رسولوں کے بیان کی صداقت کرائی جاوے گی کیوں کہ قرآن میں یہ سب صداقت موجود ہے۔ صحیح بخاری وغیرہ کے حوالہ سے ابو سعید خدری (رض) کی حدیث جو اوپر گزری ١ ؎ اس میں یہ ہے کہ قیامت کے دن نوح (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا کہ آپ نے رسالت کی تبلیغ کی تھی۔ نوح (علیہ السلام) کہیں گے کہ ہاں اے رب ہمارے ہم نے تبلیغ کی تھی پھر ان کی امت سے سوال کیا جائے گا کہ تمہارے پاس نوح (علیہ السلام) نے پیغام پہنچایا تھا وہ لوگ کہیں گے ہمارے پاس تو کوئی پیغمبر ڈرانے والا نہیں پہنچا پھر نوح (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا کہ تمہارا کوئی گواہ ہے وہ فرماویں گے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت گواہ ہے غرض کہ امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلائی جائے گی اور وہ ان کی صداقت کی گواہی دے گی کہ نوح (علیہ السلام) نے ان کے پاس پیغام پہنچایا تھا۔ جس کا قرآن میں ذکر ہے۔ غرض کہ اسی طرح ہر ایک رسول سے سوال کیا جائے گا اور وہ اپنی امت کے گواہ ہوں گے اور حضرت رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت عام لوگوں کے گواہ ہوں کسی فرقہ اور کسی قوم اور کسی شہر والوں کے ساتھ یہ بات خاص نہ ہوگی۔ پھر اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ اللہ نے وہ کتاب اتاری ہے جو ساری باتیں کھول کھول کر بیان کرتی ہے اسی واسطے اس میں پہلے رسول کے بیان کی صداقت موجود ہے اور جو لوگ فرمانبردار ہیں ان کو یہ کتاب نجات کا رستہ بتاتی ہے اور جو اس پر عمل کرتے ہیں ان کے لئے یہ کتاب اللہ کی رحمت اور جنت کی خوشخبری ہے۔ ١ ؎ یعنی ص ٣٦٠ پر۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:89) یوم ۔ اس کا نصب فعل محذوف کا مفعول ہونے کی وجہ سے ہے۔ ای اذکر یوم یاد کرو وہ دن۔ تبیانا۔ بان یبین (ضرب) کا مصدر ہے۔ بیان ۔ وضاحت۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی ان کا پیغمبر جو ان پر اتمام حجت کے لئے گواہی دے گا کہ ان لوگوں نے حق و باطل کی کشمکش میں گیا رویہ اختیار کیا 3 صحیحین میں روایت ہے کہ آنحضرت نے عبداللہ بن معسود کو سورة نسا تلاوت کرنے کا حکم دیا۔ جب وہ اسی سورت کی اس مضمون والی آیت 14 پر پہنچے تو آنحضرت کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ زمانہ فشرت میں بھی توحید پرست لوگ رہے ہیں جو قیامت کے دن بطور شاہد پیش ہوں گے واللہ اعلم دیکھیے سورة بقرہ آیت 43 و نسا آیت 4 4 یعنی حلال و حرام اور ہر اس چیز کا بیان ہے جس پر دنیا و آخرت میں انسان کی ہدایت و ضلالت اور فرلاح و خسران کا انحصار ہے پھر جن احکام کو قرآن نے مجملاً بیان کیا ہے یا ان کے بیان کو چھوڑ دیا ہے۔ ان میں پیغمبر کی اطاعت کو فرض قرار دے کر سنت کی طرف رجوع کا حکم دیا ہو۔ شوکانی

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مراد اس امت کا نبی ہے۔ اور ان ہی میں کا کا ہونا عام ہے خواب باعتبار شرک نسب کے ہو خواہ باعتبار شرکت سکنی کے ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس خطاب کا آغاز اس بات سے ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر امت پر اس کے نبی کو گواہ کے طور پر پیش فرمائیں گے۔ اس کا اختتام بھی اسی مسئلے سے کیا جا رہا ہے۔ اے رسول ! وہ وقت یاد کیجئے کہ جب ہر ا مّت سے ہم ایک گواہی دینے والا کھڑا کریں گے اور آپ کی امت پر آپ کو گواہ کے طور پر لایا جائے گا۔ ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہدایت کے متعلق ہر بات کو کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔ یہ کتاب مسلمانوں کے لیے سراسر ہدایت، رحمت اور خوشخبری بنا کر بھیجی گئی ہے۔ حدیث کی مقدس دستاویزات میں اس آیت کی تفسیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے یوں بیان ہوئی ہے کہ ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن مسعود (رض) کو فرمایا کہ اے عبداللہ ! میرا دل چاہتا ہے کہ آپ مجھے قرآن مجید کی تلاوت سنائیں۔ عبداللہ بن مسعود (رض) عرض کرنے لگے کہ اے رسول محترم ! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کروں جب کہ قرآن مجید آپ پر نازل ہوا ہے۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا، میں تجھ سے قرآن مجید سننا چاہتا ہوں۔ عبداللہ بن مسعود (رض) نے اس آیت کی تلاوت کی جس کی تفصیل جاننے کے لیے حدیث کے مقدس الفاظ پڑھیں تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کو کس احساس کے ساتھ پڑھا اور سنا کرتے تھے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ یَحْیَی بَعْضُ الْحَدِیثِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالَ قَالَ لِیَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اقْرَأْ عَلَیَّ قُلْتُ آقْرَأُ عَلَیْکَ وَعَلَیْکَ أُنْزِلَ قَالَ فَإِنِّیْٓ أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَہٗ مِنْ غَیْرِیْ فَقَرَأْتُ عَلَیْہِ سُورَۃَ النِّسَاءِ حَتَّی بَلَغْتُ (فَکَیْفَ إِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلاآءِ شَہِیْدًا) قَالَ أَمْسِکْ فَإِذَا عَیْنَاہُ تَذْرِفَانِ ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، فَکَیْفَ إِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍم بِشَہِیدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلَی ہٰٓؤُلاآءِ شَہِیْدًا ] حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا جب کہ آپ منبر پر تشریف فرما تھے۔ اے عبداللہ ! میرے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کرو۔ میں نے عرض کیا میں آپ کو پڑھ کر سناؤں ؟ جبکہ آپ پر قرآن نازل ہوا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں پسند کرتا ہوں کہ کسی دوسرے سے قرآن مجید سنوں۔ پھر میں نے سورة نساء کی تلاوت شروع کردی۔ جب میں اس آیت پر پہنچا ” اس وقت کیا حال ہوگا۔ جب ہم ہر امت سے گواہ لائیں گے اور تجھے ہم ان پر بطور گواہ لائیں گے۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اب بس کیجیے۔ میں نے آپ کی طرف نظر اٹھائی تو آپ کی آنکھوں سے زاروقطار آنسو بہہ رہے تھے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر امت سے ایک گواہ پیش کرے گا۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی امت پر گواہ بنایا جائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسی کتاب نازل فرمائی جو ہدایت کے متعلق جو ہر بات کھول کر بیان کرنے والی ہے۔ ٤۔ قرآن مجید مسلمانوں کے لیے باعث ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء ( علیہ السلام) کی شہادت : ١۔ اس دن ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے۔ (النحل : ٨٩) ٢۔ جس دن ہم اٹھائیں گے ہر امت سے گواہ پھر کفار کو اجازت نہ دی جائے گی۔ (النحل : ٨٤) ٣۔ تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور اور تم لوگوں پر۔ (البقرۃ : ١٤٣) ٤۔ تاکہ رسول تم پر اور تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ۔ (الحج : ٧٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تشریح : مشرکین کا منظر نظروں کے سامنے ہے۔ بہت ہی سخت حالات ہیں۔ شرکاء ان لوگوں کی تکذیب کر رہے ہیں جو انہیں شریک سمجھ رہتے تھے اور وہ اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کر رہے اور اپنے دنیاوی متبعین کے الزامات سے براءت کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایسے ہی حالات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشرکین مکہ اور منکرین قریش کے کیس کی بھی ایک جھلکی نظروں کے سامنے آتی ہے۔ صرف ایک جھلکی : وجتنابک شھیدا علی ھولاء (٦١ : ٩٨) ” اور ان لوگوں کے مقابلے میں شہادت دینے کے لئے ہم تمہیں لائیں گے “۔ اس کے بعد متصلاً یہ بات آتی ہے کہ اے رسول تم پر جو کتاب اتاری گئی ہے وہ ایک جامع کتاب ہے۔ ونزلنا علیک الکتب تبیانا لکل شیئی وھدی ورحمہ و بشری للمسلمین (٦١ : ٩٨) ” اور ہدایت و رحمت اور خوشخبری ہے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے سرتسلیم خم کردیا ہے “۔ لہٰذا جو شخص ہدایت و رحمت چاہتا ہے تو وہ قیام قیامت سے پہلے ہی اسلام قبول کرے ، کیونکہ اس دن پھر کافروں کو دوبارہ عمل کی نہ اجازت ہوگی اور نہ ان کو معذرت پیش کرنے کی اجازت ہوگی۔ یوں قرآن مجید منظر کشی کے انداز میں اپنے مطالب بیان کرتا ہے خوبصورت ہم آہنگی کے ساتھ۔ درس نمبر ٣٢١ ایک نظر میں سابقہ درس میں اس آیت پر ختم ہوا تھا۔ ونزلنا علیک الکتب تبیانا لکل شئی وھدی ورحمتہ و بشری للمسلمین (٦١ : ٩٨) ” اور اے نبی ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کا بیان ہے اور ہدایت ، رحمت اور خوشخبری ہے ، مسلمانوں کے لئے “۔ چناچہ اس درس میں اس کی بعض تعلیمات بیان کی گئی ہیں یعنی وہ کیا تعلیمات ہیں جو ہدایت رحمت ، اور بشارت ہیں۔ یہ کہ اس میں عدل ، احسان ، رشتہ داروں پر خرچ کا حکم ، فحاشی کی ممانعت ، گناہ اور حد سے تجاوز کی ممانعت ہے اور نیز اس میں وعدے کے وفا کرنے کا حکم ہے اور قسموں کے توڑنے کی ممانعت ہے۔ یہ وہ اہم اور بنیادی تعلیمات ہیں کہ اس کتاب میں ان پر زور دیا گیا ہے۔ اس سبق میں نقض عہد کو جرم قرار دیا گیا ہے ، اسی طرح قسمیں کھا کر لوگوں کو گمراہ کرنا اور ان کو دھوکہ دینے کو بھی بہت بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔ اور اس کے لئے عذاب عظیم کی شدید وعید ہے۔ اس کے مقابلے میں جو لوگ صبر کرتے ہیں ان کے لئے خوشخبری ہے کہ ان کو ان کے اچھے اعمال کا صلہ ملے گا۔ اس کے بعد کتاب عظیم کے آداب تلاوت بیان ہوئے ہیں مثلاً یہ کہ تلاوت سے قبل شیطان رحیم سے اللہ کی پناہ مانگیں تاکہ یہ مردود مجلس تلاوت قرآن سے بھاگ جائے۔ نیز کتاب عظیم کے بارے میں مشرکین کی بعض خود ساختہ باتوں کا بھی ذکر ہے۔ مثلاً بعض مشرکین یہ کہتے تھے کہ نعوذ باللہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود باتیں بنا کر ناحق خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ بعض یہ کہتے تھے کہ ایک عجمی غلام ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ باتیں بتاتا ہے۔ اس سبق کے آخر میں ان لوگوں کی سزا کا ذکر ہے جو ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرتے ہیں۔ نیز ایسے لوگوں کا بھی ذکر ہے جنہیں کفر پر مجبور کردیا جائے لیکن ان کا قلب ایمان سے مطمئن ہو۔ نیز ان برگزیدہ لوگوں کا ذکر ہے جن پر ایمان کی وجہ سے تشدد ہوا۔ اور انہوں نے ہجرت کی ، جہاد کیا اور صبر کیا۔ یہ سب باتیں اللہ کی طرف سے واضح ہدایات ہیں ، بہترین راہنمائی ہیں ۔ اللہ کی رحمت ہیں اور اہل ایمان کے لئے خوشخبری ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ وَّ ھُدًی وَّ رَحْمَۃً وَّ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ ) (اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جو ہر چیز کو بیان کرنے والی ہے اور فرمانبرداروں کے لیے ہدایت ہے اور رحمت اور خوشخبری ہے۔ ) اس میں قرآن مجید کی صفات بیان فرمائی ہیں اول تو (تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ ) فرمایا یعنی ہر چیز کا بیان کرنے والا (اس سے امور متعلقہ بالدین مراد ہیں) قرآن مجید میں بہت سے احکام اصول و فروع بیان فرما دئیے ہیں اور بہت سے احکام و مسائل جو انسانی معاشرہ کی حاجات و ضروریات پر حاوی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائے، آپ کا بیان فرمانا بھی قرآن ہی کا بیان فرمانا ہے کیونکہ قرآن نے جو احکام بالتصریح نہیں بتائے ان کا بتانا اللہ تعالیٰ نے آپ پر محمول فرما دیا اور قرآن نے حکم دے دیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری کرو اور آپ کا اتباع کرو (اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ) بھی فرمایا اور (مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ ) بھی فرمایا اور (وَمَآ اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا) بھی فرمایا نیز سبیل المومنین کے اتباع کا بھی حکم دیا جو سورة نساء کے رکوع نمبر ١٤ میں مذکور ہے لہٰذا اجماع بھی حجت ہوا اور حوادث و نوازل میں حضرات صحابہ (رض) نے قرآن و حدیث کے بیان فرمودہ اصول و فروع پر قیاس کرکے بہت سے مسائل بتائے اس لیے محققین کے نزدیک قیاس بھی حجت ہے لیکن اسے حجت مثبتہ نہیں کہتے حجت مظہرہ کہتے ہیں حدیث اجماع اور قیاس کو حجت نہ مانا جائے تو قرآن مجید کے بارے میں جو (تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ ) فرمایا ہے اس کو سامنے رکھ کر ملحدین گمراہ کردیں گے خوب سمجھ لیا جائے، حوادث و نوازل کے بارے میں مقیس اور مقیس علیہ کو دیکھ کر احکام شرعیہ کو مستنبط کرنے کو اجتہاد کہا جاتا ہے اور یہ فقہاء کا کام ہے البتہ احکام منصوصہ میں قیاس کرنا جائز نہیں، جب حضرات صحابہ نے غیر منصوص مسائل میں استنباط و اجتہاد کیا جن کی تعریف قرآن مجید میں فرمائی ہے تو اس سے ثابت ہوگیا کہ قیاس بھی حجت شرعیہ ہے، قرآن مجید نے جو (فَسْءَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) فرمایا ہے اس میں اہل علم کی طرف رجوع فرمانے کا ذکر ہے اہل علم میں محدثین بھی ہیں اور فقہاء بھی ہیں خوب اچھی طرح سمجھ لیا جائے صاحب روح المعانی لکھتے ہیں (ص ٢١٥ ج ١٤) وقد رضی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لامتہ باتباع اصحابہ حیث قال (علیہ السلام) (علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی عضوا علیھا بالنواجذ) قد اجتھدوا وقاسوا ووطؤا طرائق الاجتھاد فکانت السنۃ والاجماع والقیاس مسندۃ الی تبیان الکتاب پھر قرآن مجید کی مزید تین صفات بیان فرمائیں ھدی (ہدایت) اور رحمت اور بشارت، بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ ہدایت اور رحمت تو سبھی کے لیے ہے اور بشارت اہل اسلام کے لیے ہے کیونکہ وہ اسلام قبول کرکے اور اسلامی احکام پر عمل کرکے آخرت کی نعمتوں کے مستحق ہوتے ہیں اور قرآن مجید نے انہیں جگہ جگہ ان نعمتوں کی بشارت دی ہے اسی لیے بشری کے ساتھ للمسلمین فرمایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

71:۔ اعادہ بوجہ بعد عہد برائے بیان امر زائدہ ” من انفسہم “ یعنی قیامت کے دن ہم ہر امت سے گواہ کھڑا کریں گے مراد ہر امت کا رسول ہے یا اس سے مراد ہر آدمی کے ہاتھ پاؤں ہیں جو قیامت کے دن بول کر آدمی کے نیک و بد اعمال کی گواہی دیں گے۔ ” و جئنا بک الخ “ اور آپ کو ہم ان مشرکین پر بطور گواہ قیامت کے دن اپنی عدالت میں حاضر کریں گے۔ قیامت کے دنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے زمانہ کے نیک و بد لوگوں کے بارے میں گواہی دیں گے اور سب کے بارے میں بیان فرمائیں گے کہ انہوں نے آپ کی دعوت کے ساتھ کس قسم کا سلوک کیا۔ چناچہ صحیح مسلم میں ہےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اقول کما قال العبد الصالح الخ میں وہی جواب دوں گا جو اللہ کے نیک بندے عیسیٰ (علیہ السلام) دیں گے۔ یعنی ” و کنت علیھم شہیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم الایۃ۔ “ یعنی جب تک میں ان میں موجود رہا اس وقت تک تو ان کے حال کو جانتا تھا مگر بعد کا مجھے علم نہیں وہ کیا کرتے رہے۔ لفظ ” شہیداً “ کی پوری تحقیق سورة بقرہ کی تفسیر میں گذر چکی ہے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر 273 ص 70، 71 ۔ 72:۔ پہلے حصہ میں نفی شرک فی التصرف پر چھ دلائل عقلیہ اور ایک دلیل نقلی کے بعد یہ دلیل وحی ہے یعنی ایک طرف تو عقل سلیم کی واضح شہادتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب، متصرف و مختار اور کارساز نہیں اور تمام انبیاء (علیہم السلام) بھی اسی لیے مبعوث کیے گئے اور یہ مسئلہ بذریعہ وحی آپ پر نازل کیا گیا ہے آپ اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے۔ ہم نے آپ پر ایک ایسی جامع کتاب نازل کی ہے جس میں عقائد سے لے کر اعمال تک اور اخلاق سے لے کر معاملات تک کے بارے میں تمام بنیدی اور ضروری احکام بیان کردیے گئے ہیں۔ اہل بدعت اس آیت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے علم غیب کلی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ قرآن میں ہر چیز بیان کردی گئی ہے۔ یعنی ماکان و ما یکون اورحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن مجید کو کما حقہ سمجھتے تھے لہذا اس سے ثابت ہوا کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ماکان ومایکون کا کلی اور تفصیلی علم تھا۔ مگر یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ ان کا استدلال اس پر مبنی ہے کہ یہاں لفظ کل استغراق حقیقی کے لیے ہو اور یہ دعوی باطل ہے کیونکہ ” تبیانا لکل شیء “ میں کل استغراق حقیقی کے لیے نہیں بلکہ استغراق اضافی کے لیے ہے اور اس سے دین کے بنیادی اور ضروری احکام مراد ہیں جیسا کہ مفسرین نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ تبیانا لکل شیء من امور الدین (مدارک ج 2 ص 229) ۔ قال مجاھد تبیانا للحلال والحرام (قرطبی ج 10 ص 164) ۔ لکل شیء یحتاج الیہ من الامر والنہی والحلال والحرام والحدود والاحکام (معالم ج 4 ص 110) ۔ تبیانا لکل شیء یعنی من امور الدین (خازن) ۔ والمراد من کل شیء علی ما ذھب الیہ جمع ما یتعلق بامور الدین (روح ج 4 ص 214) ۔ (تبیانا) بیانا بلیغا (لکل شیء) یتعلق بامور الدین (ابو السعود ج 5 ص 507) قال الزمخشری المعنی انہ بین کل شیء من امور الدین الخ (بحر ج 9 ص 527) (تبیانا) بیانا بلیغا (لکل شیء) یحتاجون الیہ من امور الدین (جامع البیان ص 237) ۔ ان حوالوں سے معلوم ہوگیا کہ مفسرین کرام (شکر اللہ مساعیھم) نے یہاں لفظ کل استغراق اضافی پر محمول کیا ہے اور استغراق حقیقی کسی نے بھی مراد نہیں لیا لہذا مبتدعین کا استدلال باطل ہے اور اس آیت سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے علم غیب کلی ثات نہیں ہوسکتا۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ قرآن مجید کے تمام احکام دین کا بیان ہونے سے مراد یہ ہے کہ کچھ احکام قرآن میں صراحۃً مذکور ہیں اور کچھ بحوالہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا کہ فرمایا ” ما اٰتکم الرسول فخذوہ و ما نھکم عنہ فانتھوا “۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

89 ۔ اور وہ دن قابل ذکر ہے جس دن ہم ہر امت میں سے اس کے خلاف گواہی دینے والا اٹھا کھڑا کریں گے انہی میں سے اور اے پیغمبر ان لوگوں کے مقابلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گواہ لائیں گے۔ اور اے پیغمبر ہم نے یہ کتاب آپ پر نازل کی ہے جو دین کی ہر بات بیان کرنیالی ہے اور مسلمانوں کے لئے خاص طور پر بڑی ہدایت اور بڑی رحمت اور بشارت و خوشخبری سنانے والی ہے۔ یعنی قیامت کے دن کا یہ واقعہ قابل ذکر اور قابل خوف ہے جس دن ہر ایک امت میں سے ایک کے پیغمبر گواہی دینے کے لئے بلائے جائیں گے پھر وہ امت کی نا فرمانیوں کے حالات بیان کریں گے اور چونکہ اے پیغمبر آپ بھی صاحب امت رسول ہیں اس لئے آپ بھی اپنی امت پر گواہ بنا کر لائے جائیں گے اور آپکی امت نے آپ کی دعوت پر جو سلوک آپ کے ساتھ کیا ہے وہ آپ بھی بیان کریں گے اور چونکہ آپ کی رسالت ثابت ہے اس لئے اس کی مزید توثیق فرماتے ہوئے نزول کتاب اور قرآن کریم کے اتارنے کا ذکر فرمایا قرآن کریم کو بتیان فرمایا جو ہر دین کی بات کو واضح کرتا ہے اس کا ہدایت و رحمت اور بشارت دہندہ ہونا ظاہر ہی ہے۔ رہی مسلمانوں کی خصوصیت تو جو اس کو مانتا ہے اور کلام الٰہی تسلیم کرتا ہے اسی کو ہدایت و رحمت اور بشارت سے بہر ہ اور حصہ ملتا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء کی توثیق و تصدیق کریں اور انکے لئے شہادت دیں۔