Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 39

سورة بنی اسراءیل

ذٰلِکَ مِمَّاۤ اَوۡحٰۤی اِلَیۡکَ رَبُّکَ مِنَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ وَ لَا تَجۡعَلۡ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَتُلۡقٰی فِیۡ جَہَنَّمَ مَلُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا ﴿۳۹﴾

That is from what your Lord has revealed to you, [O Muhammad], of wisdom. And, [O mankind], do not make [as equal] with Allah another deity, lest you be thrown into Hell, blamed and banished.

یہ بھی منجملہ اس وحی کے ہے جو تیری جانب تیرے رب نے حکمت سے اتاری ہے تو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بنانا کہ ملامت خوردہ اور راندہ ٔدرگاہ ہو کر دوزخ میں ڈال دیا جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Everything previously mentioned is Revelation and Wisdom Allah says: ذَلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ ... This is (part) of Al-Hikmah (wisdom) which your Lord has revealed to you. Allah says, `What We have commanded you to do is part of good manners, and what We have forbidden you are evil qualities. We have revealed this to you, O Muhammad, so that you may command the people likewise.' ... وَلاَ تَجْعَلْ مَعَ اللّهِ إِلَهًا اخَرَ فَتُلْقَى فِي جَهَنَّمَ مَلُومًا ... And set not up with Allah any other god lest you should be thrown into Hell, blameworthy, meaning, your own self will blame you, as will Allah and His creation. ... مَّدْحُورًا rejected, means far removed from everything good. Ibn Abbas and Qatadah said: "(It means) cast out." This is an address to the Ummah via the Messenger, for he is infallible.

ذلیل کی عادتیں یہ احکام ہم نے دئیے ہیں ۔ سب بہترین اوصاف ہیں اور جن باتوں سے ہم نے روکا ہے وہ بڑی ذلیل خصلتیں ہیں ہم یہ سب باتیں تیری طرف بذریعہ وحی کے نازل فرما رہے ہیں کہ تو لوگوں کو حکم دے اور منع کرے ۔ دیکھ میرے ساتھ کسی کو معبود نہ ٹھیرانا ورنہ وہ وقت آئے گا کہ خود اپنے آپ کو ملامت کرنے لگے گا اور اللہ کی طرف سے بھی ملامت ہو گی بلکہ تمام اور مخلوق کی طرف سے بھی ۔ اور تو ہر بھلائی سے دور کر دیا جائے گا ۔ اس آیت میں بواسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی امت سے خطاب ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو معصوم ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] یہ سب باتیں بیش بہا نصیحتیں اور حکمت کے موتی ہیں۔ جن پر تمہارے تہذیب و تمدن اور عقائد و اخلاق کی عمارت استوار ہوگی۔ ان تمام باتوں میں سے پہلی بات توحید سے متعلق تھی اسی پر ان نصائح کا اختتام ہو رہا ہے۔ کیونکہ ان سب کا اصل الاصول توحید ہی ہے لہذا آخر میں اس کی پھر تاکید کی گئی۔ کیونکہ توحید کے بغیر تو کوئی نیکی بھی کام نہ آسکے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ مِمَّآ اَوْحٰٓى اِلَيْكَ ۔۔ : نصیحت کی ابتدا ” لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ “ سے ہوئی تھی اور اسی کے ساتھ بات ختم فرمائی۔ اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے اسی سورت کی آیت (٢٢) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ باتیں (یعنی احکام مذکورہ) اس حکمت میں کی ہیں جو خدا تعالیٰ نے آپ پر وحی کے ذریعہ بھیجی ہیں (اور اے مخاطب) اللہ برحق کے ساتھ کوئی اور معبود تجویز نہ کرنا ورنہ تو الزام خوردہ اور راندہ ہو کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا (احکام مذکورہ کو شروع بھی توحید کے مضمون سے کیا گیا تھا ختم بھی اسی پر کیا گیا اور آگے بھی اسی مضمون توحید کا بیان ہے کہ جب اوپر شرک کا قبیح اور باطل ہونا سن لیا) تو کیا (پھر بھی ایسی باتوں کے قائل ہوتے ہو جو توحید کے خلاف ہیں مثلا یہ کہ) تمہارے رب نے تم کو تو بیٹوں کے ساتھ خاص کیا ہے اور خود فرشتوں کو (اپنی) بیٹیاں بنائی ہیں (جیسا کہ عرب کے جاہل فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے جو دو وجہ سے باطل ہے اول تو اللہ کے لئے اولاد قرار دینا پھر اولاد بھی لڑکیاں جن کو لوگ اپنے لئے پسند نہیں کرتے ناکارہ سمجھتے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ کی طرف ایک اور نقص کی نسبت ہوتی ہے) بیشک تم بڑی بات کہتے ہو اور (افسوس تو یہ ہے کہ اس مضمون توحید اور شرک کے ابطال کو) ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے بیان کردیا ہے تاکہ اچھی طرح سمجھ لیں اور مختلف طریقوں سے بار بار توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال کے وجود توحید سے) ان کو نفرت ہی جاتی ہے آپ (ابطال شرک کے لئے ان سے) فرمائیے کہ اگر اس (معبود برحق) کے ساتھ اور معبود بھی (شریک) ہوتے جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو اس حالت میں عرش والے (حقیقی خدا) تک انہوں نے (یعنی دوسرے معبودوں نے کبھی کا) راستہ ڈھونڈ لیا ہوتا) (یعنی جن کو تم اللہ کے ساتھ خدائی کا شریک قرار دیتے ہو اگر وہ واقعی شریک ہوتے تو عرش والے خدا پر چڑھائی کردیتے اور راستہ ڈھونڈ لیتے اور جب خداؤوں میں جنگ ہوجاتی تو دنیا کا نظام کس طرح چلتا جس کا ایک خاص نظام محکم کے ساتھ چلنا ہر شخص مشاہدہ کر رہا ہے اس لئے نظام عالم کا صحیح طور پر چلتے رہنا خود اس کی دلیل ہے کہ ایک خدا کے سوا کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں ہے اس سے ثابت ہوا کہ) یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک اور اس سے بہت زیادہ بالا و برتر ہے (وہ ایسا پاک ہے کہ) تمام ساتوں آسمان اور زمین اور جتنے (فرشتے آدمی اور جن) ان میں (موجود) ہیں (سب کے سب قالا یا حالا) اس کی پاکی بیان کر رہے ہیں اور (یہ تسبیح صرف عقل والے انسان اور جن کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ زمین و آسمان کی) کوئی چیز ایسی نہیں جو تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان نہ کرتی ہو لیکن تم لوگ ان کی تسبیح (پاکی بیان کرنے کو) سمجھتے نہیں ہو بیشک وہ بڑا حلیم بڑا غفور ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ مِمَّآ اَوْحٰٓى اِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ ۭ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتُلْقٰى فِيْ جَهَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا 39؀ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم . ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ لوم اللَّوْمُ : عذل الإنسان بنسبته إلى ما فيه لوم . يقال : لُمْتُهُ فهو مَلُومٌ. قال تعالی: فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم/ 22] ، فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف/ 32] ( ل و م ) لمتہ ( ن ) لوما کے معنی کسی کو برے فعل کے ارتکاب پر برا بھلا کہنے اور ملامت کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم/ 22] تو آج مجھے ملامت نہ کرو ا پنے آپ ہی کو ملامت کرو ۔ فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف/ 32] یہ وہی ہے جس گے بارے میں تم ۔ مجھے طعنے دیتی تھیں دحر الدَّحْر : الطّرد والإبعاد، يقال : دَحَرَهُ دُحُوراً ، قال تعالی: اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً مَدْحُوراً [ الأعراف/ 18] ، وقال : فَتُلْقى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء/ 39] ، وقال : وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] . ( د ح ر ) الدحر والداحور ۔ ( ن) کے معنی دھتکار دینے اور دور کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً مَدْحُوراً [ الأعراف/ 18] نکل جا یہاں سے ذلیل دھتکارا ہوا ۔ فَتُلْقى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء/ 39] ملامت زدہ اور درگاہ خدا سے راندہ بنا کر جہنم میں ڈال دیئے جاؤ گے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینےّ جاتے ہیں ۔ ( یعنی وہاں سے ) نکال دینے کو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٩) جن باتوں کا آپ کے ذریعے سے حکم دیا گیا ہے یہ اس حکمت میں کی ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں آپ پر وحی کے ذریعے بھیجی ہیں اور اے مخاطب اللہ برحق کے ساتھ اور کوئی معبود مت تجویز کرنا ورنہ تو خود اپنے نفس کو ملامت کرنے والا اور ہر ایک بھلائی سے دور ہر کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ (ذٰلِكَ مِمَّآ اَوْحٰٓى اِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ ) یہ احکام نوع انسانی کے لیے خزینہ حکمت ہیں۔ انسانی تہذیب و تمدن ثقافت اور اجتماعیت کے ان اصولوں پر کاربند ہو کر انسان اسی دنیا میں اپنی اجتماعی زندگی کو جنت بنا سکتا ہے۔ (وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتُلْقٰى فِيْ جَهَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا) یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ان احکام میں اول و آخر توحید کا حکم دیا گیا ہے۔ آغاز میں (وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْٓا الآَّ اِیَّاہُ ) کے الفاظ آئے تھے ‘ جبکہ آخر میں اسی مضمون کو ( وَلاَ تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ ) کے الفاظ میں پھر دہرایا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

45. Though this has been addressed to the Prophet (peace be upon him), the real addressee is every human being as in the case of many such verses.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :45 بظاہر تو خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، مگر ایسے مواقع پر اللہ تعالی اپنے نبی کو خطاب کر کے جو بات فرمایا کرتا ہے اس کا اصل مخاطب ہر انسان ہوا کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 14 بظاہر خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے مگر مراد ہر انسان ہے اور اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ تنبیہ کرتا ہے کہ شرک ایسی بری چیز ہے کہ اگر بالرفض آنحضرت جیسے مقرب بندے بھی اس کا ارتکاب کر بیٹھیں تو دوزخی بن جائیں اور ذلیل و خوار اور راندہ درگاہ ہوجائیں۔ (العیاذ باللہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : خطاب کا اختتام اور اس خطاب میں بیان کی گئی ہدایات۔ اس خطاب کا آغاز آیت ٢٣ سے ہوا جس میں اللہ تعالیٰ نے گیارہ کاموں کا حکم دیا اور گیارہ باتوں سے منع فرمایا ہے۔ جن باتوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ ٢۔ والدین کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کیا جائے۔ ٣۔ والدین کے ساتھ نرمی کے ساتھ بات کی جائے۔ ٤۔ والدین کے سامنے عاجزی کے ساتھ پیش ہوا جائے۔ ٥۔ والدین کے لیے دعائیں کی جائیں۔ ٦۔ عزیز و اقرباء کا حق ادا کیا جائے۔ ٧۔ مساکین کی معاونت کی جائے۔ ٨۔ مسافر کی مدد کی جائے۔ ٩۔ اخراجات میں میانہ روی اختیار کی جائے۔ ١٠۔ عہد کو پورا کیا جائے۔ ١١۔ ماپ تول پورا ہونا چاہیے۔ وہ باتیں جن سے منع کیا گیا ہے : ١۔ والدین کے سامنے اف کا لفظ نہ بولا جائے۔ ٢۔ والدین کو کسی صورت میں جھڑکناجائز نہیں۔ ٣۔ فضول خرچی سے بچنا چاہیے کیونکہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے ساتھی ہیں۔ ٤۔ غربت کی وجہ سے اولاد کو قتل کرنے کی ہرگز اجازت نہیں۔ ٥۔ اولاد کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ ٦۔ زنا کے قریب نہیں جانا چاہیے کیونکہ یہ برا راستہ ہے۔ ٧۔ کسی کو ناحق قتل کرنا حرام ہے۔ ٨۔ قصاص لینے میں زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ ٩۔ یتیم کے مال کے قریب نہیں جانا چاہیے۔ ١٠۔ بےمقصدبات کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔ ١١۔ زمین پر اکڑ کر چلنا جائز نہیں۔ ” ذٰلِکَ “ کا لفظ استعمال فرما کر مذکورہ باتوں کا احاطہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ حکمت و دانائی کی باتیں ہیں۔ جو آپ کے رب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف وحی فرمائی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی حکمت کی بات عقیدہ توحید پر پکے رہ کر صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا ہے۔ اس لیے خطاب کے آغاز اور اس کے آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرنا ورنہ ملامت زدہ اور دھتکارے ہوئے جہنم میں ڈالے جاؤ گے۔ مسائل ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حکمت والی باتیں وحی کی گئیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ ٣۔ مشرک کو ملامت زدہ اور دھتکار کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن مشرک کی سزا : ١۔ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا لٰہ نہ بنانا وگرنہ دھتکار کر جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ٣٩) ٢۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے پر جنت حرام، اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (المائدۃ : ٧٢) ٣۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا گویا کہ وہ آسمان سے گرپڑا۔ (الحج : ٣١) ٤۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔ (النساء : ١١٦) ٥۔ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (لقمان : ١٣) ٦۔ اللہ تعالیٰ مشرک کو معاف نہیں کرے گا۔ (النساء : ٤٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس سبق کا یہ خاتمہ ، اس کے آغاز کے ساتھ مماثل ہے۔ گویا اس کے دونوں سرے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور یوں نظر آتا ہے کہ تمام سبق اس عظیم قاعدے اور اصول پر قائم ہے۔ جس پر اسلامی نظام حیات کی بنیاد اٹھائی گئی ہے یعنی عقیدہ توحید اور صرف اللہ وحدہ کی بندگی اور اطاعت اور اللہ کے سوا تمام طاغوتوں کی بندگی اور اطاعت سے انکار۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کے ساتھ معبود ٹھہرانے والوں کے لیے جہنم ہے اور اس کے لیے اولاد تجویز کرنا بہت بڑی بات ہے آیات سابقہ میں جو احکام بیان ہوئے اول تو ان کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ سب اس حکمت میں سے ہیں جو اللہ نے آپ پر وحی کے ذریعے بھیجی ہے، علامہ قرطبی فرماتے ہیں۔ ھذہ من الافعال المحکمۃ التی تقتضیھا حکمۃ اللّٰہ عزوجل فی عبادہ وخلقھا لھم من محاسن الاخلاق والحکمۃ و قوانین المعانی المحکمۃ والافعال الفاضلۃ۔ (تفسیر قرطبی ص ٢٦٤ ج ١٠) یعنی یہ وہ محکم افعال ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ بندے انہیں اختیار کریں اور یہ وہ محاسن اخلاق ہیں اور محکم قوانین ہیں اور افعال فاضلہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لیے مشروع فرمایا ہے۔ اس کے بعد یوں فرمایا ہے اے مخاطب اللہ کے سوا کوئی معبود تجویز نہ کرو ورنہ ملامت کیا ہوا راندہ کیا ہوا دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ یہ خطاب ساری امت دعوت اور ساری امت اجابت کو ہے جو کوئی شخص بھی اللہ کے ساتھ شرک کرے گا مستحق ملامت ہوگا اور قیامت کے دن دوزخ میں دھکیل دیا جائے گا، مدحور لغت کے اعتبار سے وہ جو ذلیل ہو اور اس پر پھٹکار پڑی ہو جس کی وجہ سے دور کردیا گیا ہو چونکہ (فَتُلْقٰی فِیْ جَھَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا) فرمایا ہے اس لیے محاورہ کا ترجمہ یوں کیا گیا ہے کہ ملامت کیا ہوا راندہ کیا ہوا دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

39:۔ مذکورہ بالا احکام کی طرف اشارہ ہے یعنی احکام مذکورہ سراپا حکمت الٰہی پر مبنی ہیں اور ان کی پیروی ہی میں انسانوں کی بہتری اور بھلائی ہے۔ ” ولا تجعل مع اللہ الخ “ دفع عذاب کے لیے امور ثلثہ کے ذکر سے پہلے بھی دعوی توحید کا ذکر کیا گیا ” لا تجعل مع اللہ الھا اخر فتقعد مذموما مخذولا “ اور پھر امور ثلثہ کے بعد بھی دعوی توحید کا اعادہ کیا گیا اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ان تمام تکالیف سے اصل مقصود اور اصلی مدعا توحید ہے۔ مخلوق خدا پر احسان کرنا بہت اچھا ہے اور مخلوق خدا پر ظلم کرنا بہت برا ہے لیکن تمام اعمال خیر کی بنیاد توحید پر ہے اور تمام اعمال شر سے شرک ایک بدترین شر ہے۔ کر رہ لانہ المقصود و التوحید راس کل حکمۃ (جامع البیان ص 245) انہ تعالیٰ بدا فی ھذہ التکالیف بالامر بالتوحید والنھی عن الشرک و ختمھا بعین ھذا المعنی والمقصود منہ التنبیہ علی ان اول کل عمل وقول وفکر وذکر یجب ان یکون ذکر التوحید واخرہ یجب ون یکون ذکر التوحید تنبیھا علی ان المقصود من جمیع التکالیف ھو معرفۃ التوحید والاستغراق فیہ الخ (کبیر ج 5 ص 593) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

39 یہ باتیں جو مذکور ہوئیں اے پیغمبران ہی حکمت و دانائی کی باتوں میں سے ہیں جو آپ کے پروردگار نے آپ کی جانب وحی فرمائی ہیں اور وحی کے ذریعے آپ کی طرف بھیجیں ہیں اور اے مخاطب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور دوسرا معبود تجویز نہ کیجیو اور کوئی دوسرا معبود مقرر نہ کیجیو ورنہ تو الزام خوردہ اور الاہنا کھا کر راندہ درگاہ ہو کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ یعنی یہ اوامرونواہی کی پندرہ باتیں جو مذکور ہوئیں یہ بھی ان ہی حکمت و دانش کی باتوں میں سے ہیں جو آپ کی جانب وحی کی جاتی رہی ہیں ۔ آخر میں پھر شرک سے منع فرمایا کہ شرک کی وجہ سے ملامت خوردہ بھی ہوگا اور دوزخ میں دھکیل کر اور راندہ ہو کر ڈال دیا جائے گا۔