Commentary Out of the verses appearing above, the first three relate to a particular event. To determine it precisely, Tafsir Mazhari carries some rele¬vant reports. The event which is closer and more supportive in terms of the indicators set in the Qur&an is what has been reported by Ibn Abi Hatim as based on a narrative of Sayyidna Jubayr ibn Nufayr. According to this report, some chiefs of the Quraysh of Makkah came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and said: &If you have been really sent to us, you should remove these poor and broken down people from around you, for sitting with such people is a matter of insult for us. If you do that, we too will become your companions and friends.& When they said this, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) somewhat leaned towards the idea that he might do someth-ing like that as suggested by them in the hope that they may, perhaps, become Muslims. Thereupon, this verse was revealed. Through this verse, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was sounded that their sug¬gestion was a fitnah and the friendship they were talking about was also a fitnah (a trial or test or a ruse to tempt him into creating discord in his ranks). Therefore, he should not accept it. After that, the text says: Had your Lord not been particular about your grooming and fortitude, it was not too far out that you could have come somewhat closer to tilting towards their proposal. From this verse, says Tafsir Mazhari, it is clearly understood that there was just no probability of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ever tilting towards such absurd demands from the Quraysh disbelievers. Yes, coming close to tilting, and that too within a very insignificant limit, was probable. But, by making him ma` sum (protected, infallible), Allah Ta’ ala saved him from drifting even to that limit. If we were to think about it, this verse provides a great proof of the highest moral disposition with which all prophets (علیہم السلام) were blessed. So, had there been even no shield of prophetic infallibility, still such was the natural disposition of the Proph¬et of Islam that tilting towards the absurd proposal of disbelievers would have never been possible for him. However, there did exist the probabil¬ity of his coming somewhat closer, in an insignificant measure, towards the act of tilting - something terminated by the prophetic infallibility.
خلاصہ تفسیر : اور یہ کافر لوگ (اپنی قوی تدبیروں کے ذریعہ) آپ کو اس چیز سے بچلانے (اور ہٹانے) ہی لگے تھے جو ہم نے آپ پر بذریعہ وحی بھیجی ہے (یعنی اس کوشش میں لگے تھے کہ آپ سے حکم خداوندی کے خلاف عمل کرا دیں اور) تاکہ آپ اس (حکم الہی) کے سوا ہماری طرف (عملا) غلط بات کی نسبت کردیں (کیونکہ نبی کا فعل خلاف شرع ہوتا نہیں اس لئے اگر نعوذ باللہ آپ سے کوئی عمل خلاف شرع ہوجاتا تو یہ لازم آتا کہ اس خلاف شرع عمل کو گویا اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں) اور ایسی حالت میں آپ کو خالص دوست بنا لیتے اور (ان کی یہ شرارت ایسی سخت تھی کہ) اگر ہم نے آپ کو ثابت قدم نہ بنایا ہوتا (یعنی معصوم نہ کیا ہوتا) تو آپ ان کی طرف کچھ کچھ جھکنے کے قریب جا پہونچتے (اور) اگر ایسا ہوجاتا (کہ آپ کا کچھ میلان ان کی طرف ہوتا) تو ہم آپ کو (اس وجہ سے کہ مقربان بارگاہ کا مقام بہت بلند ہے) حالت حیات میں بھی اور بعد موت کے بھی دوہرا عذاب چکھاتے پھر آپ ہمارے مقابلہ میں کوئی مددگار بھی نہ پاتے (مگر چونکہ آپ کو ہم نے معصوم اور ثابت قدم بنایا ہے اس لئے ان کی طرف ذرا بھی میلان نہ ہوا اور اس عذاب سے بچ گئے) اور یہ (کافر) لوگ اس سر زمین (مکہ یا مدینہ) سے آپ کے قدم ہی اکھاڑنے لگے تھے تاکہ آپ کو اس سے نکال دیں اور اگر ایسا ہوجاتا تو آپ کے بعد یہ بھی بہت کم (یہاں) ٹھہرنے پاتے جیسا ان انبیاء (علیہم السلام) کے بارے میں (ہمارا) قاعدہ رہا ہے جن کو آپ سے پہلے رسول بنا کر بھیجا تھا (کہ جب ان کی قوم نے ان کو وطن سے نکالا تو پھر اس قوم کو بھی یہاں رہنا نصیب نہیں ہوا) اور آپ ہمارے قاعدے میں تغیر تبدل نہ پائیں گے۔ معارف و مسائل : مذکورہ آیات میں سے پہلی تین آیتیں ایک خاص واقعہ سے متعلق ہیں تفسیر مظہری میں اس واقعہ کی تعیین کے متعلق چند روایتیں نقل کی ہیں جن میں سے اقرب اور مؤ ید باشارات القرآن یہ واقعہ ہے جو بتخریج ابن ابی حاتم بروایت جبیر ابن نفیر (رض) نقل کیا ہے کہ قریش مکہ کے چند سردار آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اگر آپ واقعی ہماری طرف بھیجے گئے ہیں تو پھر اپنی مجلس سے ان غریب شکستہ حال لوگوں کو ہٹا دیجئے جن کے ساتھ بیٹھنا ہمارے لئے توہین ہے تو پھر ہم آپ کے اصحاب اور دوست ہوجائیں گے ان کی اس بات پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ خیال پیدا ہوا کہ ان کی بات پوری کردیں شاید یہ مسلمان ہوجائیں جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باخبر کردیا گیا کہ ان کی بات فتنہ ہے ان کی دوستی بھی فتنہ ہے آپ کو ان کی بات نہیں ماننی چاہئے اور پھر ارشاد فرمایا کہ اگر ہماری طرف سے آپ کی تربیت اور ثابت قدم رکھنے کا اہتمام نہ ہوتا تو کچھ بعید نہیں تھا کہ آپ ان کی بات کی طرف میلان کے تھوڑے سے قریب ہوجاتے۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ اس آیت سے یہ بات واضح طور پر سمجھی جاتی ہے کہ کفار قریش کی لغویات کی طرف رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے میلان کا تو کوئی احتمال ہی نہ تھا ہاں میلان کے قریب ہوجانے کا وہ بھی بہت قدر قلیل حد میں امکان تھا مگر اللہ تعالیٰ نے معصوم بنا کر اس سے بھی بچا لیا غور کیا جائے تو یہ آیت انبیاء (علیہم السلام) کی اعلیٰ ترین پاکیزہ خلقت و طبیعت پر بڑی دلیل ہے کہ اگر پیغمبرانہ عصمت بھی نہ ہوتی تب بھی نبی کی فطرت ایسی تھی کہ کفار کی لغو بات کی طرف میلان ہوجانا اس سے ممکن نہ تھا ہاں میلان کے کچھ قریب بقدر قلیل کا احتمال تھا جو پیغمبرانہ عصمت نے ختم کردیا۔