Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 73

سورة بنی اسراءیل

وَ اِنۡ کَادُوۡا لَیَفۡتِنُوۡنَکَ عَنِ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ لِتَفۡتَرِیَ عَلَیۡنَا غَیۡرَہٗ ٭ۖ وَ اِذًا لَّاتَّخَذُوۡکَ خَلِیۡلًا ﴿۷۳﴾

And indeed, they were about to tempt you away from that which We revealed to you in order to [make] you invent about Us something else; and then they would have taken you as a friend.

یہ لوگ آپ کو اس وحی سے جو ہم نے آپ پر اتاری ہے بہکانا چاہتے کہ آپ اس کے سوا کچھ اور ہی ہمارے نام سے گھڑ گھڑا لیں ، تب تو آپ کو یہ لوگ اپنا ولی دوست بنا لیتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مکار و فجار کی چلاکیوں سے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے رسول کو بچاتا رہا آپ کو معصوم اور ثابت قدم ہی رکھا خود ہی آپ کا ولی و ناصر رہا اپنی ہی حفاظت اور صیانت میں ہمیشہ آپ کو رکھا آپ کی تائید اور نصرت برابر کرتا رہا آپ کے دین کو دنیا کے تمام دینوں پر غالب کر دیا آپ کے مخالفین کے بلند بانگ ارادوں کو پست کر دیا مشرق سے مغرب تک آپ کا کلمہ پھیلا دیا اسی کا بیان ان دونوں آیتوں میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ پر قیامت تک بیشمار درود و سلام بھیجتا رہے ۔ آمین ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٢۔ الف ] یعنی کفار مکہ کے آپ سے بغض وعناد اور دشمنی کے خاتمہ کی ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ آپ ان کے بتوں کی حمایت میں کچھ کلمات کہہ دیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہیں یہ کلمات مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی ہوئے ہیں۔ اس صورت میں یہ لوگ آپ سے دوستی گانٹھنے پر بھی آمادہ ہوجائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ كَادُوْا لَيَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ ۔۔ :” وَاِنْ كَادُوْا “ اصل میں ” وَاِنَّھُمْ کَادُوْا “ تھا، دلیل وہ لام ہے جو بعد میں آ رہا ہے۔ ” فَتَنَ یَفْتِنُ “ (ض) سونے کو کھرا کھوٹا معلوم کرنے کے لیے آگ میں ڈالنا، آزمائش۔ ” فَتَنَہُ عَنْ رَأْیِہِ “ کسی کو کسی کی رائے سے ہٹانا۔ کفار مکہ خود تو راہ پر کیا آتے ان کی برابر یہ کوشش رہی کہ کسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خالص توحید پیش کرنے سے باز آجائیں، یا ان احکام کا ایک حصہ چھوڑ دیں یا بدل دیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو دیے جا رہے ہیں، یا قرآن سے وہ حصہ حذف کردیں جس میں شرک اور بت پرستی کی مذمت ہے تو ہم ایمان لانے کے لیے تیار ہیں۔ آپ کو مقصد سے پھیرنے کے لیے کبھی فریب کاریوں سے، کبھی لالچ سے اور کبھی دھمکیوں سے انھوں نے بیشمار جتن کیے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ انھیں صاف کہہ دیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے ذمے وہ بات نہیں لگا سکتا جو اس نے میری طرف وحی نہ کی ہو۔ ان کے تقاضے اور آپ کے جواب کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة یونس (١٥ تا ١٧) ۔ وَاِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِيْلًا : کیونکہ توحید کی دعوت سے پہلے وہ آپ سے دلی محبت رکھتے تھے، آپ کو صادق اور امین کہتے تھے۔ اب آپ ان کی طرف مائل ہونے کے تھوڑے سے بھی قریب ہوجائیں تو وہ آپ سے پھر وہی دلی دوستی رکھنے کے لیے تیار ہیں۔ خلیل وہ دوست جس کی دوستی دل کے اندر ہو، جیسا کہ فرمایا : (وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا) [ النساء : ١٢٥ ] ” اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Out of the verses appearing above, the first three relate to a particular event. To determine it precisely, Tafsir Mazhari carries some rele¬vant reports. The event which is closer and more supportive in terms of the indicators set in the Qur&an is what has been reported by Ibn Abi Hatim as based on a narrative of Sayyidna Jubayr ibn Nufayr. According to this report, some chiefs of the Quraysh of Makkah came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and said: &If you have been really sent to us, you should remove these poor and broken down people from around you, for sitting with such people is a matter of insult for us. If you do that, we too will become your companions and friends.& When they said this, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) somewhat leaned towards the idea that he might do someth-ing like that as suggested by them in the hope that they may, perhaps, become Muslims. Thereupon, this verse was revealed. Through this verse, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was sounded that their sug¬gestion was a fitnah and the friendship they were talking about was also a fitnah (a trial or test or a ruse to tempt him into creating discord in his ranks). Therefore, he should not accept it. After that, the text says: Had your Lord not been particular about your grooming and fortitude, it was not too far out that you could have come somewhat closer to tilting towards their proposal. From this verse, says Tafsir Mazhari, it is clearly understood that there was just no probability of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ever tilting towards such absurd demands from the Quraysh disbelievers. Yes, coming close to tilting, and that too within a very insignificant limit, was probable. But, by making him ma` sum (protected, infallible), Allah Ta’ ala saved him from drifting even to that limit. If we were to think about it, this verse provides a great proof of the highest moral disposition with which all prophets (علیہم السلام) were blessed. So, had there been even no shield of prophetic infallibility, still such was the natural disposition of the Proph¬et of Islam that tilting towards the absurd proposal of disbelievers would have never been possible for him. However, there did exist the probabil¬ity of his coming somewhat closer, in an insignificant measure, towards the act of tilting - something terminated by the prophetic infallibility.

خلاصہ تفسیر : اور یہ کافر لوگ (اپنی قوی تدبیروں کے ذریعہ) آپ کو اس چیز سے بچلانے (اور ہٹانے) ہی لگے تھے جو ہم نے آپ پر بذریعہ وحی بھیجی ہے (یعنی اس کوشش میں لگے تھے کہ آپ سے حکم خداوندی کے خلاف عمل کرا دیں اور) تاکہ آپ اس (حکم الہی) کے سوا ہماری طرف (عملا) غلط بات کی نسبت کردیں (کیونکہ نبی کا فعل خلاف شرع ہوتا نہیں اس لئے اگر نعوذ باللہ آپ سے کوئی عمل خلاف شرع ہوجاتا تو یہ لازم آتا کہ اس خلاف شرع عمل کو گویا اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں) اور ایسی حالت میں آپ کو خالص دوست بنا لیتے اور (ان کی یہ شرارت ایسی سخت تھی کہ) اگر ہم نے آپ کو ثابت قدم نہ بنایا ہوتا (یعنی معصوم نہ کیا ہوتا) تو آپ ان کی طرف کچھ کچھ جھکنے کے قریب جا پہونچتے (اور) اگر ایسا ہوجاتا (کہ آپ کا کچھ میلان ان کی طرف ہوتا) تو ہم آپ کو (اس وجہ سے کہ مقربان بارگاہ کا مقام بہت بلند ہے) حالت حیات میں بھی اور بعد موت کے بھی دوہرا عذاب چکھاتے پھر آپ ہمارے مقابلہ میں کوئی مددگار بھی نہ پاتے (مگر چونکہ آپ کو ہم نے معصوم اور ثابت قدم بنایا ہے اس لئے ان کی طرف ذرا بھی میلان نہ ہوا اور اس عذاب سے بچ گئے) اور یہ (کافر) لوگ اس سر زمین (مکہ یا مدینہ) سے آپ کے قدم ہی اکھاڑنے لگے تھے تاکہ آپ کو اس سے نکال دیں اور اگر ایسا ہوجاتا تو آپ کے بعد یہ بھی بہت کم (یہاں) ٹھہرنے پاتے جیسا ان انبیاء (علیہم السلام) کے بارے میں (ہمارا) قاعدہ رہا ہے جن کو آپ سے پہلے رسول بنا کر بھیجا تھا (کہ جب ان کی قوم نے ان کو وطن سے نکالا تو پھر اس قوم کو بھی یہاں رہنا نصیب نہیں ہوا) اور آپ ہمارے قاعدے میں تغیر تبدل نہ پائیں گے۔ معارف و مسائل : مذکورہ آیات میں سے پہلی تین آیتیں ایک خاص واقعہ سے متعلق ہیں تفسیر مظہری میں اس واقعہ کی تعیین کے متعلق چند روایتیں نقل کی ہیں جن میں سے اقرب اور مؤ ید باشارات القرآن یہ واقعہ ہے جو بتخریج ابن ابی حاتم بروایت جبیر ابن نفیر (رض) نقل کیا ہے کہ قریش مکہ کے چند سردار آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اگر آپ واقعی ہماری طرف بھیجے گئے ہیں تو پھر اپنی مجلس سے ان غریب شکستہ حال لوگوں کو ہٹا دیجئے جن کے ساتھ بیٹھنا ہمارے لئے توہین ہے تو پھر ہم آپ کے اصحاب اور دوست ہوجائیں گے ان کی اس بات پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ خیال پیدا ہوا کہ ان کی بات پوری کردیں شاید یہ مسلمان ہوجائیں جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باخبر کردیا گیا کہ ان کی بات فتنہ ہے ان کی دوستی بھی فتنہ ہے آپ کو ان کی بات نہیں ماننی چاہئے اور پھر ارشاد فرمایا کہ اگر ہماری طرف سے آپ کی تربیت اور ثابت قدم رکھنے کا اہتمام نہ ہوتا تو کچھ بعید نہیں تھا کہ آپ ان کی بات کی طرف میلان کے تھوڑے سے قریب ہوجاتے۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ اس آیت سے یہ بات واضح طور پر سمجھی جاتی ہے کہ کفار قریش کی لغویات کی طرف رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے میلان کا تو کوئی احتمال ہی نہ تھا ہاں میلان کے قریب ہوجانے کا وہ بھی بہت قدر قلیل حد میں امکان تھا مگر اللہ تعالیٰ نے معصوم بنا کر اس سے بھی بچا لیا غور کیا جائے تو یہ آیت انبیاء (علیہم السلام) کی اعلیٰ ترین پاکیزہ خلقت و طبیعت پر بڑی دلیل ہے کہ اگر پیغمبرانہ عصمت بھی نہ ہوتی تب بھی نبی کی فطرت ایسی تھی کہ کفار کی لغو بات کی طرف میلان ہوجانا اس سے ممکن نہ تھا ہاں میلان کے کچھ قریب بقدر قلیل کا احتمال تھا جو پیغمبرانہ عصمت نے ختم کردیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ كَادُوْا لَيَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهٗ ڰ وَاِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِيْلًا 73؀ كَادَ ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] ، تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس . ( ک و د ) کاد ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) القری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ خلیل : المودّة، إمّا لأنّها تتخلّل النّفس، أي : تتوسّطها، وإمّا لأنّها تخلّ النّفس، فتؤثّر فيها تأثير السّهم في الرّميّة، وإمّا لفرط الحاجة إليها، يقال منه : خاللته مُخَالَّة وخِلَالًا فهو خلیل، وقوله تعالی: وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء/ 125] ، قيل : سمّاه بذلک لافتقاره إليه سبحانه في كلّ حال الافتقار المعنيّ بقوله : إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] ، وعلی هذا الوجه قيل :( اللهمّ أغنني بالافتقار إليك ولا تفقرني بالاستغناء عنك) وقیل : بل من الخلّة، واستعمالها فيه کاستعمال المحبّة فيه، قال أبو القاسم البلخيّ : هو من الخلّة لا من الخلّة، قال : ومن قاسه بالحبیب فقد أخطأ، لأنّ اللہ يجوز أن يحبّ عبده، فإنّ المحبّة منه الثناء ولا يجوز أن يخالّه، وهذا منه اشتباه، فإنّ الخلّة من تخلّل الودّ نفسه ومخالطته، کقوله : قد تخلّلت مسلک الرّوح منّي ... وبه سمّي الخلیل خلیلا ولهذا يقال : تمازج روحانا . والمحبّة : البلوغ بالودّ إلى حبّة القلب، من قولهم : حببته : إذا أصبت حبّة قلبه، لکن إذا استعملت المحبّة في اللہ فالمراد بها مجرّد الإحسان، وکذا الخلّة، فإن جاز في أحد اللّفظین جاز في الآخر، فأمّا أن يراد بالحبّ حبّة القلب، والخلّة التّخلّل، فحاشا له سبحانه أن يراد فيه ذلك . وقوله تعالی: لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة/ 254] ، أي : لا يمكن في القیامة ابتیاع حسنة ولا استجلابها بمودّة، وذلک إشارة إلى قوله سبحانه : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم/ 39] ، وقوله : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم/ 31] ، فقد قيل : هو مصدر من خاللت، وقیل : هو جمع، يقال : خلیل وأَخِلَّة وخِلَال والمعنی كالأوّل . الخلتہ دوستی محبت اور دوستی کو خلتہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دل کے اندر سرایت کر جاتی ہے ۔ اور یا اس لئے کہ وہ دل کے اندر داخل ہوکر اس طرح اثر کرتی ہے جس طرح تیر نشانہ پر لگ کر اس میں نشان ڈال دیتا ہے ۔ اور یا اس لئے کہ اس کی سخت احتیاج ہوتی ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے : اور آیت کریمہ : وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء/ 125] اور خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس لئے خلیل کہا ہے کہ وہ ہر حال میں باری تعالیٰ کے محتاج تھے اور یہ احتیاج ویسے ہی ہے ۔ جس کی طرف آیت ؛ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اسی معنی میں کہا گیا ہے ؛ اے اللہ مجھے اپنی احتیاج کے ساتھ غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کر کے کسی دوسرے کا محتاج نہ بنا ۔ بعض نے کہا ہے کہ خلیل خلتہ سے ہے اور اللہ کے حق میں خلتہ کے لفظ کے وہی معنی ہیں جو لفظ محبت کے ہیں ۔ ابو القاسم البلخی کا ذ کہنا کہ یہ خلتہ ( احتیاج ) سے ہے اور کلتہ ( دوستی ) سے نہیں ہے ۔ جو لوگ اسے حبیب پر قیاس کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے سے محبت کرنا تو جائز ہے اسی لئے کہ محبت اس کی ثنا میں داخل ہے ۔ لیکن خلتہ کے معنی دوستی کے دل میں سرایت کر جانے کے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع تم میرے لئے بمنزلہ روح کے ہوا ( اور اسی سبب سے خلیل کو خلیل کہا جاتا ہے اسی بنا پر مشہور محاورہ ہے ۔ تمازج روح ۔ ہماری روحیں باہم مخلوط ہیں ۔ اور محبت کے معنی ھبہ قلب میں دوستی رچ جانے کے ہیں یہ حبیبتہ سے مشتق ہے جس کے معنی حبہ پر مارنے کے ہیں ۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کے متعلق محبت کا لفظ استعمال ہو تو اس سے مراد اھسان اور مہربانی کے ہوتے ہیں لہذا یہی معنی خلتہ سے مراد ہوں گے ۔ کیونکہ اگر ایک میں یہ تاویل صحیح ہے تو دوسرے میں بھی ہوسکتی ہے ۔ مگر حب سے حبتہ القلب مراد لینا اور خلتہ سے اللہ تعالیٰ کے حق میں تخلل کاز معنی لینا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ ذات باری تعالیٰ ان باتوں سے بلند ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة/ 254] جس میں نہ ( اعمال ) کا سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئے گی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن نہ تو حسنات کی خرید وفروخت ہوگی اور نہ ہی یہ مودت کے ذریعہ حاصل ہوسکیں گی تو گویا یہ آیت : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم/ 39] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ) کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم/ 31] جس میں نہ ( اعمال کا ) سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئیگی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ خلال باب معاعلہ سے مصدر ہے ۔ اور بعض کے نزدیک یہ خلیل کی جمع ہے کیونکہ اس کی جمع اخلتہ وخلال دونوں آتی ہیں اور یہ پہلی ایت کے ہم معنی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٣) اور یہ کافر لوگ آپ کو ان کے بتوں کے توڑنے سے بچلانے اور ہٹانے ہی لگے تھے تاکہ آپ اس حکم وحی کے علاوہ ہماری طرف غلط بات کی نسبت کردیں اور اس صورت میں کہ آپ ان کی بات مانتے وہ آپ کو اپنا گہرا دوست بنا لیتے، یہ آیت قبیلہ ثقیف کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ شان نزول : (آیت ) ”۔ وان کادوا لیفتنونک “۔ (الخ) ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابن اسحاق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ محمد بن ابی محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عکرمہ کے ذریعے سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ امیہ بن خلف، ابوجہل اور کچھ قریشی چلے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ محمد چلو اور نعوذ باللہ ہمارے بتوں کو چھولو، ہم آپ کجے ساتھ آپ کے دین میں داخل ہوجائیں گے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قوم کے اسلام قبول کرنے کے خواہاں رہتے تھے، چانچہ ان کے لیے نرم ہوگئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ جتنی روایات اس آیت کے شان نزول کے بارے میں مروی ہیں، یہ سب سے زیادہ صحیح ہے، اس کی سند جید ہے اور اس کا شاہد بھی موجود ہے۔ چناچہ ابوالشیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سعید بن جبیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجر اسود کو بوسہ دے رہے تھے تو کافروں نے کہا ہم آپ کو اس وقت حجر اسود کا استلام نہیں کرنے دیں گے، تاوقتیکہ آپ ہمارے بتوں کا استلام نہ کریں تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمانے لگے اگر میں ایسا کرلوں تو کیا حرج ہے جب کہ اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے کہ میں ان بتوں کے مخالف ہوں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اسی طرح ابن شہاب سے روایت کیا گیا ہے ؛۔ نیز جبیر بن نفیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ قریش رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ اگر آپ ہماری طرف رسول ہو کر آئے ہیں تو ان غرباء اور غلاموں کی جو آپ کے پیرو ہیں اپنے پاس سے بالکل ہٹا دیجیے تاکہ ہم آپ کے تابع اور اصحاب ہوجائیں یہ سن کر آپ کچھ ان کی طرف متوجہ سے ہوئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے سورة نجم کی (آیت ) ” افرایتم اللات والعزی “۔ تک تلاوت فرمائی تو شیطان نے یہ الفاظ آپ پر القاء کردیے۔ (آیت) ” تلک الغرانیق العلی وان شفاعتھن لترتجی “۔ چناچہ فورا یہ آیت نازل ہوئی، اس کے نزول کے بعد آپ برابر مغموم رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی۔ (آیت) ” وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطان فی امنیۃ “۔ یہ روایات اس بات پر دال ہیں کہ یہ آیات مکی ہیں۔ اور جن حضرات نے ان روایتوں کو مدنی شمار کیا ہے، انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جس کو ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک قبیلہ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ ہمیں ایک سال کی مہلت دیجیے تاآنکہ ہمارے بتوں کے چڑھاوے آجائیں، پھر ہم اپنے بتوں کے چڑھاوے وصول کر کے اسلام لے آئیں، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو مہلت دینے کا ارادہ کرلیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی مگر اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دلائل میں شہر بن حوشب کے واسطہ سے عبدالرحمن بن غنم سے روایت کیا ہے کہ یہودی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے اگر آپ نبی ہیں تو شام جائیے کیوں کہ وہ ارض محشر اور سرزمین انبیاء کرام ہے ان کی یہ بات سن کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس چیز کا خیال ہوگیا چناچہ آپ نے ملک شام کے ارادہ سے غزوہ تبوک کیا، جب آپ تبوک پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے سورة بنی اسرائیل کی تکمیل کے بعد سورة بنی اسرائیل کی یہ آیات نازل فرمائیں (آیت) ” وان کادوا “۔ یعنی لوگ اس سرزمین سے آپ کے قدم بھی اکھاڑنے لگے تھے تاکہ آپ کو اس سے نکال دیں، اور اگر یہ آپ کو مدینہ منورہ سے نکال دیتے تو یہ بھی بہت کم ٹھہر پاتے، یہاں تک کہ ہم ان کو ہلاک کردیتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٣ (وَاِنْ كَادُوْا لَيَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهٗ ) یہ آیت اس بےپناہ دباؤ کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس کا سامنا رسول اللہ کو قریش کی طرف سے مکہ میں تھا۔ ایک طرف تو قریش مکہ آپ پر مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے کہ آپ قرآن کے غیر لچک دار احکام میں کچھ نرمی پیدا کریں اس کلام میں کچھ ترمیم کرلیں کچھ اپنی بات منوائیں اور کچھ ہماری مانیں۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورة یونس (آیت ١٥) میں بھی آچکا ہے : (ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ) ” (اے محمد) آپ اس کے علاوہ کوئی دوسرا قرآن پیش کریں یا پھر اس میں کچھ ردّوبدل کرلیں۔ “ دوسری طرف وہ مسلسل یہ مطالبہ بھی کیے جاتے تھے کہ اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو نشانی کے طور پر ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں۔ ان کا یہ مطالبہ ان کے عوام تک میں بہت مقبول ہوچکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضور کی اپنی خواہش بھی یہی تھی کہ انہیں کوئی معجزہ دکھا دیا جائے ‘ مگر اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا کہ انہیں کوئی حسی معجزہ نہیں دکھایا جائے گا۔ اس سے پہلے سورة الانعام (آیت ٣٥) میں ہم اللہ تعالیٰ کا دو ٹوک فیصلہ بایں الفاظ پڑھ آئے ہیں : (وَاِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ اِعْرَاضُهُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاۗءِ فَتَاْتِيَهُمْ بِاٰيَةٍ ) ” اور اگر آپ پر ان کی یہ بےاعتنائی گراں گزرتی ہے تو اگر آپ استطاعت رکھتے ہیں تو زمین میں کوئی سرنگ کھودیں یا آسمان میں کوئی سیڑھی لگائیں اور لے آئیں ان کے لیے کوئی معجزہ ! “ چناچہ ان دونوں پہلوؤں سے حضور کو شدید دباؤ کا سامنا تھا اور اسی دباؤ کا اظہار اس آیت میں نظر آ رہا ہے ۔ (وَاِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِيْلًا) تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ اس نوعیت کی مداہنت (compromise) کے عوض وہ لوگ آپ کو اپنا بادشاہ بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار تھے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

87. In order to understand the significance of this verse, we should keep in view the circumstances through which the Prophet (peace be upon him) had been passing at Makkah during the preceding decade or so. The disbelievers of Makkah were exerting their utmost to turn the Prophet (peace be upon him) away, somehow or other, from his message of Tauhid, which he was presenting, and to force him to make a compromise with shirk and the customs of ignorance. In order to achieve this end, they tempted him in several ways. They practiced deception upon him, and tempted him with greed, held out threats, and raised a storm of false propaganda against him, and persecuted him and applied economic pressure and social boycott against him. In short, they did all that could be done to defeat his resolve.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :87 یہ ان حالات کی طرف اشارہ ہے جو پچھلے دس بارہ سال سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکے میں پیش آرہے تھے ۔ کفار مکہ اس بات کے درپے تھے کہ جس طرح بھی ہو آپ کو توحید کی اس دعوت سے ہٹا دیں جسے آپ پیش کر رہے تھے اور کسی نہ کسی طرح آپ کو مجبور کر دیں کہ آپ ان کے شرک اور رسوم جاہلیت سے کچھ نہ کچھ مصالحت کرلیں ۔ اس غرض کے لیے انہوں نے آپ کو فتنے میں ڈالنے کی ہر کوشش کی ۔ فریب بھی دیے ، لالچ بھی دلائے ، دھمکیاں بھی دیں ، جھوٹے پروپگنڈے کا طوفان بھی اٹھایا ، ظلم و ستم بھی کیا ، معاشی دباؤ بھی ڈالا ، معاشرتی مقاطعہ بھی کیا ، اور وہ سب کچھ کر ڈالا جو کسی انسان کے عزم کو شکست دینے کے لیے کیا جاسکتا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٣: تفسیر ابن ابی حاتم میں جو روایت ہے اس میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اس آیت کی شان نزول میں یوں فرماتے ہیں کہ امیہ بن خلف اور ابوجہل بن ہشام اور چند اشخاص قریش آنحضرت کے پاس آئے اور کہا کہ آپ ہمارے بتوں کو چھو لیں تو ہم آپ کے دین میں داخل ہوجائیں گے ١ ؎۔ مشرکین مکہ کی یہ خواہش ایسی تھی جس طرح کی ان کی ایک خواہش کا ذکر سورة یونس میں گزارا کہ وہ قرآن کی آیتوں کو بدل دینا چاہتے تھے شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں مشرکوں کی اس خواہش کا ذکر کیا ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے ٢ ؎۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث بھی کئی جگہ گزر چکی ہے کہ فتح مکہ کے وقت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کے سب بتوں کو لکڑیاں مار مار کر زمین میں گرا دیا اور کوئی مشرک اپنے بتوں کی حمایت نہ کرسکا ٣ ؎۔ ان حدیثوں کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اے رسول اللہ کے اگرچہ یہ مشرک لوگ قرآن کی آیتوں کے بر خلاف تم سے اپنے بتوں کی بیجا عزت اور توقیر کرنا چاہتے ہیں اور ان کے دل میں یہ بھی ہے کہ اگر تم ان کا کہا مان لو تو بجائے دشمن کے یہ لوگ تمہارے دوست بن جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کے کار خانہ میں ہر کام کا وقت لوح محفوظ میں لکھا جاچکا ہے وقت مقررہ کے آنے تک یہ مشرک اپنی بیجا خواہشیں زبان پر لاتے ہیں وقت مقررہ کے آجانے پر تمہارے ہی ہاتھ سے اللہ تعالیٰ ان بتوں کی سب عزت و توقیر خاک میں ملا دے گا اور ان مشرکوں سے ان بتوں کی کچھ حمایت نہ ہوگی۔ ١ ؎ تفسیر الدر المثنور ص ١٩٤ ج ٤۔ ٢ ؎ تفسیر بہذاص ٣٠ ج ٣۔ ٣ ؎ صحیح بخاری ص ٦١٤ ج ٦ باب ابن رکز النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرایتہ یوم الفتح۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:73) ان کادوا لیفتنوک۔ میں ان مخففہ ہے جو ان ثقیلہ سے مخفف ہو کر ان بن گیا۔ یہ تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے اور لام فارقہ ہے ان مخففہ کو ان نافیہ یا شرطیہ سے ممیز کرتا ہے۔ کادوا۔ کاد یکاد (باب سمع) کود افعال مقاربہ میں سے ہے۔ فعل مضارع پر داخل ہوتا ہے اس کے بعد ان بہت کم آتا ہے کاد اگر بصورت اثبات مذکور ہو تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد کو آنے والا فعل واقع نہیں ہوا۔ قریب الوقوع ضرور تھا۔ جیسے یکاد البرق یخطف ابصارہم (2:20) قریب ہے کہ بجلی ان کی بینائی اچک لے جائے۔ اور اگر اس کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکس فعل کے وقوع کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے جو وقوع کے قریب نہ ہو جیسے وما کادوا یفعلون (2:71) اور وہ ایسا کرنے والے تھے نہیں۔ وان کا دو لیفتنونک اور قریب تھا کہ یہ (کافر لوگ) آپ کو بچلا دیں۔ یا یہ لوگ آپ کو بچلانے ہی لگے تھے۔ بعض نے کاد کے معنی ہم واراد بھی کئے ہیں۔ اس صورت میں معنی ہوں گے۔ اور انہوں نے پختہ ارادہ کیا کہ وہ آپ کو بچلا دیں یا برگشتہ کردیں۔ لتفتری۔ میں جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا لام۔ لام الفارقہ ہے۔ تفتری مضارع کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ افتراء مصدر تو افتراء کرے۔ تو جھوٹ باندھے۔ لتفتری علینا غیرہ یعنی اس وحی کے سوا (الذی اوحینا الیک) جو ہم نے آپ پر نازل کی آپ جھوٹ اور من گھڑت بات کی ہماری طرف نسبت کردیں۔ اذا۔ تب۔ اس وقت (یعنی اگر آپ ایسا کردیتے تو وہ اس وقت ضرور آپ کو گاڑھا دوست بنا لیتے) ۔ لا تخذوک۔ میں لام تاکید کے لئے ہے۔ اتخذوا۔ اتخاذ (افتعال) سے ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ وہ تجھے ضرور اختیار کرلیتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 کفار مکہ خود تو راہ پر کیا آتے ان کی یہ برابر کوشش رہی کہ کسی طرح آپ خلاص توحید کی دعوت پیش کرنے سے باز آجائیں یا ان احکام کا ایک حصہ چھوڑ دیں یا بدل دیں جو خدا کی طرف سے آپ کو دیئے جا رہے ہیں۔ یا قرآن سے وہ حصہ حذف کردیں جس میں شرک بت پرستی کی مذمت ہے تو ہم ایمان لانے کے لئے تیار ہیں اور آپ کو مقصد سے پھیرنے کے لئے کبھی فریب کاریوں سے، کبھی لالچ سے اور کبھی دھمکیوں سے انہوں نے بہتیرے جتن کئے لیکن آپ کا جواب ہر موقع پر یہ رہا ” خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں چاند اور دوسرے ہاتھ میں سورج بھی رکھ دیں تب بھی میں اس کام کو چھوڑنے والا نہیں جو اللہ نے میرے ذمے کیا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی اس کوشش میں لگے تھے کہ آپ ہمارے حکم کے خلاف کریں کہ مسلمانوں کو ہٹا دیں یا مسلمان ہونے کے لئے ایک سال کی مہلت دے دیں، کہ دونوں امر خلاف شرع ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٩٢١ ایک نظر میں۔ سورة اسرا کا یہ آخری سبق بھی اس سورت کے بنیادی محور کے اردگرد گھوم رہا ہے۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور ان کی قوم کا ان کے بارے میں موقف۔ قرآن اور اس کی خصوصیات۔ یہ اس سورت کا بھی اور اس سبق کا بھی اہم موضوع ہے۔ اس سبق کا آغاز ان مساعی پر تبصرے سے ہوتا جو مشرکین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقائد و اعمال میں بعض سے ہٹانے کے سلسلے میں کر رہے تھے۔ پھر یہ کہ وہ آپ کو مکہ سے نکالنے کے سلسلے میں جو منصوبے بنا رہے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کمزور کرکے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حامیوں کو کم کرکے وہ جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن اللہ نے ان کو ان کے ان ارداوں میں ناکام کردیا۔ اور اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے فتنوں سے بچا لیا۔ کیونکہ اللہ کے علم میں یہ بات تحریر تھی کہ اہل مکہ کے لئے ابھی تک مہلت موجود ہے۔ اور ان کے لئے اللہ کے فیصلے ایسی تباہی نہ تھی جسی امم سابقہ کے لئے لکھی گئی تھی۔ اگر وہ رسول اللہ کو نکالتے یا ایسا اللہ نے مقدر کیا ہوتا تو پھر ان پر بھی وہ عذاب نازل ہوتا ہے جو امم سابقہ پر ہوا کیونکہ اللہ کی سنت نبیوں اور ان کی امتوں کے سلسلے میں ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی راہپر چلتے رہیں ، نماز پڑھیں ، قرآن کی تلاوت فرمائیں۔ اور دعا کریں کہ اللہ آپ کو جہاں بھی لے جائے سچائی کے ساتھ لے جائے اور جہاں سے بھی نکالے سچائی کے ساتھ نکالے اور آپ کے لئے ایک ایسی حکومتی قوت فراہم کرے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقصد کے حصول کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت کرے۔ اور وہ حکومت یہ اعلان کردے کہ حق آگیا اور باطل چلا گیا اور زائل ہوگیا اور مغلوب ہوگیا۔ پس یہ ہے اللہ کے ساتھ رابطہ اور یہ ہے وہ زبردست ہتھیار جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتنوں سے بچا سکتا ہے اور جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ایسی قوت بن سکتا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت کرے۔ اس کے بعد یہ بتایا گیا کہ قرآن ایک شفا ہے اور ان لوگوں کے لئے رحمت کا باعث ہے جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو اس کی تکذیب کرتے ہیں وہ ان کے لئے باعث عذاب اور مصیبت ہے۔ دنیا میں بی وہ اس کی وجہ سے مصیبت میں رہیں گے اور اس سے روگردانی کی وجہ سے آکرت میں بھی واصل جہنم ہوں گے۔ اسی مضمون کی مناسبت سے یہ بتایا جاتا ہے کہ رحمت کی حالت میں اور عذاب کی حالت میں انسان کے شب و روز کیسے ہوتے ہے۔ جب اس پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے تو وہ متکبر اور حق سے منہ موڑنے والا بن جاتا ہے اور جب وہ گرفتار مصیبت ہوتا ہے تو نہایت ہی مایوس اور شکستہ دل ہوتا ہے اور اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ ہر انسان اپنے طریق کار کے مطابق زندگی اختیار کرتا ہے لیکن اس معلوم ہونا چاہیے کہ آخرت میں جزاء سزا بھی اس کے رویہ کے مطابق ہوگی لہٰذا اسے اپنے رویے کا تعین سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ اپنے علمی کمال اور خصوصیات کے باوجود انسان کا علم بہت ہی قلیل ہے۔ یہ اس لئے کہ وہ روح کے بارے میں سوالات کرتے تھے ، حالانکہ روح اللہ کے غیوب میں سے ایک غیب ہے ، انسانی قوائے مدرکہ میں ابھی اس کے ادراک کی قوت نہیں ہے۔ یقینی علم وہی ہے جو اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے۔ یہ اللہ کا رسول اللہ پر بہت ہی بڑا فضل ہے اور اگر اللہ اپنے اس فضل کو واپس لے لے تو اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ لیکن یہ اللہ کا رحم و کرم ہے کہ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اعزاز بخشا ۔ پھر کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن ایک کتاب معجز ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے کوئی بھی ایسی کتاب پیش کرنے سے عاجز ہے۔ اگرچہ وہ سب جمع ہوجائیں ، اور ایک دوسرے کی امداد کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب میں دلائل ہدایت کو مختلف اسالیب سے پھیر پھیر کر بیان کیا ہے تاکہ ہر معیار علم و دانش کے لوگ اس سے استفادہ کرسکیں۔ لیکن تعجب ہے کہ کفار قریش نے اسے کافی نہ سمجھا اور وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مادی معجزات طلب کرنے لگے مثلاً زمین سے چشمے نکالنا ، یا یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے کوئی بہت ہی قیمتی مکان ہو ، پھر ان کی ہٹ دھرمی اس حد تک آگے بڑھ گئی کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسے مطالبات کرنا شروع کردئیے و انسانی خصائص کے خلاف تھے ، مثلاً یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آسمان میں چڑھ جائیں۔ اور یہ واقعہ ان لوگوں کے سامنے ہو ، اس کے بعد آپ ایک لکھی ہوئی تحریر لے کر آئیں جسے وہ پڑھ سکیں یا یہ کہ آسمان کا یہ ایک ٹکڑا ان پر گرا دیں بلکہ اس سے بڑھ کر انہوں نے کفر و ہٹ دھرمی کی حدیں پار کرتے ہوئے یہ مطالبہ شروع کردیتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرشتوں اور خدا تعالیٰ کو سیدھے ان کے سامنے لے کر آجائیں۔ ہٹ دھرمی پر مبنی ان کے مطالبات کا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ اگر یہ لوگ اللہ کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک بنا دئیے گئے ہوتے تو بھی یہ انسانی تھرڈ لے پن اور کنجوسی کا شکار ہوجاتے اور ان کو یہ خوف لاحق ہوجاتا کہ کہیں خزائن رحمت ربی ختم ہی نہ ہوجائیں لیکن یہ لوگ جو مطالبات کرتے ہیں اس میدان میں یہ بہت ہی سخی ہیں ، کسی حد تک رکھتے ہی نہیں اور ایک سے ایک بڑا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کے ان بےجا مطالبات کی بحث ہی کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے کیسے کیسے خارق عادت معجزات دئیے تھے لیکن اس کے باوجود بھی فرعون اور اس کی قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول نہ کیا۔ تو اللہ نے فرعون اور اس کی قوم کو ہلاک کردیا۔ جس طرح اللہ کی سنت ہے کہ وہ مکذبین کو ہلاک فرماتا ہے۔ رہا قرآن مجید تو وہ تو باقی رہنے والا اور برحق معجزہ ہے۔ اس کا نزول متفرق طور پر ہوا ہے۔ امت کی ضرورت اور حاجت کے مطابق یہ وقتاً فوقتاً ہوا ہے۔ امم سابقہ کے اہل علم بھی جانتے ہیں کہ یہ کتاب ، کتاب حق ہے۔ وہ اس پر یقین کرتے ہیں اور بہت ہی ڈراتے ہیں اور ایمان لا کر تسلیم خم کرتے ہیں۔ سورت کا خاتمہ اس مضمون اور ہدایت پر ہوتا ہے کہ رسول اللہ اللہ کی بندگی کریں۔ صرف اللہ کی بندگی اور اللہ کی حمدو ثنا کریں۔ جس طرح سورت کا آغاز بھی اسی مضمون سے ہوا تھا یعنی اللہ کی پاکی اور تسبیح کے ساتھ۔ یہاں اللہ تعالیٰ ان کوششوں کا ذکر فرماتے ہیں جو مشرکین مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے موقف سے ہٹانے کے سلسلے میں کرتے تھے۔ ان کی پہلی کوشش یہ تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن میں کچھ تبدیلیاں کردیں اور ان کے خیال میں جو بعض بہت سخت باتیں تھیں ، ان کو بدل کر دوسری باتیں لے آئیں ، اگر آپ ایسا کرتے تو یہ اللہ پر افتراء ہوتی ، لیکن ایسا کیسے ممکن تھا کیونکہ آپ صادق و امین تھے۔ یہ کوشش انہوں نے مختلف تجاویز دے کر کی مثلاً ایک تجویز انہوں نے یہ دی کہ وہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اللہ کی بندگی کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے الہوں پر تنقید چھوڑ دیں۔ نیز ان کے آباء و اجداد جو کچھ کرتے رہے ، ان کو بھی برا بھلا نہ کہیں ، بعض لوگوں نے یہ کہا کہ وہ اس بات کے لئے تب تیار ہوں گے کہ جب وہ ان کے علاقے کو بھی اسی طرح حرام قرار دے دیں جس طرح بیت اللہ حرام ہے۔ بعض اکابرین مکہ کا مطالبہ یہ تھا کہ ہم ایمان لانے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے لئے ایک خاص مجلس مقرر کردیں اور فقراء کے لئے ایک الگ مجلس وغیرہ وغیرہ۔ اس آیت میں ان کوششوں کی طرف ایک اجمالی اشارہ کیا گیا ہے ۔ تفصیلات نہیں دی گئیں۔ مقصد یہ بتانا ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر یہ اللہ کا فضل و کرم تھا کہ تمہیں راہ حق پر ثابت قدم رکھا اور تمہیں مشرکین کے فتنوں سے بچایا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ اس ثابت قدمی کو واپس لے لیتا اور جو عظمت آپ کو دی ہوئی تھی ، وہ کھینچ لیتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان مطالبات کو مان کر ان کی طرف جھک جاتے اور اس طرح یہ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دوست بنا لیتے اور پھر آپ کے اس جھکنے کی سز آپ کو ملتی۔ اور پھر یہ عذاب دوسرے عام لوگوں کے مقابلے میں اس زندگی اور قیامت دونوں میں دو چند ہوتا اور پھر یہ لوگ آپ کی کوئی نصرت اور مدد بھی نہ کرسکتے۔ یہ کوششیں اور سازشیں ، جن سے اللہ نے حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچایا ، ہر دور کے کبرائ، داعیان ھق کو پھسلانے کی خاطر کرتے رہے۔ مثلاً وہ داعیان حق کو اپنے موقف سے منحرف کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ دعوت اسلامی کی سختی میں قدرے نرمی کردی جائے اور اس سیدھے راستے میں ٹیڑھ پن پیدا کردیا جائے۔ کبرائے وقت ہمیہش درمیانی درجے کی راہ تلاش کرتے رہے ہیں اور اہل حق کو معاونت کی نیز بڑے برے مفادت کی پیش کش کرتے رہے ہیں اور راہ حق سے بھٹکانے کی سعی کرتے رہے ہیں۔ بعض داعیان حق معاملے کو معمولی سمجھتے ہوئے اپنی دعوت میں تبدیلی کرنے پر راضی ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ کبراء اور اہلیان حکومت ایسے داعیان حق سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ وہ اپنی دعوت کو بالکل چھوڑ دیں۔ البتہ وہ اس قدر غیر محسوس اور معمولی تبدیلیوں کا مطالبہ کرتے ہیں جن کے نتیجے میں دونوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ گزارہ کرسکیں۔ شیطان بعض داعیان حق کو اس نکتے پر پھسلا دیتا ہے اور داعیان حق یہ سمجھتے ہیں کہ دعوت اسلام کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ کوئی برسر اقتدار بڑا آدمی دعوت اسلامی کا حامی بن جائے۔ اگرچہ اس سلسلے میں انہیں اپنے موقف میں بعض تبدیلیاں لائی کیوں نہ پڑیں۔ لیکن نکتہ آغاز سے جب راہ حق سے ایک معمولی سے انحراف کا آغاز کیا جائے تو راستے کی انتہا میں جا کر وہ انحراف بہت ہی معمولی جزاء کیوں ہو یا کسی نہایت ہی جزئی مسئلہ سے غفلت برتی جائے اور چشم پوشی کی جائے تو پھر داعی کے بس میں یہ بات نہیں رہتی کہ وہ کسی حد پر جا کر رکے کیونکہ جب ایک آدمی ڈالنے کے لئے تیار ہوجائے تو پھر وہ ہتھیار ڈالتا ہی چلا جاتا ہے۔ اور وہ ایک کے بعد دوسری پسپائی اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے پوری دعوت کو قبول کیا ہے۔ اور مکمل اسلامی نظام کے قیام کی دعوت ہماری دعوت ہے۔ اس لئے جو شخص بھی اسلامی نظام کے کسی جزء کو نظر انداز کرتا ہے اگرچہ وہ بہت ہی چھوٹا اور جزئی مسئلہ کیوں نہ ہو ، اور جو شخص دعوت اسلامی کے کسی بھی چھوٹے مسئلہ کے بارے میں خاموشی اختیار کرتا ہے وہ دعوت اسلامی پر درحقیقت مومن نہیں ہے۔ اس لئے کہ ایک مومن کی نظریں دعوت اسلامی کا ہر جزء اہم ہوتا ہے۔ اسلامی نظام کے اجزاء میں سے کوئی جزء فاضل و مفضول نہیں ہے۔ اس میں ضروری اور غیر ضروری کچھ بھی نہیں۔ اس میں کوئی ایک جزء بھی ایسا نہیں ہے جس سے انسان بری الذمہ قرار دیا جاسکے۔ اسلامی نظام ایک کل ہے ، اگر اس میں سے ایک جزء بھی غائب کردیا جائے تو تمام اجزاء بےمقصد ہوجاتے ہیں۔ جس طرح کوئی وہ ترکیب ، کسی نسخے اور فارمولے سے ایک جزء غائب ہوجانے تو تمام دوسرے اجزاء کے خواص کام نہیں کرتے۔ اہل اقتدار کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ اسلامی نظام کے اجزاء کو ایک ایک کرکے ، داعیان نظام اسلامی سے ترک کراتے ہیں۔ جب اہل حق کسی ایک جزء پر مسالت اور صلح کرتے ہیں تو ان کی پوزیشن ختم ہوجاتی ہے۔ اور اہل اقتدار اور ڈکٹیٹر پھر ایک ایک بات پر سودا بازی کی کوشش کرتے ہیں اور آخر کار وہ اپنی تمام شرائط منوا لیتے ہیں اور دعوت اسلامی کا وجود ہی ختم ہوجاتا ہے۔ یہ کہ بر سر اقتدار (اور بااثر) لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اپنی دعوت کے کسی معمولی جزء سے چشم پوشی کرنا ، درحقیقت شکست خوردگی ہے۔ روحانی اور اخلاقی شکست کو تسلیم کرنا ہے۔ اور یہ برسر اقتدار اور بااثر لوگوں پر اعتماد کرنا ہے کہ وہ دعوت اسلامی کی حمایت کریں گے۔ حالانکہ ایک سچا مومن اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں صرف اللہ پر اعتماد کرتا ہے ، صرف اللہ پر بھروسہ کرتا ہے۔ لیکن جب داعیوں کے قلب و نظر میں شکست نے راہ پا لی تو پھر ہی شکست شکست ہی ہوگی اور کسی صورت میں بھی اسے فتح سے نہ بدلا جاسکے گا۔ اللہ کا یہ رسول اللہ پر بہت بڑا احسان تھا کہ اللہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسلامی نظام حیات اور ان تمام امور پر ثابت قدم کردیا تھا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف وحی ہوتے تھے۔ اور مشرکین نیز مشرکانہ معاشرے کے تمام فتنوں سے اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچا لیا تھا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس قدر ثابت قدمی عطا کردی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی دینی معاملے میں ان کی طرف نہ جھکتے تھے۔ اگرچہ وہ معمولی سا کیوں نہ ہوتا اور دین کے معاملے میں مداخلت کے عذاب سے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ نے بچا لیا ، جو دنیا میں بھی ہوتا ہے اور آخرت میں بھی اس سے دو چند ہوتا ہے اور دنیا میں یوں کہ ایسے داعیوں کو اللہ کی معاونت اور نصرت حاصل نہیں رہتی۔ جب مشرکین اس کوشش میں ناکام ہوئے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، بعض قرآنی ہدایات کو چھوڑ دیں یا بدل دیں اور ان کی یہ سازش کامیاب نہ ہوئی تو انہوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکال دیں لیکن وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نکالنے میں کامیاب نہ ہوئے تو اللہ نے بذریعہ وحی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود مہاجر والی اللہ بن کر مدینہ چلے جائیں کیونکہ اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ اہل قریش کو ہلاک نہ کیا جائے۔ اور اگر وہ زبردستی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نکال دیتے یا آپ کو نکلنے پر مجبور کردیتے تو ان پر تباہی ایک عذاب کی صورت میں نازل ہوجاتی ۔ اور وہ نیست و نابود ہوجاتے ،

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین کی خواہش تھی کہ آپ کو اپنی طرف کرلیں اور اپنا دوست بنالیں ان آیات کا نزول بیان کرتے ہوئے مفسرین نے کئی روایات لکھی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی قابل اعتماد نہیں۔ صحت کے قریب جو روایت ہے جسے صاحب روح المعانی نے بحوالہ ابن ابی حاتم جبیر بن نفیر سے نقل کیا ہے یہی ہے کہ قریش مکہ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آپ اگر ہماری طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں تو آپ ان لوگوں کو ہٹا دیں جو گرے پڑے لوگ آپ کے تابع ہوگئے ہیں۔ تاکہ ہم آپ کے اصحاب میں شامل ہوجائیں۔ اتنی بات آیت کریمہ (وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ ) کے سبب نزول سے موید ہوتی ہے جس کا سورة انعام میں ذکر گزر چکا ہے اس کے بعد صاحب روح المعانی نے ایک قول بلاحوالہ نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ قریش مکہ نے عرض کیا کہ آپ ہمارے لیے آیت رحمت کو آیت عذاب بنا دیں اور آیات عذاب کو آیات رحمت بنا دیں تو آپ پر ایمان لے آئیں گے اس پر آیت بالا نازل ہوئی۔ صحیح سند سے تو کوئی روایت ثابت نہیں البتہ (طرز کلام سے) اتنا معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین نے کوئی درخواست ایسی کی تھی جس کے قبول کرنے کا اسلام میں کوئی جواز نہ تھا۔ ان لوگوں نے تو کوشش کی کہ حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان باتوں سے ہٹا دیں جن کی آپ پر وحی آئی تھی۔ اور آپ سے ایسی باتیں منظور کرالیں جو اللہ کی وحی کے خلاف ہیں۔ چونکہ یہ چیزیں ان کے مطلب کی تھیں اور وحی الٰہی ان کی خواہشوں کے خلاف تھی اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی رکھتے تھے۔ اگر آپ ان کی باتیں مان لیتے تو وہ آپ کو دوست بنالیتے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثابت قدم رکھا اور آپ ان کی طرف ذرا بھی مائل نہ ہوئے۔ قال صاحب الروح ولا یخفی ان فی قولہ سبحانہ (الیھم) دون الی اجابتھم ما یقوی الدلالۃ علی انہ (علیہ السلام) بمعزل عن الاجابۃ فی اقصی الغایات، وھذا الذی ذکر فی معنی الایۃ ھو الظاھر متبادر للافھام۔ آخر میں یوں فرمایا کہ اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے اور بالفرض آپ ان کی طرف جھک جاتے تو ہم آپ کو اس زندگی میں اور موت کے بعد دہرا عذاب چکھاتے پھر آپ ہمارے مقابلہ میں کوئی بھی مددگار نہ پاتے اس میں آپ کو جو خطاب ہے فرض کے طور پر ہے اور اس میں امت کے لیے عبرت ہے جو بھی کوئی شخص کافروں کی طرف مائل ہوگا (اور میلان کے مختلف درجات ہیں) تو وہ دنیا اور آخرت کے عذاب میں مبتلا ہوگا۔ قال البغوی فی تفسیرہ یعنی اضعفنالک العذاب فی الدنیا والآخرۃ وقیل الضعف ھو العذاب سمی ضعفا لتضاعف الالم فیہ قال صاحب الروح وینبغی للمومن اذا تلا ھذہ الایۃ ان یجثو عندھا ویتدبرھا وان یستشعر الخشیۃ وازدیاد التصلب فی دین اللّٰہ تعالیٰ

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

66:۔ ” و ان کادوا “ تا ” ولا تجد لسنتنا تحویلا “۔ یہ چوتھی آیت معجزہ ہے اور ” سبحن الذی اسری “ سے متعلق ہے اور اس میں تین امور مذکر ہیں۔ امر اول شکوی۔ ” وان کادوا لیفتنونک “ قریب تھا کہ مشرکین اپنی پر فریب اور چکنی چپڑی باتوں سے آپ کو سیدھی راہ سے اور ہماری توحید سے ذرا سا ہٹا لیتے مگر ہم نے آپ کو راہ توحید پر ثبات و استقلال عطا فرمایا۔ مشرکین کی خواہش تھی کہ آپ ان کے خود ساختہ معبودوں کے بارے میں ذرا نرمی سے کام لیں، ان کی مذمت نہ کریں اور کم از کم صرف یہی کہہ دیں کہ ہر دین اچھا ہے جو جس دین پر ہے ٹھیک ہے۔ اگر آپ ایسا کرلیں تو وہ آپ کے گہرے دوست بن جائیں گے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ” ودوا لو تدھن فیدھنون (القلم رکوع 2) “ مگر یہ میری ذات پر سراسر افتراء ہے کہ ہر دین اچھا ہے کیونکہ دین کو اچھا قرار دینا صرف میرا ہی کام ہے اس لیے جو شخص ہر دین کو اچھا کہتا ہے وہ مجھ پر افتراء کرتا ہے میں نے تو صرف اس توحید والے دین اسلام ہی کو اچھا اور سچا قرار دیا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

73 اور اے پیغمبر یہ کافر تو آپ کو اس چیز سے جو ہم نے آپ کی طرف وحی کے ذریعہ بھیجی ہے بچلانے اور ہٹانے ہی لگے تھے اور فریب دے کر ان احکامات سے ہٹانا چاہتے تھے اور ان کی یہ کوشش اس لئے تھی تاکہ آپ ان احکام کے سوا جو ہم نے آپ کو بھیجے ہیں کوئی غلط بات ہماری طرف منسوب کردیں اور ایسا کرنے پر وہ کافر آپ کو اپنا گہرا دوست بنا لیتے۔ مفسرین کے ان آیات کے متعلق مختلف اقوال ہیں بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آیت زیر بحث کا تعلق مکہ کے کفار کے ساتھ ہے کیوں کہ یہی لوگ اس قسم کی سازشوں میں دن رات لگے رہتے تھے۔ ان کافروں کا مطالبہ خواہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں سے بتوں کی برائی اور شرک کی مذمت کو بدل دیا جائے یا یہ ہو کہ غریب اور مزدور طبقے کو ہمارے ساتھ بٹھا کر قرآن کریم نہ سنایا جائے اگر آپ ہماری بات مان لیں تو ہم آپ کو اپنا دوست بنالیں گے اور آپ کے دشمنی ترک کردیں گے اور چونکہ نبی کا فعل خلاف شرع نہیں ہوتا اگر نبی کا کوئی مطالبہ مان لیتا تو اس کی نسبت حکم الٰہی کا ہونا لازم آتا اور ایسا کرنا اللہ تعالیٰ پر افتراء ہوتا اس لئے فرمایا لتفتری علینا غیرہ۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کافر کہتے تھے کہ اس کلام میں نصیحت کی باتیں اچھی ہیں مگر ہر جگہ شرک پر عیب دیا ہے یہ بدل ڈال تو ہم اس کو سنیں۔ 12