Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 37

سورة بنی اسراءیل

وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ۚ اِنَّکَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَ لَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا ﴿۳۷﴾

And do not walk upon the earth exultantly. Indeed, you will never tear the earth [apart], and you will never reach the mountains in height.

اور زمین میں اکڑ کر نہ چل کہ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Condemnation of strutting Allah forbids His servants to strut and walk in a boastful manner: وَلاَ تَمْشِ فِي الاَرْضِ مَرَحًا ... And walk not on the earth with conceit and arrogance. meaning, walking in boastful manner and acting proud, like those who are arrogant oppressors. ... إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ الاَرْضَ ... Verily, you can neither rend nor penetrate the earth, means, you cannot penetrate the earth with your walking. This was the opinion of Ibn Jarir. ... وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً nor can you attain a stature like the mountains in height. كُلُّ ذَلِكَ كَانَ سَيٍّيُهُ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوهًا

تکبر کے ساتھ چلنے کی ممانعت اکڑ کر ، اترا کر ، تکبر کے ساتھ چلنے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو منع فرماتا ہے ۔ یہ عادت سرکش اور مغرور لوگوں کی ہے پھر اسے نیچا دکھانے کے لئے فرماتا ہے کہ گو کتنے ہی بلند سر ہو کر چلو لیکن پہاڑی کی بلندی سے پست ہی رہو گے اور گو کیسے ہی کھٹ پٹ کرتے ہوئے پاؤں مار مار کر چلو لیکن زمین کو پھاڑنے سے رہے ۔ بلکہ ایسے لوگوں کا حال برعکس ہوتا ہے جیسے کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص چادر جوڑے میں اتراتا ہوا چلا جا رہا تھا جو وہیں زمین میں دھنسا دیا گیا جو آج تک دھنستا ہوا چلا جا رہا ہے ۔ قرآن میں قارون کا قصہ موجود ہے کہ وہ مع اپنے محلات کے زمین دوز کر دیا گیا ۔ ہاں تواضع ، نرمی ، فروتنی اور عاجزی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بلند کرتا ہے وہ اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے اور لوگ اسے جلیل القدر سمجھتے ہیں اور تکبر کرنے والا اپنے تئیں بڑا آدمی سمجھتا ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں وہ ذلیل و خوار ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے کتوں اور سوروں سے بھی زیادہ حقیر جانتے ہیں ۔ امام ابو بکر بن ابی الدنیا رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب المحمول والتواضع میں لائے ہیں کہ ابن الاہیم دربار منصور میں جا رہا تھے ریشمی جبہ پہنے ہوئے تھا اور پنڈلیوں کے اوپر سے اسے دوہرا سلوایا تھا کہ نیچے سے قبا بھی دکھائی دیتی رہے اور اکڑتا اینڈتا جا رہا تھا ۔ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اس حالت میں دیکھ کر فرمایا افوہ نک چڑھا ، بل کھایا ، رخساروں پھولا ، اپنے ڈنڑ بازو دیکھتا ، اپنے تیئں تولتا ، مستوں کے ذکر و شکر کو بھولا ، رب کے احکام کو چھوڑے ہوئے ، اللہ کے حق کو توڑا ، دیوانوں کی چال چلتا ، عضو عضو میں کسی کی دی ہوئی نعمت رکھتا ، شیطان کی لعنت کا مارا ہوا دیکھو جا رہا ہے ۔ الاہیم نے سن لیا اور اسی وقت لوٹ آیا اور عذر بہانہ کرنے لگا ۔ آپ نے فرمایا مجھ سے کیا معذرت کرتا ہے اللہ تعالیٰ سے توبہ کر اور اسے ترک کر ۔ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا آیت ( وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا 37؀ ) 17- الإسراء:37 ) ۔ عابد بختری رحمۃ اللہ علیہ نے آل علی میں سے ایک شخص کو اکڑتے ہوئے چلتا دیکھ کر فرمایا اے شخص جس نے تجھے یہ اکرام دیا ہے اس کی روش ایسی نہ تھی ۔ اس نے اسی وقت توبہ کر لی ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ایسے شخص کو دیکھ کر فرمایا کہ شیطان کے یہی بھائی ہوتے ہیں ۔ حضرت خالد بن معدان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں لوگو اکڑ اکڑ کر چلنا چھوڑو اس لئے کہ انسان ۔ ( اصل عربی میں کچھ عبارت غائب ہے ) اس کا ہاتھ اس کے باقی جسم سے ( ابن ابی الدنیا ) ابن ابی الدنیا میں حدیث ہے کہ جب میری امت غرور اور تکبر کی چال چلنے لگے گی اور فارسیوں اور رومیوں کو اپنی خدمت میں لگائے گی تو اللہ تعالیٰ ایک کو ایک پر مسلط کر دے گا ۔ سیئہ کی دوسری قرأت سیئتہ ہے تو معنی یہ ہوئے کہ جن جن کاموں سے ہم نے تمہیں روکا ہے یہ سب کام نہایت برے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ ہیں ۔ یعنی اپنی اولاد کو قتل نہ کرو سے لے کر اکڑ کر نہ چلو تک کے تمام کام ۔ اور سیئہ کی قرأت پر مطلب یہ ہے کہ آیت ( وقضی ربک ) سے یہاں تک جو حکم احکام اور جو ممانعت اور روک بیان ہوئی اس میں جن برے کاموں کا ذکر ہے وہ سب اللہ کے نزدیک مکروہ کام ہیں ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے یہی توجیہ بیان فرمائی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 اترا کر اور اکڑ کر چلنا، اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ قارون کو اسی بنا پر اس کے گھر اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا (فَخَسَفْنَا بِهٖ وَبِدَارِهِ الْاَرْضَ ۣ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ يَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۤ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِيْنَ ) 28 ۔ القصص :81) حدیث میں آتا ہے ' ایک شخص دو چادریں پہنے اکڑ کر چل رہا تھا کہ اس کو زمین میں دھنسا دیا گیا اور وہ قیامت تک دھنستا چلا جائے گا۔ (صحیح مسلم) اللہ تعالیٰ کو عاجزی پسند ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٧] متکبرانہ چال سخت مذموم ہے اور اس اصل میں استثناء :۔ متکبرانہ چال اللہ تعالیٰ کو سخت ناگوار ہے اور جو انسان، اکڑ اکڑ کر، گال پھلا کر اور اور اپنے تہبند کو زمین پر گھسٹتے ہوئے چلتا ہے۔ اللہ ایسے انسان کو دنیا میں ضرور سزا دیتا ہے مثل مشہور ہے کہ && غرور کا سر نیچا && تو اس کا سر نیچا ہو ہی جاتا ہے۔ متکبر ہونا صرف اللہ کو سزاوار ہے اور کسی کو یہ صفت زیبا نہیں۔ انسان کی چال میں انکساری اور وقار ہونا چاہیے لیکن ایسی بھی نہ ہو کہ انسان حقیر اور ذلیل معلوم ہو بلکہ چال میں میانہ روی کی روش اختیار کرنا چاہیے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ( وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ 19؀ ) 31 ۔ لقمان :19) یعنی اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور فرمایا : ( وَعِبَاد الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا 63؀) 25 ۔ الفرقان :63) (جو لوگ زمین پر انکساری کے ساتھ چلتے ہیں) یہاں ھَوْن کا لفظ فرمایا جس میں انکساری اور وقار دونوں شامل ہوتے ہیں۔ ھُوْن نہیں فرمایا جس کا معنی ذلت اور حقارت ہوتا ہے۔ اس کلیہ میں بھی ایک استثناء کا مقام ہے اگر کفار کے سامنے مظاہرہ مقصود ہو تو اس وقت اکڑ کر چلنا ہی اللہ کو پسند ہے۔ جنگ احد میں سب صحابہ کے مقابلہ میں آپ نے اپنی تلوار ابو دجانہ کو عنایت فرمائی تو وہ کافروں کے سامنے اکڑ اکڑ کر چلنے لگے۔ یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ یہ چال اللہ کو پسند نہیں مگر اس وقت پسند ہے۔ عمرہ قضاء کے وقت آپ نے صحابہ کرام (رض) کو رمل کا حکم دیا۔ اس سے بھی یہی مقصود تھا۔ فتح مکہ کے وقت آپ نے اور سب صحابہ نے کافروں کے سامنے ایسا ہی پر شکوہ مظاہرہ فرمایا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا : ” مَرَحًا “ اصل میں حد سے بڑھی ہوئی خوشی کو کہتے ہیں، جس کے ساتھ تکبر اور لوگوں سے اونچا ہونے کا اظہار ہو۔ ” فِي الْاَرْضِ “ سے اس بات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ تو اسی زمین سے پیدا ہوا اور اسی کی آغوش میں سمٹ جائے گا۔ (دیکھیے طٰہٰ : ٥۔ مرسلات : ٢٥ تا ٢٧) پھر اس پر یہ تکبر کیسا ؟ اسلام کے سکھائے ہوئے ادب کے مطابق اپنی چال میں تواضع اور میانہ روی اختیار کر۔ دیکھیے سورة لقمان (١٨، ١٩) اور فرقان (٦٣) ۔ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ ۔۔ : اس میں انسان کو مذاق کے انداز میں اس کی حیثیت یاد دلائی گئی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکبر کا برا انجام بہت سی احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِيْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ ، قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہُ حَسَنًا، وَنَعْلُہُ حَسَنَۃً ، قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ ، الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ ) [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر وبیانہ : ٩١ ] ” وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر کبر ہوگا۔ “ ایک آدمی نے کہا : ” آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا خوبصورت ہو اور اس کا جوتا خوبصورت ہو ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بیشک اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے، کبر تو حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ “ اور ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ جَرَّ ثَوْبَہُ خُیَلاَءَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) [ بخاری، اللباس، باب من جر إزارہ۔۔ : ٥٧٨٤۔ مسلم : ٢٠٨٥ ] ” اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو نہیں دیکھے گا جو اپنی چادر تکبر سے کھینچے۔ “ افسوس کہ مسلمان مردوں نے کفار کی تقلید میں اپنی شلواریں، پتلونیں ٹخنوں سے نیچے رکھنے کو عادت بنا لیا ہے اور عذر یہ کرتے ہیں کہ ہم تکبر سے ایسا نہیں کرتے، حالانکہ اگر بےدھیانی میں بےاختیار کپڑا لٹک جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے تکبر سے ایسا نہیں کیا، لیکن جان بوجھ کر لمبی شلوار سلوانا اور اسے جان بوجھ کر ٹخنوں سے نیچے رکھنا صاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی اور واضح تکبر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے از خود چادر لٹکانے ہی کو تکبر میں شمار کیا ہے، چناچہ جابر بن سلیم (رض) سے ایک لمبی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَارْفَعْ إِزَارَکَ إِلٰی نِصْفِ السَّاقِ فَإِنْ أَبَیْتَ فَإِلَی الْکَعْبَیْنِ وَإِِیَّاکَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ فَإِِنَّھَا مِنَ الْمَخِیْلَۃِ وَإِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمَخِیْلَۃَ ) [ أبوداوٗد، اللباس، باب ما جاء في إسبال الإزار : ٤٠٨٤ ] ” اور اپنی چادر نصف پنڈلی تک اٹھاؤ، پھر اگر تم نہیں مانتے تو ٹخنوں تک اور (ٹخنوں سے نیچے) چادر لٹکانے سے بچو، کیونکہ یقیناً یہ تکبر سے ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔ “ شیخ البانی (رض) نے اسے صحیح کہا ہے۔ بےدین لوگوں کا تو کہنا ہی کیا ہے، آج کل بہت سے لوگ بلکہ کئی جماعتیں جو پاکستان میں، بلکہ دنیا بھر میں اقامت دین کا علم اٹھائے ہوئے ہیں، ان کے مرد دھڑلے سے کپڑا ٹخنے سے نیچے رکھتے ہیں، بلکہ کپڑا اٹھانے والوں کو طنز و مزاح کا نشانہ بناتے ہیں، اس کے برعکس مسلم عورتوں کی اکثریت جنھیں اپنے پاؤں تک چھپانے تھے وہ کپڑا اٹھا کر اپنے حسن کی نمائش کرکے اللہ تعالیٰ کی لعنت کا نشانہ بن رہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The thirteenth injunction appearing in the second of the two cited verses (37) is: وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْ‌ضِ مَرَ‌حًا (And do not walk on the earth haughti¬ly). It means that one should not walk in a way that shows arrogance, pride and exultation, for this is an idiotic act. It is as if one would like to tear the earth apart just by walking on it - something not in his power to accomplish. Or, as if by walking with a challenging gait, he would like to rise much higher - but the mountains of Allah rise far higher than he could ever beat anatomically. In reality, arrogance as such is a major sin that can afflict human heart mortally. Therefore, one must guard against even signs of arrogance exhibited through the way one goes about in life, for they too are impermissible, after all. Walking haughtily, even though one may not be walking by exerting force on the earth, and assuming airs and posing high are impermissible under all conditions. Arrogance is to take yourself superior to others and rate others to be in¬ferior to you. Severe warnings against it appear in Hadith. Imam Muslim (رح) has reported on the authority of Sayyidna ` Iyad ibn ` Ammar (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Allah Ta` ala has sent this command to me through revelation: Take to humility. Let no man pride on another man, nor adopt an attitude of self-eminence and let no one be unjust to anyone.|" (Mazhari) And Sayyidna ` Abdullah ibn Masud (رض) narrates that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, Not to enter Paradise is he who has arrogance in his heart even to the measure of a particle|" (Mazhari with reference to the Sahih of Muslim). And it has been reported in Hadith Qudsi on the authority of Sayyid¬na Abu Hurairah (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Allah Ta’ ala says that grandeur is My mantle and greatness is My breech. Whoever tries to snatch these from Me, him I shall put in Jahannam (The words rida& and izar signify dress and Allah Ta` ala has no mass or body that would need a dress. Therefore, at this place, it means the attribute of divine glo¬ry. So, whoever betrays the wish to become associated with Allah Ta’ ala in this attribute belongs to Hell). And in another Hadith the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said, |"On the day of Qiyamah, arrogant people will be raised as hu¬mans scaled down to the size of tiny ants under the shadow of disgrace descending from all sides. They will be driven to a prison of Hell called Bulas. It will be surrounded with blazing fire, the highest around, and they will be drinking pus and blood excreted by the inmates of Hell to quench their thirst.|" (Tirmidhi on the authority of ` Amr ibn Shu&aib, he from his father, he from his grandfather - Mazhari) And speaking from the pulpit, Sayyidna ` Umar (رض) said, |"I have heard from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that a person who takes to humility, Allah Ta’ ala elevates him to higher ranks following which he is, though, insignificant in his own sight, but he is great in the sight of everybody else. And whoever waxes proud, him Allah Ta’ ala puts to disgrace follow¬ing which he is, though, great in his own sight but he is, in the sight of people, worse than a dog and pig.|" (Mazhari)

مذکورہ دو آیتوں میں سے دوسری آیت میں تیرھواں حکم یہ ہے کہ زمین پر اترا کر نہ چلو یعنی ایسی چال نہ چلو جس سے تکبر اور فخر و غرور ظاہر ہوتا ہو کہ یہ احمقانہ فعل ہے گویا زمین پر چل کر وہ زمین کو پھاڑ دینا چاہتا ہے جو اس کے بس میں نہیں اور تن کر چلنے سے بہت اونچا ہونا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ کے پہاڑ اس سے بہت اونچے ہیں تکبر دراصل انسان کے دل سے متعلق شدید کبیرہ گناہ ہے انسان کے چال ڈھال میں جو چیزیں تکبر پر دلالت کرنے والی ہیں وہ بھی ناجائز ہیں متکبرانہ انداز سے چلنا خواہ زمین پر زور سے نہ چلے اور تن کر اونچا نہ بنے بہرحال ناجائز ہیں تکبر کے معنی اپنے آپ کو دوسروں سے افضل واعلی سمجھنا اور دوسروں کو اپنے مقابلہ میں کمتر و حقیر سمجھنا ہے حدیث میں اس پر سخت وعیدیں مذکور ہیں۔ امام مسلم نے بروایت حضرت عیاض بن عمار نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے پاس بذریعہ وحی یہ حکم بھیجا ہے کہ تواضع اور پستی اختیار کرو کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی پر فخر اور اپنی بڑائی کا طرز اختیار نہ کرے اور کوئی کسی پر ظلم نہ کرے ( مظہری) اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جنت میں داخل نہیں ہوگا وہ آدمی جس کے دل میں ذرہ کی برابر بھی تکبر ہوگا (مظہری بحوالہ صحیح مسلم) اور ایک حدیث قدسی میں بروایت ابوہریرہ (رض) مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میری ازار جو شخص مجھ سے ان کو چھیننا چاہئے تو میں اس کو جہنم میں داخل کروں گا (چادر اور ازار سے مراد لباس ہے اور اللہ تعالیٰ نہ جسم ہے نہ جسمانی جس کے لئے لباس درکار ہو اس لئے اس سے مراد اس جگہ اللہ تعالیٰ کی صفت کبریائی ہے جو شخص اس صفت میں اللہ تعالیٰ کا شریک بننا چاہے وہ جہنمی ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تکبر کرنے والے قیامت کے دن چھوٹی چیونٹیوں کے برابر انسانوں کی شکل میں اٹھائے جاویں گے جن پر ہر طرف سے ذلت و خواری برستی ہوگی ان کو جہنم کے ایک جیل خانہ کی طرف ہانکا جائے گا جس کا نام بولس ہے ان پر سب آگوں سے بڑی تیز آگ چڑھی ہوگی اور پینے کے لئے ان کو اہل جہنم کے بدن سے نکلا ہوا پیپ لہو دیا جائے گا (ترمذی بروایت عمر بن شعیب عن ابیہ عن جدہ از مظہری) اور حضرت فاروق اعظم (رض) نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جو شخص تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو سربلند فرماتے ہیں تو وہ اپنے نزدیک تو چھوٹا مگر سب لوگوں کی نظروں میں بڑا ہوتا ہے اور جو شخص تکبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل کرتے ہیں تو وہ خود اپنی نظر میں بڑا ہوتا ہے اور لوگوں کی نظر میں وہ کتے اور خنزیر سے بھی بد تر ہوتا ہے (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا 37؀ مشی المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور/ 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها . ( م ش ی ) المشی ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور/ 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ می کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔ مرح المَرَحُ : شدّة الفرح والتّوسّع فيه، قال تعالی: وَلا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً [ الإسراء/ 37] وقرئ : ( مَرِحاً ) «3» أي : فَرِحاً ، ومَرْحَى: كلمة تعجّب . ( م ر ح ) المرح کے معنی ہیں بہت زیادہ اور شدت کی خوشی جس میں انسان اترانے لگ جائے قرآن میں ہے : وَلا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً [ الإسراء/ 37] اور زمین پر اکڑا کر ( اور اٹھلاکر ) مت چل ۔ اس میں ایک قرآت مرحا بمعنی فرحا بھی ہے ۔ مرحی یہ کلمہ تعجب ہے ( اور احسنت یا اصبت کی جگہ استعمال ہوتا ہے ) یعنی خوب کیا کہنے ہیں خرق الخَرْقُ : قطع الشیء علی سبیل الفساد من غير تدبّر ولا تفكّر، قال تعالی: أَخَرَقْتَها لِتُغْرِقَ أَهْلَها[ الكهف/ 71] ، وهو ضدّ الخلق، فإنّ الخلق هو فعل الشیء بتقدیر ورفق، والخرق بغیر تقدیر، قال تعالی: وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَناتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 100] ، أي : حکموا بذلک علی سبیل الخرق، وباعتبار القطع قيل : خَرَقَ الثوبَ ، وخَرَّقَه، وخَرَقَ المفاوز، واخْتَرَقَ الرّيح . وخصّ الخَرْق والخریق بالمفاوز الواسعة، إمّا لاختراق الریح فيها، وإمّا لتخرّقها في الفلاة، وخصّ الخرق بمن ينخرق في السخاء «1» . وقیل لثقب الأذن إذا توسّع : خرق، وصبيّ أَخْرَقُ ، وامرأة خَرْقَاء : مثقوبة الأذن ثقبا واسعا، وقوله تعالی: إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ [ الإسراء/ 37] ، فيه قولان : أحدهما : لن تقطع، والآخر : لن تثقب الأرض إلى الجانب الآخر، اعتبارا بالخرق في الأذن، وباعتبار ترک التقدیر قيل : رجل أَخْرَقُ ، وخَرِقُ ، وامرأة خَرْقَاء، وشبّه بها الریح في تعسّف مرورها فقیل : ريح خرقاء . وروي : «ما دخل الخرق في شيء إلّا شانه» «2» . ومن الخرق استعیرت المَخْرَقَة، وهو إظهار الخرق توصّلا إلى حيلة، والمِخْرَاق : شيء يلعب به، كأنّه يخرق لإظهار الشیء بخلافه، وخَرِقَ الغزال «3» : إذا لم يحسن أن يعدو لخرقه . ( خ ر ق ) الخرق ( ض) کسی چیز کو بلا سوچے سمجھے بگاڑنے کے لئے پھا ڑ ڈالنا ۔ قرآن میں ہے :۔ أَخَرَقْتَها لِتُغْرِقَ أَهْلَها[ الكهف/ 71] کیا آپ نے اسکو اس لئے پھاڑا ہے کہ مسافروں کو غرق کردیں ۔ خرق خلق کی ضد ہے ۔ جس کے معنی اندازہ کے مطابق خوش اسلوبی سے کسی چیز کو بنانا کے ہیں ۔ اور خرق کے معنی کسی چیز کو بےقاعدگی سے پھاڑ ڈالنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَناتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 100] اور لے سمجھے ( جھوٹ بہتان ) اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں بنا گھڑی ہیں ۔ یعنی بےسوچے سمجھے یہ بات کہتے ہیں ۔ پھر معنی قطع کے اعتبار سے کہا جاتا ہے : خرق الثوب وخرقہ کپڑے کو پھاڑ ڈالا خرق المف اور ریگستان طے کئے اخترق الریح ہوا کا تیز چلنا ۔ الخرق والخریق خاص کر کشادہ بیابان کو کہاجاتا ہے اس لئے کہ اس میں ہوائیں تیزی سے چلتی ہیں اور یا اس لئے ک وہ وسیع ریگستان کی صورت میں پھیلا ہوا ہوتا ہے ۔ الخرق ( خاص ) کپڑے میں سوراخ اور کان میں کشادہ سوراخ ۔ صبی اخرق امراۃ خرقاء جس کے کان میں کشادہ چھید ہو اور آیت کریمہ :۔ إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ [ الإسراء/ 37] کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک یہ کہ تو زمین کو طے نہیں کرسکے گا ۔ یا یہ کہ تو زمین کو پانے پاؤں سے پھاڑ نہیں ڈالے گا ۔ یہ دوسرا معنی خرق فی الاذن سے ماخوذ ہے اور بےسوچے سمجھے کام کرنے کے اعتبار سے احمق اور نادان شخص کو اخرق وخرق کہاجاتا ہے اس کی مونث خرقاء ہے ۔ اور تند ہوا کو بھی خرقاء کہہ دیا جاتا ہے ۔ اور تند ہوا کو بھی خرقاء کہہ دیا جاتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے (108) مادخل الخرق فی شئی الا شانہ جس چیز میں نادانی کا عمل دخل ہو وہ عیب ناک ہوجاتی ہے اور خرق سے مخرقۃ کا لفظ لیا گیا ہے جس کے معنی کسی کام میں حیلہ جوئی کے لئے بےوقوفی کا اظہار کرنے کے ہیں ۔ المخراق کپڑے کا کوڑا جس سے بچے کھلیتے ہیں گویا اسے بھی کسی چیز کو واقع کے خلاف ظاہر کرنے کے لئے بنایا جاتا ہے ۔ خرق الغزال ہر ن کا نادانی کی وجہ سے دوڑ نہ سکنا ۔ جبل الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل : أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] ( ج ب ل ) قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا |" ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟ طول الطُّولُ والقِصَرُ من الأسماء المتضایفة كما تقدّم، ويستعمل في الأعيان والأعراض کالزّمان وغیره قال تعالی: فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید/ 16] ، سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، ويقال : طَوِيلٌ وطُوَالٌ ، و عریض وعُرَاضٌ ، وللجمع : طِوَالٌ ، وقیل : طِيَالٌ ، وباعتبار الطُّولِ قيل للحبل المرخيِّ علی الدّابة : طِوَلٌ «3» ، وطَوِّلْ فرسَكَ ، أي : أَرْخِ طِوَلَهُ ، وقیل : طِوَالُ الدّهرِ لمدّته الطَّوِيلَةِ ، وَتَطَاوَلَ فلانٌ: إذا أظهر الطُّولَ ، أو الطَّوْلَ. قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] ، وَالطَّوْلُ خُصَّ به الفضلُ والمنُّ ، قال : شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر/ 3] ، وقوله تعالی: اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة/ 86] ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء/ 25] ، كناية عمّا يصرف إلى المهر والنّفقة . وطَالُوتُ اسمٌ عَلَمٌ وهو أعجميٌّ. ( ط و ل ) الطول یہ اسمائے اضافیہ سے ہے ۔ اور اس کے معنی دراز اور لمبا ہونا کے ہیں یہ القصر کے مقابلہ میں آتا ہے اور اعیان واعرراض مثلا زمانہ وغیرہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید/ 16] پھر ان پر لمبا عرصہ گزر گیا ۔ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] بہت لمبے شغل ( ہوتے ہیں ) طول طول جیسے عریض و عریض دراز لمبا اس کی جمع طوال آتی ہے اور بعض نے طیال بھی کہا ہے اور لمبا ہونے کی مناسبت سے جانور کی پچھاڑی کی رسی کو طول کہا جاتا ہے طول کہا جاتا ہے طول فرسک اپنے گھوڑے کی پچھاڑی باندھ دے ۔ طوال الدھر عرصہ دارز ۔ تطاول فلان درازی یا وسعت کو ظاہر کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] پھر ان پر لمبا عرسہ گزر گیا ۔ اور طول کا لفظ خاص کر فضل و احسان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر/ 3] سخت عذاب دینے والا اور صاحب کرم ہے ۔ اور آیت کریمہ : اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة/ 86] تو جو ان میں دولتمند ہیں وہ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں میں اولوالطول سے خوش حال طبقہ مراد ہے اور آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء/ 25] اور جو شخص تم میں سے مقدر نہ رکھے ۔ میں طولا کنایہ ہے اس مال سے ( جو عورت کو ) مہر میں یا نان ونفقہ کے طور پر دینا پڑتا ہے ۔ طالوت یہ اسم عجمی ہے اور بنی اسرائیل کے ایک با اقبال بادشاہ کا نام تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٧) اور زمین پر تکبر کے ساتھ اتراتا ہوا مت چل کیوں کہ تو اپنے اترانے اور زمین پر زور سے قدم رکھنے ے ساتھ زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ (بدن تان کر) پہاڑوں کی لمبائی کو پہنچ سکتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ (وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا) تم جس قدر چاہو طاقتور ہوجاؤ اور ہماری زمین پر جتنا بھی اکڑ اکڑ کر اور پاؤں مار مار کر چل لو تم اپنی طاقت سے زمین کو پھاڑ نہیں سکتے اور جس قدر چاہو گردن اکڑا لو اور طرہ و دستار سے سربلند کرلو تم قد میں ہمارے پہاڑوں کے برابر تو نہیں ہوسکتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

43. This instruction warns against the ways of tyrants and vain people and is not merely meant for the individual but also for the collective conduct of the Muslim community. It was because of this guidance that the rulers, governors and commanders of the Islamic state which was established on the basis of this manifesto, were free from every tinge of tyranny, arrogance, haughtiness, pride and vanity, so much so that even in the battlefield they never uttered a word which had the slightest indication of any of these vain things. Their gait, dress, dwelling and conveyance showed humility. In short, their ways of conduct were not those of big ones but those of humble persons. That is why they never tried to overawe the people of a conquered city by show of pomp and pride.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :43 مطلب یہ ہے کہ جباروں اور متکبروں کی روش سے بچو ۔ یہ ہدایت بھی انفرادی طرز عمل اور قومی رویے دونوں پر یکساں حاوی ہے ۔ اور یہ اسی ہدایت کا فیض تھا کہ مدینہ طیبہ میں جو حکومت اس منشور پر قائم ہوئی اس کے فرماں رواؤں ، گورنروں اور سپہ سالاروں کی زندگی میں جباری اور کبریائی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا ۔ حتی کہ عین حالت جنگ میں بھی کبھی ان کی زبان سے فخر و غرور کی کوئی بات نہ نکلی ۔ ان کی نشست و برخاست ، چال ڈھال ، لباس ، مکان ، سواری اور عام برتاؤ میں انکسار و تواضع ، بلکہ فقیری و درویشی کی شان پائی جاتی تھی ، اور جب وہ فاتح کی حیثیت سے کسی شہر میں داخل ہوتے تھے اس وقت بھی اکڑ اور بتختُر سے کبھی اپنا رعب بٹھانے کی کوشش نہ کرتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

22: اکڑ کر چلنے کے لیے ایک تو کچھ لوگ زمین پر زور زور سے پاؤں مار کر چلتے ہیں۔ دوسرے سینہ تان کر چلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پہلی صورت کے لیے کہا گیا ہے کہ پاؤں چاہے کتنے زور سے مار لو، تم زمین کو پھاڑ نہیں سکتے، اور دوسری صورت کے لیے فرمایا گیا ہے کہ سینہ تان کر اپنا قد اونچا کرنے کی کتنی ہی کوشش کرلو، تمہاری لمبائی پہاڑوں سے زیادہ نہیں ہوسکتی، اور اگر لمبا قد ہی فضیلت اور بڑائی کا معیار ہوتا تو پہاڑوں کو تم سے افضل ہونا چاہئے تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:37) لا تمش۔ فعل نہی واحد مذکر حاضر۔ تو نہ چل۔ تو مت چل۔ مشی یمشی (ضرب) سے۔ مشی مصدر۔ مرحا۔ المرح کے معنی ہیں بہت زیادہ اور شدت کی خوشی جس میں انسان اترانے لگے مرحا اترا کر۔ نخوت و تکبر سے۔ لا تمش سے حال ہے۔ لن تخرق مضارع نفی تاکید بلن۔ تو نہیں پھاڑ سکتا۔ تو نہیں پھاڑے گا۔ تخرق منصوب بوجہ عمل لن کے ہے۔ الخرق (ضرب) کسی چیز کو بلا سوچے سمجھے بگاڑنے کے لئے پھاڑ ڈالنا۔ خلق کی ضد ہے جس کے معنی اندازہ کے مطابق خوش اسلوبی سے کسی چیز کو بنانے کے ہیں اور خرق کسی چیز کو بےقاعدگی سے پھاڑ ڈالنا کے ہیں۔ خرق۔ شگاف۔ سوراخ ۔ بےآب وگیاہ بیابان۔ اور خرقۃ کپڑے کا چیتھڑا ۔ دھجی۔ لن تبلغ۔ بلغ یبلغ (نصر) سے مضارع نفی تاکید بہ لن۔ تو نہیں پہنچ سکے گا۔ یا تو نہیں پہنچے گا۔ طولا۔ لمبائی میں۔ بلندی میں۔ طولاکا نصب بوجہ تمیز کے ہے یا یہ لن تبلغ کا مفعول لہٗ ہے یا فاعل یا مفعول (الجبال) سے حال ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ اکڑ کر چلنا کبیرہ گناہ ہے۔ صاحب روح لکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں تو جسے وہ مسئلے آتے ہوں یا اس کے سامنے دو طالب علم بیٹھے ہوں وہ بھی اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور نہایت تکبر سے چلتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فضولیات میں پڑنے اور برے خیالات سے روکنے کے بعد متکبرانہ چال ڈھال اختیار کرنے سے روکا گیا ہے۔ حقیقتاً یہ بھی فضول حرکت ہے کیونکہ متکبر انسان اللہ تعالیٰ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ انسان جب ذہنی طور پر پراگندہ اور قلبی لحاظ سے برا ہوجائے تو وہ اپنے سوا کسی کو اچھا نہیں سمجھتا۔ ایسے شخص کے دل میں غرور اور تکبرکا پیدا ہونا یقینی بات ہے۔ بالخصوص جب ایسے شخصکو مال کی فراوانی، اقتدار اور اختیار دیا جائے یا اسے کسی قسم کی برتری حاصل ہوجائے تو وہ فخر و غرور اور تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص ناصرف اپنی گفتگو میں شیخی بگھار تا ہے۔ بلکہ اس کی چال ڈھال میں غرور اور تکبر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ ایسے شخص کو سرزنش کے انداز میں کہا جا رہا ہے کہ زمین پر اکڑ، اکڑکر مت چل کیونکہ اس طرح چلنے سے نہ تو زمین پھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی تن کر چلنے سے پہاڑوں کی بلندیوں کو پہنچ سکتا ہے۔ اے انسان ! یہ کام تیرے رب کے نزدیک نہایت ناپسندیدہ ہے۔ یہاں ” کل ذلک “ کے الفاظ استعمال فرما کر سابقہ آیات میں کی گئی تمام ممنوعات کا احاطہ کرلیا ہے تاکہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ کاموں کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھے۔ دنیا کی رسوائی اور نقصان سے بچنے کے ساتھ آخرت کی ذلت ور سوائی سے مامون ہونے کی کوشش کرے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدَرِیِّ وَأَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالاَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْعِزُّ إِزَارُہُ وَالْکِبْرِیَاءُ رِدَاؤُہُ فَمَنْ یُنَازِعُنِی عَذَّبْتُہُ )[ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب باب تحریم الکبر ) ” حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عزت اللہ کا ازار ہے اور کبریائی اس کی چادر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو ان کو مجھ سے چھینے گا میں اس کو عذاب دوں گا۔ “ (عَنِ ابْنِ عُمَر (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ اِزَارَہٗ مِنَ الْخُیَلَاءِ خُسِفَ بِہٖ فَھُوَ یَتَجَلْجَلُ فِی الْاَرْضِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ )[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ ایک دفعہ ایک شخص تکبر کے ساتھ چادر گھسیٹ کر چل رہا تھا تو اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ اب وہ قیامت تک زمین میں دھنستا جائے گا۔ “ تکبر کیا ہے ؟ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا یَدْخُلُ الجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنًا قَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ ) [ رواہ مسلم : باب تَحْرِیمِ الْکِبْرِ وَبَیَانِہِ ] ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا ‘ وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایک شخص نے کہا کہ بیشک ہر شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اور جوتے اچھے ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نہایت ہی خوب صورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو حق بات کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ “ مسائل ١۔ تکبر و غرور اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ فخر وتکبر سے نہ تو کوئی زمین پھاڑ سکتا ہے اور نہ پہاڑوں کی بلندیوں کو پاسکتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کو معصیت کے تمام کام ناپسند ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا : ١۔ زمین میں اکڑ کر نہ چل ! نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ پہاڑوں کی بلندیوں کو پہنچ سکتا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٣٧) ٢۔ اللہ تکبر کرنے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ (لقمان : ١٨) ٣۔ جو کچھ اللہ نے تمہیں عطا کیا ہے، اس پر نہ اتراؤ اور اللہ فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید : ٢٣) ٤۔ یقیناً اللہ تکبر کرنے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ (النساء : ٣٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انسان جب صاحب مال و جمال بن جاتا ہے اور اسے دنیا میں قوت اور سلطنت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ اپنے دل و دماغ سے خدا کا تصور نکال دیتا ہے ، جو اس پوری کائنات کا خالق ومالک ہے ، تو اس نظریاتی بےراہ راوی کی وجہ سے وہ کبرو غرور میں مبتلا ہوتا ہے۔ اگر انسان اس بات کو سمجھ لے کر اس کے پاس جو قوت اور مال ہے وہ اللہ کی جانب سے ہے۔ اور یہ کہ اللہ کی قوت کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تو اس کے دل و دماغ پر کبرو غرور کا غبار کبھی نہ چھائے۔ اور وہ اکڑ کر نہ چلے اور زمین کے اوپر نہایت ہی شریفانہ چال چلے۔ اس میں کوئی اکٹر نہ ہو۔ قرآن کریم اس قسم کے متکبر ، مغرور انسان کے سامنے اس کی کمزوریاں رکھتا ہے کہ دیکھو۔ انک لن تخرق الارض ولن تبلغ الحبال طولا (٧١ : ٧٣) ” تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو “۔ انسان جسمانی اعتبار سے بہت ہی نحیف و نزار ہے۔ جسمانی اعتبار سے یہ اللہ کی دوسری مخلوقات کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ انسان کے اندر جو قوت ہے وہ خدائی قوت ہے ، اس کو غلبہ صرف اللہ کے دین کے وجہ سے حاصل ہے ، اور یہ جو اس کائنات میں معزز ہے تو اس لئے کہ اللہ نے اپنی روح پھونک کر اسے معزز بنایا ہے۔ یہ عاجزی اور یہ تواضع جس کی طرف قرآن بلاتا ہے تکبر غرور اور خیالاتی برتری کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ یوں انسان درگاہ باری تعالیٰ میں بھی باادب رہتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ اس کا معاملہ بھی شریفانہ ہوتا ہے اور خیالات و تصورات میں سنجیدہ اور سوشل لائف میں متوازن ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے بعد ، اگر کوئی غرور وتکبر کرتا ہے تو وہ کم عقل ، بیوقوف اور گھٹیا انسان ہوتا ہے۔ ایسے افراد کو اللہ پسند نہیں کرتا ، کیونکہ وہ غرور میں مبتلا ہے اور عوام الناس بھی ایسے شخص کو ناپسند کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو یوں بڑا سمجھتا ہے اور بےجا پھولا ہوا ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے : من تواضحع اللہ رفعہ فھو فی نفسہ حقیر وعند الناس کبیر ، ومن استکبر وضعہ اللہ فھو فی نفسہ کبیر وعند الناس حقیر۔ ھتی لھوا بغض الیھم من الکلب والخنزیر ” جو شخص تواضع کرے محض رضائے الٰہی کے لئے ، تو اسے اللہ اٹھائے گا ، وہ تو اپنے خیال میں حقیر ہوگا لیکن لوگوں کی نظروں میں بڑا ہوگا ، جو تکبر کرے ، اللہ اسے گرا دیتا ہے ، وہ تو اپنے خیال میں بڑا آدمی ہوتا ہے ، مگر لوگوں کے نزدیک حقیر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ اس سے اس قدر نفرت کرنے لگتے ہیں جس طرح کتے اور خنزیر سے “ ( ابن کثیر) ۔ اب یہ بحث یہاں ایک اصول بات پر ختم ہوتی ہے ، جس قدر امور سے اس فہرست میں مطلع کیا گیا ہے وہ افعال مذمومہ ہیں ، اب عموماً کہا جاتا ہے کہ اللہ تمام برے اعمال اور افعال اور صفات کو پسند نہیں کرتا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں اترا کر اور اکڑ مکڑ کر چلنے کی ممانعت فرمائی اور فرمایا (وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا) (کہ تو زمین میں اتراتا ہوا مت چل) (اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا) (بےشک تو زمین کو نہیں پھاڑ سکتا اور پہاڑوں کی لمبائی کو نہیں پہنچ سکتا) یعنی ایسی چال نہ چل جس سے تکبر اور غرور ظاہر ہوتا ہو کیونکہ یہ ایک احمقانہ فعل ہے تکبر کی چال چلنے والا سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں حالانکہ اللہ کی مخلوق میں اس سے بڑی بڑی چیزیں موجود ہیں۔ زمین ہی کو دیکھ لو جس پر انسان بستے ہیں انسان اسی کو نہیں پھاڑ سکتا اور پہاڑوں کو دیکھ لو کہ وہ انسان کے قد سے بہت اونچے ہیں اترا کر چلنے والا ذرا اپنی ذات کو تو دیکھے پہاڑوں کی درازی تک تو پہنچ ہی نہیں سکتا پھر کیوں تکبر کرتا ہے اور کیا شان رکھتا ہے اور اکڑتا ہوا چلتا ہے، سورة لقمان میں فرمایا (وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ ) (اور تو زمین میں اتراتا ہوا نہ چل بلاشبہ اللہ ہر اس شخص کو دوست نہیں رکھتا جو اپنے کو بڑا سمجھنے والا ہو فخر کرنے والا ہو) تکبر انسان کے لیے زیبا نہیں، جو ذلیل پانی سے پیدا ہوا جس نے ماں کے پیٹ میں حیض کے خون سے غذا پائی جو آخر میں مردہ نعش ہو کر رہ جائے گا اسے کیا مقام ہے کہ تکبر کرے اتراتا ہوا چلے اور اللہ کی مخلوق کو حقیر جانے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، ایک شخص دو چادریں پہنے ہوئے ناز کے انداز میں چل رہا تھا خود پسندی اختیار کیے ہوئے تھا اللہ نے اسے زمین میں دھنسا دیا وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔ (صحیح البخاری ص ٤٩٠ و ص ٨٦١ کتاب اللباس والزینۃ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جب میری امت اترا کر چلنے لگے اور فارس و روم کے شہزادے ان کی خدمت کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ امت کے برے لوگوں کو ان کے اچھے لوگوں پر مسلط فرما دے گا۔ مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٥٩ انسان کے لیے تواضع ہی بہتر ہے تکبر حرام ہے اور تواضع محبوب چیز ہے، حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص تواضع اختیار کرے گا اللہ اسے بلند فرما دے گا وہ اپنے نفس میں چھوٹا ہوگا اور لوگوں کی نظروں میں بڑا ہوگا اور جو شخص متکبر ہوگا اللہ اسے گرا دے گا وہ لوگوں کی آنکھوں میں چھوٹا ہوگا اور اپنے نفس میں بڑا ہوگا لوگوں کے نزدیک کتے اور خنزیر سے بھی زیادہ ذلیل ہوگا (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٣٤) ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ تکبر کرنے والوں کا حشر قیامت کے دن ایسی حالت میں ہوگا کہ صورتیں انسانوں جیسی ہوں گی اور جسم چیونٹیوں کے برابر چھوٹے چھوٹے ہوں گے ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی انہیں دوزخ کے جیل خانے کی طرف ہنکایا جائے گا جس کا نام بولس ہے ان لوگوں پر آگوں کو جلانے والی آگ چڑھی ہوئی ہوگی۔ انہیں دوزخیوں کے جسم کا نچوڑ پلایا جائے گا (مشکوٰۃ المصابیح ٤٣٣) حضرت عیاض (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی بھیجی ہے کہ تواضع اختیار کرو تاکہ کوئی شخص کسی کے مقابلہ میں فخر نہ کرے اور کوئی شخص کسی پر ظلم نہ کرے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤١٧ از مسلم)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

37:۔ جب دنیوی مال و دولت اور جاہ و حشم کی وجہ سے انسان میں غرور وتکبر پیدا ہوجاتا ہے تو پھر وہ ہر قسم کے ظلم و ستم اور عصیان و طغیان پر آمادہ ہوجاتا ہے اس لیے غرور و استکبار سے منع فرمایا کہ اپنی حقیقت دیکھو تم ایک عاجز اور بےبس انسان سے زیادہ کچھ نہیں ہو۔ نہ تم زمین کو پاؤں کی ٹھوکر سے پھاڑ سکتے ہو اور نہ گردن اونچی کر کے اور سینہ تان کر پہاڑوں کے برابر ہوسکتے ہو اس لیے اس عجز و کم مائیگی کے باوجود اکڑ اکڑ کر اور سینہ تان کر چلنے سے کیا فائدہ ؟

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

37 اور زمین پر متکبرانہ چال سے اتراتا ہوا نہ چلا کر کیوں کہ نہ تو زمین کو اپنی چال سے پھاڑ سکے گا اور نہ تو اکڑ کر چلنے کی وجہ سے پہاڑوں کی لمبائی تک پہونچ سکے گا۔ یعنی یہ بھی۔ تیری قدرت سے باہر اور وہ بھی تیری قوت سے باہر پھر اترا کر چلنا عبث اور بےکار اور جن چیزوں پر بظاہر قدرت معلوم ہوتی ہے ان پر بھی حقیقی قدرت و اختیار نہیں لہٰذا جملہ امور میں تکبر اور اترانا ممنوع ہوا۔