Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 74

سورة بنی اسراءیل

وَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ثَبَّتۡنٰکَ لَقَدۡ کِدۡتَّ تَرۡکَنُ اِلَیۡہِمۡ شَیۡئًا قَلِیۡلًا ﴿٭ۙ۷۴﴾

And if We had not strengthened you, you would have almost inclined to them a little.

اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو بہت ممکن تھا کہ ان کی طرف قدرے قلیل مائل ہو ہی جاتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

74۔ 1 اس میں اس عصمت کا بیان ہے جو اللہ کی طرف سے انبیاء (علیہم السلام) کو حاصل ہوتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مشرکین اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتے تھے، لیکن اللہ نے آپ کو ان سے بچایا اور آپ ذرا بھی ان کی طرف نہیں جھکے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٣] کفار مکہ کی آپ سے سمجھوتہ کی کوششیں :۔ کفار مکہ نے جب دیکھا کہ ان کی مقدور بھر کوششوں کے باوجود اسلام پھیلتا ہی جارہا ہے۔ تو انہوں نے کئی بار آپ سے باہمی سمجھوتہ کی کوششیں کیں۔ ایک دفعہ یہ پیش کش کی اگر آپ ہمارے بتوں سے متعلقہ آیات پڑھنا چھوڑ دیں تو ہم آپ کے مطیع بننے کو تیار ہیں۔ لیکن آپ ان کی یہ بات کیسے مان سکتے تھے ؟ اور ایک دفعہ یہ پیشکش کی کہ اگر آپ حکومت چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا حاکم بنانے پر تیار ہیں۔ اگر مال و دولت چاہتے ہیں تو تمہارے قدموں میں مال و دولت کے ڈھیر لگا دیتے ہیں اور اگر آپ کو کسی عورت سے محبت ہے تو ہم اس سے آپ کی شادی کردیں گے بشرطیکہ آپ جو دعوت پیش کر رہے ہیں اس سے باز آجائیں۔ گویا ان کے خیال کے مطابق ایک عام انسان کا منتہائے مقصود یہی تین چیزیں ہوسکتی ہیں۔ جو انہوں نے پیش کردیں۔ اور یہ پیش کش آپ کے ہمدرد و غمخوار اور سرپرست چچا ابو طالب کی موجودگی میں کی گئی۔ چونکہ سب سرداران قریش مل کر آئے تھے اس لیے ابو طالب کے پائے استقلال میں بھی لغزش آگئی اور وہ بھی آپ کو سمجھانے لگے۔ یہ معاملہ دیکھ کر آپ روپڑے اور اپنے چچا سے کہنے لگے && چچا جان ! اگر ان لوگوں میں اتنی طاقت ہو کہ وہ میرے ایک ہاتھ پر سورج لا کر رکھ دیں اور دوسرے پر چاند لاکر رکھ دیں تب بھی میں اس کام سے باز نہیں آسکتا۔ یا تو یہ کام پورا ہو کے رہے گا یا پھر میری جان بھی اسی راہ میں قربان ہوگی && بھتیجے کا یہ استقلال دیکھ کر چچا کی بھی ہمت بندھ گئی اور کہنے لگا && بھتیجے جو کچھ کرنا چاہتے ہو کرتے جاؤ۔ جب تک میں زندہ ہوں تمہاری حمایت پر کمر بستہ رہوں گا && چناچہ قریشیوں کا وفد ناکام اٹھ کر چلا گیا۔ ان آیات میں ایسے ہی واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے تمہیں جو استقلال کی توفیق ہوئی تو یہ اللہ کی طرف سے ہی تھی اور اگر اللہ کی طرف سے ایسی توفیق نصیب نہ ہوتی تو آپ کچھ نہ کچھ تھوڑا بہت ان کی طرف جھک بھی سکتے تھے۔ اگر ایسی صورت پیش آجاتی تو کفار مکہ تو تم سے ضرور خوش ہوجاتے اور وہ تمہیں اپنا دوست بھی بنا لیتے مگر اللہ کی طرف سے آپ کو نبی ہونے کی بنا پر اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دوہرا عذاب پہنچ سکتا ہے۔ اپنے نبی کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق اور مہربانی سے حق و باطل کی اس آمیزش سے بچا لیا۔ اب یہ تمام تر عتاب ان مسلمانوں کے لیے ہے جو محض چند ٹکوں کی خاطر حق و باطل میں سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔ اس طرح خود بھی گمراہ ہوتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ ۔۔ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ثابت رکھنے کی وجہ سے آپ ان کی طرف مائل ہونے کے تھوڑا سا قریب بھی نہیں ہوئے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کی فطرت اتنی سلیم تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ کا خاص طور پر آپ کو ثابت رکھنا نہ ہوتا تو پھر بھی آپ زیادہ سے زیادہ ان کی طرف مائل ہونے کے تھوڑے سے قریب ہی ہوتے، پوری طرح مائل چھوڑ کر مائل ہونے کے پوری طرح قریب بھی نہ ہوتے۔ اس کے باوجود آپ کبھی اپنے آپ پر بھروسا نہیں کرتے تھے، انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کثرت سے یہ دعا کیا کرتے تھے : ( یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلٰی دِیْنِکَ ) [ ترمذی، القدر، باب ما جاء أن القلوب بین أصبعي الرحمان : ٢١٤٠، صححہ الألباني ] ” اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔ “ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو اہل ایمان کا کفار کی طرف مائل ہونے کے قریب ہونا بھی گوارا نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَيْهِمْ شَـيْــــًٔـا قَلِيْلًا 74؀ڎ ثبت الثَّبَات ضدّ الزوال، يقال : ثَبَتَ يَثْبُتُ ثَبَاتاً ، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] ( ث ب ت ) الثبات یہ زوال کی ضد ہے اور ثبت ( ن ) ثباتا کے معنی ایک حالت پر جمے رہنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] مومنو جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ ركن رُكْنُ الشیء : جانبه الذي يسكن إليه، ويستعار للقوّة، قال تعالی: لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلى رُكْنٍ شَدِيدٍ [هود/ 80] ، ورَكنْتُ إلى فلان أَرْكَنُ بالفتح، والصحیح أن يقال : رَكَنَ يَرْكُنُ ، ورَكِنَ يَرْكَنُ «2» ، قال تعالی: وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا[هود/ 13] ، ( ر ک ن ) رکن ۔ کسی چیز کی وہ جانب جس کے سہارے پر وہ قائم ہوتی ہے استعارہ کے طور پر ذور اور قوت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلى رُكْنٍ شَدِيدٍ [هود/ 80] اے کاش ( آج ) مجھ کو تمہارے مقابلہ کی طاقت ہوئی یا میں کسبی زبر دست سہارے کا آسرا پکڑا جاتا ۔ اور رکنت الی ٰ فلان ارکن کے معنی کسی کیطرف مائل ہونے کے ہیں یہ فتح کاف کے ساتھ ہے مگر صحیح رکن یر کن ( ن) یا رکن یر کن ( س) ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا[هود/ 13] جن لوگوں نے ہماری نافرمانی کی انکی طرف نہ جھکنا ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٤) اور اگر ہم نے آپ کو ثابت قدم نہ بنایا ہوتا اور آپ کی حفاظت نہ کی ہوتی تو آپ ان کے مطالبہ کے مطابق ان کی طرف کچھ کچھ جھکنے کے قریب جا پہنچتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤ (وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَيْهِمْ شَـيْــــًٔـا قَلِيْلًا) یہ بہت نازک اور اہم مضمون ہے۔ حضرت یوسف کے بارے میں سورة یوسف آیت ٢٤ میں اسی طرح فرمایا گیا تھا : (وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ۚ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ ) یعنی عزیز مصر کی بیوی نے تو قصد کر ہی لیا تھا اور یوسف بھی قصد کرلیتے اگر وہ اللہ کی برہان نہ دیکھ لیتے۔ یعنی یہ امکان تھا کہ بر بنائے طبع بشری وہ بھی ارادہ کر بیٹھتے مگر اللہ نے انہیں اس سے محفوظ رکھنے کا اہتمام فرمایا۔ حضور کے لیے بھی یہاں اسی طرح فرمایا کہ اگر ہم نے آپ کے پاؤں جما کر آپ کے دل کو اچھی طرح سے مضبوط نہ کردیا ہوتا تو قریب تھا کہ آپ کسی نہ کسی حد تک ان کی طرف مائل ہوجاتے۔ بہرحال ان الفاظ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ پر اس دور میں قریش مکہ کی طرف سے کس قدر شدید دباؤ تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٤۔ ٧٥:۔ تفسیر ابن ابی حاتم، تفسیر ابن مردویہ اور تفسیر ابوالشیخ میں سعید (رض) بن جبیر سے جو شان نزول اس آیت کی اور اوپر کی آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حجر اسود کو ہاتھ لگاتے اور چھوتے ہوئے دیکھ کر یہ کہا کہ جس طرح ایک پتھر حجر اسود ہے ویسا ہی ہمارے بت پتھر ہیں اگر ایک دفعہ آپ ہمارے بتوں کو حجر اسود کے چھونے کی طرح ہاتھ لگا لیویں تو ہم آپ کو حجر اسود کو آئندہ چھونے دیں گے ورنہ ہم حجر اسود کو بھی آپ کو ہاتھ نہ لگانے دیں گے ١ ؎۔ مشرکین کی یہ بات سن کر آپ کے دل میں ایک وسوسہ اور پس وپیش تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کا پس وپیش رفع کرنے اور مشرکوں کے بہکاوے سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ آیتیں نازل فرمائیں اس شان نزول کی سند میں کسی طرح کا کلام نہیں ہے اور ابن ابی حاتم کا اس شان نزول کو اپنی تفسیر میں ذکر کرنا بھی ایک رفع وسوسہ کی بات ہے ‘ کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور حضرت عبداللہ بن مسعودّ (رض) کی دو روایتوں کے بعضے طریق جن میں کچھ تردد تھا ان کو ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر کی صحت کے خیال سے خود چھوڑ دیا ہے یہ وہ طریق ہیں جن کو حاکم نے اپنی مستدرک کی کتاب التفسیر میں لیا ہے اور ابن ابی حاتم نے چھوڑ دیا ہے اسی واسطے ابن ابی حاتم کی تفسیر کا درجہ مستدرک حاکم سے زیادہ شمار کیا جاتا ہے جلال الدین سیوطی نے اتقان میں اس بحث کو تفصیل سے لکھا ہے۔ اور اسباب نزول میں اس شان نزول کے راویوں کی ثقاہت بھی بیان کی ہے معالم التنزیل میں بغوی نے بھی اس شان نزول کو ذکر کیا ہے اور جامع البیان ‘ خازن وغیرہ میں بھی یہ شان نزول ہے صحیح مسلم میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے جس میں کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ اور ایک شیطان تعینات ہے۔ فرشتہ نیک کاموں کی ترغیب دلاتا رہتا ہے اور شیطان برے کا موں کی۔ اس پر صحابہ (رض) نے پوچھا کہ کیا حضرت آپ کے ساتھ بھی شیطان تعینات ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں ہے تو سہی مگر اللہ کی مدد سے مجھ کو وہ نیک کام کا مشورہ دیتا رہتا ہے۔ کسی برے کام کی ترغیب نہیں دلا سکتا ٢ ؎۔ یہ حدیث ولو لا ان ثبتناک کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے تمہارے ساتھ شیطان جو تعینات ہے اگر اللہ اس کو برے کام کی ترغیب سے روک کے اس سے فرشتہ کا کام نہ لیتا تو تم مشرکوں کا کہنا ماننے کی طرف کسی قدر مائل ہوجاتے لیکن اللہ کے انتظام نے تم کو اس چوک سے اس لیے بچایا کہ انبیاء کے مرتبہ کے موافق جس طرح ان کے نیک کاموں کا اجر اللہ کی بارگاہ میں زیادہ ہے اسی طرح ان کی چوک کی پکڑ بھی زیادہ ہے اور اس کی پکڑ سے کوئی کسی کو چھڑا نہیں سکتا۔ ١ ؎ تفسیر الدر المتثور ص ١٩٤ ج ٤۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ١٨ باب فی الوستہ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:74) لولا۔ اگر نہ ۔ وگرنہ (نیز ملاحظہ ہو 6:43) ثبتنک۔ ثبت یثبت تثبیت (تفعیل) سے ماضی جمع متکلم۔ ہم نے ثابت رکھا ۔ ہم نے ثابت قدم رکھا۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ ہم نے تجھے ثابت قدم رکھا۔ کاد یکاد کود سے (آیۃ 17:73 مذکورۃ الصدر) کسی فعل کے وقوع یا عدم وقوع کے قریب پہنچ جانا۔ قریب تھا کہ تو (مائل ہوجاتا) ترکن۔ رکن یرکن (سمع) رکون مصدر۔ مضارع کا صیغہ واحد مذکر حاضر تو جھک جائے تو مائل ہوجائے۔ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے ولا ترکنوا الی الذین ظلموا (11:113) جن لوگوں نے (ہماری) نافرمانی کی ان کی طرف نہ جھکنا۔ رکن۔ جس سے طاقت حاصل کی جائے۔ عزت، قوت، غلبہ، بڑا معاملہ ، مضبوط پہلو۔ کہتے ہیں فلان رکن من ارکان قومہ وہ اپنی قوم کے شرفاء میں سے ہے ارکان الدولۃ۔ وزرائ۔ ارکان العبادات۔ عبادات کے وہ بنیادی مضبوط پہلو جو ان عبادات کی بنیاد ہوتے ہیں اور جن کے ترک سے وہ باطل ہوجاتی ہے۔ آیت کا ترجمہ :۔ اگر ہم نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو قریب تھا کہ ان کی طرف کچھ نہ کچھ جھک جاتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یا تو ان کی طرف تھوڑا سا جھک جاتا معلوم ہوا کہ آپ نے تھوڑا سا جھکنے کا ارادہ بھی نہ کیا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا نہ ہوتی تو عین ممکن تھا کہ آپ کے دل میں تھوڑا بہت جھکنے کا خیال تو آجاتا جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرمایا : اللھملا تکلنی الی نفسی طرفۃ عین اے اللہ مجھے ایک ملحہ کے لئے بھی میرے نفس کے سپرد نہ کیجیو۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

67:۔ اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو قریب تھا کہ آپ ذرا سا ان کی طرف جھک جاتے لیکن اگر بفرض محال آپ ذرا بھی ان کی طرف جھک جاتے تو ہم دنیا و آخرت میں آپ کو عذاب کا مزہ چکھاتے اور کوئی آپ کی مدد نہ کرسکتا۔ یہ امر ثانی ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بطور زجر خطاب ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

74 اور اگر ہم نے آپ کو ثابت قدم نہ بنایا ہوتا اور ہم کو آپ ثابت قدم نہ رکھتے تو آپ ان کی طرف کچھ تھوڑا سا مائل ہوجانے کے قریب ہوجاتے پیغمبر کی عصمت کا اظہار ہے اول تو رکن کے معنی ہی تھوڑا سا مائل ہونا ہے پھر اس میں شیئاً قلیلاً بڑھا کر یہ ظاہر کردیا کہ رسول قدم رہا اور ہم نے اس کو بچایا اور ادنیٰ میلان بھی نہ ہونے دیا اور آپ میں کوئی جھکائو اور ان کے خلاف شرع مطالبہ پر نہ ہو اور ان کی دوستی اور دوست بن جانے تک کا خیال تک نہ لائے۔ اللھم صل علی محمد و علی آل محمد