Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 2

سورة بنی اسراءیل

وَ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَـنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾

And We gave Moses the Scripture and made it a guidance for the Children of Israel that you not take other than Me as Disposer of affairs,

ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرئیل کے لئے ہدایت بنا دیا کہ تم میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Musa and how He was given the Tawrah When Allah mentions how He took His servant Muhammad, on the Journey by Night, He follows it by mentioning Musa, His servant and Messenger who also spoke with Him. Allah often mentions Muhammad and Musa together, may the peace and blessings of Allah be upon them both, and he mentions the Tawrah and the Qur'an together. So after mentioning the...  Isra', He says: وَاتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ ... And We gave Musa the Scripture, meaning the Tawrah. ... وَجَعَلْنَاهُ ... and made it, meaning the Scripture, ... هُدًى ... a guidance, meaning a guide, ... لِّبَنِي إِسْرَايِيلَ أَلاَّ تَتَّخِذُواْ ... for the Children of Israel (saying): "Take none..." means, lest they should take, ... مِن دُونِي وَكِيلً "... other than Me as (your) Wakil." means, `you have no protector, supporter or god besides Me,' because Allah revealed to every Prophet that he should worship Him alone with no partner or associate. Then Allah says:   Show more

طوفان نوح کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے واقعہ کے بیان کے بعد اپنے پیغمبر کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر بیان فرماتا ہے قرآن کریم میں عموما یہ دونوں بیان ایک ساتھ آئے ہیں اسی طرح تورات اور قرآن کا بیان بھی ملا جلا ہوتا ہے حضرت موسیٰ کی کتاب کا نام تورات ہے ۔ وہ کتاب بنی اس... رائیل کیلئے ہادی تھی انہیں حکم ہوا تھا کہ اللہ کے سوا کسی اور کو ولی اور مددگار اور معبود نہ سمجھیں ہر ایک نبی اللہ کی توحید لے کر آتا رہا ہے ۔ پھر انہیں کہا جاتا ہے کہ اے ان بزرگوں کی اولادو جنہیں ہم نے اپنے اس احسان سے نوازا تھا کہ طوفان نوح کی عالمگیر ہلاکت سے انہیں بچا لیا اور اپنے پیارے نبی حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی پر چڑھا لیا تھا ۔ تمہیں اپنے بڑوں کی طرح ہماری شکر گزاری کرنی چاہئے دیکھو میں نے تمہاری طرف اپنے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے ۔ مروی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام چونکہ کھاتے پیتے غرض ہر وقت اللہ کی حمد و ثنا بیان فرماتے تھے اس لئے آپ کو شکر گزار بندہ کہا گیا ۔ مسند احمد وغیرہ میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جو نوالہ کھائے تو اللہ کا شکر بجا لائے اور پانی کا گھونٹ پئے تو اللہ کا شکر ادا کرے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ آپ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے ۔ شفاعت والی لمبی حدیث جو بخاری وغیرہ میں ہے اس میں ہے کہ جب لوگ طلب شفاعت کے لئے حضرت نوح نبی علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو ان سے کہیں گے کہ زمین والوں کی طرف آپ ہی پہلے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام شکر گزار بندہ رکھا ہے ۔ آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے الخ ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] جن دنوں اسراء کا واقعہ پیش آیا اس وقت بیت المقدس بنی اسرائیل کی تولیت میں تھا۔ اسلام کا عرب کی بستی بستی تک چرچا ہوچکا تھا۔ مدینہ کے اوس و خزرج کے بعض افراد اسلام لا چکے تھے۔ یہود اسلام کی دعوت پر پوری طرح آگاہ تھے۔ بیت المقدس میں آپ کو لے جانے اور آپ کی امامت سے صاف اشارہ ملتا تھا کہ عنقریب بی... ت المقدس پر امت مسلمہ کا قبضہ ہوجانے والا ہے اور اس سورة بنی اسرائیل کا آغاز جو واقعہ اسراء سے ہوا ہے تو محض تمہید کے طور ہوا ہے ورنہ اصل روئے سخن یہود ہی کی طرف ہے اور انھیں ان کی سابقہ تاریخ سے خبردار کرنے کے بعد متنبہ کیا جارہا ہے کہ ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ پیغمبر اسلام پر ایمان لے آئیں اور سرکشی کی روش چھوڑ دیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ : یعنی جس طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسراء کا شرف عطا فرمایا، اسی طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ” الْكِتٰبَ “ (تورات) سے نوازا۔ قرآن مجید میں عموماً نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کا ذکر ہوتا ہے، ت... اکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت میں پیش آنے والی مشکلات کی مثال پیش نظر رہے اور آپ کی امت کو رسول کی اطاعت اور اس کی نافرمانی کے نتائج پیش نظر رہیں۔ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ : اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا، یعنی تورات کو یا موسیٰ (علیہ السلام) کو۔ یہ آیت سورة سجدہ کی آیت (٢٣) کے مشابہ ہے۔ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ ‎وَكِيْلًا : ” اَلَّا تَتَّخِذُوْا “ اصل میں ” أَنْ لَا تَتَّخِذُوْا “ ہے۔ یہاں ” أَنْ “ کو مصدریہ مان کر اس سے پہلے لام محذوف مانیں گے، یعنی ” لِءَلَّا تَتَّخِذُوْا “ (تاکہ تم۔۔ ) یا ” أَنْ “ بمعنی ” أَیْ “ (تفسیر یہ) ہے، یعنی ہم نے موسیٰ کو کتاب دی جس کا خلاصہ اور مطلب یہ ہے کہ۔۔ ” وَكِيْلًا “ ” وَکَلَ یَکِلُ “ (سپرد کرنا) سے ” فَعِیْلٌ“ بمعنی مفعول ہے، جس کے سپرد اپنا کام کیا جائے، یعنی میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ سمجھو، نہ اپنے کام کسی اور کے سپرد کرو۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو کتاب (یعنی توریت) دی اور ہم نے اس کو بنی اسرائیل کے لئے (آلہ) ہدایت بنایا (جس میں اور احکام کے ساتھ یہ توحید کا عظیم الشان حکم بھی تھا) کہ تم میرے سوا (اپنا) کوئی کارساز مت قرار دو اے ان لوگوں کی نسل جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ (کشتی میں) سو... ار کیا تھا (ہم تم سے خطاب کر رہے ہیں تاکہ اس نعمت کو یاد کرو کہ اگر ہم ان کو کشتی پر سوار کر کے نہ بچاتے تو آج تم ان کی نسل کہاں ہوتے اور نعمت کو یاد کر کے اس کا شکر کرو جس کی بڑی فرد توحید ہے اور) وہ نوح (علیہ السلام) بڑے شکر گذار بندہ تھے (پس جب انبیاء (علیہم السلام) شکر کرتے رہے تو تم کیسے اس کے تارک ہو سکتے ہو۔ )   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ ‎وَكِيْلًا ۝ۭ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة في... ها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ أخذ والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ وكيل التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك، ( و ک ل) التوکیل کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢) اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک دم توریت دی تھی اور ہم نے اسکو بنی اسرائیل کے لیے گمراہی سے ذریعہ ہدایت بنایا جس میں یہ بھی حکم تھا کہ میرے علاوہ اور کسی کی عبادت نہ کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ (وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ) یہاں تخصیص کردی گئی کہ تورات تمام بنی نوع انسان کے لیے ہدایت نہیں تھی ‘ بلکہ درحقیقت وہ صرف بنی اسرائیل کے لیے ایک ہدایت نامہ تھی۔ (اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ ‎وَكِيْلًا) یعنی تورات توحید کا درس دیتی تھی۔ اس...  کی تعلیمات کا لب لباب یہ تھا کہ اللہ کے سوا کسی بھی دوسری ہستی یا ذات کو اپنا کارساز مت سمجھو اسے چھوڑ کر کسی دوسرے پر بھروسہ یا توکل نہ کرو۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2. As this verse has no apparent connection with the event of Miraj, it may appear to a cursory reader that either of the two verses has been misplaced here. But if we try to understand the matter in the context of the theme of the whole Surah, we can easily understand the connection between the two. The main object of this Surah is to give a warning to the disbelievers of Makkah. That is why the ... mention of Miraj has been made in the very first verse, as if to say: The person whom you dub as an impostor and reject the Book sent down to him, has just now seen with his naked eyes great signs of Allah. So you should learn a lesson from the history of the Israelites who discarded the Book of Allah and therefore, were given painful punishment. 3. The Arabic word vakil (guardian) denotes a person who is trustworthy and can be depended upon in regard to his affairs and may be turned to for guidance and help.  Show more

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :2 معراج کا ذکر صرف ایک فقرے میں کر کے یکایک بنی اسرائیل کا یہ ذکر جو شروع کر دیا گیا ہے ، سر سری نگاہ میں یہ آدمی کو کچھ بے جوڑ سا محسوس ہوتا ہے ۔ مگر سورت کے مدعا کو اگر اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس کی مناسبت صاف سمجھ میں آجاتی ہے ۔ سورت کا اصل مدعا کفار م... کہ کو متنبہ کرنا ہے ۔ آغاز میں معراج کا ذکر صرف اس غرض کے لیے کیا گیا ہے کہ مخاطبین کو آگاہ کر دیا جائے کہ یہ باتیں تم سے وہ شخص کر رہا ہے جو ابھی ابھی اللہ تعالی کی عظیم الشان نشانیاں دیکھ کر آرہا ہے ۔ اس کے بعد اب بنی اسرائیل کی تاریخ سے عبرت دلائی جاتی ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے کتاب پانے والے جب اللہ کے مقابلے میں سر اٹھا تے ہیں تو دیکھو کہ پھر ان کو کیسی درد ناک سزا دی جاتی ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :3 وکیل ، یعنی اعتماد اور بھروسے کا مدار ، جس پر توکل کیا جائے ، جس کے سپرد اپنے معاملات کر دیے جائیں ، جس کی طرف ہدایت اور استمداد کے لیے رجوع کیا جائے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢۔ ٣:۔ اللہ پاک نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معراج کا ذکر فرما کر اپنے خاص بندے حضرت موسیٰ کلیم اللہ کا ذکر کیا اور اکثر جگہ اللہ پاک نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اپنے کلام قرآن مجید کے ذکر کے ساتھ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور اپنی کتاب پاک توریت کا ذکر کیا ہے اس لیے یہاں فرمای... ا پاک ذات ہے وہ جس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر جو کتاب توریت نازل کی تھی اسے بنی اسرائیل کے لیے راہبر ٹھہرایا تھا کہ وہ لوگ اس کے احکام کی پیروی کرکے ہدایت پائیں اور گمراہی سے نکل کر راہ حق کے پورے پورے تابع ہوجاویں اور سوائے خداوند جل شانہ کے کسی اور کو اپنے کسی معاملہ میں وکیل نہ بنائیں مدد بھی چاہیں تو اسی وحدہ لاشکریک سے اور عبادت کریں تو اسی ذات خاص کی اور اللہ پاک نے اور جتنے رسول بھیجے سب کو یہی تعلیم تھی کہ لوگوں کو وہ اسی راستے پر لائیں اور یہی پیغام لوگوں کو پہنچائیں کہ خدا کو اکیلا معبود تصور کرو اور قول اور فعل میں اس ذات وحدہ ‘ لاشریک کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ۔ پھر اللہ پاک نے آیت میں یہ ذکر فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ کس کی اولاد تم ہو تم سب حضرت نوح ( علیہ السلام) کی اولاد ہو۔ جب حضرت نوح ( علیہ السلام) طوفان کے وقت کشتی میں سوار ہوئے تھے اور چالیس نفر کے ہمراہ جودی پہاڑ کے نیچے اترے تھوڑے عرصہ میں سب کے سب فوت ہوگئے صرف آپ کے صاحبزادے حام سام یافث دنیا میں صحیح و سلامت رہے جن کی نسل سے یہ دنیا آباد ہوئی فرمایا کہ تمہارے باپ حضرت نوح ( علیہ السلام) خدا کے نہایت ہی شکر گذار بندے تھے اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے کھاتے پیتے ہر ایک کام اور ہر ایک وقت میں خدا کا شکر بجا لایا کرتے تھے اس واسطے تم پر بھی لازم ہے کہ تم ان کی پیروی کرو اور ان کا طریقہ اختیار کرو جس طرح وہ ہر گھڑی خدا کا شکر کیا کرتے تھے اور کوئی گھڑی خدا کے حمد اور شکر سے غافل نہیں رہتے تھے تم بھی خدا کے شکر سے غافل نہ رہو اور ہر وقت خدا کی نعمت یاد کرتے رہو یہ کتنا بڑا خدا کا انعام تم پر ہوا ہے کہ اس نے تمہاری ہدایت کے لیے رسول برحق حضرت محمد صلعم کو بھیجا اس نعمت کی شکر گذاری یہی ہے کہ تم ان رسول کی فرما نبرداری کر کے عقبے کی بہبودی حاصل کرو۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے جس میں اہل محشر کا سب انبیاء کے پاس شفاعت کے لیے قیامت کے دن جانے کا ذکر ہے۔ اس حدیث میں ہے کہ اہل محشر نوح (علیہ السلام) سے یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام شکر گذار بندہ رکھا ہے اس لیے آپ ہماری شفاعت کیجئے۔ ١ ؎ شکر گذار بندہ کے نام سے جو شہرت نوح (علیہ السلام) کی ہے اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٤٧٠ ج ا باب قول اللہ عزوجل ولقد ارسلنا نوحا الخ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

17:2 جعلنہ۔ جعلنا۔ ماضی جمع متکلم ۔ ہم نے اس کو کیا۔ ہُ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع الکتاب ہے یعنی تورات جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی۔ الا تتخذوا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ نون اعرابی حذف ہوگیا ہے تم مت پکڑو۔ تم مت اختیار کرو۔ تم مت بتائو۔ الا۔ ان لا ہے ان کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ کہ آیا ... یہ تفسیر یہ ہے، ناہیہ ہے، مصدریہ ہے۔ یا ان اور اس کا مابعد الکتاب کا بدل ہے۔ یہاں اتنا ہی کافی ہے کہ الا تتخذوا۔ ای قلنا لہم لا تتخذوا۔ تقدیر کلام ہے۔ من دونی۔ میرے سوا۔ مجھے چھوڑ کر۔ دون ۔ ورے۔ سوائے۔ غیر۔ ی ضمیر اضافت واحد متکلم۔ وکیلا۔ صفت مشبہ ۔ نکرہ۔ منصوب وکل سے بمعنی کارساز ۔ ذمہ دار۔ مددگار وکیل۔ اس کارساز کو کہتے ہیں جس کو اپنے تمام امور سپرد کر دئیے ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 آسان کے عجائبات جیسے جنت دوزخ بیت المعمور وغیرہ جن کا حادیث میں ذکر آیا ہے۔ 6 یعنی جس طرح آنحضرت کو معراج کا شرف بخشا اسی طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو الکتاب (توراۃ) سے نوازا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 2 تا 3 جعلنا ہم نے بنایا۔ الاتتخذوا یہ کہ تم نہ بناؤ گے۔ دونی میرے سوا۔ وکیل کام بنانے اولا۔ (حاجت روا) ذریۃ اولاد۔ بچے حملنا ہم نے سوار کیا۔ ہم نے اٹھایا۔ شکور بہت شکر ادا کرنے والا۔ تشریح : آیت نمبر 2 تا 3 سورۃ الاسراء کی پہلی آیت میں ” اسری “ یعنی معراج النبی (صلی اللہ علیہ ... وآلہ وسلم) کو بیان کر کے دوسری اور تیسری آیت میں حضرت موسیٰ اور ان پر اتاری گئی اس کتاب الٰہی (توریت) کا ذکر کیا گیا ہے جو بنی اسرائیل کی ہدایت و ہنمائی کے لئے نازل کی گئی تھی۔ فرمایا کہ جس کتاب کا پہلا سبق یہی تھا کہ اس کائنات میں اللہ کے سوا کوئی ایسی ذات نہیں ہے جو قبال اعتماد اور لائق بھروسہ ہو۔ وہی سب کا پالنے والا اور ہر مشکل میں نجات دینے والا ہے۔ حضرت نوح جو اللہ کے شکر گذار بندے تھے انہوں نے شدید ترین حالات میں اللہ ہی پر بھروسہ کیا اور اس کے حکم اور ہدایت پر ایک ایسا جہاز (کشتی) تیار کیا جس کو دیکھ کر کفار مذاق اڑاتے تھے اور کہتے تھے کہ کیا خشکی پر بھی کشتیاں چلائی جائیں گی ؟ لیکن جب پانی کا شدید ترین طوفان آیا اور ان کی بنائی ہوئی کشتی جس میں اہل ایمان اور اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے والے سوار تھے اس نے پانی پر ڈولنا اور چلنا شروع کیا تو اس وقت دنیاوی اسباب پر بھروسہ کرنے والے پہاڑوں کی بلندیوں کی طرف دوڑ پڑے تاکہ پہاڑ کی بلندیاں انہیں اس طوفان سے نجات دیدیں۔ یہاں تک کہ حضرت نوح کا بیٹا بھی پہاڑوں کی طرف دوڑا حضرت نوح نے آوازیں دے کر کہا کہ بیٹا ایمان قب ول کر کے میری کشتی میں سوار ہوجاؤ آج اللہ کے سوا کوئی چیز اور کوئی پہاڑ کی بلندی کسی کو بچا نہ سکے گی۔ حضرت نوح کے بیٹے نے کہا ابا جانچ میں کسی اونچے پہاڑ پر یا کسی اور سہارے سے اپنی جان بچا لوں گا لیکن طوفان کی شدت نے اس کو اور دوسرے کافروں کو اس کی مہلت نہیں دی اور وہ پوری قوم ڈوب گئی اللہ نے اپنی رحمت سے حضرت نوح اور ان کی تعلیمات پر ایمان لانے اور اللہ پر بھروسہ کرنے والوں کو بچا لیا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو ایک مرتبہ پھر خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کی ہے اور بتا دیا کہ جس طرح حضرت نوح اور اہل ایمان کو اللہ نے نجات عطا فرمائی اسی طرح وہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والوں اور اللہ پر بھروسہ و اعتماد کرنے والوں کو نجات عطا فرمائے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ان کے ہاتھوں کے گھڑے ہوئی بت یا مال و دولت کے سہارے عذاب الٰہی سے انہیں بچا سکتے ہیں تو یہ اس کی غلطی ہے۔ نجات کا راستہ دامن مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وابستگی ہی میں ہے۔ دوسری طرف اہل ایمان سے فرمایا جا رہا ہے کہ وہ کفار مکہ کے اٹھائے ہوئے مخالفت اور دشمنی کے طوفانوں سے نہ گھبرائیں کیونکہ جنہوں نے اللہ و رسول پر ایمان لا کر اپنی نجات کا سامان کرلیا ہے وہی کامیاب و بامراد ہوں گے۔ اس مقام پر مفسرین نے اس بات پر کافی بحث کی ہے کہ ” اسراء و معراج “ کا ذکر کرنے کے بعد حضرت موسیٰ ، توریت اور قوم بنی اسرائیل کا ذکر کیا گیا ہے جس کی مناسبت سمجھ میں نہیں آتی۔ لیکن غور کرنے پر ایک مناسب اور یکسانیت سمجھ میں آتی ہے۔ اس کے بہت سے دلائل پیش کئے گئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج اور قرب اس وقت عطا کیا گیا جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثاروں پر کفار مکہ کے ظلم و ستم کی انتہا ہوچکی تھی اور صحابہ کرام مکہ مکرمہ چھوڑ کر حبشہ اور دوسرے مقامات کی طرف ہجرت کر رہے تھے اور وہ وقت بہت قریب آچکا تھا جب نبی کریم بھی مکہ سے ہجرت کرنے والے تھے ایسے نازک موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے بیت المقدس اور پھر ان بلندیوں تک بلایا جہاں اللہ کے مقرب ترین فرشتے بھی نہیں جاسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا قرب عطا فرمایا اور ساری دنیا کو بتا دیا گیا کہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ نے اس قدر بلندیاں اور اپنے آپ سے قرب عطا فرما دیا ہے جس کے بعد مزید بلندیوں، قربتوں اور عظمتوں کا تصور ناممکن ہے لہٰذا اب انسانیت کی فلاح و کامیابی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکمل اطاعت و فرماں برداری میں ہے۔ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستے سے ہٹ کر کوئی دوسرا راستہ تلاش کرے گا وہ اپنی منزل سے بھٹک جائے گا۔ اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ اب نبوت و رسالت مکمل ہوچکی ہے اور اب کسی طرح کے کسی نبی اور رسول کی نہ گنجائش ہے نہ ضرورت ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اگر کوئی نبوت کا دعیوٰ کرتا ہے تو وہ کائنات کا جھوٹا اور بدترین شخص ہے۔ سفر معراج میں دوسری بات جو سامنے آتی ہے وہ اسلام کے ان بنیادی اصولوں کی ہے جو آپ کو عطا فرمائے گئے ان تمام اصولوں میں جو سب سے بڑا تحفہ ہے ” وہ نماز ہے “ بخاری و مسلم کی روایات کے مطابق جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت پر بطور تحفہ پچاس نمازیں فرض کی گئیں تو آپ نے اس کو امت کے لئے نعمت سمجھ کر قبول فر ما لیا لیکن واپسی کے سفر میں جب حضرت موسیٰ سے ملاقات ہوئی اور ان کو معلوم ہوا کہ امت محمدی پر پچاس نمازیں فرض کی گئی ہیں تو انہوں نے عرض کیا کہ میری امت پر دو وقت کی نمازیں فرض کی گئی تھیں وہ اس فرض کو ادا نہ کرسکے تو اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی امت پچاس نمازیں کیسے ادا کرسکے گی ؟ انہوں نے کہا آپ اللہ تعالیٰسے پچاس نمازوں میں تخفیف کی درخواست کیجیے۔ حضور اکرم نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا تو اللہ نے پانچ یادس (دونوں روایتیں موجود ہیں) نمازیں کم کردیں، حضرت موسیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اور کمی کی درخواست کیجیے چناچہ آپ ہر بار حضرت موسیٰ کے مشورے پر اللہ کی بارگاہ میں تخفیف کی درخواست پیش کرتے رہے یہاں تک کہ نمازوں کی تعداد پانچ تک رہ گئی۔ اس کے بعد آپ نے مزید درخواست نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کی امت میں جو شخص بھی پانچ وقت کی نمازیں ادا کرے گا میں اس کو پچاس وقت کی نمازوں ہی کا ثواب عطا کروں گا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یوں تو حضرت موسیٰ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں بہت زیادہ یکسانیت ہے لیکن معراج کے موقع پر حضرت موسیٰ کا مشورہ دینا اور پھر اس کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول کر کے نمازوں کی تخفیف کی درخواست پیش کی یہ بھی اس مضمون کی مناسبت ہے کہ اللہ نے معراج کا ذکر کرنے کے بعد فوراً ہی حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کا ذکر فرمایا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ معراج کے ذکر کے بعد قوم بنی اسرائیل کا ذکر فرمانا، کفار و مشرکین کو یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل پر بےانتہا کرم فرمائے مگر انہوں نے مسلسل نافرمانیاں کر کے اپنے آپ کو اس مقام پر ہپنچا دیا ہے جہاں وہ اپنی نا اہلی کی وجہ سے دنیا کی امامت، قیامت اور رہنمائی کے قابل نہیں رہے ہیں اب دنیا کی امامت و قیادت کا تاج نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت محمدیہ کے سر پر رکھ دیا گیا ہے۔ اب ساری دنیا کی رہبری اور رہنمائی قیامت تک صرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کی ذمہ داری ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : معراج کا واقعہ درحقیقت یہو دونصارٰی کے لیے یہ پیغام تھا کہ تمہارا دور گزر چکا۔ اب امت مسلمہ کا دور شروع ہونے والا ہے۔ اس لیے واقعہ معراج کی طرف مختصر اشارہ کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو بتلایا اور سمجھایا گیا ہے کہ ہم نے موسیٰ کو ایسی کتاب دی تھی جو تمہارے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ت... ھی۔ توراۃ کا مرکزی پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو کا رساز اور اپنے معاملات کا ذمہ دار نہ بنانا۔ اس کے ساتھ ہی بنی اسرائیل کو بتلایا ہے کہ تم نوح (علیہ السلام) کے ساتھیوں کی اولاد ہو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اپنے رب کے شکر گزار بندے تھے حضرت نوح (علیہ السلام) کی تعلیم کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ صرف ایک اللہ کے ہوجاؤ، اسی کے سامنے سر جھکاؤ، اسی سے رزق طلب کرو اور اسی پر بھروسہ کرو۔ جو قوم خداداد صلاحیتوں اور اپنے رب پر بھروسہ نہیں کرتی وہ ذلیل ہو کر رہ جاتی ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ پر غور کرو۔ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح بچاکر دنیا میں پھیلایا ؟ ان کے مخالفوں کو کس طرح ڈبکیاں دے دے کر مارا گیا ؟ اگر تم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرو گے۔ تو تمہارا دشمن ناکام اور تم دنیا وآخرت میں کا میاب ہو گے۔ لیکن بنی اسرائیل نے اپنے رب سے کیے گئے وعدوں کی پے در پے خلاف ورزی کی۔ جس کے نتیجے میں وہ ذلیل ہوئے۔ جس کی تفصیل اگلی آیات میں بیان کی گئی ہے۔ جن میں میں بنی اسرائیل کا انجام بیان ہوا ؟ مسلمانوں کے لیے ایک سبق ہے کہ تمہاری کسمپرسی کا دور ختم ہونے والا ہے۔ اب تم اقتدار اور اختیا رکے مالک بننے والے ہو۔ دیکھنا بنی اسرائیل کا گھناؤنا کردار اختیار کرنے کی بجائے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی طرح شکر گزار بننے کی کوشش کرنا۔ جس کا لازماً نتیجہ ہوگا کہ تم کا میاب اور تمہارا دشمن دنیا وآخرت میں ذلیل خوار ہوگا۔ بنی اسرائیل سے لیے گئے عہد کا خلاصہ : (وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ خُذُوْا مَا اٰتَیْنَاکُمْ بِقُوَّۃٍ وَاذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَلَوْلَا فَضْلُ اللَّہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ لَکُنْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ) [ البقرۃ : ٦٣۔ ٦٤] ” اور جب ہم نے تم سے عہد لیا اور کوہ طور کو تم پر بلند کیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے۔ اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور اسے یادرکھو تا کہتممتقی بن جاؤ۔ لیکن تم اس کے بعد پھرگئے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو تم خسارہ پانے والے ہوتے۔ “ (وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ إِلَّا اللّٰہَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَقُوْلُوْا للنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ وَاٰتُوْا الزَّکٰوۃَ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ إِلَّا قَلِیْلًا مِنْکُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُوْنَ )[ البقرۃ : ٨٣] ” اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، والدین، قریبی رشتے داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہنا اور لوگوں سے اچھی باتیں کرنا، نماز قائم کرنا، زکٰوۃ ادا کرنا لیکن چند لوگوں کے سوا سب پھرگئے۔ اس حال میں کہ تم اعراض کرنے والے تھے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو کتاب عنایت فرمائی۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اللہ کے شکر گزار بندے تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا۔ تفسیر بالقرآن مختلف ادوار میں بنی اسرائیل کا انجام : ١۔ بنی اسرائیل چالیس سال صحرا میں سرگرداں رہے۔ (المائدۃ : ٢٦) ٢۔ بنی اسرائیل پر داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے پھٹکار کی۔ (المائدۃ : ٧٨) ٣۔ بنی اسرائیل پر اللہ نے لعنت کی۔ (النساء : ٤٦) ٤۔ بنی اسرائیل دنیا میں ذلیل و خوار ہوئے۔ (بنی اسرائیل : ٥) ٥۔ بنی اسرائیل ذلیل بندر بنا دیئے گئے۔ (البقرۃ : ٦٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تشریح : بنی اسرائیل کی سیرت اور تاریخ کا یہ حصہ قرآن کریم کی صرف اسی سورت میں بیان ہوا ہے اس میں بنی اسرائیل کے اس انجام کا ذکر ہے جس پر وہ پہنچے اور جس کے نتیجے میں ان کی عزت و شوکت ، زوال و نکبت سے بدل گئی۔ اس تاریخی تبصرہ کے ذریعے انسانوں کو یہ سمجھایا گیا کہ اقوام کے عروج وزوال میں اصلاح و فساد ... کا کتنا گہرا دخل ہوا کرتا ہے۔ بعد کی آیات میں ، اسی سورت میں قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ سنت الہیہ ہے اللہ جس قوم کو ہلاک کرنا چاہتے ہے وہ اس قوم کے مترفین کے اندر فساد پیدا کرتا ہے ، وہ بگاڑ میں ڈوب جاتے ہیں اور ہلاک کردئیے جاتے اور اس طرح نیست و نابود ہوجاتے ہیں۔ یہاں ان کو بتایا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کو تورات دی گئی۔ اس میں ان کے لئے ہدایات تھیں ، پھر ان کے جد امجد حضرت نوح (علیہ السلام) جو عبد ، شکور اور صالح تھے اور وہ آباء و اجداد جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔ یہ سب لوگ صالح اور مومن تھے کیونکہ انہوں نے اپنے ساتھ کشتی میں صالحین مومنین کو بٹھایا تھا۔ واتینا موسیٰ الکتب وجعلنہ ھدی لبنی اسرائیل الا تنخذوا من دونی وکیلا (٢) ذریۃ من حملنا مع نوح انہ کان عبد الشکورا (٣) (٧١ : ٢۔ ٣) ” ہم نے اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی اور اسے بنی اسرائیل کے لئے ذریعہ ہدایت بنایا تھا۔ اس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا۔ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا اور نوح (علیہ السلام) ایک شکر گزار بندہ تھا “۔ بنی اسرائیل کو کتاب کے ذریعہ یاد دہانی اور ڈراوا اس لئے دیا گیا کہ اللہ کا یہ اصول ہے کہ وہ کسی قوم کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا یا عذاب نہیں دیتا جب تک ان پر رسولوں کے ذریعہ حجت تمام نہ ہوجائے۔ جس کا تذکرہ بھی بصر احت جلد ہی آئے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ بنی اسرائیل کو کتاب دینے کا پہلا مقصد یہ بتایا گیا۔ ھدی لبنی اسرائیل الا تتخذوا من دونی وکیلا (٧١ : ٢) ” اسے بنی اسرائیل کے لئے ذریعہ ہدایت بنایا اور یہ تاکید کہ میرے سوا کسی کو وکیل نہ بنانا “۔ یعنی صرف اللہ پر بھروسہ کرو ، صرف اللہ ہی کی طرف متوجہ ہوجائو ، یہی ہدایت ہے اور یہی اصل ایمان ہے۔ کیونکہ جو شخص اللہ کے سوا کسی اور کو وکیل بناتا ہے وہ نہ ہدایت پر ہے اور نہ مومن ہے۔ ان کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار تھا اور اس جہاں کے عہد اول میں یہی لوگ خلاصہ انسانیت تھے۔ کیونکہ وہ حضرت نوح کے یعنی ایک عہد شکور کے ساتھی اور رفقاء تھے اور صالح لوگ تھے ، اس طرح اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایک مومن کا حقیقی شجرہ ٔ نسب اس کا ایمانی شجرہ نسب ہوتا ہے۔ یہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کی صفت عبودیت کا ذکر ہوا ہے کیونکہ یہی انسانیت کی اصل غایب ہے ، لیکن اس کے علاوہ یہ حکمت بھی ہے کہ یہاں چونکہ حضر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت عبدہ کا ذکر ہوگیا تھا اس لئے رسولوں میں سے ایک دوسرے ممتاز رسول ، حضرت نوع (علیہ السلام) کی صفت عبودیت کا بھی تذکرہ کردیا گیا اور یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز بیان ہے کہ وہ ہر صورت میں ایک مخصوص انداز بیان اپناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جو کتاب دی تھی اس میں بنی اسرائیل کو صاف صاف بتایا تھا کہ تمہارے فساد کی وجہ سے تمہیں ہلاک کردیا جائے گا۔ تم دو مرتبہ فساد اور بگاڑ میں مبتلا ہوگئے اور دو مرتبہ تمہیں بلاک کیا جائے گا۔ کیونکہ ہلاکت و بربادی کے اسباب تم دو مرتبہ فراہم کرو گے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت اٹل ہوتی ہے۔ جو قوم بھی فساد و بگاڑ میں مبتلا ہو وہ ہلاک کردی جاتی ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بنی اسرائیل کا زمین میں دو بار فساد کرنا اور ان کو دشمنوں کا تباہ کرنا ان آیات میں بنی اسرائیل کے اقتدار اور تسلط کا اور ان کی سرکوبی کے لیے ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط فرمانے کا ذکر ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے یہ واقعات گزر چکے تھے قرآن مجید کا ان تفصیلات کو بتانا یہ بھی ای... ک عظیم معجزہ ہے، جو لوگ یہ کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پاس سے قرآن بنالیتے ہیں اور یہ کہہ دیتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے وحی آئی ہے ان تمام واقعات میں ان لوگوں کی تردید ہے، یہ سابقہ خبریں آپ کو کسی انسان نے نہیں بتائیں اور آپ امی بھی تھے لہٰذا پرانی کتابوں سے اخذ کرنے کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا، اس سے روز روشن کی طرح ظاہر ہوجاتا ہے کہ یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی کے ذریعے بتائیں، اور یہ سب کچھ یہود کے لیے تو خاص طور سے عبرت اور نصیحت ہے وہ جانتے تھے کہ یہ ہمارے آباؤ اجداد کی تاریخ ہے اور انہیں یہ واقعات معلوم تھے جو وقتاً فوقتاً ان کے بڑوں کے ساتھ پیش آئے، ایک امی شخص کے بتانے کے بعد (جس کے پاس وحی کے سوا معلوم ہونے کا کوئی راستہ نہ تھا) بھی ایمان نہ لائے۔ (فَلَمَّا جَآءَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ) اول تو یہ فرمایا کہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی یعنی توریت شریف عطا کی، اور اس کتاب کو ہم نے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنایا، اس میں توحید کا بھی حکم تھا اور تفصیلی احکام بھی تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا تھا کہ تم میرے سوا کسی کو اپنا کار ساز قرار مت دینا، لیکن بنی اسرائیل توریت شریف کی مخالفت کرتے رہے جس کی جہ سے دنیا میں سزا بھگتتے رہے، کبھی انہیں اقتدار مل جاتا تھا اور اونچے پیمانہ پر زور دار طریقہ سے زمین میں حکمرانی کرتے اور کبھی دشمن ان پر چڑھائی کردیتے اور ان کا ناس کھو دیتے تھے جس سے انہیں ذلت اور شکست کا منہ دیکھنا پڑتا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ توحید پر پہلی نقلی دلیل۔ اس میں دعوی توحید پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب تورات سے نقلی دلیل پیش کی گئی ہے۔ فرمایا ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی اور اس کتاب کو بنی اسرائیل کے لیے دستور ہدایت مقرر کیا اس میں ہم نے ان کو حکم دیا کہ اللہ کے سوا کسی اور کو کارساز مت بناؤ اور اللہ کے سوا ... کسی کو حاجات میں غائبانہ مت پکارو۔ ” وکیلا “ کارساز، تمام کاموں میں جس پر بھروسہ کیا جائے اور اپنے معاملات جس کے سپرد کیے جائیں ای و یاتکلون امورکم الیہ (کبیر ج 5 ص 547) ای و یاتکلون الیہ امورکم (مدارک ج 2 ص 237) ربا یتوکلون علیہ فی امورھم (قرطبی ج 10 ص 213) ۔ وقال الشیخ روح اللہ روحہ ای لاتبدوا الا اللہ ولا تدعوا غیرہ فی الحوائج غائبا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تورات کی تعلیم کا خلاصہ یہی تھا کہ اللہ کے سوا کسی کو کارساز مت بناؤ تو اس سے دعوی سورت کی سچائی واضح اور ثابت ہوگئی۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

2 اس آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اثبات ہے ۔ آگے اس کی مزید تائید فرمائی اور ہم نے حضرت موسیٰ کو کتاب یعنی توریت عطا فرمائی تھی اور ہم نے اس توریت کو بنی اسرائیل کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنایا اور بنی اسرائیل سے کہہ دیا کہ تم میرے سوا کسی کو اپنا وکیل اور کار ساز نہ بنایا۔ یعنی...  ہم نے موسیٰ کو اسی طرح توریت عطا کی جس طرح نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن مجید عطا کیا جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے رسول تھے اسی طرح یہ پیغمبر بھی ہمارے رسول ہیں اور شرک کا رد ہر پیغمبر نے کیا ہے۔ چنانچہ ہم نے بنی اسرائیل کو بھی یہ حکم دیا تھا کہ میرے سوا کسی اور کو اپنا کار ساز مقرر نہ کرنا اور میرے علاوہ اپنا کام کسی اور کے حوالے نہ کرنا۔  Show more