Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 57

سورة بنی اسراءیل

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الۡوَسِیۡلَۃَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ وَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَہٗ وَ یَخَافُوۡنَ عَذَابَہٗ ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحۡذُوۡرًا ﴿۵۷﴾

Those whom they invoke seek means of access to their Lord, [striving as to] which of them would be nearest, and they hope for His mercy and fear His punishment. Indeed, the punishment of your Lord is ever feared.

جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہو جائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہیں ، ( بات بھی یہی ہے ) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أُولَـيِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ ... Those whom they call upon, desire, Al-Bukhari recorded from Sulayman bin Mahran Al-A`mash, from Ibrahim, from Abu Ma`mar, from Abdullah: أُولَـيِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ ... Those whom they call upon, desire a means of access to their Lord, "Some of the Jinn used to be worshipped, then they became Muslims.... " According to another report: "Some humans used to worship some of the Jinn, then those Jinn became Muslim, but those humans adhered to their religion (of worshipping the Jinn)." ... أَيُّهُمْ أَقْرَبُ ... as to which of them should be the nearest; ... وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ... they hope for His mercy and fear His torment. Worship cannot be complete or perfect unless it is accompanied by both fear and hope. Fear stops one from doing things that are forbidden, and hope makes one do more good deeds. ... إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا Verily, the torment of your Lord is (something) to be afraid of! meaning, one should beware of it and be afraid lest it happen. We seek refuge with Allah from that.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 مذکورہ آیت میں مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ سے مراد فرشتوں اور بزرگوں کی وہ تصویریں اور مجسمے ہیں جن کی عبادت کرتے تھے، یا حضرت عزیر و مسیح علہما السلام ہیں جنہیں یہودی اور عیسائی ابن اللہ کہتے ہیں اور انھیں ربوبیت صفات کا حامل مانتے تھے، یا وہ جنات ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے اور مشرکین ان کی عبادت کرتے ت... ھے۔ اس لئے کہ اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ یہ تو خود اپنے رب کا قرب تلاش کرنے کی جستجو میں رہتے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور یہ صفت جمادات (پتھروں) میں نہیں ہوسکتی۔ اس آیت سے واضح ہوجاتا ہے کہ مِنْ دُوْنِ اللّٰہ (اللہ کے سوا جن کی عبات کی جاتی رہی ہے) وہ صرف پتھر کی مورتیاں ہی نہیں تھیں، بلکہ اللہ کے وہ بندے بھی تھے جن میں سے کچھ فرشتے، کچھ صالحین، کچھ انبیاء اور کچھ جنات تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سب کی بابت فرمایا کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے، نہ کسی کی تکلیف دور کرسکتے ہیں نہ کسی کی حالت بدل سکتے ہیں ' اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں ' کا مطلب اعمال صالحہ کے ذریعے سے اللہ کا قرب ڈھونڈتے ہیں۔ یہی الوسیلۃ ہے جسے قرآن نے بیان کیا ہے وہ نہیں ہے جسے قبر پرست بیان کرتے ہیں کہ فوت شدہ اشخاص کے نام کی نذر نیاز دو ، ان کی قبروں پر غلاف چڑھاؤ اور میلے ٹھیلے جماؤ اور ان سے استمداد و استغاثہ کرو کیونکہ یہ وسیلہ نہیں یہ تو ان کی عبادت ہے جو شرک ہے اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٠] اس آیت میں بالخصوص ایسے معبودوں کا ذکر ہے جو جاندار ہیں۔ پتھر کے بت اس آیت کے مضمون سے خارج ہیں۔ یعنی فرشتے یا جن یا فوت شدہ انبیاء و صالحین ہی اس سے مراد لیے جاسکتے ہیں۔ اور بتایا یہ جارہا ہے کہ تم ان ہستیوں کو اپنی حاجت روائی یا مشکل کشائی کے لیے وسیلہ بناتے ہو جو خود ساری زندگی اس جستجو میں...  رہے کہ اللہ کے زیادہ سے زیادہ فرمانبردار بندے بن کر اس کا قرب حاصل کریں اور وہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہی رہے لہذا تمہیں بھی یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے اور اللہ کے زیادہ سے زیادہ فرمانبردار بن کر اور اعمال صالحہ بجا لا کر ان اعمال کے ذریعہ یا وسیلہ سے اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہیے۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنا کر آپ اپنے حق میں دعا کرسکتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے : نیک اعمال کو وسیلہ بنانا اور دعا مانگنا :۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : && تم سے پہلے لوگوں میں سے تین شخص کہیں جارہے تھے کہ انھیں بارش نے آلیا۔ انہوں نے ایک غار میں پناہ لی۔ اوپر سے ایک پتھر گرا اور غار کا منہ بند ہوگیا۔ وہ آپس میں کہنے لگے : اللہ کی قسم ! اب تو (اس مصیبت سے) تمہیں سچائی ہی بچا سکتی ہے لہذا ہم میں سے ہر شخص اپنے عمل کا ذکر کرکے اللہ سے دعا کرے جو اس نے صدق نیت سے کیا ہو۔ ان میں سے ایک نے کہا : اے اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میں نے ایک فرق (تین صاع) چاول پر ایک مزدور رکھا وہ (ناراض ہو کر) چلا گیا اور اپنی مزدوری چھوڑ گیا۔ میں نے ان چاولوں کا یہ کیا کہ ان سے کھیتی باڑی کی۔ پھر اس میں اتنا فائدہ ہوا کہ میں نے گائے بیل خرید لیے (مدت کے بعد) وہ مزدور اپنی مزدوری مانگنے آیا تو میں نے اسے کہا جاؤ && وہ سب بیل لے جاؤ && اس نے کہا && میرے تو تیرے پاس صرف ایک فرق چاول تھے && میں نے کہا && انہی چاولوں سے (کھیتی کرکے) میں نے یہ گائے بیل خریدے ہیں && چناچہ وہ انھیں لے گیا۔ یا اللہ ! تو خوب جانتا ہے اگر میں نے یہ عمل تیرے ڈر کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مصیبت دور کردے۔ چناچہ وہ پتھر سرک گیا۔ دوسرے نے کہا && یا اللہ ! تو جانتا ہے کہ میرے والدین بوڑھے تھے اور میں ہر رات ان کے لیے بکریوں کا دودھ لاتا۔ ایک رات مجھے کافی دیر ہوگئی اور وہ دونوں سوگئے۔ میرے بیوی بچے بھوک سے چلاتے رہے۔ میری عادت تھی کہ میں اپنے والدین کو دودھ پلاتا پھر اپنے بیوی بچوں کو، میں نے انھیں جگانا مناسب نہ سمجھا اور نہ اس بات کو گوارا کیا کہ انھیں چھوڑ کر چلا جاؤں اور وہ دودھ کے انتظار میں پڑے رہیں اور میں پو پھٹنے تک ان کا انتظار کرتا رہا۔ یا اللہ تو خوب جانتا ہے اگر میں نے یہ عمل تیرے ڈر کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مصیبت دور کردے۔ اس وقت وہ پتھر اور سرک گیا۔ یہاں کہ انھیں آسمان دکھائی دینے لگا۔ تیسرے نے کہا : یا اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میری ایک چچا زاد بہن تھی جسے میں سب سے زیادہ چاہتا تھا۔ میں نے ایک دفعہ اس سے صحبت کرنا چاہی تو اس نے انکار کردیا۔ اِلا یہ کہ میں اسے سو دینار دوں۔ میں کوشش کرکے سو دینار لے آیا اور اس کو دے دیئے۔ اس نے اپنے تئیں میرے حوالے کردیا اور جب میں (صحبت کے لیے) اس کی دونوں رانوں کے درمیان بیٹھ گیا تو وہ کہنے لگی && اللہ سے ڈرو اور مہر کو ناحق طور سے نہ توڑو && میں کھڑا ہوگیا اور سو دینار بھی چھوڑ دیئے۔ یا اللہ اگر میں نے یہ عمل تیرے ڈر سے کیا تھا تو ہماری مشکل کو دور کردے۔ چناچہ اللہ نے ان کی مصیبت کو دور کردیا اور وہ باہر نکل آئے۔ (بخاری، کتاب الانبیائ۔ باب حدیث الغار) [٧١] ایمان کا تقاضا اللہ سے امید بھی اور خوف بھی :۔ یعنی اعمال صالحہ بجا لانے اور ان کے اجر کی امید رکھنے کے باوجود اللہ سے ڈرتے بھی رہنا چاہیے کہ شاید ان اعمال میں کوئی تقصیر نہ ہوگئی ہو۔ اور بعض دفعہ انسان اس دنیا میں ناکردہ گناہوں کی پاداش میں بھی دھر لیا جاتا ہے جیسے کسی نے اس پر جھوٹا مقدمہ بنادیا یا کوئی تہمت لگا دی۔ اور یہ بھی اللہ کے عذاب ہی کی قسم ہے اور اس کی مشیئت سے ہی واقع ہوتی ہے۔ لہذا اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہی رہنا چاہیے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ ۔۔ : ” الْوَسِـيْلَةَ “ ” قُرْبٌ“ (قریب ہونا) وسیلہ کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة مائدہ (٣٥) یعنی وہ تمام لوگ جنھیں یہ مشرک پکارتے ہیں، مثلاً فرشتے، انبیاء اور صلحاء وغیرہ وہ خود اپنے رب کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں، یعنی ان میں سے وہ جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ قرب رکھنے و... الے ہیں (وہ اس کا قرب مزید چاہتے ہیں) اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں، تو جب وہ سب لوگ جنھیں مشرکین مدد کے لیے پکارتے ہیں، وہ خود اللہ کے زیادہ سے زیادہ قرب کے متلاشی ہیں اور اس کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں، تو پھر انھیں پکارنے کا اور ان سے مدد مانگنے کا کیا فائدہ۔ وہ جس کا قرب چاہتے اور جس کی رحمت کے امیدوار اور جس کے عذاب سے ڈرتے ہیں تم بھی اسی کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرو، اسی کی رحمت کی امید رکھو اور اسی کے عذاب سے ڈرو۔ افسوس کہ آج کل کے مسلمان بھی اولیاء و صلحائے امت، پیروں، بزرگوں اور شہیدوں کے متعلق وہی عقیدہ رکھتے اور اسی طرح ان کو مدد کے لیے پکارتے ہیں جو عقیدہ مشرکین اپنے بتوں کے متعلق رکھتے تھے اور جس طرح وہ اپنے بتوں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پکارتے تھے، یا یہ سمجھ کر انھیں پکارتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مشکل حل کروا سکتے ہیں۔ دیکھیے سورة یونس (١٨) اور سورة زمر (٣) اور نام اس کا وسیلہ رکھتے ہیں، جب کہ حقیقی وسیلہ سے ان اعمال کا کوئی تعلق نہیں، یہ اعمال تو صریح شرک ہیں۔ قرآن و سنت میں مذکور وسیلہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کے ذریعے سے اس کا تقرب حاصل کرنا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The word &al-wasilah& in: يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَ‌بِّهِمُ الْوَسِيلَةَ (seek the means of close ness to their Lord - 57) conveys the sense of that which is used as a means of reaching someone. As for reaching Allah, the wasilah or means is to always keep the pleasure of Allah in sight when learning or doing anything while adhering to the injunctions of the Shari` ah strictly. Thus... , the sense of the sentence is that all of them are seeking the closeness of Allah Ta’ ala through their righteous deeds. About the sentence which follows immediately after: يَرْ‌جُونَ رَ‌حْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ (hope for His Mercy and fear His punishment - 57), Sahl ibn ` Abdullah said: Hope and Fear, that is, hoping for mercy from Allah as well as fearing Him are two different states one is in. When they stay at par, one keeps on course, correct and stable. And if any one of the two overcomes the other, one finds the equilibrium of his spiritual state sub¬jected to disorder to the measure of that imbalance. (Qurtubi)   Show more

معارف و مسائل : (آیت) يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِـيْلَةَ لفظ وسیلہ کے معنی ہر وہ چیز جس کو کسی دوسرے تک پہنچنے کا ذریعہ بنایا جائے اور اللہ کے لئے وسیلہ یہ ہے کہ علم و عمل میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کی ہر وقت رعایت رکھی اور احکام شرعیہ کی پابندی کرے مطلب یہ ہے کہ یہ سب حضرات اپنے عمل صالح کے ... ذریعہ اللہ تعالیٰ کے تقرب کی طلب میں لگے ہوئے ہیں۔ (آیت) يَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَيَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ حضرت سہل بن عبداللہ نے فرمایا کہ رجاء اور خوف یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار بھی رہنا اور ڈرتے بھی رہنا یہ انسان کے دو مختلف حال ہیں جب یہ دونوں برابر درجے میں رہیں تو انسان صحیح راستہ پر چلتا رہتا ہے اور اگر ان میں سے کوئی ایک مغلوب ہوجائے تو اسی مقدار سے انسان کے احوال میں خرابی آجاتی ہے (قرطبی)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِـيْلَةَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ وَيَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَيَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ ۭ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا 57؀ ابتغاء البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، ... وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48] ، وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔ الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ وسل الوَسِيلَةُ : التّوصّل إلى الشیء برغبة وهي أخصّ من الوصیلة، لتضمّنها لمعنی الرّغبة . قال تعالی: وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ [ المائدة/ 35] وحقیقةُ الوَسِيلَةِ إلى اللہ تعالی: مراعاة سبیله بالعلم والعبادة، وتحرّي مکارم الشّريعة، وهي کالقربة، والوَاسِلُ : الرّاغب إلى اللہ تعالی، ويقال إنّ التَّوَسُّلَ في غير هذا : السّرقة، يقال : أخذ فلان إبل فلان تَوَسُّلًا . أي : سرقة . ( و س ل ) الوسیلۃ کے معنی کسی چیز کی طرف رغبت کے ساتھ پہنچنے کے ہیں چناچہ معنی رغبت کو متضمن ہونے کی وجہ سے یہ وصیلۃ سے اخص ہے ۔ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ [ المائدة/ 35] اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرو ۔ در حقیقت توسل الی اللہ علم و عبادت اور مکارم شریعت کی بجا آوری سے طریق الہی ٰ کی محافظت کرنے کا نام ہے اور یہی معیس تقرب الی اللہ کے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت کرنے والے کو واسل کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ اس کے علاوہ توسل کے معنی چوری کرنا بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ اخذا فلان ابل فلان توسلا اس نے فلا کے اونٹ چوری کر لئے ۔ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ( ق ر ب ) القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے رَّجَاءُ ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد : إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عوامل ووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] ، وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة/ 106] ، وأَرْجَتِ النّاقة : دنا نتاجها، وحقیقته : جعلت لصاحبها رجاء في نفسها بقرب نتاجها . والْأُرْجُوَانَ : لون أحمر يفرّح تفریح الرّجاء . اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة/ 106] اور کچھ اور لوگ ہیں کہ حکم خدا کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے ۔ ارجت الناقۃ اونٹنی کی ولادت کا وقت قریب آگیا ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اونٹنی نے اپنے مالک کو قرب ولادت کی امید دلائی ۔ الارجون ایک قسم کا سرخ رنگ جو رجاء کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ حذر الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] ، وقال تعالی: إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو : مناع، أي : امنع . ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٧) اور یہ فرشتے جن کی یہ کفار عبادت کررہے ہیں، وہ خود اپنے رب کی عبادت کرکے اس کے دربار میں قربت اور فضیلت حاصل کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب بنتا ہے اور وہ خود اس کی جنت کے امیدوار ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں واقعی آپ کے رب کے عذاب نازل ہونے پر ان کو پھر کوئی پناہ نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِـيْلَةَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ ) لفظ ” وسیلہ “ بمعنی قرب اس سے پہلے ہم سورة المائدۃ (آیت ٣٥) میں پڑھ چکے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح اس دنیا میں اللہ کے بندے اللہ کے ہاں اپنے درجات بڑھانے کی فکر میں رہتے ہیں اسی طرح عالم غیب یا...  عالم امر میں بھی تقرب الی اللہ کی یہ درجہ بندی موجود ہے۔ جیسے فرشتوں میں طبقہ اسفل کے فرشتے پھر درجہ اعلیٰ کے فرشتے اور پھر ملائکہ مقربین ہیں۔ اللہ کی شریک ٹھہرائی جانے والی شخصیات میں سے کچھ تو ایسی ہیں جو بالکل خیالی ہیں اور حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں۔ لیکن ان کے علاوہ ہر زمانے میں لوگ انبیاء اولیاء اللہ اور فرشتوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں شریک سمجھتے رہے ہیں۔ ایسی ہی شخصیات کے بارے میں یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ وہ چاہے انبیاء و رسل ہوں یا اولیاء اللہ یا فرشتے وہ تو عالم امر میں خود اللہ کی رضا جوئی کے لیے کوشاں اور اس کے قرب کے متلاشی ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن حکیم میں متعدد بار ذکر ہوا ہے کہ ایسی تمام شخصیات جنہیں دنیا میں مختلف انداز میں اللہ کے سوا پکارا جاتا تھا قیامت کے دن اپنے عقیدت مندوں کے مشرکانہ نظریات سے اظہار بیزاری کریں گی اور صاف کہہ دیں گی کہ اگر یہ لوگ ہمارے پیچھے ہمیں اللہ کا شریک ٹھہراتے رہے تھے تو ہمیں اس بارے میں کچھ خبر نہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

65. The words of the text are a clear proof that the deities and the helpers referred to in this verse were not idols of stone but were either angels or dead saints. It is clearly implied in this that no prophet, no saint and no angel, whom the people invoke for help, has the power to hear prayers and help anyone. They themselves hope for mercy from Allah and dread His punishment and vie with one ... another in seeking means for nearness to Him.  Show more

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :65 یہ الفاظ خود گواہی دے رہے ہیں کہ مشرکین کے جن معبودوں اور فریاد رسوں کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے ان سے مراد پتھر کے بت نہیں ہیں ، بلکہ یا تو فرشتے ہیں یا گزرے ہوئے زمانے کے برگزیدہ انسان ۔ مطلب صاف صاف یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام ہوں یا اولیاء عظام یا فرشت... ے ، کسی کی بھی یہ طاقت نہیں ہے کہ تمہاری دعائیں سنے اور تمہاری مدد کو پہنچے ۔ تم حاجت روائی کے لیے انہیں وسیلہ بنا رہے ہو ، اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ خود اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہیں ، اور اس کا زیادہ سے زیادہ تقرب حاصل کرنے کے وسائل ڈھونڈ رہے ہیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

29: اس سے مراد بت نہیں بلکہ وہ فرشتے اور جنات ہیں جن کو مشرکین عرب خدائی کا درجہ دیا کرتے تھے، مطلب یہ ہے کہ یہ خدا تو کیا ہوتے خود اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، اور اس کے تقرب کے راستے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:57) اولئک۔ موصوف الذین یدعون صفت یدعون کے بعد ضمیر مفعول محذوف ہے موصوف اپنی صفت سے مل کر مبتدا۔ یبتغون الی ربہم خبر۔ مطلب یہ کہ یہ مشرکین جن کو خدا بنائے ہوئے ہیں اور جن کو اپنی تکلیف و مصائب میں پکارتے ہیں یہ خدا نہیں ہیں بلکہ وہ تو خود ہر لمحہ ہر لحظہ اپنے رب کریم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ... مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ اگر وہ واقعی خدا ہوتے جیسے مشرکین کا خیال ہے تو پھر انہیں کسی کی عبادت اور رضا جوئی کی کیا ضرورت تھی۔ آیت میں یدعون کی ضمیر فاعل مشرکین کی طرف راجع ہے اور یبتغون کی ضمیر فاعل مشار الیہم (یعنی مشرکین جن کو خدا بنائے ہوئے ہیں) کے لئے ہے۔ الوسیلۃ۔ اسم ہے۔ بمعنی قرب، نزدیکی، قرب کا ذریعہ ۔ طاعت۔ وسیلہ بروزن فعیلہ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ وسل بمعنی تقرب۔ وہ قریب ہوگیا (رازی) وہ چیز جو اللہ کے قریب تم کو پہنچا دے (سیوطی آیت 5:35) طاعت کے ذریعہ سے قرب (سیوطی 17:57 آیت ہذا) اس کی جمع وسائل ہے جو کہ بمعنی ذرائع مستعمل ہے۔ یبتغون الی ربہم الوسیلۃ۔ اپنے رب کا قرب ڈھونڈھتے ہیں۔ اپنے رب کے قرب کا ذریعہ تلاش کرتے ہیں (بندگی اور طاعت کے ذریعہ سے) ۔ ایہم اقرب ان میں سے کون (اس راہ میں) زیادہ قریب ہوتا ہے اپنے اللہ سے) یرجون اور یخافون کا عطف یبتغون پر ہے۔ محذورا۔ اسم مفعول واحد مذکر۔ ڈرنے کی چیز۔ قابل خوف، خوفناک۔ ڈر کر بچنے کی چیز حذر یحذر (سمع) ڈر کر بچا۔ احتیاط کی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی اس کی عبادت اور اطاعت کر کے وسیلہ (تقرب الٰہی) چاہتے ہیں اور ان کی ساری تگ و دو اسی لئے ہے کہ اس بارے میں کون دوسروں سے آگے نکلتا ہے حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” میرے لئے وسیلہ طلب کرو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ وسیلہ کیا چیز ہے ؟ اللہ تعالیٰ کا ... تقرب پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (فتح البیان) افسوس کہ آج کل اس امت کے مسلمان بھی اس شرک میں مبتلا ہیں۔ اولیاء و صلحاء پر امت، پیروں، بزرگوں اور شہیدوں سے وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو مشرکین اپنے بتوں سے رکھتے تھے، ان کو حاجت روا اور صاحب تصرف سمجھتے ہیں اور ان کے نام کی نیازیں دیتے ہیں تاکہ وہ تکالیف کو دور کریں وغیرہ۔ (وحیدی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی طاعت و عبادت میں مشغول ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب میسر ہوجائے، اور چاہتے ہیں کہ زیادہ قرب ہوجاوے۔ 3۔ مطلب یہ کہ جب وہو خود عابد ہیں تو معبود کیونکر ہوں گے اور جب وہ خود ہی منفعت یعنی رحمت میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں تو اوروں کو کیا منفعت دے سکتے ہیں۔ اسی طرح جب وہ خود مضرت یعنی عذاب سے بچن... ے میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں تو اوروں سے مضرت کو کیا دفع کرسکتے ہیں، پھر ان کا معبود معین بنانا محض باطل ہوگا۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بعض لوگ حضرت عزیر کو ابن اللہ کہتے تھے اور یہ لوگ حضرت عزیر کی بندگی بھی کرتے تھے۔ بعض لوگ ایسے تھے جو حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے اور ان کی بندگی کرتے تھے۔ بعض لوگ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور ان کی پوجا کرتے تھے اور بعض لوگوں نے ان کے سوا اور معبود اور خدا بنا رکھے تھے۔ اللہ ... ان سب لوگوں کے بارے میں کہتا ہے کہ جن لوگوں کو تم پکارتے ہو ، وہ خود اللہ کے دربار میں رسائی حاصل کرنے کے لئے وسیلے تلاش کرتے ہیں اور عبادات کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ اور اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اللہ کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں ، تو تمہارے مناسب حال بھی یہ بات ہے کہ تم بھی اللہ کا تقرب حاصل کرو جیسا کہ یہ معبود اللہ کا تقرب حاصل کرتے ہیں ، حالانکہ یہ معبود نہیں ہیں ، یہ تو اللہ کے بندے ہیں۔ اور اللہ کی رضا مندی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یوں اس سبق کا آغاز اور انجام رد شرک سے ہوتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ شرک کی تمام صورتیں باطل ہیں ، صرف اللہ وحدہ الہ ہے ، قابل عبادت ہے اور اس بات کے لائق ہے ہم اسے پکاریں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کے سوا جو معبود بنا رکھے ہیں وہ کوئی ذرا سی تکلیف بھی دور نہیں کرسکتے کوئی بستی ایسی نہیں جسے ہم قیامت سے پہلے ہی ہلاک نہ کریں یا عذاب نہ دیں مشرکین اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی پرستش کرتے تھے اور کرتے ہیں ان میں سے بہت سے تو بتوں کے پرستار تھے انہوں نے شیاطین کی صورتیں دیکھ کر مجسمے بنالیے...  تھے اور بہت سے لوگ فرشتوں کو اور جنات کو اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور ان کی والدہ کو معبود مانتے تھے جن کی عبادت کی جاتی ہے اسے نفع کے لیے اور دفع مضرت کے لیے پکارا جاتا ہے۔ آیت بالا میں فرمایا کہ تم جن کو اللہ کے علاوہ معبود سمجھتے ہو تمہاری کوئی تکلیف دکھ درد، قحط دور نہیں کرسکتے اور یہ بھی نہیں کرسکتے کہ تم سے ہٹا کر کسی دوسرے کو اس میں مبتلا کردیں اور یہ بھی نہیں کرسکتے کہ ایک تکلیف ہٹا کر دوسری تکلیف پہنچا دیں، جنات ہوں یا فرشتے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہوں یا ان کی والدہ یا کوئی بھی دیوی دیوتا ہو انہیں کسی ضرر اور شر کے دفع کرنے اور کوئی بھی نفع پہنچانے کی کچھ بھی قدرت نہیں ہے نفع و ضرر پہنچانے کی قدرت صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ جن لوگوں کو اللہ کے سوا نفع و ضرر اور حصول منفعت کے لیے پکارتے ہو وہ تو خود اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں وہ اپنے رب کی طرف قریب ہونے کا ذریعہ تلاش کرتے ہیں طاعت و عبادت میں لگے رہتے ہیں اور انہیں یہ فکر رہی ہے کہ کسی طرح اللہ تعالیٰ سے قریب تر ہوجائیں (اس سے قرب معنوی مراد ہے) وہ اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں پھر جو لوگ خود ہی اپنے کو خالق جل مجدہ کا محتاج سمجھتے ہیں ان سے کیوں مانگتے ہو ؟ جس ذات پاک سے وہ مانگتے ہیں اسی سے تم بھی مانگو۔ صحیح بخاری (ج ٢/٦٨٥) میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے نقل کیا ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ ایسے تھے جو جنات کی عبادت کرتے تھے وہ جنات تو مسلمان ہوگئے لیکن ان کی عبادت کرنے والے برابر ہی ان کی عبادت میں لگے رہے اور اپنا دین باطل نہیں چھوڑا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ بتوں کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ غیر ذی روح ہیں وہ کسی کی کیا مدد کرسکتے ہیں جو بندے صاحب عقل و فہم ہیں اور جنہیں اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہے وہ بھی کوئی دفع مضرت نہیں کرسکتے۔ الا ماشاء اللہ حتیٰ کہ وہ اپنی جانوں کو بھی نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ کما قال اللّٰہ تعالٰ (قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآء اللّٰہُ ) (آپ فرما دیجیے میں اپنی جان کے لیے کسی نفع اور ضرر کا مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے) (اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا) (بلاشبہ آپ کے رب کا عذاب ایسا ہے جس سے ڈرا جائے) کیونکہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اور فرشتے اور حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) کی راہ پر چلنے والے ان سب حضرات کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اس لیے وہ اس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں اور یہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ایسا ہے جس سے ڈرنا چاہیے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ (وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ ) سے معلوم ہوا کہ عبادت وطاعت میں مشغول ہوتے ہوئے امید اور خوف دونوں برابر ساتھ رہنے چاہئیں پھر لکھا ہے کہ علماء نے فرمایا ہے کہ یہ صورت حال موت کے وقت سے پہلے ہونی چاہیے اور جب موت آنے لگے تو اپنی امید کو خوف پر غالب کرلے، نیز یہ بھی لکھا کہ آیت بالا سے معلوم ہوا کہ عبادت کرتے ہوئے عذاب سے بچنے اور رحمت کی امید باندھنے کا جذبہ ہونا کمال عبادت کے خلاف نہیں ہے اور وہ جو بعض عابدین نے کہا ہے کہ میں جنت کی امید اور دوزخ کے خوف سے عبادت نہیں کرتا اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر حال میں مستحق عبادت ہے اگر جنت اور دوزخ نہ ہوتے تب بھی اس کی عبادت کرنا لازم ہوتا والحق التفصیل وھو ان من قالہ اظھار اللاستغناء عن فضل اللّٰہ تعالیٰ ورحمتہ فھو مخطئ کافر ومن قالہ لاعتقاد ان اللّٰہ عزوجل اھل للعبادۃ لذاتہ حتی لولم یکن ھناک جنۃ ولا نار لکان اھلا لان یعبد فھو محقق عارف کما لا یخفی۔ (روح المعانی ص ١٠٠ ج ١٥)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

54:۔ یہ دلیل مذکورہ کا ثمرہ ہے جب سب کچھ جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے تو اس کے سوا کسی کو حاجات و مشکلات میں مت پکارو۔ اگر اطمینان نہ آئے تو جن کو تم نے اللہ کے سوا حاجت روا اور کارساز سمجھ رکھا ہے ان میں سے کوئی بھی تمہاری موجودہ مصیبتیں دور کرنے اور آنے والی تکلیفوں کو روکنے کا ہرگز اختیار نہیں رک... ھتا۔ جن انبیاء و اولیاء اور ملائکہ (علیہم السلام) کو تم نے کارساز اور مختار و متصرف سمجھ رکھا ہے ان میں سے کوئی بھی تمہاری موجودہ مصیبتیں دور کرنے اور آنے والی تکلیفوں کو روکنے کا ہرگز اختیار نہیں رکھتا۔ جن انبیاء و اولیاء اور ملائکہ (علیہم السلام) کو تم نے کارساز اور مختار و متصرف سمجھ رکھا ہے ان کا تو اپنا حال یہ ہے کہ ان میں سے جو جس قدر اللہ تعالیٰ کے زیادہ مقرب ہیں اسی قدر اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ نزدیکی تلاش کرتے ہیں، وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے ترساں و لرزاں رہتے ہیں۔ ” ایھم “ میں ای موصولہ ہے اور ” یبتغون “ کی ضمیر فاعل سے بدل البعض ہے اور ” اولئک الذین الخ “ سے وہ انبیاء و ملائکہ (علیہم السلام) مراد ہیں جن کو مشرکین پکارتے تھے۔ ای اولئک الذین ای المعبودون یطلب من ھو اقرب منھم الوسیلۃ الی اللہ تعالیٰ بطاعتہ فکیف بالابعدالخ (روح ج 15 ص 92) ۔ یہ آیت حضرت عزیر، حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) اور ملائکہ کرام کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہود حضرت عزیر کو، عیسائی حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کو اور مشرکین فرشتوں اور دیگر بزرگوں کو کارساز سمجھتے تھے ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔ وھم الملائکۃ او عیسیٰ وعزیر الخ (مدارک ج 2 ص 245) ای دعوا الذین تعبدون من دون اللہ و زعمتم انھم الھۃ و قال الحسن یعنی الملائکۃ و عیسیٰ عزیرا (قرطبی ج 10 ص 279) ۔ قال ابن عباس فی عزیر والمسیح وامہ۔ والمعنی دعوھم فلا یستطیعون ان یکشفوا عنکم الضر من مرض او فقر او عذاب ولا ان یحولوہ من واحد الی واحد اخر او یبدلوہ (بحر ج 6 ص 51) تحقیق لفظ وسیلہ :۔ ” وسیلۃ “ نروزم فعیلہ سے اعمال صالحہ اور اطاعت خداوندی مراد ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ امام آلوسی اور ابو السعود فرماتے ہیں (الوسیلۃ) القربۃ بالطاعۃ والعبادۃ (روح ج 15 ص 98) ، ابو السعود ج 5 ص 601) ۔ حضرت قتادہ (رح) سے بھی یہی منقول ہے۔ والوسیلۃ ھی القربۃ کما قال قتادۃ (ابن کثیر ج 3 ص 47) قال قتادۃ ای تقربوا الیہ بطاعتہ والعمل بما یرضیہ (ایضا ج 2 ص 52) ۔ علامہ آلوسی دوسری جگہ فرماتے ہیں۔ ھی فعیلۃ بمعنی ما یتوسل بہ و یتقرب الی اللہ عز و جل من فعل الطاعات و ترک المعاصی من وسل الی کذا ای تقرب الیہ بشیء (روح ج 6 ص 124) ۔ قرآن مجید کی نصوص سے بھی یہ حقیقت واضح ہے کہ ایمان باللہ، ایمان بالرسول اور اتباع رسول قرب خداوندی کا وسیلہ ہے۔ ارشاد ہے ” ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان “ تا ” فاغفرلنا ذنوبنا و کفر عنا سیئاتنا الیۃ “ (آل عمران رکوع 20) ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے ” انہ کان فریق من عبادی یقولون ربنا امنا فاغفرلنا وارحمنا و انت خیر الرٰحمین “ (مومنون رکوع 6) ۔ ان دونوں آیتوں میں ایمان والوں کی دعا کا ذکر ہے جس میں وہ ایمان باللہ کو وسیلہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا مانگ رہے ہیں۔ ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے ” ربنا امنا بما انزلت و اتبعنا الرسول فاکتبنا مع الشھدین “ (ال عمران رکوع 15) ۔ اس آیت میں حواریان عیسیٰ (علیہ السلام) نے ایمان بالکتاب اور اتباع رسول کے وسیلہ سے دعا مانگی۔ حدیث میں آتا ہے گذشتہ زمانے میں تین آدمی سفر کر رہے تھے، بارش شروع ہوگئی تو بچاؤ کے لیے ایک غار میں داخل ہوگئے۔ ایک بھاری چتان نے لڑھک کر غار کا منہ بند کردیا تو تینوں نے اعمال صالحہ کے وسیلہ سے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے چٹان کو نیچے لڑھکا کر غار کا منہ کھول دیا۔ ومن ھذا الباب حدیث الثلثۃ الذین اصابتھم المطر فاو وا الی الغار وانطبقت علیہم الصخرۃ ثم دعو وا اللہ باعمالھم الصالحۃ ففرج عنہم۔ یہ حدیث کتب صحاح میں موجود ہے۔ اسی طرح اگر کسی زندہ بزرگ سے دعا کرائی جائے تو یہ بھی ایک قسم کا وسیلہ ہے اور جائز ہے۔ لیکن اگر بزرگ فوت ہوچکا ہو یا کہیں دور موجود ہو تو اس سے غائبانہ دعا کی درخواست کرنا اس خیال سے کہ وہ جانتا ہے یہ ہرگز جائز نہیں۔ الاستعانۃ بمخلوق وجعلوہ وسیلۃ بمعنی طلب الدعاء منہ لا شک فی جو ازہ ان کان المطلوب منہ حیا۔ واما اذا کان المطلوب منہ میتا او غائبا فلا یستریب عالم انہ غیر جائز وانہ من البدع التی لم یفعلھا احد من السلف۔ ولم یرو عن احد من الصحابۃ (رض) وھم احرص الناس علی کل خیر۔ انہ طلب من میت شیئا الخ (روح ج 6 ص 125) ۔ حدیثوں میں وارد ہے کہ لوگ حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے دعا کی درخواست کیا کرتے تھے لیکنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد کسی ایک صحابی سے بھی صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں کہ اس نے آپ کی قبر مبارک پر جا کر دعا کی درخواست کی ہو۔ قرآن مجید کی آیت ” ولو انھم اذ طلموا انفسہم جاءوک فاستغفروا اللہ و استغفرلھم الرسول الایۃ “ سے زندگی میں دعا کرانا مقصود ہے۔ اہل بدعت نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اولیاء کرم کی قبروں پر جا کر اور ان کو مخاطب کر کے ان کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے۔ اگر اس طرح قبر پر جا کر وسیلہ پکڑنا جائز ہوتا تو حضرت عمر (رض) حضرت عباس (رض) کی دعا سے وسیلہ نہ پکڑتے بلکہ سیدھےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک پر جا کر آپ سے دعا کی درخواست کرتے۔ صحیح بخاری میں ہے جب بارش نہ ہوتی تو حضرت عمر (رض) حضرت عباس (رض) کو باہر لے جاتے دوسرے مسلمان بھی ہوتے تو حضرت عمر اللہ سے التجا کرتے۔ اللھم انا کنا نتوسل الیک بنبیک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبیک فاسقنا فیسقون۔ اللہ پہلے ہم تیرے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے توسل سے بارش مانگتے تھے تو تو بارش برساتا تھا اب ہم تیرے پیغمبر کے چچا کے توسل سے بارش کی دعا مانگتے ہیں۔ تو اس سے معلوم ہوا کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے توسل اگر وفات کے بعد بھی جائز ہوتا تو صحابہ کرام (رض) اس اعلی توسل کو چھوڑ کر حضرت عباس (رض) کی دعاء سے توسل نہ کرتے۔ لو کان التوسل بہ (علیہ الصلوۃ والسلام) بعد انتقالہ من ھذہ الدار لما عدلوا الی غیرہ الخ (روح ج 6 ص 426) ۔ حضرت عباس (رض) سے توسل کا مطلب یہ ہے کہ وہ دعا کرتے تھے اور دوسرے لوگ آمین کہتے تھے۔ ان العباس کان یدعو وھم یومنون لدعائہ حتی سقوا (روح ج 6 ص 127) اسی طرح بحق فلاں دعا مانگنا بھی مکروہ تحریمی ہے کیونکہ اللہ پر کسی کا کوئی حق نہیں۔ البتہ یوں کہنا جائز ہے۔ اللھم انی اسئلک بمحبتی لہ وباتباعی ایاہ۔ اسی طرح توسل بالذات بھی ثابت نہیں۔ و انت تعلم ان الادعیۃ الماثورۃ عن اھل البیت الطاھرین وغیرھم من الئمۃ لیس یھا التوسل بالذات المکرمۃ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (روح ج 6 ص 126) توسل بالاموات پر بعض حدیثوں سے استدلال کیا جاتا ہے ان کی حقیقت بھی ملاحظہ ہو۔ پہلی حدیث :۔ جاء اعرابی الی قبر النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمی بنفسہ علی قبر النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال جئب لتستغفر لی فنودی من القبر انہ قد غفر لک یہ روایت صحیح نہیں بلکہ موضوع ہے اس کا ایک راوی ہیثم بن عدی طائی ہے جسے محدثین نے کذاب و وضاع کہا ہے۔ کان کذابا یضع الحدیث علی الثقات (تہذیب التہذیب) یحییٰ بن معین نے اس کے بارے میں کوفی لیس بثقۃ کان یکذب امام ابو داود نے کذاب امام ابو حاتم رازی، نسائی، دولابی، ازدی نے متورک الحدیث اور حاکم ابو احمد نے ذاھب الحدیث کہا (الصارم المنکی ص 310) ۔ ابن عبدالہادی نے اپنی کتاب الصارم المنکی میں لکھا ہے کہ کذاب راویوں نے ایک موضوع حدیث بیان کی ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر پر آ کر گناہوں کی بخشش کے لیے آپ کو مخاطب کر کے آپ کا وسیلہ پکڑا اس روایت میں ابو الجوازاء حضرت عائشہ (رض) سے راوی ہے لیکن ابو الجوزاء کا سماع، حضرت عائشہ (رض) سے ثابت نہیں۔ قال ابن عبد البر فی التمھید ابو الجوزاء لم یسمع من عائشۃ شیئا۔ دوسری حدیث :۔ طبرانی نے روایت کی ہے کہ عرہ بن زبیر حضرت صفیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد کہا تھا۔ الا یارسول اللہ کنت رجاءنا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عروہ کا سماع حضرت صفیہ سے ثابت نہیں کیونکہ اس کی پیدائش ہی حضرت صفیہ کی وفات کے بعد ہوئی۔ دوسری بات یہ ہے کہ خطاب بیا ہمیشہ حاضر و ناظر کو نہیں ہوتا جس کے نظائر بہت ہیں۔ مثلاً ہر نماز میں پڑھا جاتا ہے السلام علیک ایھا النبی۔ اسی طرح قبرستان میں جا کر کہا جاتا ہے السلام علیکم یا اھل الدیار من المومنین۔ جبحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادہ ابراہیم کی وفات ہوئی تو آپ نے فرمایا انا بفراقک یا ابراہیم لمحزونون۔ حضرت عمر نے حجر اسود سے مخاطب ہو کر فرمایا انی لاعلم انک حجر الخ۔ ایک انصاری عورت نے حضرت عثمان بن مظعون کی وفت پر کہا تھا رحمۃ اللہ علیک یا ابا السائب۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی ہلاکت کے بعد فرمایا۔ ” یقوم لقد ابلغتکم رسلت ربی۔ “ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی تباہی کے بعد ان سے خطاب کر کے فرمایا۔ ” لقد ابلغت رسالۃ ربی الخ “ علی ہذا یہ خطابات ہیں۔ یا ظبیات القاع قلن لنا یایھا اللیل الطویل۔ یا قبر معن کیف و اریت جودہ۔ جس طرح ان کطابات سے خطاب مقصود نہیں اسی طرح حضرت صفیہ کا مقصود بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے سنانا نہیں۔ تیسری حدیث :۔ مستدرک حاکم کتاب الدعاء ص 519 ج 1 میں حضرت عثمان بن حنیف سے روایت کی ہے۔ ان رجلا ضریر البصر اتی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال ادع اللہ ان یعافینی۔ اللھم انی اسئلک و اتوجہ الیک بنبیک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی الرحمۃ۔ الحدیث ص 526 پر حاکم نے اس حدیث کی متابعات ذکر کی ہیں۔ یہ حدیث مسند احمد ج 4 ص 138 میں بھی ہے۔ حاکم نے اس حدیث کو علی شرط الشیخین کہا ہے۔ ان حدیثوں میںحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کا واقعہ مذکور ہے۔ لیکن بیہقی اور طبرانی نے معجم کبیر میں اس روایت کو اس طرح نقل کیا ہے کہ ایک شخص حضرت عچمان بن عفان کے پاس آیا کرتا تھا لیکن وہ توجہ نہیں فرماتے تھے آخر وہ شخص عثمان بن حنیف کو ملا اور اپنا حال بیان کیا تو انہوں نے اس کو وہی دعا سکھائی جوحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اندھے کو سکھائی تھی اس دعاء میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے وسیلہ بنایا گیا ہے حالانکہ یہ واقعہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس روایت کے ہر طریق میں ابو جعفر مدائنی واقع ہے اسی لیے امام ترمذی نے لکھا ہے ھذا الحدیث لانعرفہ الا من ھذا الوجہ من حدیث ابی جعفر و ھو غیر الخطمی (ج 2 ص 202) ۔ اما مسلم بن حجاج ابو جعفر مدائنی کو حدیثیں گھڑنے والوں میں شمار کرتے ہیں۔ کعبد اللہ بن مسور ابی جعفر المدائنی وغیرہ ممن اتھم بوضع الاحادیث وتولید الاخبار (خطبۃ صحیح مسلم ص 5) اسی طرح ص 16 پر فرماتے ہیں ان ابا جعفر الھاشمی المدنی کان یضع احادیث کلام حق ولیست من احادیث النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وکان یرویھا عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ امام نووی فرماتے ہیں ابو جعفر مدینی ان ضعیف راویوں سے ہے جو جھوٹی حدیثیں بناتے ہیں۔ اما ابو جعفر ھذا ھو عبداللہ بن مسور المدائنی ابو جعفر المدنی تقدم فی اول الکتابفی الضعفاء الواضعین (شرح صحیح مسلم ج 2 ص 17) ۔ امام ذہبی اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ روایت میں ثقہ نہیں، امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں اس کی حدیثیں موضوع ہیں میں نے اس سے روایت کرنا چھوڑ دیا ہے اور عبدالرحمن بن مہدی ہمیں عبداللہ بن مسور کی حدیث بیان نہیں کرتے تھے۔ امام نسائی اور دار قطنی نے کہا ہے کہ عبداللہ بن مسور متروک الحدیث ہے۔ امام رقبہ کہتے ہیں کہ اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بہت سی حدیثیں وضع کی ہیں۔ عبداللہ بن المسور بن عون بن جعفر بن ابی طالب ابو جعفر الھاشمی المدائنی لیس بثقۃ، عن رقبۃ ان عبداللہ بن مسور المدائنی وضع احادیث علی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، قال احمد ترکت انا حدیثہ وکان ابن مھدی لا یحدثنا عنہ و قال النسائی والدارقطنی متروک (میزان الاعتدال ج 2 ص 504) ۔ امام نووی شرح مسلم ج 2 ص 17 پر لکھتے ہیں اما ابو جعفر ھذا فھو عبداللہ بن مسور المدائنی ابو جعفر المدنی تقدم فی اول الکتاب فی الضعفاء الواضعین۔ امام بخاری فرماتے ہیں ھو عبداللہ بن مسور بن جعفر بن ابی طالب ابو جعفر القرشی الھاشمی (تاریخ کبیر) ۔ ان حوالوں سے معلوم ہوگیا ائمہ جرح و تعدیل نے ابو جعفر کو کذاب و وضاع قرار دیا ہے۔ لہذا حاکم کا اس حدیث کو صحیح کہنا غلط اور اس کے تساہل مشہور سے ناشی ہے۔ امام ابن تیمیہ (رح) فرماتے ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں آپ سے استشفاع یعنی آپ سے دعا کرانے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔ اور طبرانی کی جس روایت سے عموم استشفاع پر استدلال کرتے ہیں وہ ضعیف ہے کیونکہ اس کا ایک راوی روح ہے جو ضعیف ہے۔ نیز وہ عثمان بن حنیف کی رائے ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم نہیں۔ اور عثمان بن حنیف نے بھیحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ سے تبرک کے طور پر اس دعاء کی تلقین کی تھی نہ کہ بطور استغاثہ۔ در صواعق الہیہ است از ابن تیمیہ۔ در جواز استشفاع ازان حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) در حالت حیات نزاع نیست و در روایت طبرانی کہ عموم حکم استعمال این دعا ازان بیان کنند ضعیف است از جہت ضعف روح (نام راوی) و مع ہذا آن رائے عثمان بن حنیف اس بدون امر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وآن نیز بقصد تبرک از الفاظ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ بقصد استغاثہ۔ علاوہ ازیں حرف نداء سے ہر جگہ خطاب اور منادی کو سنانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ایسا ہوتا ہے کہ منادی غائب کو نصب العین کے طور پر یعنی حاضر فرض کر کے حرف ندا استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث دوم کے جواب میں اس کی متعدد مثالیں ذکر کی جا چکی ہیں۔ بعض دفعہ بطور حکایت حرف نداء کو استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ التحیات میں کہا جاتا ہے السلام علیک ایھا النبی الخ حضرت عثمان بن حنیف نے بھی اندھے کو بطور حکایت یا بطور نصب العین اس دعا کی تلقین کی تھی۔ یہ ساری بحث اس صورت میں ہے جبکہ اس روایت کو صحیح مان لیا جائے۔ لیکن علامہ آلوسی صاف لکھتے ہیں کہ حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد حضرت عثمان بن حنیف (رض) کے اندھے کو تلقین دعا کا واقعہ بالکل موضوع ہے۔ چوتھی حدیث :۔ توسل ادم بعلی و فاطمۃ والحسن والحسین (رض) (مجمع الزوائد) یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) نے حضرات علی، فاطمہ، حسن اور حسین (رض) کے وسیلہ سے دعا مانگی تھی۔ جواب :۔ اس روایت کی دار قطنی نے تخریج کی ہے اس میں عمرو بن ثابت بن ہرمز متفرد ہے جو غالی شیعہ اور کذاب و وضاع تھا۔ تفرد بھا عمرو بن ثابت بن ھرمز وھو من الشیعۃ الغلاۃ الکذابین الوضاعین۔ امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں لا تحدثوا عن عمرو ابن ثابت فانہ کان یسب السلف۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں ھو غیر ثقۃ۔ امام بخاری : لیس بالقوی۔ امام ابو داؤود : رافضی خبیث، کان من شرار الناس۔ امام نسائی : متروک لیس بثقۃ ولا مامون (تہذیب التہذیب) ۔ پانچویں حدیث :۔ اصابہم قحط فی زمن عمر فجاء رجل الی قبر النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال یا رسول اللہ استسق للامۃ فاتاہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال لہ ائت عمر فقل لہ ان الناس یسقون (بیھقی، ابن ابی شیبۃ) ۔ جواب :۔ اول تو یہی معلوم نہیں کہ قبر پر جانے والا کون ہے، وہ مجہول الحال والاسم ہے۔ معلوم نہیں ثقہ ہے غیر ثقہ ہے۔ دوم اگر یہ واقعہ صحیح ہوتا اورحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک پر اس طرح استشفاع جائز ہوتا تو حضرت عمر (رض)حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد حضرت عباس (رض) کو باہر لیجا کر بارش کے لیے ان سے دعا نہ کراتے اور نہ یہ کہتے کہ ابحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں موجود نہیں ہیں اس لیے ہم آپ کے چچا عباس کی دعا سے توسل کرتے ہیں۔ سوم اس روایت کی سند میں سیف بن عمرو ضبی ہے جو باتفاق محدثین ضعیف اور متہم بالزندقہ ہے۔ وہ جھوٹی حدیثیں بنایا کرتا تھا۔ امام ذہبی کہتے ہیں ھو کالواقدی۔ امام ابو داود نے کہا لیس بشیء۔ ابو حاتم رازی نے کہا۔ متروک۔ ابن حبان، اتھم الزندقۃ۔ ابن عدی : عامۃ حدیثہ منکر۔ امام ابن نمیر : کان سیف یضع الحدیث وقداتھم بالزندقۃ (میزان الاعتدال) حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں وفات کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مزار پر جا کر استشفاع جائز نہیں یہ کام سلف میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کیا۔ اما دعاء الرسول وطلب الحوائج منہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وطلب شفاعتہ عند قبرہ بعد موتہ فھو مالم یفعلہ احد من السلف (القاعدۃ الجلیلۃ ص 56) ۔ بعض صحابہ وتابعین سے جو یہ منقول ہے۔ اللھم انی اسئلک بنبیک محمد اس سے مراد ہے اسئلک بایمانی بنبیک محمد یعنی اس میں ایمان بالرسول کو وسیلہ بنایا گیا ہے۔ جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے۔ پانچویں حدیث۔ اذا اعیتکم الامور فعلیکم باھل القبور فاستعینوا باھل القبور جب تم مشکلات سے عاجز ہوجاؤ تو اہل قبور سے استمداد کرو۔ جواب :۔ یہ حدیث موضوع اور حضرت پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر افتراء ہے۔ حدیث کی کسی معتبر کتاب میں اس کا نام و نشان نہیں۔ ھو حدیث مفتری علی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باجماع العارفین بحدیثہ لم یروہ احد من العلماء ولا یوجد فی شیء من کتب الحدیث المعتمدۃ (روح ج 6 ص 128) البتہ بحرمت فلاں دعا مانگنے میں کوئی کلام نہیں یہ سب کے نزدیک جائز ہیں۔ مگر اس میں بھی تفصیل ہے جو حسب ذیل ہے :۔ اگر بحرمت فلاں کہنے والے کا عقیدہ یہ ہو کہ اولیاء کرام یا انبیاء (علیہم السلام) پکاریں سنتے ہیں اور حاجت روائی کرسکتے ہیں تو اس عقیدے والے کا یہ کہنا شرک ہے جائز نہیں۔ اور اگر اس کا عقیدہ شرکیہ نہ ہو اور اس کی تمام کتابیں تردید شرک و بدعت سے پر ہوں اور اس کی کسی کتاب میں یہ کلمات آگئے ہوں تو ان کی توجیہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق کرنی ضروری ہے۔ بعض لوگ یہ توجیہ کرتے ہیں اے اللہ میں گنہگار ہوں فلاں پیغمبر یا ولی تیرا پیارا ہے مجھے اس کی وجہ سے معاف کردے۔ یہ بالکل بےمعنی ہے کیونکہ فلاں پیغمبر یا ولی تو اللہ کے مقبول ہیں خدا مجرم کو کیوں معاف کردے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی قاتل سیشن جج سے کہہ دے میں مجرم ہوں اور یہ آپ کا پیارا بیٹا ہے مجھے آپ معاف کردیں۔ یہ توجیہ بالکل لغو ہے۔ اس کی توجیہ صحیح یہ ہے اے اللہ مجھے فلاں پیغمبر یا ولی سے محبت ہے اور میں اس کی اتباع کرتا ہوں یہ محبت فعل قلبی اور اتباع فعل جوارح ہے۔ گویا اپنے فعل قلب یا فعل اعضاء کو اللہ تعالیٰ کے آگے بطور وسیلہ پیش کرنا اپنے اعمالِ صالحہ کا وسیلہ ہونا قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے صاف ثابت ہے۔ سورة آل عمران میں وابتغاء الرسول فاکتبنا مع الشاھدین۔ اور سورة انعام میں پارہ ساتواں پہلے صفحہ میں ہے یقولون ربنا امنا فاکتبنا مع الشاھدین۔ ان دونوں آیتوں میں اتباع اور ایمان کو وسیلہ بنایا گیا ہے معلوم ہوا کہ اتباع پیغمبر وسیلہ ہے اور اس طرح غار والی حدیث صحیح سے اعمال صالحہ کا وسیلہ بنانا معلوم ہوتا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ قائل اس کا توحید و سنت پر پختہ ہو شرک اور بدعت سے بیزار ہو جیسا کہ شاہ ولی اللہ اور مولانا اسماعیل شہید اور مجدد الف ثانی وغیرہم۔ پس ایسے بزرگانِ دین سے جو ایسے کلمات منقول ہیں ان کی توجیہ کردی گئی ہے لہذا ان بزرگوں پر جو طعن دیتے ہیں کہ انہوں نے یہ کیوں لکھا ہے بالکل غلط ہے جب ان کی عبارت کی توجیہ قرآن مجید اور سنت صحیحہ کے مطابق ہوسکتی ہے تو طعن کرنا بےمعنی ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ عوام الناس کو اس قسم کی عبارت کا سبق دینا بہتر نہیں ہے کہ یہ دور عام شرک اور بدعت کا ہے اس سے لوگ غلط فائدہ اٹھاتے ہیں نیز قرآن مجید کی تمام دائیں اور احادیث صحیحہ کی دعائیں ایسی عبادت سے خالی ہیں۔ ہذا تحقیق شیخی وسندی مولانا حسین علی مرحوم  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

57 یہ مشرک جن لوگوں کو پکارتے ہیں ان کو خود یہ حالت ہے کہ وہ خود اپنے پروردگار تک پہونچنے کا ذریعہ تلاش کرتے پھرتے ہیں کہ ان میں کون نزدیک تر ہے اللہ تعالیٰ سے جس کو وسیلہ بنائیں اور وہ پروردگار عالم کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اس کے عذاب سے خوف کھاتے اور ڈرتے رہتے ہیں واقعی آپ کے پروردگار کا عذاب ہے...  بھی ڈرنے کے قابل یعنی اس آیت میں کئی قول ہیں ایک بھی ہے کہ یہ اس وسیلہ کی تلاش میں ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ مقرب بنتا ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ جوان میں سے مقرب بنتا ہے وہ بھی ایسے وسیلے کی تلاش میں ہے جس سے اور زیادہ قرب حاصل ہو اس آیت میں ان لوگوں کا رد ہے جو جنات اور ملائکہ کی پرستش کرتے تھے ملائکہ تو قرب خداوندی کے لئے وسیلہ کے متلاشی رہتے ہیں حسن اتفاق سے وہ جن بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت حاضر ہو کر مسلمان ہوگئے اور ان کافروں کو جوان کے پجاری تھے انہیں خبر نہ ہوئی اس لئے ان کے عار دلانے کو فرمایا کہ تم ان کو اللہ کے سوا پکارتے ہو اور ان کی حالت یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو کر قرب الٰہی حاصل کرنے کی غرض سے خدا کی عبادت اور ریاضت میں لگے ہوئے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی جن کو کافر پوجتے ہیں وے آپ ہی اللہ کی جناب میں وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ جو بندہ بہت نزدیک ہو اسی کا وسیلہ پکڑیں اور وسیلہ رب کا پیغمبر ہے آخرت میں انہیں سے شفاعت ہوگی۔  Show more