اس سورت کی فضیلت کا بیان خصوصا اس کی اور آخر کی دس آیتوں کی فضیلت کا بیان اور یہ کہ یہ سورت فتنہ دجال سے محفوظ رکھنے والی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک صحابی نے اس کی تلاوت شروع کی ان کے گھر میں ایک جانور تھا اس نے اچھلنا بدکنا شروع کر دیا صحابی نے جو غور سے دیکھا تو انہیں سائبان کی طرح کا ایک بادل نظر پڑا جس نے ان پر سایہ کر رکھا تھا انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ نے فرمایا پڑھتے رہو یہ ہے وہ سکینہ جو اللہ کی طرف سے قرآن کی تلاوت پڑ نازل ہوتا ہے ۔ بخاری میں تین آیتوں کا بیان ہے ۔ مسلم میں آخری دس آیتوں کا ذکر ہے نسائی میں دس آیتوں کو مطلق بیان کیا گیا ہے ۔ مسند احمد میں ہے جو شخص اس سورہ کہف کا اول آخر پڑھ لے اس کے لئے اس کے پاؤں سے سر تک نور ہو گا اور جو اس ساری سورت کو پڑھے اسے زمین سے آسمان تک کا نور ملے گا ۔ ایک غریب سند سے ابن مردویہ میں ہے کہ جمعہ کے دن جو شخص سورہ کہف پڑھ لے اس کے پیر کے تلووں سے لے کر آسمان کی بلندی تک کا نور ملے گا جو قیامت کے دن خوب روشن ہو گا اور دوسرے جمعہ تک کے اس کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے ۔ اس حدیث کے مرفوع ہو نے میں نظر ہے ۔ زیادہ اچھا تو اس کا موقوف ہونا ہی ہے ۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس نے سورہ کہف جمعہ کے دن پڑھ لی اس کے پاس سے لے کر بیت اللہ شریف تک نورانیت ہو جاتی ہے ۔ مستدرک حاکم میں مرفوعا مروی ہے کہ جس نے سورہ کہف جمعہ کے دن پڑھی اس کے لئے وہ جمعہ کے درمیان تک نور کی روشنی رہتی ہے ۔ بیہقی میں ہے کہ جس نے سورہ کہف اسی طرح پڑھی جس طرح نازل ہوئی ہے اس کے لئے قیامت کے دن نور ہو گا ۔ حافظ ضیاء مقدسی کی کتاب المختارہ میں ہے جو شخص جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کر لے گا وہ آٹھ دن تک ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رہے گا یہاں تک کہ اگر دجال بھی اس عرصہ میں نکلے تو وہ اس سے بھی بچا دیا جائے گا
کہف کے معنی غار کے ہیں۔ اس میں اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس لئے اسے سورة کہف کہا جاتا ہے۔ اس کی ابتدائی دس آیات اور آخری دس آیات کی فضیلت حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ جو ان کو یاد کرے اور پڑھے گا وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا (صحیح مسلم) اور اس کی تلاوت جمعہ کے دن کرے گا تو آئندہ جمعے تک اس کے لئے خاص نور کی روشنی رہے گی، اور اس کے پڑھنے سے گھر میں سکون و برکت نازل ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے سورة کہف پڑھی گھر میں ایک جانور بھی تھا، وہ بدکنا شروع ہوگیا، انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے ؟ تو انھیں ایک بادل نظر آیا، جس نے انھیں ڈھانپ رکھا تھا، صحابی نے اس واقعہ کا ذکر جب نبی سے کیا، تو آپ نے فرمایا، اسے پڑھا کرو۔ قرآن پڑھتے وقت سکینۃ نازل ہوتی ہے (صحیح بخاری) 1۔ 1 یا کوئی کجی اور راہ اعتدال سے انحراف اس میں نہیں رکھا بلکہ اسے قیم یعنی سیدھا رکھا۔ یا قیم کے معنی، بندوں کے دینی و دنیاوی مصالح کی رعایت و حفاظت کرنے والی کتاب۔
[ ١] سورة کہف کی فضیلت میں مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ براء بن عازب کہتے ہیں کہ ایک شخص رات کو گھر میں یہ سورت پڑھ رہا تھا اور گھوڑا بھی وہیں بندھا ہوا تھا گھوڑا بدکنے لگا۔ اس نے اوپر جو سر اٹھا کر دیکھا تو ایک نور دکھائی دیا جو بادل کی طرح سایہ کیے ہوئے تھا صبح اس نے یہ واقعہ رسول اللہ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا یہ سکینہ (نور اطمینان) ہے جو اس کے پڑھنے سے نازل ہوئی تھی۔ (ترمذی، ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی سورة کہف) اس واقعہ کو بخاری اور مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ ٢۔ سیدنا ابو الدرداء کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص اس سورة کی ابتدائی تین آیات پڑھتا رہے وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا (ترمذی، ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی سورة الکہف) اور مسلم میں اس طرح ہے کہ جو شخص سورة کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرے وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔ (مسلم بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب فضائل القرآن۔ پہلی فصل) ٣۔ ابو سعید کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن سورة کہف پڑھے دو جمعوں کے درمیان اس کے لیے نور روشن ہوجاتا ہے۔ (بیہقی فی الدعوات الکبیر۔ بحوالہ مشکوۃ کتاب فضائل القرآن۔ تیسری فصل) [ ١۔ الف ] یعنی اللہ تعالیٰ کے مستحق حمد و ثنا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایسی کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے مطالب صاف صاف بیان کرتی ہے نہ اس کے مطالب میں کوئی پیچ و خم ہے اور نہ اس کے انداز بیان میں کوئی پیچیدگی یا الجھاؤ ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ ۔۔ : یہ سورت ان پانچ سورتوں میں شامل ہے جن کی ابتدا ” اَلْحَمْدُ “ کے ساتھ ہوئی ہے، دوسری چار سورتیں فاتحہ، انعام، سبا اور فاطر ہیں۔ پچھلی سورت کا خاتمہ بھی ” اَلْحَمْدُ “ کے ساتھ ہوا ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہر کام کی ابتدا اور انتہا اللہ کے پاکیزہ نام کے ساتھ یا اس کی حمد کے ساتھ کرنی چاہیے۔ ان تمام سورتوں میں سے ہر سورت کا طریقہ اگرچہ مختلف ہے مگر مقصود لوگوں کو اس بات کا یقین دلانا ہے کہ حمد کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، اور کوئی نہیں، کیونکہ کسی میں کوئی خوبی ہے تو اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہے۔ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ : سورة فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کے تمام حمد کا مالک ہونے کی دلیل کے لیے چار صفات بیان ہوئی ہیں، یہاں اللہ تعالیٰ کے تمام حمد اور خوبیوں کا مالک ہونے کی ایک ہی دلیل بیان کی گئی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر ” اَلْکِتٰب “ نازل فرمانا ہے۔ کیونکہ دوسرے تمام انعامات اگرچہ ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں مگر یہ نعمت سب سے اہم ہے، کیونکہ اس پر ہمیشہ کی زندگی یعنی اخروی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ہے۔ عَلٰي عَبْدِهِ : ” اپنے بندے پر، اپنے غلام پر “ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا خاص عبد قرار دینے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بےانتہا شان بیان ہوئی ہے، اگرچہ زمین و آسمان میں رہنے والی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی غلام ہے، مگر ” اپنا غلام “ کہنے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو عزت ملی وہ بہت کم لوگوں کو ملی ہے، جیسا کہ (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ ) [ بنی إسرائیل : ١ ] میں ہے اور اس کتاب کی بھی تعریف ہے جو نازل کی گئی۔ ” اَلْکِتٰبُ “ میں الف لام عہد کا ہے، یعنی یہ کتاب، مراد قرآن کریم ہے، کیونکہ جب صرف ” اَلْکِتٰب “ کہا جائے تو قرآن کریم ہی مراد ہوتا ہے، اس لیے کہ اس کے سوا کسی اور میں یہ کمال ہی نہیں کہ اسے ” اَلْکِتٰب “ کہا جاسکے۔ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا : ” عِوَجًا “ کجی، ٹیڑھا پن۔ ” عِوجاً “ پر تنوین عموم کے لیے ہے جو نفی کے بعد آکر مزید عام ہوگیا ہے، یعنی اس کتاب میں کسی بھی قسم کا کوئی ٹیڑھا پن نہیں، نہ الفاظ میں، نہ معانی میں، نہ فصاحت و بلاغت میں، نہ یہ کہ اس کی آیات کا آپس میں کوئی اختلاف ہو، یا اس کی کوئی خبر غلط نکلے، یا کوئی حکم حکمت سے خالی ہو۔ دیکھیے زمر (٢٨) ، بنی اسرائیل (٩ تا ١٠) اور نساء (٨٢) ۔
The properties and merits of Surah al-Kahf According to a narration of Sayyidna Abu al-Darda (رض) appearing in Muslim, Abu Dawud, Tirmidhi, al-Nasa i and the Musnad of Ahmad, one who has memorized the first ten verses of Surah al-Kahf will remain pro¬tected from the ill effects of Dajjal (imposter). In another report in the same books and from the same authority, the same thing has been said about having memorized the last ten verses of Surah al-Kahf. And it has been reported in the Musnad of Ahmad on the authority of Sayyidna Sahl ibn Mu` adh (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"One who recites the first and the last verses of Surah al-Kahf, for him there is light from his feet up to his head. And the one who were to recite the whole Surah, then, for him there is light from the earth up to the sky.|" And it appears in some narratives that a person who recites Surah al-Kahf on the day of Jumu ah will have light from his feet up to the sky. This light will serve him well on the day of Qiyamah, and every sin com¬mitted by him between the past and the present Jumu ah will be forgiv¬en.|" (Imam Ibn Kathir has declared this report to be mawquf (a Hadith the narration of which stops at a Sahabi and does not ascend to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)). And Hafiz Zya al-Maqdisi, in his book Al-Mukhtarah, has reported on the authority of Sayyidna ` Ali (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"One who recites Surah al-Kahf on the day of Jumu ah will remain protected from every fitnah. And if Dajjal appears, he will stay safe against the trying challenges released by him as well.|" (All these narrative reports have been taken from Tafsir ibn Kathir) According to a report from Dailami on the authority of Sayyidna Anas (رض) appearing in Ruh al-Ma’ ani, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"The entire Surah al-Kahf was revealed at one time and seventy thousand angels came with it|" - which shows its majesty. The cause of revelation Imam ibn Jarir al-Tabari has reported from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) عنہما that the Quraysh of Makkah (disturbed by the rising influence of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as a prophet) sent two of their men, Nadr ibn Harith and Uqbah ibn Abi Mu` ayt, to the Jewish scholars of Madinah. Their mission was to find out what they said about him as they were learned in past scriptures of the Torah and Injil. The Jewish scholars told them, |"put three questions before him. If he answers these correctly,* you should know that he is a Prophet and Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and if he fails to do that, you should know that he is a pretender and not a messenger. Firstly, ask him about the young men who had left their city in the distant past and what had happened to them, for this is a unique event. Secondly, ask him about the person who had traveled through the East and West of the Earth and what had happened to him. Thirdly, ask him about the Ruh (soul, spirit) as to what it was?|" * That is, he gives the answer he should give (and his correct answer to the question about Rte will be that Allah Ta` ala knows its reality best). So, this report which appears in Tafsir al-Tabari, p. 191, v. 15 is not contrary to the report which has ap¬peared on pages 544-47 of this volume under the commentary on verse 85 of Surah Banff Isra il - Muhammad Taqi Usmani. The two Quraysh emissaries returned to Makkah al-Mukarramah, informed their tribesmen that they had come back with a decisive plan of action and told them all about their encounter with the Jewish scholars of Madinah. Then, these people took these questions to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He heard the questions and said that he will answer them tomorrow. But, he forgot to say insha Allah at that time. These people went back and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) kept waiting for the Divine revelation in the hope that he will be told about answers to these questions through wahy. But, no wahy came until the next day as promised. In fact, fifteen days went by and things stood as they were, neither did Sayyidna Jibra il come nor did the revelation. The Quraysh of Makkah started throwing taunts which caused real pain to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . After fifteen days, came angel Jibra il with Surah al-Kahf (wherein the delay caused has also been explained by saying that one should say insha Allah when promising to do something in the future. Since, this was not done in the event concerned, therefore, revelation was delayed as a measure of reminder. In this Surah, verses relating to this matter such as: وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ (18:23, 24) will be appearing later). Also related in this Surah there was the event about the young men known as Ashab al-Kahf or the People of the Cave, and the event concerning the travel of Dhul-Qarnain from the East to the West. Also included therein was the answer to the question asked about Ruh (Qurtubi and Mazhari with reference to Ibn Jarir). But, answering the question about Ruh (soul, spirit) briefly was as dictated by wisdom. This was taken up separately at the end of Surah Bani Isra il (17:85) and this is the reason why Surah al-Kahf has been placed after Surah Bani Isra il [ al-Isra ] - as mentioned by Al-Suyuti. Commentary The word: عوج ( iwaj) in: وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا (and allowed no crooked¬ness in it - 1) means crookedness of any kind, or inclination towards one side or deviation from the norms of rectitude. The Holy Qur an remains pure and free of all that in terms of the perfection of its words and mean¬ings. It simply admits of no distortion anywhere, either in eloquence or in knowledge and wisdom. The sense which has been conveyed in a negative or eliminative form through: ` وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا (and allowed no crooked¬ness in it) has been fortified positively through the word: قَيِّمًا (qayyima) which follows immediately for emphasis. The reason is that this word carries the sense of: مُستَقِیمَا (mustaqima) and that which is: مُستَقِیم (musta¬qim: straightforward, straight, upright) will not have the least crooked¬ness or tilt towards any side. However, قَیَّم (qayyim) can also have anoth¬er sense, that of caretaker, custodian and protector. Given this probability, the sense of the expression would be that the Qur’ an, while perfect in itself as free from all kinds of excess, deficiency and crooked¬ness, keeps others upright, firm and unflinching and protects the inter-ests and advantages of all servants of Allah. Thus the gist of the two ex¬pressions would be that the Holy Qur an stands perfect in itself and has the ability to make men and women created by Allah become equally per¬fect. (Mazhari)
سورة کہف کی خصوصیات اور فضائل : مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، مسند احمد میں حضرت ابو الدردا (رض) سے ایک روایت ہے کہ جس شخص نے سورة کہف کی پہلی دس آیتیں حفظ کرلیں وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا، اور کتب مذکورہ میں حضرت ابوالدردا (رض) ہی سے ایک دوسری روایت میں یہی مضمون سورة کہف کی آخری دس آیتیں یاد کرنے کے متعلق منقول ہے اور مسند احمد میں بروایت حضرت سہل بن معاذ (رض) یہ منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص سورة کہف کی پہلی اور آخری آیتیں پڑھ لے تو اس کے لئے اس کے قدم سے سر تک ایک نور ہوجاتا ہے اور جو پوری سورت پڑھ لے جو اس کے لئے زمین سے آسمان تک نور ہوجاتا ہے۔ اور حافظ ضیاء مقدسی نے اپنی کتاب مختارہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن سورة کہف پڑھ لے وہ آٹھ روز تک ہر فتنہ سے معصوم رہے گا، اور اگر دجال نکل آئے تو یہ اس کے فتنہ سے بھی معصوم رہے گا۔ { یہ سب روایات تفسیر ابن کثیر سے لی گئی ہیں } روح المعانی میں دیلمی سے بروایت حضرت انس (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سورة کہف پوری کی پوری ایک وقت میں نازل ہوئی، اور ستر ہزار فرشتے اس کے ساتھ آئے، جس سے اس کی عظمت شان ظاہر ہوتی ہے۔ شان نزول : امام ابن جریر طبری نے بروایت حضرت ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ ( مکہ مکرمہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا چرچا ہوا اور قریش مکہ اس سے پریشان ہوئے تو) انہوں نے اپنے دو آدمی نضر بن حارث اور عقبہ ابن ابی معیط کو مدینہ طیبہ کے علماء یہود کے پاس بھیجا کہ وہ لوگ کتب سابقہ تورات و انجیل کے عالم ہیں وہ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ علماء یہود نے ان کو بتلایا کہ تم لوگ ان سے تین سوالات کرو، اگر انہوں نے ان کا جواب صحیح دے دیاتو سمجھ لو کہ وہ اللہ کے نبی ہیں، اور یہ نہ کرسکے تو یہ سمجھ لو کہ یہ بات بنانے والے ہیں رسول نہیں۔ ایک تو ان سے ان نوجوانوں کا حال دریافت کرو جو قدیم زمانے میں اپنے شہر سے نکل گئے تھے ان کا کیا واقعہ ہے، کیونکہ یہ واقعہ عجیبہ ہے، دوسرے ان سے اس شخص کا حال پوچھو جس نے دنیا کی مشرق و مغرب اور تمام زمین کا سفر کیا اس کا کیا واقعہ ہے، تیسرے ان سے روح کے متعلق سوال کرو کہ وہ کیا چیز ہے ؟ یہ دونوں قریشی مکہ مکرمہ واپس آئے اور اپنی برادری کے لوگوں سے کہا کہ ہم ایک فیصلہ کن صورت حال لے کر آئے ہیں، علماء یہود کا پورا قصہ سنا دیا، پھر یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں یہ سوالات لے کر حاضر ہوئے، آپ نے سن کر فرمایا کہ میں اس کا جواب کل دوں گا، مگر آپ اس وقت انشاء اللہ کہنا بھول گئے یہ لوگ لوٹ گئے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی الہی کے انتطار میں رہے کہ ان سوالات کا جواب وحی سے بتلا دیا جائے گا، مگر وعدے کے مطابق اگلے دن تک کوئی وحی نہ آئی، بلکہ پندرہ دن اسی حال پر گذر گئے کہ نہ جبرائیل امین آئے نہ کوئی وحی نازل ہوئی، قریش مکہ نے مذاق اڑانا شروع کیا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے سخت رنج و غم پہونچا۔ پندرہ دن کے بعد جبرائیل امین سورة کہف لے کر نازل ہوئے (جس میں تاخیر وحی کا سبب بھی بیان کردیا گیا ہے کہ آئندہ زمانے میں کسی کام کے کرنے کا وعدہ کیا جائے تو انشاء اللہ کہنا چاہیے، اس واقعہ میں چونکہ ایسا نہ ہوا اس پر تنبیہ کرنے کے لئے وحی میں تاخیر ہوئی، اس سورة میں اس معاملہ کے متعلق یہ آیتیں آگے آئیں گی (آیت) (وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ ) اور اس سورة میں نوجوانوں کا واقعہ بھی پورا بتلا دیا گیا، جن کو اصحاب کہف کہا جاتا ہے، اور مشرق و مغرب کے سفر کرنے والے ذوالقرنین کے واقعہ کا بھی مفصل بیان آ گیا، اور روح کے سوال کا جواب بھی، (قرطبی و مظہری بحوالہ ابن جریر) (مگر روح کے سوال کا جواب اجمال کے ساتھ دینا مقتضائے حکمت تھا، اس کو سورة بنی اسرائیل کے آخر میں علیحدہ کر کے بیان کردیا گیا، اور اسی سبب سے سورة کہف کو سورة بنی اسرائیل کے بعد رکھا گیا ہے، کذا اذکرہ السیوطی) ۔ خلاصہ تفسیر : تمام خوبیاں اس اللہ کے لئے ثابت ہیں جس نے اپنے (خاص) بندے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ کتاب نازل فرمائی، اور اس (کتاب) میں (کسی قسم کی) ذرا بھی کجی نہیں رکھی (نہ لفظی کہ فصاحت و بلاغت کے خلاف ہو، اور نہ معنوی کہ اس کا کوئی حکم حکمت کے خلاف ہو بلکہ اس کو) بالکل استقامت کے سانھ موصوف بنایا ( اور نازل اس لئے کیا کہ) تاکہ وہ ( کتاب کافروں کو عموما) ایک سخت عذاب سے جو من جانب اللہ (ان کو آخرت میں ہوگا) ڈرائے اور اہل ایمان کو جو نیک کام کرتے ہیں یہ خوشخبری دے کہ ان کو (آخرت میں) اچھا اجر ملے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور تاکہ (کفار میں سے بالخصوص) ان لوگوں کو (عذاب سے) ڈرائے جو یوں کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ اولاد رکھتا ہے (اور اولاد کا عقیدہ رکھنے والے کافروں کا عام کافروں سے الگ کر کے اس لئے بیان کیا گیا کہ اس باطل عقیدہ میں عرب کے عام لوگ مشرکین، یہود، نصاری سب ہی مبتلا تھے) نہ تو اس کی کوئی دلیل ان کے پاس ہے، اور نہ ان کے باپ دادوں کے پاس تھی، بڑی بھاری بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے، (اور) وہ لوگ بالکل (ہی) جھوٹ بکتے ہیں (جو عقلا بھی ناممکن ہے، کوئی ادنی عقل والا بھی اس کا قائل نہیں ہو سکتا، اور آپ جو ان لوگوں کے کفر و انکار پر اتنا غم کرتے ہیں کہ) سو شاید آپ ان کے پیچھے اگر یہ لوگ اس مضمون (قرآنی) پر ایمان نہ لائے تو غم سے اپنی جان دیدیں گے (یعنی اتنا غم نہ کیجئے کہ ہلاکت کے قریب کر دے، وجہ یہ ہے کہ دنیا عالم امتحان ہے، اس میں ایمان و کفر اور خیر وشر دونوں کا مجموعہ ہی رہے گا، سبھی مومن ہوجائیں گے ایسا نہ ہوگا، اسی امتحان کے لئے) ہم نے زمین پر کئی چیزوں کو اس (زمین) کے لئے باعث رونق بنایا، تاکہ ہم (اس کے ذریعہ) لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں سے زیادہ اچھا عمل کون کرتا ہے (یہ امتحان کرنا ہے کہ کون اس دنیا کی زنیت اور رونق پر مفتون ہو کر اللہ سے آخرت سے غافل ہوجاتا ہے اور کون نہیں، غرض یہ کہ یہ عالم ابتلا ہے، اور ان کے کفر کا نتیجہ دنیا ہی میں ظاہر ہوجانے کا انتظار نہ کیجئے کیونکہ وہ ہمارا کام ہے، ایک مقررہ وقت پر ہوگا، چناچہ ایک روز وہ آئے گا کہ) ہم زمین کی تمام چیزوں کو ایک صاف میدان کردیں گے ( نہ اس پر کوئی بسنے والا رہے گا نہ کوئی درخت اور پہاڑ اور نہ کوئی مکان و تعمیر، خلاصہ یہ ہے کہ آپ اپنا کام تبلیغ کا کرتے رہئے، منکرین کے انجام بد کا اتنا غم نہ کیجئے) ۔ معارف و مسائل : (آیت) وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاقَـيِّمًا لفظ عوج کے معنی کسی قسم کی کجی اور ایک طرف جھکاؤ کے ہیں قرآن کریم اپنے لفظی اور معنوی کلام میں اس سے پاک ہے، نہ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے کسی جگہ ذرہ برابر کمی یا کجی ہو سکتی ہے نہ علم و حکمت کے لحاظ سے، جو مفہوم لفظ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا سے ایک منفی صورت میں بتلایا گیا ہے، پھر تاکید کے لئے اسی مضمون کو مثبت طور پر لفظ قیما سے واضح کردیا ہے، کیونکہ قیما کے معنے ہیں مستقیما اور مستقیم وہی ہے جس میں کوئی ادنی کجی اور میلان کسی جانب نہ ہو، اور یہاں قیم کے ایک دوسرے معنی بھی ہو سکتے ہیں، یعنی نگران اور محافظ، اس معنی کے لحاظ سے اس لفظ کا مفہوم یہ ہوگا کہ قرآن کریم جیسا اپنی ذات میں کامل مکمل ہر قسم کی کجی اور افراط وتفریط سے پاک ہے، اسی طرح یہ دوسروں کو بھی استقامت پر رکھنے والا اور بندوں کی تمام مصالح کی حفاظت کرنے والا ہے، اب خلاصہ ان دونوں کا یہ ہوجائے گا کہ قرآن کریم خود بھی کامل و مکمل ہے اور مخلوق خدا کو بھی کامل و مکمل بنانے والا ہے (مظہری)
سورة الْكَهْف نام : اس سورہ کا نام پہلے رکوع کی نویں آیت اِذْ اَوَی الْفِتْیَۃُ اِلَی الْکَھْفِ سے ماخوذ ہے ۔ اس نام کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورت جس میں کہف کا لفظ آیا ہے ۔ زمانۂ نزول : یہاں سے ان سورتوں کا آغاز ہوتا ہے جو مکی زندگی کے تیسرے دور میں نازل ہوئی ہیں ۔ مکی زندگی کو ہم نے چار بڑے بڑے دوروں میں تقسیم کیا ہے جن کی تفصیل سورہ انعام کے دیباچے میں گزر چکی ہے ۔ اس تقسیم کے لحاظ سے تیسرا دور تقریبا ۵ نبوی کے آغاز سے شروع ہو کر قریب قریب ۱۰ نبوی تک چلتا ہے ۔ اس دور کو جو چیز دوسرے دور سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے دور میں تو قریش نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی تحریک اور جماعت کو دبانے کے لیے زیادہ تر تضحیک ، استہزاء ، اعتراضات ، الزامات ، تخویف ، اطماع اور مخالفانہ پروپیگنڈے پر اعتماد کر رکھا تھا ، مگر اس تیسرے دور میں انہوں نے ظلم و ستم ، مار پیٹ اور معاشی دباؤ کے ہتھیار پوری سختی کے ساتھ استعمال کیے ، یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ملک چھوڑ کر حبش کی طرف نکل جانا پڑا اور باقی ماندہ مسلمانوں کو اور ان کے ساتھ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے خاندان کو شعب ابی طالب میں محصور کر کے ان کا مکمل معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کر دیا گیا ۔ تاہم اس دور میں دو شخصیتیں ابو طالب اور ام طالب اور ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایسی تھیں جن کے ذاتی اثر کی وجہ سے قریش کے دو بڑے خاندان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پشت پناہی کر رہے تھے ۔ ۱۰ نبوی میں ان دونوں کی آنکھیں بند ہوتے ہی یہ دور ختم ہو گیا اور چوتھا دور شروع ہوا جس میں مسلمانوں پر مکے کی زندگی تنگ کر دی گئی یہاں تک کہ آخرکار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سمیت تمام مسلمانوں کو مکہ سے نکل جانا پڑا ۔ سورہ کہف کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تیسرے دور کے آغاز میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ ظلم و ستم اور مزاحمت نے شدت تو اختیار کر لی تھی ، مگر ابھی ہجرت حبشہ واقع نہ ہوئی تھی ۔ اس وقت جو مسلمان ستائے جا رہے تھے ان کو اصحاب کہف کا قصہ سنایا گیا تاکہ ان کی ہمت بندھے اور انہیں معلوم ہو کہ اہل ایمان اپنا ایمان بچانے کے لیے اس سے پہلے کیا کچھ کر چکے ہیں ۔ موضوع اور مضمون : یہ سورہ مشرکین مکہ کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی ہے جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا امتحان لینے کے لیے اہل کتاب کے مشورے سے آپ کے سامنے پیش کیے تھے : اصحاب کہف کون تھے ؟ قصہ خضر علیہ السلام کی حقیقت کیا ہے ؟ ( روایات میں آتا ہے کہ دوسرا سوال روح کے متعلق تھا جس کا جواب سورہ بنی اسرائیل رکوع ۱۰ میں دیا گیا ہے ۔ مگر سورہ کہف اور بنی اسرائیل کے زمانہ نزول میں کئی سال کا فرق ہے ، اور سورہ کہف میں دو کے بجائے تین قصے بیان کیے گئے ہیں ، اس لیے ہم سمجھتے کہ دوسرا سوال در اصل قصہ خضر سے متعلق تھا نہ کہ روح سے متعلق ۔ خود قرآن میں بھی ایک اشارہ ایسا موجود ہے جس سے ہمارے اس خیال کی تائید ہوتی ہے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ٦۱ ) ۔ اور ذوالقرنین کا کیا قصہ ہے ؟ یہ تینوں قصے عیسائیوں اور یہودیوں کی تاریخ سے متعلق تھے ۔ حجاز میں ان کا کوئی چرچا نہ تھا ۔ اسی لیے اہل کتاب نے امتحان کی غرض سے انکا انتخاب کیا تھا تاکہ یہ بات کھل جائے کہ واقعی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کوئی غیبی ذریعہ علم ہے یا نہیں ۔ مگر اللہ تعالی نے صرف یہی نہیں کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ان کے سوالات کا پورا جواب دیا ، بلکہ ان کے اپنے پوچھے ہوئے تینوں قصوں کو پوری طرح اس صورت حال پر چسپاں بھی کر دیا جو اس وقت مکہ میں کفر و اسلام کے درمیان در پیش تھی: ۱ ) ۔ اصحاب کہف کے متعلق بتایا کہ وہ اسی توحید کے قائل تھے جس کی دعوت یہ قرآن پیش کر رہا ہے ، اور ان کا حال مکے کے مٹھی بھر مظلوم مسلمانوں کے حال سے اور ان کی قوم کا رویہ کفار قریش کے رویہ سے کچھ مختلف نہ تھا ۔ پھر اسی قصے سے اہل ایمان کو یہ سبق دیا کہ اگر کفار کا غلبہ بے پناہ ہو اور ایک مومن کو ظالم معاشرے میں سانس لینے تک کی مہلت نہ دی جا رہی ہو ، تب بھی اس کو باطل کے آگے سر نہ جھکانا چاہئے بلکہ اللہ کے بھروسے پر تن بتقدیر نکل جانا چاہیے ۔ اسی سلسلے میں ضمناً کفار مکہ کو یہ بھی بتایا کہ اصحاب کہف کا قصہ عقیدۂ آخرت کی صحت کا ایک ثبوت ہے ۔ جس طرح خدا نے اصحاب کہف کو ایک مدت دراز تک موت کی نیند سلانے کے بعد پھر جلا اٹھایا اسی طرح اس کی قدرت سے وہ بعث بعد الموت بھی کچھ بعید نہیں ہے جسے ماننے سے تم انکار کر رہے ہو ۔ ۲ ) ۔ اصحاب کہف کے قصے سے راستہ نکال کر اس ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل پر گفتگو شروع کر دی گئی جو مکے کے سردار اور کھاتے پیتے لوگ اپنی بستی کی چھوٹی سی نو مسلم جماعت کے ساتھ برت رہے تھے ۔ اس سلسلے میں ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کی گئی کہ نہ ان ظالموں سے کوئی مصالحت کرو اور نہ اپنے غریب ساتھیوں کے مقابلے میں ان بڑے بڑے لوگوں کو کوئی اہمیت دو ۔ دوسری طرف ان رئیسوں کو نصیحت کی گئی کہ اپنے چند روزہ عیش زندگانی پر نہ پھولو بلکہ ان بھلائیوں کے طالب بنو جو ابدی اور پائدار ہیں ۔ ۳ ) ۔ اسی سلسلۂ کلام میں قصہ خضر و موسیٰ کچھ اس انداز سے سنایا گیا کہ اس میں کفار کے سوالات کا جواب بھی تھا اور مومنین کے لیے سامان تسلی بھی ۔ اس قصے میں دراصل جو سبق دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیت کا کارخانہ جن مصلحتوں پر چل رہا ہے وہ چونکہ تمہاری نظر سے پوشیدہ ہیں اس لیے تم بات بات پر حیران ہوتے ہو کہ یہ کیوں ہوا ؟ یہ کیا ہو گیا ؟ یہ تو بڑا غضب ہوا ! حالانکہ اگر پردہ اٹھا دیا جائے تو تمہیں خود معلوم ہو جائے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے اور بظاہر جس چیز میں برائی نظر آتی ہے ، آخر کار وہ بھی کسی نتیجہ خیر ہی کے لیے ہوتی ہے ۔ ٤ ) ۔ اس کے بعد قصۂ ذوالقرنین ارشاد ہوتا ہے اور اس میں سائلوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ تم تو اپنی اتنی ذرا ذرا سی سرداریوں پر پھول رہے ہو ، حالانکہ ذوالقرنین اتنا بڑا فرمانروا اور ایسا زبردست فاتح اور اس قدر عظیم الشان ذرائع کا مالک ہو کر بھی اپنی حقیقت کو نہ بھولا تھا اور اپنے خالق کے آگے ہمیشہ سر تسلیم خم رکھتا تھا ۔ نیز یہ کہ تم اپنی ذرا ذرا سی حویلیوں اور بغیچوں کی بہار کو لازوال سمجھ بیٹھے ہو ، مگر وہ دنیا کی سب سے زیادہ مستحکم دیوار تحفظ بنا کر بھی یہی سمجھتا تھا کہ اصل بھروسے کے لائق اللہ ہے نہ کہ یہ دیوار ۔ اللہ کی مرضی جب تک ہے یہ دیوار دشمنوں کو روکتی رہے گی ۔ اور جب اس کی مرضی کچھ اور ہوگی تو اس دیوار میں رخنوں اور شگافوں کے سوا کچھ نہ رہے گا ۔ اس طرح کفار کے امتحانی سوالات کو انہی پر پوری طرح الٹ دینے کے بعد خاتمۂ کلام میں پھر ان ہی باتوں کو دہرا دیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوئی ہیں ، یعنی یہ کہ توحید اور آخرت سراسر حق ہیں اور تمہاری اپنی بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں مانو ۔ ان کے مطابق اپنی اصلاح کرو اور خدا کے حضور اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے دنیا میں زندگی بسر کرو ۔ ایسا نہ کرو گے تو تمہاری اپنی زندگی خراب ہوگی اور تمہارا سب کچھ کیا کرایا اکارت جائے گا ۔
سورۃ الکہف تعارف حافظ ابن جریر طبری نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اس سورت کا شان نزول یہ نقل کیا ہے کہ مکہ مکرمہ کے کچھ سرداروں نے دو آدمی مدینہ منورہ کے یہودی علماء کے پاس یہ معلوم کرنے کے لیے بھیجے کہ تورات اور انجیل کے یہ علماء آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہودی علماء نے ان سے کہا کہ آپ حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین سوالات کیجیے۔ اگر وہ ان کا صحیح جواب دے دیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ واقعی اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور اگر وہ صحیح جواب نہ دے سکے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کا نبوت کا دعوی صحیح نہیں ہے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ ان نوجواں کا وہ عجیب واقعہ بیان کریں جو کسی زمانے میں شرک سے بچنے کے لیے اپنے شہر سے نکل کر کسی غار میں چھپ گئے تھے۔ دوسرے اس شخص کا حال بتائیں جس نے مشرق سے مغرب تک پوری دنیا کا سفر کیا تھا۔ تیسرے ان سے پوچھیں کہ روح کی حقیقت کیا ہے۔ چنانچہ یہ دونوں شخص مکہ مکرمہ واپس آئے، اور اپنی برادری کے لوگوں کو ساتھ لے کر انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ تین سوال پوچھے۔ تیسرے سوال کا جواب تو پچھلی سورت (٨٥: ١٧) میں آچکا ہے۔ اور پہلے دو سوالات کے جواب میں یہ سوورت نازل ہوئی جس میں غار میں چھپنے والے نوجوانوں کا واقعہ تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے، انہی کو اصحاب کہف کہا جاتا ہے۔ کہف عربی میں غار کو کہتے ہیں، اصحاب کہف کے معنی ہوئے غار والے اور اسی غار کے نام پر سورت کو سورۃ الکہف کہا جاتا ہے۔ دوسرے سوال کے جواب میں سورت کے آخر میں ذوالقرنین کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے جنہوں نے مشرق ومغرب کا سفر کیا تھا۔ اس کے علاوہ اسی سورت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ واقعہ بھی بیان فرمایا گیا ہے جس میں وہ حضرت خضر (علیہ السلام) کے پاس تشریف لے گئے تھے، اور کچھ عرصہ ان کی معیت میں سفر کیا تھا۔ یہ تین واقعات تو اس سورت کا مرکزی موضوع ہیں۔ ان کے علاوہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جو خدا کا بیٹا قرار دے رکھا تھا، اس سورت میں بطور خاص اس کی تردید بھی ہے اور حق کا انکار کرنے والوں کو وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں، اور حق کے ماننے والوں کو نیک انجام کی خوشخبری بھی دی گئی ہے۔ سورۃ کہف کی تلاوت کے فضائل احادیث میں آئے ہیں۔ خاص طور پر جمعہ کے دن اس کی تلاوت کی بڑی فضیلت آئی ہے، اور اسی لیے بزرگان دین کا معمول رہا ہے کہ وہ جمعہ کے دن اس کی تلاوت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورۃ الکھف سورة نمبر 18 رکوع 12 آیات 110 الفاظ وکلمات 1201 حروف 6620 کہف۔ وسیع، کشادہ پہاڑی نما غار کو کہتے ہیں۔ اس سورة میں دین کی سربلندی اور ایمان کی حفاظت کے لئے ان چند پر خلوص نوجوانوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جنہوں نے شہری زندگی کی ہر راحت اور آرام کے مقابلے میں پہاڑ کے ایک غار میں پناہ لے لی تھی اللہ نے ان پر ایک ایسی طویل نیند طاری کردی کہ وہ تین سو نو 309 سال تک اسی جگہ پڑے سوتے رہے جب وہ اٹھے تو انہیں ایسا لگا جیسے وہ ایک دن یا آدھے دن پڑے سوتے رہے ہیں۔ اس سورة میں بتایا گیا ہے کہ اللہ اپنی اس کائنات کو اپنی مرضی سے چلا رہا ہے ۔ ہر کام کی مصلحت کیا ہے ؟ ضروری نہیں کہ ہر شخص اس کو سمجھ سکے۔ اسی لئے اللہ کے حکم سے حضرت موسیٰ اور حضرت خضر کا واقعہ بیان کیا گیا ہے تاکہ ہر شخص کو یقین ہوجائے کہ یہاں ہر بات کے پیچھے ایک مصلحت کام کر رہی ہے۔ کفار مکہ نے یہودیوں کے کہنے پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چند سوالات کیے جس پر یہ سورة نازل ہوئی اس میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ ذوالقرنین کون تھے ؟ اللہ نے فرمایا کہ وہ ایک نیک انسان تھے جو لوگوں کی خدمت کرنے کو سب سے بڑی سادت سمجھتے تھے اور اتنے بڑے بادشاہ ہونے کے باوجود ان میں غرور تکبر نہ تھا۔ کفار مکہ نے یہودیوں کے کہنے پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چند ایسے واقعات کے متعلق پوچھا جس سے عام طور پر عرب کے لوگ ناواقف تھے۔ کفار مکہ اور یہودی یہ سمجھ رہے تھے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سوالوں کا جواب نہ دے سکیں گے لہٰذا ہمیں ان کو جھٹلانے اور مذاق اڑانے کا موقع مل جائے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمام سوالوں کے ایسے بھرپور جوابات دیتے کہ دشمنان اسلام حیران و پریشان رہ گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کفار مکہ کے ظلم و ستم و ستم، بربریت اور معاشی بائیکاٹ کی انتہا ہوچکی تھی۔ کفار مکہ کے سوالات اور مکہ کے سنگین حالات میں سورة الکہف نازل کی گئی تاکہ کفار کے منہ بند ہوجائیں اور اہل ایمان کو تسلی اور تشقی مل جائے۔ اصحاب کہف کون تھے ؟ کیا تھے ؟ ان کی تعداد کتنی تھی ؟ اور کن حالات میں یہ واقعات پیش آئے ؟ اس کی تفصیل کو چھوڑ کر مختصر انداز میں اصحاب کہف کے جذبہ ایمانی اور ایثار و قربانی پر زور یدتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ چند ایسے مخلص نوجوان تھے جنہوں نے شہری زندگی، گھر کے راحت و آرام اور خود اپنے گھر والوں کو چھوڑکر پہاڑوں کے غاروں کو اپنا مسکن بنا لیا تھا تاکہ ان کے ایمان کی حفاظت ہو سکے اور اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہو سکے۔ اللہ نے ان کے اس جذبے کو قبول فرماتے ہوئے انہیں عزت و سربلندی کے اس مقام تک پہنچا دیا جس پر انسانیت ناز کرسکتی ہے۔ ان کی صحبت کو اتنا عظیم قرار دیا کہ ان کے ساتھ لگ کر آنے والے کتے کو بھی شرف انسانیت سے نوازنے کا فیصلہ فرمایا گیا۔ یہی کتا جب کل قیامت میں اٹھایا جائے گا تو اس کو انسانی شرف سے نوازا جائے گا۔ قرآن کریم، احادیث اور تاریخی اعتبار سے اس واقعہ کی تفصیل جو سامنے آتی ہے وہی ہے کہ شہر افسوس میں رومی شہنشاہ دقیانوس نے اہل ایمان کو مٹانے کا طریقہ یہ اپنا رکھا تھا کہ اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کے سامنے زبردستی سجدہ کراتا تھا اگر کوئی اس سے انکار کرتا تو اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے سے گریز نہیں کرتا تھا۔ اسی زمانے میں چند ایسے نوجوان یا نوجوان شہزادے جذبہ ایمانی کے پیکر بھی تھے جنہوں نے نہایت جرات و ہمت سے ظالم بادشاہ کے بتوں کے سامنے سجدہ کرنے سے بھرے دربار میں صاف انکار کردیا۔ یہ اتنی بڑی گستاخی تھی کہ اس پر ان نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا لیکن نوجوان بچے سمجھ کر ان کو چند دنوں کی مہلت دے کر کہا گیا کہ وہ اچھی طرح غور کرلیں اور اپنے انجام کی فکر کرلیں مگر ان نوجوانوں نے اس بات کا فیصلہ کرلیا کہ کچھ بھی ہوجائے وہ غیر اللہ کے سامنے سجدہ نہیں کریں گے۔ یہ نوجوان ایک ایک کر کے پہاڑوں کی طرف نکل گئے۔ ان میں سے ایک شخص کے ساتھ ایک کتا بھی تھا یہ سب نوجوان جو ایک دوسرے سے ناقواف تھے جب کچھ دیر بعد آپس میں تعارف ہوا تو انہیں یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی کہ وہ سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں یعنی سب کا ایک ہی ایمانی جذبہ ہے۔ سب نے مل کر طے کرلیا کہ وہ ان پہاڑوں میں بھوکے پیاسے مر جائیں گے لیکن بادشاہ کے گھڑے ہوئے بتوں اور اس کے ظلم و ستم کے آگے سر نہیں جھکائیں گے۔ ان سب نے اللہ کی بارگاہ میں راہ ہدایت پر قائم رہنے کی دعا بھی کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان نوجوانوں کے جذبہ ایمانی کی قدر کرتے ہوئے ان کی حفاظت کا انتظام فرما دیا۔ ان سب پر ایک ایسی نیند طاری فرما دی کہ وہ تین سو نو سال تک پڑے سوتے رہے۔ جب آنکھ کھلی تو وہ آپس میں ذکر کرنے لگے کہ ہم کتنے سوئے ہوں گے ؟ سب نے کہا کہ ہم دن بھر یا آدھے دن تک سوتے رہے ہیں۔ اللہ کی عظیم قدرت کو دیکھیے کہ وہ تین سو نو سال تک پڑے سوتے رہے نہ ان کو بھوک لگی نہ پیاس، بیدار ہوتے ہی ان کو بھوک نے ستانا شروع کردیا طے پایا کہ ان میں سے کوئی ایک آدمی نہایت خاموشی اور احتیاط سے شہر چلا جائے اور کچھ کھانے پینے کا سامان لے آئے۔ انہوں نے کہا کہ دیکھو اس طرح جانا کہ کسی کو شبہ بھی نہ ہو ورنہ وہ ظالم لوگ ہمیں یا تو قتل کردیں گے یا اپنے راستے پر چلانے کی کوشش کریں گے۔ ادھر تین سو نو سال بعد ملک کے حالات بالکل تبدیل ہوچکے تھے دقیانوس ظالم بادشاہ کو مرے ہوئے برسوں گذر چکے تھے اور بت پرستوں کے بجائے حضرت عیسیٰ کے ماننے والوں کی حکومت قائم تھی۔ چناچہ اس نوجوان نے کسی جگہ سے کھانے پینے کا سامان خریدا اور اس کے عوض چند سکے دیئے۔ دوکاندار اس نوجوان کے حلیے اور صدیوں پرانے سکھ دیکھ کر سوچنے لگا کہ یقینا اس نوجوان کو کسی جگہ سے گڑا ہوا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے اور وہ اس کو لے کر بازار آگیا ہے۔ اس دوکاندار نے حاکم شہر سے کہا۔ حاکم شہر نے اس نوجوان کو بادشاہ کے سامنے پیش کردیا بادشاہ نے اس کو یقین دلایا کہ وہ بالکل محفوظ ہے اور کفر و شرک کی حکومت مٹ چکی ہے بادشاہ کے جذبہ ایمانی کو دیکھ کر نوجوان نے سب کچھ بتا دیا۔ بادشاہ جو حضرت عیسیٰ کے لائے ہوئے دین پر قائم تھا اسے تاریخی اعتبار سے یہ معلوم تھا کہ برسوں پہلے کچھ نوجوان اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے غائب ہوگئے تھے اور تلاش کرنے کے باوجود ان کا کوئی سراغ نہ مل سکا تھا۔ بادشاہ سمجھ گیا کہ یقینا یہی وہ نوجوان ہیں جن کی داستانیں پرانے زمانے کے لگو سنایا کرتے تھے۔ نیز اس زمانے میں یہ بحث بھی ہو رہی تھی کہ جب انسان مر جائے گا اس کے جسم کا ریزہ ریزہ ہوجائے گا تو وہ جسم و جان کے ساتھ کس طرح دوبارہ پیدا ہوگا ۔ اصحاب کہف کے اسو اقعہ نے اس بحث کا خاتمہ بھی کردیا۔ بادشاہ نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ ہمیں بقیہ نوجوانوں کی بھی زیارت کرنی چاہئے چناچہ بادشاہ، اس کے اہل خانہ، وزرائ، درباری اور ہزاروں عام شہری پہاڑ کے اس غار کی طرف روانہ ہوگئے جہاں اصحاب کہف ٹھہرے ہوئے تھے ۔ جب یہ لوگ غار کے قریب پہنچے تو اصحاب کہف یہ سمجھ کر کہ شاید بادشاہ کو معلوم ہوگیا ہے اور وہ لوگ ان کو پکڑنے آ رہے ہیں دوبارہ غاروں میں چھپ گئے۔ وہ نوجوان جو کھانا لینے گیا تھا وہ تلاش کرنے نکلا تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ خود بھی کسی غار میں گم ہوگیا۔ علماء نے لکھا ہے کہ ان سب پر اللہ نے موت کو دوبارہ طاری فرما دیا ہوگا ۔ اس طرح اللہ نے اصحاب کہف پر دوبارہ نیند کا پردہ ڈال کر ایسا رعب اور دہشت طاری کردی کہ پھر کوئی شخص وہاں رک نہ سکا۔ بادشاہ وقت اور لوگوں نے مشورے کے بعد ان غاروں کے پاس علامت کے طور پر ایک مسجد بنا دی۔ اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام کفار اور مشرکین اور خاص طور پر کفار مکہ کو اس حقیقت پر متوجہ کیا ہے کہ یہ چند نوجوان جو پہاڑی غاروں میں ہجرت کرنے کی وجہ سے ” اصحاب کہف “ کہلاتے ہیں اللہ نے ان کے تذکرے کو کس قدر عزت و عظمت کا مقام عطا فرمایا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے اور آخرت کی ابدی راحتیں ان کو کتنا سکون پہنچائیں گی اس کا تصور بھی مشکل ہے اگر یہ نوجوان بھی دنیا کی زیب وزینت ، راح و آرام اور دنیاوی لذتوں میں گم ہوجاتے تو آج صدیوں کے بعد ان کا ذکر خیر نہ ہوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اس کی راہ میں جان و مال سے قربانیاں دینا، اپنے ایمان و عمل صالح پر قائم رہنا اور اللہ کے لئے اپنا سب کچھ لٹا دینے کا جذبہ رکھنا حقیقی کامیابی ہے اور اسی میں دین و دنیا کی عظمتوں کا راز پوشیدہ ہے۔
تعارف سورة کہف اس سورة مبارکہ کا نام اس کی نویں آیت سے لیا گیا ہے۔ یہ سورة پوری کی پوری مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ یہ سورت ایک سو دس آیات اور بارہ رکوع پر مشتمل ہے۔ سورۃ کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش سے کی گئی ہے کہ ہر قسم کی تحمید و تقدیس اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسی کتاب نازل فرمائی جس کے مطالب، احکام اور ارشادات میں کسی قسم کا تضاد اور تعارض نہیں ہے۔ اس کے ارشادات اثر انگیز اور اس کے احکام ٹھوس، واضح اور نتائج کے اعتبار سے بےحد و حساب مفید اور قابل عمل ہیں۔ یہ سورة مبارکہ ہجرت مدینہ سے پہلے نازل ہوئی۔ اس میں یہودیوں کے سکھلانے پر اہل مکہ نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین سوال کیے۔ ١۔ اصحاب کہف کون تھے ؟ ٢۔ ذوالقرنین کون تھا ؟ ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت خضر کے واقعہ کی کیا حقیقت ہے ؟ اصحاب کہف کے واقعہ میں ایک طرف اہل مکہ کو یہ بتلایا اور سمجھایا گیا کہ تم لوگ اپنی کثرت اور طاقت کی گھمنڈ میں آکر مسلمانوں کو مکہ سے نکالنے کے درپے ہو لیکن یاد رکھنا کہ جس طرح اصحاب کہف کو ان کے وطن سے نکالنے والے ان کے مشن کو ختم نہیں کرسکے تھے۔ اسی طرح تم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کو مکہ سے نکال باہر کرنے کے باوجود ان کی دعوت کو ختم نہیں کرسکو گے۔ جس طرح اصحاب کہف کا مشن عام ہوا تھا اسی طرح ہی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کا مشن دنیا میں غلبہ حاصل کرے گا۔ جہاں تک ذوالقرنین کے واقعہ کا تعلق ہے اس میں تمہارے لیے یہ سبق ہے کہ بےپناہ وسائل اور اختیارات ہونے کے باوجود اس نے مغلوب اور مفتوح قوم پر ظلم کرنے سے اجتناب کیا تھا۔ جس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا کے کثیر حصہ پر اقتدار دیا اور اس کے اقتدار کو استحکام بخشا تھا۔ اس کے منصفانہ اور مشفقانہ کردار کی و جہ سے اسے دنیا میں شہرت دوام حاصل ہوئی اور آخرت میں اسے اجر عظیم سے نوازا جائے گا۔ اے اہل مکہ ! اگر تم دنیا کی نیک نامی اور آخرت کی خیر چاہتے ہو تو تمہیں ذوالقرنین کے کردار سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر کی ملاقات اور گفتگو میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ دنیا میں بیشمار واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی حکمت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ اگر تمہیں مسلمانوں پر کچھ تسلط حاصل ہے تو جان لو کہ اس میں بیک وقت تمہاری اور مسلمانوں کی آزمائش ہے۔ تم ظالمانہ کردار کے حوالے سے پہچانے جا رہے ہو اور مسلمان مظلومانہ حالت میں اجر کے مستحق قرار ٹھہرائے جارہے ہیں۔ لیکن یاد رکھنا اس دنیا کی زیب و زیبائش عارضی ہے۔ جس مال اور اولاد پر اتر رہے ہو یہ سب کچھ فنا کے گھاٹ اتر جائے گا۔ آخرت میں کردار کے حوالے سے فیصلہ ہوگا۔ جس نے نیک اعمال کیے وہ کامیاب ٹھہرے گا اور جنت میں ہمیشہ کے لیے عیش کرے گا۔ جس نے ظلم وتعدی کا رویہ اختیار کیا وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں پھینکا جائے گا۔ آخر میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت اور اللہ تعالیٰ کی توحید کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو اپنے رب سے ملاقات کی تمنا رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ رب تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو کسی انداز میں شریک نہ بنائے۔ سورۃ الکھف کی فضیلت : (عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آیَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَۃِ الْکَہْفِ عُصِمَ مِنَ الدَّجَّالِ )[ رواہ مسلم : باب فضل سورة الکھف : ” حضرت ابودرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے سورة کہف کی پہلی دس آیات حفظ کیں، وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔ “ (عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ قَالَ مَنْ قَرَأَ أَوَّلَ سُورَۃِ الْکَہْفِ وَآخِرَہَا کَانَتْ لَہُ نُوراً مِنْ قَدَمِہِ إِلَی رَأْسِہِ وَمَنْ قَرَأَہَا کُلَّہَا کَانَتْ لَہُ نُوراً مَا بَیْنَ السَّمَاءِ إِلَی الأَرْضِ )[ رواہ احمد ] ” حضرت سہل بن معاذ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص سورة کہف کو اول اور آخر سے تلاوت کرتا ہے۔ اس کے قدموں سے لے کر سر تک نور ہوجاتا ہے اور جو مکمل سورة پڑھتا ہے تو اس کے لیے زمین اور آسمان کا مابین نور سے بھر دیا جاتا ہے۔ “ (عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ (رض) قَرَأَ رَجُلٌ الْکَہْفَ وَفِی الدَّار الدَّابَّۃُ فَجَعَلَتْ تَنْفِرُ فَسَلَّمَ ، فَإِذَا ضَبَابَۃٌ أَوْ سَحَابَۃٌ غَشِیَتْہُ ، فَذَکَرَہُ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ اقْرَأْ فُلاَنُ ، فَإِنَّہَا السَّکِینَۃُ نَزَلَتْ لِلْقُرْآنِ ، أَوْ تَنَزَّلَتْ لِلْقُرْآنِ )[ رواہ البخاری : باب علاَمَات النُّبُوَّۃِ فِی الإِسْلاَمِ ] ” حضرت ابی اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا کہ ایک آدمی اپنے گھر میں سورة الکہف کی تلاوت کر رہا تھا تو اس کے گھوڑے نے بدکنا شروع کردیا تو اس نے سلام پھیر کر آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اسے بادلوں کا ایک ٹکڑا نظر آیا جو اسے ڈھانپے ہوئے تھا اس نے اس کا تذکرہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کیا آپ نے فرمایا اے فلاں پڑھتے رہو یہ سکینت تھی جو قرآن کے لیے نازل ہوئی تھی یا قرآن کی وجہ سے نازل ہو رہی تھی۔ “
سورة الکھف ایک نظر میں اس سورت کا بیشتر حصہ قصص پر مشتمل ہے۔ آغاز میں قصہ اصحاب کہف ہے۔ اس کے بعد دو باغوں کا قصہ ہے۔ اس کے بعد آدم و ابلیس کے قصے کی طرف اشارہ ہے۔ درمیان میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ایک صالح بندے کی کہ ان ی ہے۔ اور اس کے آخر میں ذوالقرنین کا قصہ ہے۔ اس سورت کی آیات کا زیادہ تر حصہ ، ان قصص میں چلا گیا ہے ، یعنی ٠١١ آیات میں سے ١٧ آیات میں یہ قصص ہیں ، ١٧ آیات کے علاوہ جو آیات ہیں ان کا بڑا حصہ بھی انہی قصص پر تبصرہ ہے۔ ان قصص کے ضمن میں مشاہد قیامت میں سے بعض مناظر بھی دیئے گئے ہیں اور خود انسانی زندگی کے بعض وہ مناظر بھی دیئے گئے ہیں جو فکر انگیز ہیں یا جن کی کسی طرح افادیت ہے اور ان سب مضامین کو قرآن کریم کے مصورانہ انداز بیان میں دیا گیا ہے۔ لیکن اس پوری سورت کا موضوع اور محور جس کے اردگرد اس کے مضامین و قصص چلتے ہیں وہ اسلامی نظریہ حیات ، اسلامی عقیدہ اور اسلامی فکر و نظر کی درستگی ہے۔ نیز اسلامی عقائد ، اسلامی تصور حیات اور اسلامی نظام کی جو اعلیٰ قدریں ہیں ان کو بھی اس میں صاف صاف بیان کیا گیا ہے۔ اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی تصور زندگی اور اسلامی عقائد سورت کے آغاز اور انجام میں دونوں جگہ تفصیل کے ساتھ دیئے گئے ہیں۔ سورت کا آغاز یوں ہے : الحمد للہ ……الا کذباً (٥) (٨١ : ١-٥) ” تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی۔ ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب ، تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو ڈراوے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ اس بات کا نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ، وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔ “ اور سورت کا اختتام یوں ہے : قل انما ……ربہ احداً (٨١ : ٠١١) ” اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تو ہی جیسا ، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے ، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو ، اسے چاہئے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔ “ یوں سورت کا آغاز اور انجام دونوں ہم آہنگ ہوجاتے ہیں ، دونوں جگہ اللہ کی وحدانیت اور رد شرک ایک ہی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ دونوں جگہ وحی کا اثبات کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ذات باری تعالیٰ اور تمام مخلوقات و حوادث میں مکمل فرق ہے۔ یہ موضوع اس سورت کے مختلف مقامات پر دیا گیا ہے او اسے اس میں بار بار دہرایا گیا ہے اور مختلف انداز میں لایا گیا ہے۔ مثلاً قصہ اصحاب الہکف میں مومن نوجوان یوں گویا ہوتے ہیں : ربنا رب السموت والارض لن ندعو من دونہ الھا لقد قلنا اذا شططاً (٨١ : ٣١) ” ہمارا رب تو بس وہی ہے جو آسمان و زمین کا رب ہے۔ ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بےجا بات کریں گے۔ “ اور اس قصے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا : مالھم من دونہ من ولی ولا یشرک فی حکمہ احداً (٨١ : ٦٢) ” زمین و آسمان کی مخلوقات کا کوئی خبر گیر اس کے سوا نہیں اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ “ اور دو باغوں کے قصے میں رجل مومن اپنے ساتھی کے ساتھ بات کرتے ہوئے یہ کہتا ہے : اکفرت بالذی خلقک من تراب ثم من نطفۃ ثم سوک رجلاً (٨٣) لکنا ھو اللہ ربی ولا اشرک بربی احداً (٨٣) (٨١ : ٨٣-٨٣) ” کیا تو کفر کرتا ہے اس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور تجھے ایک پورا آدمی بنا کر کھڑا کیا ، رہا میں تو میرا رب تو وہی اللہ ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ “ اور اس قصے پر تبصرہ میں یہ مضمون یوں آیا : ولم تکن لہ ……عقباً (٣٣) (٨١ : ٣٣-٣٣) ” نہ ہو اللہ کو چھوڑ کر اس کے پاس کوئی جتھا کہ اس کی مدد کرتے اور نہ کرسکا تھا وہ آپ ہی اس آفت کا مقابلہ۔ اس وقت معلوم وہا کہ کار سازی کا اختیار خدائے برحق ہی کے لئے ہے ، انعام وہی بہتر ہے ، جو وہ بخشے اور انجام وہی بخیر ہے جو وہ دکھائے۔ ) قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر میں یہ مضمون یوں آتا ہے : (ویوم یقول نادوا شرکآءی الذین زعمتم فدعوھم فلم یستجیوا لھم و جعلنا بینھم موبقاً (٨١ : ٢٥) ” پھر کیا کریں گے یہ لوگ اس روز جبکہ ان کا رب ان سے کہے گا پکاروں اب ان ہستیوں کو جنہیں تم میرا شریک سمجھتے تھے ۔ یہ ان کو پکاریں گے مگر وہ ان کی مدد کو نہ آئیں گے اور ہم ان کے درمیان ایک ہی ہلاکت کا گڑھا مشترک کردیں گے۔ “ اور اس منظر پر تبصرے میں یہ مضمون یوں لایا گیا ہے۔ افحسب الذین کفروا ان یتخذوا عبادی من دونی اولیآء انا اعتدنا جھنم للکفرین نزلا (٨١ : ٢٠١) ” کیا یہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے ، یہ خیال رکھتے ہیں کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کار ساز بنائیں ؟ ہم نے ایسے کافروں کی ضیافت کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ “ اس سورت میں انسان کے فکر و نظر اور عقل و ادراک کے منہاج کو بھی درست کیا گیا ہے ، مثلاً اس میں مشرکین کے ان دعوئوں اور مزعومات پر سخت گرفت کی گئی ہے۔ جو وہ ان باتوں اور موضوعات کے بارے کرتے تھے۔ جو انسانی عقل و ادرکا کے دائرے سے ماوراء تھیں اور جن کے بارے میں انسان کوئی دلیل وبرہان سرے سے پیش ہی نہیں کرسکتا۔ چناچہ اس نکتے کو سامنے رکھ کر انسان کو یہ ہدایت کی گئی کہ اسے چاہئے کہ ان باتوں کے در پے نہ ہو جن کے بارے میں اسے علم نہیں ، اپنے دائرہ علم کے اندر رہ کر بات کرے۔ جن امور کے بارے میں انسان کو علم نہیں ان کو اللہ پر چھوڑ دے۔ اس سورت کے آغاز میں ہی کہا گیا : وینذر الذین قالوا اتخذ اللہ ولدا (٣) مالھم بہ من علم ولا لابائھم (٥) (٨١ : ٣-٥) ” تاکہ وہ ان لوگوں ڈراوے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ اس بات کا نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ “ دوسری جگہ اصحاب کہف نوجوان یوں کہتے ہیں۔ ھولاً ء ……بسلطن بین (٨١ : ٥١) ” یہ لوگ ہماری قوم ہیں جنہوں نے اللہ کے سوا الہہ بنا رکھے ہیں۔ کیوں نہیں لاتے یہ ان پر کوئی دلیل بین “ اور جب خود ان سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کتنا عرصہ غار میں رہے تو وہ یہ معاملہ اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ قالوا ربکم اعلم بما لبشتم (٨١ : ٩١) ” انہوں نے کہا تمہارا رب زیادہ اچھا جاننے والا ہے کہ تم نے کتنا عرصہ گزارا۔ “ پھر اس قصے کے درمیان اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں ان کے اندازوں کے متعلق کہا گیا کہ یہ سب بےتکی ہانکتے ہیں۔ سیقولون ……احداً (٨١ : ٢٢) ” کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا اور کچھ دور سے کہہ دیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ سب بےتکی ہانکتے ہیں کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ کہو ، میرا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے۔ کم ہی لوگ ان کی صحیح تعداد جانتے ہیں۔ پس سرسری بات سے بڑھ کر ان کی تعداد کے معاملے میں لوگوں سے بحث نہ کرو ، اور نہ ان کے متعلق کسی سے کچھ پوچھو۔ “ حضرت موسیٰ اور بندہ صالح کے قصے میں جب وہ بندہ صالح اپنے تصرفات کی تفسیر بیان کرتے ہیں تو بتا دیتے ہیں کہ حقیقت تو اللہ جانتا ہے۔ اس نے فقط حکم الٰہی کی تعمیل کی۔ حضرت موسیٰ نے ان کے ان تصرفات پر تنقید کی تھی۔ وہ کہتے ہیں : رحمۃ من ربک و ما فعلتہ عن امری (٨١ : ٢٨) ” یہ تمہارے رب کی رحمت کی بنا پر کہہ گیا میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کردیا ہے۔ “ وہ حقیقت حال اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ چونکہ اعلیٰ اجتماعی قدروں کا قبلہ اسلامی نظریہ حیات کے پیمانے سے درست کیا گیا ہے۔ اس لئے اس کا اظہار مت بعد مقامات پر ہوتا ہے جبکہ ایمان اور عمل صالح پر مبنی اقدار سامنے آتی ہیں اور ان کے علاوہ تمام دنیاوی قدریں نظروں سے گر جاتی ہیں جو دنیاوی اعتبار سے اور دنیا پرستوں کی نظر میں بہت اہم ہیں اور نظروں کو چکا چوند کرنے والی ہیں۔ مثلاً یہ کہ زمین پر جو سامان زیب وزینت ہے وہ ایک آزمائش اور ابتلا ہے اور اس کا انجام زوال اور فنا ہے۔ انا جعلنا ……اجرزا (٨) (٨١ : ٨-٨) ” واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے ، اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں ، کہ ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ آخر کار اس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔ “ ایمانی اقدار میں سے اہم قدر یہ ہے کہ اللہ کی پناہ سب سے بڑی اور سب سے وسیع ہے۔ اگرچہ انسان ایک پتھریلے غار میں کیوں مہ ہو ، اصحاب کہف کے نوجوان مومن جب اپنی قوم کو چھوڑ کر غار میں پناہ لیتے ہیں تو وہ یوں فیصلہ کرتے ہیں : واذا اعتزلتموھم ……مرفقا (٨١ : ٦١) ” اب جبکہ تم ان سے اور ان کے معبود ان غیر اللہ سے بع تعلق ہوچکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو ، تمہارا رب تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے لئے سروسامان مہیا کر دے گا۔ “ اس میں خصوصاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت دی گئی کہ آپ اہل ایمان کو ساتھی بنا کر اپنے مشن پر جم جائیں اور دنیا پرستوں اور حصول دنیا میں ڈوبے ہوئے غافلوں کی پروا نہ کریں۔ واصبر نفسک ……فلیکفر (٩٢) (٨١ : ٨٢-٩٢) ” اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلبگار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو ؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو ، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے اور جس کا طریقہ کار افراط وتفریط پر مبنی ہے۔ صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے ، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔ “ دو باغوں کی کہ ان یہ بتاتی ہے کہ ایک مومن کو اپنے ایمان پر فخر ہوتا ہے اور وہ ایمان کے مقابلے میں مال و دولت اور زندگی کے ساز و سامان کو کوئی اہمیت نہیں دیتا اور ایک مومن ایک برخود غلط ، مغرور اور سرکش و بےدین پر کس طرح تنقید کرتا ہے اور اسے متنبہ کرتا ہے کہ اس نے مالک حقیقی کو بھلا دیا ہے۔ قال لہ ……طلباً (١٣) (٨١ : ٨٣-١٣) ” اس کے ہمسائے نے گفتگو کرتے ہوئے اس سے کہا ، کیا تو کفر کرتا ہے اس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور پتھر تجھے ایک پورا آدمی بنا کھڑا کیا ؟ رہا میں ، تو میرا رب وہی اللہ ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا اور جب تو اپنی جنت میں بھی داخل ہو رہا تھا تو اس وقت تیری زبان سے یہ کیوں نہ نکلا کہ ماشاء اللہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ ، اگر تو مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کم تر پا رہا ہے تو بعید نہیں ہے کہ میرا رب مجھے تیری جنت سے بہتر عطا فرما دے اور تیری جنت پر آسمان سے کوئی آفت بھیج دے جس سے وہ صاف میدان بن کر رہ جائے یا اس کا پانی زمین میں اتر جائے اور پھر تو اسے کسی طرح نہ نکال سکے۔ “ اس قصے کے بعد یہ مثال دی جاتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں جس طرح جلد تروتازگی پیدا ہوتی ہے ، اسی طرح جلد اس پر زوال بھی آجاتا ہے جس طرح ایک فصل اگتی ہے ، لہلہاتی ہے اور پھر بھوسے کی شکل میں ہوائوں کے ساتھ اڑتی پھرتی ہے۔ واضرب لھم ……شئی مقتدراً (٨١ : ٥٣) ” اے نبی انہیں حیات دنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھائو کہ ہم نے آسمان سے پانی برسایا تو زمین کی پود خوب گھنی ہوگئی اور کل وہی نباتات بھس بن کر رہ گئی ہے جسے ہوائیں اڑائے لئے پھرتی ہیں ، اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ “ اور اس پر ایک تبصرہ آتا ہے کہ زائل ہونے والی قدریں کون سی ہیں اور باقی رہنے والی قدریں کون سی ہوی ہیں : المال والبنون ……خیر املاً (٨١ : ٦٣) ” یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انہی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ ‘ ذوالقرنین کا ذکر اس لئے نہیں کیا جاتا کہ وہ ایک بادشاہ تھا بلکہ وہ اپنے اعمال صالحہ کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے۔ جب ذوالقرنین کے سامنے یہ تجویز رکھی جاتی ہے کہ وہ ان کے لئے دیوار بنا دے جو ان کو یاجوج و ماجوج سے بچائے اور اس کے اخراجات وہ ادا کرنے کے لئے تیار ہیں تو وہ ان کی جانب سے قیمت کی ادائیگی کو رد کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ نے مجھے اس زمین پر جو تمکن دیا ہے وہ اس مال سے بہتر ہے جو تم مجھے دینا چاہتے ہو۔ قال ما مکنی فیہ ربی خیر (٨١ : ٥٩) ” جو کچھ میرے رب نے مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے۔ “ لیکن جب بندتیار ہوتا ہے تو وہ اسے اپنے رب کی طرف منسوب کرتا ہے ، اپنی قوت کی طرف نہیں۔ قال ھذا رحمۃ من ربی فاذا جآء وعد ربی جعلہ دکآء وکان وعد ربی حقاً (٨١ : ٨٩) ” یہ میرے رب کی رحمت ہے مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوند خاک کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ حق ہے۔ “ سورت کے آخر میں یہ فیصلہ دیا جاتا ہے کہ اعمال کے اعتبارے کون لوگ بڑے خسارے میں ہوں گے۔ وہی لوگ جوق یا مت کے منکر ہیں۔ تو ایسے لوگوں کے اعمال کا کوئی وزن نہ ہوگا ، نہ ان کی کوئی قیمت ہوگی۔ اگرچہ بظاہر وہ سمجھتے ہوں گے کہ ان کے اعمال وزن دار ہیں۔ قل ھل ……القیمۃ وزنا (٥٠١) (٨١ : ٣٠١) تا ٥٠١) ” اے محمد ان سے کہو کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں ؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ ہیں لوگ جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا۔ اس لئے ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے۔ قیامت کے دن ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ “ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ اس سورت کا محور و موضوع عقائد کی رستگی ، فکر و نظر کی درستگی اور اسلامی فکر کے مطابق اعلیٰ قدروں کی اہمیت ہے۔ …… اس پوری سورت کا مضمون ان موضوعات کے گرد گھومتا ہے۔ آغاز اللہ کی حمد وثناء سے ہوتا ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری جس کا مقصد لوگوں کو خبردار کرنا ہے۔ مومنین کو بشارت دینا اور ان لوگوں کو ڈرانا جن کے عقائد یہ ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ پھر یہ کہا گیا ہے کہ زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ زینت ہے اور دنیا میں انسان ایک امتحان اور آزمائش کے لئے بھیجا گیا ہے اور آخری انجام اس دنیا کا زوال ہے اور یہ دنیا فانی ہے۔ اس کے بعد قصہ اصحاب کہف جس کی غرض وغایت یہ ہے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی اور عیش و عشرت پر ایمان کو فوقیت دی اور ایمان پر آرام اور عیش و عشرت کو قربان کردیا۔ ایک غار میں جا کر اللہ کی پناہ لے لی اور اپنے عقیدے اور نظریہ حیات کو بچا لیا۔ اس سورت کے دوسرے حصے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ آپ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ وابستہ رکھیں جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اور صرف رضائے الٰہی چاہتے ہیں اور جو لوگ اللہ کے ذکر سے غافل ہیں ان کو نظر انداز کردیں۔ اس کے بعد دو باغوں کا قصہ آتا ہے جس میں ایک مومن دنیا کی قدروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور یہ حصہ اس بات پر ختم ہوجاتا ہے کہ اعلیٰ قدریں وہ ہیں جو اللہ کے نزدیک قابل اجر ہوں۔ اس سورت کا تیسرا حصہ کئی مناظر پر مشتمل ہے۔ قیامت کا منظر ، بیچ میں قصہ آدم و بلیس ہے اور آخر میں اللہ کی اس سنت کا ذکر ہے کہ وہ ظالموں کو کس طرح ہلاک فرماتا ہے اور یہ کہ اللہ کی یہ رحمت ہے کہ وہ گناہگاروں کو بھی ایک وقت تک مہلت دیتا ہے۔ آخری دو قصوں میں حضرت موسیٰ اور عبدصالح کا قصہ ہے۔ ذوالقرنین کا قصہ ہے اور سورت کا خاتمہ اسی طرح ہوتا ہے جس طرح آغاز ہوا یعنی مومنین کو خوشخبری اور کافروں کو انجام بد سے ڈراوا ۔ وحی کا ثبوت اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے شرک کی تھی۔ اب ہم پہلے حصے کی تفصیلات دیتے ہیں۔