Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 105

سورة بنی اسراءیل

وَ بِالۡحَقِّ اَنۡزَلۡنٰہُ وَ بِالۡحَقِّ نَزَلَ ؕ وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿۱۰۵﴾ۘ

And with the truth We have sent the Qur'an down, and with the truth it has descended. And We have not sent you, [O Muhammad], except as a bringer of good tidings and a warner.

اور ہم نے اس قرآن کو حق کے ساتھ اتارا اور یہ بھی حق کے ساتھ اترا ہم نے آپ کو صرف خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Revelation of the Qur'an in Stages Allah tells: وَبِالْحَقِّ أَنزَلْنَاهُ ... And with truth We have sent it down, Allah tells us that His Book, the Glorious Qur'an, has been sent with truth, i.e., it contains the truth, as Allah says: لَّـكِنِ اللَّهُ يَشْهَدُ بِمَأ أَنزَلَ إِلَيْكَ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلَـيِكَةُ يَشْهَدُونَ But Allah bears witness to that which He has sent down unto you; He has sent it down with His knowledge, and the angels bear witness. (4:166) meaning, it contains the knowledge which Allah wanted to teach to you, with His rulings, commands and prohibitions. ... وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ... and with truth it has descended. means, "It has been sent down to you, O Muhammad, preserved and protected, not contaminated or mixed with anything else, with nothing added or taken away. It has come to you with the truth, brought down by one mighty in power, trustworthy and strong, one who is obeyed by the higher group (angels).' ... وَمَا أَرْسَلْنَاكَ ... And We have sent you, (O Muhammad), ... إِلاَّ مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا as nothing but a bearer of glad tidings and a warner. a bearer of glad tidings for the believers who obey you and a warner to the disbelievers who disobey you.

قرآن کریم کی صفات عالیہ ارشاد ہے کہ قرآن حق کے ساتھ نازل ہوا ، یہ سراسر حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ساتھ اسے نازل فرمایا ہے اس کی حقانیت پر وہ خود شاہد ہے اور فرشتے بھی گواہ ہیں اس میں وہی ہے جو اس نے خود اپنی دانست کے ساتھ اتارا ہے اس کے تمام حکم احکام اور نہی و ممانعت اسی طرف سے ہے حق والے نے حق کے ساتھ اسے اتارا اور یہ حق کے ساتھ ہی تجھ تک پہنچا نہ راستے میں کوئی باطل اس میں ملا نہ باطل کی یہ شان کہ اس سے مخلوط ہو سکے ۔ یہ بالکل محفوظ ہے ، کمی زیادتی سے یکسر پاک ہے ۔ پوری طاقت والے امانتدار فرشتے کی معرفت نازل ہوا ہے جو آسمانوں میں ذی عزت اور وہاں کا سردار ہے ۔ تیرا کام مومنوں کو خوشی سنانا اور کافروں کو ڈرانا ہے ۔ اس قرآن کو ہم نے لوح محفوظ سے بیت العزۃ پر نازل فرمایا جو آسمان اول میں ہے ۔ وہاں سے متفرق تھوڑا تھوڑا کر کے واقعات کے مطابق تیئس برس میں دنیا پر نازل ہوا ۔ اس کی دوسری قرأت فرقناہ ہے یعنی ایک ایک آیت کر کے تفسیر اور تفصیل اور تبیین کے ساتھ اتارا ہے کہ تو اسے لوگوں کو بہ سہولت پہنچا دے اور آہستہ آہستہ انہیں سنا دے ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

105۔ 1 یعنی با حفاظت آپ تک پہنچ گیا، اس میں راستے میں کوئی کمی بیشی اور کوئی تبدیلی اور آمیزش نہیں کی گئی اس لئے کہ اس کو لانے والا فرشتہ۔ شدید القوی، الامین، المکین اور المطاع فی الملاء الاعلی ہے۔ یہ وہ صفات ہیں جو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے متعلق قرآن میں بیان کی گئی ہیں۔ 105۔ 2 بَشِیْر اطاعت گزار مومن کے لئے اور نَذِیْر نافرمان کے لئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٤] یعنی جن مقاصد کی خاطر ہم نے یہ قرآن جس حق و صداقت کے ساتھ نازل کیا تھا بعینہ اسی حق و صداقت کے ساتھ یہ رسول اللہ کے دل تک پہنچ گیا۔ اس میں کسی طرح کی کمی بیشی نہیں ہوئی نہ اس راہ میں کہیں باطل کی آمیزش ہوئی، نہ ہی اس میں سے کچھ کلام نازل ہونے سے رہ گیا جو کچھ رسول پر نازل ہوا وہ بعینہ وہی کچھ تھا جو ہم نے نازل کیا تھا۔ اب رسول کا کام یہ ہے کہ جو کچھ نازل ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دے۔ اللہ کے فرمانبرداروں کے لیے اس کلام میں جو بشارتیں ہیں ان سے انھیں مطلع کر دے اور سرکشوں کے لیے جو جو عذاب مذکور ہیں ان کے ذریعہ نافرمانوں کو ڈرائے اور انھیں متنبہ کردے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۭوَبِالْحَـقِّ اَنْزَلْنٰهُ : یعنی اس میں جو بات بھی ہے سراسر حق ہے۔ ” وَبِالْحَقِّ نَزَلَ “ اور جیسے ہم نے اتارا ویسے ہی وہ اترا ہے، درمیان میں کسی کا دخل نہیں ہوا کہ وہ کوئی کمی بیشی یا تبدیلی کرسکے۔ وحئ الٰہی کی حفاظت کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة جن کی آیات (٢٦ تا ٢٨) اور اس مفہوم کے قریب سورة انعام کی آیت (١١٥) موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کا ذکر کرکے جو قرآن کا ذکر فرمایا تو اس سے مقصود کفار قریش کو متنبہ کرنا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الٹی سیدھی فرمائشیں کرنے کے بجائے اسی قرآن پر غور کیوں نہیں کرتے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ۭ وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا : یعنی ہم نے آپ کو یہ قدرت دے کر نہیں بھیجا کہ لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کردیں، بلکہ آپ کا کام صرف دعوت دینا، قبول کرنے والے کو خوش خبری دینا اور انکار کرنے والے کو جہنم سے ڈرانا ہے۔ دیکھیے سورة غاشیہ (٢١، ٢٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَبِالْحَـقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ۭ وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا ١٠٥؀ۘ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٥) اور اسی طرح اس قرآن کریم کو بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہم نے ہدایت ہی کے ساتھ تو نازل کیا ہے اور یہ وہ ہدایت ہی کے ساتھ آپ پر نازل ہوگیا اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو بھی جنت کی خوشخبری سنانے والا اور دوزخ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٥ (وَبِالْحَـقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ) یہاں ” حق “ کا لفظ خصوصی اہمیت کا حامل ہے اور اس لفظ کی معنوی تاثیر کو واضح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے دونوں دفعہ خاص طور پر زور دے کر اور واضح کر کے پڑھا جائے۔ اس آیت کا انداز بالکل وہی ہے جو سورة الطارق کی ان آیات میں پایا جاتا ہے : (اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ وَّمَا هُوَ بالْهَزْلِ ) ” یقیناً یہ (قرآن) قول فیصل ہے اور یہ کوئی ہنسی مذاق نہیں ہے “۔ اس مفہوم کی وضاحت ہمیں حضرت عمر سے مروی اس حدیث نبوی میں ملتی ہے : (اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ ) ” یقیناً اللہ اس کتاب کی بدولت کئی قوموں کو اٹھائے گا اور کئی دوسری قوموں کو گرائے گا “۔ چناچہ قرآن کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عروج بخشا اور جب ہم اس کے تارک ہوئے تو اسی جرم کی پاداش میں ہمیں زمین پر پٹخ دیا گیا : خوار از مہجورئ قرآں شدی شکوہ سنج گردش دوراں شدی اے چوں شبنم بر زمین افتندۂ در بغل داری کتاب زندۂ (اقبال)

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

118. That is, it is not your responsibility to cause, in a supernatural manner, springs to gush forth or gardens to grow or pieces of the sky to fall down in order to convince those people who do not judge the Quran by its teachings nor decide between the truth and falsehood on merit. As the Quran has been sent down with truth, you should present it before the people and tell them plainly that the one, who believes, does so for his own good and the one who rejects it, does it at his own peril.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :118 یعنی تمہارے ذمے یہ کام نہیں کیا گیا ہے کہ جو لوگ قرآن کی تعلیمات کو جانچ کر حق اور باطل کا فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، ان کو تم چشمے نکال کر اور باغ اگا کر اور آسمان پھاڑ کر کسی نہ کسی طرح مومن بنانے کی کوشش کرو ، بلکہ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے حق بات پیش کر دو اور پھر انہیں صاف صاف بتا دو کہ جو اسے مانے گا وہ اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو نہ مانے گا وہ برا انجام دیکھے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٥۔ ١٠٦:۔ یہاں حق کا مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن بالکل محفوظ ہے خدا کے پاس سے آنے میں کوئی کمی بیشی اس میں نہیں ہوئی جبرئیل امین خداوند جل جلالہ کے پاس سے جوں کا توں لائے پھر فرمایا کہ جو لوگ ایمان دار ہیں اور تمہارے تابع اور مطیع ہیں تم ان کو خوشخبری سنانے والے ہو کہ انہیں ان کے نیک اعمال کا بدلہ آخرت میں اچھا ملے گا اور جنت ان ہی کے واسطے تیار ہوئی ہے اور جو لوگ تمہاری نافرمانی کرتے ہیں اور تمہیں جھٹلاتے ہیں آپ ان کے واسطے مقرر ہے پھر اللہ پاک نے یہ بات بیان فرمائی کہ ہم نے قرآن کو ایک بارگی نہیں اتارا بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے جب جس بات کی ضرورت ہوئی ویسی ہی آیتیں نازل کیں تاکہ تمہیں لوگوں کو سنانا آسان ہو اور پہلے اس قرآن کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتارا گیا پھر جب مشرک کوئی نئی بات کرتے تھے تو اللہ پاک ان کا جواب دیتا رہا غرض کہ ٢٣ برس کی مدت میں تھوڑا تھوڑا ہو کر سارا نازل ہوا ١ ؎۔ مکث کا یہی مطلب ہے کہ مدت دراز میں قرآن نازل ہوا چالیس برس کی عمر میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت ہوئی قیام مکہ کے تیرہ برس میں سے پہلے تین برس میں بہت کم آیتیں قرآن کی نازل ہوئیں اور کچھ دنوں وحی بند بھی رہی پھر دس برس تک متواتر وحی نازل ہوتی رہی حاصل کلام یہ ہے کہ جن روایتوں میں یہ ذکر ہے کہ دس برس تک قرآن مکہ میں نازل ہوا اور دس برس تک مدینہ میں ان روایتوں میں متواتر وحی کا زمانہ لیا گیا ہے اور جن روایتوں میں ٢٣ برس تک قرآن کے نازل ہونے کا ذکر ہے ان میں قیام مکہ کے وہ تین برس بھی لیے گئے ہیں جن کا ذکر اوپر گزرا ٢ ؎۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ (رض) سے جو روایت ہے اس میں یہ بات تو صاف ہے کہ ٦٣ برس کی عمر میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات پائی اس لیے یہی بات صحیح ہے کہ چالیس برس کی عمر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہوئے اور ٢٣ برس تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل ہوا کیونکہ بیس برس تک قرآن کے نازل ہونے کی مدت لی جائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر ساٹھ برس کی قرار پاتی ہے جو حضرت عائشہ (رض) کی صحیح روایت کے بر خلاف ہے۔ سورة الجن میں آوے گا کہ قرآن شریف کے نازل ہونے کے زمانے میں آسمان و زمین پر وحی کی حفاظت کا بڑا انتظام تھا آسمان پر جگہ جگہ فرشتے تعینات تھے جو چوری سے وحی کی خبر سننے والے جنات پر چاروں طرف سے انگارے برساتے تھے اور آسمان سے زمین پر جب وحی آتی تھی تو اس کے اردگرد فرشتے اس بات کی چوکسی کرتے تھے کہ اس میں کوئی شیطان داخل ہونے نہ پائے سورة الجن کی آیتوں سے ونزلناہ تنزیلا کا یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ قرآن خود نہیں بنایا بلکہ ایک خاص انتظام کے ساتھ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے جو ہر طرح کی کمی بیشی سے بالکل دور ہے۔ ١ ؎ تفسیر الدرامنشور ص ٢٠٥ ج ٤۔ ٢ ؎ جلد اول باب وفاۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:105) بالحق انزلناہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب ۔ قرآن کے لئے ہے۔ ای ما انزلنا القران الا بالحق۔ ہم نے اس کلام یعنی قرآن کو حق کے ساتھ اتارا ہے (اور یہ حق کے ساتھ ہی اترا ہے) یعنی یہ قرآن سراسر سچائی اور حقیقت پر مبنی ہے۔ بشیرا و نذیرا۔ ک ضمیر سے حال ہیں۔ اور بدیں وجہ منصوب ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی اس میں جو بات بھی ہے سراسر حق ہے۔3 جیسے ہم نے اتارا ویسے ہی وہ اترا درمیان میں کسی نے تصرف نہیں کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کا ذکر کر کے جو قرآن کا ذکر فرمایا تو اس سے مقصود کفار قریش کو متنبہ کرنا ہے کہ آنحضرت سے الٹی سیدھی فرمائشیں کرنے کی بجائے اسی قرآن پر کیوں غور نہیں کرتے جو آنحضرت کی نبوت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی جیسا کاتب کے پاس سے چلا تھا اسی طرح مکتوب الیہ تک پہنچ گیا، اور درمیان میں کوئی چیز تغیر وتبدل و تصرف نہیں ہوا۔ پس وہ سرتاسر راستی ہی راستی ہے۔ 6۔ اس لئے اگر کوئی ایمان نہ لاوے تو کچھ غم نہ کیجئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

نزول قرآن کا مقصد ایک امت کی تشکیل و تربیت تھا۔ پھر اس امت کے لئے ایک نظام حیات کی تشکیل قرآن کے پیش نظر تھی تاکہ یہ امت قرآن اور اس نظام کو لے کر اکناف عالم میں پھیل جائے۔ اور تمام انسانیت کو اس مکمل اور خود کفیل نظام حیات کی تعلیم دے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب متفرق طور پر مختلف اوقات میں اس امت کی واقعی ضرورت کے مطابق اترتی رہی۔ اور ان حالات کے مطابق اس کا نزول ہوتا رہا۔ جن حالات میں اس امت کی دو اول میں تربیت ہو رہی تھی۔ چونکہ مقصد ایک امت کی تربیت تھا۔ اس لئے نزول قرآن بھی متفرق طور پر ایک طویل عرصے تک ہوتا رہا کیونکہ کسی جماعت کی تربیت کے لئے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ یہ تربیت عملی تجربات کی شکل میں ایک طویل عرصہ تک ہوتی رہتی ہے۔ چناچہ یہ قرآن آیا اور اس نے اپنے ایک ایک جزئی حکم کو عملی مرحلے میں نافذ کیا اور وہ ایک نظام کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ نظام محض نظریاتی قانون سازی کی شکل میں نہیں آیا۔ نہ یہ مجرد فکر اور نظریہ کی شکل میں پیش ہوا ، کیونکہ نظریاتی بحثیں محض ذہنی عیاشی اور محض پڑھنے پڑھانے کے لئے ہوتی ہیں۔ یہ تھی قرآن مجید کے متفرق نزول کی حکمت۔ اور یہی وہ تھی کہ قرآن مجید کو یکبار ایک کتاب کی شکل میں نہیں اتارا گیا۔ قرآن کریم مسلمانوں کی پہلی نسل نے خد اور سول سے اس طرح اخذ کیا کہ یہ ان کے لئے ان کی زندگی کے مختلف مراحل میں عملی ہدایات تھیں۔ جب بھی کوئی امر آیا یا نہی وارد ہوئی ، جب بھی کوئی اخلاقی ادب سکھایا گیا یا کوء فریضہ نازل ہوا تو یہ عمل کے لئے تھا۔ مسلمانوں نے قرآن مجید کو محض پڑھنے پڑھانے اور ذہنی اور نظریاتی اور نفسیاتی عیاشی کے طور پر نہیں لیا۔ جیسا کہ وہ شعر و ادب کو لیتے تھے۔ نہ وہ لہو ولعب کے طور پر اسے لیتے تھے جس طرح وہ قصے کہانیوں کو بطور لہو و لعب استعمال کرتے تھے۔ جب بھی قرآن نازل ہوا انہوں نے اس کی کیفیات کو اپنے اوپر طاری کردیا۔ اپنی روز مرہ کی زندگی میں اسے عملی شکل دے دی۔ ان کا شعور اور ان کا ضمیر اس رنگ میں رنگا گیا۔ قرآن ان کے طرز عمل اور ان کی سرگرمیوں پر چھا گیا۔ ان کے گھروں ، ان کے بازاروں میں قرآن کا دور دورہ ہوگیا اور وہ ان کے لئے ایک نظام زندگی بن گیا اور انہوں نے قرآن کے علاوہ ہر طور طریق کو ترک کردیا۔ جو طور طریقے ان کو وراثت میں جاہلیت سے ملے تھے یا جن کو وہ جانتے تھے یا جن کے مطابق وہ نزول قرآن سے قبل چل رہے تھے۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرمتے ہیں کہ ہم میں سے جو شخص دس آیات پڑھ لیتا تھا تو وہ آگے نہ بڑھتا تھا جب تک وہ ان کا مفہوم نہ جان لیتا اور ان پر عمل نہ کرلیتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن مجید حق پر قائم ہوتے ہوئے اتارا ہے۔ وبالحق انزلنہ (٧١ : ٥٠١) ” اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے “۔ یہ اس لئے نازل ہوا کہ زمین پر سچائی کو مستقلا ٹھہرا دے اور اس کی بنیادیں مضبوط کردے۔ وبالحق نزل (٧١ : ٥٠١) ” اور یہ قرآن بھی حق کے ساتھ اترا “۔ گویا اس کا مواد بھی سچائی پر مشتمل ہے اور اس کی غرض وغایت بھی سچائی ہے۔ اس کا بنیادی عصر ہی سچائی ہے اور اس کی اہم تعلمات بھی سچائی پر مبنی ہیں۔ وہ حق اور سچائی جو اس کائنات میں کارفرما ناموس قدرت کی شکل مین رواں اور جس حق و سچائی کی قوت پر یہ کائنات قائم ہے ، اور جس سچائی کے ساتھ یہ کائنات اور ارض و سما پیوستہ ہیں اسی کے ساتھ یہ قرآن بھی مربوط ہے۔ یہاں قرآن اسی نظام کائنات (حق) کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یہی سمجھتاتا ہے کہ یہ قرآن بھی اس عظیم تکوینی سچائی کا ذریعہ ہے۔ پس حق قرآن مجید کا جسم و جان ہے اور حق ہی اس کا بنیادی عنصر اور اس کا مقصود ہے اور رسول مبشر ، نذیر اور مبلغ ہے اس عظیم سچائی کا ، جسے وہ لے کر آیا ہے۔ یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اس حق کے ذریعے اپنی قوم کا مقابلہ کریں۔ اور انہیں چھوڑ دیں کہ وہ جو راہ اختیار کرنا چاہیں اختیار کریں۔ اگر چاہیں تو قرآن پر ایمان لائیں ، اگر چاہیں تو نہ لائیں۔ لیکن وہ جو راہ بھی اختیار کریں گے اس راہ کے نتائج و عواقب کے وہ ذمہ دار ہوں گے اور ان لوگوں کے سامنے بطور مثال ان اہل کتاب کو پیش کردیں ، یہودو نصاریٰ کو ان میں سے جنہوں نے قرآن مجید پر ایمان لایا ہے۔ شاید کہ وہ ان کے لئے اچھی مثال کا کام کریں۔ کیونکہ قریش تو امی ہیں۔ ان کہ پاس نہ تو تعلیم ہے۔ اور نہ ان کو اس سے قبل کوئی کتاب دی گئی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہم نے قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں سابقین اہل علم اس کو سنتے ہیں تو سجدہ میں گرپڑتے ہیں ان آیات میں کتاب اللہ کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات بیان فرمائی ہیں اور قرآن کی تلاوت سے متاثر ہونے والوں کی تعریف فرمائی ہے اور یہ فرمایا کہ ہم نے قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور وہ حق ہی کے ساتھ نازل ہوا ہے بھیجنے والے نے حق کے ساتھ بھیجا جس کے پاس آیا حق ہی کے ساتھ پہنچا درمیان میں کسی طرح کا تغیر اور تبدل نہیں ہوا، پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے فرمایا کہ ہم نے آپ کو صرف مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے اہل ایمان کو جنت کی بشارت دینا اور اہل کفر کو دوزخ کی وعید سنانا آپ کا اتنا ہی کام ہے جو نہ مانے گا وہ اپنا ہی برا کرے گا آپ کو غمگین ہونے کی ضرورت نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

89:۔ یہاں سے اہل مکہ کی طرف التفات ہے قرآن مجید کو نازل کرنیکا طریقہ یہی تھا کہ وہ ایک ایسے رسول پر نازل کیا جائے جو بشر اور عبد ہو اور اس کے تمام مضامین سراسر حق ہوں۔ ” و بالحق نزل الخ “ یعنی قرآن مجید کے تمام مضامین و مسائل حق ہیں ان میں باطل کا شائبہ تک نہیں قرآن کے نازل کرنے سے ہمارا مقصد حق کو واضح اور ثابت کرنا تھا تو جیسا ہمارا ارادہ تھا ویسا ہی وہ نازل ہوا انا ما اردنا بانزال القران الا تقریرہ للحق فلما اردنا ھذا المعنی فکذلک وقع و حصل (خازن ج 4 ص 188) اور آپ کو ہم نے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے تاکہ آپ ماننے والوں کو خوشخبری سنائیں اور نہ ماننے والوں کو ہمارے عذاب سے ڈرائیں۔ منوانا آپ کا کام نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

105 اور اے پیغمبر ہم نے اس قرآن کریم کو سچائی کے ساتھ اتار اور وہ سچائی اور راستی کے ساتھ نازل ہوا اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر خوشی سنانے والا اور ڈرانے والا یعنی جیسا بھیجا تھا ویسا ہی پہنچا جو لوگ اس کے ماننے سے اناکر کرتے ہیں ان سے متاثر نہ ہو جئے آپ کا کام صرف خوشخبری اور ڈرانا ہے ہم نے آپ کو صرف مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے کہ ایمان لانے والے کو ثواب کی بشارت دیں اور کفر کرنے والوں کو عذاب سے ڈرائیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں سچ کے ساتھ اترا یعنی بیچ میں بدلا نہیں گیا۔ 21