Surat Bani Isareel

The Night Journey

Surah: 17

Verses: 111

Ruku: 12

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فضیلت سورہ بنی اسرائیل صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سورہ بنی اسرائیل ، سورہ کہف اور سورہ مریم سب سے پہلے ، سب سے بہتر اور بڑی فضیلت والی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزے کبھی تو اس طرح پے درپے لگا تار رکھتے چلے جاتے کہ ہم اپنے دل میں کہتے شاید حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ پورا مہینہ روزں ہی میں گزار دیں گے اور کبھی کبھی بالکل ہی نہ رکھتے یہاں تک کہ ہم سمجھ لیتے کہ شاید آپ اس مہینے میں روزے رکھیں گے ہی نہیں ۔ اور آپ کی عادت مبارک تھی کہ ہر رات سورہ بنی اسرائیل اور سورہ زمر پڑھا کرتے تھے ۔ سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر ۱ کی تفسیر سرگزشت معراج اللہ تعالیٰ اپنی ذات کی عزت وعظمت اور اپنی پاکیزگی وقدرت بیان فرماتا ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اس جیسی قدرت کسی میں نہیں ۔ وہی عبادت کے لائق اور صرف وہی ساری مخلوق کی پرورش کرنے والا ہے ۔ وہ اپنے بندے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی رات کے ایک حصے میں مکہ مکرمہ کی مسجد سے بیت المقدس کی مسجدتک لے گیا ۔ جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کم زمانے سے انبیاء کرام علیہم السلام کا مرکز رہا ۔ اسی لئے تمام انبیاء علیہم السلام وہیں آپ کے پاس جمع کئے گئے اور آپ نے وہیں ان سب کی امامت کی ۔ جو اس امر کی دلیل ہے کہ امام اعظم اور رئیس مقدم آپ ہی ہیں ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلیہم اجمعین اس مسجد کے ارد گرد ہم نے برکت دے رکھی ہے ۔ پھل ، پھول ، کھیت ٰ باغات وغیرہ سے ۔ یہ اس لئے کہ ہمارا ارادہ اپنے اس محترم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زبردست نشانیاں دکھانے کا تھا ۔ جو آپ نے اس رات ملاحظہ فرمائیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں ، مومنوں ، کافروں ، یقین رکھنے والوں اور انکار کرنے والوں سب کی باتیں سننے والا ہے اور سب کو دیکھ رہا ہے ۔ ہر ایک کو وہی دے گا ، جس کا وہ مستحق ہے ۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ معراد کی بابت بہت سی حدیثیں ہیں جواب بیان ہو رہی ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ معراج والی رات جب کہ کعبۃ اللہ شریف سے آپ کو بلوایا گیا ، آپ کے پاس تین فرشتے آئے ، اس سے پہلے کہ آپ کی طرف وحی کی جائے ۔ اس وقت آپ بیت اللہ شریف میں سوئے ہوئے تھے ۔ ان میں سے ایک جو سب سے آگے تھا اس نے پوچھا کہ یہ ان سب میں سے کون ہیں ؟ درمیان والے نے جواب دیا کہ یہ ان سب میں بہترین ہیں ۔ تو سب سے اخیر والے نے کہا ۔ پھر ان کو لے چلو ۔ بس اس رات تو اتنا ہی ہوا ۔ پھر آب نے انہیں نہ دیکھا ۔ دوسری رات پھر یہ تینوں آئے ۔ اس وقت بھی آپ سو ہے تھے ۔ لیکن آپ کا سونا اس طرح کا تھا کہ آنکھیں سوتی تھیں اور دل جاگ رہا تھا ۔ تمام انبیاء کی نیند اسی طرح کی ہوتی ہے ۔ اس رات انہوں نے آپ سے کوئب بات نہ کی ۔ آپ کو اٹھا کر پاہ زمزم کے پاس لٹا دیا اور آپ کا سینہ گردن تک خود جبرائیل علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے جاگ کیا ۔ اور سینے اور پیٹ کی تمام چیزیں نکال کر اپنے ہاتھ سے دھوئیں ۔ جب خوب پاک صاف کر چکے تو آپ کے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جس میں سونے کا ایک بڑا پیالہ تھا جو حکمت وایمان سے پر تھا ۔ اس سے آپ کے سینے کو اور گلے کی رگوں کو پر کر دیا گیا ۔ پھر سینے کو سی دیا گیا ۔ پھر آب کو آسمان دنیا کی طرف لے چڑھے ۔ وہاں کے دروازوں میں سے ایک دروازے کو کھٹکھٹایا ۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جبرائیل ۔ پوچھا آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ فرمایا میرے ساتھ محمد ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا ۔ کیا آپ کو بلوایا گیا ہے جواب دیا کہ ہاں ۔ سب بہت خوش ہوئے اور مرحبا کہتے ہوئے آپ کو لے گئے ۔ آسمانی فرشتے بھی کچھ نہیں جانتے کہ زمین پر اللہ تعالیٰ کیا کچھ کرنا چاہتا ہے ۔ جب تک کہ انہیں معلوم نہ کرایا جائے ۔ آپ نے آسمان دنیا پر حضرت آدم علیہ السلام کو پایا ۔ جبرائیل علیہ السلام نے تعارف کرایا کہ یہ آپ کے والد حضرت آدم علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے ۔ آپ نے سلام کیا ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے جواب دیا ، مرحبا کہا اور فرمایا آپ میرے بہت ہی اچھے بیٹے ہیں ۔ وہاں دو نہریں جاری دیکھ کر آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ نہریں کیا ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ نیل اور فرات کا عنصر ۔ پھر آپکو آسمان میں لے چلے ۔ آپ نے ایک اور نہر دیکھی ، جس پر لولو اور موتوں کے بالا خانے تھے ، جس کی مٹی خالص مشک تھے ۔ پوچھا یہ کونسی نہر ہے ؟ جواب ملا کہ یہ نہر کوثر ہے ۔ جسے آپ کے پروردگار نے آپ کے لئے خاص طور پر مقرر کر رکھی ہے ۔ پھر آپ کو تیسرے آسمان پر لے گئے ۔ وہاں کے فرشتوں سے بھی وہی سوال جواب وغیرہ ہوئے ، جو آسمان اول پر اور دوسرے آسمان پر ہوئے تھے ۔ پھر آپ کو چوتھے آسمان پر چھڑھایا گیا ۔ ان فرشتوں نے بھی اسی طرح پوچھا اور جواب پایا وغیرہ ۔ پھر پانچویں آسمان پر چڑھائے گئے ۔ وہاں بھی وہی کہا سنا گیا ، پھر چھٹے پر پھر ساتویں آسمان پر گئے ، وہاں بھی بات چیت ہوئے ۔ ہر آسمان پر وہاں کے نبیوں سے ملاقاتیں ہوئیں جن کے نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے جن میں سے مجھے یہ یاد ہیں کہ دوسرے آسمان میں حضرت ادریس علیہ السلام ، چوتھے آسمان میں حضرت ہارون ، پانچویں والے کا نام مجھے یاد نہیں ، چھٹے میں حضرت ابراہیم ، ساتویں میں حضرت موسیٰ کلیم اللہ ، علیہ وعلی سائر الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ جب آپ یہاں سے بھی اونچے چلے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے اللہ میرا خیال تھا کہ مجھ سے بلند تو کسی کو نہ کرے گا اب آپ اس بلندی پر پہنچے جس کا علم اللہ ہی کو ہے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہی تک پہنچے اور اللہ تعالیٰ آپ سے بہت نزدیک ہوا ۔ بقدر دو کمان کے بلکہ اس سے کم فاصلے پر ۔ پھر اللہ کی طرف سے آپ کی جانب وحی کی گئی ۔ جس میں آپ کی امت پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض ہوئیں ۔ جب آپ وہاں سے اترے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو روکا اور پوچھا کیا حکم ملا ؟ فرمایا دن رات میں پچاس نمازوں کا ۔ کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا ، ، یہ آپ کی امت کی طاقت سے باہر ہے ۔ آپ واپس جائیں اور کمی کی طلب کیجئے ، ، ۔ آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف دیکھا کہ گویا آپ ان سے مشورہ لے رہے ہیں ۔ ان کا بھی اشارہ پایا کہ اگر آپ کی مرضی ہو تو کیا حرج ہے ؟ آپ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف گئے اور اپنی جگہ ٹھیر کر دعا کی کہ اے اللہ ہمیں تخفیف عطا ہو ۔ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی ۔ پس اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کر دیں ۔ پھر آپ واپس لوٹے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو پھر روکا اور یہ سن کر فرمایا ۔ جاؤ اور کم کراؤ ۔ آپ پھر کئے ، پھر کم ہوئیں ، یہاں تک کہ آخر میں پانچ رہ گئیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر بھی فرمایا کہ دیکھو میں بنی اسرائیل میں اپنی عمر گزار کر آیا ہوں ۔ انہیں اس سے بھی کم حکم تھا لیکن پھر بھی وہ بےطاقت ثابت ہوئے اور اسے چھوڑ بیٹھے ۔ آپ کی امت تو ان سے بھی ضعیف ہے ، جسم کے اعتبار سے بھی اور دل ، بدن ، آنکھ کان کے اعتبار سے بھی ۔ آپ پھر جائیے اور اللہ تعالیٰ سے تخفیف کی طلب کیجئے ۔ آپ نے پھر حسب عادت حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف دیکھا ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کو پھر اوپرلے گئے ، آپ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ اے اللہ میری امت کے جسم ، دل ، کان آنکھیں اور بدن کمزور ہیں ۔ ہم سے اور بھی تخفیف کر ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے جواب دیا لیک وسعدیک ۔ ، فرمایا ۔ سن میری باتیں بدلتی نہیں جو میں نے اب مقرر کیا ہے یہی میں ام الکتاب میں لکھ چکا ہوں ۔ یہ پانچ ہیں پڑھنے کے اعتبار سے اور بچاس ہیں ثواب کے اعتبار سے ۔ جب آپ والپس آئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ، کہو سوال منظور ہوا ؟ آپ نے فرمایا ۔ ہاں کمی ہوگئی یعنی پانچ کا ثواب پچاس کا مل گیا ہر نیکی کا ثواب دی گنا عطا فرمایا جانے کا وعدہ ہو گیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر فرمایا کہ میں بنی اسرائیل کا تجربہ کر چکا ہوں ، انہوں نے اس سے بھی ہلکے احکام کو ترک کر دیا تھا ، آپ پھر جائیے اور کمی طلب کیجئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اے کلیم اللہ میں گیا ، آیا ، اب تو مجھے کچھ شرم سی محسوس ہوتی ہے ۔ آپ نے فرمایا اچھا پھر تشریف لے جائیے ۔ بسم اللہ کیجئے ۔ اب جب آپ جاگے تو آپ مسجد الحرام میں ہی تھے ۔ صحیح بخاری شریف میں یہ حخدمیث کتاب التوحید میں بھی ہے اور صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی ہے ۔ یہی روایت شریک بن عبداللہ بن ابو نمر سے مروی ہے لیکن انہوں نے اضطراب کر دیا ہے بوجہ اپنی کمزوری حافظہ کم بالکل ٹھیک ضبط نہیں رکھا ۔ ان احادیث کے آخر میں اس کا بیان آئے گأ ۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ بعض اسے واقعہ خواب بیان کرتے ہیں شاید اس جملے کی بنا پر جو اس کے آخر میں وارد ہے واللہ اعلم ۔ حفظ ابو بکر بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے اس جملے کو جس میں ہے کہ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ قریب ہوا اور اتر آیا بس بقدر دو کمان کے ہو گیا ۔ بلکہ اور نزدیک ۔ شریک نامی راوی کی وہ زیادتی بتاتے ہیں جس میں وہ منفرد ہیں ۔ اسی لئے بعض حضرات نے کہا کہ آپ نے اس رات اللہ عزوجل کو دیکھأ ۔ لیکن حضرت عائشہ ، حضرت ابن مسعود ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم ان آیتوں کو اس پر محمول کرتے ہیں کہ آپ نے حضرت جرئیل علیہ السلام کو دیکھا ۔ یہی زیادہ صحیح ہے اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان بالکل حق ہے اور روایت میں ہے کہ جب آپ سے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا ۔ وہ نور ہے ، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ؟ اور روایت میں ہے کہ میں نے نور کو دیکھا ہے ۔ یہ جو سورۃ والنجم میں ہے ثم دنا فتدلی یعنی پھر وہ نزدیک ہوا اور اتر آیا ۔ اس سے مراد حضرت جبرائیل ہیں جیسے کہ ان تینوں بزرگ صحابیوں رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بیان ہے ۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے تو کوئی اس آیت کی اس تفسیر میں ان کا مخالف نظر نہیں آتا ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میرے باس براق لایا گیا ۔ جو گدھے سے اونچا اور خچر سے نیچا تھا ، جو ایک ایک قدم اتنی اتنی دور رکھتا تھا ، جتنی دور اس کی نگاہ پہنچے ۔ میں اس پر سوار ہوا وہ مجھے لے چلا ، میں بیت المقدص پہنچا اور اسی کنڈے میں اسے باندھ دیا ، جہاں انبیاء علیہ السلام باندھاہ کرتے تھے ، پھر میں نے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز ادا کی ۔ جب وہاں سے نکلا تو جبرائیل علیہ السلام میرے پاس ایک برتن میں شراب لائے اور ایک میں دودھ ۔ میں نے دودھ کو پسند کر لیا ، جبرائیل نے فرمایا تم فطرت تک پہنچ گئے ۔ پھر اوپر اولی حدیث کی طرح آسمان اول پر پہنچنا ، اس کا کھلوانا ، فرشتوں کا دریافت کرنا ، جواب پانا ، ہر آسمان پر اسی طرح ہونا ، بیان ہے ۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، جہنوں نے مرحبا کہا اور دعائے خیر کی ۔ دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام سے ملاقات ہونے کا ذکر ہے ، جو دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی بھائی تھے ۔ ان دونوں نے بھی آپ کو مرحبا کہا اور دعائے خیر دی ، پھر تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، جنہیں آدھا حسن دیا گیا ہے ، آب نے بھی مرحبا کہا ، نیک دعا کی ، پھر چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، جن کی بابت فرمان الہٰی ہے ورفعناہ مکانا علیا ہم نے اسے اونچی جگہ اٹھا لیا ہے ۔ پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت المعمور سے تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے دیکھا ۔ بیت المعمور میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں ، مگر جو آج گئے ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آنے کی ۔ پھر سدرۃ المنتہی تک پہنچے ، جس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے اور جس کے پھل مٹکے جیسے ۔ اسے امر رب نے ڈھک رکھا تھا ، اس خوبی کا کوئی بیان نہیں کر سکتا ۔ پہر وحی ہونے کا اور پچاس نمازوں کے فرض ہونونے کا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے واپس جا جا کر کمی کرا کرا کر پانچ تک پہنچنے کا بیان ہے ۔ اس میں ہر بار کے سوال پر پانچ کی کمی کا ذکر ہے ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ آخر میں آپ سے فرمایا کیا جو نکی کا ارادہ کرے گو وہ عمل میں نہ آئے تاہم اسے ایک نکی کا ثواب مل جاتا ہے اور اگر کر لے تو دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اور گناہ کے صرف ارادے سے گناہ نہیں لکھا جاتا اور کر لینے سے ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے ( مسلم ) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس رات آپ کو اسرابیت اللہ سے بیت المقدس تک ہوا اسی رات معراج بھی ہوئی اور یہی حق ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہیں٫ ۔ مسند احمد میں ہے کہ براق کی لگام بھی تھی اور زین بھی تھی ۔ جب وہ سواری کے وقت کسمسایا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کیا کر رہا ہے ؟ واللہ تجھ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ، آپ سے زیادہ بزرگ شخص کوئی سوار نہیں ہوا ۔ پس براقق پسینہ پسینہ ہو گیا ۔ آپ فرماتے ہیں جب مجھے میرے رب عزوجل کی طرف چڑھایا گیا تو میرا گزر ایسے لوگوں پرہوا جن کے تانبے کے ناخن تھے ، جن سے وہ اپنے جہروں اور سینوں کو نوچ اور چھیل رہے تھے ۔ میں نے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ تو جواب دیا گیا کہ وہ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزت وآبرو کے درپے رہتے تھے ۔ ابو داؤد میں ہے کہ معراج والی رات جب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر سے گزرا تو میں نے انہیں وہاں نماز میں کھڑا پایا ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ سے مسجد اقصٰی کے نشانات پوچھے آپ نے بتانے شروع کئے ہی تھے کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے ، آپ بجا ارشاد فرما رہے ہیں اور سچے ہیں ۔ میری گواہی ہے کہ آپ رسول اللہ ہیں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے دیکھ رکھا تھا ۔ مسند بزار میں ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں سویا ہوا تھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور میرے دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ دیا ۔ پس میں کھڑا ہو کر ایک درخت میں بیٹھ گیا جس میں پرندوں کے مکان جیسے تھے ایک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام بیٹھ گئے وہ درخت پھول گیا اور اونچا ہونا شروع ہوا یہاں تک کہ اگر میں چاہتا تو آسمان کو چھو لیتا ۔ میں تو اپنی چادر ٹھیک کر رہا تھأ ، لیکن میں نے دیکھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام سخت تواضع اور فروتنی کے عالم میں ہیں ، عتو میں جان گیا کہ اللہ کی معرفت کے علم میں یہ مجھ سے افضل ہیں ، آسمان کا ایک دروازہ میرے لئے کھولا گیا ۔ میں نے ایک زبردست عظیم الشان نور دیکھا ، جو حجاب میں تھا اور اس کے اس طرف یاقوت اور موتی تھے ، پھر میری جانب بہت کچھ وحی کی گئی ۔ دلائل بیہقی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام آئے اور آپ کی پیٹھ کو انگلی سے اشارہ کیا ، آپ ان کے ساتھ ایک درخت کی جانب چلے جس میں پرندوں کے گھونسلے جیسے تھے الخ اس میں یہ بھی ہے کہ جب ہماری طرف نور اترا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام تو بیہوش ہو کر گر پڑے الخ پھر میری جانب وحی کی گئی کہ نبی اور بادشاہ بننا چاہتے ہو ؟ یا نبی اور بندہ بننا چاہتے ہو اور جنتی ؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اسی طرح تواضع سے گرے ہوئے مجھے اشارے سے فرمایا کہ تواضع اختیار کر و ، تو میں نے جواب دیا کہ اے اللہ میں نبی اور بندہ بننا منظور کرتا ہوں ۔ اگر یہ روایت صحیح ہو جائے تو ممکن ہے کہ یہ واقعہ معراج کے سوا اور ہو کیونکہ اس میں نہ بیت المقدس کا ذکر ہے نہ آسمان پر چڑھنے کا ، واللہ اعلم ۔ بزار کی ایک روایت میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھأ لیکن یہ روایت غریب ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ براق نے جب حضرت جبرائیل کی بات سنی اور پھر وہ آپ کو سوار کرا کر کے لے چلا تو آپ نے راستے کے ایک کنارے پر ایک بڑھیا کو دیکھا پوچھا یہ کون ہے ؟ جواب ملا کہ چلے چلئے ۔ پھر آپ نے چلتے چلتے دیکھا کہ کوئی راستے سے یکسو ہے اور آپ کو بلا رہی ہے پھر آپ آگے بڑھے تو دیکھ کہ اللہ کی ایک مخلوق ہے اور باآواز بلند کہہ رہی ہے السلام علیک یا اول السلام علیک یا اخر السلام علیک یا حاشر جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا جواب دیجئے ، آپ نے ان کے سلام کا جواب دیا ۔ پھر دوبارہ ایسا ہی ہوا ، پھر تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا ، یہاں تک کہ آپ بیت المقدس پہنچے ۔ وہاں آپ کے سامنے پانی ، شراب اور دودھ پیش کیا گیا ، آپ نے دودھ لے لیا جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا آپ نے راز فطرت پالیا ۔ اگر آپ پانی کے برتن لے کر پی لیتے تو آب کی امت غرق ہو جاتی اور اگر آپ شراب پی لیتے تو آپ کی امت بہک جاتی ۔ پھر آپ کے لئے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آپ کے زمانے تک کے تمام انبیاء بھیجے گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی امامت کرائی اور اس رات نماز سب نے آپ کی اقتداء میں پڑھی ۔ پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا راستے گے کنارے جس بڑھیا کو آپ نے دیکھا تو وہ گویا یہ دکھایا گیا کہ دنیا کی عمر اب صرف اتنی ہی باقی ہے جیسے اس بڑھیا کی عمر اور جس کی آواز پر آپ تو جہ کرنے والے تھے وہ دشمن اللہ ابلیس تھا اور جن کی سلام کی آوازیں آب نے سنیں وہ ابراہیم موسیٰ اور عیسیٰ تھے علیہم الصلوۃ والسلام ۔ اس میں بھی بعض الفاظ میں غرابت ونکارت ہے واللہ اعلم ۔ اور روایت میں ہے کہ جب میں براق پر حضرت جبرائیل علیہ السلام کی معیت میں چلا تو ایک جگہ انہوں نے مجھ سے فرمایا یہیں اتر کی نماز ادا کیجئے جب میں نماز پڑھ چکا تو فرمایا ۔ جانتے ہو کہ یہ کونسی جگہ ہے ؟ یہ طیبہ ( یعنی مدینہ ) ہے یہی ہجرت گاہ ہے ۔ پھر ایک اور جگہ مجھ سے نماز پڑھوائی اور فرمایا یہ طور سینا ہے ، جہاں اللہ تعالیٰ نے جضرت موسیٰ سے کلام کیا ۔ پھر ایک اور جگہ نماز پڑھوا کر فرمایا ۔ یہ بیت لحم ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے پھر میں بیت المقدس پہنچا ۔ وہاں تمام انبیاء جمع ہوئے ، جبرائیل علیہ السلام نے مجھے امام بنایا ۔ میں نے امامت کی ، پھر مجھے آسمان کی طرف چڑھالے گئے پھر آپ کا ایک ایک آسمان پر پہنچنا ، وہاں پیغمبروں سے ملنا مذکور ہے ۔ فرماتے ہیں جب میں سدر ۃ المنتہی تک پہنچا تو مجھے ایک نوارنی ابر نے ڈھک لیا میں اسی وقت سجدے میں کر پڑا ، پھر آپ پر پچاس نمازوں کا فرض ہونا اور کم ہونا وغیرہ کا بیان ہے ۔ آخر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بیان میں ہے کہ میری امت پر تو صرف دو نمازیں مقرر ہوئی تھیں لیکن وہ انہیں بھی نہ بجا لائے ۔ آپ پھر پانچ سے بھی کمی چاہنے کے لئے گئے تو فرمایا گیا کہ میں نیتو آسمان وزمین کی پیدائش والے دن ہی تجھ پر اور تیری امت پر یہ پانچ نمازیں مقرر کر دی تھیں ۔ یہ پڑھنے میں پانچ ہیں اور ثواب میں پچاس ہیں ۔ پس تو اور تیری امت اس کی حفاظت کرنا آپ فرماتے ہیں اب مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ کا یہی حکم ہے ۔ پھر جب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو آپ نے مجھے پھر واپس لو ٹنے کا مشورہ دیا لیکن چونکہ میں معلوم کر چکا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حتمی حکم ہے ، اس لئے میں پھر اللہ کے پاس نہ گیا ۔ ابن ابی حاتم میں بھی معراج کے واقعہ کی مطول حدیث ہے ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ جب آپ بیت المقدس کی مسجد کے پاس اس دروازے پر پہنچے جسے باب محمد کہا جاتا ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) وہیں ایک پتھر تھا جسے حضرت جبرائیل نے اپنی انگلی لگائی تو اس میں سوراخ ہو گیا ، وہیں آپ نے براق کو باندھا اور مسجد پر چڑھ کئے ۔ بیچوں بیچ جانے کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا آپ نے اللہ تعالیٰ یے یہ آرزو کی ہے کہ وہ آپ کو حوریں دکھائے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، کہا آئیے ، وہ یہ ہیں ، سلام کیجئے ، ، وہ صخرہ کے بائیں جانب بیٹھی ہوئی تھیں ، میں نے وہاں پہنچ کر انہیں سلام کیا ، سب نے میرے سلام کا جواب دیا ، میں نے پوچھا ، تم سب کون ہو ؟ انہوں نے کہ ہم نیک سیرت ، خوبصورت ، حوریں ہیں ہم بیویاں ہیں اللہ کے پرہیز گأر بندوں کی جو نیک کار ہیں ، جو گناہوں کے میل کچیل سے دور ہیں ، جو پاک کر کے ہمارے پاس لائے جائیں گے پھر نہ نکالے جائیں گے ہمارے پاس ہی رہیں گے ، کبھی جدا نہ ہوں گے ہمیشہ زندہ رہیں گے کبھی نہ مریں کے ۔ میں ان کے پاس سے چلا آیا ۔ وہیں لوگ جمع ہو نے شروع ہوگئے اور ذرا سی دیر میں بہت سے آدمی جمع ہوگئے ۔ موذن نے اذان کہی تکبیر ہوئی اور ہم سب کھڑے ہوگئے ۔ منتظر تھے کہ امامت کون کرائے گا ؟ جو جبرائیل علیہ السلام نے کہا جانتے بھی ہو کن کو آپ نے نماز پڑھائی ؟ میں نے کہا نہیں فرمایا آپ کے پیچھے آپ کسے یہ سب مقتدی اللہ کے پیغمبر تھے ۔ جنہیں اللہ تعالیٰ مبعوث فرما چکا ہے پھر میرا ہاتھ تھام کر آسمان کی طرف لے چلے ۔ پھر بیاں ہے کہ آسمانوں کے دروازے کھلوائے ۔ فرشتوں نے سوال کیا ۔ جواب پا کر دروازے کھولے وغیرہ ۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انہوں نے فرمایا میرے بیٹے اور نیک نبی کو مرحبا ہو ۔ اس میں چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات کرنے کا ذکر بھی ہے ۔ ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملنے اور ان کے بھی وہی فرمانے کا ذکر ہے جو حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا تھا ۔ پھر مجھے وہاں سے بھی اونچا لے گئے ۔ میں نے ایک نہر دیکھی ، جس میں لولو یاقوت اور ابر جد کے جام تھے اور بہترین ، خوش رنگ ، سبز پرند تھے ۔ میں نے کہا یہ تو نہایت ہی نفیس پرند ہیں ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا وہ نہر کوثر ہے جو اللہ نے آپ عطا فرما رکھی ہے اس میں سونے چاندی کے آبخورے تھے جو یاقوت وزمرد سے جڑاؤ تھے ۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید تھا ۔ میں نے ایک سونے کا پیالہ لے کر پانی بھر کر پیا تو وہ شہد سے بھی زیادہ میٹھا تھا اور مشک سے بھی زیادہ خوشبودار تھا ۔ جب میں اس سے بھی اوپر پہنچا تو ایک نہایت خوش رنگ بادل نے مجھے آگھیرا جس میں مختلف رنگ تھے ، جبرائیل علیہ السلام نے تو مجھے چھوڑ دیا اور میں اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑا ۔ پھر پچاس نمازوں کے فرض ہونے کا بیان ہے ۔ پھر آپ واپس ہوئے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو کچھ نہ فرمایا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو سمجھا بجھا کر واپس طلب تخفیف کے لئے بھیجا ، الغرض اسی طرح آپ کا باربار آنا ، بادل میں ڈھک جانا دعا کرنا ، تخفیفی ہونا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام ملتے ہوئے آنا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بیان کرنا ہاں تک کہ پانچ نمازوں کا رہ جانا بیان ہے وغیرہ ۔ يپ فرماتے ہیں پھر مجھے جبرائیل لے کر نیچے اترے میں نے ان سے پوچھا کہ جس آسمان پر میں پہنچا وہاں کے فرشتوں نے خوشی طاہر کی ہنس ہنس کر مسکراتے ہوئے مجھ سے ملے بجز ایک فرشتے کہ کہ اس نے میرے سلام کا جواب تو دیا مجھے مرحبا بھی کہا لیکن مسکرائے نہیں یہ کون ہیں اس کی وجہ کیا ہے ؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا ۔ وہ ملاک ہیں ۔ جہنم کے داروغہ ہیں ، اپنے پیدا ہونے سے لیکر کر آج وہ ہنسے ہی نہیں اور قیامت تک ہنسیں گے بھی نہیں کیونکہ ان کی خوشی کا یہی ایک بڑا موقعہ تھأ ۔ واپسی میں قریشیوں کے ایک قافلے کو دیکھا جو غلہ لا دے جا رہا تھا ، اس میں ایک اونٹ تھا جس پر ایک ایک سفید اور ایک سیاہ بورا تھا ، جب آپ اس کے قریب سے گزرے تو وہ چمک گیا اور مڑ گیا اور گر پڑا اور لنگڑا ہو گیا آپ اس طرح اپنی جگہ پہنچا دئے گئے ۔ صبح ہو تے ہی آپ نے اپنی اس معراد کا ذرک لوگوں سے کیا ۔ مشرکوں نے جب یہ سنا تو وہ سیدھے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے لو تمہارے پیغمبر صاحب تو کہتے ہیں کہ وہ آج کی ایک ہی رات میں مہینہ بھر کے فاصلے کے مقام تک ہو آئے ۔ آپ نے جواب دیا کہ اگر فی الواقع آپ نے یہ فرمایا ہو تو آپ سچے ہیں ، ہم تو اس سے بھی بڑی بات میں آپ کو سچا جانتے ہیں ۔ ہم مانتے ہیں کہ آپ کو آن کی آن میں آسمان سے خبریں پہنچتی ہیں ۔ مشرکوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ کی سچائی کی کوئی علامت بھی آپ پیش کر سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں نے راستے میں فلاں فلاں جگہ قریش کا قافلہ دیکھا ۔ ان کا ایک اونٹ جس پر سفید وسیاہ رنگ کے دو بورے ہیں ، وہ ہمیں دیکھ کر بھڑ کا ، گھوما اور چکر کھا کر گر پڑا اور ٹانگ ٹوٹ گئی جب وہ قافلہ آیا لوگوں نے ان سے جا کر پوچھا کہ راستے میں کوئی نئی بات تو نہیں ہوئی ؟ انہوں نے کہا ہاں ہوئی ۔ فلاں اونٹ فلاں جگہ اس طرح گرا وغیرہ ۔ کہتے ہیں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ کی اسی صدیق کی وجہ سے انہیں صدیق کہا گیا ہے رضی اللہ عنہ ۔ پھر آپ سے لوگوں نے سوال کیا کہ آپ نے فرمایا ہاں موسیٰ تو گندم گوں رنگ کے ہیں ، جیسے ازدعمان کے آدمی ہوتے ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام درمیانہ قد کے کچھ سرخی مائل رنگ کے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ان کے لبوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہم ہیں ۔ اس سیاق میں بھی عجائب وغرائب ہیں ۔ مسند احمد میں ہے ، حطیم میں سویا ہوا تھا ، اور روایت میں صخر میں سویا ہوا تھا کہ آنے والا آیا ۔ ایک نے درمیان والے سے کہا اور وہ میرے پاس آیا اور یہاں سے یہاں تک چاک کر ڈالا یعنی گلے کے پاس سے ناف تک ۔ پھر مندرجہ بالا احادیث کے مطابق بیان ہے اس میں ہے کہ چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے میں نے سلام کیا ۔ آپنے جواب دیا اور فرمایا نیک بھائی اور نیک نبی کو مرحبا ہو ۔ جب میں وہاں سے آگے پڑھ گیا تو آپ رو دئے ۔ پوچھا گیا کیسے روئے ؟ جواب دیا کہ اس لئے کو جو بچہ میرے بعد نبی بنا بھیجا گیا ، اس کے امت بہ نسبت میری امت کے جنت میں زیادہ تعداد میں جائے گی ۔ اس میں ہے کہ سدرۃ المنتہی آیا کے پاس چار نہریں دیکھیں دو ظاہر اور دو باطن میں ۔ جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، آپ نے مجھے بتلایا کہ باطنی تو جنت کی نہریں ہیں اور ظاہری نیل وفرات ہیں ، پھر میری جانب بیت المعمور بلند کیا گیا ۔ پھر میرے پاس شراب کا ، دودھ کا اور شہدم کا برتن آیا ۔ میں نے دودھ کا اور شہد کا برتن آیا ۔ میں نے دودھ کا برتن لے لیا ۔ فرمایا یہ فطرت ہم جس پر تو ہے اور تیری امت ۔ اس میں ہے کہ جب پانچ نمازیں ہی رہ گئیں اور پھر بھی کلیم اللہ نے واپسی کا مشورہ دیا تو آپ نے فرمایا میں تو اپنے رس سے سوال کرتے کرتے شرما گیا ۔ اب میں راضی ہوں اور تسلیم کر لیتا ہوں ۔ اور روایت میں ہے کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی میں اس وقت مکہ میں تھا الخ ۔ اس میں ہے کہ جب میں جبرائیل علیہ السلام کے ساٹھ آسمان دنیا پر چڑھا تو میں نے دیکھا کہ ایک صاحب بیٹھے ہوئے ہیں ، جن کے دائیں بائیں بری بڑی جماعت ہے وہ داہنی جانب دیکھ کر مسکرا دیتے ہیں اور ہنسنے لگتے ہیں اور جب بائیں جانب نگاہ اٹھتی ہے تو رو دیتے ہیں ۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں ؟ اور ان کے دائیں بائیں کون ہیں ؟ فرمایا یہ آدم علیہ السلام ہیں اور یہ ان کی اولاد ہے ، دائیں جانب والے جنتی ہیں اور بائیں جانب والے جہنمی ہیں ، انہیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور انہیں دیکھ کر رنجیدہ ۔ اس روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم بعلیہ السلام سے چھٹے آسمان پر ملاقات ہوئی ۔ اس میں ہے کہ ساتویں آسمان سے میں اور اونچا پہنچایا گیا مستوی میں پہنچ کر میں نے قلموں کے لکھنے کی آوازیں سنیں ۔ اس میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورے سے میں طلب تخفیف کے لئے گیا تو اللہ نے آدھی معاف فرما دیں ۔ پھر گیا ، پھر آدھی معاف ہوئی ، پھر گیا تو پانچ مقرر ہوئیں ۔ اس میں ہے کہ سدرۃ المنتہی سے ہو کر میں جنت میں پہنچایا گیا ۔ جہاں سچے موتیوں کے خیمے تھے اور جہاں کی مٹی مشک خالص تھی ۔ یہ پوری حدیث صحیح بخاری شریف کی کتاب الصلوۃ میں ہے اور ذکر بنی اسرائیل میں بھی ہے اور بیان حج میں اور احادیث انبیاء میں بھی ہے ۔ امام مسلم نے صحیح مسلم کتاب الایمان میں بھی وارد فرمائی ہے ۔ مسند احمد میں عبداللہ بن ثیقق رحمۃ اللہ نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا تو کم از کم ایک بات تو ضرور پوچھ لیتا آپ نے دریافت فرمایا کیا بات ؟ کہا یہی کہ کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟ تو حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ تو میں نے آپ سے پوچھا تھا آپ نے جواب دیا کہ میں نے اسے نور دیکھا ۔ بخاری ومسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب میں نے معراج کے واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا اور قریش نے جھٹلایا ، میں اس وقت حطیم میں کھڑا ہوا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میری نگاہوں کے سامنے لا دیا اور اسے بالکل ظاہر کر دیا ۔ اب جو نشانیاں وہ مجھ سے پوچھتے تھے میں دیکھتا جاتا تھا اور بتاتا جاتا ہے ۔ بیہقی میں ہے کہ بیت المقدس میں آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کی ۔ اس میں ہے کہ جب واپس کی جماعت اسی وقت دوڑی بھاگی ، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچی اور کہنے لگے لو اور سنو آج تو تمہارے ساتھی ایک عجیب خبر سنا رہیں ، کہتے ہیں ایک ہی رات میں وہ بیت المقدس سے ہو کر بھی آگئے ۔ آپ نے فرمایا اگر وہ فرماتے ہیں تو سچ ہے ۔ واقعی ہو آئے ہیں انہوں نے نے کہا یعنی تم اسے بھی مانتے ہو کہ رات کو جائے اور صبح سے پہلے ملک شام سے واپس مکہ پہنچ جائے ؟ آپ نے فرمایا اس بھی زیادہ بڑی بات کو میں اس سے بہت پہلے سے مانتا چلاآیا ہوں ۔ یعنی میں مانتا ہو کہ ان کے پاس آسمان سے خبریں آتی ہیں اور وہ ان تمام میں سچے ہیں ۔ اسی وقت سے آپ کا لقب ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ مسند احمد میں ہے حضرت زربی جیش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت حدیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا ، اس وقت آپ معراج کا واقعہ بیان فرا رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم چلے یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچے ، دونوں صاحب اندر نہیں گئے ، میں نے یہ سنتے ہی کہا ، غلط ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر گئے بلکہ اس رات آپ نے وہاں نماز بھی پڑھی ، آپ نے فرمایا تیرا کا نام ہے ، میں تجھے جانتا ہوں لیکن نام یاد نہیں پڑتا ۔ میں نے کہا میرا نام زر بن جیش ہے فرمایا تم نے یہ بات کیسے معلوم کر لی ؟ میں نے کہا یہ تو قرآن کی خبر ہے ، آپ نے فرمایا جس نے قرآن سے بات کہی اس نے نجات پائی ۔ پڑھئے وہ کونسی آیت ہے تو میں نے سبحان الذی کی یہ آیت پڑھی آپ نے فرمایا اس میں کس لفظ کے معنی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز ادا کی ؟ ورنہ آپ نے اس رات وہاں نماز نہیں پڑھی اور اگر پڑھ لتیے تو تم پر اسی طرح وہاں کی نماز لکھ دی جاتی ۔ جس طرح بیت اللہ کی ہے واللہ وہ دونوں براق پر ہی رہے یہاں تک کہ آسمان کے دروازے ان کے لئے کھل گئے ، پس جنت دوزخ دیکھ لی اور آخرت کے وعدے کی اور تمام چیزین بھی ۔ پھر ویسے کے ویسے ہی لوٹ آئے پھر آپ خوب ہنسے اور فرمانے لگے مزہ تو یہ ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہاں آپ نے براق باندھا کہ کہیں بھاگ نہ جائے ۔ حالانکہ عالم الغیب والشہادۃ اللہ عالم نے اسے آپ کے لئے مسخر کیا تھا ۔ میں نے پوچھا کیوں جناب یہ بارق کیا ہے ؟ کہا ایک جانور ہے سفید رنگ لانبے قد کا جو ایک ایک قدم اتنی اتنی دور رکھتا ہے ، جتنی دور نگاہ کام کرے ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے محض انکار سے وہ روایتیں جن میں بیت المقدس کی نماز کا ثبوت ہے وہ مقدم ہیں ۔ ( واللہ اعلم ) حافظ ابو بکر بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب دلائل النبوۃ میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے آپ سے معراج کے واقعہ کے ذکر کی درخواست کی تو آپ نے پہلے تو یہی آیت سبحان الذی کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ میں عشاء کے بعد مسجد میں سویا ہوا تھا ، جو ایک آنے والے نے آکر مجھے جگایا میں اٹھ بیٹھا لیکن کوئی نظر نہ پڑا ، ہاں کچھ جانور سا نظر آیا ، میں نے غور سے دیکھا اور برابر دیکھتا ہوا مسجد کے باہر چلا گیا تو مجھے ایک عجیب جانور نظر پڑا ہمارے جانوروں میں سے تو اس کے کچھ مشابہ خچر ہے ۔ ہلتے ہوئے اور اوپر کو اٹھے ہوئے کانوں والا تھا ۔ اس کا نام براق ہے مجھ سے پہلے کے انبیاء بھی اسی پر سوار ہوتے رہے ، میں اس پر سوار ہو کر چلا ہی تھا کہ میری دائیں جانب سے کسی نے آواز دی کہ محمد میری طرف دیکھ میں تجھ سے کچھ پوچھوں گا ۔ لیکن نہ میں نے جواب دیا نہ ٹھیرا ۔ پھر کچھ آگے گیا کہ ایک عورت دنیا بھر کی زینت کئے ہوئے باہیں کھولے کھڑی ہوئی ہے ، اس نے مجھے اسی طرح آواز دی کہ میں کچھ دریافت کرنا چاہتی ہوں لیکن میں نے نہ اس کی طرف التفات کیا ، نہ ٹھیرا ۔ پھر آپ کا بیت المقدس پہنچنا ، دودھ کا برتن لینا اور جبرائیل علیہ السلام کے فرمان سے خوش ہو کر دد دفعہ تکبیر کہنا ہے ۔ پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پوچھا ۔ آپ کے چہرے پر فکر کیسے ہے ؟ میں نے وہ دونوں راستے کے بیان کئے تو آپ نے فرمایا کہ پہلا شخص تو یہود تھا اگر آپ اسے جواب دیتے یا وہاں ٹھیرتے تو آپ کی امت یہود ہو جاتی ۔ دوسرا نصرانیوں کا دعوت دینے والا تھاوہاں ٹھیرتے تو آپ کی امت دنیا کو آخرت پر ترجیح دے کر گمراہ ہو جاتی ۔ پھر میں اور جبرائیل بیت المقدس میں گئے ہم دونوں نے دو دو رکعتیں ادا کیں پھر ہمارے سامنے معراج لائی گئی جس سے بنی آدم کی روحیں چڑھتی ہیں دنیا نے ایسی اچھی چیز کبھی نہیں دیکھی تم نہیں دیکھتے کہ مرنے والے کی آنکھیں آسمان کی طرف چڑھ جاتی ہیں یہ اسی سیڑھی کو دیکھتے ہوئے تعجب کے ساتھ ۔ ہم دونوں اوپر چڑھ گئے میں نے اسماعیل نامی فرشتے سے ملاقات کی جو آسمان دنیا کا سردار ہے جس کے ہاتھ تلے ستر ہزار فرشتے ہیں ، جن میں سے ہر ایک فرشتے کے ساتھ اس کے لشکری فرشتوں کی تعداد ایک لاکھ ہے ۔ فرمان الہٰی ہے تیرے رب کے لشکروں کو صرف وہی جانتا ہے ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس آسمان کا دروازہ کھلوانا چاہا ، پوچھا گیا کون ہے ؟ کہا جبرائیل ، پوچھا گیا آپ کے ساتھ اور کون ہیں ؟ بتلایا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہا گیا کہ کیا ان کی طرف بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں ، وہاں میں نے حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا ، اسی ہیت میں ، جس میں وہ اس دن تھے جس دن اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا تھا ۔ ان کی اصلی صورت پر ۔ ان کے سامنے ان کی اولاد کی روحیں پیش کی جاتی ہیں ۔ نیک لوگوں کی روحوں کو دیکھ کر فرماتے ہیں پاک روح ہے اور جسم بھی پاک ہے ۔ اسے علیین میں لے جاؤ اور بدکاروں کی روحوں کو دیکھ کر فرماتے ہیں ۔ خبیث روح جسم بھی خبیث ہے ۔ اسے سجین میں لے جاؤ ۔ کچھ ہی چلا ہوں گا جو میں نے دیکھا کہ خوان لگے ہوئے ہیں جن پر نہایت نفیس گوشت بھنا ہوا ہے اور دوسری جانب اور خوان لگے ہوئے ہیں جن پر بدبودار سڑا بسا گوشت رکھا ہوا کچھ لوگ ہیں جو عمدہ گوشت کے تو پاس بھی نہیں آتے اور اس سڑے ہوئے گوشت کو کھا رہے ہیں ۔ میں نے پوچھا جرئیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں ؟ جواب دیا کہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو حلال کو چھوڑ کر حرام کی رغبت کرتے تھے ۔ پھر میں کچھ اور چلا تو کچھ اور لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ اونٹ کی طرح کے ہیں ، ان کے منہ پھاڑ پھاڑ کر فرشتے انہیں اس گوشت کم لقمے دے رہے ہیں جو انکے دوسرے راستے سے واپس نکل جاتا ہے وہ چیخ چلا رہے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی کر رہے ہیں ۔ میں نے پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ آپ کی امت کے لوگ ہیں جو یتیموں کا مال کھا جایا کرتے تھے جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ ضرور بھڑ کتی ہوئی جہنم کی آگ میں جائیں گے ۔ میں کچھ دور اور چلا جو دیکھا کہ کچھ عورتیں اپنے سینوں کے بل ادھر لٹکی ہوئی ہیں اور ہائے وائے کر رہی ہیں ۔ میرے پوچھنے پر جواب ملا کہ یہ آپ کی امت کی زنا کار عورتیں ہیں ۔ میں کچھ دور اور گیا تو دیکھا کہ کچھ لوگوں کے پیٹ بڑے بڑے گھروں جیسے ہیں جب وہ اٹھنا چاہتے ہیں گر پڑتے ہیں اور باربار کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ قیامت قائم نہ ہو فرعونی جانوروں سے وہ روندے جاتے ہیں اور اللہ کے سامنے آہ وزاری کر رہے ہیں ۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے ، سود خور ان لوگوں کی طرح ہی کھڑے ہوں گے ، جنہیں شیطان نے باؤلا بنا رکھا ہو ۔ میں کچھ دور اور چلا تو دیکھا کہ کچھ لوگ ہیں ، جن کے پہلو سے گوشت کاٹ کاٹ کر فرشتے انہی کو کھلا رہے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ جس طرح اپنے بھائی کا گوشت اپنی زندگی میں کھاتا رہا اب بھی کھا ۔ میں نے پوچھا جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ آپ کی امت کے عیب جو اور آوازہ کش لوگ ہیں ۔ پھر ہم دوسرے آسمان پر چڑھے تو میں نے وہاں ایک نہایت ہی حسین شخص کو دیکھا جو اور حسین لوگوں پر وہی فضیلت رکھتا ہے جو فضیلت کو چاند کو ستاروں پر ہے ، میں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا یہ آپ کے بھائی حضور یوسف علیہ السلام ہیں اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے کچھ لوگ ہیں ۔ میں نے انہیں سلام کیا جس کا جواب انہوں نے دیا ۔ پھر ہم تیسرے آسمان کی طرف چڑھے ۔ اسے کھلوایا وہاں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا ۔ ان کے ساتھ ان کی قوم کے کچھ آدمی تھے ، میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے مجھے جواب دیا ، پھر میں چوتھے آسمان کی طرف چڑھا ۔ وہاں حضرت ادریس علیہ السلام کو پایا جنہیں اللہ تعالیٰ نے بلند مکان پر اٹھالیا ہے ، میں نے سلام کیا انہوں نے جواب دیا ، پھر پانچویں آسمان کی طرف چڑھا ، وہاں حضرت ہارون علیہ السلام تھے ، جنکی آدھی داڑھی سفید تھی اور آدھی سیاہ اور بہت لمبی داڑھی تھی ، قریب قریب ناف تک ۔ میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے سوال کیا انہوں نے بتایا کہ یہ اپنی قوم کے ہر دلعزیز حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام ہیں ان کے ساتھ ان کی قوم کی جماعت ہے ، انہوں نے بھی میرے سلام کا جواب دیا ، پھر میں چھٹے آسمان کی طرف چڑھا ، وہاں حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے ملاقا ہوئی ، آپ کا گندم گوں رنگ تھا بال بہت تھے ، اگر دو کرتے بھی پہن لیں تو بال ان سے گزر جائیں آپ فرمانے لگے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے پا ان سے بڑے مرتبے کا ہوں ، حالانکہ یہ مجھ سے بڑے مرتبے کے ہیں جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کرنے سے مجھے معلوم ہوا کہ آپ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام ہیں ، آپ کے پھی آپ کی قوم کے لوگ تھے ۔ آپ نے بھی میرے سلام کا جواب دیا ۔ پھر میں ساتویں آسمان کی طرف چڑھا ۔ وہاں میں نے اپنے والد حضرت ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کو اپنی پیٹھ بیت المعمور سے ٹکائے ہوئے بیٹھا دیکھا ۔ آپ بہت ہی بہتر آدمی تھے ۔ دریافت پر مجھے آپ کا نام بھی معلوم ہوا ۔ میں نے سلام کیا آپ نے جواب دیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

یہ سورت مکی ہے۔ اسے سورت الاسراء بھی کہتے ہیں، اس لئے کہ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسراء (رات کو مسجد اقصیٰ لے جانے) کا ذکر ہے۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) مرفوعا حدیث فرماتے ہیں کہ سورة کہف، مریم اور بنی اسرائیل یہ عتاق اول میں سے ہیں اور میرے تلاد میں سے ہیں، تلاد قدیم مال کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ سورتیں ان قدیم سورتوں میں سے ہیں جو مکہ میں اول اول نازل ہوئیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر رات کو بنی اسرائیل اور سورة زمر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ مسند احمد جلد 6، ص 48،۔ 1۔ 1 سُبْحَا نَ عام طور پر اس کا استعمال ایسے موقع پر ہوتا ہے جب کسی عظیم الشان واقعے کا ذکر ہو۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک ظاہری اسباب کے اعتبار سے یہ واقعہ کتنا محال ہو، اللہ کے لئے مشکل نہیں، اس لئے کہ وہ اسباب کا پابند نہیں، وہ لفظ کُنْ سے پلک جھپکنے میں جو چاہے کرسکتا ہے۔ اسباب تو انسانوں کے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پابندیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے۔ 1۔ 2 اِسْرَآء کے معنی ہوتے ہیں، رات کو لے جانا۔ آگے لَیْلًا اس لیے ذکر کیا گیا تاکہ رات کی قلت واضح ہوجائے۔ یعنی رات ایک حصے یا تھوڑے سے حصے میں۔ یعنی چالیس راتوں کا دور دراز کا سفر، پوری رات میں بھی نہیں بلکہ رات کے ایک قلیل حصے میں طے ہوا۔ 1۔ 3 اقصیٰ دور کو کہتے ہیں بیت المقدس، جو القدس یا ایلیاء (قدیم نام) شہر میں اور فلسطین میں واقع ہے، مکہ سے القدس تک مسافت (40) دن کی ہے، اس اعتبار سے مسجد حرام کے مقابلے میں بیت المقدس کو مسجد اقصٰی (دور کی مسجد) کہا گیا ہے۔ 1۔ 4 یہ علاقہ قدرتی نہروں اور پھلوں کی کثرت اور انبیاء کا مسکن و مدفن ہونے کے لحاظ سے ممتاز ہے، اس لئے اسے بابرکت قرار دیا گیا ہے۔ 1۔ 5 یہ اس سیر کا مقصد ہے تاکہ ہم اپنے بندے کو عجائبات اور آیات کبریٰ دکھائیں۔ جن میں سے ایک آیت اور معجزہ یہ سفر بھی ہے کہ اتنا لمبا سفر رات کے ایک قلیل حصے میں ہوگیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو معراج ہوئی یعنی آسمانوں پر لے جایا گیا، وہاں مختلف آسمانوں پر انبیاء (علیہم السلام) سے ملاقاتیں ہوئیں اور سدرۃ المنتہٰی پر، جو عرش سے نیچے ساتویں آسمان پر ہے، اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے نماز اور دیگر بعض چیزیں عطا کیں۔ جس کی تفصیلات صحیح احادیث میں بیان ہوئی ہیں اور صحابہ وتابعین سے لے کر آج تک امت کے اکثر علماء فقہاء اس بات کے قائل چلے آرہے ہیں کہ یہ معراج حالت بیداری میں ہوئی ہے۔ یہ خواب یا روحانی سیر اور مشاہدہ نہیں ہے، بلکہ عینی مشاہدہ ہے جو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اپنے پیغمبر کو کرایا ہے۔ اس معراج کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ اسراء کہلاتا ہے، جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اور جو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کا نام ہے، یہاں پہنچنے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ بیت المقدس سے پھر آپ کو آسمانوں پر لے جایا گیا، یہ سفر کا دوسرا حصہ ہے جسے معراج کہا جاتا ہے۔ اس کا تذکرہ سورة نجم میں کیا گیا ہے اور باقی تفصیلات احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ عام طور پر اس پورے سفر کو ' معراج ' سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔ معراج سیڑھی کو کہتے ہیں یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ عُرِجَ بِیْ اِلَی السّمَاءِ (مجھے آسمان پر لے جایا یا چڑھایا گیا) سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ اس سفر کا یہ دوسرا حصہ پہلے سے بھی زیادہ اہم اور عظیم الشان ہے، اس لئے معراج کا لفظ ہی زیادہ مشہور ہوگیا۔ اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ تاہم اس میں اتفاق ہے کہ یہ ہجرت سے قبل کا واقعہ ہے۔ بعض کہتے ہیں ایک سال قبل اور بعض کہتے ہیں کئی سال قبل یہ واقعہ پیش آیا۔ اسی طرح مہینے اور اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ کوئی ربیع الاول کی 17 یا 27، کوئی رجب کی 27 اور بعض کوئی اور مہینہ اس کی تاریخ بتلاتے ہیں۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل نام : آیت ٤ کے فقرے وَقَضَیْنَآ اِلیٰ بَنِیْٓ اِسْرَآ ئِیْلَ فِی اْلکِتٰبِ سے ماخوذ ہے ۔ مگر اس میں موضوع بحث بنی اسرائیل میں ہیں ، بلکہ یہ نام بھی اکثر قرآنی سورتوں کی طرح صرف علامت کے طور پر رکھا گیا ہے ۔ زمانہ نزول : پہلی ہی آیت اس بات کی نشان دہی کر دیتی ہے کہ یہ سورت معراج کے موقع پر نازل ہوئی ہے ۔ معراج کا واقعہ حدیث اور سیرت کی اکثر روایات کے مطابق ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا تھا اس لیے یہ سورت بھی انہی سورتوں میں سے ہے جو مکی دور کے آخری زمانے میں نازل ہوئیں ۔ پس منظر : اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو توحید کی آواز بلند کرتے ہوئے ١۲ سال گزر چکے تھے ۔ آپ کے مخالفین آپ کا راستہ روکنے کے لیے سارے جتن کر چکے تھے ۔ مگر ان کی تمام مزاحمتوں کے با وجود آپ کی آواز عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی تھی ۔ عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا تھا جس میں دو چار آدمی آپ کی دعوت سے متاثر نہ ہو چکے ہوں ۔ خود مکے میں ایسے مخلص لوگوں کا ایک مختصر جتھا بن چکا تھا جو ہر خطرے کو اس دعوت حق کی کامیابی کے لیے انگیز کرنے کو تیار تھے ۔ مدینے میں اوس اور خَزرج کے طاقتور قبیلوں کی بڑی تعداد آپ کی حامی بن چکی تھی ۔ اب وہ وقت قریب آلگا تھا جب آپ کو مکے سے مدینے کی طرف منتقل ہو جانے اور منتشر مسلمانوں کو سمیٹ کر اسلام کے اصولوں پر ایک ریاست قائم کر دینے کا موقع ملنے والا تھا ۔ ان حالات میں معراج پیش آئی ، اور واپسی پر یہ پیغام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو سنایا ۔ موضوع اور مضمون : اس سورت میں تنبیہ ، تفہیم اور تعلیم ، تینوں ایک متناسب انداز میں جمع کر دی گئی ہیں ۔ تنبیہ ، کفار مکہ کو کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل اور دوسری قوموں کے انجام سے سبق لو اور خدا کی دی ہوئی مہلت کے اندر ، جس کے ختم ہونے کا زمانہ قریب آلگا ہے ، سنبھل جاؤ ، اور اس دعوت کو قبول کر لو سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے ذیعہ سے پیش کیا جا رہا ہے ، ورنہ مٹا دیے جاؤ گے اور تمہاری جگہ دوسرے لوگ زمین پر بسائے جائیں گے ۔ نیز ضمنا بنی اسرائیل کو بھی ، جو ہجرت کے بعد عنقریب زبان وحی کے مخاطب ہونے والے تھے ، یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ پہلے جو سزائین تمہیں مل چکی ہیں ان سے عبرت حاصل کرو اور اب جو موقع تمہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے مل رہا ہے اس سے فائدہ اُٹھاؤ ، یہ آخری موقع بھی اگر تم نے کھو دیا اور پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو دردناک انجام سے دوچار ہوگے ۔ تفہیم کے پہلو میں بڑے دلنشین طریقے سے سمجھا یا گیا ہے کہ انسانی سعادت و شقاوت اور فلاح و ان شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو ان بنیادی حقیقتوں کے بارے میں کفار مکہ کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے ۔ اور استدلال کے ساتھ بیچ بیچ میں منکو ین کی جہالتوں پر زجرو وبیخ بھی کی گئی ہے ۔ تعلیم کے پہلو میں اخلاق اور تمدن کے وہ بڑے بڑے اصول بیان کیے گئے ہیں جن پر زندگی کے نظام کو قائم کرنا دعوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر تھا ۔ یہ گویا اسلام کا منشور تھا جو اسلامی ریاست کے قیام سے ایک سال پہلے اہل عرب کے سامنے پیش کیا گیا تھا ۔ اس میں واضح طور پر بتا دیا گیا کہ یہ خاکہ ہے جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملک کی اور پھر پوری انسانیت کی زندگی کو تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔ ان سب باتوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ مشکلات کے اس طوفان میں مضبوطی کے ساتھ ساتھ اپنے موقف پر جمے رہیں اور کفر کے ساتھ مصالحت کا خیال تک نہ کریں ۔ نیز مسلمانوں کو ، جو کبھی کبھی کفار کے ظلم و ستم اور ان کی کج بحثیوں ، اور ان کے طوفان کذب و افتراء پر بے ساختہ جھنجھلا اٹھے تھے ، تلقین کی گئی ہے کہ پورے صبر وسکون کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہیں اور تبلیغ و اصلاح کے کام میں اپنے جذبات پر قابو رکھیں ۔ اس سلسلہ میں اصلاح نفس اور تزکیہ نفس کے لیے ان کو نماز کا نسخہ بتایا گیا ہے ، کہ یہ وہ چیز ہے جو تم کو ان صفات عالیہ سے متصف کرے گے جس سے راہ حق کے مجاہدوں کو آراستہ ہونا چاہیے ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب پنج وقتہ نماز پابندی اوقات کے ساتھ مسلمانوں پر فرض کی گئی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

سورۃ بنی اسرائیل تعارف اس سورت کی سب سے پہلی آیت ہی یہ بتا رہی ہے کہ اس کا نزول معراج مبارک کے واقعے کے بعد ہوا ہے۔ اگرچہ معراج کے واقعے کی ٹھیک ٹھیک تاریخ یقینی طور پر متعین کرنا مشکل ہے، لیکن زیادہ تر روایات کا رجحان اس طرف ہے کہ یہ عظیم واقعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے دس سال بعد اور ہجرت سے تین سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس وقت تک اسلام کی دعوت کا پیغام نہ صرف عرب کے بت پرستوں تک، بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں تک بھی پہنچ چکا تھا۔ اس سورت میں معراج کے غیر معمولی واقعے کا حوالہ دے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد بنو اسرائیل کے واقعے کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ کس طرح انہیں دو مرتبہ اللہ کی نافرمانی کی پاداش میں ذلت و رسوائی اور دشمن کے ہاتھوں بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح مشرکین عرب کو سبق دیا گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی مخالفت سے بازآجائیں، ورنہ ان کو بھی اسی قسم کے انجام سے سابقہ پیش آسکتا ہے، کیونکہ اس وقت قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو اعتدال کے ساتھ سیدھے راستے کی طرف ہدایت کر رہی ہے۔ ( آیت نمبر ٩) پھر آیت نمبر ٢٢ سے ٣٨ تک مسلمانوں کو ان کے دینی، معاشرتی اور اخلاقی طرز عمل کے بارے میں نہایت اہم ہدایات دی گئی ہیں۔ اور مشرکین کے نامعقول اور معاندانہ طرز عمل کی مذمت کر کے ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اسی کی عبادت کرتے رہیں۔ چونکہ سورت کے شروع میں بنو اسرائیل کے ساتھ پیش آنے والے دو اہم واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس لیے سورت کا نام سورۃ بنی اسرائیل ہے۔ اور اس کا دوسرا نام سورۃ الاسراء بھی ہے۔ اسراء سفر معراج کو اور خاص طور پر اس سفر کے اس حصے کو کہا جاتا ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد حرام سے بیت المقدس تک لے جایا گیا، سورت کا آغاز ہی چونکہ اس معجزانہ سفر کے تذکرے سے ہوا ہے، اس لیے اس کو سورۃ الاسراء بھی کہا جاتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بنی اسرائیل سورة نمبر 17 رکوع 12 آیات 111 الفاظ و کلمات 1582 حروف 6710 مقام نزول مکہ مکرمہ تمام علماء مفسرین نے فرمایا ہے۔ اس واقعہ کو اسراء اور معراج فرمایا گیا ہے۔ کیونکہ سب سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصی (بیت المقدس) تک لے جایا گیا اس کو اسراء کہتے ہیں۔ پھر مسجد اقصی سے بارگاہ رب العالمین تک کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسراء اور معراج دونوں بیداری کی حالت میں عطا کی گئیں۔ یہ سورة مکہ مکرمہ کے آخری دور میں نازل کی گئی جب کفار و مشرکین کے ظلم وستم کی انتہا ہوچکی تھی ۔ اس سورت میں توحید و رسالت، اسلام کی حقانیت، قیامت ، آخرت، جنت وجہنم اور کفر و شرک کے برے انجام اور اچھے برے اعمال کی جزا وسزا کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ سورت کے مختصر الفاظ میں امت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیامت تک دنیا کی امامت سپرد کیے جانے اور بنی اسرائیل کی مسلسل نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو ان کے مقام سے باقاعدہ معزول کرنے کی طرف واضح اشارات فرمائے گئے ہیں۔ اس سورت کی ابتدا معراج مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کر کے بنی اسرائیل کی تاریخ کے اہم پہلوؤں کو نہایت مختصر اور جامع طریقہ پر بیان کیا گیا ہے۔ زندگی کے اہم ترین بنیادی اصولوں کا ذکر کر کے بتایا گیا ہے کہ ایک انسان کو صحیح راہ ہدایت اسی وقت مل سکتی ہے جب وہ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔ بنی اسرائیل کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ انہوں نے انبیاء کرام کا راستہ چھوڑ کر دنیا پرستی کے ہر طریقے اور انداز کو اختیار کرلیا تھا۔ اسی لئے اس سورت میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کو باقاعدہ منصب امامت پر فائز کر کے بنی اسرائیل کی قیادت کو معزول کرنے کے واضح اشارات کئے گئے ہیں۔ اس سورة کی ابتداء اسراء یا معراج سے کی گئی ہے تاکہ بنی اسرائیل اور تمام مذاہب کے پیروکاروں کو اس بات کا اچھی طرح احسان دلایا جائے کہ اب انسانیت کی معراج اور سربلندی اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہی پوشیدہ ہے کیونکہ اس سے زیادہ انسانیت کی سربلندی کا اور کوئی تصور ممکن نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کلیم اللہ ہیں مگر کوہ طور تک محدود ہیں لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے ایک باعزت مہمان کی حیثیت سے براق پر حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل کے ساتھ یاد فرمایا۔ پھر اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ بلند مقام عطا فرمایا جہاں اللہ کے سب سے مقرب فرشتے جبرائیل نے بھی آگے جانے سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں اس مقام سے آگے نہیں جاسکتا اگر میں نے ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو تجلی الٰہی میرے پروں کو جلا کر راکھ کر دے گی۔ پھر اللہ نے رف رف سواری بھیج کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے قریب بلایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلام فرمایا۔ امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ خواب کی حالت نہ تھی بلکہ مکمل بیداری میں آپ کو اسراء اور معراج عطا فرمایا گیا۔ سفر معراج کا ذکر کرنے کے بعد بنی اسرائیل کی ایک طویل ترین تاریخ کو نہایت مختصر الفاظ میں ذکر کر کے بتایا گیا ہے کہ ہزاروں خطاؤں اور نافرمانیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو عزت اور سربلندی کے اعلیٰ ترین مقامات تک پہنچایا تھا لیکن احکامات الٰہی کی وہ مسلسل نافرمانی کرتے رہے جس کی وجہ سے ان کو ہزاروں ذلتیں بھی نصیب ہوئیں اور طاقتور قوموں نے ان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ اس کا سبب یہی تھا کہ انہوں نے انبیاء کرام کے راستے کو چھوڑ کر کفر و شرک کے طریقوں کو اختیار کرلیا تھا۔ اس سورة میں بنی اسرائیل کو اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ اب اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول اور آخری کتاب آگئی ہے اگر اس کا بھی انکار کیا گیا اور نبی مکرم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و فرماں برداری نہ کی گئی تو اس قوم کو ایسی ذلتوں سے واسطہ پڑے گا جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ فرمایا گیا کہ یہ قرآن کریم صراط مستقیم کی طرف لے جانے والا ہے جس میں دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں پوشیدہ ہیں۔ اس سورة میں چند ایسے ضروری احکامات بیان کئے گئے ہیں جن پر عمل کرنے سے انساین معاشرہ ہزاروں خرابیوں سے پاک ہو سکتا ہے اور کسی بھی معاشرے کی کامیاب بنیادیں عطا کی گئی ہیں۔ وہ اصول یہ ہیں۔ ١- اللہ کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہ کرنا اور شرک کے ہر انداز سے بچنا۔ ٢- والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ ٣- رشتہ داروں، غریبوں، ضرورت مندوں اور مسافروں کے ساتھ حسن معاملہ کرنا۔ ٤- فضول خرچی سے بچنا مال کو احتیاط سے خرچ کرنا، سخاوت ہو لیکن کنجوسی اور بخل سے بچنا۔ ٥- مفلسی اور غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرنا کیونکہ یہ ایک بدترین جرم ہے۔ ٦- فرمایا کہ زنا کے قریب بھی مت جانا ورنہ بد ترین راستے کھل جائیں گے۔ ٧- انسانی جان قابل احترام ہے کسی حال میں قتل ناحق کی اجازت نہیں ہے۔ ٨- یتیم بچے جب تک سعور کی عمر کو نہ پہنچ جائیں اس وقت تک سوائے احسن طریقے کے ان کے مال کے قریب بھی نہ جانا۔ ٩- ہر طرح کے عہد اور معاہدے کی پابندی کرنا۔ ١٠- ماپ تول اور لین دین میں ہر طرح کی ناجائز حرکتوں سے بچنا۔ ١١- جس بات کی تحقیق نہ ہو اس بات کے پیچھے نہ پڑنا اور ہر طرح کی بدظنی اور الزام لگانے سے بچنا۔ ١٢- ہر طرح کے تکبر، غرور اور بڑائی کے انداز اور زمین پر اکڑنے اور اترانے سے بچنا۔ ١٣- کفر و شرک سے بچنا اور صرف اللہ ہی کی عبادت و بندگی کرنا۔ ١٤- مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر یقین رکھنا۔ ١٥- اللہ، اس کے رسول اور دین کے بنیادی اصولوں کے مقابلے میں کفر و شرک، ضد، ہٹ دھرمی پر نہ جمنا کیونکہ یہ شیطانی وسوسہ ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔ اس سورة میں حضرت نوح کا ذکر کر کے فرمایا گیا کہ اللہ نے کسی بستی کو بلا وجہ برباد نہیں کیا ب ل کہ جب انہوں نے انبیاء کرام کی تعلیمات کا انکار کیا اس سے منہ موڑ اور دنیا پرستی کو غلاب کرلیا تو پھر اللہ کا فیصلہ آگیا اور اس قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ حضرت موسیٰ کے بعض معجزات کا ذکر کر کے فرمایا کہ انہوں نے کس طرح فرعون کو للکارا اور جب فرعون نے اللہ کے دین کا مسلسل انکار کیا تو اس کو اس کے لشکر کو اور اس کی سلطنت کو غرق کردیا۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا تاکہ اس کو اچھی طرح سمجھا جاسکے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پروردگار کا پیغام پہنچا دیجیے آپ کا کام مکمل ہوجائے گا۔ اگر اس پر عمل کیا گیا تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دین و دنیا میں وہ کامیابیاں عطا فرمائے گا جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

تعارف سورة بنی اسرائیل اس سورة کو بنی اسرائیل کے علاوہ اسراء کے نام سے بھی لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اس کے بارہ رکوع اور ١٢١ آیات ہیں۔ یہ سورة مکہ معظمہ کے آخری دور میں نازل ہوئی۔ اس کی ابتداء معراج النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی گئی ہے۔ معراج کے بارے میں یہ فرما کر شکوک و شبہات دور کیے گئے ہیں کہ وہ ذات کبریا اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رات کے نہایت مختصر حصہ میں آسمانوں پر لے گئی۔ جو ہر کمزوری سے پاک اور ہر نقص سے مبرا ہے۔ سب کچھ سننے اور دیکھنے والی ہے۔ اسی ذات نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد حرام سے لے کر مسجد اقصیٰ کی سیر کروائی تاکہ اسے اپنی قدرت کے نشانات دکھلائے۔ یہاں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک معراج کا تذکرہ فرمایا۔ سورة نجم میں سدرۃ المنتہیٰ تک کا بیان ہے۔ زیادہ تفصیلات احادیث کی کتب میں پائی جاتی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے ذکر کے فوراً بعد بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عنایت فرمائی۔ جس کا پہلا حکم یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو کارساز نہ سمجھا جائے۔ بنی اسرائیل کو یہ بھی انتباہ کردیا گیا تھا کہ تم دو مرتبہ ملک میں بڑا فساد برپا کرو گے اور دونوں دفعہ تم پر ایسا دشمن مسلط کیا جائے گا جو مار مار کر نہ صرف تمہارے چہرے بگاڑدے گا بلکہ دونوں مرتبہ مسجد اقصیٰ کی بےحرمتی بھی کریں گے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ قرآن مجید لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ جو لوگ اس پر حقیقی طور ایمان لائیں گے اور اپنی ہمت کے مطابق عمل کریں گے ان کو اجر عظیم اور ہر قسم کی کامیابی کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ لیکن انسان اپنی جلدبازی کی وجہ سے دائمی خیر کو چھوڑ کر دنیا کی خاطر اپنے نقصان کے درپے ہوجاتا ہے۔ اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی تمام حرکات و سکنات کو ضبط تحریر میں لایا جا رہا ہے جو ایک کتاب کی شکل میں قیامت کے دن اس کے سامنے پیش کرتے ہوئے حکم ہوگا اسے پڑھ ! تیرے حساب کے لیے یہی کافی ہے۔ انسان کو یہ بات بھی باور کروائی گئی ہے کہ قیامت کے دن کوئی کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی دوسرے کا بوجھ اٹھائے گا۔ پھر مسلمان معاشرے کو اعلیٰ اقدار اور مربوط رکھنے کے لیے والدین اور معاشرے کے کمزور طبقات کے حقوق کے تحفظ کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے بعد اخلاقی، معاشی اور ہر قسم کے استحاصل سے منع کرنے کے ساتھ انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ تیرے اخلاق اور چال ڈھال میں تواضع اور انکساری کی جھلک غالب رہنی چاہیے۔ جس وجہ سے انسان سے اخلاقی اور دیگر کمزوریاں سرزد ہوتی ہیں اس کا بنیادی سبب بتلاتے ہوئے آگاہ کیا گیا ہے کہ یہ شیطان کی شیطنت کا نتیجہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی حیثیت بھول کر فخر و غرور اختیار کرتا ہے۔ آدم (علیہ السلام) کے ساتھ شیطان کی دشمنی کا ذکر کیا ہے کہ شیطان تمہارا ازلی اور ابدی دشمن ہے جس نے نہ صرف فخر و غرور کی وجہ سے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا بلکہ اس نے بارگاہ اقدس میں یہ بھی گستاخی کی کہ مجھے آدم کی وجہ سے ذلیل ہونا پڑا ہے۔ لہٰذا میں آدم اور اس کی اولاد کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھوں گا۔ جس کا یہ جواب دیا گیا کہ اے راندۂ درگاہ ! تو اپنے چیلے چانٹوں کو جس طرح چاہے استعمال کر۔ لیکن میرے بندوں پر تیرا تسلط مستقل طور پر قائم نہیں ہو پائے گا، اس کے ساتھ ہی شیطان کے تسلط سے بچنے کا طریقہ بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ دن رات میں نماز کی پابندی کرتے ہوئے بالخصوص صبح کے وقت قرآن مجید کی تلاوت اہتمام کرو۔ کیونکہ صبح کے وقت قرآن مجید کی تلاوت کرنے پر مخصوص ملائکہ کا نزول ہوتا ہے۔ اس سورة کا اختتام کرنے سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے انھیں نو بڑی بڑی نشانیاں عطا کی تھیں۔ جس کے نتیجہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کا میاب ہوئے اور ان کا دشمن اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ غرق ہوا۔ سورة کا اختتام اس بات پر کیا گیا کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! دوٹوک انداز میں بنی اسرائیل کو فرما دیجیے کہ ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جنھیں اللہ تعالیٰ نے حقیقی علم اور سمجھ عنایت فرمائی ہے وہ تو اپنے رب کے وعدے پر یقین رکھتے ہیں اور روتے ہوئے اس کے حضور سربسجود ہوتے ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی اولاد ہے نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے اور اس کی ذات کو کسی اعتبار سے کمزوری لاحق نہیں ہوتی۔ اس کو کسی کی مدد درکار نہیں اس کو بڑا جانتے ہوئے اس کی بڑائی بیان کرتے رہیں۔ (عَنْ أَبِیْ لُبَابَۃَ ، سَمِعْتُ عَاءِشَۃَ تَقُوْلُ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَصُوْمُ حَتّٰی نَقُوْلَ مَا یُرِیْدُ أَنْ یُّفْطِرَ ، وَیُفْطِرُ حَتّٰی نَقُوْلَ مَا یُرِیْدُ أَنْ یَّصُوْمَ ، وَکَانَ یَقْرَأُ کُلْ لَّیْلَۃِ بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ ، وَالزُّمُرَ ) [ رواہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ ] ” حضرت ابو لبابہ کہتے ہیں میں نے سیدہ عائشہ (رض) سے سنا انھوں نے فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل روزے رکھتے تھے اور ہم کہتے کہ آپ روزے چھوڑیں گے نہیں۔ آپ روزے رکھنا چھوڑدیتے تو ہم کہتے آپ روزہ نہیں رکھیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر رات سورة بنی اسرائیل اور سورة زمر کی تلاوت کرتے تھے۔ “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ مکی سورت ہے ، اس کا آغاز تسبیح الٰہی سے ہوتا ہے اور اختتام بھی اللہ کی حمد پر ہوتا ہے۔ اس میں مختلف موضوعات پر کلام کیا گیا ہے اور سب سے بڑا موضوع اسلامی نظریہ حیات اور عقیدہ توحید ہے۔ بعض موضوعات کا تعلق اسلامی نظریہ حیات پر مبنی اخلاقیات سے ہے ، فرد کی اخلاقیات سے بھی۔ کچھ واقعات بنی اسرائیل کی تاریخ سے بھی متعلق ہیں۔ یعنی مسجد اقصیٰ اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفر معراج کے حوالے سے۔ اس سورت میں آدم و ابلیس کے قصے کا ایک حصہ بیان ہوا ہے جس کا مقصد تکریم انسانیت ہے۔ لیکن اس پوری سورت کی تعمیر جس مواد سے ہوئی اس کا حقیقی تعلق رسول اللہ کی ذات سے ہے ، اس زاویہ سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اہل مکہ نے کیا موقف اختیار کیا۔ پھر ایک اہم موضوع خود یہ قرآن کریم ہے کہ اس کی تعلیمات کیا ہیں ؟ اس کی تعلیمات کی نوعیت کیا ہے ، اور اہل مکہ نے اسے سن کر کیا موقف اختیار کیا۔ اس مناسبت سے بھی رسولوں کے منصب اور رسالت کی حقیقت پر بھی بات کی گئی ہے اور پھر یہ بتایا گیا کہ سابق رسولوں کی امتوں کو حسی معجزات دکھائے گئے اور نہ ماننے والوں کو ہلاک کیا گیا لیکن رسالت محمدیہ کا اعجاز دوسری نوعیت کا ہے یہ کہ ہدایت و ۔۔۔۔ کے میدان میں ہر شخص اپنے نظریات کا ذمہ دار ہے جبکہ معاشرے میں عملی ذمہ داری اجتماعی بھی ہے اور یہ تمام امور اللہ نے اپنی کتاب میں نہایت ہی تفصیل سے اپنے رسولوں کے ذریعہ بیان فرمائے تاکہ لوگوں پر حجت تمام ہوجائے اور کل وہ معذرت نہ پیش کرسکیں۔ وکل شئی فصلنہ تفصیلا (٧١ : ٢١) ” اور ہر چیز کو ہم نے نہایت ہی مفصل بیان کیا ہے “۔ اس سورت میں اللہ کی حمد ، اس کی تسبیح و تعریف اور اس کے انعامات پر اس کے شکر کے مضامین باربار آتے ہیں۔ سورت کے آغاز ہی میں فرمایا گیا۔ سبحن الذین اری بعبدہ لیلا من السمجد الحرام الی المسجد الاقصی (٧١ : ١) ” پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے “۔ اور اس سورت میں جب بنی اسرائیل کو توحید کی تعلیم دی جاتی ہے تو ان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ ان مومنین کی اولاد سے ہیں جن کو نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا گیا انہ کان عبدا شکورا (٧١ : ٣) ” اور وہ ایک شکر گزار بندہ تھا “۔ اور جب مشرکین کے باطل دعوئوں کا ذکر ہوتا ہے جو وہ اپنے خود ساختہ الہوں کے بارے میں کرتے تھے تو فرمایا جاتا ہے : سبحنہ و تعلی عما یقولون علوا کبیرا (٣٤) تسبح لہ السموت السبع والارض ومن فیھن وان من شیئی الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقھون تسببحھم (٤٤) (٧١ : ٣٤۔ ٤٤) ” پاک ہے وہ اور بہت بالا و برتر ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں۔ اس کی پاکی تو ساتوں آسمانوں اور زمین اور ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں۔ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کر رہی ہو مگر تم اس کو تسبیح سمجھتے نہیں ہو “۔ اور جب بعض اہل کتاب پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ یوں تبصرہ کرتے ہیں : ویقولون سبحن ربنا ان کان وعد ربنا لمفعولا (٧١ : ٨٠١) ” پاک ہے ہمارا رب ، بیشک اس کا وعدہ پورا ہونے والا ہے “۔ اور سورت کا خاتمہ یوں ہے : وقل الحمد اللہ الذی لم یتخذ والدا ولم یکن لہ شریک فی الملک ولم یکن لہ ولی من الذل و کبیرہ تکبیرا (٧١ : ١١١) ” اور کہو تعریف ہے اس خدا کے لئے جس نے نہ کسی کو بینا بنایا ، نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے اور وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پشیتبان ہو اور اس کی بڑائی بیان کرو ، کمال درجے کی بڑائی “۔ غرض اس سورت کے لئے ہم نے جو محور بیان کیا ہے یہ متنوع موضوعات اسی کے گرد گھومتے ہیں اور اس سورت کے مضامین دائروں کی شکل میں ہیں۔ پہلا دائرہ واعہ اسرا کی طرف ایک مختصر اشارے سے شروع ہوتا ہے۔ سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی الذی برکنا حولہ (٧١ : ١) ” پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے “۔ اور اس میں بھی بتایا جاتا ہے کہ اسرا کی غرض وغایت کیا ہے۔ لنریہ من ایتنا (٧١ : ١) ” تاکہ ہم اسے اپنی آیات دکھا دیں “۔ اور اسی مناسبت سے پھر حضرت موسیٰ کی کتاب توریت کا ذکر ہوا اور اس میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے اہم واقعت کا ذکر ہوا ، جس میں ان کے عروج وزوال کے اہم واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ ان پر یہ زوال ان کی سرکشی اور بداعمالی کی وجہ سے آیا۔ ان کو متنبہ کیا گیا کہ اگر تم باز نہ آئے تو دوبارہ تم پر تیسری اور چوتھی بار یہی زوال آئے گا۔ وان عدتم عدنا (٧١ : ٨) ” اگر تم دوبارہ سرکشی کی طرف لوٹے تو ہم بھی لوٹیں گے “۔ حضرت موسیٰ کی کتاب کی مناسبت سے قرآن کریم کے بارے میں بھی یہاں تبصرہ آتا ہے کہ یہ کتاب ایک مضبوط راہ بتاتی ہے لیکن انسان بہت ہی جلد باز ہے ، وہ اپنے میلانات پر کنٹرول نہیں کرسکتا۔ اور پھر آخر میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ ہر انسان اپنے کیے کا ذمہ دار ہے ، ہدایت و ضلالت میں ذمہ داری انفرادی ہے اور عمل اور سلوک میں ذمہ داری اجتماعی ہے۔ دوسرے دائرے میں اسلامی نظریہ حیات اور عقیدہ توحید کا ذکر ہے۔ اور یہ کہا گیا ہے کہ تمام اجتماعی آداب اور اقدار ، اس کی اساس پر تعمیر ہوں گے۔ اسلامی معاشرے کی ہر بات میں عقیدہ توحید کا رنگ ہوگا۔ تیسرے دائرے میں بت پرستی کے موضوع کو لیا گیا ہے خدا کی طرف لڑکیوں کی نسبت اور خدا کے لئے شرکاء ٹھہرانا اور بعث بعد الموت کے بارے میں ان کے غلط خیالات اور رسول اللہ پر ان کی افتراء پر داریاں۔ نیز آخر میں اہل ایمان کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ احسن انداز میں گفتگو اور مکالے کے ذریعے دعوت پھیلائیں۔ اور چوھتے سرکل میں یہ بتایا جاتا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسے معجزات کا نزول کیوں نہیں ہوا جو سابقہ انبیاء پر ہوا ؟ اس لئے کہ اہم سابقہ نے ان معجزات کو بھی مان کر نہ دیا تھا ، اس لئے وہ ہلاک ہوئے اور یہ سنت الہیہ ہے ، اس میں رسول اللہ کے خواب کے بارے میں ان کے موقف پر ان کو ڈرایا گیا ہے کہ وہ تکذیب سے باز آجائیں اور حد سے نہ گزریں۔ اس میں قصہ آدم و ابلیس کا بھی تھوڑا سا ذکر ہے جس میں ابلیس اعلان کرتا ہے کہ وہ ذریت آدم کے خلاف جنگ جاری رکھے گا۔ اور اہل مکہ جو اس وقت سرکشی اور تکذیب پر تلے ہوئے ہیں وہ شیطان کے بہکاوے میں آگئے ہیں۔ ان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ انسان ایک مکرم اور برتر مخلوق ہے۔ وہ ایک جواب دہ مخلوق ہے اور بتایا جاتا ہے کہ قیامت میں جب سب لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ اٹھایا جائے گا تو اس وقت نافرمانوں کا انجام کیا ہوگا اور فرماں برداروں کا انجام کیا ہوگا۔ فمن اوتی کتبہ بیمینہ فاولئک یقرئون کتبھم ولا یظلمون فتیلا (١٧) ومن کانی فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی واضل سبیلا (٢٧) (٧١ : ١٧۔ ٢٧) ” اس وقت جن لوگوں کو اعمال نامہ سیدھے ہاتھ میں دیا گیا وہ اپنا کارنامہ پڑھیں گے اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا اور جو اس وقت ۔۔۔ میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا بلکہ راستہ پانے میں اندھے سے زیادہ ناکام “۔ آخری حصے میں کفار مکہ کی ان سازشوں کا ذکر ہے ، جو وہ حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کر رہے جائے۔ اگرچہ اس سلسلے میں آپ پر سختی کرنا پڑے۔ اور یہ بتایا گیا اگر اللہ آپ کو یہاں سے ہجرت کا حکم نہ دیتا تو مشرکین مکہ پر بھی وہی ہلاکت آجاتی جو ان سے قبل اقوام پر آئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ اپنی راہ پر سیدھے چلتے رہیں ، قرآن پڑھیں ، نماز پڑھیں اور بہتر سے بہتر انداز میں دعوت پھیلاتے رہیں اور اگر آپ کو نکلنا پڑے تو اچھے طریقے سے نکلیں اور پریشان نہ ہوں کیونکہ اسلامی انقلاب آنے والا ہے حق آیا ہی چاہتا ہے اور باطل کی رخصت ہی رخصت ہے۔ آخر میں بتایا جاتا ہے کہ جس دعوت اور جس قرآن کے خلاف یہ سازشیں کرتے ہیں وہ تو ان کے تمام مسائل کا حل ہے۔ لیکن افسوس کی انسان جانتا نہیں۔ وما اوتیتم من العلم الا قلیلا (٧١ : ٥٨) ” اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے “۔ اب بات قرآن مجید کے اعجاز کی آجاتی ہے۔ یہ لوگ تو معجزات طلب کرتے ہیں ، فرشتوں کے نزول کو دیکھنا چاہتے ہیں ، یہ کہتے ہیں کہ رسول کے پاس ایک ایسی کوٹھی ہو جو قیمتی اثاث الہیت پر حاوی ہو ، اس کا ایک عظیم باغ ہو جس میں ہر قسم کے میوہ جات ہوں اور اس کے اندر نہریں بہتی ہوں ، یا اس کے باغ میں ابلتے چشمے ہوں یا اور نہ ہو تو وہ سیدھا آسمان پر چڑھے اور وہاں سے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح ایک کتاب لے کر آجائے اور ہم اسے لے کر پڑھیں اور یہ اور اس قسم کی دوسری تجاویز و مطالبات وہ پیش کرتے تھے جو محض مکابرہ کے لئے تھے۔ وہ ماننا نہیں چاہتے تھے۔ ان سب مطالبات کو یہ کہہ کر رد کردیا گیا کہ یہ چیزیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض منصبی میں داخل نہیں ہیں اور ان لوگوں کو جواب میں مزید کہا جاتا ہے کہ خود تو تم اس قدر بخیل ہو کہ اگر اللہ کے خزانے ، رحمتوں کے خزانے تمہارے اختیار میں دے دئیے جائیں تو تم کسی کو کوڑی نہ دو ، اس لئے کہ کہیں خزانے ختم نہ ہوجائیں۔ کیا ان کے لئے یہ بات کم معجزہ ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز اللہ کی مطیع فرمان ہے اور یہ کائنات ایک ضابطے کے مطابق چل رہی ہے اور یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عظیم معجزات کو کیا سب نے مان لیا تھا۔ کیا تم وہی صورت حالات پیدا کرنا چاہتے ہو جو فرعون کو درپیش ہونی کیونکہ ماننا تو تم نے بہرحال نہیں ہے۔ آخر میں بتایا جاتا ہے کہ یہ قرآن حقیقی حق اور سچائی پر مشتمل ہے۔ اور یہ کہ یہ متفرق طور پر حسب ضرورت ، وقت کے تقاضوں کے مطابق نازل ہوتا رہا ہے تاکہ وہ اس پر عمل کرتے رہیں ، اس کے تقاضوں کو وقت کے مطابق پورے کرتے رہیں اور یہ تو اس قدر قیمتی تعلیمات پر مشتمل ہے کہ جو لوگ جانتے ہیں اور اس کی قدر قیمت کو سمجھتے ہیں وہ تو خوشی کے جذبات سے روتے ہیں اور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ سورت کا خاتمہ جن کلمات پر ہوتا ہے وہ بہت اہم ہیں۔ یہ کہ حمدو ثنا اسی کو سزاوار ہے جس نے کوئی بیٹا نہیں پیدا کیا ، نہ اس کا کوئی شریک ہے کیونکہ وہ کسی کام کا خود کرنے سے عاجز نہیں ہے۔ تو سورت کا آغاز بھی حمد سے اور اختتام بھی حمد سے۔ یہاں مناسب ہے کہ معراج کے مشہور قصے پر ایک نوٹ دے دیا جائے۔ قصہ اسراء یعنی رات کا سفر اور قصہ معراج اگر ایک ہی رات میں واقع ہوئے تو ان کی تفصیلات یہ ہیں کہ اسراء یعنی رات کا سفر مکہ کی مسجد حرام سے بیت المقدس کی مسجد اقصیٰ تک ہے اور معراج کا سفر بیت المقدس سے آسمانی بلندیوں اور سدرۃ المنتی تک ہوا ، یہ ایک غیبی سفر تھا اور اس کی اصل حقیقت تک پہنچنا ہمارے لئے مشکل ہے۔ اس واقعے کے بارے میں بیشمار روایات آئی ہیں اور پھر ان کے بارے میں طویل مباحث ہوئے اور آج تک چل رہے ہیں۔ اسرا کا واقعہ کہاں پیش آیا ، اس میں بھی اختلاف ہے ، بعض نے کہا ہے کہ یہ واقعہ مسجد حرام میں پیش آیا۔ اور عام روایات سے یہی بات بظٓہر ہر معلوم ہوتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے کہ ” میں مسجد میں تھا ، بیت اللہ کے پاس حجر میں ، نہ سو رہا تھا نہ جاگ رہا تھا کہ جبرئیل (علیہ السلام) براق لے کر آئے “۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ ام ہانی بنت ابو طالب کے گھر میں تھے۔ مسجد حرام سے مراد حرم شریف ہے ، کیونکہ حرم شریف مسجد کے گھیرے ہوئے ہے اور مسجد کے ساتھ اس کا تلبس ہے اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ تمام حرم مسجد ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ نماز عشاء کے بعد ام ہانی کے گھر سو رہے تھے کہ اسرا کا واقعہ پیش آیا اور آپ نے یہ واقعہ ام ہانی کے سامنے بیان فرمایا اور پھر کہا :” تمام بنی میرے سامنے عالم مثال میں پیش کیے گئے اور میں نے ان کے ساتھ نماز ادا کی “۔ اس کے بعد اٹھے تاکہ مسجد حرام میں جا کر نماز پڑھیں تو ام ہانی نے آپ کو کپڑوں سے پکڑ لیا تو آپ نے ان سے پوچھا تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا ” مجھے ڈر ہے کہ تمہاری تکذیب کر دے گی۔ اگر تم نے ان کو اس واقعہ کی اطلاعی دے دی “۔ تو آپ نے فرمایا ” چاہے وہ میری تکذیب کریں ؟ “ پھر آپ نکلے اور ابوجہل کے پاس بیٹھے تو آپ نے اسے اسرا کا پورا واقعہ بتادیا۔ ابوجہل نے کہا : اے اہل قریش ، بعض نے تعجب کی وجہ سے سر پر ہاتھ رکھ لیے اور بعض نے انکار کردیا۔ بعض ضعیف الایمان مرتد ہوگئے۔ بعض لوگ ابوبکر (رض) کے پاس دوڑے اور ایہ اطلاع دی۔ تو انہوں نے کہا کیا یہ درست ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا کہا ؟ انہوں نے کہا ” کیا تم اس کی یہ بات بھی مان رہے ہو کہ وہ ایک ہی رات میں شام چلا جائے اور صبح ہونے سے قبل ہی مکہ واپس آجائے تو صدیق (رض) نے کہا اگر وہ اس سے دور کا بھی دعویٰ کرے تو میں پھر بھی تصدیق کروں گا۔ میں آسمانوں کی خبروں کے بارے میں بھی اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ اس واقعہ کے بعد آپ کا نام صدیق (رض) رکھ دیا گیا۔ اہل مکہ میں سے بعض لوگ بیت المقدس گئے ہوئے تھے ، انہوں نے بیت المقدس کی مسجد کی ساخت کے بارے میں پوچھنا شروع کردیا۔ اللہ نے مسجد آپ کے سامنے کھڑی کردی۔ آپ اس کی طرف دیکھتے اور ان کے سوالوں کے مطابق اس کی ساخت بتاتے۔ انہوں نے کہا جہاں تک مسجد کی ساخت کا تعلق ہے اس نے سوالات کا جواب صحیح صحیح دیا ہے۔ اس پر انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تو پھر آپ ہمارے قافلے کے بارے میں بتائیں تو آپ نے بتایا کہ قافلے میں اس قدر اونٹ ہیں اور ان حالات میں قافلہ آرہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ قافلہ فلانے دن طلوع شمس کے وقت مکہ پہنچے گا اور سب سے پہلے ایک خاکستری رنگ کا اونٹ ہوگا۔ یہ لوگ پہاڑی موڑ کی طرف گئے اور بےچینی اس دن کا انتظار کرنے لگے۔ چناچہ اس دن ان میں سے ایک چلایا کہ یہ ہے سورج نکلنے والا اور دوسرا چلایا یہ ہے خدا کی قسم قافلہ۔ اور اس میں سب سے آگے خاکستری رنگ کا اونٹ ہے جیسا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا تھا لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے اور اسی رات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت المقدس سے آسمانوں کی سیر کرائی گئی۔ اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے کہ واقعہ اسرار سونے کی حالت میں ہوا یا بیداری کی حالت میں۔ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا ” خدا کی قسم ! حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسد اپنی جگہ سے غائب نہیں ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح کو بلندیوں پر لے جایا گیا۔ حسن سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں سیر کرائی گئی۔ دوسری روایات میں آتا ہے کہ واقعہ معراج روح و جسم دونوں کے ساتھ ہوا۔ البتہ وقفہ اس قدر قلیل تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بستر ابھی تھنڈا نہ ہوا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس آگئے۔ مجموعہ روایات سے جو بات راجح طور پر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ام ہانی کے گھر اپنے بستر کو چھوڑا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حرم میں چلے گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجر میں تھے اور ایسے حالت میں تھے کہ نہ سو رہے تھے اور نہ جاگ رہے تھے کہ یہ اسراء کا واقعہ پیش ہوا۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بستر پر لوٹ آئے قبل اس کے کہ وہ ٹھنڈا ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس واقعہ کے بارے میں قدماء اور جدید دور کے محققین نے جو بحثیں کی ہیں وہ سب بےمحل ہیں۔ یہ واقعہ تواتر سے ثابت ہے اور جسمانی اسرا ہو یا روحانی اسرا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان میں سے کوئی بھی بعید الامکان نہیں ہے۔ اصل واقعہ پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کائنات کے دور دراز مقامات کی سیر کرائی جائے اور یہ سیر ایک قصیر لحظہ میں کرائی جائے۔ جن لوگوں کے ذہن میں قدرت الہیہ کا معمولی تصور بھی ہوا ، اور جو نبوت کی نوعیت کو سمجھتے ہوں ، ان کو اس واقعہ کے جسمانی وقوع میں کوئی بات عجیب نظر نہیں آتی۔ اس جہاں میں مشکل اور آسان یا ممکن الواقع اور ناممکن الوقوع امور انسانی قوت کے زاویہ سے نظر آتے ہیں ، جہاں تک قدرت الہیہ کا تعلق ہے ، اس کی نسبت سے تمام امور ایک جیسے ہیں ، اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ رہی منصب رسالت کی حقیقت و نوعیت تو وہ انسانی سوچ اور تصور سے ایک مختلف چیز ہے۔ ایک نبی دوسرے انسانوں سے ایک مختلف حقیقت رکھتا ہے۔ لہٰذا ایک نبی کو اگر دور دراز کائنات کی سیر معتاد طریقوں کے مطابق کرائی جائے یا غیر معمولی اور نامعلوم طریقوں کے مطابق کرائی جائے اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے سامنے اس واقعہ کو عجیب و غریب سمجھتے ہوئے سوالات کیے تو آپ نے فرمایا میں تو اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب چیزوں کو مانتا ہوں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آسمانوں کی خبر دیتے ہیں۔ اس واقعہ کے ضمن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ اس واقعہ کے سچ ہونے پر لوگوں نے آپ سے کسی مادی دلیل کا مطالبہ کیا اور آپ نے اس سلسلے میں قافلے کی آمد کی تفصیلات ان کو بتائیں۔ اس سے بھی اچھی طرح ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ واقعہ سچا تھا۔ پھر یہ کہ ام ہانی نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ اس واقعہ کو عوام میں بیان نہ کریں ، اس لئے کہ لوگ آپ کی تکذیب کریں گے۔ لیکن آپ کو اس قدر یقین تھا کہ آپ نے ان کے مشورے پر کان نہ دھرا اور یہ فرمایا کہ جو بھی سچائی ان پر اتری وہ بلا جھجک اس کا اظہار کریں گے چاہے کوئی مانے یا نہ مانے۔ اس واقعہ کے بعد بعض عملاً مرتد بھی ہوگئے۔ بعض نے مذاق کیا اور بعض نے شک کا اظہار کیا لیکن ان تمام امور کے باوجود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق بات کہتے رہے کیونکہ آپ کو پختہ یقین تھا۔ یہی انداز داعیان حق کا ہونا چاہیے ، چاہے کوئی ان کی بات مانے یا نہ مانے۔ داعیان حق کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ لوگ راضی ہوں گے یا ناراض ہوں گے ، انہیں چاہیے کہ حق بات صاف صاف کہہ دیں۔ سچائی کے مقابلے میں جو بھی آئے اس رد کردیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس واقعہ کو اپنی رسالت پر معجزانہ دلیل کے طور پر نہیں پیش فرمایا حالانکہ اہل مکہ رات دن خوارق عادت معجزات طلب کرتے رہے تھے۔ حالانکہ وقوع معراج پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے معجزانہ طور پر ثبوت بھی پیش کردیا تھا ، اس لئے کہ دعوت اسلامی کی سچائی کا ثبوت خود اس کے اندر ہے ، آفتاب آمد دلیل آفتاب۔ دعوت اسلامی کا منہاج ہی فطرت سلیمہ کے مطابق ہے اور عقل انسانی اس کی تصدیق و توثیق کرتی ہے۔ اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واقعہ معراج کا بیان اس لئے نہ کیا کہ یہ واقعہ آپ کی رسالت کے لئے دلیل تھا بلکہ اس نے کیا کہ یہ ایک حقیقی واقعہ تھا۔ اور ایک حقیقت تھی۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ آیات کی تشریح کی طرف آئیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi