Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 108

سورة بنی اسراءیل

وَّ یَقُوۡلُوۡنَ سُبۡحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنۡ کَانَ وَعۡدُ رَبِّنَا لَمَفۡعُوۡلًا ﴿۱۰۸﴾

And they say, "Exalted is our Lord! Indeed, the promise of our Lord has been fulfilled."

اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے ، ہمارے رب کا وعدہ بلا شک و شبہ پورا ہو کر رہنے والا ہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا ... And they say: Glory be to our Lord!, meaning, they extol and glorify their Lord for His perfect power and for not delaying the fulfillment of the promise which He made through His earlier Prophets, that He would send Muhammad. Hence they said: ... سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولاً Glory be to our Lord! Truly, the promise of our Lord must be fulfilled.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

108۔ 1 مطلب یہ ہے کہ یہ کفار مکہ جو ہر چیز سے ناواقف ہیں اگر یہ ایمان نہیں لاتے تو آپ پروانہ کریں اس لیے کہ جو اہل علم ہیں اور وحی و رسالت کی حقیقت سے آشنا ہیں وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں بلکہ قرآن سن کر وہ بارگاہ الہی میں سجدہ ریز ہوگئے ہیں اور اس کی پاکیزگی بیان کرتے اور رب کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّيَـقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا ١٠٨؁ سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

سجدے میں کیا پڑھا جائے قول باری ہے (ویقولون سبحان ربنا ان کان وعد ربنا لمفعولاً اور پکار اٹھتے ہیں ” پاک ہے ہمارا رب، اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا۔ “) سجدے میں یہ فقرہ کہنے کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ا ن کی تعریف کی جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ سجدے کی حالت میں مسنون ذکر تسبیح ہے۔ موسیٰ بن ایوب نے اپنے چچا سے، انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر سے روایت کی ہے کہ جب آیت (فسبح باسم ربک العظیم اپنے رب عظیم کی تسبیح کر) نازل ہوئی تو حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اسے اپنے رکوع میں کہا کرو، جب آیت (سبح اسم ربک الاعلی۔ اپنے رب اعلیٰ کی تسبیح کرو) تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اسے اپنے سجدے میں کہا کرو۔ “) ابن ابی لیلیٰ نے شعبی سے ، انہوں نے صلہ بن زفر سے اور انہوں نے حضرت خذیفہ سے روایت کی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدے میں سبحان ربی الاعلیٰ تینتین مرتبہ پڑھا کرتے تھے۔ قتادہ نے مطرف بن عبد اللہ بن اشخیر سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع اور سجود میں سبوح قدوس رب الملائکۃ و الروح پڑھا کرتے تھے۔ ابن ابی ذئب نے اسحاق بن یزید سے، انہوں نے عون بن عبداللہ سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا صاذا رکع احد کم فلیقل فی رکوعہ سبحان ربی العظیم ثلاثا فاذا فعل ذلک فقد تم رکوعہ جب تم میں سے کوئی رکوع میں جائے تو رکوع کے اندر تین دفعہ سبحان ربی العظیم پڑھے جب وہ یہ پڑھ لے گا اس کا رکوع مکمل ہوجائے گا) آپ نے سجدے میں سبحان ربی الاعلیٰ تین مرتبہ پڑھنے کا ذکر کیا۔ سجدہ میں قبولیت دعا حضرت ابن عباس سے روایت ہے ، انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (اما الرکوع فعظموا فیہ الرب و اما السجود فاکثر وافیہ الدعاء فانہ اخق ان یستجاب الکم رکوع میں رب کی عظمت بیان کیا کرو اور سجدے میں زیادہ سے زیادہ دعائیں مانگو اس لئے کہ سجدے میں دعائیں قبولیت کی زیادہ لائق ہوتی ہیں) حضرت علی سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہ دعا پڑھتے تھے (اللھم لک سجدت وبک امنت اے اللہ ! میں نے تیرے ہی لئے سجدہ کیا اور تجھ پر ہی ایمان لایا) اس سلسلے میں اور بھی بہت سی روایتیں ہیں۔ ممکن ہے کہ حضرت علی اور حضرت ابن عباس نے جن دعائوں کی روایت کی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعائیں آیت (سبح اسم ربک الاعلی ) کے نزول سے قبل پڑھتے ہوں اور پھر جب یہ آیت نازل ہوئی ہو تو آپ نے سجدے میں اس ی پڑھنے کا حکم دے دیا ہو جیسا کہ حضرت عتبہ بن عامر کی روایت سے ظاہر ہے۔ ہمارے اصحاب ، سفیان ثوری اور امام شافعی کا قول یہ ہے کہ نمازی رکوع کے اندر تین دفعہ سبحان ربی العظیم اور سجدے کے اندر تین دفعہ سبحان ربی الاعلی کی تسبیح کرے گا۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ امام کے لئے مستحب ہے کہ رکوع اور سجدے میں پانچ پانچ مرتبہ یہ تسبیحات پڑھے تاکہ مقتدی آسانی سے تین تین مرتبہ یہ تسبیحات پڑھ لیں۔ ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ اگر نمازی کے لئے رکوع اور سجود میں تسبیحات پڑھنا ممکن ہول یکن وہ تسبیحات نہ پڑھے تو بھی اس کا رکوع اور سجدہ ادا ہوجائے گا۔ امام مالک تسبیحات کے لئے کوئی خاص تسبیح مقرر نہیں کرتے تھے بلکہ فرماتے تھے کہ لوگ رکوع اور سجدے کے اندر سبحان بری اعلظیم اور سبحان ربی الاعلی کی جو تسبیح کرتے ہیں اسے میں نہیں جانتا۔ اس طرح امام مالک نے ان تسبیحات کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی رکوع اور سجدے کے لئے کوئی خاص تسبیح مقرر کی ۔ رکوع اور سجدے کی کیفیت کے متعلق ان کا قول ہے کہ نمازی رکوع کے اندر اپنے دونوں ہاتھوں کو دونوں گھنٹوں پر پوری طرح جما دے گا اور سجدے میں اپنی پیشانی پوری طر زمین پر رکھ دے گا اس کے لئے بھی امام مالک نے کسی حد کی تعیین نہیں کی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٨ (وَّيَـقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا) جب قرآن کہہ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ علمائے یہود میں لازماً کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو اس طرح کے خیالات کے حامل ہوں گے۔ ہجرت سے قبل رسول اللہ کی نبوت کے بارے میں اطلاعات تو یہود مدینہ کو ملتی رہتی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی قرآن کی کچھ آیات بھی ان تک ضرور پہنچ چکی ہوں گی۔ اس پس منظر میں ہوسکتا ہے کہ ان کے بعض اہل علم نہ صرف قرآن کو پہچان کر اللہ کے حضور سجدوں میں گرے ہوں بلکہ ان کی زبانوں پر بےاختیار یہ الفاظ بھی آگئے ہوں کہ اللہ نے جو آخری نبی بھیجنے کا وعدہ کر رکھا تھا وہ تو آخر پورا ہونا ہی تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کی طرف اشارہ ہے جو بائبل کی کتاب استثناء کے اٹھارہویں باب کی آیت ١٨ اور ١٩ میں ان الفاظ میں آج بھی موجود ہے کہ اے موسیٰ میں ان کے بھائیوں (بنی اسرائیل کے بھائی یعنی بنو اسماعیل) میں تیری مانند ایک نبی اٹھاؤں گا اور اس کے منہ میں اپنا کلام ڈالوں گا اور وہ لوگوں سے وہی کچھ کہے گا جو میں اسے بتاؤں گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :121 یعنی قرآن کو سن کر وہ فورا سمجھ جاتے ہیں کہ جس نبی کے آنے کا وعدہ پچھلے انبیاء علیہم السلام کے صحیفوں میں کیا گیا تھا وہ آگیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

54: اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں تورات اور انجیل کا علم دیا گیا تھا۔ چونکہ ان کتابوں میں نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کی خبر دی گئی تھی، اس لیے ان کے مخلص لوگ قرآن کریم کو سن کر یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آخر زمانے میں جس کتاب کے نازل کرنے اور جس پیغمبر کو بھیجنے کا وعدہ فرمایا تھا وہ پورا ہوگیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:108) ان کان۔ میں ان مخففہ ہے ان سے۔ لمفعولا۔ لام تاکید کے لئے ہے۔ ضرور پورا ہو کر رہتا ہے۔ ان کان وعد ربنا لمفعولا۔ لام فارقہ ہے۔ بیشک ہمارے پروردگار کا وعدہ ضرور پورا ہو کر رہتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی قرآن کو سن کر وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہہ یہ وہی نبی آخر الزامات اور وہی آخری کتاب ہے جس کے بھتیجنے اور توڑنے کا پچھلی کتابوں میں وعدہ فرمایا تھا۔ (کذا فی شکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ سو جس کتاب کا جس نبی پر نازل کرنے کا وعدہ کتب سابقہ میں کیا تھا اس کو پورا فرمایا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

108 اور کہتے ہیں ہمارا رب پاک اور بےعیب ہے بیشک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہی ہو کر رہتا ہے۔ یعنی اگر تم اس پر ایمان نہ لائو گے تو میرا کیا نقصان ہوگا آخر اہل کتاب میں منصف سمجھدار اور اہل علم ہیں وہ اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کو سن کر منہ کے بل سجدے میں گرتے اور یوں کہتے ہیں تو نے جو کتب سابقہ میں آخری کلام اور آخری کتاب کا وعدہ کیا تھا وہ پروا ہو کر رہا اور یہ قرآن کریم نازل ہوا۔ حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ فرماتے ہیں یعنی اگلے پہچاننے والے اس کو پہچانتے ہیں اور وہ وعدہ جو تھا کہ آخر زمانے میں ایک کلام اترنے کا ٹھیک پاتے ہیں۔ 21