Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 55

سورة بنی اسراءیل

وَ رَبُّکَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ لَقَدۡ فَضَّلۡنَا بَعۡضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ زَبُوۡرًا ﴿۵۵﴾

And your Lord is most knowing of whoever is in the heavens and the earth. And We have made some of the prophets exceed others [in various ways], and to David We gave the book [of Psalms].

آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے آپ کا رب سب کو بخوبی جانتا ہے ۔ ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر بہتری اور برتری دی ہے ۔ اور داود کو زبور ہم نے عطا فرمائی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ ... And your Lord knows best all who are in the heavens and the earth. meaning, their status or level of obedience or disobedience. The Preference of some Prophets above Others Allah says: ... وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ ... And indeed, We have preferred some of the Prophets above others. ...  As Allah says: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِّنْهُمْ مَّن كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَـتٍ Those Messengers! We preferred some of them to others; to some of them Allah spoke (directly); others He raised to degrees (of honor). (2:253) This does not contradict the report in the Two Sahihs which says that the Messenger of Allah said: لاَا تُفَضِّلُوا بَيْنَ الاْاَنْبِيَاء Don't give superiority to any Prophet among (Allah's) Prophets. What is meant in this Hadith is giving a superiority based on whims and fanaticism or sectarian feelings, not on the basis of evidence. If there is solid evidence, we have to follow it. There is no dispute that the Messengers are better than the rest of the Prophets, and that the mighty Messengers of Great Resolve are the best of all. They are the five mentioned in two Ayat of the Qur'an, in Surah Al-Ahzab: وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ And (remember) when We took from the Prophets their covenant, and from you and from Nuh, Ibrahim, Musa and `Isa son of Maryam. (33:7) and in Surah Ash-Shura: شَرَعَ لَكُم مِّنَ الِدِينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحاً وَالَّذِى أَوْحَيْنَأ إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُواْ الدِّينَ وَلاَ تَتَفَرَّقُواْ فِيهِ He has ordained for you the same religion which He ordained for Nuh, and that which We have revealed to you, and that which We ordained for Ibrahim, Musa and `Isa saying you should establish religion and make no divisions in it. (42:13) There is no dispute that Muhammad is the best of them, then Ibrahim, then Musa, then `Isa (peace be upon them all), according to the best-known view. We have discussed the evidence for this in detail elsewhere, and Allah is the source of help. Allah's saying, ... وَاتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا and to Dawud We gave the Zabur. is an indication of his virtue and honor. Al-Bukhari recorded from Abu Hurayrah that the Prophet said: خُفِّفَ عَلَى دَاوُدَ الْقُرْانُ فَكَانَ يَأْمُرُ بِدَوَابِّهِ فَتُسْرَجُ فَكَانَ يَقْرَوُهُ قَبْلَ أَنْ يَفْرُغ The Qur'an (i.e. revealed Scripture of Zabur) was made easy for Dawud, so he would call for his mounts to be saddled, and he would finish reciting it (i.e., the Zabur) before the job was done.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 یہ مضمون (تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ ) 2 ۔ البقرۃ :253) بھی گزر چکا ہے۔ یہاں دوبارہ کفار مکہ کے جواب میں یہ مضمون دہرایا گیا ہے، جو کہتے تھے کہ کیا اللہ کو رسالت کے لئے یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ملا تھا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کسی کو رسالت کے لئے منتخب کرنا ... اور کسی ایک نبی کو دوسرے پر فضیلت دینا، یہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٧] انبیاء کی فضیلت کے پہلو :۔ اس فضیلت کے بھی کئی پہلو ہیں مثلاً کسی نبی کی دعوت کا کام زیادہ بار آور ثابت ہوا، کسی کا کم، کسی نے صرف تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا، کسی نے جہاد بھی کیے کسی کو کوئی معجزہ دیا گیا تو دوسرے نبی کو کوئی دوسرا دیا گیا۔ کچھ نبیوں نے تنگدستی اور فقیری میں ہی زندگی گزار دی ا... ور کچھ ساتھ ہی بادشاہ بھی تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔ [٦٨] بادشاہ بھی نبی ہوسکتا ہے تو ایک عام آدمی کیوں نبی نہیں ہوسکتا ؟ اس مقام پر بالخصوص سیدنا داؤد (علیہ السلام) کا ذکر کرنے کی دو وجوہ معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ داؤد (علیہ السلام) اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، پست قد تھے اور حقیر سمجھے جاتے تھے۔ بکریاں چرایا کرتے تھے مگر جو قیمتی جوہر ان میں موجود تھے انھیں اللہ ہی جانتا تھا۔ لہذا اللہ نے انھیں صرف نبی ہی نہیں بنایا بلکہ صاحب کتاب نبی بنایا پھر بادشاہت بھی عطا فرمائی۔ یہ ہے اللہ کی دین اور اللہ کا فضل کہ جس پر اس کی نظر انتخاب پڑتی ہے اسے نوازتا ہے۔ اور جتنا چاہے نوازتا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ مشرکین مکہ کا رسول اللہ کے متعلق ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ تو ہمارے ہی جیسا انسان ہے جو ہماری طرح کھاتا پیتا، چلتا پھرتا اور شادیاں کرتا ہے اور صاحب اولاد ہے۔ یہ تو طالب دنیا ہے لہذا یہ خدا رسیدہ یا اللہ کا پیغمبر کیسے ہوسکتا ہے۔ ؟ گویا ان کے نظریہ کے مطابق خدا رسیدہ یا پیغمبر ہونے کے طالب دنیا ہونے کے بجائے تارک دنیا ہونا ضروری تھا۔ جیسا کہ یہود و نصاریٰ میں رہبان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک عام انسان یا طالب دنیا کے متعلق تمہارا یہ خیال ہے کہ وہ نبی نہیں ہوسکتا تو ایک بادشاہ کے متعلق تم کیا سوچ سکتے ہو جو عام انسانوں سے بہت زیادہ دنیا میں پھنسا ہوا، طالب دنیا اور اللہ سے نسبتاً دور ہوتا ہے ؟ پھر جب ہم نے داؤد بادشاہ کو بھی نبوت عطا کی اور صاحب کتاب نبی بنایا تھا تو پھر آخر یہ نبی آخرالزمان کیوں نبی نہیں ہوسکتا ؟   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَرَبُّكَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : لوگوں کے احوال کا ان سے بڑھ کر علم رکھنے کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ زمین و آسمان میں موجود ہر شخص (انسان ہو یا جن یا فرشتہ) سے زیادہ اس کا علم رکھنے والا ہے۔ اس لیے وہ بہتر جانتا ہے کہ کس کو نبوت و رسالت کا شرف عطا کرنا ہے، فرمای... ا : (3 اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ [ الحج : ٧٥ ] ” اللہ فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے چنتا ہے اور لوگوں سے بھی۔ “ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيّٖنَ عَلٰي بَعْضٍ : اس لیے اس کے کمال علم کا تقاضا ہے کہ وہ انبیاء و رسل میں سے جسے چاہتا ہے بعض پر فضیلت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے سب پر فضیلت عطا فرما کر آخری نبی بنا دیتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٢٥٣) اس کے نزدیک انتخاب کا معیار دنیا کی دولت یا حکومت نہیں۔ داؤد (علیہ السلام) بکریاں چرانے والے تھے، اللہ تعالیٰ نے نبی اور بادشاہ بنادیا، پھر مزید فضیلت بخشی تو بطور فضیلت بادشاہی کے بجائے زبور عطا فرمانے کا ذکر کیا، کیونکہ اللہ کے ہاں فضیلت کا معیار دنیا کی کوئی چیز نہیں، بلکہ آخرت کا علم اور اس کے مطابق عمل ہے۔ دراصل یہ کفار کے اس اعتراض کا جواب ہے جو وہ عموماً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیا کرتے تھے کہ انھی کو رسالت کے لیے کیوں چنا گیا ؟ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة زخرف ( ٣١ تا ٣٥) ۔ وَّاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا : زبور کا ذکر خاص طور پر اس لیے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاتم النّبیین ہونے اور اس امت کے سب سے افضل ہونے پر زبور کے مضامین شہادت دے رہے ہیں۔ (دیکھیے انبیاء : ١٠٥) ہوسکتا ہے کہ کفار سے جہاد میں مشابہت کی وجہ سے داؤد (علیہ السلام) کا تذکرہ کردیا ہو۔ 3 حافظ ابن کثیر (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : (وَّاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ) اور سورة بقرہ (٢٥٣) میں یہ فرمان : (تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ ) صحیح بخاری (٣٤١٥) اور مسلم (٢٣٧٣) کی ان صحیح روایات کے منافی نہیں جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” انبیاء کو آپس میں ایک دوسرے پر برتری (فضیلت) مت دو ۔ “ کیونکہ اس سے مراد محض اپنی خواہش یا تعصب کی بنا پر فضیلت دینا ہے، دلیل کی بنا پر فضیلت دینا نہیں، کیونکہ جب دلیل سے کوئی بات ثابت ہوجائے تو اسے ماننا ضروری ہوتا ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ رسول انبیاء سے افضل ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

That Zabur (the Psalms) has been mentioned particularly in the last sentence of verse 55: وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورً‌ا ، (And We gave Dawud the Zabur) has been done, perhaps, because Zabur reports that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) will be a ruler along with being a messenger and prophet. This is as it appears in the Qur&an: وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ‌ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ... ‌ أَنَّ الْأَرْ‌ضَ يَرِ‌ثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ (And We have already written in the Zabur, after the [ previous ] mention, that the land is inherited by My righteous servants - al-Anbiya&, 21:105). At this stage, Imam al-Baghawi says in his Tafsir that Zabur is a book of Allah revealed to Sayyidna Dawud (علیہ السلام) . It has one hundred and fifty surahs or chapters and all surahs are restricted to praises of Allah and prayers to Him. The areas of lawful and unlawful, obligations and limits have not been taken up there.  Show more

(آیت) وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا یہاں خاص طور پر زبور کا ذکر شاید اس لئے کیا گیا ہے کہ زبور میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ خبر دی گئی ہے کہ آپ رسول و پیغمبر ہونے کے ساتھ صاحب ملک و سلطنت بھی ہوں گے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے (آیت) وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْد... ِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ اور موجوہ زبور میں بھی بعض حضرات نے اس کا مذکور ہونا ثابت کیا ہے (تفسیر حقانی) امام بغوی نے اپنی تفسیر میں اس جگہ لکھا ہے کہ زبور اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی اس میں ایک سو پچاس سورتیں ہیں اور تمام سورتیں صرف دعاء اور حمد وثنا پر مشتمل ہیں ان میں حلال و حرام اور فرائض و حدود کا بیان نہیں ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَرَبُّكَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيّٖنَ عَلٰي بَعْضٍ وَّاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا 55؀ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعم... الا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو داود داود اسم أعجميّ. ( د و د ) داؤد ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے ) زبر الزُّبْرَةُ : قطعة عظیمة من الحدید، جمعه زُبَرٌ ، قال : آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] ، وقد يقال : الزُّبْرَةُ من الشّعر، جمعه زُبُرٌ ، واستعیر للمجزّإ، قال : فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون/ 53] ، أي : صاروا فيه أحزابا . وزَبَرْتُ الکتاب : کتبته کتابة غلیظة، وكلّ کتاب غلیظ الکتابة يقال له : زَبُورٌ ، وخصّ الزَّبُورُ بالکتاب المنزّل علی داود عليه السلام، قال : وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء/ 163] ، وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، وقرئ زبورا «1» بضم الزاي، وذلک جمع زَبُورٍ ، کقولهم في جمع ظریف : ظروف، أو يكون جمع زِبْرٍ «2» ، وزِبْرٌ مصدر سمّي به کالکتاب، ثم جمع علی زُبُرٍ ، كما جمع کتاب علی كتب، وقیل : بل الزَّبُورُ كلّ کتاب يصعب الوقوف عليه من الکتب الإلهيّة، قال : وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 196] ، وقال : وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران/ 184] ، أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر/ 43] ، وقال بعضهم : الزَّبُورُ : اسم للکتاب المقصور علی الحکم العقليّة دون الأحكام الشّرعيّة، والکتاب : لما يتضمّن الأحكام والحکم، ويدلّ علی ذلك أنّ زبور داود عليه السلام لا يتضمّن شيئا من الأحكام . وزِئْبُرُ الثّوب معروف «1» ، والْأَزْبَرُ : ما ضخم زُبْرَةُ كاهله، ومنه قيل : هاج زَبْرَؤُهُ ، لمن يغضب «2» . ( زب ر) الزبرۃ لوہے کی کڑی کو کہتے ہیں اور اس کی جمع زبر آتی ہے قرآن میں ہے :۔ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96]( اچھا ) لوہے کی سلیں ہم کو لادو ۔ اور کبھی زبرۃ کا لفظ بالوں کے گچھا پر بولا جاتا ہے اس کی جمع ، ، زبر ، ، آتی ہے اور استعارہ کے طور پر پارہ پارہ کی ہوئی چیز کو زبر کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون/ 53] پھر لوگوں نے آپس میں پھوٹ کرکے اپنا ( اپنا ) دین جدا جدا کرلیا ۔ زبرت الکتاب میں نے کتاب کو موٹے خط میں لکھا اور ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہاجاتا ہے لیکن عرف میں زبور کا لفظ اس آسمانی کتاب کے لئے مخصوص ہوچکا ہے ۔ جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء/ 163] اور ہم نے داود (علیہ السلام) کو زبور عطا کی ۔ وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی توراۃ ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ اس میں ایک قرات زبور ( بضمہ زاء ) بھی ہے ۔ جو یا تو زبور بفتحہ زا کی جمع ہے جیسے طریف جمع ظرورف آجاتی ہے اور یا زبر ( بکسر ہ زا) کی جمع ہے ۔ اور زبد گو اصل میں مصدر ہے لیکن بطور استعارہ اس کا اطاق کتاب پر ہوتا ہے جیسا کہ خود کتاب کا لفظ ہے کہ اصل میں مصدر ہے ۔ لیکن بطور اسم کے استعمال ہوتا ہے پھر جس طرح کتاب کی جمع کتب آتی ہے اسطرح زبر کی جمع زبد آجاتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ زبور کتب الہیہ میں سے ہر اس کتاب کو کہتے ہیں جس پر واقفیت دشوار ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 196] اس میں شک نہیں کہ یہ ( یعنی اس کی پیشین گوئی ) اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں موجود ہے ۔ وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران/ 184] اور صحیفے اور روشن کتاب لائے تھے ۔ أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر/ 43] یا تمہارے لئے صحیفوں میں معافی ( لکھی ہوئی ) ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو صرف حکم عقلیہ پر مشتمل ہو اور اس میں احکام شرعیہ نہ ہوں ۔ اور الکتاب ہر اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو احکام حکم دونوں پر مشتمل ہو ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں کوئی حکم شرعی نہیں ہے ۔ زئبرالثوب کپڑے کارواں ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ھاج زئبرہ وہ غصہ سے بھڑک اٹھا ۔ اور بڑے کندھوں والے شخص کو ازبر کہاجاتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٥) اور آپ کا پروردگار مومنوں کی صلاحیتوں کو خوب جانتا ہے اور ہم نے پہلے بھی بعض نبیوں کو شرف خلوت اور شرف کلامی کے ساتھ بعض پر فضیلت دی ہے اور ہم داؤد (علیہ السلام) کو زبور دے چکے ہیں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو انجیل اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم... ) کو قرآن کریم دیا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيّٖنَ عَلٰي بَعْضٍ ) یہاں اس فقرے کے سیاق وسباق کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سورة بنی اسرائیل مکی دور کے آخری برسوں میں نازل ہوئی اور اس کا آغاز بھی بنی اسرائیل کی تاریخ سے ہوا۔ اس سورة کے نزول سے پہلے نبی آخرالزماں کی بعثت اور قرآن کے بارے میں تمام خبریں مدینہ...  پہنچ چکی تھیں اور یہود مدینہ ایک ایک بات اور ایک ایک خبر کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے تھے۔ پھر عنقریب حضور خود بھی مدینہ تشریف لانے والے تھے۔ ان حالات میں جب مسلمانوں کا یہودیوں کے ساتھ عقائد و نظریات کے بارے میں تبادلہ خیالات ہونا تھا تو انبیاء کرام کے فضائل کے بارے میں سوالات کا اٹھنا ناگزیر تھا کہ اگر محمد نبی ہیں تو آپ اور موسیٰ میں سے افضل کون ہیں ؟ یا یہ مسئلہ کہ محمد افضل ہیں یا عیسیٰ ؟ چناچہ اس حوالے سے یہاں ایک بنیادی اور اصولی بات بیان فرما دی گئی کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان میں موجود اپنی تمام مخلوق کے احوال و کیفیات سے خوب واقف ہے اور اس نے اپنے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ سورة البقرۃ کی آیت ٢٥٣ میں یہی بات یوں بیان فرمائی گئی ہے : (تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ ) ” یہ رسول ہیں ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے “۔ ایسا نہ ہو کہ اس بحث میں پڑ کر آپ لوگ اپنے نبی کی فضیلت اس طرح بیان کریں کہ مخالفین کے منفی جذبات کو ہوا ملے اور وہ تعصب سے مغلوب ہو کر آپ کی بات ہی سننے سے انکار کردیں۔ یہ بہت نازک مسئلہ ہے اور اس کی نزاکت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ہمارے نبی تمام انبیاء کرام سے افضل ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ سب سے افضل ہیں مگر موقع و محل دیکھے بغیر اپنے اس عقیدے کا اس طرح سے چرچا کرنا درست نہیں کہ اس سے دوسرے مشتعل ہوں اور ان کے مخالفانہ جذبات و خیالات کو انگیخت ملے۔ اس ضمن میں حضور کی واضح حدیث ہے کہ (لَا تُفَضِّلُوْا بَیْنَ اَنْبِیَاء اللّٰہِ ) ” اللہ کے نبیوں کے مابین درجہ بندی نہ کیا کرو “۔ آپ نے مزید فرمایا : (لاَ یَنْبَغِیْْ لِعَبْدٍ اَنْ یَقُوْلَ اَنَا خَیْرٌ مِنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی) ” کسی شخص کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ یوں کہے کہ میں (محمد) یونس بن متی ٰسے افضل ہوں “۔ آپ نے یہاں حضرت یونس کا ذکر شاید اس لیے فرمایا کہ حضرت یونس واحد نبی ہیں جن کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ گرفت ہوئی ہے۔ بہر حال آپ نے واضح طور پر اس سے منع فرمایا ہے کہ دوسرے انبیاء پر آپ کی فضیلت کا پرچار کیا جائے۔ (وَّاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا) اسی سیاق وسباق کی مناسبت سے یہاں بنی اسرائیل کے ایک نبی کا تذکرہ فرما دیا اور آپ کی فضیلت بھی بیان فرما دی کہ حضرت داؤد کو ہم نے زبور جیسی جلیل القدر کتاب عطا فرمائی تھی۔ یہاں پر یہ اشارہ ملتا ہے کہ موقع و محل کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء و رسل کے فضائل اور اعلیٰ مراتب کے ذکر سے ان کی عزت افزائی کرتا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

62. Though this has apparently been addressed to the Prophet (peace be upon him), in fact the real addressees are the disbelievers of Makkah. This is to rebuke them for the low opinion they held in regard to the Prophet (peace be upon him). As it commonly happens, contemporaries in general and opponents in particular do not see anything great and noble in a person of their own time. The same was t... he case with the contemporaries of the Prophet (peace be upon him) who could not see anything extraordinary or great in him. He appeared to be merely a common man of their habitation. On the other hand, they were full of praise in regard to the famous personalities who had lived in the past few centuries and imagined them to be the perfection of greatness. That is why, they raised frivolous objections against his claim to Prophethood, as if to say: Look at this man who considers himself to be a Prophet whereas he cannot stand in comparison with the former great Prophets who are held in high esteem by all. Allah has answered their objection, as if to say: We are fully aware of all Our creatures in the heavens and the earth, and We know their ranks but you do not know. We know whom to favor with Prophethood, as We have been favoring the former Prophets and exalting some Prophets above others in rank. 63. It appears that Prophet David (peace be upon him) has been particularly mentioned to show that Prophethood does not mean that one should have nothing to do with the life of this world. This was the answer to the objection they were raising against the claim to Prophethood by Muhammad (peace be upon him), that he was a man of the world. It means to say: Though David was a king who had to engage himself in worldly affairs more than a common man, he was favored by Allah with Prophethood, and given the Book, the Psalms. Likewise Muhammad (peace be upon him) could be favored with Prophethood in spite of the fact that he had wives and children and passed his life like other common people and was engaged in buying and selling in the market. In short, in performing all those duties that a man of the world has to perform to meet his necessities of life. This was necessitated because according to the disbelievers of Makkah, such a man of the world could not be considered to be even a pious man, much less a Prophet. For pious people should have nothing to do with the worldly affairs but should sit in seclusion and remember God whereas the Prophet (peace be upon him) had to work to fulfill the necessities of life.  Show more

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :62 اس فقرے کے اصل مخاطب کفار مکہ ہیں ، اگر چہ بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ۔ جیسا کہ معاصرین کا بالعموم قاعدہ ہوتا ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر اور ہم قوم لوگوں کے آپ کے اندر کوئی فضل و شرف نظر نہ آتا تھا ۔ وہ آپ کو اپنی بستی کا ایک ... معمولی انسان سمجھتے تھے ، اور جن مشہور شخصیتوں کو گزرے ہوئے چند صدیاں گزر چکی تھیں ، ان کے متعلق یہ گمان کرتے تھے کہ عظمت تو بس ان پر ختم ہوگئی ہے ۔ اس لیے آپ کی زبان سے نبوت کا دعوی سن کر وہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ یہ شخص دوں کی لیتا ہے ، اپنے آپ کو نہ معلوم کیا سمجھ بیٹھا ہے ، بھلا کہاں یہ اور کہاں اگلے وقتوں کے وہ بڑے بڑے پیغمبر جن کی بزرگی کا سکہ ایک دنیا مان رہی ہے ۔ اس کا مختصر جواب اللہ تعالی نے یہ دیا ہے کہ زمین اور آسمان کی ساری مخلوق ہماری نگاہ میں ہے ۔ تم نہیں جانتے کہ کون کیا ہے اور کس کا کیا مرتبہ ہے ۔ اپنے فضل کے ہم خود مالک ہیں اور پہلے بھی ایک سے ایک بڑھ کر عالی مرتبہ نبی پیدا کر چکے ہیں ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :63 یہاں خاص طور پر داؤد علیہ السلام کی زبور دیے جانے کا ذکر غالبا اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ داؤد علیہ السلام بادشاہ تھے ، اور بادشاہ بالعموم خدا سے زیادہ دور ہوا کرتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصرین جس وجہ سے آپ کی پیغمبری و خدا رسیدگی ماننے سے انکار کرتے تھے وہ ان کے اپنے بیان کے مطابق یہ تھی کہ آپ عام انسانوں کی طرح بیوی بچے رکھتے تھے ، کھاتے پیتے تھے ، بازاروں میں چل پھر کر خریدوفروخت کرتے تھے ، اور وہ سارے ہی کام کرتے تھے جو کوئی دنیا دار آدمی اپنی انسانی حاجات کے لیے کیا کرتے ہیں ۔ کفار مکہ کا کہنا یہ تھا کہ تم تو ایک دنیا دار آدمی ہو ۔ تمہیں خدا رسیدگی سے کیا تعلقِ پہنچے ہوئے لوگ تو وہ ہوتے ہیں جنہیں اپنےتن بدن کا ہوش بھی نہیں ہوتا ، بس ایک گوشے میں بیٹھے اللہ کی یاد میں غرق رہتے ہیں ۔ وہ کہاں اور گھر کےآٹے دال کی فکر کہاں! اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ ایک پوری بادشاہت کے انتظام سے بڑھ کر دنیا داری اور کیا ہوگی ۔ مگر اس کے باوجود داؤد علیہ السلام کو نبوت اور کتاب سے سرفراز کیا گیا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 کہ ان میں سے کسے اپنی آخری رسالت کے لئے منتخب کرے۔ یہ جواب ہے کفار مکہ کے اعتراض کا جو وہ عموماً آنحضرت پر کیا کرتے تھے کہ اللہ کی نگاہ میں ان کا مقام اتنا بڑا کیسے ہوسکتا تھا کہ انہیں محمد (ﷺ) اپنی رسالت کے لئے نہ صرف منتخب فرمائے بلکہ اپنے تمام انبیاء پر فضیلت بھی دے اور ان پر ایسی شریعت نازل ... کرے جو تمام شریعتوں کو منسوخ کرنے والی ہو۔ (شوکانی)9 اور یہ بزرگی بھی علم کی بنا پر تھی بلاشبہ انبیاء (علیہم السلام) مرتاب میں مختلف ہیں اور سب سے افضل ہمارے پیغمبر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ (نیز دیکھئے بقرہ 253)10 یعنی آنحضرت پر قرآن اتارنے پر کیوں تعجب کرتے ہو حالانکہ ہم اس سے پہلے حضرت دائود کو زبور دے چکے ہیں … زبور کا ذکر خاص طور پر اس لئے فرمایا کہ آنحضرت کے خاتم النبین ہونے اور اس امت کے بہترین امت ہونے پر زبور کے مضامین شہادت دے رہے تھے۔ (دیکھیے انبیاء 105) ہوسکتا ہے کہ کفار سے جہاد کرنے میں مشابہت کی وجہ سے دائود کا تذکرہ کردیا ہو۔ (کذافی الموضح)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ اوپر واذا قرات القرن اور قالواء اذا کنا میں کفار کے انکار رسالت پر دلالت تھی، منجملہ ان کے وجوہ انکار رسالرت کے ایک ان کا یہ بھی خیال تھا کہ رسول فرشتہ ہونا چاہئے، یا اگر بشر ہو تو کوئی رئیس ہو، اب اس شبہہ کا جواب اور ذکر داود (علیہ السلام) سے آپ کی رسالت کی تائید اور رسولوں میں سے آپ کے افضل ہون... ے کی طرف اجمالی اشارہ فرماتے ہیں۔ 1۔ زبور کی تخصیص میں یہ نکتہ ہے کہ اس میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحب ملک و سلطنت ہونے کی خبر دے دی گئی ہے۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولقد فضلنا بعض النبین علی بعض۔ یہ فضیلت دہ ہے جس کی حقیقت اور سبب صرف اللہ کے علم میں ہے۔ اس فضیلت کے مظاہر پر ہم نے پارہ سو تم میں بحث کی ہے یعنی آیت۔ تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض کے ضمن ہیں۔ لہذا تفصیلات وہاں ہی ملاحظہ کریں۔ واتینا دائود زبورا۔ (٥٥) ۔ یہ فضیلت کا ایک خاص نمونہ ہے۔ یعنی حضرت د... ائود کو جو کمالات دئیے گئے وہ دوسرے انبیاء میں نہ تھے ، زبور کا ذکر اس لئے کیا کہ کتاب دوسرے معجزات کے مقابلے میں بڑا معجزہ ہوتا ہے ، خصوصا بعض مخصوص اور متعین ادوار میں ۔ اس سبق کا خاتمہ بھی اسی مضمون پر ہوتا ہے جس سے آغاز ہوا تھ ایعنی اللہ کی بیٹیوں کی نفی اور شریکوں کی نفی اور یہ کہ دعاء و پکار میں صرف اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور یہ کہ لوگوں کو نفع و نقصان دینے میں صرف اللہ ہی کارساز ہے۔ یہاں ان لوگوں کو چیلنج دیا جاتا ہے جو شرک کے قائل ہیں کہ وہ اپنے شریکوں کا ذرا پکاریں اور دیکھیں کہ وہ انہیں کیا فائدہ دے سکتے ہیں ؟ یا ان پر آنے والی کس مصیبت کا منہ موڑ سکتے ہیں ؟  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (وَ رَبُّکَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ) (اور آپ کا رب ان سب کو خوب جانتا ہے جو آسمان میں ہیں اور زمین میں ہیں) بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس میں مشرکین کی اس بات کا جواب ہے کہ ابی طالب کا یتیم تو نبی بن جائے جبکہ اس کے ساتھیوں کے بدن پر کپڑا بھی نہیں اور پیٹ میں ر... وٹی نہیں اور رؤسا اور اکابر اور سردار (جن کے پاس دولت و ثروت ہے) وہ نبوت سے محروم رہ جائیں یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے فرمایا ہے کہ آسمانوں میں اور زمین میں سب ہماری مخلوق ہے ہمیں ان کے احوال ظاہرہ اور احوال باطنہ سب معلوم ہیں وہ اپنی مخلوق میں سے جسے چاہے نبوت سے سرفراز فرما دے اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ اس نے جسے چاہا نبی بنایا اور جسے نبی بنا دیا تم پر اس کی اطاعت فرض ہوگئی۔ وھذا لقولہ تعالیٰ فی سورة الانعام (اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ) (اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنا پیغام بھیجتا ہے) پھر فرمایا (وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰی بَعْضٍ ) نبوت بھی اللہ نے جس کو چاہی عطا فرمائی اور انبیاء کرام میں جس کو جس پر چاہی فضیلت دی، فضیلتوں کی کچھ تفصیل سورة بقرہ کی آیت کریمہ (تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ ) کے ذیل میں گزر چکی ہے۔ (وَّ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا) (ہم نے داؤد کو زبور عطا کی۔ ) علامہ بغوی معالم التنزیل (ج ٣/١٢٠) میں لکھتے ہیں کہ زبور ایک سو پچاس سورتوں پر مشتمل تھی جو دعا اور اللہ تعالیٰ کی ثناء اور تمجید پر مشتمل تھی اس میں فرائض و حدود اور حلال و حرام کے احکام نہیں تھے اصل زبور تو اب سامنے نہیں جس کا مطالعہ کرکے اس کے بارے میں یقینی طور پر کچھ کہا جاسکے ممکن ہے کہ اس میں کچھ احکام ہوں اور اکثر کتاب دعا وثناء پر مشتمل ہو حضرت داؤد (علیہ السلام) بنی اسرائیل میں سے تھے اور حضرت انبیاء بنی اسرائیل شریعت موسویہ کے پابند تھے حتیٰ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جو بنی اسرائیل کے سب سے آخری نبی ہیں انہوں نے بھی بنی اسرائیل سے یوں فرمایا (وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰیۃِ وَ لِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ ) اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ انہوں نے بعض احکام میں بحکم الٰہی تغیر کیا تھا اور عام احکام ان کی شریعت میں وہی تھے جو شریعت موسویہ میں تھے اس بات کو سامنے رکھا جائے تو اس بات کے سمجھنے میں کوئی بعد نہیں رہتا کہ زبور شریف میں احکام اور حدود و فرائض نہ ہوں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

53:۔ یہ توحید پر چوتھی عقلی دلیل ہے۔ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ جب وہی عالم الغیب ہے تو مصائب و حاجات میں صرف اسی کو پکارو۔ ہم نے انبیاء (علیہم السلام) کو بزرگی عطا کی اور بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ ” و اتینا داود زبورا “ اور داود (علیہ السلام) کو ہم نے زبور دی جس میں اللہ تعال... یٰ کی حمد و ثنا اور اس کی دعاء اور پکار ہی کا ذکر تھا۔ الزبور کتاب لیس فیھا حلال ولا حرام ولا حدود انما ھو دعاء تحمید وتمجید (قرطبی ج 10 ص 278) ۔ بعض انبیاء (علیہم السلام) کو بعض پر فضیلت دینے کے سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ زبور کا ذکر اس لیے فرمایا کیونکہ زبور میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاتم النبیین ہونے کا ذکر تھا۔ وخص داود بالذکر ھنا لانہ تعالیٰ ذکر فی الزبور ان محمد خاتم الانبیاء وان امتہ خیر الامم (بحر ج 6 ص 50) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

55 اور اے پیغمبر آپ کا پروردگار ان کو بھی خوب جانتا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور ان کو بھی خوب جانتا ہے جو زمین میں ہیں اور بلاشبہ ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی ہے اور ہم نے دائود کو زبور عطا فرمائی تھی۔ یعنی منکروں کا یہ مطالبہ صحیح نہیں ہے کہ فرشتوں کو نبی بنایا جائے یا زمین والوں میں...  سے فلاں کو بنایا جائے اور فلاں کو نہیں ۔ تمام مخلوق کو آپ کا پروردگار ہی جانتا ہے اور وہی …… جس کو چاہتا ہے منصب نبوت عطا فرماتا ہے چناچہ ہم نے آپ کو نبوت عطا فرمائی اور آپ کو تمام انبیاء پر فضیلت عطا کی اور تم کو قرآن کریم عطا فرمایا۔ ان باتوں پر تعجب اور انکار کی کوئی وجہ نہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں فرماتے ہیں کہ بعض نبی تھے کہ جھنجھلاگئے ، تیرا حوصلہ ان سے زیادہ رکھا ہے اور دائود کا ذکر کیا کہ دونوں باتیں رکھنے تھے جہاد بھی اور زبور بھی سمجھانے کو وہی دونوں باتیں یہاں بھی ہیں۔ 13  Show more