Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 90

سورة بنی اسراءیل

وَ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفۡجُرَ لَنَا مِنَ الۡاَرۡضِ یَنۡۢبُوۡعًا ﴿ۙ۹۰﴾

And they say, "We will not believe you until you break open for us from the ground a spring.

انہوں نے کہا کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان لانے کے نہیں تاوقتیکہ آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری نہ کر دیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Demand of Quraysh for a specific Sign, and the Rejection of that Allah tells: وَقَالُواْ لَن نُّوْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الاَرْضِ يَنبُوعًا أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الاَنْهَارَ خِللَهَا تَفْجِيرًا

قریش کے امراء کی آخری کوشش ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ربیعہ کے جو بیٹے عتبہ اور شیبہ اور ابو سفیان بن حرب اور بنی عبدالدار قبیلے کے دو شخص اور ابو البحتری بنی اسد کا اور اسود بن مطلب بن اسعد اور زمعہ بن اسود اور ولید بن مغیرہ اور ابو جہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ اور امیہ بن خلف اور عاص بن وائل اور نبیہ اور منبہ سہمی حجاج کے لڑکے ، یہ سب یا ان میں سے کچھ سورج کے غروب ہو جانے کے بعد کعبۃ اللہ کے پیچھے جمع ہوئے اور کہنے لگے بھئی کسی کو بھیج کر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو بلوا لو اور اس سے کہہ سن کر آج فیصلہ کر لو تاکہ کوئی عذر باقی نہ رہے چنانچہ قاصد گیا اور خبر دی کہ آپ کی قوم کے اشراف لوگ جمع ہوئے ہیں اور آپ کو یاد کیا ہے چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کا ہر وقت خیال رہتا تھا آپ کے جی میں آئی کہ بہت ممکن ہے اللہ نے انہیں صحیح سمجھ دے دی ہو اور یہ راہ راست پر آ جائیں اس لئے آپ فورا ہی تشریف لائے ۔ قریشیوں نے آپ کو دیکھتے ہی کہا سنئے آج ہم آپ پر حجت پوری کر دیتے ہیں تاکہ پھر ہم پر کسی قسم کا الزام نہ آئے اسی لئے ہم نے آپ کو بلوایا ہے واللہ کسی نے اپنی قوم کو اس مصیبت میں نہیں ڈالا ہو گا جو مصیبت تم نے ہم پر کھڑی کر رکھی ہے ، تم ہمارے باپ دادوں کو گالیاں دیتے ہو ہمارے دین کو برا کہتے ہو ہمارے بزرگوں کو بیوقوف بتاتے ہو ہمارے مبعودوں کو برا کہتے ہو تم نے ہم میں تفریق ڈال دی لڑائیاں کھڑی کر دیں واللہ آپ نے ہمیں کسی برائی کے پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ، اب صاف صاف سن لیجئے اور سوچ سمجھ کر جواب دیئجے اگر آپ کا ارادہ ان تمام باتوں سے مال جمع کرنے کا ہے تو ہم موجود ہیں ہم خود آپ کو اس قدر مال جمع کر دیتے ہیں کہ آپ کے برابر ہم میں سے کوئی مالدار نہ ہو اور اگر آپ کا ارادہ اس سے یہ ہے کہ آپ ہم پر سرداری کریں تو لو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں ہم آپ کی سرداری کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی تابعداری منظور کرتے ہیں ۔ اگر آپ بادشاہت کے طالب ہیں تو واللہ ہم آپ کی بادشاہت کا اعلان کر دیتے ہیں اور اگر واقعی آپ کے دماغ میں کوئی فتور ہے ، کوئی جن آپ کو ستا رہا ہے تو ہم موجود ہیں دل کھول کر رقمیں خرچ کر کے تمہارا علاج معالجہ کریں گے یہاں تک کہ آپ کو شفا ہو جائے یا ہم معذور سمجھ لئے جائیں ۔ یہ سب سن کر سردار رسولاں شفیع پیغمبراں صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ سنو بحمد اللہ مجھے کوئی دماغی عارضہ یا خلل یا آسیب نہیں نہ میں اپنی اس رسالت کی وجہ سے مالدار بننا چاہتا ہوں نہ کسی سرداری کی طمع ہے نہ بادشاہ بننا چاہتا ہوں بلکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تم سب کی طرف اپنا رسول برحق بنا کر بھیجا ہے اور مجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں خوشخبریاں سنا دوں اور ڈرا دھمکا دوں ۔ میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دئیے ، تمہاری سچی خیر خواہی کی ، تم اگر قبول کر لو گے تو دونوں جہان میں جہان نصیب دار بن جاؤ گے اور اگر نامنظور کر دو گے تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ جناب باری تعالیٰ شانہ مجھ میں اور تم میں سچا فیصلہ فرما دے ( او کماقال ) اب سرداران قوم نے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر آپ کو ہماری ان باتوں میں سے ایک بھی منظور نہیں تو اب اور سنو یہ تو خود تمہیں بھی معلوم ہے کہ ہم سے زیادہ تنگ شہر کسی اور کا نہیں ، ہم سے زیادہ کم مال کوئی قوم نہیں ، ہم سے پیٹ پیٹ کر بہت کم روزی حاصل کرنے والی بھی کوئی قوم نہیں تو آپ اپنے رب سے جس نے آپ کو اپنی رسالت دے کر بھیجا ہے دعا کیجئے کہ یہ پہاڑ یہاں سے ہٹا لے تاکہ ہمارا علاقہ کشادہ ہو جائے ، ہمارے شہروں کو وسعت ہو جائے ۔ اس میں نہریں چشمے اور دریا جاری ہو جائیں جیسے کہ شام اور عراق میں ہیں اور یہ بھی دعا کیجئے کہ ہمارے باپ دادا زندہ ہو جائیں اور ان میں قصی بن کلاب ضرور ہو وہ ہم میں ایک بزرگ اور سچا شخص تھا ہم اس سے پوچھ لیں گے وہ آپ کی بابت جو کہہ دے گا ہمیں اطمینان ہو جائے گا اگر آپ نے یہ کر دیا تو ہمیں آپ کی رسالت پر ایمان آ جائے گا اور ہم آپ کی دل سے تصدیق کرنے لگیں گے اور آپ کی بزرگی کے قائل ہو جائیں گے ۔ آپ نے فرمایا میں ان چیزوں کے ساتھ نہیں بھیجا گیا ۔ ان میں سے کوئی کام میرے بس کا نہیں ۔ میں تو اللہ کی باتیں تمہیں پہنچانے کے لئے آیا ہوں ۔ تم قبول کر لو ، دونوں جہان میں خوش رہو گے ۔ نہ قبول کرو گے تو میں صبر کروں گا ۔ اللہ کے حکم پر منتظر رہوں گا یہاں تک کہ پروردگار عالم مجھ میں اور تم میں فیصلہ فرما دے ۔ انہوں نے کہا اچھا یہ بھی نہ سہی لیجئے ہم خود آپ کے لئے ہی تجویز کرتے ہیں آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ کوئی فرشتہ آپ کے پاس بھیجے جو آپ کی باتوں کی سچائی اور تصدیق کر دے آپ کی طرف سے ہمیں جواب دے اور اس سے کہہ کر آپ اپنے لئے باغات اور خزانے اور سونے چاندی کے محل بنوا لیجئے تاکہ خود آپ کی حالت تو سنور جائے بازاروں میں چلنا پھرنا ہماری تلاش معاش میں نکلنا یہ تو چھوٹ جائے ۔ یہ اگر ہو جائے تو ہم مان لیں گے کہ واقعی اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کی عزت ہے اور آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ۔ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا نہ میں یہ کروں نہ اپنے رب سے یہ طلب کروں نہ اس کے ساتھ میں بھیجا گیا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے بشیر و نذیر بنایا ہے بس اور کچھ نہیں ۔ تم مان لو تو دونوں جہان میں اپنا بھلا کرو گے اور نہ مانو نہ سہی ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا پرودگار میرے اور تمہارے درمیان کیا فیصلہ چاہے نہ کرے ۔ مشرکین نے کہا سنئے کیا اللہ تعالیٰ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ تجھے پہلے سے مطلع کر دیتا اور یہ بھی بتا دیتا کہ تجھے کیا جواب دینا چاہئے اور جب ہم تیری نہ مانیں تو وہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا ۔ سنئے ہم نے تو سنا ہے کہ آپ کو یہ سب کچھ یمامہ کا ایک شخص رحمان نامی ہے وہ سکھا جاتا ہے اللہ کی قسم ہم تو رحمان پر ایمان لانے کے نہیں ۔ ناممکن ہے کہ ہم اسے مانیں ہم نے آپ سے سبکدوشی حاصل کر لی جو کچھ کہنا سننا تھا کہہ سن چکے اور آپ نے ہماری واجبی اور انصاف کی بات بھی نہیں مانی اب کان کھول کر ہوشیار ہو کر سن لیجئے کہ ہم آپ کو اس حالت میں آزاد نہیں رکھ سکتے اب یا تو ہم آپ کو ہلاک کر دیں گے یا آپ ہمیں تباہ کر دیں کوئی کہنے لگا ہم تو فرشتوں کو پوجتے ہیں جو اللہ کی بیٹیاں ہیں کسی نے کہا جب تک تو اللہ تعالیٰ کو اور اس کے فرشتوں کو کھلم کھلا ہمارے پاس نہ لائے ہم ایمان نہ لائیں گے ۔ پھر مجلس برخاست ہوئی ۔ عبداللہ بن ابی ، امیہ بن مغیرہ بن عبداللہ بن مخزوم جو آب کی پھوپھی حضرت عاتکہ بن عبدالمطلب کا لڑکا تھا آپ کے ساتھ ہو لیا اور کہنے لگا کہ یہ تو بڑی نامنصفی کی بات ہے کہ قوم نے جو کہا وہ بھی آپ نے منظور نہ کیا پھر جو طلب کیا وہ بھی آپ نے پورا نہ کیا پھر جس چیز سے آپ انہیں ڈراتے تھے وہ مانگا وہ بھی آپ نے یہ کیا اب تو اللہ کی قسم میں آپ پر ایمان لاؤں گا ہی نہیں جب تک کہ آپ سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ کر کوئی کتاب نہ لائیں اور چار فرشتے اپنے ساتھ اپنے گواہ بنا کر نہ لائیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام باتوں سے سخت رنجیدہ ہوئے ۔ گئے تو آپ بڑے شوق سے تھے کہ شاید قوم کے سردار میری کچھ مان لیں لیکن جب ان کی سرکشی اور ایمان سے دوری آپنے دیکھی بڑے ہی مغموم ہو کر واپس اپنے گھر آئے ، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ بات یہ ہے کہ ان کی یہ تمام باتیں بطور کفر و عناد اور بطور نیچا دکھانے اور لاجواب کرنے کے تھیں ورنہ اگر ایمان لانے کے لئے نیک نیتی سے یہ سوالات ہوتے تو بہت ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں یہ معجزے دکھا دیتاچنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا کہ اگر آپ کی چاہت ہو تو جو یہ مانگتے ہیں میں دکھا دوں لیکن یہ یاد رہے کہ اگر پھر بھی ایمان نہ لائے تو انہیں وہ عبرتناک سزائیں دوں گا جو کسی کو نہ دی ہوں ۔ اور اگر آپ چاہیں تو میں ان پر توبہ کی قبولیت کا اور رحمت کا دروازہ کھلا رکھوں آپ نے دوسری بات پسند فرمائی ۔ اللہ اپنے نبی رحمت اور نبی توبہ پر درود و سلام بہت بہت نازل فرمائے اسی بات اور اسی حکمت کا ذکر آیت ( وما منعنا ان نرسل بالایات ) الخ میں اور آیت ( وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًا Ċ۝ ) 25- الفرقان:7 ) میں بھڈ ہے کہ یہ سب چیزیں ہمارے بس میں ہیں اور یہ سب ممکن ہے لیکن اسی وجہ سے کہ ان کے ظاہر ہو جانے کے بعد ایمان نہ لانے والوں کو پھر ہم چھوڑا نہیں کرتے ۔ ہم ان نشانات کو روک رکھتے ہیں اور ان کفار کو ڈھیل دے رکھی ہے اور ان کا آخر ٹھکارنا جہنم بنا رکھاہے ۔ پس ان کا سوال تھا کہ ریگستان عرب میں نہریں چل پڑیں دریا ابل پڑیں وغیرہ ظاہر ہے کہ ان میں کوئی کام بھی اس قادر و قیوم اللہ پر بھاری نہیں سب کچھ اس کی قدرت تلے اور اس کے فرمان تلے ہے ۔ لیکن وہ بخوبی جانتا ہے کہ یہ ازلی کافر ان معجزوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لانے کے ۔ جیسے فرمان ہے ( اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 96۝ۙ ) 10- یونس:96 ) یعنی جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے انہیں باوجود تمام تر معجزات دیکھ لینے کے بھی ایمان نصیب نہ ہو گا یہاں تک کہ وہ المناک عذابوں کا معائنہ نہ کرلیں ۔ ولو اننا الخ میں فرمایا کہ اے نبی ان کی خواہش کے مطابق اگر ہم ان پر فرشتے بھی نازل فرمائیں اور مردے بھی ان سے باتیں کرلیں اور اتنا ہی نہیں بلکہ غیب کی تمام چیز کھلم کھلا ان کے سامنے ظاہر کر دیں تو بھی یہ کافر بغیر مشیت الہٰی ایمان لانے کے نہیں ان میں سے اکثر جہالت کے پتلے ہیں ۔ اپنے لئیے دریا طلب کرنے کے بعد انہوں نے کہا اچھا آپ ہی کے لئے باغات اور نہریں ہو جائیں ۔ پھر کہا کہ اچھا یہ بھی نہ سہی تو آپ کہتے ہی ہیں کہ قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا ، ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا تو اب آج ہی ہم پر اس کے ٹکڑے گرا دیئجے چنانچہ انہوں نے خود بھی اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کی اے اللہ اگر یہ سب کچھ تیری جانب سے ہی برحق ہم پر آسمان سے پتھر برسا ۔ الخ ۔ شعیب علیہ السلام کی قوم نے بھی یہی خواہش کی تھی جس بنا پر ان پر سائبان کے دن کا عذاب اترا ۔ لیکن چونکہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ العالمین اور نبی التوبۃ تھے آپ نے اللہ سے دعا کی کہ وہ انہیں ہلاکت سے بچا لے ممکن ہے یہ نہیں تو ان کی اولادیں ہی ایمان قبول کرلیں ، توحید اختیار کرلیں اور شرک چھوڑ دیں ۔ آپ کی یہ آرزو پوری ہوئی ، عذاب نہ اترا ۔ خود ان میں سے بھی بہت سوں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی یہاں تک کہ عبداللہ بن امیہ جس نے آخر میں حضرت کے ساتھ جا کر آپ کو باتیں سنائی تھیں اور ایمان نہ لانے کی قسمیں کھائیں تھیں وہ بھی اسلام کے جھنڈے تلے آئے رضی اللہ عنہ زخرف سے مراد سونا ہے بلکہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت میں لفظ من ذہب ہے ۔ کفار کا اور مطالبہ یہ تھا کہ تیرے لئے سونے کا گھر ہو جائے یا ہمارے دیکھتے ہوئے تو سیڑھی لگا کر آسمان پر پہنچ جائے اور وہاں سے کوئی کتاب لائے جو ہر ایک کے نام کی الگ الگ ہو راتوں رات ان کے سرہانے وہ پرچے پہنچ جائیں ان پر ان کے نام لکھے ہوئے ہوں اس کے جواب میں حکم ہوا کہ ان سے کہہ دو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے آگے کسی کی کچھ نہیں چلتی وہ اپنی سلطنت اور مملکت کا تنہا مالک ہے جو چاہے کرے جو نہ چاہے نہ کرے تمہاری منہ مانگی چیز ظاہر کرے نہ کرے یہ اس کے اختیار کی بات ہے میں تو صرف پیغام رب پہنچانے والا ہوں میں نے اپنا فرض ادا کر دیا احکام الہٰی تمہیں پہنچا دئیے اب جو تم نے مانگا وہ اللہ کی بس کی بات ہے نہ کہ میرے بس کی ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بطحا مکہ کی بابت مجھ سے فرمایا گیا کہ اگر تم چاہو تو میں اسے سونے کا بنا دوں میں نے گزارش کی کہ نہیں اے اللہ میری تو یہ چاہت ہے کہ ایک روز پیٹ بھرا رہوں اور دوسرے روز بھوکا رہوں میں تیری طرف جھکوں ، تضرع اور زاری کروں اور بکثرت تیری یاد کروں ۔ بھرے پیٹ ہو جاؤں تو تیری حمد کروں ، تیرا شکر بجا لاؤں ۔ ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف کہا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

90۔ 1 ایمان لانے کے لئے قریش مکہ نے یہ مطالبات پیش کئے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا ۔۔ : ” يَنْۢبُوْعًا “ ” نَبَعَ یَنْبِعُ “ (ض، ن، ع) پھوٹ نکلنا، بروزن ” یَفْعُوْلٌ“ یاء مبالغہ کے لیے بڑھائی گئی ہے، وہ چشمہ جو ہمیشہ جاری رہے۔ ” اَلْاَرْضِ “ میں الف لام عہد کا ہے، یعنی اس مکہ کی سنگلاخ زمین سے جہاں پانی کا نشان نہیں۔ ” ینبوعا “ کے مطالبے کا مقصد یہ ہے کہ انھیں صرف اتنا پانی کافی نہیں جو ان کی ضرورت پوری کرے، بلکہ بہت بڑا اور ہمیشہ جاری رہنے والا چشمہ جاری ہونا چاہیے۔ کفار جب قرآن کے معجزے کا جواب نہ دے سکے تو انھوں نے اپنے ایمان لانے کے لیے مزید معجزوں کا مطالبہ داغ دیا، جیسا کہ لاجواب ہونے والے لوگ کیا کرتے ہیں۔ ان تمام مطالبات کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کہنے کا حکم دیا وہ آگے آ رہا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary A prophetic answer to hostile questions sounding absurd The questions asked and the demands made in these verses from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) were virtually conditions on the fulfillment of which his antagonists were supposed to believe. These conditions are such that anyone who hears them would find them nothing but some sort of weird mockery and certainly a very absurd excuse for not believing. While hav¬ing to respond to such questions, one becomes naturally angry and retorts in the same manner. But, the answer that Allah Ta’ ala taught His prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to give against their impertinent questions reported in this verse is something significant for everyone. Particularly so, for the leaders and reformers of the Muslim community who would do well to always remember it making it a regular feature of their work among peo¬ple. Is it not that, in answer to all that, nothing was said about their lack of sense, nor mention was made of their hostile mischief, nor there was any verbal duel fought against them? Instead, the truth of the matter was made clear to them in very simple words. In effect, they were told: Perhaps, you think that a person who comes as a messenger of Allah should also be the possessor of all Divine powers and should be able to control everything. This is a mistaken notion. The duty of a Mes¬senger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is only to convey the Divine message. It is a different matter that Allah would also send many miracles to prove the veracity of the mission of His apostles, prophets and messengers. But, that takes place exclusively with the power and under the control of Allah Ta’ ala. A rasul (messenger) is not given Divine powers. He is a human being and is never outside the framework of human power - except that Allah Ta` ala alone were to manifest His great subduing power to help him.

خلاصہ تفسیر : سابقہ آیات میں کفار کے چند سوالات اور ان کے جوابات ذکر کئے گئے ہیں مذکور الصدر آیات میں ان کے چند معاندانہ سوالات اور بےسروپا فرمائشوں کا ذکر اور ان کا جواب ہے (اخرجہ ابن جریر عن ابن عباس) اور یہ لوگ (باوجود اس کے کہ اعجاز قرآنی کے ذریعے آپ کی نبوت و رسالت کا کافی اور واضح ثبوت ان کو مل چکا پھر بھی از راہ عناد ایمان نہیں لاتے اور یہ بہانے کرتے ہیں کہ) کہتے ہیں کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان نہ لاویں گے جب تک آپ ہمارے لئے (مکہ کی) زمین سے کوئی چشمہ جاری نہ کردیں یا خاص آپ کے لئے کھجور اور انگور کا کوئی باغ نہ ہو پھر اس باغ کے بیچ بیچ میں جگہ جگہ بہت سی نہریں آپ جاری کردیں یا جیسا آپ کہا کرتے ہیں آپ آسمان کے ٹکڑے ہم پر نہ گراویں (جیسا کہ اس آیت قرآن میں ارشاد ہے (آیت) اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ (یعنی ہم چاہیں تو ان کو زمین کے اندر دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں) یا آپ اللہ کو اور فرشتوں کو (ہمارے) سامنے نہ لاکھڑا کردیں (کہ ہم کھلم کھلا دیکھ لیں) یا آپ کے پاس کوئی سونے کا بنا ہوا گھر نہ ہو یا آپ آسمان پر (ہمارے سامنے) نہ چڑھ جاویں اور ہم تو آپ کے (آسمان پر) چڑھنے کا کبھی بھی یقین نہ کریں گے جب تک کہ (وہاں سے) آپ ہمارے پاس ایک کتاب نہ لاویں جس کو ہم پڑھ بھی لیں (اور اس میں آپ کے آسمان پر پہنچنے کی تصدیق بطور رسید لکھی ہوئی ہو) آپ (ان سب خرافات کے جواب میں) فرما دیجئے کہ سبحان اللہ میں بجز اس کے کہ آدمی ہوں (مگر) پیغمبر ہوں اور کیا ہوں (کہ ان فرمائشوں کو پورا کرنا میری قدرت میں ہو یہ قدرت مطلقہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے بشریت اپنی ذات میں خود عجز و بےاختیاری کو مقتضی ہے رہا رسالت کا معاملہ تو وہ بھی اس کو متقضی نہیں ہے کہ اللہ کے رسول کو ہر چیز کا مکمل اختیار ہو بلکہ نبوت و رسالت کے لئے تو اتنی بات کافی ہے کہ رسالت کی کوئی صاف واضح دلیل آ جاوے جس پر اہل عقل کو اعتراض نہ ہو سکے اور وہ دلیل اعجاز قرآنی اور دوسرے معجزات کی صورت میں بارہا پیش کی جا چکی ہے اس لئے نبوت و رسالت کے لئے ان فرمائشوں کا مطالبہ کا حق نہیں جس چیز کو وہ حکمت کے مطابق دیکھتے ہیں ظاہر بھی کردیتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ تمہاری سب فرمائشیں پوری کریں اور جس وقت ان لوگوں کے پاس ہدایت (یعنی رسالت کی صحیح دلیل مثل اعجاز قرآن کے) پہنچ چکی اس وقت ان کو ایمان لانے سے بجز اس کے اور کوئی (قابل التفات) بات مانع نہیں ہوئی کہ انہوں نے (بشریت کو رسالت کے منافی سمجھا اس لئے کہا) کیا اللہ تعالیٰ نے بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے (یعنی ایسا نہیں ہو سکتا) آپ (جواب میں ہماری طرف سے) فرما دیجئے کہ اگر زمین پر فرشتے (رہتے) ہوتے کہ اس پر چلتے بستے تو ہم البتہ ان پر آسمان سے فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجتے۔ معارف و مسائل : بے سروپا معاندانہ سوالات کا پیغمبرانہ جواب : آیات مذکورہ میں جو سوالات اور فرمائشیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے ایمان لانے کی شرط قرار دے کر کی گئیں وہ سب ایسی ہیں کہ ہر انسان ان کو سن کر ایک قسم کا تمسخر اور ایمان نہ لانے کا بیہودہ بہانے کے سوا کچھ نہیں سمجھ سکتا ایسے سوالات کے جواب میں انسان کو فطرۃ غصہ آتا ہے اور جواب بھی اسی انداز کا دیتا ہے مگر ان آیات میں ان کے بیہودہ سوالات کا جو جواب حق تعالیٰ نے اپنے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین فرمایا وہ قابل نظر اور مصلحین امت کے لئے ہمیشہ یاد رکھنے اور لائحہ عمل بنانے کی چیز ہے کہ ان سب کے جواب میں نہ ان کی بےوقوفی کا اظہار کیا گیا نہ ان کی معاندانہ شرارت کا نہ ان پر کوئی فقرہ کسا گیا بلکہ نہایت سادہ الفاظ میں اصل حقیقت کو واضح کردیا گیا کہ تم لوگ شاید یہ سمجھتے ہو کہ جو شخص خدا کا رسول ہو کر آئے اسے سارے خدائی اختیارات کا مالک اور ہر چیز پر قادر ہونا چاہئے یہ تخیل غلط ہے رسول کا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا ہے اللہ تعالیٰ ان کی رسالت کو ثابت کرنے کے لئے بہت سے معجزات بھی بھیجتے ہیں مگر وہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کی قدرت و اختیار سے ہوتا ہے رسول کو خدائی کے اختیارات نہیں ملتے وہ ایک انسان ہوتا ہے اور انسان قوت وقدرت سے باہر نہیں ہوتا بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کی امداد کے لئے اپنی قوت قاہرہ کو ظاہر فرما دیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا 90۝ۙ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ فجر الْفَجْرُ : شقّ الشیء شقّا واسعا كَفَجَرَ الإنسان السّكرَيقال : فَجَرْتُهُ فَانْفَجَرَ وفَجَّرْتُهُ فَتَفَجَّرَ. قال تعالی: وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، فَتُفَجِّرَ الْأَنْهارَ [ الإسراء/ 91] ، تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء/ 90] ، وقرئ تفجر . وقال : فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة/ 60] ، ومنه قيل للصّبح : فَجْرٌ ، لکونه فجر اللیل . قال تعالی: وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر/ 1- 2] ، إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء/ 78] ، وقیل : الفَجْرُ فجران : الکاذب، وهو كذَنَبِ السَّرْحان، والصّادق، وبه يتعلّق حکم الصّوم والصّلاة، قال : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة/ 187] . ( ف ج ر ) الفجر کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھا ڑ نے اور شق کردینے کے ہیں جیسے محاورہ ہے فجر الانسان السکری اس نے بند میں وسیع شکاف ڈال دیا فجرتہ فانفجرتہ فتفجر شدت کے ساتھ پانی کو پھاڑ کر بہایا قرآن میں ہے : ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی اور اس کے بیچ میں نہریں بہا نکالو ۔ تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء/ 90] جب تک کہ ہمارے لئے زمین میں سے چشمے جاری ( نہ) کردو ۔ اور ایک قرآت میں تفجر ( بصیغہ تفعیل ) ہے ۔ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة/ 60] تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ اور اسی سے صبح کو فجر کہا جاتا ہے کیونکہ صبح کی روشنی بھی رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر/ 1- 2] فجر کی قسم اور دس راتوں کی ۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء/ 78] کیونکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنا موجب حضور ( ملائکہ ) ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فجر دو قسم پر ہے ایک فجر کا ذب جو بھیڑیئے کی دم کی طرح ( سیدھی روشنی سی نمودار ہوتی ہے دوم فجر صادق جس کے ساتھ نماز روزہ وغیرہ احکام تعلق رکھتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة/ 187] یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی ) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ ( رکھ کر ) رات تک پورا کرو أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ نبع النَّبْعُ : خروج الماء من العین . يقال : نَبَعَ الماءُ يَنْبَعُ نُبُوعاً ونَبْعاً ، واليَنْبُوعُ : العینُ الذي يَخْرُجُ منه الماءُ ، وجمعه : يَنَابِيعُ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَسَلَكَهُ يَنابِيعَ فِي الْأَرْضِ [ الزمر/ 21] والنَّبْعُ : شجر يُتَّخَذُ منه القِسِيُّ. ( ن ب ع ) النبع کے معنی چشمہ سے پانی پھوٹنے کے ہیں اور یہ نبع الماء ینبع ( ن ) نبوعا ونبعا کا مصدر ہے اور الینبوع اس چشمہ کو کہتے ہیں جس سے پانی اہل رہا ہو اس کی جمع بنا تیع آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَسَلَكَهُ يَنابِيعَ فِي الْأَرْضِ [ الزمر/ 21] کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا آسمان سے پانی نازل کرتا ہے پھر اس کو زمین میں چشمے بنا کر جاری کرتا ہے النبع ایک قسم کا در خت جسکی کمانیں بنتی ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٠) اور عبداللہ بن امیہ مخزومی اور اس کے ساتھی یوں کہتے ہیں کہ ہم آپ کی ہر گزتصدیق نہیں کریں گے جب تک کہ آپ ہمارے لیے سرزمین مکہ میں چشمے اور نہریں نہ جاری کردیں۔ شان نزول : (آیت ) ”۔ وقالوا لن نؤمن لک “۔ (الخ) ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بواسطہ ابن اسحاق شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عکرمہ (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ عتبہ، شیبہ، ابوسفیان اور عبدالدار کا ایک شخص اور ابوالبختری، اسود بن مطلب، ربیعۃ بن اسود، ولید بن مغیرہ، ابوجہل عبداللہ بن امیہ، امیہ بن خلف، عاص بن وائل، منبیہ بن حجاج منبہ بن الحجاج، ان سب نے باہم جمع ہو کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ اپنی قوم میں جو بات لے کر آئے ہیں، ہمارے علم میں عرب میں سے کوئی بھی ایسی بات لے نہیں آیا، تم نے آباؤ اجداد کو برا کہا دین کو عیب لگایا اور نوعمروں کو بیوقوف بنایا، بتوں کو گالیاں دیں اور جماعت میں تفرقہ ڈالا، سو کوئی برائی ایسی نہیں ہے جو تم نے ہمارے اور اپنے درمیان نہ کی ہو، اگر تم یہ باتیں مال حاصل کرنے کے لیے کرتے ہو تو ہم اپنے مال تمہارے لیے جمع کردیتے ہیں تاکہ تم سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤ، اور اگر تم ہمارے اندر عزت اور شرافت چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنادیتے ہیں اور اگر تمہارے پاس یہ لانے والا جو کچھ لے کر آتا ہے کوئی جن ہے کہ جس کا تم پر غلبہ ہوگیا تو ہم آپ کا علاج کرانے اور اس سے آپ کو چھٹکارا دلانے کے لیے اپنے اموال خرچ کرتے ہیں یہ سن کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کچھ تم کہہ رہے ہو ان میں سے میرے اندر کوئی بھی بات نہیں، اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور میرے اور میرے اوپر کتاب نازل کی ہے اور مجھے اس بات کا حکم دیا ہے کہ میں تمہیں خوشخبری سناؤں اور ڈراؤں یہ سن کر یہ لوگ بولے کہ اگر آپ ہماری پیشکش کو نہیں قبول کرتے تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ تمام شہروں میں ہمارے شہر سے زیادہ تنگ اور کوئی شہر نہیں اور نہ ہم سے کم مال والا اور تنگ معیشت والا اور کوئی ہے تو آپ ہمارے لیے اپنے اس پروردگار سے دعا کیجیے کہ جس نے آپ کو بھیجا ہے کہ وہ ہم سے ان پہاڑوں کو چلا کر دور کر دے جن سے ہم پر تنگی ہورہی ہے اور ہمارے لیے ہمارے شہروں کو کشادہ کر دے۔ اور اس میں شام اور عراق کی طرح نہریں جاری کر دے اور ہمارے جو آباؤ اجداد مرچکے ہیں، ان کو ہمارے لیے زندہ کر دے اور اگر تم ایسا نہیں کرسکتے تو اپنی باتوں کی تصدیق کرانے کے لیے اپنے پروردگار سے ایک فرشتہ کی درخواست کراؤ جو آکر تمہاری تصدیق کرے اور ہمارے باغات اور خزانے اور سونے چاندی کے محلات تعمیر کر دے تاکہ جس چیز کی تلاش میں ہم آپ کو دیکھیں اس پر آپ کی مدد کرسکیں کیوں کہ ہم آپ کو بازاروں میں کھڑا ہوا اور روزی کی تلاش کرتا ہوا دیکھتے ہیں اور اگر آپ ایسا کرسکتا ہے کیوں کہ ہم تو جب کہ آپ ان باتوں میں سے کوئی بات نہ پوری کریں ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے یہ سن کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کے درمیان سے اٹھ کھڑے ہوئے تو آپ کے ساتھ عبداللہ بن ابی امیہ بھی کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی قوم نے آپ کے سامنے کئی باتیں رکھیں، مگر آپ نے ان میں سے ایک بھی قبول نہیں کی پھر انہوں نے اپنی ذات کے لیے کچھ باتوں کی درخواست کی تاکہ ان کے ذریعے سے آپ کا اللہ تعالیٰ کے یہاں جو مقام سے اس کو پہچان لیں اگر آپ نے ایسا بھی نہیں کیا پھر جس عذاب سے آپ ان کو ڈراتے ہیں، اس عذاب کے جلدی نازل ہونے کی انہوں نے درخواست کی، اللہ تعالیٰ کی قسم میں تو ہرگز آپ پر ایمان نہیں لاؤں گا جب تک کہ آپ آسمان پر چڑھنے کے لیے ایک سیڑھی نہ بنائیں پھر آپ اس پر چڑھیں اور میں آپ کو خود دیکھوں اور جب آپ وہاں سے آئیں اور آپ کے ساتھ ایک تحریر ہو اور مزید یہ کہ آپ کے ساتھ چار فرشتے ہوں جو آپ کے دعوے کی گواہی دیں کہ آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں۔ یہ سن کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے غمگین ہو کر چل دیئے چناچہ اللہ تعالیٰ نے جو عبداللہ بن ابی امیہ نے آپ سے کہا تھا، اسی کے قول کو براہ تردید آپ نازل کردیا اور سعید بن منصور رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی سنن میں (آیت) ” وقالوا لن نؤمن لک “۔ کی تفسیر میں حضرت سعید بن جبیر کا قول روایت کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ عبداللہ بن ابی امیہ کے بارے نازل ہوئی ہے، امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ مرسل صحیح اور اس سے پہلے والی روایت کے لیے شاہد ہے اس کی سند میں جو ابہام ہے اس کا اس مرسل سے انجبار ہوگیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا) مشرکین مکہ کی طرف سے اس طرح کے مطالبات بار بار کیے جاتے تھے کہ جب تک آپ ہمیں کوئی معجزہ نہیں دکھائیں گے ہم آپ کو رسول نہیں مانیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٠۔ ٩٣:۔ تفسیر ابن جریر میں کئی سند سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت سے اور سنن سعید بن منصور میں سعید بن جبیر سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک روز ابوجہل اور چند قریش نے جمع ہو کر آنحضرت سے کہا سردار تم کو بنانے کو موجود ہیں اور اگر خلل دماغ کے سبب سے ایسی باتیں کرتے ہو تو اس کا علاج بھی ہوسکتا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا کہ ان باتوں میں سے ایک بات بھی نہیں ہے بات فقط اتنی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں تم لوگوں کو اللہ کا حکم سناتا ہوں اگر تم مانو گے تو تمہارے لیے اچھا ہے ورنہ تم جانو یہ سن کر انہوں نے ضد سے کہا اچھا اگر تم سچے رسول ہو تو اس مکہ کی سرزمین پر باغ لگا دو نہریں جاری کرا دو یا اپنا گھر سونے کا بنالو ہمارے سامنے آسمان پر چڑھ جاؤ یا اللہ اور فرشتے ہمارے روبرو آن کر تمہارے رسول ہونے کی گواہی دیویں یا اللہ کی طرف سے کوئی ٹکڑا عذاب کے طور پر گرا دو ۔ ان باتوں پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ١ ؎۔ یہ سعید بن منصور ٢٠٠ ء اور شروع ٣٠٠ کے علماء میں مشہور ثقہ عالم ہیں یہ امام مالک (رح) کے شاگرد اور امام احمد بن حنبل (رح) کے استاد ہیں جب ان کا ذکر آتا تھا تو امام احمد (رح) ان کی بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ امام مسلم اور ابوداؤد نے بھی ان سے حدیث کی روایتیں لی ہیں غرض ان کے زمانہ کے علماء نے ان کو ثقہ اور ان کی تصنیف کی کتابوں کو معتبر ٹھہرایا ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ معجزہ کا ظاہر کرنا اللہ کے اختیار میں ہے رسول کا اس میں کچھ اختیار نہیں ہے اور اللہ کی درگاہ میں ہر کام کا وقت مقرر ہے۔ چناچہ ویسا ہی ہوا اللہ کی طرف سے جب وقت مقررہ آگیا تو سب ضد جاتی فرشتوں کے رسول بن کر آنے کی ضرورت پڑی نہ کسی اور معجزہ کی ضرورت پڑی غرض یہ اللہ کے بھید اللہ ہی جانتا ہے۔ جس وقت قریش نے آنحضرت سے یہ ضد کی باتیں کیں اس وقت اللہ کے علم غیب میں یہ بھید تھا کہ اس جماعت میں سے تھوڑے آدمی تو کچھ دنوں کے بعد بغیر کسی معجزہ کے خود بخود مسلمان ہونے والے ہیں ان کو معجزہ کی ضرورت نہیں اسی بھید سے اللہ تعالیٰ نے اس وقت کی ان لوگوں کی ضد پر کوئی معجزہ ظاہر نہیں فرمایا بلکہ اتنے جواب پر ان لوگوں کی ضد کو ٹال دیا کہ معجزہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ اگر اس وقت ان لوگوں کی ضد پر کوئی معجزہ ظاہر ہوجاتا تو وقت مقرہ سے پہلے ان میں کسی کا اسلام لانا تو ممکن نہیں تھا اسی طرح ان میں سے جن لوگوں کا حالت کفر پر مرنا اللہ کے علم غیب میں ٹھہر چکا تھا وہ ہزاروں معجزے دیکھ کر بھی اسی کفر پر مرنے تھے پھر جب ان میں سے کوئی شخص بھی معجزہ کو دیکھ کر ایمان نہ لاتا تو اسی روز عذاب آن کر سارا مکہ غارت ہوجاتا کیونکہ یہ عادت الٰہی ہے کہ ثمود کی اونٹنی کی طرح اس طرح کی ضد کے بعد کوئی معجزہ ظاہر ہو اور پھر وہ قوم ایمان نہ لائے تو فورا وہ سب قوم غارت ہوجاتی ہے او تاتی باللہ والملائکۃ قبیلا کی تفسیر ابن جریج نے یہ بیان کی ہے کہ اللہ اور فرشتے تمہارے رسول ہونے کی ضمانت دیویں۔ ترجمہ میں شاہ صاحب نے یہی قول لیا ہے لیکن اس آیت کی تفسیر میں مجاہد کا قول وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ اللہ اور فرشتے ہمارے روبرو آن کر تمہارے رسول ہونے کی گواہی دیویں۔ اس تفسیر میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے شاگردوں میں مجاہد کے قول کا بڑا اعتبار ہے اس لیے حافظ ابو جعفر ابن جریر (رح) نے اپنی تفسیر میں مجاہد کے قول کو ابن جریج کے قول پر ترجیح دی ہے اور باقی کے دونوں ترجموں میں اس لیے یہی قول لیا گیا ہے۔ اس واسطے اس تفسیر میں وہی قول لیا گیا کیونکہ یہ عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج اگرچہ مجاہد کے شاگردوں میں ہیں ‘ لیکن ان کو مجاہد سے تفسیر کی روایتوں کے لینے کا زیادہ موقع نہیں ملا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے ٢ ؎۔ کہ اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو راہ راست پر آنے کے لیے مہلت دیتا ہے اور مہلت کے زمانہ میں جب وہ لوگ راہ راست پر نہیں آتے تو کسی سخت عذاب میں پکڑ کر ان کو ہلاک کردیتا ہے۔ اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اہل مکہ نے ایسی سرکشی اور نافرمانی کی بہت سی باتیں کیں جیسی باتوں کا ذکر ان آیتوں میں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت کے موافق تیرہ چودہ برس ان لوگوں کو مہلت دی اور اس مہلت کے زمانہ میں تیرہ برس تک ان کو طرح طرح سے سمجھایا گیا۔ جب یہ لوگ اپنی سرکشی اور نافرمانی سے باز نہ آئے تو بدر کی لڑائی کے وقت ان پر یہ آفت آئی کہ ان کے بڑے بڑے سرکش دنیا میں بڑی ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتلانے کے لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدے کو سچا پایا۔ چناچہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت کے حوالہ سے یہ قصہ کئی جگہ گزر چکا ہے ٣ ؎۔ بعد اس کے مکہ کی گلی گلی میں اسلام پھیل گیا اور ان سرکشی کی باتوں کا کہیں نشان تک مکہ میں باقی نہ رہا۔ ١ ؎ مثلا تفسیر ہذاص ٥٣ ج ٣۔ ٢ ؎ مثلا تفسیر ہذاص ٥٣ ج ٣۔ ٣ ؎ مثلا تفسیر ہذاص ٢٣ ج ٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:90) تفجر۔ تو پھاڑ ڈالے۔ تو بہا لائے الفجر کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھاڑنے اور شق کرنے کے ہیں۔ مضارع واحد مذکر حاضر (باب نصر) ۔ صبح کو فجر اس واسطے کہا جاتا ہے کہ صبح کی روشنی بھی رات کی تار کی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے اسی سے الفجور۔ دین کی پردہ دری کرنا اور فاجر دین کی پردہ دری کرنے والا ہو۔ تفجر۔ منصوب بوجہ ان مقدرہ کے جو حتی کے بعد ہے ای حتی ان تفجر۔ ینبوعا۔ اسم مفرد ینابیع۔ جمع چشمہ۔ النبع کے معنی چشمہ سے پانی پھوٹنے کے ہیں۔ یہ نبع ینبع (نصر) کا مصدر ہے ینبوع اس چشمہ کو کہتے ہیں جس سے پانی ابل رہا ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 90 تا 93 تفجر تو بہا دے۔ جاری کردے۔ ینبوع چشمہ۔ نخیل کھجور کا درخت۔ عنب انگور۔ تسقط تو گراتا ہے۔ زعمت تو نے گمان کیا۔ کسف ٹکڑے ٹکڑے۔ قبیل سامنے۔ بیت گھر۔ زخرف سونا، سنہرا۔ ترقی تو چڑہ گیا۔ رقی چڑھنا۔ نقروہ جس کو ہم پڑھیں گے۔ بشر انسان۔ تشریح : آیت نمبر 90 تا 93 اللہ تعالیٰ نے کفار کے بےجا مطالبات اور معجزات کی فرمائش پر ہمیشہ یہ فرمایا ہے کہ اللہ کی طاقتور قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے وہ چاہے تو ان کفار کی ہر فرمائش کو پورا کر دے لیکن یہ باتیں اللہ کی مصلحت کے خلاف ہیں۔ ان آیات میں بھی کفار و مشرکین کی ان ہی باتوں کو نقل کیا گیا ہے۔ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہتے تھے کہ اے محمد ! ہم آپ کو اس وقت تک نبی ماننے کے لئے تیار نہیں ہے جب تک آپ (1) ہمارے سامنے زمین کو پھاڑ کر اس میں سے ابلتے پانی کا چشمہ جاری نہ کردیں (2) یا آپ کے لئے کھجوروں اور انگوروں کا ایک ایسا باغ ہو جس میں آپ پانی بہا دیں۔ (3) کبھی کہتے کہ جو کچھ تم کہتے ہو اس کے مطابق آسمان کا کوئی ٹکڑا ہی ہم پر گرا دو ۔ (4) ان کا مطالبہ ہوتا کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کر کھڑا کر دو ۔ (5) تم آسمان پر چڑھ جاؤ اور وہاں سے کوئی ایسی کتاب لکھی ہوئی لے آؤ جسے ہم پڑھ سکیں۔ جب ایک تسلسل کے ساتھ کفار مکہ یہ باتیں کہتے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رنجیدہ ہوجاتے اور وحی کا انتظار فرماتے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ! آپ ان سے کہہ دیجیے کہ جس طرح تمام نبی اللہ کے بندے اور بشر تھے ایسے ہی میں بھی ہوں کسی بشر کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے جب چاہے معجزات دکھا دے۔ نہ یہ اس کی شان ہوتی ہے کہ وہ اپنے پروردگار سے لوگوں کی ان بچگانہ فرمائشوں کی درخواست کرے۔ انبیاء کرام دنیا میں اس لئے بھیجے جاتے ہیں کہ اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچا کر ان کی اصلاح کردیں اور جس راستہ سے وہ بھٹک گئے ہیں ان کو صراط مستقیم پر چلا دیں۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے واضح الفاظ میں کہہ دیجیے کہ میں ایک بشر ہوں اور اللہ کے حکم سے اپنا فرض رسالت ادا کرتا رہوں گا۔ معجزات دکھانا یا نہ دکھانا یہ اللہ کی حکمت و مصلحت ہے اس میں میرا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ رسول کا کام صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ ہو اس دنیا میں آئے اور اللہ کا پیغام سنا کر واپس چلا جائے بلکہ پیغمبر کا کام ہے کہ پیغام الٰہی کے مطابق انسانی زندگی کی اصلاح کرے۔ وہ خود اپنی زندگی کو ایک مثال اور نمونہ بنا کر پیش کرے تاکہ اس کے مخاطب اور آنے اولی نسلیں اس سے فائدہ حاصل کرسکیں اور اس کے مطابق عمل کرسکیں۔ اگر اللہ کے کلام کے ساتھ کسی نبی کی ضرورت نہ ہوتی تو اس کے لئے فرشتے ہی کافی تھے جو اس دنیا میں آتے اور نہایت دیانتداری سے اللہ کا پیغام پہنچا کر چلے جاتے۔ اس کے برخلاف چونکہ نبی بشر ہوتے ہیں اس لئے ان پر ایسی کیفیات طاری کی جاتی ہیں جو ان کی امت کے لئے نمونہ عمل بن جاتی ہیں۔ یہ کام فرشتے کرتے تو بات صرف پیغام پہنچانے کی حد تک رہتی ان کی زندگی پر نہ بشری کیفیات آتیں اور نہ ان کی زندگی انسانوں کے لئے کوئی اسوہ یا نمونہ بنتی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کے بار بار کے چیلنج کے باوجود کفار اس کا جواب نہ دے سکے۔ مگر اس کے باوجود رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مزید مطالبات کرتے رہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم جدوجہد اور قرآن مجید کے ٹھوس دلائل کی تاب نہ لانے کا نتیجہ تھا کہ کفار اپنی کسی بات پر قائم نہیں رہتے تھے۔ ہر بار پہلے سے بڑھ کر مطالبہ کرتے۔ جب اس کا مثبت اور موثر جواب دیا جاتا تو ہلکان ہونے کی کیفیت میں کوئی اور مطالبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔ جب تک ہمارے یہ مطالبات پورے نہیں ہوتے۔ ١۔ زمین سے ہمارے لیے چشمے جاری کیے جائیں۔ ٢۔ آپ کے لیے کجھوروں اور انگوروں کے ایسے باغ ہوں۔ جن کے درمیان نہریں جاری ہوں۔ ٣۔ ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرا دے۔ ٤۔ ملائکہ اور اللہ تعالیٰ کو ہمارے سامنے لایاجائے۔ ٥۔ آپ کے لیے سونے کا گھر ہونا چاہیے۔ ٦۔ آپ کے آسمان پر چڑھ جانے کے باوجود ہم ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ آپ لکھی ہوئی کتاب لائیں جس کو ہم خود پڑھ سکیں۔ غور فرمائیں یہ کس قدر متضاد اور بےہودہ مطالبات ہیں۔ جن کا جواب دینے کی بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فقط یہی کہنے کا حکم ہوا ہے۔ آپ انہیں فرمائیں میرا رب ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہے۔ نہ میں نے ان باتوں کا دعوی کیا ہے اور نہ ہی تمہارے مطالبات میرے منصب کے مطابق ہیں۔ میں تو اپنے رب کا پیغام پہنچانے والا ہوں وہ تم تک پہنچا رہا ہوں۔ ” سُبْحَانَ رَبِّی “ کے الفاظ سے یہ واضح کیا گیا ہے۔ اے کفار ! تمہارے مطالبات پورے کرنا میرے رب کے لیے کوئی مشکل بات نہیں۔ کیونکہ وہ خالق کل اور قادر مطلق ہونے کی بناء پر یہ مطالبات کیا ان سے بڑے مطالبات تمہاری آنکھ جھپکنے سے پہلے پورے کرسکتا ہے۔ تم مطالبہ کرتے ہو تمہارے لیے چشمے جاری ہوں، غور کرو کیا اس نے پہاڑوں میں چشمے جاری نہیں کر رکھے ؟ کیا اس نے کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا فرماکر ان میں چشمے جاری نہیں کیے ؟ جس سے تم ان باغوں کو سیراب کرتے ہو۔ تم اپنے اوپر آسمان کا ٹکڑا گرانے کا مطالبہ کرتے ہو۔ کیا اس نے قوم لوط پر آسمان سے پتھر برساکر ان کو تباہ نہیں کیا تھا ؟ کیا قوم لوط پر فرشتے نہیں آئے تھے ؟ جنہوں نے ان کو سحری کے وقت نیست ونابود کردیا تھا۔ کیا تمہارے مطالبہ پر چاند دو ٹکڑے نہیں ہوا ؟ کیا آسمان کا ٹکڑا تم پر گرانا اللہ تعالیٰ کے لیے مشکل ہے ؟ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے جلوہ نما ہونے کا تعلق ہے اس کے نور کی ایک جھلک کوہ طور برداشت نہیں کرسکا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بےہوش ہو کر گرپڑے۔ تم بتاؤ کہ اس کا جلال کس طرح برداشت کرسکتے ہو۔ ؟ قیامت کے دن جب اللہ اپنی مخلوق کے سامنے جلالت وتمکنت کے ساتھ جلوہ افروز ہوگا۔ تمہاری کیا مجال کہ آنکھ اٹھا سکو۔ وہاں تو بڑے بڑے انبیاء بھی سر جھکائے ” رَبِّ نَفْسِیْ رَبِّ نَفْسِیْ “ کی فریاد کررہے ہوں گے۔ تمہارا یہ مطالبہ ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھجوروں اور انگوروں کے باغ ہونے چاہییں۔ ذرا غور کرو کہ وسائل کے اعتبار سے غریب نبی کو تم قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ جب وہ تم سے بڑھ کر امیر ہوگا تو پھر اس پر دنیا دار ہونے کا الزام لگاکر اس کی نبوت کا انکار نہیں کرو گے ؟ تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو کیا کیا پیش کش کی اور آپ نے ان سے کس عاجزی کے ساتھ استغناء کا اظہار فرمایا۔ تمہارا یہ مطالبہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور وہاں سے لکھی ہوئی کتاب لائیں۔ کیا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے مسجد اقصیٰ اور مسجد اقصیٰ سے ساتوں آسمانوں کی سیر کرکے رات کے مختصر حصہ میں واپس آکر آپ کو یہ واقعہ نہیں بتا چکے۔ تم نے اس پر کیا ردعمل دیا ؟ تمہارا یہ مطالبہ کرنا کہ آسمان سے لکھی ہوئی کتاب لائی جائے۔ کیا اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) لکھی ہوئی کتاب اپنی قوم کے پاس نہیں لائے تھے اور اس کی قوم نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تمہیں معلوم نہیں ؟ مسائل ١۔ کفارنے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مختلف معجزات کا مطالبہ کیا۔ تفسیر بالقرآن کفار کا انبیاء (علیہ السلام) سے معجزات کا مطالبہ : ١۔ کہنے لگے ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری کردے۔ (بنی اسرائیل : ٩٠) ٢۔ بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ اللہ کو سامنے دیکھ لیں۔ (البقرۃ : ٥٥) ٣۔ کہنے لگے ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ ہمیں بھی وہ کچھ دیا جائے جو رسولوں کو دیا گیا ہے۔ (الانعام : ١٢٤) ٤۔ اگر اللہ ہم سے عذاب ٹال دے تو ہم تجھ پر ایمان لے آئیں گے۔ (الاعراف : ١٣٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قریش مکہ کی ہٹ دھرمی اور فرمائشی معجزت کا مطالبہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دعوت کا کام شروع کیا اور مشرکین مکہ کو توحید کی دعوت دی اور بت پرستی چھوڑنے کے لیے فرمایا تو وہ دشمن ہوگئے، حق قبول کرنے سے دور بھاگتے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طرح طرح سے ستاتے تھے کٹ حجتی پر تلے ہوئے تھے۔ الٹے الٹے سوال کرتے اور بےتکی فرمائشیں کرتے تھے، جن میں سے چند فرمائشیں آیت بالا میں مذکور ہیں صاحب معالم التنزیل نے لکھا ہے کہ قریش مکہ کے چند افراد جمع ہوئے انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ یہ جو آپ نے نئی باتیں شروع کی ہیں اگر ان کے ذریعہ آپ کو مال طلب کرنا مقصود ہے تو بتا دیجیے ہم آپ کو مال دیدیں گے آپ ہم میں سب سے بڑے مالدار ہوجائیں گے اور اگر بڑا بننا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو بادشاہ بنالیتے ہیں اور اگر بادشاہ بننا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو بادشاہ بنالیتے ہیں اور اگر آپ کو کوئی جنون ہوگیا ہے تو وہ بتا دیجیے ہم اپنے اموال خرچ کرکے آپ کا علاج کرا دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے۔ مجھے اللہ نے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور مجھ پر کتاب نازل فرمائی ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کے قبول کرنے پر بشارتیں سناؤں، اور مخالفت کے انجام سے ڈراؤں، میں نے تمہیں پہنچا دیا اور خیر خواہی کے ساتھ سمجھا دیا اگر تم اس کو قبول کرتے ہو تو یہ دنیا و آخرت میں تمہارا نصیب ہوگا اور اگر اس کو نہیں مانتے تو میں صبر کرتا ہوں یہاں تک کہ اللہ پاک میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرمائیں۔ وہ لوگ کہنے لگے تو پھر ایسا کرو کہ اپنے رب سے سوال کرو کہ یہ پہاڑ مکہ کی سرزمین سے ہٹ جائیں جن کی وجہ سے ہماری جگہ تنگ ہو رہی ہے اور ہمارے شہروں میں وسعت ہوجائے۔ جیسے شام و عراق میں نہریں ہیں اس طرح کی نہریں ہمارے شہر میں جاری ہوجائیں۔ اور ہمارے مردہ باپ دادوں کو قبروں سے اٹھاؤ جن میں سے قصی بن کلاب بھی ہو۔ یہ لوگ قبروں سے اٹھ کر آپ کی تصدیق کردیں تو ہم مان لیں گے آپ نے فرمایا کہ یہ میرا کام نہیں، میں ایسا کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا، مانتے ہو تو مان لو اور نہیں مانتے تو میں صبر کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کا جو فیصلہ ہوگا ہوجائے گا۔ وہ کہنے لگے کہ ایسا نہیں کرتے تو اپنے رب سے یہ سوال کیجیے کہ آپ کی تصدیق کے لیے ایک فرشتہ بھیج دے۔ اور یہ سوال کرو کہ آپ کو باغات اور محلات دیدے اور سونے چاندی کے خزانے دیدے جن کی وجہ سے آپ غنی ہوجائیں اور یہ آپ کی ظاہری حالت (جو مال کی کمی کی وجہ سے ہے) نہ رہے آپ تو ہماری طرح بازاروں میں کھڑے ہوتے ہیں اور ہماری طرح معاش تلاش کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ میرا یہ کام نہیں مجھے تو اللہ تعالیٰ نے نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ کہنے لگے اچھا تم ایسا کرو کہ ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرا دو ۔ آپ کہتے ہیں کہ اللہ کو اس پر قدرت ہے اگر قدرت ہے تو اس کا مظاہرہ ہوجائے۔ آپ نے فرمایا اللہ چاہے تو وہ تمہارے ساتھ ایسا معاملہ کرسکتا ہے، اس پر ان میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ ہم آپ پر اس وقت ایمان لائیں گے جب آپ اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو ہمارے سامنے لائیں۔ ان باتوں کے بعد آپ وہاں سے کھڑے ہوگئے، انہیں میں آپ کی پھوپھی عاتکہ بنت عبد المطلب کا بیٹا عبد اللہ بن ابی امیہ بھی تھا۔ وہ بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ اس نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی قوم نے کئی باتیں پیش کیں آپ نے کسی کو قبول نہ کیا اب آپ ایسا کریں کہ ایک سیڑھی لیں اور میرے سامنے آسمان پر چڑھ جائیں اور ایک نوشتہ لکھی ہوئی کتاب بھی لائیں اور آپ کے ساتھ فرشتے بھی آئیں جو آپ کی تصدیق کریں۔ آپ نے ایسا کردیا تو میں آپ کی تصدیق کرلوں گا۔ یہ باتیں سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غمگین ہوئے اور اسی حالت میں تھے کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیات بالا نازل فرمائیں اور آپ کو حکم دیا کہ آپ لوگوں کو جواب میں فرما دیں (سُبْحَانَ رَبِّیْ ) (کہ میرا رب پاک ہے تمہارے طلب کردہ معجزات سے عاجز نہیں ہے) اللہ چاہے تو فرمائشی معجزات ظاہر فرما دے لیکن وہ کسی کا پابند نہیں ہے جو لوگوں کے لیے فرمائشی معجزات ظاہر فرمائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

80:۔ یہ شکوہ ہے یعنی ہم نے حق سمجھانے کے لیے تو کوئی بات نہیں چھوڑی سب کچھ قرآن میں بار بار ذکر کردیا ہے مگر یہ معاندین ماننے کے بجائے محض ضد و تعنت سے حیلے تراشتے ہیں وقال کفار مکۃ تعنتا واقتراحا بعد مالزمتھم بیان اعجاز القران و انضمام غیرہ من المعجزات لن نومن لک الخ (مظھری ج 5 ص 495) مشرکین کے مطالبات کا یہاں ذکر کیا گیا انہیں وہ وقتا فوقتادہرایا کرتے تھے ان میں سے بعض کا تفصیلی جواب بھی دوسری جگہوں میں مذکور ہے۔ مشرکین نے کہا اے محمد ! جب تک تو مندرجہ ذیل مطالبات میں سے ہمارا کوئی ایک مطالبہ پورا نہ کر ڈالے اس وقت تک ہم تم پر ہرگز ایمان نہیں لائینگے۔ (1) ” تفجر لنا من الارض “ تیرے حکم سے ارض مکہ سے ایک ایسا چشمہ جری ہوجائے جس کا پانی میٹھا ہو اور کبھی منقطع نہ ہو۔ (2) ” او تکون لک جنۃ الخ “ یا تیرے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک شاندار باغ ہو جس میں پانی کی نہریں جاری ہوں۔ (3) ” او تسقط السماء الخ “ یا ہماری سرکشی اور انکار و جحود کی وجہ سے آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے اوپر گرادے۔ (4) ” او تاتی باللہ والملئکۃ قبیلا “ یا اللہ کو اور فرشتوں کو اپنی صداقت پر گواہی دینے کیلئے لے آ۔ (5) ” او یکون لک بیت الخ “ یا تیرا گھر سونے کا ہو۔ (6) ” او ترقی فی السماء “ یا ہمارے دیکھتے دیکھتے آسمانوں پر چرھ جا۔ (7) مگر تیرے صرف آسمان پر چرھ جانے ہی سے تجھ پر ایمان نہیں لے آئینگے جب تک کہ تو آسمان سے ہمارے نام اللہ کی طرف سے ایک کتاب نہ لے آئے جس میں اللہ کی طرف سے ہمیں حکم دیا گیا ہو کہ ہم آپ کو مان لیں۔ ای کتابا من اللہ تعالیٰ الی کل رجل منا کما قال اللہ تعالیٰ بل یرید کل امرئ منھم ان یوتی صحفا منشرۃ (قرطبی ج 10 ص 331) ۔ اس کا جواب سورة انعام رکوع 1 میں دیا گیا ہے۔ ” ولو نزلنا علیک کتابا فی قرطاس الایۃ “ یعنی اگر ان کی مرضی کے مطابق لکھی ہوئی کتاب بھی نازل کریں تو یہ پھر بھی نہیں مانیں گے اور کہیں گے یہ تو صریح جادو ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

90 اور اے پیغمبر مکہ کے کفار آپ سے یوں کہتے ہیں کہ ہم اس وقت تک تجھ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک تو ہمارے لئے اس مکہ کی سر زمین میں یا تو کوئی چشمہ جاری کر دے۔