Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 98

سورة بنی اسراءیل

ذٰلِکَ جَزَآؤُہُمۡ بِاَنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ قَالُوۡۤاءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًاءَ اِنَّا لَمَبۡعُوۡثُوۡنَ خَلۡقًا جَدِیۡدًا ﴿۹۸﴾

That is their recompense because they disbelieved in Our verses and said, "When we are bones and crumbled particles, will we [truly] be resurrected [in] a new creation?"

یہ سب ہماری آیتوں سے کفر کرنے اور اس کہنے کا بدلہ ہے کہ کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزے ریزے ہوجائیں گے پھر ہم نئی پیدائش میں اٹھا کھڑے کئے جائیں گے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says: ذَلِكَ جَزَاوُهُم بِأَنَّهُمْ كَفَرُواْ بِأيَاتِنَا ... That is their recompense, because they denied Our Ayat, Allah says: `This punishment, being resurrected blind, dumb and deaf, is what they deserve, because they disbelieved, بِأيَاتِنَا (Our Ayat), i.e., Our proof and evidence, and did not think that the resurrection could ever happen.' ... وَقَالُواْ أَيِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا ... and said: "When we are bones and fragments..." meaning, when we have disintegrated and our bodies have rotted away, ... أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا shall we really be raised up as a new creation! meaning, after we have disintegrated and disappeared and been absorbed into the earth, will we come back a second time Allah established proof against them and told them that He is able to do that, for He created the heavens and the earth, so raising them up again is easier for Him than that, as He says: لَخَلْقُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ أَكْـبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ The creation of the heavens and the earth is indeed greater than the creation of mankind; (40:57) أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللَّهَ الَّذِى خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَلَمْ يَعْىَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْىِ الْمَوْتَى Do they not see that Allah, Who created the heavens and the earth, and was not wearied by their creation, is able to give life to the dead. (46: 33) أَوَلَـيْسَ الَذِى خَلَقَ السَّمَـوتِ وَالاٌّرْضَ بِقَـدِرٍ عَلَى أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُم بَلَى وَهُوَ الْخَلَّـقُ الْعَلِيمُ نَّمَأ أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْياً أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ Is not He Who created the heavens and the earth, able to create the like of them. Yes, indeed! He is the All-Knowing Supreme Creator. Verily, His command, when He intends a thing, is only that He says to it, "Be!" and it is! (36:81-82) And Allah says here:

بوسیدہ ہڈیاں پھر توانا ہوں گی فرمان ہے کہ اوپر جن منکروں کو جس سزا کا ذکر ہوا ہم وہ اسی کے قابل تھے ، وہ ہماری دلیلوں کو جھوٹ سمجھتے تھے اور قیامت کے قائل ہی نہ تھے اور صاف کہتے تھے کہ بوسیدہ ہڈیاں ہو جانے کے بعد مٹی کے ریزوں سے مل جانے کے بعد ہلاک اور برباد ہو چکنے کے بعد کا دوبارہ جی اٹھنا تو عقل کے باہر ہے ۔ پس ان کے جواب میں قرآن نے اس کی ایک دلیل پیش کی کہ اس زبردست قدرت کے مالک نے آسمان و زمین کو بغیر کسی چیز کے اول بار بلا نمونہ پیدا کیا جس کی قدرت ان بلند و بالا ، وسیع اور سخت مخلوق کی ابتدائی پیدائش سے عاجز نہیں ۔ کیا وہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنے سے عاجز ہو جائے گا ؟ آسمان زمین کی پیدائش تو تمہاری پیدائش سے بہت بڑی ہے وہ ان کے پیدا کرنے میں نہیں تھکا کیا وہ مردوں کو زندہ کرنے سے بے اختیار ہو جائے گا ؟ کیا آسمان و زمین کا خالق انسانوں جیسے اور پیدا نہیں کر سکتا ؟ بیشک کر سکتا ہے اس کا حکم ہی چیز کے وجود کیلئے کافی وافی ہے ۔ وہ انہیں قیامت کے دن دوبارہ نئی پیدائش میں ضرور اور قطعا پیدا کرے گا اس نے ان کے اعادہ کی ، ان کے قبروں سے نکل کھڑے ہونے کی مدت مقرر کر رکھی ہے ۔ اس وقت یہ سب کچھ ہو کر رہے گا یہاں کی قدرے تاخیر صرف معینہ وقت کو پورا کرنے کیلئے ہے ۔ افسوس کس قدر واضح دلائل کے بعد بھی لوگ کفر و ضلالت کو نہیں چھوڑتے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

98۔ 1 یعنی جہنم کی یہ سزا ان کو اس لئے دی جائیگی کہ انہوں نے ہماری نازل کردہ آیات کی تصدیق نہیں کی اور کائنات میں پھیلی ہوئی تکوینی آیات پر غور و فکر نہیں کیا، جس کی وجہ سے انہوں نے و قوع قیامت اور بعث بعد الموت کو محال خیال کیا اور کہا کہ ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجانے کے بعد ہمیں نئی پیدائش کس طرح مل سکتی ہے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٦] انسان محیر العقول عادی باتوں پر غور نہیں کرتا اور واقع ہوجانے والی باتوں کا انکار کردیتا ہے :۔ انسان کی عادت ہے کہ کوئی بات خواہ کتنی ہی محیرالعقول ہو جب وہ عادت بن جائے تو اس میں غور کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ مثلاً سب سے زیادہ محیر العقول اس کا اپنا جسم ہے جو ہمہ وقت ایک آٹو میٹک مشین کی طرح کام کر رہا ہے جب سے وہ پیدا ہوا اس وقت سے اس کا دل حرکت کر رہا ہے اور مرتے دم تک حرکت کرتا رہے گا۔ اس میں ایک لمحہ وقفہ نہیں ہوتا اور جب وقفہ پڑے گا تو موت واقع ہوجائے گی۔ اسی طرح اس کے پھیپھڑے، معدہ، جگر، گردے سب اپنا اپنا کام اس طرح کر رہے ہیں کہ اسے کسی بات کی خبر نہیں ہوتی کہ اس کے اندر کیا کچھ ہو رہا ہے۔ وہ غذا کھاتا ہے تو از خود اس سے خون بنانے والی مشین اس کے اندر نصب ہے اسے خون میں تبدیل کرنا شروع کردیتی ہے اور جو فضلہ بچتا ہے تو طبیعت خود اسے مجبور کردیتی ہے کہ رفع حاجت کرے اور یہی خون اس کی زندگی کا سہارا ہے پھر اسی غذا کے ملغوبہ سے مادہ کے اندر دودھ بھی بنتا ہے پھر انسان کی تربیت اس کے دیکھنے کا نظام، اس کے سننے، اس کی نیند، نیند میں انسان کے گھسے ہوئے ذرات کی جگہ نئے ذرات پیدا ہونے کا نظام اللہ تعالیٰ کے ایسے ہی محیرالعقول کارنامے ہیں۔ لیکن ان میں انسان نے کبھی غور کرنا گوارا نہیں کیا دوسری طرف اس کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی محیر العقول بات اسے بتائی جائے کہ وہ مستقبل میں واقع ہوگی تو فوراً اس کا انکار کردیتا ہے اور ایسی بات کہنے والے کو دیوانہ کہنا شروع کردیتا ہے مثلاً دور نبوی میں اگر کوئی شخص یہ بات کہہ دیتا کہ ایک وقت آنے والا ہے جب ایک انسان دنیا کے ایک کنارے پر ہوگا اور دوسرا دوسرے کنارے پر اور وہ آپس میں بات چیت کریں گے تو یقیناً ایسے شخص کو دیوانہ کہہ دیا جاتا یا اسی طرح اگر کوئی یہ کہتا کہ ایک سواری پیدا ہوگی جو ہزاروں من بوجھ اٹھائے ہوا میں بڑی تیزی سے اڑا کرے گی تو ایسی بات کا سب لوگ انکار کردیتے۔ مگر آج جب ٹیلیفون اور ہوائی جہاز پیدا ہوگئے ہیں اور انسان کی عادت میں شامل ہوگئے ہیں تو اب ان کو تو تسلیم کرنے لگا ہے۔ مگر مستقبل کے متعلق اگر اب بھی کوئی محیرالعقول بات کہی جائے تو فوراً انکار کردے گا۔ بالکل ایسی ہی بات دوبارہ پیدا ہونے کی ہے۔ حالانکہ اگر وہ صرف اپنے جسم کی اندرونی ساخت پر ہی غور کرلیتا بلکہ کسی چھوٹے سے چھوٹے جانور کے جسم کی ساخت پر غور کرلیتا تو اسے معلوم ہوسکتا تھا کہ جو خالق ایسی محیرالعقول مشینری بنانے پر قادر ہے وہ اس کے ذرات کو اکٹھا بھی کرسکتی ہے اور اس میں روح پھونک کر دوبارہ اٹھا کر کھڑا بھی کرسکتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ جَزَاۗؤُهُمْ ۔۔ : اس آیت میں ان کی سزا کا سبب بیان فرمایا۔ دیکھیے بنی اسرائیل (٤٩) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ جَزَاۗؤُهُمْ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا وَقَالُوْٓا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًا 98؀ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ عظم العَظْمُ جمعه : عِظَام . قال تعالی: عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ، وقرئ : عظاما «1» فيهما، ومنه قيل : عَظْمَة الذّراع لمستغلظها، ( ع ظ م ) العظم کے معنی ہڈی کے ہیں اس کی جمع عظا م آتی ہے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ہڈیاں ( بنائیں ) پھر ہڈیوں پر گوشت ( پوست ) چڑھا یا ۔ ایک قرات میں دونوں جگہ عظم ہے اور اسی سے عظمۃ الذراع ہے جس کے معنی بازو کا موٹا حصہ کے ہیں عظم الرجل بغیر تنگ کے پالان کی لکڑی عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے ہو یا عقل سے ۔ رفت رَفَتُّ الشیء أَرْفُتُهُ رَفْتاً : فَتَّتُّهُ ، والرُّفَاتُ والْفُتَاتُ : ما تكسّر وتفرّق من التّبن ونحوه، قال تعالی: وَقالُوا أَإِذا كُنَّا عِظاماً وَرُفاتاً [ الإسراء/ 49] ، واستعیر الرُّفَاتُ للحبل المنقطع قطعة قطعة . ( ر ف ت ) الرفت یہ بات نصر کا مصدر ہے اور رفت الشئی کے معنی کسی چیز کو چورا چورا کردینے کے ہیں اور جو بھوسہ وغیرہ ریزہ ریزہ ہو کر بھکرجائے اسے رفات کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَقالُوا أَإِذا كُنَّا عِظاماً وَرُفاتاً [ الإسراء/ 49] اور کہا کرتے کہ جب ہم گل سٹر کر ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ اور استعارہ کے طور پر ( رفات اس رسی کو بھی کہتے ہیں ۔ جو پوسیدہ ہوکر ٹکڑے ہوگئ ہو ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] ، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] ، أي : توجههم ومضيّهم . ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے پس بعث دو قم) پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے جد الجَدُّ : قطع الأرض المستوية، ومنه : جَدَّ في سيره يَجِدُّ جَدّاً ، وکذلک جَدَّ في أمره وأَجَدَّ : صار ذا جِدٍّ ، وتصور من : جَدَدْتُ الأرض : القطع المجرد، فقیل : جددت الثوب إذا قطعته علی وجه الإصلاح، وثوب جدید : أصله المقطوع، ثم جعل لکل ما أحدث إنشاؤه، قال تعالی: بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ [ ق/ 15] ، إشارة إلى النشأة الثانية، وذلک قولهم : أَإِذا مِتْنا وَكُنَّا تُراباً ذلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ [ ق/ 3] ، وقوبل الجدید بالخلق لما کان المقصود بالجدید القریب العهد بالقطع من الثوب، ومنه قيل للیل والنهار : الجَدِيدَان والأَجَدَّان «1» ، قال تعالی: وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ [ فاطر/ 27] ، جمع جُدَّة، أي : طریقة ظاهرة، من قولهم : طریق مَجْدُود، أي : مسلوک مقطوع ومنه : جَادَّة الطریق، والجَدُود والجِدَّاء من الضأن : التي انقطع لبنها . وجُدَّ ثدي أمه علی طریق الشتم وسمي الفیض الإلهي جَدّاً ، قال تعالی: وَأَنَّهُ تَعالی جَدُّ رَبِّنا [ الجن/ 3] ، أي : فيضه، وقیل : عظمته، وهو يرجع إلى الأوّل، وإضافته إليه علی سبیل اختصاصه بملکه، وسمي ما جعل اللہ للإنسان من الحظوظ الدنیوية جَدّاً ، وهو البخت، فقیل : جُدِدْتُ وحُظِظْتُ وقوله عليه السلام : «لا ينفع ذا الجَدِّ منک الجَدُّ» أي : لا يتوصل إلى ثواب اللہ تعالیٰ في الآخرة بالجدّ ، وإنّما ذلک بالجدّ في الطاعة، وهذا هو الذي أنبأ عنه قوله تعالی: مَنْ كانَ يُرِيدُ الْعاجِلَةَ عَجَّلْنا لَهُ فِيها ما نشاء لِمَنْ نُرِيدُ [ الإسراء/ 18] ، وَمَنْ أَرادَ الْآخِرَةَ وَسَعى لَها سَعْيَها وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء/ 19] ، وإلى ذلك أشار بقوله : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء/ 88] . والجَدُّ : أبو الأب وأبو الأم . وقیل : معنی «لا ينفع ذا الجدّ» : لا ينفع أحدا نسبه وأبوّته، فکما نفی نفع البنین في قوله : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء/ 88] ، کذلک نفی نفع الأبوّة في هذا الحدیث . ( ج د د ) الجد ( مصدر رض ) کے اصل معنی ہمورار زمین پر چلنے کے ہیں ۔ اسی سے جد فی سیرہ ہے جس کے معنی تیز ردی کے ہیں اور جب کوئی شخص اپنے معاملات میں محنت اور جا نفشاتی سے کام کرے تو کہا جاتا ہے جد فی امرہ اور اجد ( افعال ) کے معنی صاحب جد ہونے کے ہیں اور جددت الارض سے کسی چیز کو کا ٹتے کا معنی لیا جاتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے جددتۃ ( میں نے درست کرنے کے لئے اسے کا تا ) اور ثواب جدید کے اصل؛ معنی قطع کئے ہوئے کپڑا کے ہیں اور چونکہ جس کپڑے کو کاٹا جاتا ہے وہ عموما نیا ہوتا ہے اس لئے ہر نئی چیز کو جدید جہا جانے لگا ہے اس بنا پر ایت : ۔ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ [ ق/ 15] میں خلق جدید سے نشاۃ ثانیہ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ نئے سرے سے پیدا ہونا مراد ہے کیونکہ کفار اس کا انکار کرتے ہوئے کہتے تھے ۔ أَإِذا مِتْنا وَكُنَّا تُراباً ذلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ [ ق/ 3] بھلا جب ہم مرگئے اور متی ہوگئے تو پھر زندہ ہوں گے ؟ یہ زندہ ہونا عقلیہ ہے ) بعید ہی اور جدید دنیا ) خلق یعنی پرانا کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اس اعتبار سے رات دن کو عبدید ان اور اجدان کہا جاتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ [ فاطر/ 27] اور پہاڑوں میں سفید رنگ کے قطعات ہیں میں جدد کا واھد جدۃ ہے کس کے معنی کھلے راستہ کے ہیں اور یہ طریق مجژود کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی وہ راستہ جس پر چلا جائے اسی سے جا دۃ الطریق ہے جس کے معنی شاہراہ یا ہموار اور راستہ کے درمیانی حصہ کے ہیں جس پر عام طور پر آمد ورفت ہوتی رہتی ہے ) الجدود والجداء خشک تھنوں والی بھیڑ بکری اور سب وشتم کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ جد ثدی امہ اس کی ماں کے پستان خشک ہوجائیں اور جد کا لفظ فیظ الہی پر معنی بولا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَأَنَّهُ تَعالی جَدُّ رَبِّنا [ الجن/ 3] اور یہ کہ ہماری پروردگار کا فیضان بہت بڑا ہے ۔ میں جد بمعنی فیض الہی ہی کے ہے ۔ بعض کے نزدیک اس کے معنی عظمت کے ہیں لیکن اس کا مرجع بھی معنی والی کی طرف ہی ہے اور اللہ تعالے کی طرف اس کی اضافت اختصاص ملک کے طریق سے ہے اور حظوظ دینوی جو اللہ تعالے انسان کو بخشتا ہے پر بھی جد کا لفظ بولا جاتا ہے جس کے معنی بخت ونصیب کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے جددت وحظظت خوش قسمت اور صاحب نصیب ہوگیا اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ دنیاوی مال وجاہ سے آخرت میں ثواب حاصل نہیں ہوسکے گا بلکہ آخروی ثواب کے حصول کا ذریعہ صرف طاعت الہی ہے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْعاجِلَةَ عَجَّلْنا لَهُ فِيها ما نشاء لِمَنْ نُرِيدُ [ الإسراء/ 18] کے بعد فرمایا : ۔ وَمَنْ أَرادَ الْآخِرَةَ وَسَعى لَها سَعْيَها وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء/ 19] اور جو شخص آخرت کا خواستکا ر ہو اور اور اس میں اتنی کوشش کرے ۔ جتنی اسے لائق ہے اور وہ مؤمن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ نیز اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء/ 88] . جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے گا اور نہ بیٹے ۔ الجد ( ایضا ) دادا ۔ نانا ۔ بعض نے کہا ہے کہ لا ینفع ذالجد کے معنی یہ ہی کے اسے آبائی نسب فائدہ نہیں دے گا اور جس طرح کہ آیت : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء/ 88] ہیں اولاد کے فائدہ بخش ہونے کی نفی کی ہے اسی طرح حدیث میں اباؤ اجداد کے نفع بخش ہونے کی نفی کی گئی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٨) یہ عذاب ان کو اس سبب سے ملے گا کہ انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کا انکار کیا تھا اور کفار مکہ نے یوں کہا تھا کہ جب ہم پرانی ہڈیاں اور وہ بھی ریزہ ریزہ ہوجائیں گی تو کیا ہمیں پھر زندہ کیا جائے گا اور دوباہ ہمارے اندرروح پھونکی جائے گی، ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٨۔ ٩٩:۔ اوپر نافرمان لوگوں کے عذاب کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا کہ یہ عذاب ان لوگوں پر کچھ ظلم کے طور پر نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پر حرام ٹھہرایا ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی روایت کی حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے ١ ؎۔ جس میں یہ ذکر ہے کہ ظلم اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے اس لیے فرمایا کیا ان لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ان کی عقل سے باہر اس پاک ذات نے بغیر ستون کے آسمان کس طرح بنائے اور پانی پر زمین کیونکر بچھائی پھر آدم (علیہ السلام) کے پتلے کی طرح مٹی سے ان کے دوبارہ پتلے بنانا اور ان میں روح کا پھونکنا اس کی قدرت کے آگے کیا مشکل ہے۔ وہی یہ بات کہ آخر یہ کب ہوگا اس کے واسطے اللہ کے کارخانہ میں ایک وقت مقرر ہے اس وقت کو بغیر کسی سند کے جو یہ لوگ جھٹلاتے ہیں اس کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑے گا۔ مسند امام احمد کے حوالہ سے حضرت عائشہ (رض) کی صحیح حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے ٢ ؎ کہ منکر نکیر کے سوال اور مردہ کے جواب کے بعد نیک شخص کو جنت کا اور بدشخص کو دوزخ کا ٹھکانہ دکھا کر فرشتے یہ جتلا دیتے ہیں کہ اس ٹکھانے میں رہنے کے لیے تم کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا ٣ ؎۔ ابوداؤد اور مسند امام احمد کے حوالہ سے براء بن عازب کی صحیح حدیث بھی گزر چکی ہے ٤ ؎۔ کہ نیک لوگ اپنا جنت کا ٹھکانا دیکھ کر قیامت کے جلدی سے قائم ہونے کی اور بد لوگ اپنے دوزخ کے ٹھکانا سے ڈر کر قیامت کے قائم نہ ہونے کی آرزو کریں گے ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اب تو یہ لوگ مسخرا پن سے قیامت کے آنے کی جلدی کرتے ہیں مگر مرنے کے ساتھ ہی جب ان کا قیامت کا انجام ان کو دکھا دیا جائے گا تو پھر اس سے ڈر کر بجائے قیامت کی جلدی کے انہیں قیامت کے قائم نہ ہونے کی آرزو کرنی پڑے گی۔ ١ ؎ مثلا تفسیر ہذاص ٣٤ ج ٣۔ ٢ ؎ تفسیرہذاص ١٧١ ج ٢۔ ٣ ؎ تفسیر ہذاص ١٧١ ج ٢۔ ٤ ؎ ایضا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:98) ذلک۔ اس کا مشار الیہ یا تو قول باری تعالیٰ کلما خبت زدناہم سعیرا ہے۔ یا ونحشرہم یوم القیمۃ علی وجوہہم سے لے کر سعیرا تک جو منکرین کا حال بیان ہوا ہے۔ رفاتا۔ بوسیدہ ۔ گلا ہوا۔ چورا چورا ہوا ہوا۔ (نیز ملاحظہ ہو 17:49) ۔ مبعوثون۔ اسم مفعول جمع مذکر مرفوع۔ قبروں سے دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جانے والے۔ بعث مصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذلک جزا اوھم بانھم کفروا بایتنا (٧١ : ٨٩) ” یہ بدلہ ہے ان کی اس حرکت کا کہ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا “۔ انہوں نے بعث بعد الموت کا انکار کیا۔ اور وقوع قیامت کو مستبعد سمجھتا۔ وقالواء ………جدیدا (٧١ : ٨٩) ” اور کہا کیا جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو نئے سرے سے ہم کو پیدا کرکے اتھا کر کھڑا کیا جائے گا “۔ سیاق کلام میں اس منظر کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے گویا وہ آج موجود ہے۔ اور وہ دنیا جس میں وہ رہ رہے تھے اسے گویا لپیٹ لیا گیا ہے اور وہ ماضی بعید بن گئی ہے۔ یہ قرآن کا مخصوص انداز بیان ہے کہ وہ مستقبل کے واقعات کو نہایت ہی مجسم شکل میں پیش کرتا ہے اور منظر یوں نظر آتا ہے کہ گویا وہ ایک زندہ واقعہ ہے اس طرح واقعات کا اثر دلوں پر بہت ہی گہرا ہوتا ہے۔ اور انسانی شعور پر یہ واقعات اپنا پورا اثر التے ہیں۔ اب قرآن مجید حقیقی صورت حالت ان کے سامنے رکھتا ہے اور انداز سخن بھی واقعی بن جاتا ہے۔ اور یہ بتایا جاتا ہے کہ تم اس حقیقت کو دیکھ رہے ہو مگر غفلت سے کام لے رہے ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (ذٰلِکَ جَزَآءُ ھُمْ ) (الآیۃ) ان لوگوں کی یہ سزا اس لیے ہوگی کہ انہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا اور حشر نشر کی بات سن کر اعتراض اور تکذیب کے پیرائے میں یوں کہا کہ ہم قبروں میں گل جائیں گے صرف ہڈیاں رہ جائیں گی اور ان کا بھی چورا بن جائے گا تو اس وقت کیا پھر نئے سرے سے پیدا ہوں گے یہ تو سمجھ میں آنے والی بات نہیں ! ان کے جواب میں فرمایا کہ ان لوگوں کا انکار اور استہزاء بےمحل ہے اس بات کا تو انہیں اقرار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا جس نے اتنی بڑی مخلوق پیدا کردی وہ ان جیسے آدمی دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے ارواح تو باقی رہتی ہیں اجسام کا دوبارہ پیدا فرما دینا اس میں کوئی بات نہیں جو عقل یا فہم کے خلاف ہو ہاں اتنی بات ہے کہ قیامت کے دن کے لیے ایک میعاد مقرر فرما رکھی ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے جب وقت موعود آجائے گا تو قیامت آجائے گی، مردے زندہ ہوجائیں گے اور قبروں سے اٹھ کر محشر کی طرف جمع ہوں گے۔ لوگوں کی تکذیب اور اعتراض و انکار کی وجہ سے مقررہ اجل سے پہلے قیامت واقع نہیں ہوگی اس بات کو نہ دیکھیں کہ عرصہ دراز ہوگیا قیامت نہیں آئی جو دلائل پیش کیے جا رہے ہیں ان میں غور کریں، دلائل میں تو غور کرتے نہیں حق کو مانتے نہیں کفر ہی پر اڑے ہوئے اور اسی کو اپنے لیے پسند کرتے ہیں (فَاَبَی الظّٰلِمُوْنَ اِلَّا کُفُوْرًا) (سو ظالموں نے بس انکار ہی کیا۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

85:۔ یہ عذاب جہنم ان کو اس لیے دیا جائیگا کہ انہوں نے دلائل توحید کا صاف طور سے انکار کردیا ہے اور شرک سے باز نہیں آئے نیز وہ حشر و نشر کا انکار کرتے ہیں حالانکہ اس کی دلیل بالکل ظاہر اور واضح ہے ” اولم یروا الخ “ ثبوتِ قیامت پر عقلی دلیل ہے جس ذات پاک اور قادر وقیوم نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کرلیا کیا وہ انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟ سب کے دوبارہ جی اٹھنے کی اللہ تعالیٰ نے ایک اجل مقرر کردی ہے جس کے حق ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ایسی ظاہر و باہر دلیل کے باوجود ان ظالموں نے اللہ کی توحید اور حشر و نشر کا انکار ہی کیا اور ماننے پر نہ آئے (الا کفورا) جحودا لما اتی بہ الصادق من توحید اللہ وافرادہ بالعبادۃ و بعثھم یوم القیامۃ للجزاء (بحر ج 6 ص 83) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

98 یہ جہنم ان کی سزا اس سبب سے ہوگی کہ انہوں نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا تھا اور یوں کہا تھا کہ کیا جب ہم مرنے کے بعد ہڈیاں اور بالکل ریزہ ریزہ ہوجائیں گیتو کیا ہم پھر از سر نو زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔ یعنی مذکورہ سزا ان کو اس وجہ سے دی جائے گی کہ احکام الٰہی کا انکار کرتے تھے اور مرنے کے بعد عالم آخرت کی زندگی کے قائل نہ تھے۔