Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 32

سورة بنی اسراءیل

وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا ﴿۳۲﴾

And do not approach unlawful sexual intercourse. Indeed, it is ever an immorality and is evil as a way.

خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to avoid Zina (Unlawful Sex) and Everything that leads to it Allah says, forbidding His servants to commit Zina or to approach it or to do anything that may lead to it: وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً ... And come not near to unlawful sex. Verily, it is a Fahishah (immoral sin), meaning a major sin, ... وَسَاء سَبِيلً ...  and an evil way. meaning, a terrible way to behave. Imam Ahmad recorded Abu Umamah saying that a young man came to the Prophet and said, "O Messenger of Allah! Give me permission to commit Zina (unlawful sex)." The people surrounded him and rebuked him, saying, "Stop! Stop!" But the Prophet said, ادْنُه (Come close). The young man came to him, and he said, اجْلِس (Sit down), so he sat down. The Prophet said, أَتُحِبُّهُ لاُِمِّك (Would you like it (unlawful sex) for your mother)! He said, "No, by Allah, may I be ransomed for you." The Prophet said, وَلاَ النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لاُِمَّهَاتِهِم Neither do the people like it for their mothers. The Prophet said, أَفَتُحِبُّهُ لاِبْنَتِكَ (Would you like it for your daughter)? He said, "No, by Allah, may I be ransomed for you." The Prophet said, وَلاَ النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِبَنَاتِهِم Neither do the people like it for their daughters. The Prophet said, أَفَتُحِبُّهُ لاُِخْتِكَ (Would you like it for your sister)? He said, "No, by Allah, may I be ransomed for you." The Prophet said, وَلاَ النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لاَِخَوَاتِهِم Neither do the people like it for their sisters. The Prophet said, أَفَتُحِبُّهُ لِعَمَّتِكَ (Would you like it for your paternal aunt)? He said, "No, by Allah, O Allah's Messenger! may I be ransomed for you." The Prophet said, وَلاَ النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِعَمَّاتِهِم Neither do the people like it for their paternal aunts. The Prophet said, أَفَتُحِبُّهُ لِخَالَتِكَ (Would you like it for your maternal aunt)? He said, "No, by Allah, O Allah's Messenger! may I be ransomed for you." The Prophet said, وَلاَ النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِخَالاَتِهِم Neither do the people like it for their maternal aunts. Then the Prophet put his hand on him and said, اللَّهُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَهُ وَطَهِّرْ قَلْبَهُ وَأَحْصِنْ فَرْجَه O Allah, forgive his sin, purify his heart and guard his chastity. After that the young man never paid attention to anything of that nature.   Show more

کبیرہ گناہوں سے ممانعت زنا کاری اور اس کے اردگرد کی تمام سیاہ کاریوں سے قرآن روک رہا ہے زنا کو شریعت نے کبیرہ اور بہت سخت گناہ بتایا ہے وہ بدترین طریقہ اور نہایت بری راہ ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک نوجوان نے زنا کاری کی اجازت آپ سے چاہی لوگ اس پر جھک پڑے کہ چپ رہ کیا کر رہا ہے ، کیا کہہ رہا ہے...  ۔ آپ نے اسے اپنے قریب بلا کر فرمایا بیٹھ جا جب وہ بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا کیا تو اس کام کو اپنی ماں کے لئے پسند کرتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ پر اللہ فدا کرے ہرگز نہیں ۔ آپ نے فرمایا پھر سوچ لے کہ کوئی اور کیسے پسند کرے گا ؟ آپ نے فرمایا اچھا تو اسے اپنی بیٹی کے لئے پسند کرتا ہے ؟ اس نے اسی طرح تاکید سے انکار کیا ۔ آپ نے فرمایا ٹھیک اسی طرح کوئی بھی اسے اپنی بیٹیوں کے لئے پسند نہیں کرتا اچھا اپنی بہن کے لئے اسے تو پسند کرے گا ؟ اس نے اسی طرح سے انکار کیا آپنے فرمایا اسی طرح دوسرے بھی اپنی بہنوں کے لئے اسے مکروہ سمجھتے ہیں ۔ بتا کیا تو چاہے گا کہ کوئی تیری پھوپھی سے ایسا کرے ؟ اس نے اسی سختی سے انکار کیا ۔ آپ نے فرمایا اسی طرح اور سب لوگ بھی ۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر دعا کی کہ الہٰی اس کے گناہ بخش ، اس کے دل کو پاک کر ، اسے عصمت والا بنا ۔ پھر تو یہ حالت تھی کہ یہ نوجوان کسی کی طرف نظر بھی نہ اٹھاتا ۔ ابن ابی الدنیا میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے شرک کے بعد کوئی گناہ زنا کاری سے بڑھ کر نہیں کہ آدمی اپنا نطفہ کسی ایسے رحم میں ڈالے جو اس کے لئے حلال نہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 اسلام میں زنا چونکہ بہت بڑا جرم ہے، اتنا بڑا کہ کوئی شادی شدہ مرد یا عورت اس کا ارتکاب کرلے تو اسے اسلامی معاشرے میں زندہ رہنے کا ہی حق نہیں ہے۔ پھر اسے تلوار کے ایک وار سے مار دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پتھر مار مار کر اس کی زندگی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ معاشرے میں نشان عبرت بن جائے۔ ... اس لئے یہاں فرمایا کہ زنا کے قریب مت جاؤ، یعنی اس کے دواعی و اسباب سے بھی بچ کر رہو، مثلًا غیر محرم عورت کو دیکھنا، ان سے اختلاط، کلام کی راہیں پیدا کرنا، اسی طرح عورتوں کا بےپردہ اور بن سنور کر گھروں سے باہر نکلنا، وغیرہ ان تمام امور سے پرہیز ضروری ہے تاکہ اس بےحیائی سے بچا جاسکے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] زنا کے راستے اور ان کے قریب جانے سے ممانعت :۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ زنا نہ کرو بلکہ یوں فرمایا کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ یعنی وہ تمام راستے اور طور طریقے جو زنا کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان سب سے اجتناب کرو۔ ایسے راستوں کا مفصل بیان تو سورة نور اور سورة احزاب میں آئے گا۔ مختصراً یہ کہ ہر ... وہ چیز جو انسان کی شہوت کی انگیخت کا سبب بن سکتی ہے۔ وہ زنا کا راستہ ہے مثلاً عورتوں سے آزادانہ اختلاط، عورتوں کا بےپردہ ہو کر بازاروں میں نکلنا، اجنبی مرد و عورت کی گفتگو بالخصوص اس صورت میں کہ وہ اکیلے ہوں۔ نظر بازی، عریاں تصویر، فلمیں، فحش لٹریچر، گندی گالیاں، ٹیوی اور ریڈیو پر فحش افسانے اور ڈرامے اور مردوں اور عورتوں کی بےحجابانہ گفتگو وغیرہ سب شہوت کو ابھارنے والی باتیں ہیں اور یہی زنا کے راستے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے زنا کو جو && برا راستہ && فرمایا تو اس کی قباحتیں درج ذیل ہیں : ١۔ زنا کی صورت میں پیدا ہونے والے بچے کا نسب مشکوک رہتا ہے۔ ٢۔ ایسے ولدالزنا بچے کے لیے میراث کے جھگڑے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ٣۔ زانیہ عورت اگر منکوحہ ہے تو بچے کے اخراجات بلاوجہ اس کے خاوند کے ذمہ پڑجاتے ہیں اسی طرح وہ میراث میں بھی بلاوجہ حصہ دار قرار پاتا ہے۔ ٤۔ غیر منکوحہ عورت جس کے پاس کئی مرد آتے ہوں ان مردوں میں باہمی رقابت اور دشمنی پیدا ہوجاتی ہے۔ حتیٰ کہ بسا اوقات نوبت قتل تک پہنچ جاتی ہے۔ ٥۔ نکاح کی صورت میں میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے ہمدرد اور غمگسار ہوتے ہیں۔ پھر ان کی یہی باہمی محبت بچوں کی تربیت میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے جس سے خاندانی نظام تشکیل پاتا ہے اور یہی نظام کسی معاشرہ کی سب سے ابتدائی اور اہم اکائی ہے۔ زنا کی صورت میں یہ نظام برقرار رہنا تو درکنار اس کے انجر پنجر ہل جاتے ہیں جیسا کہ آج کل یورپین ممالک میں صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔ انھیں چند در چند خرابیوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو۔ اور زنا کی طرف لے جانے والے تمام راستوں پر پابندیاں لگا دیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى ۔۔ :” فَاحِشَةً “ ایسا قول و فعل جو نہایت قبیح ہو۔ پچھلی آیت میں قتل اولاد سے منع فرمایا، جو نسل انسانی فنا کرنے کا باعث ہے اور اس آیت میں زنا کے قریب جانے سے منع فرمایا، کیونکہ یہ حد سے بڑھی ہوئی برائی کے ساتھ نسب کا نظام خراب کرنے کا باعث ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خاوند ک... و نہ بیوی پر اعتماد رہے گا اور نہ اسے اولاد کے اپنا ہونے کا یقین ہوگا، وہ غیرت کی وجہ سے بیوی بچوں کو قتل بھی کرسکتا ہے، جیسا کہ اکثر خبریں آتی رہتی ہیں۔ اگر یہ رسم بد عام ہوجائے تو رشتہ داری کا سارا نظام، جو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، ختم ہوجائے گا، نہ باپ کا پتا، نہ کوئی چچا نہ دادا، نہ ان کی اولاد کا علم، نہ ان سے کوئی تعلق نہ رشتہ داری، بلکہ انسان اور حیوان کا فرق ہی ختم ہوجائے گا۔ اس خبیث فعل کی سزا اس وقت مغربی اقوام بھگت رہی ہیں اور انھیں مسلمانوں کے نظام نسب پر شدید حسد ہے، جس کی وجہ سے وہ ان میں بھی بےحیائی اور زنا پھیلانے کا ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زنا اور بعض دوسرے کاموں کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا ہے اور بعض کاموں کا ارتکاب کرنے سے منع کیا ہے۔ آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کام کی رغبت طبعی طور پر آدمی کے دل میں ہو اس کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا، جیسے زنا کہ جنسی جذبہ آدمی کا سب سے غالب جذبہ ہے، چناچہ فرمایا : (وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى ) [ بنی إسرائیل : ٣٢ ] اور فرمایا : (وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰى يَـطْهُرْنَ ) [ البقرۃ : ٢٢٢ ] ” اور ان کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں۔ “ اسی طرح یتیم کے مال کے قریب احسن طریقے سے جانے کے سوا منع فرما دیا، کیونکہ مال کی حرص طبعی جذبہ ہے، چناچہ فرمایا : (وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بالَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ ) [ بنی إسرائیل : ٣٤ ] البتہ قتل کے ارتکاب سے منع کیا، فرمایا : (وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ ) [ بنی إسرائیل : ٣١ ] اور فرمایا : (وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ ) [ بنی إسرائیل : ٣٣ ] کیونکہ کسی کو قتل کرنا انسان کا طبعی تقاضا نہیں ہے۔ 3 اللہ تعالیٰ نے زنا کے تمام راستے بھی بند فرما دیے جن میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے : 1 اجنبی عورت کے ساتھ خلوت حرام فرما دی، اسی طرح مردوں کو عورتوں سے عام میل جول سے بھی منع فرما دیا۔ چناچہ عبداللہ بن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ تُسَافِرِ الْمَرْأَۃُ إِلاَّ مَعَ ذِيْ مَحْرَمٍ وَلاَ یَدْخُلُ عَلَیْہَا رَجُلٌ إِلاَّ وَ مَعَہَا مَحْرَمٌ ) [ بخاری، جزاء الصید، باب حج النساء : ١٨٦٢ ] ” کوئی عورت سفر نہ کرے مگر کسی محرم کے ساتھ اور اس کے پاس کوئی مرد نہ جائے مگر اس صورت میں کہ اس عورت کے پاس کوئی محرم موجود ہو۔ “ مسلم کی اسی روایت میں ہے : ( لاَ یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِاِمْرَأَۃٍ ) [ مسلم، الحج، باب سفر المرأۃ مع محرم إلی حج وغیرہ : ١٣٤١ ]” کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ اکیلا نہ ہو۔ “ اسی طرح عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِیَّاکُمْ وَالدُّخُوْلَ عَلَی النِّسَاءِ ، فقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَفَرَأَیْتَ الْحَمْوَ ؟ قَالَ اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ ) [ بخاری، النکاح، باب لا یخلون رجل بامرأۃ۔۔ : ٥٢٣٢۔ مسلم : ٢١٧٢ ] ” عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔ “ ایک انصاری آدمی نے پوچھا : ” آپ ” حَمْوٌ“ (خاوند کے قریبی مثلاً اس کے بھائی یا چچا زاد یعنی کزن وغیرہ) کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ “ فرمایا : ” حمو “ تو موت ہے (مطلب یہ کہ اس کا زنا تو بعض اوقات موت تک پہنچا دیتا ہے) ۔ “ 2 مردوں اور عورتوں دونوں کو نگاہ نیچی رکھنے اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کا حکم دیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نور (٣٠، ٣١) کیونکہ آنکھیں اور کان دل کا دروازہ ہیں۔ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّہُ مِنَ الزِّنَا، أَدْرَکَ ذٰلِکَ لاَ مَحَالَۃَ ، فَزِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ ، وَ زِنَا اللِّسَان المَنْطِقُ ، وَالنَّفْسُ تَتَمَنَّی وَتَشْتَھِيْ ، وَالْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذِٰلکَ کُلَّہُ وَ یُکَذِّبُہُ ) [ بخاری، الاستئذان، باب زنا الجوارح دون الفرج : ٦٢٤٣۔ مسلم : ٢٦٥٧ ] ” اللہ نے ابن آدم پر زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے، جسے وہ لامحالہ پانے والا ہے، پس آنکھوں کا زنا ان کا دیکھنا ہے، کانوں کا زنا ان کا سننا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور نفس تمنا اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔ “ 3 عورتوں کو پردے کا حکم دیا اور زینت کے اظہار سے سخت منع فرمایا۔ دیکھیے سورة نور (٣١) اور سورة احزاب (٣٣) اس کے ساتھ ہی مردوں اور عورتوں کے نکاح کی تاکید فرمائی اور نکاح کو نہایت آسان بنادیا، اگر وسائل مہیا نہ ہوں تو پاک دامن رہنے کی انتہائی کوشش کا حکم دیا۔ دیکھیے سورة نور (٣٢، ٣٣) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَ ۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَإِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَ أَحْصَنُ لِلْفَرْجِ ، وَ مَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بالصَّوْمِ ، فَإِنَّہُ لَہُ وِجَاءٌ ) [ بخاری، الصوم، باب الصوم لمن خاف علی نفسہ العزبۃ : ١٩٠٥۔ مسلم : ١٤٠٠ ] ” تم میں سے جو شخص ضروریات نکاح رکھتا ہو وہ نکاح کرے، کیونکہ یہ نظر کو نیچا رکھنے اور شرم گاہ کو (زنا سے) محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے اور جو طاقت نہ رکھے وہ روزے کو لازم پکڑے، کیونکہ وہ اس کے لیے (شہوت کو) کچلنے کا باعث ہے۔ “ 4 زنا کرنے والوں پر، مرد ہوں یا عورت، انتہائی احتیاط کے ساتھ ثبوت قائم کرنے اور پوری شدت کے ساتھ حد نافذ کرنے کا حکم دیا۔ کنواری اور کنوارے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال جلاوطنی کی حد مقرر فرمائی، جو رجم سے بہت کم ہے اور غیر کنوارے مرد اور عورت کے لیے سو کوڑے اور رجم کی سزا مقرر فرمائی جو انتہائی سخت سزا ہے۔ اس کی واضح احادیث صحیحین وغیرہ میں معروف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اللہ کی حد نافذ ہو تو معاشرہ اس گندگی سے بالکل پاک ہوجائے۔ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً :” كَانَ “ دوام کے معنی کے لیے ہے۔ طنطاوی (رض) نے اس جگہ ” كَانَ “ کو ” مَا زَالَ “ (ہمیشہ سے) کے معنی میں لیا ہے اور ” فَاحِشَةً “ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” بیشک وہ ہمیشہ سے بڑی بےحیائی ہے اور برا راستہ ہے۔ “ ظاہر ہے کہ زنا بےحیائی میں حد سے بڑھا ہوا کام ہے جو خاندانوں، نسلوں اور معاشروں کو برباد کردیتا ہے اور خوف ناک جسمانی اور روحانی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا : برا راستہ اس لیے ہے کہ اگر یہ کھل جائے تو اس پر چل کر لوگ آپ کے گھر بھی آپہنچیں گے، پھر کسی کی ماں، بیٹی، بیوی یا بہن کی عزت محفوظ نہیں رہے گی۔ یہی بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس نوجوان کو سمجھائی تھی جس نے آپ سے زنا کی اجازت مانگی تھی۔ سیدنا ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں : ” ایک نوجوان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے زنا کی اجازت چاہی۔ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے، اسے ڈانٹا اور کہا کہ خاموش ہوجا، تاہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اُدْنُہْ ) (میرے) قریب آ۔ “ وہ قریب آیا اور جب بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا : ( أَتُحِبُّہُ لِأُمِّکَ ؟ ) ” کیا تو اس کام کو اپنی ماں کے لیے پسند کرتا ہے ؟ “ اس نے کہا :” نہیں، اللہ کی قسم ! اے اللہ کے رسول ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے (ہر گز نہیں) ۔ “ آپ نے فرمایا : ( وَلَا النَّاسُ یُحِبُّوْنَہُ لِأُمَّھَاتِھِمْ ) ” تو لوگ بھی اس کام کو اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے۔ “ پھر آپ نے فرمایا : ( أَفَنُحِبُّہُ لابْنَتِکَ ؟ ) ” اچھا تو اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتا ہے ؟ “ اس نے کہا : ” نہیں، اللہ کی قسم ! اے اللہ کے رسول ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے ( ہرگز نہیں) ۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَلَا النَّاسُ یُحِبُّوْنَہُ لِبَنَاتِھِمْ ) ” لوگ بھی اس کام کو اپنی بیٹیوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَ فَتُحِبُّہُ لِأُخْتِکَ ؟ ) ” کیا تو اس کام کو اپنی بہن کے لیے پسند کرتا ہے ؟ “ اس نے کہا : ” نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَلَا النَّاسُ یُحِبُّوْنَہُ لِأَخَوَاتِھِمْ ) ” لوگ بھی اس کام کو اپنی بہنوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : ( أَ فَتُحِبُّہُ لِعَمَّتِکَ ) ” کیا تو اس کام کو اپنی پھوپھی کے لیے پسند کرتا ہے ؟ “ اس نے کہا : ” نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَلَا النَّاسُ یُحِبُّوْنَہُ لِعَمَّاتِھِمْ ) ” لوگ بھی اس کام کو اپنی پھوپھیوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : ( أَ فَتُحِبُّہُ لِخَالَتِکَ ؟ ) ” کیا تو اس کام کو اپنی خالہ کے لیے پسند کرتا ہے ؟ “ اس نے کہا : ” نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے ( ہرگز نہیں) ۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَلَا النَّاسُ یُحِبُّوْنَہُ لِخَالَاتِھِمْ ) ” لوگ بھی اس کام کو اپنی خالاؤں کے لیے پسند نہیں کرتے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا اور یہ دعا کی : ( اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَہُ ، وَ طَھِّرْ قَلْبَہُ وَ حَصِّنْ فَرْجَہُ ) ” الٰہی ! اس کے گناہ بخش، اس کے دل کو پاک کر اور اسے عصمت والا بنا۔ “ پھر تو یہ حالت تھی کہ یہ نوجوان ایسے کسی کام کی طرف نہیں جھانکتا تھا۔ “ [ مسند أحمد : ٥؍٢٥٦، ٢٥٧، ح : ٢٢٢٧٤ ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The seventh injunction given here relates to the forbiddance of zina (fornication, adultery). Given here are two reasons as to why it has been forbidden: (1) This is a shame, gross and immodest. Whoever is denuded of modesty is denuded of human nobility itself and is rendered incapable of distinguishing the good from the bad. This is more succinctly said in a Hadith: اِذَا فَاتَک الحیاء...  فافعل ماشٔت When goes your sense of shame (that could become a barrier against evil), so then, you will do what you will. Therefore, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has declared sense of shame (haya& ) as a division of faith (&Iman): وَالحیاء شعبۃ من الایمان (al-Bukhari) (2) It gener¬ates limitless social disorder the consequences of which sometimes de¬stroy whole groups of people. In our day all sorts of crimes have in-creased. If investigated, the reason behind a lot of them would turn out to be some man or woman who did it. Though, this crime is not directly related to the rights of the servants of Allah but it may have been men¬tioned here as part of other rights taken up at this place for the reason that this crime is contagious. It brings other crimes along which disturb the rights of the servants of Allah through loss of lives and properties. Therefore, Islam has declared this crime to be more serious than any other crime. Then, it has also fixed its punishment as the harshest of all crimes because this one is a carrier of hundreds of these. It appears in Hadith that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"The heavens and the earth, the seven of them each, curse the married person who commits adultery. And the strong stench which spreads out from the pri¬vate parts of such people will embarrass even the people condemned to Hell and thus there in Hell they will be suffering from the punishment of fire and disgrace both.|" (Reported by al-Bazzar on the authority of Sayyidna Bu¬raidah - Mazhari) In another Hadith from Sayyidna Abu Hurairah (رض) it has been reported that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"A fornicator when fornicating is not a believer. A thief when stealing is not a believer. And a drunkard while drinking is not a believer.|" This Hadith is there in al-Bukhari and Muslim. Its explanation, as it appears in the report of Abu Dawud, says: At the time those committing such crimes are practi¬cally involved in it, &Iman (faith) leaves their heart and comes out, and when they turn away from it, &Iman returns back in. (Mazhari)   Show more

خلاصہ تفسیر : اور زنا کے پاس بھی مت پھٹکو (یعنی اس کے مبادی اور مقدمات سے بھی بچو) بلاشبہ وہ (خود بھی) بڑی بےحیائی کی بات ہے اور (دوسرے مفاسد کے اعتبار سے بھی) بری راہ ہے (کیونکہ اس پر عداوتیں اور فتنے اور تضبیع نسب مرتب ہوتے ہیں) معارف و مسائل : یہ ساتواں حکم زنا کی حرمت کے متعلق ہے جس کے حرام ہو... نے کی دو وجہ بیان کی گئی ہیں اول یہ کہ وہ بےحیائی ہے اور انسان میں حیا نہ رہی تو وہ انسانیت ہی سے محروم ہوجاتا ہے پھر اس کے لئے کسی بھلے برے کام کا امتیاز نہیں رہتا اسی معنی کے لئے حدیث میں ارشاد ہے اذا فاتک الحیاء فافعل ماشئت۔ یعنی جب تیری حیا ہی جاتی رہی تو کسی برائی سے رکاوٹ کا کوئی پردہ نہ رہا تو جو چاہو گے کرو گے اور اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیاء کو ایمان کا ایک اہم شعبہ قرار دیا ہے والحیاء شعبۃ من الایمان (بخاری) دوسری وجہ معاشرتی فساد ہے جو زنا کی وجہ سے اتنا پھیلتا ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں رہتی اور اس کے نتائج بد بعض اوقات پورے قبیلوں اور قوموں کو برباد کردیتے ہیں فتنے چوری ڈاکہ قتل کی جتنی کثرت آج دنیا میں بڑھ گئی ہے اس کے حالات کی تحقیق کی جائے تو آدھے سے زیادہ واقعات کا سبب کوئی عورت و مرد نکلتے ہیں جو اس جرم کے مرتکب ہوئے اس جرم کا تعلق اگرچہ بلاواسطہ حقوق العباد سے نہیں مگر اس جگہ حقوق العباد سے متعلقہ احکام کے ضمن میں اس کا ذکر کرنا شاید اسی بناء پر ہو کہ یہ جرم بہت سے ایسے جرائم ساتھ لاتا ہے جس سے حقوق العباد متاثر ہوتے ہیں اور قتل و غارت گری کے ہنگامے برپا ہوتے ہیں اسی لئے اسلام نے اس جرم کو تمام جرائم سے اشد قرار دیا ہے اس کی سزاء بھی سارے جرائم کی سزاؤں سے زیادہ سخت رکھی ہے کیونکہ یہ ایک جرم دوسرے سینکڑوں جرائم کو اپنے میں سموئے ہوئے ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں شادی شدہ زنا کار پر لعنت کرتی ہیں اور جہنم میں ایسے لوگوں کی شرمگاہوں سے ایسی سخت بدبو پھیلے گی کہ اہل جہنم بھی اس سے پریشان ہوں گے اور آگ کے عذاب کے ساتھ ان کی رسوائی جہنم میں بھی ہوتی رہے گی (رواہ البزار عن بریدہ مظہری) ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ زنا کرنے والا زنا کرنے کے وقت مومن نہیں ہوتا چوری کرنے والا چوری کرنے کے وقت مومن نہیں ہوتا اور شراب پینے والا شراب پینے کے وقت مومن نہیں ہوتا یہ حدیث بخاری و مسلم میں ہے اس کی شرح ابوداؤد کی روایت میں یہ ہے کہ ان جرائم کے کرنے والے جس وقت مبتلائے جرم ہوتے ہیں تو ایمان ان کے قلب سے نکل کر باہر آجاتا ہے اور پھر جب اس سے لوٹ جاتے ہیں تو ایمان واپس آجاتا ہے (مظہری)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا 32؀ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ ال... شَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ( ق ر ب ) القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے زنا الزِّنَاءُ : وطء المرأة من غير عقد شرعيّ ، وقد يقصر، وإذا مدّ يصحّ أن يكون مصدر المفاعلة، والنّسبة إليه زَنَوِيٌّ ، وفلان لِزِنْيَةٍ وزَنْيَةٍ قال اللہ تعالی: الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلَّا زانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُها إِلَّا زانٍ [ النور/ 3] ، الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي [ النور/ 2] ، وزنأ في الجبل بالهمز زنأ وزنوءا، والزّناء : الحاقن بوله، و «نهي الرّجل أن يصلّي وهو زناء» «3» . ( ز ن ی ) الزنا عقد شرعی کے بغیر کسی عورت سے ہم بستری کرنے کا نام زنا ہے یہ اسم مقصود ہے اگر اسے ممدور پڑھا جائے تو باب مفاعلہ کا مصدر بھی ہوسکتا ہے اور اس کی طرف نسبت کے وقت زنوی کہا جائے گا اور فلاں لزنیۃ ( بکسرہ زاو فتح آں ) کے معنی ہیں فلاں حرام زادہ ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلَّا زانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُها إِلَّا زانٍ [ النور/ 3] زافی مرد سوائے زانیہ یا مشر کہ عورت کے کسی سے نکاح نہیں کرتا اور فاجرہ عورت سوائے فاجرہ کے کسی دوسرے سے نکاح نہیں کرتی ۔ الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي [ النور/ 2] زانیہ عورت اور زانی مرد ۔ اور اگر مہموز اللام سے ہو جیسے زنا فی الجبل زناء وزنوء ۔ تو اس کے معنی پہاڑ پر چڑھنے کے ہوتے ہیں ۔ الزناء ۔ حاقن یعنی پیشاب روکنے والے کو کہتے ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ«نهي الرّجل أن يصلّي وهو زناء» آدمی کو چاہیئے کہ حاقن ہونے کی صورت میں نماز نہ پڑھے ۔ فحش الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] ( ف ح ش ) الفحش والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

زنا کے قریب نہ پھٹکو قول باری ہے (ولا تقربوا الزنا انہ کان فاحشۃ وساء سجیلاً ۔ زنا کے قریب نہ پھٹکو وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہ براہ راستہ) اس میں زنا کی تحریم کی خبر دی گئی ہے نیز یہ کہ یہ بہت قبیح فعل ہے۔ اس لئے کہ فاحشہ اس فعل کو کہتے ہیں جس کی قباحت بڑی زبردست اور بڑی واضح ہو۔ اس میں یہ دلیل مو... جود ہے کہ سمعی حجت کے ورود سے پہلے ہی زنا عقل انسانی کے نزدیک ایک قبیح فعل تھا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو فاحشہ کا نام دیا، سمعی حجت کے ورود سے قبل یا اس کے بعد کی حالت کے ساتھ اس کی تخصیص نہیں کی۔ عقلی طور پر زنا ایک قبیح فعل ہے اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ زانی عورت پیدا ہونے والے بچے کا نسب اس بچے کے باپ کی نسبت سے بیان نہیں کرسکتی اس لئے کہ اس کے ساتھ منہ کالا کرنے والے مرد ایک دوسرے سے بڑھ کر اس بچے کے نسب کے حق دار نہیں ہوتے۔ اس طرح زنا کے فعل قبیح کی وجہ سے نسب کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے اور مواریث، مناکحات صلہ رحمی کے سلسلے میں نسب سے متعلقہ حرمتوں کی مخالفت ہوجاتی ہے۔ ولد پر والد کا حق باطل ہوجاتا ہے اور اسی طرح کے بہت سے دوسرے حقوق بھی اس فعل قبیح کی بنا پر پامال ہوجاتے۔ عقل انسانی کے نزدیک یہ ایک گھنائونا فعل ہے اور عادۃ لوگ اسے قبیح سمجھتے ہیں۔ اسی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (الولد للفراش وللعاھرا لحجر بچے کے نسب کا تعلق بچھونے کے ساتھ ہے اور منہ کالا کرنے والے کے لئے پتھر ہے ) اس لئے کہ اگر نسب کو بچھونے کے اندر محدود نہ کردیا جاتا یعنی نسب کے اجرا کو صرف نکاح اور نکاح جیسی صورت مثلاً ملک یمین کے اندر محدود نہ کردیا جاتا تو پھر صاحب فرا ش یعنی شوہر، زانی سے بڑھ کر بچے کے نسب کا حق دار قرار نہ پاتا جس کے نتیجے میں اکتساب کا ابطال لازم آتا اور انساب سے تعلق رکھنے والے تمام حقوق و مراعات ساقط ہوجاتے ہیں۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٢) اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ خفیہ طریقہ پر اور نہ علانیہ طور پر وہ بڑی معصیت اور گناہ کی بات ہے اور برا راستہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى) یہاں ” زنا مت کرو “ کے بجائے وہ حکم دیا جا رہا ہے جس میں انتہائی احتیاط کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ زنا کے قریب بھی مت پھٹکو۔ یعنی ہر اس معاملے سے خود کو محفوظ فاصلے پر رکھو جو تمہیں زنا تک لے جانے یا پہنچانے کا سبب بن سکتا ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

32. “And do not come near to adultery”. This commandment is meant both for individuals and society as a whole. It warns each individual not only to guard against adultery or fornication itself but against all those things that lead to or stimulate it. As regards to society as a whole the commandment enjoins it to make such arrangements as prevent adultery and eradicate the means and stimulants tha... t lead to adultery. Therefore, the society should employ all those legal and educative means that help develop such an environment as prevents and eradicates indecency. Finally, this article formed the basis of laws and regulations of the Islamic system of life. In order to fulfill its implications adultery and false accusation of adultery were made criminal offenses. Regulations about hijab were promulgated. The publication of indecent materials was banned and drinking of intoxicants was made unlawful. Restrictions on music, dancing and pictures which are conducive to adultery were imposed. Such laws were enacted and marriage was made easy to and cut at the root of adultery.  Show more

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :32 ” زنا کے قریب نہ بھٹکو“ ، اس کے حکم کے مخاطب افراد بھی ہیں ، اور معاشرہ بحیثیت مجموعی بھی ۔ افراد کے لے اس حکم کے معنی یہ ہیں کہ وہ محض فعل زنا ہی سے بچنے پر اکتفا نہ کریں ، بلکہ زنا کے مقدمات اور اس کے ان ابتدائی محرکات سے بھی دور ہیں جو اس راستے کی طر... ف لےجاتے ہیں ۔ رہا معاشرہ ، تو اس حکم کی رو سے اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اجتماعی زندگی میں زنا ، اور محرکات زنا ، اور اسباب زنا کا سدباب کرے ، اور اس غرض کےلیے قانون سے ، تعلیم و تربیت سے ، اجتماعی ماحول کی اصلاح سے ، معاشرتی زندگی کی مناسب تشکیل سے ، اور دوسری تمام مؤثر تدابیر سے کام لے ۔ یہ دفعہ آخرکار اسلامی نظام زندگی کے ایک وسیع باب کی بنیاد بنی ۔ اس کے منشاء کے مطابق زنا اور تہمت زنا کو فوجداری جرم قرار دیا گیا ، پردے کے احکام جاری کیے گئے ، فواحش کی اشاعت کو سختی کے ساتھ روک دیا گیا ، شراب اور موسیقی اور رقص اور تصاویر پر ( جو زنا کے قریب ترین رشتہ دار ہیں ) بندشیں لگائی گئیں ، اور ایک ایسا ازدواجی قانون بنایا گیا جس سے نکاح آسان ہو گیا اور زنا کے معاشرتی اسباب کی جڑ کٹ گئی ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٢۔ ٤٠:۔ اوپر کی آیتوں سے حق العباد کا ذکر چلا آتا ہے مثلا ماں باپ کا حق اولاد کو سمجھنا اور اولاد کا حق ماں باپ کو سمجھنا رشتہ داروں کا حق رشتہ داروں کو جاننا ایک کی ماں بہن بی بی سے دوسرا بدکاری کرے یا ایک کو دوسرا جان سے مار ڈالے یا ایک شخص اپنی اولاد اور مال چھوڑ کر مرجائے اور جس رشتہ دار کی پرو... رش میں وہ یتیم اولاد آوے وہ اس یتیم کا مال کھا اڑا دیوے یہ سب باتیں خدا کا گناہ ہونے کے سوا حق العباد میں رخنہ ڈالنے والی چیزیں ہیں اس واسطے اللہ تعالیٰ نے حق العباد کے ذکر کے سلسلہ میں زنا قتل بےتصرف مال یتیم خلاف عہد کم تولنے اور کم ناپنے اور جھوٹی شہادت اور اترانے کا ذکر ان آیتوں میں فرمایا دیا ہے تاکہ حق العباد میں جو باتیں کرنے کی ہیں وہ اور جو نہیں کرنے کی ہیں وہ ایک جگہ جمع ہوجاویں اسی واسطے ان آیتوں کے آخر میں فرمایا ہے کہ اس طرح کی وحی میں ایک حکمت الٰہی ہے اور شروع اس نصیحت کا اللہ تعالیٰ نے اپنے حق سے فرما کر بیچ میں حق العباد اور جو باتیں حق العباد کو مضر تھیں اس کا ذکر فرمایا اور پھر بحث کو اپنے حق پر ختم فرمایا تاکہ آدمی کی سمجھ میں آجاوے کہ سب سے بڑھ کر آدمی پر اللہ کا حق ہے جس نے اللہ کی عبادت میں شرک کے طور پر یا ریا کاری کے طور غیر کو شریک کیا وہ بڑا حق فراموش ہے اس نے اللہ کا حق کچھ بھی نہیں ادا کیا۔ صحیح بخاری ومسلم کے ١ ؎ حوالہ سے معاذ بن جبل (رض) کی حدیث اوپر گزر چکی ہے میں ہے کہ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں اور پھر اس حق کے ادا ہوجانے کے بعد بندوں کا حق یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان کو دوزخ کے عذاب سے بچائے گا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس حق کو تاکید کے طور پر اس نصیحت میں دو دفعہ اس واسطے فرمایا ہے کہ اس نصیحت میں جن نیک کاموں کا ذکر ہے ان میں کوئی نیک کام بغیر اللہ کے اس حق کو ادا کرنے کے بارہ گاہ الٰہی میں نہ مقبول ہوسکتا ہے نہ ایسا حق فراموش آدمی دوزخ کے عذاب سے بچ سکتا ہے کس لیے کہ اللہ کی عبادت کرنے کے لیے اللہ کو پہچاننا ضرور ہے جو شخص اللہ کی عبادت میں غیروں کو شریک کرتا ہے وہ سرے سے اللہ کی شان کو نہیں پہچانتا پھر ایسے شخص کا نیک عمل بارگاہ الٰہی میں کیونکر مقبول ہوسکتا ہے معتبر روایتوں میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرم وحیا کے مقابلہ میں فاحشہ کے لفظ کا استعمال فرمایا ہے اس استعمال کے موافق بدکاری کو بےحیائی کا کام فرمایا۔ بدکاری سے آدمی کی نسل بگڑتی ہے اس لیے بدکاری کو بری راہ فرمایا۔ آگے کی آیت میں قتل ناحق کے ساتھ الا بالحق کی جو قید لگائی گئی ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تفسیر یوں فرمائی ہے کہ قصاص میں بیا ہے ہوئے بدکار مرد یا عورت یا اسلام کے بعد مرتد ہونے والے ان لوگوں کا قتل شریعت میں جائز ہے ٢ ؎۔ عرب میں دستور تھا کہ شریف آدمی کے قصاص میں بہت سے لوگوں کو قتل کیا کرتے تھے اسی کو خون پر ہاتھ چھوڑنا فرمایا کہ مقتول کے وارث کو حاکم لوگ قصاص میں مدد دیویں اور قصاص کی حد سے بڑھ کر مقتول کے وارث کچھ زیادتی نہ کریں۔ یتیم کی حفاظت کی عہد کے پورا کرنے کی ‘ پورا تولنے کی ‘ بہتان کی ‘ اور اترانے کی ممانعت کی بہت سی صحیح حدیثیں ہیں جو گویا ان آیتوں کی تفسیر ہیں۔ آخر کو مشرکین مکہ کی نادانی کا ذکر فرمایا کہ یہ لوگ خود تو لڑکیوں سے یہاں تک گھبراتے ہیں کہ ان کو جیتا گاڑ دیتے ہیں اور نادانی سے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے ہیں یہ نہیں سمجھتے کہ یہ بہت بری بات ہے جس کا بہت بڑا خمیازہ ان کو ایک دن بھگتنا پڑے گا۔ ١ ؎ یعنی صفحہ سابقہ پر۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٩٩ کتاب القصاص۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:32) فاحشۃ۔ الفحش والفحشاء والفاحشۃ۔ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو۔ ایسی بےحیائی جس کا اثر دوسرے پر پڑے۔ آیات الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ (4:19) ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں۔ اور والتی یاتین الفاحشۃ من نشائکم (4:5) تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کر...  بیٹھیں۔ ان دونوں آیات میں مراد زنا ہے۔ فاحشۃ منصوب بوجہ خبر کان کے ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی یہی نہیں کہ زنا سے بچو بلکہ ان کاموں سے بھی بچتے رہو جو اس کی طرف لے جانے والے ہیں اور اس کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں جیسے اجنبی عورت کی طرف دیکھنا یا اس کے ساتھ نتہائی اختیار کرنا، یا اس سے بوس و کنار میں مبتلا ہونا وغیرہ۔2 حدیث میں ہے : لایزنی الزانی حین یزنی وھو مومن کہ زانی زنا کی حالت میں م... ومن نہیں رہتا۔ بہرحال یہ کبائر میں سے ہے۔ اور اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرنا اکبر الکبائر میں داخل ہے اور بعض نے شرک کے بعد زنا کا درجہ رکھا ہے۔ (روح)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ یعنی اس کے مبادی و مقدمات سے بھی بچو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس لئے کہ قتل اولاد اور زنا کے درمیان تعلق موجود ہے ، نیز اس کے بعد قتل نفس کا مضمون آتا ہے۔ قتل اولاد ، زنا اور قتل نفس کے درمیان مخصوص تعلق موجود ہے۔ قتل اولاد توبعینہ قتل نفس ہے ، لیکن زنا بھی مختلف پہلوئوں سے دراصل قتل نفس ہی ہے۔ کیونکہ سب سے پہلے زانی حیات کو بےمحل گرانا ہے ، اگر زنا کے نتیجے م... یں کوئی اولاد پیدا ہوجائے تو اس سے فرار حاصل کیا جاتا ہے۔ پہلے جنہیں ہی کو قتل کردیا جاتا ہے ، ورنہ بچہ پیدا ہونے کے بعد بالعموم قتل کردیا جاتا ہے۔ پیدائش سے پہلے یا بعد وہ اگر زندہ رہ بھی جائے تو یا وہ مادر پدر آزاد ہوتا ہے یا پھر معاشرے میں ذلیل و خوار ہو کر رہتا ہے۔ بہرحال اگر قتل نہ ہو اور زندہ بچ بھی جائے تو کسی نہ کسی طرح وہ ایک کم تر درجے کی زندگی ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک گو نہ وہ بھی قتل ہے۔ پھر زنا دراصل پوری سوسائٹی کے لئے قتل کا سبب ہے۔ کیونکہ اس میں نسب مل جاتے ہیں اور خون خالص نہیں رہتے اور بچوں کے بارے میں یقینی صورت نہیں رہتی۔ یہ دراصل ایک سو سائٹی کی موت ہوتی ہے۔ ایک طرح زنا قتل کے برابر اس طرح بھی ہوتا ہے کہ جس سوسائٹی میں زنا عام ہوتا ہے اس میں ازدواجی زندگی کی ضرورت نہیں رہتی۔ یوں بھی سوسائٹی سے خاندانی زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ حالانکہ خاندان ایک بچے کے لئے بہترین جائے پرورش ہوتا ہے۔ خاندان کے بغیر کسی بچے کی فطرت سلیمہ اپنی جگہ قائم نہیں رہ سکتی۔ اور اس کی تربیت میں کوئی نہ کوئی نقص ضرور رہ جاتا ہے۔ پھر تاریخ گواہ ہے کہ جس سوسائٹی میں زنا عام ہوا ہے ، وہ تباہی و بربادی اور زوال کی طرف سفر شروع کردیتی ہے۔ تاریخ قدیم اور عصر جدید دونوں کا عمرانی مطالعہ یہی نتیجہ دیتا ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ میں زنا عام ہے حالانکہ وہ اس وقت مادی ترقی کے قائدین ہیں لیکن ان میں سے فرانس جیسی قوم کے زوال کے آثار تو ابھی سے نمودار ہوچکے ہیں جس طرح ایک فرد جوانی کے ایام میں تروتازہ رہتا ہے اور اس کی اخلاقی بےراوہ روی اس پر اثر انداز نہیں ہوتی اور بڑھاپے میں پھر وہ یکدم گر جاتا ہے اسی طرح اخلاقی بےراہ روی میں مبتلا اقوام یکدم زوال کا شکار نہیں ہوجایا کرتیں ، جب ان پر زوال آتا ہے تو یکدم گرجاتی ہیں۔ اسلام زنا کے قریب جانے سے بھی روکتا ہے ، یعنی مقدمات زنا کے حالات سے ہی دور رہنے کا حکم دیتا ہے یہ زنا کی ممانعت کی سخت تاکید ہے۔ کیونکہ اگر کوئی ایسے حالات سے نہیں بچتا جن کے نتیجے میں زنا واقع ہوجاتا ہے تو بھی اپنے ۔۔ کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے اسلام سد باب ذریعہ پر عمل کرتا ہے تاکہ اس فحاشی میں مبتلا ہونے کا کوئی راستہ ہی نہ رہے۔ اسلام غیر ضروری اختلاط مرد و زن کی ممانعت کرتا ہے ، غیر مرد اور عورت کی ایک جگہ تنہائی کی ممانعت کرتا ہے ، اسلام نوجوانوں کی شادی کی تلقین کرتا ہے۔ ایسی باتوں کو روکتا ہے جن کے نتیجے میں شادی ممنوع ہوجائے مثلاً جہیز اور زیادہ مر۔ اور اس خوف کا بھی قلع قمع کرتا ہے کہ شادی کی وجہ سے تنگ دستی نہ آجائے اور جو لوگ شادی کی تلاش میں ہوں ان کو حکم دیتا ہے کہ وہ پاک دامنی کی راہ اختیار کریں اور پھر بھی اگر کوئی اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اسلام اسے سخت سزا دیتا ہے نیز زنا کے الزام کو بھی قابل حد جرم قرار دیتا ہے اور اس مقصد کے لئے تمام ذرائع و اسباب اختیار کرتا ہے کہ سوسائٹی زنا کے ارتکاب سے بچ جائے۔ اور اس طرح وہ تباہی اور ہلاکت سے بچ جائے۔ چناچہ قتل اولاد اور زنا کی ممانعت کے ساتھ ہی حکم آتا ہے ناحق کسی زندہ انسان کی جان لینا بھی اسلام میں ایک عظیم جرم ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسرا حکم یوں دیا (وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنآی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃًط وَ سَآءَ سَبِیْلًا) (اور زنا کے پاس بھی مت پھٹکو بلاشبہ وہ بڑی بےحیائی اور بری راہ ہے) اس میں زنا کی ممانعت فرمائی اور یوں فرمایا کہ اس کے پاس بھی مت پھٹکو اور اسے بےحیائی اور بری راہ سے تعبیر فرمایا زنا ایسا برا عمل ہے اور ایسی ... لعنت کی چیز ہے جو کبھی کسی نبی کی شریعت میں حلال نہ تھی بلکہ اسلام کے علاوہ جو دوسرے ادیان ہیں مذہبی طور پر وہ بھی اسے ممنوع سمجھتے ہیں گو نفس و شیطان کے ابھار کی وجہ سے اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ آج جب کہ یورپ اور امریکہ میں بےحیائی کو ہنر اور حیا کو عیب سمجھا جانے لگا ہے وہاں زنا کاری بہت عام ہوچکی ہے جو لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے اپنا تعلق ظاہر کرتے ہیں وہ تو حیا کی ہر سرحد پار کرچکے ہیں اور چونکہ ان کے پادری ہر اتوار کو حاضرین کے ہر گناہ کو معاف کردیتے ہیں اس لیے خوب دھڑلے سے عوام و خواص زنا کرتے ہیں، جو مسلمان وہاں جا کر بستے ہیں وہ بھی ان بےحیائیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں وہاں رواج کی وجہ سے اتنی زیادہ بےحیائی پھیل چکی ہے کہ بیویاں ہوتے ہوئے زنا کاری میں مبتلا ہوتے ہیں اور شوہر کی رضا مندی سے ایک شخص کی بیوی دوسرے شخص کے ساتھ رات گزارتی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں ایسے لوگوں پر گذرا جن کی کھالیں آگ کی قینچیوں سے کاٹی جا رہی تھیں۔ میں نے کہا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں انہوں نے جواب دیا یہ وہ لوگ ہیں جو زنا کرنے کے لیے زینت اختیار کرتے ہیں پھر میں ایسے بدبودار گڑھے پر گزرا جس میں بہت سخت آوازیں آرہی تھیں میں نے کہا جبرائیل یہ کون ہیں انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو زناکاری کے لیے بنتی سنورتی ہیں اور وہ کام کرتی ہیں جو ان کے لیے حلال نہیں۔ (الترغیب والترہیب ص ٥١١ ج ٣) اس گناہ سے بچانے کے لیے شریعت مطہرہ نے بد نظری تک سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ہاتھ بھی زنا کرتے ہیں، اور پاؤں بھی زنا کرتے ہیں اور اس گناہ کی دنیاوی سزا یہ رکھی ہے کہ غیر شادی شدہ مرد یا عورت زنا کرلے تو اس کو سو کوڑے مارے جائیں اور شادی شدہ مرد یا عورت زنا کرلے تو اس کو سنگسار کیا جائے یعنی پتھر مار مار کر ہلاک کردیا جائے دنیا میں جو مصیبتیں آرہی ہیں ان کا بہت بڑا سبب بڑے گناہ بھی ہیں اور ان گناہوں میں زنا کاری کا عام ہونا بھی ہے۔ حضرت عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس قوم میں زنا کاری پھیل جائے گی قحط بھیج کر ان کی گرفت کی جائے گی اور جن لوگوں میں رشوت کا لین دین ہوگا رعب کے ذریعے ان کی گرفت ہوگی (یعنی دلوں پر رعب طاری ہوجائے گا اور دشمنوں سے ڈرتے رہیں گے) حضرت ابن عباس اور ابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی قوم میں (ایک روایت میں ہے کہ جب کسی بستی میں) زنا اور سود کا ظہور ہوجائے تو ان لوگوں نے اپنی جانوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل کرلیا۔ (الترغیب والترہیب ص ٢٧٨ ج ٣) جب زنا عام ہوجاتا ہے تو حرام کی اولاد بھی زیادہ ہوجاتی ہے نسب باقی نہیں رہتا کون کس کا بیٹا اور کس کا بھتیجا یا بھانجا، ان سب باتوں کی ضرورت نہیں رہتی۔ صلہ رحمی کا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ اور انسان، حیوان محض بن کر رہ جاتا ہے۔ حلالی ہونے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ بلکہ حرامی ہونے ہی کو مناسب سمجھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں یورپ کے رہنے والوں پر یہ باتیں مخفی نہیں ہیں۔ حضرت میمونہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت برابر خیر پر رہے گی جب تک ان میں زنا اولاد کی کثرت نہ ہوجائے۔ سو جب ان میں زنا کی اولاد پھیل جائے گی تو عنقریب اللہ تعالیٰ ان کو عام عذاب میں مبتلا فرما دے گا اور ایک حدیث میں یوں ہے کہ جب زنا ظاہر ہوجائے گا تو تنگدستی اور ذلت کا ظہور ہوگا۔ (الترغیب والترہیب ص ٢٧٧ ج ٣) صحیح بخاری میں حضرت سمرہ بن جندب (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک خواب مروی ہے (حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کا خواب سچا ہوتا ہے) جس میں بہت سی چیزوں کا تذکرہ ہے ان میں ایک بات یہ بھی ہے کہ آپ کا گذر ایک ایسے سوراخ پر ہوا جو تنور کی طرح تھا۔ اس میں جو جھانک کر دیکھا تو اس میں ننگے مرد اور ننگی عورتیں نظر آئیں ان کے نیچے سے آگ کی لپٹ آتی تھی جب وہ لپٹ اوپر آتی تھیں تو وہ چیختے چلاتے اور فریاد کرتے تھے آپ نے اپنے ساتھیوں سے دریافت فرمایا (جن میں ایک جبرائیل اور ایک میکائیل تھے) یہ کیا ماجرا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ زنا کار مرد اور زنا کار عورتیں ہیں۔ (صحیح بخاری ص ١٠٤٤ وھو فی المشکوٰۃ ٣٩٥) جب زنا کی عادت پڑجاتی ہے تو بڑھاپے میں بھی زنا کرتے رہتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات نہ کرے گا اور ان کو پاک نہ کرے گا اور ان کی طرف (رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا (١) زنا کار بوڑھا (٢) جھوٹا بادشاہ (٣) تنگدست متکبر۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ تین شخص جنت میں داخل نہ ہوں گے، ان میں زنا کار بوڑھے کو بھی شمار فرمایا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ تین شخصوں سے اللہ کو بغض ہے ان میں سے ایک زنا کار بوڑھا بھی ہے۔ (الترغیب ص ٢٧٥ ج ٣) حضرت ابو قتادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی ایسی عورت کے بستر پر بیٹھا جس کا شوہر گھر پر نہیں ہے (اور اس کے غائب ہونے کو اس نے زنا کا ذریعہ بنالیا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر ایک اژدھا مسلط فرمائے گا (الترغیب والترہیب ص ٢٧٩ ج ٣) شوہر گھر پر نہ ہو تو عورت مرد کی ضرورت محسوس کرتی ہے زنا کاری کا مزاج رکھنے والے ایسی عورت سے جوڑ بٹھا لیتے ہیں ایسے لوگوں کو مذکورہ بالا وعید سنائی ہے یہ مطلب نہیں ہے کہ شوہر اگر گھر پر ہو اور دیوث ہو تو اس کی اجازت سے گناہ حلال ہوجائے گا زنا ہر حال میں حرام ہے۔ اسلام عفت اور عصمت والا دین ہے۔ اس میں فواحش اور منکرات اور زناکاری اور اس کے اسباب اور دواعی، ناچ رنگ، عریانی وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ یورپ کے شہوت پرست انسان نما حیوانوں میں زنا کاری عام ہے محرم عورتوں تک سے زنا کرتے ہیں قانوناً مردوں کو مردوں سے شہوت پوری کرنے کو جائز قرار دیا گیا ہے اس کی وجہ سے طرح طرح کے بدترین امراض میں مبتلا ہیں۔ ایک حدیث میں بربادی کے اسباب میں سے یہ بھی بتایا جاتا ہے۔ اکتفی الرجال بالرجال والنساء بالنساء کہ مرد مردوں سے شہوت پوری کرنے لگیں اور عورتیں عورتوں سے۔ (الترغیب والترہیب ص ٢٦٧ ج ٣) یورپ والوں کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی ان کے کرتوتوں کے ساتھی بنتے جا رہے ہیں اور شہوت پرستوں کو ان کے مقاصد میں کامیاب بنا رہے ہیں سورة نساء میں فرمایا (وَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکُمْ وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّھَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًا) (اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول فرمائے، اور جو لوگ شہوتوں کا اتباع کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم بڑی بھاری کجی میں پڑجاؤ۔ ) بعض زنا کار عورتوں کی یہ بات سننے میں آئی ہے کہ میرا بدن ہے جس طرح چاہوں استعمال کروں۔ یہ تو کفریہ بات ہے قرآن کا مقابلہ ہے۔ اس کا معنی ہے (العیاذ باللہ) کہ زنا کاری سے قرآن کا منع فرمانا صحیح نہیں، درحقیقت بہت سے لوگوں نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ ہم بندے ہیں اللہ تعالیٰ خالق ہے اور مالک ہے، سارے بندے اس کی مخلوق ہیں اور مملوک ہیں مملوک کو کیا حق ہے کہ اپنی ذات کو اپنے بارے میں اور اپنے جسم و جان کے بارے میں خود مختار سمجھے۔ بہت سے ملکوں میں یہ قانون نافذ ہے کہ زنا بالجبر تو منع ہے لیکن اگر رضا مندی سے کوئی مرد عورت سے زنا کرلے تو اس پر نہ کوئی مواخذہ ہے اور نہ کوئی سزا۔ بہت سے وہ ممالک جن کے اصحاب اقتدار مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں ان کے ملک میں بھی یہ قانون نافذ ہے اور دشمنوں کے سمجھانے سے یہ قانون پاس کردیا گیا ہے کہ بیک وقت نکاح میں صرف ایک عورت رہ سکتی ہے لیکن دوستانیاں جتنی چاہے رکھ سکتا ہے۔ زنا کاری کو عام کردینا انجام کے اعتبار سے کیا رنگ لائے گا اس کے بارے میں بالکل کوئی فکر نہیں، مسلمان ممالک کے ذمہ دار دشمنوں کے سامنے اس بات سے جھینپتے ہیں کہ ایک سے زیادہ عورتیں نکاح میں رکھنے کا قانون پاس کردیں۔ مسلمان کو کافر سے کیا جھینپنا ؟ اسے تو قرآن و حدیث کے قوانین نافذ کرنا لازم ہے۔ آخر میں ایک حدیث کا ترجمہ لکھ کر یہ مضمون ختم کیا جاتا ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اے مہاجرین کی جماعت پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہوجاؤ گے اور اللہ کرے کہ تم ان چیزوں کو نہ پاؤ (تو طرح طرح کی مصیبتوں اور بلاؤں میں ابتلاء ہوگا۔ ) (١) جس قوم میں کھلم کھلا طریقہ بےحیائی کا رواج ہوجائے گا ان لوگوں میں طاعون پھیلے گا اور ایسے امراض میں مبتلا ہوں گے جو ان کے اسلاف میں نہیں تھے۔ (٢) اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کریں گے ان کو قحط کے ذریعہ پکڑا جائے گا اور سخت محنت اور بادشاہ کے ظلم میں مبتلا ہونگے۔ (٣) اور جو لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ کو روک لیں ان سے بارش روک لی جائے گی اور اگر جانور نہ ہوں تو (بالکل ہی) بارش نہ ہو۔ (٤) اور جو لوگ اللہ کے عہد کو اور اس کے رسول کے عہد کو توڑ دیں گے ان کے اوپر دشمن مسلط کردیا جائے گا وہ ان کے بعض اموال لے لے گا۔ (٥) اور جس قوم کے اصحاب اقتدار اللہ کی کتاب کے ذریعے فیصلے نہ کریں گے اور اللہ نے جو چیز نازل فرمائی اس کو اختیار نہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے آپس میں ایسی مخالفت پیدا فرما دے گا جس کی وجہ سے آپس میں لڑتے رہیں گے۔ (رواہ ابن ماجہ فی باب العقوبات ص ١١٢)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32:۔ یہ دوسرا ظلم ہے۔ یہ بھی ظلم ہے کیونکہ ولد الزنا کو یا تو مار ڈالیں گے یا پھر وہ مادر و پدر کی مشفقانہ پرورش سے محروم رہے گا۔ ” ولا تقربوا الزنا “ (زنا کے قریب بھی مت جاؤ) کی تعبیر میں ” لا تزنوا “ (زنا نہ کرو) کی نسبت زیادہ مبالغہ ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے تمام کاموں سے بھی دور رہو جو ... زنا کا پیش خیمہ ہوں مثلاً غیر محرم عورتوں سے آزادانہ میل جول، بےتکلف گفتگو، بری نگاہ وغیرہ۔ ای لا تاتوا بدواعیھا من العزم علیہ او علی بعض مقدما تھا فضلا ان تباشروہ (مظہری ج 5 ص 436) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

32 اور زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو اور قریب بھی نہ جائو بلاشبہ وہ بڑی بےحیائی کی بات ہے اور وہ بہت بری راہ ہے۔ یعنی فی حد ذات بیحیائی اور مفاسد کے اعتبار سے بری راہ ہے قریب نہ جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مبادی اور اس کے دواعی سے بھی دور رہو۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اگر یہ راہ نکلے تو ایک دوسرے کی عورت...  پر نظر کرے کوئی اور اس کی عورت پر کرے۔ 12  Show more