Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 96

سورة بنی اسراءیل

قُلۡ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًۢا بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیۡرًۢا بَصِیۡرًا ﴿۹۶﴾

Say, "Sufficient is Allah as Witness between me and you. Indeed he is ever, concerning His servants, Acquainted and Seeing."

کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ تعالٰی کا گواہ ہونا کافی ہے وہ اپنے بندوں سے خوب آگاہ اور بخوبی دیکھنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells His Prophet: قُلْ كَفَى بِاللّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ... Say: "Sufficient is Allah for a witness between me and you. Allah tells His Prophet how to prove that what he has brought is true, saying to him to tell them: "He (Allah) is a witness over me and over you. He knows what I have brought to you. If I were lying to you, He would take revenge on me in the severest manner," as Allah says: وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الاٌّقَاوِيلِ لاأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ And if he had forged a false saying concerning Us, We surely would have seized him by his right hand, And then We certainly would have cut off his life artery. (69:44-46) Allah said; ... إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا Verily, He is Ever the All-Knower, the All-Seer of His servants. meaning, He knows best who among them deserves blessings, good treatment and guidance, and who deserves to be doomed and led astray.

صداقت رسالت پر اللہ کی گواہی اپنی سچائی پر میں اور گواہ کیوں ڈھونڈوں ؟ اللہ کی گواہی کافی ہے ۔ میں اگر اس کی پاک ذات پر تہمت باندھتا ہوں تو وہ خود مجھ سے انتقام لے گا ۔ چنانچہ قرآن کی سورہ الحاقہ میں بیان ہے کہ اگر یہ پیغمبر زبردستی کوئی بات ہمارے سر چپکا دیتا تو ہم اس کا داہنا ہاتھ تھام کر اس کی گردن اڑا دیتے اور ہمیں اس سے کوئی نہ روک سکتا ۔ پھر فرمایا کہ کسی بندے کا حال اللہ سے مخفی نہیں وہ انعام و احسان ہدایت و لطف کے قابل لوگوں کو اور گمراہی اور بدبختی کے قابل لوگوں کو بخوبی جانتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

96۔ 1 یعنی میرے ذمے جو تبلیغ و دعوت تھی، وہ میں نے پہنچا دی، اس بارے میرے اور تمہارے درمیان اللہ کا گواہ ہونا کافی ہے، کیونکہ ہر چیز کا فیصلہ اسی کو کرنا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٤] یعنی وہ خوب دیکھ رہا ہے کہ میں نے تم لوگوں تک اس کا پیغام پہنچا دیا ہے یا نہیں ؟ یا منزل من اللہ احکام پر پوری طرح عمل پیرا ہوں یا نہیں اور تم جو اللہ کے پیغام کی مخالفت میں سر توڑ کوششیں کر رہے ہو وہ انھیں بھی خوب دیکھ رہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ كَفٰى باللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ ۔۔ : ” كَفٰى باللّٰهِ “ کی ترکیب اور تفسیر کے لیے دیکھیے بنی اسرائیل (١٥) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو سارا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہوئے ان سے بحث اور جھگڑا ترک کرنے کا حکم دیا، یعنی آپ کہہ دیجیے کہ اگر میں اپنے دعوائے نبوت میں جھوٹا ہوتا تو وہ میری سخت گرفت کرتا۔ (دیکھیے حاقہ : ٤٤ تا ٤٦) اور پھر اسے ہمیشہ سے خوب معلوم ہے کہ کون شخص انعام و احسان اور ہدایت پانے کے لائق ہے اور کون عقاب و عذاب اور گمراہی کے۔ اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے اور کفار کے لیے وعید۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : جب یہ لوگ رسالت و نبوت کی دلائل واضحہ آجانے اور تمام شبہات دور ہوجانے کے بعد بھی نہیں مانتے تو) آپ (آخری بات) کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ میرے تمہارے درمیان (کے اختلاف میں) کافی گواہ ہے (یعنی خدا جانتا ہے کہ میں واقع میں اللہ کا رسول ہوں کیونکہ) وہ اپنے بندوں (کے احوال) کو خوب جانتا خوب دیکھتا ہے (تمہارے عناد کو بھی دیکھتا ہے) اور اللہ جس کو راہ پر لاوے وہ ہی راہ پر آتا ہے اور جس کو بےراہ کر دے تو خدا کے سوا آپ کسی کو بھی ایسوں کا مددگار نہ پاویں گے (اور بوجہ کفر کے یہ خدا کی مدد سے محروم رہے مطلب یہ ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے دست گیری نہ ہو نہ ہدایت ہو سکتی ہے نہ عذاب سے نجات) اور ہم قیامت کے روز ان کو اندھا گونگا بہرہ کر کے منہ کے بل چلائیں گے ان کا ٹھکانا دوزخ ہے (جس کی یہ کیفیت ہوگی کہ) وہ (یعنی دوزخ کی آگ) جب ذرا دھیمی ہونے لگے گی اس وقت ہم ان کے لئے اور زیادہ بھڑکا دیں گے یہ ہے ان کی سزاء اس سبب سے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا تھا اور یوں کہا تھا کہ کیا ہم ہڈیاں اور (وہ بھی) بالکل ریزہ ریزہ ہوجاویں گے تو کیا ہم از سر نو پیدا کر کے (قبروں سے اٹھائے جاویں گے کیا ان لوگوں کو اتنا معلوم نہیں کہ جس اللہ نے آسمان اور زمین پیدا کئے وہ اس بات پر (بدرجہ اولی) قادر ہے کہ وہ ان جیسے آدمی دوبارہ پیدا کر دے اور (منکرین کو شاید یہ وسوسہ ہو کہ ہزاروں لاکھوں مر گئے مگر اب تک تو یہ وعدہ دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنے کا پورا ہوا نہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ) ان کے (دوبارہ پیدا کرنے کے) لئے ایک میعاد معین کر رکھی ہے کہ اس میعاد (معین کے آنے) میں ذرا شک نہیں اس پر بھی ظالم لوگ بےانکار کئے نہ رہے آپ فرما دیجئے کہ اگر تم لوگ میرے رب کی رحمت (یعنی نبوت) کے خزانوں (یعنی کمالات) کے مختار ہوتے (کہ جس کو چاہتے دیتے جس کو چاہتے نہ دیتے) تو اس صورت میں تم (اس کے) خرچ ہوجانے کے اندیشے سے ضرور ہاتھ روک لیتے (کبھی کسی کو نہ دیتے حالانکہ یہ چیز کسی کو دینے سے گھٹتی بھی نہیں) اور آدمی ہے بڑا تنگدل (کہ نہ گھٹنے والی چیز کو بھی عطا کرنے سے دریغ کرتا ہے جس کی وجہ رسولوں سے عداوت اور بخل کے علاوہ شاید یہ بھی ہو کہ اگر کسی کو نبی اور رسول بنا لیا تو پھر اس کے احکام کی پابندی کرنا پڑے گی جیسے کوئی قوم باہم اتفاق کر کے کسی کو اپنا بادشاہ بنا لے تو گو بنایا انہوں نے ہے مگر جب وہ بادشاہ بن گیا تو اس کی اطاعت کرنی پڑتی ہے)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِيْرًۢا بَصِيْرًا 96؀ كفى الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل . ( ک ف ی ) الکفایۃ وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔ شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ويجري علمت مجراه في القسم، فيجاب بجواب القسم ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے بعض نے کہاز ہے کہ اگر اشھد کے ساتھ باللہ نہ بھی ہو تب بھی یہ قسم کے معنی میں ہوگا اور کبھی علمیت بھی اس کے قائم مقام ہوکر قسم کے معنی دیتا ہے اور اس کا جواب بھی جواب قسم کی طرح ہوتا ہے ۔ شاھد اور شھید کے ایک ہی معنی ہیں شھید کی جمع شھداء آتی ہے قرآن میں ہے۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ خبیر والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر «3» : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، ( خ ب ر ) الخبر کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔ بصیر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة : بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔ اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٦) اور آپ ان مکہ والوں سے آخری بات فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ میرے اور تمہارے درمیان کافی گواہ ہے اس بات پر اس نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور وہ جو اپنے بندوں کی طرف رسول بھیجتا ہے، خوب جانتا اور خوب دیکھتا ہے کہ کون اس پر ایمان لائے گا اور کون ایمان نہیں لاے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٦ (قُلْ كَفٰى باللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ) رد و قدح بہت ہوچکی۔ اب میں یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں جو میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے۔ اب وہی فیصلہ کرے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

109. That is, Allah is fully aware of all my efforts which I am sending in order to reform you, and He is fully aware of the efforts you are making against my mission. His witness is sufficient because He will pass the final judgment.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :109 یعنی جس طرح سے میں تمہیں سمجھا رہا ہوں اور تمہاری اصلاح حال کے لیے کوشش کر رہا ہوں اسے بھی اللہ جانتا ہے ، اور جو جو کچھ تم میری مخالفت میں کر رہے ہو اس کو بھی اللہ دیکھ رہا ہے ۔ فیصلہ آخرکار اسی کو کرنا ہے اس لیے بس اسی کا جاننا اور دیکھنا کافی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی اگر میں دعویٰ نبوت میں جھوٹا ہوتا تو وہ میری سخت گرفت کرتا۔ (الحاقہ 66, 62) اور پھر اسے خوب معلوم ہے کہ کون شخص انعام و احسان اور ہدایت پانے کے لائق ہے اور کون عقاب و عذاب اور گمراہی کے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس بات میں ایک قسم کی جھڑکی اور تہدید کا رنگ ہے۔ اللہ تو گواہ ہے لیکن اس گواہی کا انجام کیا ہوگا تو قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر دیکھئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

83:۔ تم نہیں مانتے تو نہ مانو۔ اللہ تعالیٰ میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اسے معلوم ہے کہ میں نے اس کا پیغام من و عن تمہیں پہنچا دیا ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ تم نے محض ضد وعناد سے اس کا پیغام ٹھکرا دیا ہے وہ اپنے بندوں کے تمام اعمال سے اچھی طرح باخبر ہے اور ہر ایک کو اس کے اعمال کی جزاء و سزا دے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

96 آپ فرما دیجیے میرے اور تمہارے درمیان گواہ بننے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ اپنے بندوں کے تمام احوال کو خوب جانتا ہے۔ خوب دیکھتا ہے یعنی تمہارے عناد اور تمہاری بےہودہ حرکات کو بھی جانتا دیکھتا ہے اور میرے معقول دلائل اور میری صحیح باتوں سے بھی واقف ہے۔