Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 97

سورة بنی اسراءیل

وَ مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَہُوَ الۡمُہۡتَدِ ۚ وَ مَنۡ یُّضۡلِلۡ فَلَنۡ تَجِدَ لَہُمۡ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ؕ وَ نَحۡشُرُہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ عَلٰی وُجُوۡہِہِمۡ عُمۡیًا وَّ بُکۡمًا وَّ صُمًّا ؕ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ کُلَّمَا خَبَتۡ زِدۡنٰہُمۡ سَعِیۡرًا ﴿۹۷﴾ النصف

And whoever Allah guides - he is the [rightly] guided; and whoever He sends astray - you will never find for them protectors besides Him, and We will gather them on the Day of Resurrection [fallen] on their faces - blind, dumb and deaf. Their refuge is Hell; every time it subsides We increase them in blazing fire.

اللہ جس کی رہنمائی کرے وہ تو ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ راہ سے بھٹکا دے ناممکن ہے کہ تو اس کا مددگار اس کے سوا کسی اور کو پائے ، ایسے لوگوں کا ہم بروز قیامت اوندھے منہ حشر کریں گے ، درآں حالیکہ وہ اندھے گونگے اور بہرے ہونگے ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا جب کبھی وہ بجھنے لگے گی ہم ان پر اسے اور بھڑکا دیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Guidance and Misguidance are in the Hands of Allah Allah tells: وَمَن يَهْدِ اللّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ... And he whom Allah guides, he is led aright; Allah tells us how He deals with His creation and how His rulings are carried out. He tells us that there is none who can put back His judgement, for whomever He guides cannot be led astray, ... وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاء مِن دُونِهِ ... and whomever He leaves astray can never find helpers other than Him. to guide him. As Allah says: مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا He whom Allah guides, he is the rightly-guided; but he whom He sends astray, for him you will find no Wali (guiding friend) to lead him. (18:17) The Punishment of the People of Misguidance Allah tells: ... وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ... and We shall gather them together on the Day of Resurrection on their faces, Imam Ahmad recorded from Anas bin Malik that the Prophet was asked, "O Messenger of Allah, how will the people be gathered on their faces!" He said, الَّذِي أَمْشَاهُمْ عَلَى أَرْجُلِهِمْ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُمْشِيَهُمْ عَلَى وُجُوهِهِم The One Who made them walk on their feet is able to make them walk on their faces. It was also reported (by Al-Bukhari and Muslim) in the Two Sahihs. ... عُمْيًا ... blind, (means, unable to see). ... وَبُكْمًا ... dumb, (means, unable to speak). ... وَصُمًّا ... deaf, (means, unable to hear). They will be in this state as a punishment for the way they were in this world, blind, dumb and deaf to the truth. This will be their recompense when they are gathered on the Day of Resurrection, at the time when they need these faculties most of all. ... مَّأْوَاهُمْ ... their abode, means, their destination. ... جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ ... will be Hell; whenever it abates, Ibn Abbas said, "(This means) calms down," Mujahid said, "(It means) is extinguished," ... زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا We shall increase for them the fierceness of the Fire. meaning, increasing its flames and heat and coals, as Allah says: فَذُوقُواْ فَلَن نَّزِيدَكُمْ إِلاَّ عَذَاباً So taste you (the results of your evil actions). No increase shall We give you, except in torment. (78:30)

میدان حشر کا ایک ہولناک منظر اللہ تعالیٰ اس بات کو بیان فرماتا ہے کہ تمام مخلوق میں تصرف صرف اسی کا ہے اس کا کوئی حکم ٹل نہیں سکتا اس کے راہ دکھائے ہوئے کو کوئی بہکا نہیں سکتا نہ اس کے بہکائے ہوئے کی کوئی راہنمائی کر سکتا ہے اس کا ولی اور مرشد کوئی نہیں بن سکتا ۔ ہم انہیں اوندھے منہ میدان قیامت ( محشر کے مجمع ) میں لائیں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا جس نے پیروں پر چلایا ہے وہ سر کے بل بھی چلا سکتا ہے ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ مسند میں ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے بنی غفار قبیلے کے لوگو سچ کہو اور قسمیں نہ کھاؤ صادق مصدوق پیغمبر نے مجھے یہ حدیث سنائی ہے کہ لوگ تین قسم کے بنا کر حشر میں لائے جائیں گے ایک فوج تو کھانے پینے اوڑھنے والی ، ایک چلنے اور دوڑنے والی ، ایک وہ جنہیں فرشتے اوندھے منہ گھیسٹ کر جہنم کے سامنے جمع کریں گے ۔ لوگوں نے کہا دو قسمیں تو سمجھ میں آ گئیں لیکن یہ چلنے اور دوڑنے والے سمجھ میں نہیں آئے آپ نے فرمایا سواریوں پر آفت آ جائے گی یہاں تک کہ ایک انسان اپنا ہرا بھرا باغ دے کر پالان والی اونٹنی خریدنا چاہے گا لیکن نہ مل سکے گی ۔ یہ اس وقت نابینا ہوں گے ، بےزبان ہوں گے ، کچھ بھی نہ سن سکیں گے غرض مختلف حال ہوں گے اور گناہوں کی شامت میں گناہوں کے مطابق گرفتار کئے جائیں گے ۔ دنیا میں حق سے اندھے بہرے اور گونگے بنے رہے آج سخت احتیاج والے دن ، سچ مچ اندھے بہرے گونگے بنا دئیے گئے ۔ ان کا اصلی ٹھکانا ، گھوم پھر کر آنے اور رہنے سہنے بسنے ٹھہرنے کی جگہ جہنم قرار دی گئی ۔ وہاں کی آگ جہاں مدھم پڑنے کو آئی اور بھڑکا دی گئی سخت تیز کر دی گئی جیسے فرمایا آیت ( فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِيْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا 30؀ۧ ) 78- النبأ:30 ) یعنی اب سزا برداشت کرو ۔ سوائے عذاب کے کوئی چیز تمہیں زیادہ نہ دی جائے گی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

97۔ 1 میری تبلیغ و دعوت سے کون ایمان لاتا ہے، کون نہیں، یہ بھی اللہ کے اختیار میں ہے، میرا کام صرف تبلیغ ہی ہے۔ 97۔ 2 حدیث میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے تعجب کا اظہار کیا کہ اوندھے منہ کس طرح حشر ہوگا ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جس اللہ نے ان کو پیروں سے چلنے کی قوت عطا کی ہے، وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ انھیں منہ کے بل چلا دے۔ 97۔ 3 یعنی جس طرح وہ دنیا میں حق کے معاملے میں اندھے، بہرے اور گونگے بنے رہے، قیامت والے دن بطور جزا اندھے، بہرے اور گونگے ہوں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٥] اعمال اور ان کے بدلہ میں مماثلت :۔ انسان کے اعمال اور ان اعمال کی جزاء و سزا میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے اور یہی مماثلت قیامت کے دن اپنا اصل روپ دھار لے گی۔ مثلاً جن لوگوں نے اس دنیا میں سیدھی راہ کے بجائے غلط راستے اختیار کیے اور راست روی کے بجائے الٹی چال چلتے رہے انھیں وہاں بھی الٹی چال چلایا جائے گا۔ اس دنیا میں وہ پاؤں کے بل چلتے تھے قیامت کے دن انھیں چہروں کے بل چلا کر پیش کیا جائے گا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام (رض) میں سے کسی نے پوچھا && یارسول اللہ ! یہ کیسے ہوگا ؟ && تو آپ نے فرمایا : && اللہ اگر پاؤں کے بل چلا سکتا ہے تو وہ چہروں کے بل بھی چلانے پر قادر ہے && (بخاری، کتاب الرقاق باب، کیف الحشر) اسی طرح جن لوگوں نے اس دنیا میں حق بات کو سننا بھی گوارا نہ کیا ہوگا وہ وہاں فی الواقع بہرے بنا دیئے جائیں گے اور جن لوگوں نے زبان سے حق بات کہنے یا اس کی شہادت دینے سے انکار کیا تھا وہ اس کی سزا میں گونگے بنا دیئے جائیں گے اور جن لوگوں نے کائنات میں بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں کو دیکھنے اور ان میں غور کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی تھی وہاں انھیں اس جرم کی پاداش میں انھیں اندھا کردیا جائے گا۔ پھر اس حال میں انھیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا اور انھیں ایسا مسلسل اور دائمی عذاب ہوگا جس میں نہ کمی واقع ہوگی اور نہ کوئی وقفہ پڑے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ يَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۔۔ : نبوت پر ان کے شبہات کا جواب دینے کے بعد اب انھیں وعید سنائی۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان اپنے بل بوتے پر یا اپنی عقل، علم یا کسی اور چیز کی بنیاد پر راہ حق نہیں پاسکتا اور نہ اس پر ثابت قدم رہ سکتا ہے، بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کی توفیق اور دستگیری ہے جو کسی کو راہ حق دکھاتی ہے اور اگر انسان کی بدبختی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی توفیق انسان کے شامل حال نہ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اسے راہ راست پر نہیں لاسکتی۔ اس سے مقصود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے۔ (رازی) ” وَمَنْ يَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ “ میں ہدایت یافتہ کو واحد کے صیغے سے اور ”ۚ وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ اَوْلِيَاۗءَ “ میں گمراہ کردہ لوگوں کو جمع کے صیغے سے بیان فرمایا، اس میں حکمت یہ ہے کہ ہدایت کا راستہ ایک ہے، اس پر چلنے والے ایک ہی جماعت ہیں، جبکہ ضلالت کے بیشمار راستے ہیں اور ان پر چلنے والے گروہ بیشمار ہیں۔ (واللہ اعلم) ۭ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۔۔ : یعنی منہ کے بل چلیں گے، جیسے دنیا میں پاؤں کے بل چلتے تھے۔ انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا : ” لوگ اپنے چہروں پر کس طرح اکٹھے کیے جائیں گے ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَلَیْسَ الَّذِيْ أَمْشَاہُ عَلَی الرِّجْلَیْنِ فِي الدُّنْیَا قَادِرًا عَلٰی أَنْ یُمْشِیَہُ عَلٰی وَجْھِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ؟ ) ” جس نے انھیں ان کے پاؤں کے بل چلایا ہے وہ انھیں قیامت کے دن ان کے چہروں کے بل چلانے پر بھی قادر ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، سورة الفرقان، باب قولہ : ( الذین یحشرون علٰی وجوہہم إلٰی جہنم ) : ٤٧٦٠۔ مسلم : ٢٨٠٦ ] ایک مطلب یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن انھیں منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈالا جائے گا، جیسے فرمایا : (يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰي وُجُوْهِهِمْ ۭ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ ) [ القمر : ٤٨ ] ” جس دن وہ آگ میں اپنے چہروں پر گھسیٹے جائیں گے، چکھو آگ کا چھونا۔ “ دونوں صورتیں بھی مراد ہوسکتی ہیں کہ حشر کے دن وہ منہ کے بل الٹے چلتے ہوئے آئیں گے، پھر فرشتے چہروں کے بل گھسیٹتے ہوئے انھیں جہنم میں پھینک دیں گے۔ عُمْيًا وَّبُكْمًا وَّصُمًّا : اندھے، گونگے اور بہرے۔ بعض آیات میں ان کے قیامت کے دن دیکھنے، بولنے اور سننے کا ذکر آیا ہے، تو ایک تطبیق یہ ہے کہ قیامت کے پچاس ہزار سال کے برابر دن کے مختلف اوقات میں ان کی مختلف حالتیں ہوں گی۔ دوسری یہ کہ وہ جمالِ الٰہی کے دیدار اور جنت کی نعمتوں کے دیکھنے سے محروم ہوں گے، کوئی خوش کن خبر نہیں سنیں گے اور نہ کوئی دلیل بیان کرنے کی طاقت ہوگی، ورنہ حواس خمسہ ظاہرہ کے اعتبار سے تو وہ بہت سننے اور دیکھنے والے ہوں گے۔ دیکھیے سورة مریم (٣٨) اور سورة طور (١٤، ١٥) ۔ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا : ” خَبَتْ “ اصل میں ” خَبَوَتْ “ ہے، ” خَبَا یَخْبُوْ “ سے واحد مؤنث غائب ماضی معلوم ہے، مصدر ” خَبْوًا وَ خُبُوًّا “ ہے، آگ کی تیزی کا ہلکا ہونا یا بجھنا، یعنی عذاب کبھی ہلکا نہ ہوگا، جیسے فرمایا : ( لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ ) [ البقرۃ : ٨٦ ] ” سو نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۚ وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِهٖ ۭ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَلٰي وُجُوْهِهِمْ عُمْيًا وَّبُكْمًا وَّصُمًّا ۭ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا 97؀ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ حشر ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ عمی العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ( ع م ی ) العمی ٰ یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة/ 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے بكم قال عزّ وجلّ : صُمٌّ بُكْمٌ [ البقرة/ 18] ، جمع أَبْكَم، وهو الذي يولد أخرس، فكلّ أبكم أخرس، ولیس کل أخرس أبكم، قال تعالی: وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُما أَبْكَمُ لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 76] ، ويقال : بَكِمَ عنالکلام : إذا ضعف عنه لضعف عقله، فصار کالأبكم . ( ب ک م ) الابکم ۔ پیدائشی گونگا اور اخرس عام گونگے کو کہے ہیں لہذا ابکم عام اور اخرس خاص ہے قرآن میں ہے ۔ وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُما أَبْكَمُ لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 76] اور خدا ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ دو آدمی ہیں ایک ان میں گونگا اور دوسرے کی ملک ( ہے دبے اختیار وناتوان ) کہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا ۔ اور ابکم کی جمع بکم آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ صُمٌّ بُكْمٌ [ البقرة/ 18] یہ بہرے ہیں گونگے ہیں اور جو شخص ضعف عقلی کے سبب گفتگو نہ کرسکے اور گونگے کی طرح چپ رہے تو اس کے متعلق بکم عن الکلام کہا جاتا ہے یعنی وہ کلام سے عاجز ہوگیا ۔ صمم الصَّمَمُ : فقدانُ حاسّة السّمع، وبه يوصف من لا يُصغِي إلى الحقّ ولا يقبله . قال تعالی: صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ، ( ص م م ) الصمم کے معیم حاصہ سماعت ضائع ہوجانا کے ہیں ( مجاز) اس کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوتا ہے جو نہ تو حق کی آواز سنے اور نہ ہی اسے قبول کرے ( بلکہ اپنی مرضی کرتا چلا جائے ) قرآن میں ہے : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم . ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ أوى المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف/ 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود/ 43] ( ا و ی ) الماویٰ ۔ ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے { إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ } ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے { قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ } ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ خبو خَبَتِ النار تَخْبُو : سکن لهبها، وصار عليها خباء من رماد، أي غشاء، وأصل الخِبَاء الغطاء الذي يتغطّى به، وقیل لغشاء السّنبلة خباء، قال عزّ وجلّ : كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . ( خ ب و ) خبت ( ن ) النار ۔ آگ کا شعلہ افسردہ ہوگیا اور اس پر راکھ کا خباء یعنی پردہ سا آ گیا ۔ اصل میں خباء اس پردہ کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو ڈھانپا جائے ۔ اسی بنا پر جو یا گیہوں کی بالی کے چھا کا کو بھی خباء کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب اس کی آگ بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے کے لئے ) اور بھڑکا دیں ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ سعر السِّعْرُ : التهاب النار، وقد سَعَرْتُهَا، وسَعَّرْتُهَا، وأَسْعَرْتُهَا، والْمِسْعَرُ : الخشب الذي يُسْعَرُ به، واسْتَعَرَ الحرب، واللّصوص، نحو : اشتعل، وناقة مَسْعُورَةٌ ، نحو : موقدة، ومهيّجة . السُّعَارُ : حرّ النار، وسَعُرَ الرّجل : أصابه حرّ ، قال تعالی: وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] ، وقال تعالی: وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] ، وقرئ بالتخفیف «2» ، وقوله : عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] ، أي : حمیم، فهو فعیل في معنی مفعول، وقال تعالی: إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] ، والسِّعْرُ في السّوق، تشبيها بِاسْتِعَارِ النار . ( س ع ر ) السعر کے معنی آگ بھڑکنے کے ہیں ۔ اور سعرت النار وسعر تھا کے معنی آگ بھڑکانے کے ۔ مجازا لڑائی وغیرہ بھڑکانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے : ۔ استعر الحرب لڑائی بھڑک اٹھی ۔ استعر اللصوص ڈاکو بھڑک اٹھے ۔ یہ اشتعل کے ہم معنی ہے اور ناقۃ مسعورۃ کے معنی دیوانی اونٹنی کے ہیں جیسے : ۔ موقدۃ ومھیجۃ کا لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے ۔ المسعر ۔ آگ بھڑکانے کی لکڑی ( کہرنی ) لڑائی بھڑکانے والا ۔ السعار آگ کی تپش کو کہتے ہیں اور سعر الرجل کے معنی آگ یا گرم ہوا سے جھلس جانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] اور جب دوزخ ( کی آگ ) بھڑکائی جائے گی ۔ عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ تو یہاں سعیر بمعنی مسعور ہے ۔ نیز قران میں ہے : ۔ إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] بیشک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں ( مبتلا ہیں ) السعر کے معنی مروجہ نرخ کے ہیں اور یہ استعار ہ النار ( آگ کا بھڑکنا ) کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٧) اور اللہ تعالیٰ جس کو اپنے دین کی ہدایت فرمائے، وہی سیدھے راستے پر آتا ہے اور جسے وہ اپنے دین سے گمراہ کردے تو اللہ تعالیٰ کے سوا ان مکہ والوں کے لیے آپ کسی کو بھی ایسا نہ پائیں گے جو ان کی ہدایت کی طرف رہنمائی کرے اور ہمیں قیامت کے دن ان کو اندھا، گونگا، بہرہ کرکے منہ کے بل دوزخ کی طرف چلائیں گے اور ان میں کسی چیز کے دیکھنے، سننے اور بولنے کی قطعا طاقت نہ ہوگی، پھر ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور دوزخ کی لپٹیں جب ذرا دھیمی ہونے لگیں گی، تب ہی ہم ان کے لیے اور زیادہ بھڑکادیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

110. In this verse, the Quran has enunciated a divine principle. Allah guides to the right way only that person who intends to follow His guidance, and lets go astray that person who intends to go astray. Thereafter none is able to bring back to the right way the one against whom Allah has closed the door of guidance because of his own persistent deviation and obduracy. It is obvious that if a man turns his back against the truth and rests content with falsehoods, there is no power in the world to make him turn away from falsehood and come to the truth. This is because after this depravity Allah provides for that wicked person such means as increase his aversion to truth and his love for falsehood. 111. On the Day of Resurrection, they will be raised up blind, dumb and deaf because they behaved like such people in this world and would not see the truth nor listen to the truth nor speak the truth.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :110 یعنی جس کی ضلالت پسندی اور ہٹ دھرمی کے سبب سے اللہ نے اس پر ہدایت کے دروازے بند کر دیے ہوں اور جسے اللہ ہی نے ان گمراہیوں کی طرف دھکیل دیا ہو جن کی طرف وہ جانا چاہتا تھا ، تو اب اور کون ہے جو اس کو راہ راست پر لا سکے؟ جس شخص نے سچائی سے منہ موڑ کر جھوٹ پر مطمئن ہونا چاہا ، اور جس کی اس خباثت کو دیکھ کر اللہ نے بھی اس کے لیے وہ اسباب فراہم کر دیے جن سے سچائی کے خلاف اس کی نفرت میں اور جھوٹ پر اس کے اطمینان میں اور زیادہ اضافہ ہوتا چلا جائے ، اسے آخر دنیا کی کونسی طاقت جھوٹ سے منحرف اور سچائی پر مطمئن کر سکتی ہے ؟ اللہ کا یہ قاعدہ نہیں کہ جو خود بھٹکنا چاہے اسے زبردستی ہدایت دے ، اور کسی دوسری ہستی میں یہ طاقت نہیں کہ لوگوں کے دل بدل دے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :111 یعنی جیسے وہ دنیا میں کر رہے کہ نہ حق دیکھتے تھے ، نہ حق سنتے تھے اور نہ حق بولتے تھے ، ویسے ہی وہ قیامت میں اٹھائے جائیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 نبوت پر ان کے شبہات کا جواب دینے کے بعد اب وعید فرمائی مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان اپنے بل بوتے پر یا اپنی عقل، علم یا کسی اور چیز کی بنیاد پر راہ حق نہیں پاسکتا اور نہ اس پر ثابت قدم رہ سکتا ہے بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کی توفیق اور دستگیری ہے جو کسی کو راہ حق دکھاتی ہے اور اگر انسان کی بدبختی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی توفیق انسان کے شامل حال نہ ہوت ودنیا کی کوئی طاقت اسے راہ راست پر نہیں لاسکتی۔ اس سے مقصود آنحضرت کو تسلی دینا ہے۔ (کبیر)2 یعنی منہ کے بل چلیں گے جیسے دنیا میں پائوں کے بل چلتے تھے۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے دریافت کیا : اے اللہ کے رسولچ لوگ منہ کے بل کیسے چلائے جائیں گے ؟ فرمایا جس ذات نے انہیں پائوں کے بل چلایا وہ انہیں منہ کے بل بھی چلا سکتی ہے۔ (بخاری مسلم) یا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن انہیں منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ جیسے فرمایا : یوم یسحبون فی النار علی وجوھھم (دیکھیے سورة القمر 48) فو اندھے، گونگے اور بہرے یعنی جمال الٰہی کے دیدار اور جنت کی نعمتوں کے دیکھنے سے محروم ہوں گے اور نہ ہی کوئی خوش کن خبر بن سکیں گے اور نہ کوئی دلیل بیان کرنے کی طاقت ہوگی ورنہ اس حواس خمسہ ظاہرہ کے اعتبار سے تو وہ بہت سننے اور دیکھنے والے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی مختلف حالتوں کے اعتبار سے فرمایا ہو۔ (دیکھیے مریم 38)4 یعنی عذاب کبھی ہلکا نہ ہوگا جیسے فرمایا : لاجفف عنھم العذاب (بقرہ 86)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 97 تا 100 نحشر ہم جمع کریں گے۔ وجوہ چہرے۔ عمی اندھے۔ بکم گونگے۔ صم بہرے۔ خبت بجھے گی (بجھ گئی) ۔ سعیر بھڑکانا۔ تشریح : آیت نمبر 97 تا 100 حقیقت یہ ہے کہ انسان کو نہ تو بھٹکتے دیر لگتی ہے اور نہ ہدایت حاصل کرنے میں۔ صرف اللہ کی توفیق اور دستگیری سے انسان راہ پر حق پر چل کر منزل مراد تک پہنچتا ہے۔ اللہ کا نظام یہ ہے کہ ہدایت صرف اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے لیکن جو شخص ایک دفعہ راہ ہدایت سے بھٹک جاتا ہے تو اگر اللہ اس کی دستگیری نہ فرمائیں تو پھر ہدایت پر آنے کے لئے کوئی اس کا مددگار نہیں بنتا اور نہ اس کے کام آتا ہے۔ فرمایا کہ ایسے لوگ جو راہ ہدایت سے بھٹک گئے ہیں وہ قیامت کے دن اندھے، بہرے اور گونگوں کی طرح سے آئیں گے جن کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا ایسی جہنم کہ اس کی آگ جب بھی بجھنے لگے گی اور اس کی تپش اور گرمی میں کمی آنے لگے گی تو اس کو پھر سے بھڑکا دیا جائے گا اور اس جہنم سے وہ کس طرح باہر نہ نکل سکیں گے۔ یہ درحقیقت ان کی سخت ترین سزا ہوگی کیونکہ ان کا ذہن اور عقیدہ یہ بن گیا تھا کہ جب ہماری ہڈیاں گل سڑ جائیں گی اور ہم ریزہ ریزہ ہو کر زمین پر بکھر جائیں گے تو ہمارے یہ جسمانی اجزاء دوبارہ کیسے آپس میں مل جائیں گے اور ہم دوبارہ کیسے پیدا ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے فرمایا کہ وہ اللہ جو آسمانوں اور زمین میں ہر طرح کی قدرت رکھتا ہے جس نے اس کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی اپنی قدرت کا ملہ سے ان کو دوبارہ بھی پیدا کرے گا یہ اس کے لئے کوئی بھی مشکل یا ناممکن کام نہیں ہے۔ فرمایا کہ یہ انسان کا ناشکرا پن اور اس کے ذہن کی تنگی کی بات ہے کہ وہ اپنے وجود پر شکر کرنے کے بجائے طرح طرح کی بحثوں میں اپنا وقت ضائع کرتا ہے اور زندگی کے ہر معاملے میں تنگ دلی کا انداز اختیار کرتا ہے اور اس کے احسانات کو بھول جاتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ! آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اس اللہ نے تمہاری ناشکریوں اور ناقدریوں کے باوجود ہر طرح کی نعمتوں سے تمہیں نواز رکھا ہے وہ تمہاری نافرمانیوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تم اس سے جو بھی مانگتے ہو وہ عطا کرتا ہے۔ وہ اس میں کبھی کمی نہیں کرتا وہ دونوں ہاتھوں سے لٹاتا ہے لیکن اگر یہ مال و دولت کے خزانے انسانوں کے ہاتھوں میں ہوتے تو وہ دوسروں کو بھوکا مار دیتے کیونکہ انسان بڑا ہی تنگ دل واقع ہوا ہے۔ جب وہ اپنی تنگ دلی پر رب کو قیاس کرنے لگتا ہے تو یہ اس کے بھٹکنے کی پہلی علامت ہوتی ہے۔ انسان تنگ دل، کنجوس اور خود غرض ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف تمام انسانوں کا پروردگار ہر انسان کو خواہ وہ شکر گزار ہے یا نافرمان ہر ایک کو رزق اور زندگی کی سہولتیں عطا کرتا رہتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی جب تک خدا کی طرف سے دستگیری نہ ہو، نہ ہدایت ہوسکتی ہے نہ عذاب سے بچ سکتا ہے۔ چناچہ یہ لوگ باوجود اجتماع اسباب و ہدایت کے بوجہ محذول ہونے کے ہدایت تک نہ پہنچ سکے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے کے ساتھ یہ بات بھی جانتا ہے۔ کہ کون ہدایت کا طالب اور کون گمراہی کے در پہ ہوچکا ہے۔ یہ حقیقت کئی بار عرض کی جاچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ کسی کو گمراہ کرتا ہے اور نہ ہی کسی پر ہدایت مسلط کرتا ہے۔ اس کا اصول یہ ہے جو شخص ہدایت کا طلبگار ہوگا۔ وہ اس کے لیے ہدایت کا راستہ کھول دے گا۔ جو کوئی گمراہی کو پسند کرے گا اسے کھلا چھوڑ دیا جائے گا۔ اس کا یہ بھی فرمان ہے کہ ہم نے انسان کو دوراستے دکھلا دیئے ہیں۔ انسان چاہے تو شکر ادا کرے اگر چاہے تو ناشکری کا راستہ اختیار کرے۔ (الدھر : ٤) اسی مفہوم کے پیش نظر فرمایا ہے کہ جسے اللہ ہدایت دے۔ وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے اللہ گمراہ کردے آپ اس کا کوئی بھی خیرخواہ نہیں پائیں گے یعنی انھیں کوئی بھی ہدایت نہیں دے سکتا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم ان کو گونگے، بہرے اور اندھے بناکر چہروں کے بل اٹھائیں گے۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ جب جہنم کی آگ ذرا ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اس کو اور بھڑکا دیں گے۔ ان کی یہ سزا اس لیے ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور ارشادات کا انکار کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ جب ہماری ہڈیاں بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گی تو کیا ہم از سر نوپیدا کیے جائیں گے ؟ توحید و رسالت کے ساتھ قرآن مجید کا تیسرا مضمون بعث بعدالموت ہے۔ جس کے بارے میں نہ صرف ٹھوس دلائل دیئے گئے ہیں۔ بلکہ پہلے انبیاء کے دور میں دنیا میں لوگوں کو زندہ کرنے کی مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صورت لوگوں کو دوبارہ زندہ کرکے اپنے حضور پیش کرے گا۔ مسائل ١۔ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے وہی ہدایت پا تا ہے۔ ٢۔ جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے اسے کوئی ہدا یت نہیں دے سکتا۔ ٣۔ گمراہوں کو قیامت کے دن اندھا، گونگا اور بہرا کرکے منہ کے بل اٹھایا اور چلایا جائے گا۔ ٤۔ گمراہ لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ ٥۔ جہنم کی آگ جب ہلکی ہونے لگے گی تو اسے مزید بھڑکایا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کے دلائل : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے سامنے چار پرندوں کو زندہ کیا۔ (البقرہ : ٢٦٠ ) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے سامنے ان کی قوم کے ستر سرداروں کو موت دے کر دوبارہ زندہ کیا۔ (الاعراف : ١٥٥ ) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو موت دے کر دنیا میں دوبارہ زندہ کیا۔ (البقرۃ : ٢٤٣ ) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کے ہاتھوں مردوں کو زندہ فرمایا۔ (المائدۃ : ١١٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو تین سو نو سال سلاکر بیدار فرمایا۔ (الکہف : ٢٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر کو سو سال مارنے کے بعد زندہ فرمایا۔ (البقرۃ : ٢٥٩ ) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر کے گدھے کو ان کے سامنے دوبارہ زندہ فرمایا۔ (البقرۃ : ٢٥٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ نے ہدایت و ضلالت کے کچھ قوانین بنائے ہیں اور لوگوں کو ان قوانین کے مطابق طرز عمل اختیار کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ اور ان قوانین کے مطابق و نفع و نقصان کے ذمہ دارہوں گے۔ ان قوانین میں سے ایک یہ قانون بھی ہے کہ انسان ہدایت و ضلالت دونوں کی استعداد رکھتا ہے۔ اب یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ ہدایت کے رولز کے مطابق راہ اختیار کرتا ہے یہ ضلالت کے رولز اپناتا ہے۔ جو ہدایت کے اصول اور سنن اپناتا ہے وہ ہدایت کا مستحق ہوجاتا ہے اور جو ضلالت کے اصول اور سنن اپناتا ہے وہ ضلالت کا مستحق ہوجاتا ہے کہ اس نے گمراہی کا اپنایا اور ہدایت کے اصولوں سے اعراض کیا۔ ایسے لوگوں کو اللہ کے عزاب سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ فلن تحدلھم اولیاء من دونہ (٧١ : ٧٩) ” اللہ کے سوا ایسے لوگوں کے لئے کوئی حامی و ناصر نہ ہوگا “۔ اور ایسے لوگوں کو اللہ قیامت کے دن نہایت ہی توہین آمیز اور خوفناک صورت میں اٹھائے گا۔ علی وجوھھم (٧١ : ٧٩) ” اوندھے منہ “۔ یہ ہاتھوں کے سہارے چل رہے ہوں گے۔ عمیا وبکما وصما (٧١ : ٧٩) ” اندھے ، گونگے اور بہرے “ ۔ ان کے وہ تمام اعضاء جو اس اژدھام میں ان کے لئے مفید ہوسکتے تھے سب کے سب بےکار ہوچکے ہوں گے اور یہ اس لئے کیا جائے گا کہ دنیا میں ان کو یہ اعضا اس لئے دئے گئے تھے کہ یہ لوگ ان کو صحیح کام میں لائیں اور ہدایت کے دلائل کو سمجھنے کی سعی کریں مگر انہوں نے ان اعضاء وجوارح کر بری راہوں میں استعمال کیا۔ ماوھم جھنم (٧١ : ٧٩) ” ان کا ٹھکانا جہنم ہے “۔ ایسی آگ جو کبھی بجھتی نہیں اور نہ سرد پڑتی ہے۔ کلما خبت زدنھم سعیرا (٧١ : ٧٩) ” جب بھی اس کی آگ دھیمی ہونے لگے گی ہم اسے بھڑکا دیں گے “۔ یہ نہایت ہی خوفناک انجام ہے اور یہ نہایت ہی ڈرائونی سزا ہے لیکن یہ لوگ اس کے مستحق اس لئے ہوگئے ہیں کہ انہوں نے آیات الیہ کا کفر کیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن گمراہ لوگ گونگے اور بہرے اٹھائے جائیں گے، پھر دوزخ کی آگ میں داخل کیے جائیں گے یہ سزا اس لیے دی جائے گی کہ انہوں نے حشر نشر کی تکذیب کی گزشتہ آیات میں منکرین کے عناد اور کٹ حجتی کا تذکرہ تھا ان آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی بھی ہے اور منکرین کے لیے وعید بھی، جو لوگ رسالت کے منکر تھے وہ بعث بعد الموت اور حشر نشر کے بھی منکر تھے، ان کا ایک اعتراض نقل فرمایا ہے اور اس کا جواب بھی دیا ہے۔ ارشاد فرمایا اللہ جسے ہدایت دے وہی ہدایت یاب ہوسکتا ہے اور جسے گمراہ کردے تو وہ گمراہ ہی رہے گا۔ اللہ کی طرف سے جب تک ہدایت نہ ہو تو کوئی ہدایت یاب نہیں ہوسکتا اور اللہ کے سوا اس کا کوئی مددگار نہیں ہوسکتا۔ پھر فرمایا کہ ان منکروں کو قیامت کے دن ہم چہروں کے بل چلائیں گے۔ اس وقت اندھے بھی ہونگے اور بہرے بھی اور گونگے بھی۔ یعنی عین حشر کے وقت ان کی یہ حالت ہوگی گو بعد میں دیکھنے اور بولنے اور سننے کی قوتیں دیدی جائیں گی۔ دوسری آیات سے ان کا دیکھنا اور سننا اور بولنا ثابت ہے ان لوگوں کے حق میں دوزخ میں داخل ہونے کا فیصلہ ہوگا اس فیصلہ کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے اور وہی ان کا ٹھکانہ ہوگا۔ وہاں سے کبھی نکلنا نہ ہوگا۔ اور عذاب دائمی کا یہ حال ہوگا کہ جب دوزخ کی آگ بجھنے لگے گی تو اللہ تعالیٰ اس کو اور زیادہ بھڑکا دے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

84:۔ یہ تخویف اخروی ہے اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں اور تلاش حق کا سچا جذبہ رکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ سیدھی راہ دکھا دیتا ہے اور معاندین کے دلوں پر مہر جباریت لگ چکی ہے اس لیے انہیں کوئی راہ راست پر نہیں لاسکتا۔ قیامت کے دن ان کو جہنم کی آگ میں منہ کے بل گھسیٹا جائیگا اور وہ اندھے، گونگے سے نکالنے کی توفیق ملیگی جو قبول کی جاسکے۔ لایبصرون ما یقرا عینھم ولا ینطقون ما یقبل منھم ولا یسمعون ما یلذ سامعھم لما قد کانوا فی الدنیا لا یستبشرون بالایات و العبر ولا ینطقون بالھق ولا یستمعونہ (ابو السعود ج 5 ص 654) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

97 اور جس کو اللہ تعالیٰ راہ پر لائے اور جس کی رہنمائی فرمائے وہی شخص راہ یافتہ ہے اور وہ جس کو بےراہ رکھے تو اے پیغمبر ایسے گمراہوں کا سوائے اللہ تعالیٰ کے آپ کسی کو مددگار نہ پائیں گے اور ہم قیامت کے دن اندھا بہرا گونگا بنا کے منہ کے بل چلائیں گے اور منھ کے بل چلا کر حشر میں لائیں گے اور ان کا آخری ٹھکانا دوزخ ہے جب اور جس وقت اس کی آگ ذرا دھیمی اور ہلکی ہونے لگے گی تب ہی ہم اس آگ کو ان کے لئے بھڑکا دیں گے اور تیز کردیں گے۔ یعنی ہدایت اس کو میسر آتی ہے جس کو خدائے ہدایت دیتا ہے اور وہ جس کی سرپرستی نہ فرمائے تو ایسے گمراہ جن کو اپنا مددگار سمجھتے ہیں ان میں سے ان کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوگا اور اپنی گمراہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی مدد سے محروم رہیں گے چناچہ قیامت کے دن اندھے بہرے گونگے ہو کر اپنے مونہوں کے بل میدان حشر میں جمع ہوں گے اور ہم اس حال سے ان کو جمع کریں گے اور ان کا آخری ٹھکانا دوزخ ہوگا اور اس کی آگ کبھی گل نہ ہوگی جب ذرا ہلکی ہوگی تب ہی بھڑکاکر تیز کردی جائے گی۔ میدان حشر میں بجائے پائوں سے چلنے کے سر کے بل چلیں گے۔