Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 58

سورة بنی اسراءیل

وَ اِنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اِلَّا نَحۡنُ مُہۡلِکُوۡہَا قَبۡلَ یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ اَوۡ مُعَذِّبُوۡہَا عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا ﴿۵۸﴾

And there is no city but that We will destroy it before the Day of Resurrection or punish it with a severe punishment. That has ever been in the Register inscribed.

جتنی بھی بستیاں ہیں ہم قیامت کے دن سے پہلے پہلے یا تو انہیں ہلاک کر دینے والے ہیں یا سخت تر سزا دینے والے ہیں ۔ یہ تو کتاب میں لکھا جا چکا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Destruction or Torment of all Disbelieving Towns before the Hour begins Allah tells; وَإِن مَّن قَرْيَةٍ إِلاَّ نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا كَانَ ذَلِك فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا And there is not a town (population) but We shall destroy it before the Day of Resurrection, or punish it with a severe torment. That is written in the Book (of Our decrees). Here Allah tells us that He has decreed and it is written in Al-Lawh Al-Mahfuz (The Preserved Tablet) which is with Him, that there is no town that He will not destroy by wiping out all its people or by punishing them, عَذَابًا شَدِيدًا (with a severe torment), either by killing them or sending calamities upon them as He wills. This will be because of their sins, as Allah says of the past nations: وَمَا ظَلَمْنَـهُمْ وَلَـكِن ظَلَمُواْ أَنفُسَهُمْ We wronged them not, but they wronged themselves. (11:101) فَذَاقَتْ وَبَالَ أَمْرِهَا وَكَانَ عَـقِبَةُ أَمْرِهَا خُسْراً So it tasted the evil result of its affair (disbelief), and the consequence of its affair (disbelief) was loss. (65:9) وَكَأِيِّن مِّن قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ And many a town (population) revolted against the command of its Lord and His Messengers; (65:8) and many Ayat.

وہ نوشتہ جو لوح محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے وہ حکم جو جاری کر دیا گیا ہے اس کا بیان اس آیت میں ہے کہ گنہگاروں کی بستیاں یقینا ویران کر دی جائیں گی یا ان کے گناہوں کی وجہ سے تباہی کے قریب ہو جائیں گی اس میں ہماری جانب سے کوئی ظلم نہ ہو گا بلکہ انکے اپنے کرتوت کا خمیازہ ہو گا ، رب کی آیتوں اور اسکے رسولوں سے سرکشی کرنے کا پھل ہو گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

58۔ 1 کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات طے شدہ ہے، جو لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے کہ ہم کافروں کی ہر بستی کو یا تو موت کے ذریعے سے ہلاک کردیں گے اور بستی سے مراد، بستی کے باشندگان ہیں اور ہلاکت کی وجہ ان کا کفر و شرک اور ظلم و طغیان ہے۔ علاوہ ازیں یہ ہلاکت قیامت سے قبل وقوع پذیر ہوگی، ورنہ قیامت کے دن تو بلا تفریق ہر بستی ہی شکست و ریخت کا شکار ہوجائے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٢] قیامت سے پہلے سب بستیوں کی تباہی :۔ یعنی کچھ بستیاں تو ایسی ہیں جو عذاب میں ماخوذ ہو کر تباہ کی جاچکی ہیں اور قیامت سے پہلے باقی موجود سب بستیوں کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے اور چونکہ قیامت آنے سے پہلے نیک لوگوں کو اٹھا لیا جائے گا اور قیامت شرار الناس پر قائم ہوگی لہذا قیامت کو یہ نظام کائنات درہم برہم کرنے سے پیشتر ایسی شریر بستیوں کو پہلے ہی عذاب سے ہلاک کردیا جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا ۔۔ : ابن کثیر (رض) اور کئی مفسرین نے اس آیت کی تفسیر یہ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں شروع سے لکھ دیا ہے کہ ہر بستی جو ظلم پر اتر آئے، قیامت سے پہلے یا تو ہم اسے ہلاک کردینے والے ہیں کہ اس کے تمام رہنے والوں کو تباہ و برباد کردیں، یا انھیں سخت عذاب دینے والے ہیں، باہمی قتل و غارت کے ساتھ، یا دشمن کے حملے سے، یا جس مصیبت سے ہم چاہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ اقوام کا ذکر فرمایا، سورة طلاق میں ہے : (وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهٖ فَحَاسَبْنٰهَا حِسَابًا شَدِيْدًا ۙ وَّعَذَّبْنٰهَا عَذَابًا نُّكْرًا ۝ فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِهَا وَكَانَ عَاقِبَةُ اَمْرِهَا خُسْرًا ) [ الطلاق : ٨، ٩ ] ” اور کتنی ہی بستیاں ہیں جنھوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرکشی کی تو ہم نے ان کا محاسبہ کیا، بہت سخت محاسبہ اور انھیں ایسی سزا دی جو دیکھنے سننے میں نہ آئی تھی۔ تو انھوں نے اپنے کام کا وبال چکھا اور ان کے کام کا انجام خسارہ تھا۔ “ سورة ہود میں ہے : (وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ) [ ھود : ١٠٢ ] ” اور تیرے رب کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے، جب وہ بستیوں کو اس حال میں پکڑتا ہے کہ وہ ظالم ہوتی ہیں، بلاشبہ اس کی پکڑ بڑی دردناک، نہایت سخت ہے۔ “ دوسرے مفسرین نے اس کی تفسیر اور طرح سے کی ہے، ان میں صاحب روح المعانی بھی ہیں، وہ فرماتے ہیں ” وَاِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ “ (جو بھی بستی ہے) سے مراد ظاہر ہے کہ عام ہے، کیونکہ ” اِنْ “ نافیہ ہے اور ” مِنْ “ تمام بستیوں کو شامل کرنے کے لیے ہے، خواہ مومنوں کی ہوں یا کفار کی اور مطلب یہ ہے کہ بستیوں میں سے جو بھی بستی ہے ہم قیامت سے پہلے اسے یا تو اس کے رہنے والوں کی طبعی موت کے ساتھ ویران کردینے والے ہیں، یا اسے قتل اور مختلف مصائب کے ساتھ سخت عذاب دینے والے ہیں، نیکوں کے لیے ہلاکت اور بروں کے لیے عذاب۔ پہلی تفسیر زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد کفار اور ظالموں کی بستیاں ہیں، کیونکہ بہت سی آیات اس کی تائید کرتی ہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَمَا كُنَّا مُهْلِــكِي الْقُرٰٓى اِلَّا وَاَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ ) [ القصص : ٥٩ ] ” اور ہم کبھی بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں مگر اس صورت میں کہ اس کے رہنے والے ظالم ہوں۔ “ اور فرمایا : (ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ يَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰي بِظُلْمٍ وَّاَهْلُهَا غٰفِلُوْنَ ) [ الأنعام : ١٣١ ] ” یہ اس لیے کہ بیشک تیرا رب کبھی بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہیں، جبکہ اس کے رہنے والے بیخبر ہوں۔ “ اور فرمایا : (وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِـيُهْلِكَ الْقُرٰي بِظُلْمٍ وَّاَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ ) [ ھود : ١١٧ ] ” اور تیرا رب ایسا نہ تھا کہ بستیوں کو ظلم سے ہلاک کر دے، اس حال میں کہ اس کے رہنے والے اصلاح کرنے والے ہوں۔ “ آیت سے مقصود کفار اور ظالموں کو ان کے انجام بد سے ڈرانا ہے کہ خواہ تم کتنے ہی امن سے رہتے ہو مگر ایک نہ ایک دن تم پر ہماری گرفت ضرور آنے والی ہے۔ آیت میں ان نشانیوں کی طرف بھی اشارہ ہے جو قیامت سے پہلے رونما ہونے والی ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا 58؀ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ شدید والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق/ 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات/ 8] . ( ش دد ) الشد اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ كتب) حكم) قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] ، وقوله : إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ [ التوبة/ 36] أي : في حكمه . ويعبّر عن الإيجاد بالکتابة، وعن الإزالة والإفناء بالمحو . قال : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] ، يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد/ 39] نبّه أنّ لكلّ وقت إيجادا، وهو يوجد ما تقتضي الحکمة إيجاده، ويزيل ما تقتضي الحکمة إزالته، ودلّ قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] علی نحو ما دلّ عليه قوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وقوله : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد/ 39] ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ اور نحو سے کسی چیز کا زائل اور فناکر نامراد ہوتا ہے چناچہ آیت : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] میں تنبیہ ہے کہ کائنات میں ہر لمحہ ایجاد ہوتی رہتی ہے اور ذات باری تعالیٰ مقتضائے حکمت کے مطابق اشیاء کو وجود میں لاتی اور فنا کرتی رہتی ہے ۔ لہذا اس آیت کا وہی مفہوم ہے ۔ جو کہ آیت كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے اور آیت : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد/ 39] میں اور اس کے پاس اصل کتاب ہے کا ہے اور آیت : وَما کانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتاباً مُؤَجَّلًا[ آل عمران/ 145] اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے ( اس نے موت کا ) وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ میں کتابا موجلا سے حکم الہی مراد ہے ۔ سطر السَّطْرُ والسَّطَرُ : الصّفّ من الکتابة، ومن الشّجر المغروس، ومن القوم الوقوف، وسَطَّرَ فلان کذا : كتب سطرا سطرا، قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] ، وقال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] ، وقال : كانَ ذلِكَ فِي الْكِتابِ مَسْطُوراً [ الإسراء/ 58] ، أي : مثبتا محفوظا، وجمع السّطر أَسْطُرٌ ، وسُطُورٌ ، وأَسْطَارٌ ، قال الشاعر : 233- إنّي وأسطار سُطِرْنَ سطرا«6» وأما قوله : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام/ 24] ، فقد قال المبرّد : هي جمع أُسْطُورَةٍ ، نحو : أرجوحة وأراجیح، وأثفيّة وأثافي، وأحدوثة وأحادیث . وقوله تعالی: وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] ، أي : شيء کتبوه کذبا ومینا، فيما زعموا، نحو قوله تعالی: أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] ( س ط ر ) السطر والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کسی کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی ۔ اور سطر فلان کذا کے معنی ایک ایک سطر کر کے لکھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] ن قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] اور کتابت جو لکھی ہوئی ہے ۔ یہ حکم کتاب ( یعنی قرآن میں لکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی غفو ذا اور ثابت ہے ۔ اور سطر کی جمع اسطر وسط ور واسطار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ( 227 ) انی واسطار سطرن سطرا یعنی قسم ہے قرآن کی سطروں کی کہ میں اور آیت کریمہ : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام/ 24] پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ میں مبرد نے کہا ہے کہ یہ اسطرۃ کی جمع ہے جیسے ارجوحۃ کی جمع اراجیع اور اثقیۃ کی جمع اثانی اور احد وثہ کی احادیث آتی ہے ۔ اور آیت : ۔ وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] اور جب ان ( کافروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ۔ تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں یعنی انہوں نے بزعم خود یہ کہا کہ یہ جھوٹ موٹ کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جیسا کہ دوسری جگہ ان کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] اور کہتے ہیں کہ یہ ( پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے وہ صبح وشام ان کو پڑھو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٨) کوئی بستی ایسی نہیں جس کے رہنے والوں کو ہم ہلاک نہ کردیں یا ان کو تلوار اور دیگر بیماریوں کا سخت ترین عذاب نہ دیں ان کی ہلاکت اور ان پر عذاب کا نازل ہونا لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے کہ ایسا ضرور ہو کر رہے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ (وَاِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا ) یہ اشارہ ہے اس بہت بڑی تباہی کی طرف جو قیامت سے پہلے اس دنیا پر آنے والی ہے۔ سورة الکہف کی دوسری آیت میں اس کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے : (لِیُنْذِرَ بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْہُ ) ۔ سورة بنی اسرائیل اور سورة الکہف کا آپس میں چونکہ زوجیت کا تعلق ہے اس لیے یہ مضمون ان دونوں آیات کو ملا کر پڑھنے سے واضح ہوتا ہے۔ احادیث میں الملحمۃ العُظمٰی کے نام سے ایک بہت بڑی جنگ کی پیشین گوئی کی گئی ہے جو قیامت سے پہلے دنیا میں برپا ہوگی۔ آیت زیر نظر میں اسی تباہی کا ذکر ہے جس سے روئے زمین پر موجود کوئی بستی محفوظ نہیں رہے گی۔ سورة الکہف میں زیادہ صراحت کے ساتھ اس کا تذکرہ آئے گا۔ اس وقت دنیا میں ایٹمی جنگ چھڑنے کا امکان ہر وقت موجود ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی وقت ایسا سانحہ رونما ہوجاتا ہے تو ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے دنیا پر جو تباہی آئے گی اس کو تصور میں لانا بھی مشکل ہے۔ ان حالات میں الملحمۃ العُظمٰی کے بارے میں پیشین گوئیاں آج مجسم صورت میں سامنے کھڑی نظر آتی ہیں۔ (كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا) یعنی یہ طے شدہ امور میں سے ہے۔ ایک وقت معین پر یہ سب کچھ ہو کر رہنا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

66. This is to remove the delusion of the disbelievers that their habitations were immune from danger or chastisement. This verse warns that every habitation will be destroyed as a matter of course or by Allah’s chastisement.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :66 یعنی بقائے دوام کسی کو بھی حاصل نہیں ہے ۔ ہر بستی کو یا تو طبعی موت مرنا ہے ، یا خدا کے عذاب سے ہلاک ہونا ہے ۔ تم کہاں اس غلط فہمی میں پڑ گئے کہ ہماری یہ بستیاں ہمیشہ کھڑی رہیں گی؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

30: یعنی اگر کافروں پر ابھی جلدی سے کوئی عذاب نہیں آرہا ہے تو وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہمیشہ کے لئے عذاب سے بچ گئے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ یا تو ان پر کوئی سخت عذاب دنیا ہی میں آجائے گا، ورنہ قیامت سے پہلے پہلے سبھی کو ہلاک ہونا ہے، اور پھر آخرت میں ان کافروں کو دائمی عذاب ہو کر رہے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٨:۔ اوپر ذکر تھا کہ مشرکین مکہ کو دنیا کی زندگی پر ایسا بھروسہ تھا کہ وہ مسخراپن سے قیامت کے آنے کی جلدی کرتے تھے اس لیے فرمایا کہ دنیا کی زندگی کسی طرح بھروسہ کے قابل چیز نہیں ہے۔ قیامت سے پہلے بعضے شہروں کے لوگ اپنی موت سے اور بعضوں کے طرح کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ دنیا میں ہونے والا ہے اپنے علم غیب کے موافق وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ معتبر سند سے مسند امام احمد صحیح ابن حبان اور طبرانی میں ابوہریرہ (رض) اور عقبہ بن عامر (رض) سے جو روایتیں ہیں ١ ؎ ان کا حاصل یہ ہے کہ پہلے صور کے قریب جو شخص بیچنے کے لیے کپڑے کا تھان کھولے گا یا دودھ والے جانوروں کا دودھ دو ہے گا یہ سب کچھ یوں ہی پڑا رہے گا اور پہلے صور آواز سے تمام دنیا ہلاک ہوجائے گی ان حدیثوں کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ دنیا کے پیدا ہونے کے پچاس ہزار برس پہلے لوح محفوظ میں یہ لکھا جاچکا ہے کہ بعض بستیوں کے لوگ اپنی موت سے اور بعض کے طرح طرح کے عذابوں سے اور آخر کو پہلے صور کی آواز سے غرض اسی طرح تمام دنیا ہلاک ہوجائے گی پھر ایسی ہلاک ہونے والی چیز پر بھروسہ کرکے جو لوگ عقبیٰ کے منکر ہیں یا اس سے غافل ہیں وہ بڑے نادان ہیں کیونکہ جہاں لوح محفوظ میں دنیا کا ہلاک ہونا لکھا ہے وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ دنیا کے ہلاک ہوجانے کے بعد سزا وجزا کا دوسرا جہاں ضرور قائم ہوگا تاکہ دنیا کا پیدا کرنا بلا نتیجہ نہ رہے کسی کے انکار سے لوح محفوظ کا یہ لکھا کسی طرح ٹل نہیں سکتا۔ ١ ؎ الترغیب والترہیب ص ٣٩٢ ج ٢ کتاب البعث واہوال یوم القمیہٰ ١٢ منہ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:58) ان من قریۃ۔ سے مراد کافروں اور معاندین کی بستیاں ہیں اور مھلکوھا۔ (ہم ان کو ہلاک کرنے والے ہیں) میں اہلاک بالعذاب مراد ہے ۔ ورنہ نفس موت و ہلاکت تو طبعی اسباب سے مومن اور کافر سب کی ہوتی رہتی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 تباہ کرنے سے مراد بالکل غارت کردیتا اور عذاب اتارنے سے مراد قحط بیماری یا جنگ وغیرہ میں مبتلا کرنا ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک ” قریہ “ سے مراد ہر بستی ہے یعنی مومنوں کی ہو یا کافروں کی، اور ” اہلاک “ سے مراد طبعی ویرانی اور ” تعذیب “ سے کسی آفت وغیرہ میں مبتلا کرنا ہے اور ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ روئے زمین کی کوئی ایسی بستی نہیں جسے ہم قیامت سے پہلے پہلے یا تو طبعی موت بھیج کر ویران نہ کردیں یا کسی سخت آفت میں مبتلا نہ کردیں۔ بہرحال دونوں میں سے کوئی مطلب لیا جائے۔ مقصود کفار مکہ کو ڈرانا ہے کہ خواہ تم ہر طرح امن سے رہتے ہو مگر ایک نہ ایک دن تمہاری گرفت ہوگی۔ اس آیت میں ان نشانیوں کی طرف اشارہ ہے جو قیامت سے پہلے رونما ہونے والی ہیں۔ (ماخوذ از روح و شوکانی)3 یعنی ہماری حتمی اور اٹل فیصلہ ہے جسے کوئی طاقت نافذ ہونے سے نہیں رو سکتی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ پس اگر کوئی کافر یہاں کسی آفت میں ہلاک ہونے سے بچ گیا تو قیامت کے روز آفت کبری سے نہ بچے گا۔ آفت کی قید اس لئے کہ موت طبعی سے تو سب ہلاک ہوتے ہی ہیں، اس میں کفر کی تخصیص نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کا عذاب صرف ڈرنے کی چیز ہی نہیں بلکہ حقیقتاً بھی نازل ہوتا ہے۔ جس طرح قوم ثمود پر نازل ہو اتھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات انتہائی ناپسند ہے کہ اسے براہ راست پکارنے اور اس کی خالص عبادت کرنے کی بجائے بالواسطہ عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی اور کو پکارا جائے۔ شرک کی یہی بڑی اور عالمگیر قسم ہے۔ جس میں ہر زمانے کی اکثریت اور بڑی بڑی اقوام مبتلارہی ہیں۔ اسی سے انبیاء کرام منع کرتے رہے۔ سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے پانچ بتوں کو وسیلہ بنایا۔ جن کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا فرمان ہے۔ یہ قوم نوح کے فوت ہونے والے پانچ بزرگوں کے نام ہیں۔ جن کی محبت وعقیدت اور احترام میں آکر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قربت چاہنے کے لیے ان کے مجسمے بنائے۔ جب حضرت نوح (علیہ السلام) نے انہیں ان سے منع کیا۔ تو قوم نے صاف طور پر کہا کہ ہم اپنے معبودوں بالخصوص ود، سواع، یغوث، یعوق اور نصرکو ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اسی طرح قوم نوح کے بعد آنے والی اقوام نے دیگر جرائم اور شرک کا ارتکاب کیا۔ شرک کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے پہلی قوموں کو ذلت آمیز عذاب کے ساتھ تہس نہس کیا۔ اب بھی اس کا اعلان ہے کہ قیامت سے پہلے ایسی بستیوں کو تہس نہس کرے گا یا پھر انہیں شدید ترین عذاب سے دوچار کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں لوح محفوظ پر ثبت کر رکھا ہے۔ رہی یہ بات کہ پہلے انبیاء کی طرح رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس قسم کے معجزات کیوں نازل نہیں کیے گئے۔ جو پہلے انبیاء پر نازل کیے گئے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی اقوام منہ مانگے معجزات

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٨٢١ ایک نظر میں درس سابق کا خاتمہ یوں ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک اپنے بندوں کے معاملات میں متصرف ہے چاہے تو ان پر حم کردے اور چاہے تو انہیں سزا دے دے۔ اور لوگ جن الہوں کی بندگی کرتے ہیں وہ نہ ان سے کوئی مصیبت ٹال سکتے ہیں اور نہ کسی مصیبت کا منہ دوسروں کی طرف موڑسکتے ہیں۔ اب یہاں یہ بتایا جاتا ہے تمام انسانوں کا آخری انجام کیا ہوگا۔ کیونکہ اللہ نے اپنے علم کے مطابق جو فیصلے کیے ہیں ، وہ اٹل ہیں۔ اور یہ آخری انجام یوں ہوگا کہ قیامت سے قبل اللہ تمام بستیوں کو ہلاک کردے گا۔ اگر ان بستیوں میں سے کوئی بستی ایسے جرائم کا ارتکاب کرے جسے دنیا میں سزا دینا لازمی ہو تو یہاں ہی اسے عذاب دے دیا جاتا ہے۔ لہذا تمام زندہ انسان دو طرح کے انجام سے لازماً دو چار ہوں گے یا تو اپنی موت مریں گے یا عذاب الٰہی کے نتیجے میں ہلاک ہوں گے۔ عذاب الٰہی کے ذکر کی مناسبت سے یہاں ان معجزات کا ذکر کردیا جاتا ہے جن کا ظہور انبیائے سابق کے ہاتھوں پر ہوا۔ یعنی رسالت محمدیہ سے پہلے رسولوں پر۔ ایسے خوارق عادت معجزات کا ظہور رسالت محمدیہ کے ہاتھوں اس لئے نہیں کیا گیا امت محمدیہ کے لئے وہ عذاب مقدر نہیں جو ان اقوام پر آیا کیونکہ اللہ کی یہ سنت ہے کہ جب کوئی معجزہ ظاہر ہوتا ہے اور پھر بھی امت تسلیم نہیں کرتی تو پھر اس پر عذاب الٰہی آتا ہے۔ اور امت محمدیہ کے لئے چونکہ ہلاکت مقدر نہیں اس لئے ایسے معجزات حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں دئیے گئے۔ اور امم سابقہ کے انبیاء کو یہ معجزات ڈرانے کی خاطر دئیے گئے لیکن جب معجزات دیکھ کر وہ نہ ڈرے تو ہلاک ہوئے۔ اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک لوگوں کی رسائی کے راستے بند کردئیے۔ چناچہ وہ آپ کو کوئی دکھ نہ پہنچا سکے۔ اور اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سچی سیر کرائی اور جو کچھ دکھانا تھا ، دکھایا تاکہ یہ واقعہ لوگوں کے لئے آزمائش ہو اور اسے دوسرے معجزات کی طرح خارق عادت معجزہ نہ بنایا اور اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو شجرہ ملعونہ سے ڈرایا مگر وہ مزید سرکشی کرتے رہے۔ شجرہ ملعونہ سے مراد زقوم ہے جس کی روئیدگی جہنم کی تہہ میں ہوتی ہے ، اس تخویف کا لوگوں کے رویہ پر کوئی اثر نہ ہو لہٰذا معجزات کا صدور بھی ان پر اثر انداز نہیں ہوسکتا تھا۔ اس مضمون کے دوران قصہ آدم و ابلیس بھی بیان ہوا ہے۔ اللہ نے ابلیس کو یہ اجازت دی کہ وہ ابن آدم میں سے جس کو چاہے گمراہ کرے مگر میرے صالح بندوں پر تیری دسترس نہ ہوگی۔ کیونکہ میں نے ان کو برے اثر سے محفوظ کردیا ہے۔ چناچہ اس قصے ذریعہ گمراہی کے اصل اسباب لوگوں کو بتادئیے گئے ، جو لوگوں کو کفر اور سرکشی پر آمادہ کرتے ہیں اور وہ اللہ کی بات پر تدبر نہیں کرتے۔ یہاں سیاق کلام انسان کو یہ تاثر دیتا ہے کہ اللہ کی جانب سے اس پر کس قدر فضل و کرم ہے لیکن اس فضل و کرم کے مقابلے میں انسان ہے کہ اللہ کا انکار کرتا ہے اور سرکشی اختیار کرتا ہے۔ اور انسان کو اللہ صرف اس وقت یاد آتا ہے جب وہ نہایت ہی اضطرابی حالت میں ہو ، اگر سمندر میں کوئی مشکلات پیش آجائیں تو انسان پھر اللہ کی پناہ میں آجاتا ہے لیکن جونہی اللہ نجات دیتا ہے تو لوگ پھر شرک کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تو انہیں سمندر اور خشکی دونوں میں پکڑ سکتا ہے۔ حالانکہ انسان کو اللہ اپنی مخلوقات کے ایک بڑے حصے پر فضیلت بخشی ہے ، لیکن انسان ہے کہ شکر نہیں کرتا اور اللہ کو یاد نہیں کرتا۔ یہ سبق قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر پر ختم ہوتا ہے ، جب یہ لوگ وہ سب کچھ پالیں گے جو انہوں نے کمایا تھا لہٰذا نجات صرف اس صورت میں کہ انسان اگلے جہاں کے لئے کچھ کمائی کرے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ جب قیامت آئے تو اس کرہ ارض کی چھاتی پر حیات کا نام و نشان نہ ہو ، لہٰذا قیامت سے قبل اس کرہ ارض کی تمام زندہ چیزیں ختم ہونے والی ہیں۔ اسی طرح اس کرہ ارض پر واقع بعض بستیوں کے لئے تباہی مقدر ہے اس لئے کہ وہ جرائم کا ارتکاب کرتی ہیں اور ان جرائم کا علم صرف اللہ کو ہوتا ہے۔ یہ تقدیر اللہ کے علم میں ہوتی ہے کہ ایسا ہونا ہے کیونکہ جو ہوچکا یا جو ہونے والا ہے اللہ کے علم میں دونوں برابر ہیں۔ تمام رسولوں کو معجزات دئیے گئے تھے اور یہ معجزات رسولوں کی حقانیت کی تصدیق کرتے تھے اور ان معجزات کے ذریعے لوگوں کو اس بات سے ڈرایا جاتا تھا کہ اگر انہوں نے تکذیب کی تو ان پر ہلاکت آجائے گی لیکن ان خوارق عادت معجزات کو دیکھ کر صرف ان لوگوں کو ایمان نصیب ہوا جن کے دل ایمان کے لئے تیار تھے۔ رہے وہ لوگ جن کو کفر پر اصرار تھا تو انہوں نے انکار ہی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی آخر الزمان کو ایسے خارچ عادت معجزات نہ دئیے گئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (وَ اِنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا نَحْنُ مُھْلِکُوْھَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ اَوْ مُعَذِّبُوْھَا عَذَابًا شَدِیْدًا) (اور کوئی بستی ایسی نہیں ہے جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کردیں یا اسے سخت عذاب نہ دیں) آیت کا مفہوم ظاہر ہے کہ قیامت سے پہلے بہت سی بستیاں ہلاک ہونگی یعنی ان بستیوں کے رہنے والے اپنی اپنی موت مرجائیں گے اور بہت سی بستیاں اسی طرح ہلاک ہوں گی کہ ان کو سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا چاہے قتل و خون سے ہلاک ہوں اور خواہ مختلف قسم کی مصیبتوں اور بلاؤں میں مبتلا ہوکر۔ قیامت کے دن صور پھونکے جانے سے جو ہلاک ہوں گی وہ بھی اسی ذیل میں آگئیں۔ لہٰذا یہ بات عمومی طور پر اور مجموعی حیثیت سے ثابت ہوگئی کہ کوئی بھی بستی ایسی نہیں ہے جو بلاعذاب کے یا عذاب کے ذریعے ہلاک نہ ہو (کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ ) میں بھی یہ مضمون ہے کہ ہر جان کو موت آجانا لازم ہے موت تو سب کو آنی ہی ہے البتہ اہل کفر و اہل معصیت کو بعض مرتبہ عذاب میں مبتلا کرکے ہلاک کردیا جاتا ہے۔ ہلاک تو ساری بستیاں ہوں گی البتہ بعض بستیوں کی ہلاکت کا خصوصی تذکرہ بھی احادیث شریفہ میں آیا ہے ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ حبشہ والوں کو چھوڑے رکھو جب تک کہ وہ تمہیں چھوڑے رہیں کیونکہ کعبہ کا خزانہ حبشہ ہی کا ایک شخص نکالے گا جس کی چھوٹی چھوٹی پنڈلیاں ہوں گی۔ (رواہ ابوداؤد باب ذکر الحبشۃ کتاب الملاحم) اور ایک حدیث میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا گویا میں اس کالے شخص کو دیکھ رہا ہوں جس کی ٹانگیں کجی کی وجہ سے پھیلی ہوئی ہوں گے کہ وہ کعبہ شریف کا ایک ایک پتھر کرکے اکھاڑ رہا ہے نیز آپ نے یہ بھی فرمایا کہ بستیوں میں جو سب سے آخری بستی ویران ہوگی وہ مدینہ منورہ ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٢٤٠) حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میں نے سنا ہے کہ لوگ مدینہ منورہ کو بہت اچھی حالت میں چھوڑ دیں گے (اس میں کوئی بھی نہ رہے گا) اور اس میں صرف جانور اور درندے رہ جائیں گے جو رزق کی تلاش کرتے پھرتے ہونگے اور سب سے آخر میں بنی مزینہ کے دو چرواہے لائے جائیں گے وہ اپنی بکریاں لے کر چیخ رہے ہوں گے ان کا یہ سفر مدینہ کے ارادہ سے ہوگا۔ مدینہ میں آئیں گے تو اسے خالی میدان پائیں گے یہاں تک کہ جب ثنیۃ الوداع میں پہنچیں گے تو چہرے کے بل گرپڑیں گے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ وہ اس میں درندوں کو پائیں گے۔ (صحیح بخاری ص ٢٥٢) شارح مسلم علامہ نووی (رض) لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ آخری زمانہ میں قرب قیامت میں ہوگا پھر فرمایا (کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا) (یہ بات کتاب یعنی لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے) یعنی یہ امر طے شدہ امور میں سے ہے اس کا وقوع ہونا ہی ہونا ہے اس میں تخلف نہیں ہوسکتا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

55:۔ یہ تخویف دنیوی ہے۔ یہ فیصلہ بالکل حتمی ہے اور لوح محفوظ میں لکھا جا چکا ہے کہ قیامت سے پہلے ہم ہر بستی کو تباہ و برباد کریں گے یا سخت ترین عذاب میں مبتلا کرینگے تاکہ مشرکین کو معلوم ہوجائے اور مومنین کو شرح صدر اور اطمینان نصیب ہو کہ اللہ کے سوا کوئی پناہ دینے والا اور مصیبتوں سے بچانیوالا نہیں اور جن کو مشرکین اپنی بستیوں کے محافظ اور پناہ دہندے تصور کرتے ہیں وہ عاجز ہیں حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی فرماتے ہیں ” ہر شہر کے لوگ ایک بزرگ کو پوجتے ہیں کہ ہم اس کی رعیت ہیں کہ ہم اس کی پناہ میں ہیں سو وقت آنے پر کوئی پناہ نہیں دے سکتا “۔ لا عاصم الیوم من امر اللہ الا من رحم۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

58 اور منکروں کی کوئی بستی ایسی نہیں ہے جس کے رہنے والے کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں یا ان کو کسی سخت ترین عذاب میں مبتلا نہ کریں یہ بات کتاب یعنی لوح محفوظ میں لکھی جا چکی ہے۔ یعنی کسی معمولی آفت سے تباہ کریں یا کسی سخت ترین عذاب سے برباد کریں ہوسکتا ہے کہ مختلف آفتوں سے ہلاکت قبل قیامت ہو اور سخت ترین عذاب بعد قیامت ہو۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی تقدیر میں لکھ چکے ہیں شہر کے لوگ ایک کو بزرگ ٹھیرا کر پوجتے ہیں کہ ہم اس کی رعیت ہیں اور اس کی پناہ میں ہیں سو وقت آنے پر کوئی نہیں پناہ دے سکتا۔ 12