Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 110

سورة الكهف

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا ﴿۱۱۰﴾٪  3

Say, "I am only a man like you, to whom has been revealed that your god is one God. So whoever would hope for the meeting with his Lord - let him do righteous work and not associate in the worship of his Lord anyone."

آپ کہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ( ہاں ) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے ، تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Muhammad is a Human Being and a Messenger, and the God is One Allah says to His Messenger Muhammad, قُلْ ... Say, to these idolators who reject your message to them, ... إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ... I am only a man like you. Whoever claims that I am lying, let him bring something like this that I have brought. For I did not know the Unseen, the matters of the past which you asked me about and I told you about, the story of the people of the Cave and of Dhul-Qarnayn, stories which are true -- I did not know any of this except for what Allah made known to me. And I tell you, ... يُوحَى إِلَيَّ ... It has been revealed to me, ... أَنَّمَا إِلَهُكُمْ .... that your God, Who calls you to worship Him, .. إِلَهٌ وَاحِدٌ ... is One God, with no partner or associate. ... فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ ... So whoever hopes for the meeting with his Lord, i.e., hopes for a good reward and recompense, ... فَلْيَعْمَلْ عَمَلً صَالِحًا ... let him work righteousness, meaning, in accordance with the prescribed laws of Allah, ... وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا and associate none as a partner in the worship of his Lord. This is what is meant by seeking the pleasure of Allah alone with no associate or partner. These are the two basic features of acceptable deeds: their intent is for the sake of Allah alone, and are done in accordance with the way of the Messenger of Allah. Imam Ahmad recorded that Mahmud bin Labid said that the Messenger of Allah said: إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافَ عَلَيْكُمُ الشِّرْكُ الاَْصْغَر What I fear the most for you is the small Shirk." They said: What is the small Shirk, O Messenger of Allah!" He said, الرِّيَاءُ يَقُولُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِذَا جَزَىَ النَّاسَ بِأَعْمَالِهِمْ اذْهَبُوا إِلَى الَّذِينَ كُنْتُمْ تُرَاءُونَ فِي الدُّنْيَا فَانْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً Showing off (Ar-Riya'). Allah will say on the Day of Resurrection, when the people are rewarded or punished for their deeds, "Go to the one for whom you were showing off in the world and see if you will find any reward with him." Imam Ahmad recorded that Abu Sa`id bin Abi Fadalah Al-Ansari, who was one of the Companions, said: "I heard the Messenger of Allah say, إِذَا جَمَعَ اللهُ الاَْوَّلِينَ وَالاْخِرِينَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ لِيَوْمٍ لاَ رَيْبَ فِيهِ نَادَى مُنَادٍ مَنْ كَانَ أَشْرَكَ فِي عَمَلٍ عَمِلَهُ للهِ أَحَدًا فَلْيَطْلُبْ ثَوَابَهُ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ فَإِنَّ اللهَ أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْك Allah will gather the first and the last on the Day of Resurrection, the Day concerning which there is no doubt. A voice will call out, "Whoever used to associate anyone with Allah in the deeds which he did, let him seek his reward from someone other than Allah, for Allah is the least in need of any partner or associate. It was also recorded by At-Tirmidhi and Ibn Majah. This is the end of the Tafsir of Surah Al-Kahf. Praise be to Allah, the Lord of all that exists.

سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم ۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ یہ سب سے آخری آیت ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ۔ حکم ہوتا ہے کہ آپ لوگوں سے فرمائیں کہ میں تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ، تم بھی انسان ہو ، اگر مجھے جھوٹا جانتے ہو تو لاؤ اس قرآن جیسا ایک قرآن تم بھی بنا کر پیش کر دو ۔ دیکھو میں کوئی غیب داں تو نہیں تم نے مجھ سے ذوالقرنین کا واقعہ دریافت کیا ۔ اصحاب کہف کا قصہ پوچھا تو میں نے ان کے صحیح واقعات تمہارے سامنے بیان کر دئیے جو نفس الامر کے مطابق ہیں اگر میرے پاس اللہ کی وحی نہ آتی تو میں ان گذشتہ واقعات کو جس طرح وہ ہوئے ہیں تمہارے سامنے کس طرح بیان کر سکتا ؟ سنو تمام تر وحی کا خلاصہ یہ ہے کہ تم موحد بن جاؤ شرک کو چھوڑ دو ۔ میری دعوت یہی ہے جو بھی تم میں سے اللہ سے مل کر اجروثواب لینا چاہتاہو اسے شریعت کے مطابق عمل کرنے چاہئیں اور شرک سے بالکل بچنا چاہیں ان دونوں ارکان کے بغیر کوئی عمل اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ، خلوص ہو اور مطابقت سنت ہو ۔ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ بہت سے نیک کاموں میں باوجود مرضی الہٰی کی تلاش کے میرا ارادہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ میری نیکی دیکھیں تو میرے لئے کیا حکم ہے آپ خاموش رہے اور یہ آیت اتری ، یہ حدیث مرسل ہے ۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ ایک شخص نماز روزہ صدقہ خیرات حج زکوٰۃ کرتا ہے ، اللہ کی رضامندی بھی ڈھونڈتا ہے اور لوگوں میں نیک نامی اور بڑائی بھی ۔ آپ نے فرمایا اس کی کل عبادت اکارت ہے اللہ تعالیٰ شرک سے بیزار ہے جو اس کی عبادت میں اور نیت بھی کرے تو اللہ تعالیٰ فرما دیتا ہے کہ یہ سب اسی دوسرے کو دے دو مجھے اس کی کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس باری باری آتے ، رات گزارتے ، کبھی آپ کو کئی کام ہوتا تو فرما دیتے ایسے لوگ بہت زیادہ تھے ایک شب ہم آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا یہ کیا کھسر پھسر کر رہے ہو ؟ ہم نے جواب دیا یا رسول اللہ ہماری توبہ ہے ہم مسیج دجال کا ذکر رہے تھے اور دل ہمارے خوفزدہ تھے ۔ آپ نے فرمایا میں تمہیں اس سے بھی زیادہ دہشت ناک بات بتاؤں ؟ وہ پوشیدہ شرک ہے کہ انسان دوسرے انسان کو دکھانے کے لئے نماز پڑھے ۔ مسند احمد میں ہے ابن غنم کہتے ہیں میں اور حضرت ابو درداء جابیہ کی مسجد میں گئے وہاں ہمیں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ملے بائیں ہاتھ سے تو انہوں نے میرا داہنا ہاتھ تھام لیا اور اپنے داہنے ہاتھ سے حضرت ابو درداء کا بایاں ہاتھ تھام لیا اور اسی طرح ہم تینوں وہاں سے باتیں کرتے ہوئے نکلے ۔ آپ فرمانے لگے دیکھو اگر تم دونوں یا تم میں سے جو بھی زندہ رہا تو ممکن ہے اس وقت کو بھی وہ دیکھ لے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن سیکھا ہوا بھلا آدمی حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھنے والا اور ہر حکم کو مناسب جگہ رکھنے والا آئے اور اس کی قدرومنزلت لوگوں میں ایسی ہو جیسی مردہ گدھے کی سر کی ۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عوف بن مالک آگئے اور بیٹھتے ہی حضرت شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا لوگوں مجھے تو تم پر سب سے زیادہ اس کا ڈر ہے جو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے یعنی پوشیدہ خواہش اور شرک کا ۔ اس پر حضرت عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ معاف فرمائے ہم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس بات سے شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ اس جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کی جائے ۔ ہاں پوشیدہ شہوات تو یہی خواہش کی چیزیں عورتیں وغیرہ ہیں لیکن یہ شرک ہماری سمجھ میں تو نہیں آیا جس سے آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں ۔ حضرت شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے اچھا بتاؤ تو ایک آدمی دوسروں کے دکھانے کے لئے نماز روزہ صدقہ خیرات کرتا ہے ۔ اس کا حکم تمہارے نزدیک کیا ہے ؟ کیا اس نے شرک کیا ؟ سب نے جواب دیا بیشک ایسا شخص مشرک ہے ، آپ نے فرمایا میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص دکھاوے کے لئے نماز پڑھے وہ مشرک ہے جو دنیا کو دکھانے کے لئے روزے رکھے وہ مشرک ہے جو لوگوں میں اپنی سخاوت جتانے کے لئے صدقہ خیرات کرے وہ بھی مشرک ہے اس پر حضرت عوف بن مالک نے کہا کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ایسے اعمال میں جو اللہ کے لئے ہو اللہ اسے قبول فرمالے اور جو دوسرے کے لئے ہو اسے رد کر دے ؟ حضرت شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا یہ ہرگز نہیں ہونے کا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جناب باری عزوجل کا ارشاد ہے کہ میں سب سے بہتر حصے والا ہوں ، جو بھی میرے ساتھ کسی عمل میں دوسرے کر شریک کرے میں اپنا حصہ بھی اسی دوسرے کے سپرد کردیتا ہوں ۔ اور نہایت بےپرواہی سے جز کل سب کو چھوڑ دیتا ہوں اور روایت میں ہے کہ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن رونے لگے ہم نے پوچھا حضرت آپ کیسے رو رہے ہیں فرمانے لگے ایک حدیث یاد آگئی ہے اور اس نے رلا دیا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ ڈر شرک اور پوشیدہ شہوت کا ہے ۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی ؟ آپ نے فرمایا ہاں سنو وہ چاند پتھر بت کو نہ پوجے گی بلکہ اپنے اعمال میں ریا کاری کرے گی ۔ پوشیدہ شہوت یہ ہے کہ صبح روزے سے ہے اور کوئی خواہش سامنے آئی روزہ چھوڑ دیا ( ابن ماجہ مسند احمد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں تمام شریکوں سے بہتر ہوں ۔ میرے ساتھ جو بھی کسی کو ملالے میں اس سے بری ہوں اور اس کا وہ پورا عمل اس غیر کے لئے ہی ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے مجھے تمہاری نسبت سب سے زیادہ ڈر چھوٹے شرک کا ہے لوگوں نے پوچھا وہ چھوٹا شرک کیا ہے ؟ فرمایا ریاکاری ۔ قیامت کے دن ریاکاروں کو جواب ملے گا کہ جاؤ جن کے لئے عمل کئے تھے انہی کے پاس جزا مانگو ۔ دیکھو پاتے بھی ہو ؟ ابو سعید بن ابو فضالہ انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جب اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو جمع کرے گا جس دن کے آنے میں کوئی شک شبہ نہیں اس دن ایک پکارنے والا پکارے گا کہ جس نے اپنے جس عمل میں اللہ کے ساتھ دوسرے کو ملایا ہوا سے چاہئے کہ اپنے اس عمل کا بدلہ اس دوسرے سے مانگ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ ساجھے سے بہت ہی بےنیاز ہے ۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ریاکار کو عذاب بھی سب کو دکھا کر ہوگا اور نیک اعمال لوگوں کو سنانے والے کو عذاب بھی سب کو سنا کر ہوگا ( مسند احمد ) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ روایت مروی ہے ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اپنے نیک اعمال اچھا لنے والے کو اللہ تعالیٰ ضرور رسوا کرے گا اس کے اخلاق بگڑ جائیں گے اور وہ لوگوں کی نگاہوں میں حقیر وذلیل ہوگا ۔ یہ بیان فرما کر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے ( مسند احمد ) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے قیامت کے دن انسان کے نیک اعمال کے مہر شدہ صحیفے اللہ کے سامنے پیش ہوں گے ۔ جناب باری عزوجل فرمائے گا اسے پھینک دو اسے قبول کرو اسے قبول کرو اسے پھنیک دو اس وقت فرشتے عرض کریں گے کہ اے اللہ تبارک وتعالیٰ جہاں تک ہمارا علم ہے ہم تو اس شخص کے اعمال نیک ہی جانتے ہیں جواب ملے گا کہ جن کو میں پھینکوا رہا ہوں یہ وہ اعمال ہیں جن میں صرف میری ہی رضامند مطلوب نہ تھی بلکہ ان کی ریاکاری تھی آج میں تو صرف ان اعمال کو قبول کروں گا جو صرف میرے لئے ہی کئے گئے ہوں ( بزار ) ارشاد ہے کہ جو دکھاوے سناوے کے لئے کھڑا ہواہو وہ جب تک نہ بیٹھے اللہ کے غصے اور غضب میں رہی رہتا ہے ابو یعلی کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص لوگوں کے دیکھتے ہوئے تو ٹھہر ٹھہر کر اچھی کر کے نماز پڑھے اور تنہائی میں بری طرح جلدی جلدی بےدلی سے ادا کرے اس نے اپنے پروردگار عزوجل کی توہین کی ۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس آیت کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کی آخری آیت بتاتے ہیں لیکن یہ قول اشکال سے خالی نہیں کیونکہ سورۃ کہف پوری کی پوری مکے شریف میں نازل ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد مدینے میں برابر دس سال تک قرآن کریم اترتا رہا تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہو کہ یہ آیت آخری ہے یعنی کسی دوسری آیت سے منسوخ نہیں ہوئی ۔ اس میں جو حکم ہے وہ آخر تک بدلانہیں اس کے بعد کوئی ایسی آیت نہیں اتری جس میں تبدیلی وتغیر کرے واللہ اعلم ۔ ایک بہت ہی غریب حدیث حافظ ابو بکر بزار رحمۃاللہ علیہ اپنی کتاب میں لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص آیت ( من کان یرجو ) الخ ، کو رات کے وقت پڑھے گا اللہ تعالیٰ اسے اتنا بڑا نور عطا فرمائے گا جو عدن سے مکے شریف تک پہنچے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

110۔ 1 اس لئے میں بھی رب کی باتوں کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ 110۔ 2 البتہ مجھے یہ امتیاز حاصل ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔ اسی وحی کی بدولت میں نے اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق اللہ کی طرف سے نازل کردہ وہ باتیں بیان کی ہیں جن پر مرور ایام کی دبیز تہیں پڑی ہوئی تھیں یا ان کی حقیقت افسانوں میں گم ہوگئی تھی۔ علاوہ ازیں اس وحی میں سب سے اہم حکم یہ دیا گیا ہے کہ تم سب کا معبود صرف ایک ہے۔ 110۔ 3 عمل صالح وہ ہے جو سنت کے مطابق ہو، یعنی جو اپنے رب کی ملاقات کا یقین رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ ہر عمل سنت نبوی کے مطابق کرے اور دوسرا اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، اس لئے کہ بدعت اور شرک دونوں ہی ضبط اعمال کا سبب ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں سے ہر مسلمان کو مفوظ رکھے۔ * ہجرت حبشہ کے واقعات میں بیان کیا گیا کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی اور اس کے مصاحبین اور امرا کے سامنے جب سورة مریم کا ابتدائی حصہ حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) نے پڑھ کر سنایا تو ان سب کی ڈاڑھیاں آنسوؤں سے تر ہوگئیں اور نجاشی نے کہا کہ یہ قرآن اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جو لے کر آئے ہیں، یہ سب ایک ہی مشعل کی کرنیں ہیں (فتح القدیر) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٠] کفار کا یہ اعتراض اور اس کا جواب متعدد بار پہلے بھی گزر چکا ہے یعنی میں بھی تمہاری ہی طرح ایک انسان ہوں، کھاتا ہوں، پیتا ہوں، چلتا ہوں، نکاح اور شادیاں کرتا ہوں البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں، یہ جواب تو ان لوگوں کو تھا جو آپ کو رسول نہیں مانتے تھے اور جو جانتے تھے (یعنی صحابہ کرام) ان کے سامنے بھی آپ نے متعدد بار انسان ہونے کے ناطے سے بشری کمزوریوں کا اعتراف فرمایا تھا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ آپ کا صحابہ کرام (رض) کے سامنے بشر ہونے کا کئی بار اعتراف اقرار :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ نے نماز پڑھائی تو اس میں کچھ کمی بیشی کردی جب سلام پھیرا تو لوگوں نے عرض کیا && یارسول اللہ نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آیا ہے ؟ && آپ نے پوچھا && کیوں کیا بات ہے ؟ && لوگوں نے کہا && آپ نے اتنی رکعت پڑھی ہیں && یہ سن کر آپ الٹے پاؤں پھرے قبلہ کی طرف منہ کیا (سہو کے) دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا پھر ہماری طرف منہ کرکے فرمایا &&: اگر نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آتا تو میں ضرور تمہیں بتادیتا لیکن بات یہ ہے کہ میں بھی تمہاری طرح آدمی ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں تو جب میں بھولوں مجھے یاد دلا دیا کرو اور جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک پڑجائے تو اپنے ظن غالب کے مطابق اپنی نماز پوری کرے پھر سلام پھیرے اور سہو کے دو سجدے کرلے && (بخاری، کتاب الصلوۃ۔ باب التوجہ نحو القبلۃ) ٢۔ ام المومنین سیدہ ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : میں بھی ایک بشر ہی ہوں اور تم آپس میں جھگڑتے ہوئے میرے پاس آتے ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تم میں سے ایک فریق دلائل دینے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہوتا ہے اور میں اس کے دلائل سن کر اسی کے حق میں فیصلہ کردیتا ہوں۔ اب اگر میں کسی فریق کو اس کے بھائی کا کچھ حق دلا دوں تو یاد رکھو میں اسے آگ کا ایک ٹکڑا دلا رہا ہوں && (بخاری، کتاب الاحکام۔ باب موعظۃ الامام للخصوم) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ کو علم غیب نہیں تھا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ ٣۔ سیدنا رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ رسول اللہ مدینہ تشریف لائے تو اس وقت لوگ کھجور میں پیوند لگاتے تھے آپ نے پوچھا : && یہ کیا کرتے ہو ؟ && صحابہ کرام نے جواب دیا &&: ہم تو ایسا ہی کیا کرتے ہیں && آپ نے فرمایا : && اگر تم یہ کام نہ کرو تو شاید بہتر ہوگا && لوگوں نے پیوند لگانا چھوڑ دیا تو کھجور پھل کم لائی۔ صحابہ نے یہ بات رسول اللہ سے بیان کی تو آپ نے فرمایا : && میں بھی ایک بشر ہی ہوں جب میں تمہیں تمہارے دین کی کسی بات کا حکم دوں تو اس پر عمل کرو اور جب میں کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو میں بھی آخر آدمی ہی ہوں && (یعنی مجھ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے) (مسلم۔ کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ماقالہ، دون ما ذکرہ، من معائش الدنیا علی سبیل الرای) آپ کی شان میں افراط وتفریط کا شکار ہونے والے حضرات :۔ یہ احادیث ہمیں اس لیے درج کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ رسول اللہ کے بارے میں آپ کی امت افراط وتفریط کا شکار ہوگئی کچھ لوگ تو اس بات پر مصر ہیں کہ آپ بشر تھے ہی نہیں بلکہ نور تھے یہ احادیث انھیں کو سمجھانے اور ان پر حجت کے طور پر درج کی گئی ہیں۔ دوسرا فریق جو تفریط کا شکار ہوا تو وہ آپ کو ایک عام انسان کی سطح پر لے آیا اور دلیل یہ دی کہ انما کلمہ حصر ہے حالانکہ انما محض الوہیت اور عبودیت میں امتیاز کا فائدہ دے رہا ہے یعنی رسول اللہ میں الوہیت کا کچھ بھی حصہ نہیں اس سے کمالات نبوت کی نفی مراد نہیں۔ بخاری میں علامات النبوۃ فی الاسلام کے عنوان کے تحت آپ کے سینکڑوں معجزات مذکور ہیں لہذا رسول اللہ کو عام انسانوں جیسا ایک معمولی انسان سمجھنا انتہائی گستاخی اور سخت نادانی ہے۔ [٩١] یعنی جو شخص اللہ سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ ملاقات خوشگوار رہے اسے اللہ سے ڈرتے ہوئے نیک اعمال بجا لاتے رہنا چاہیے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اللہ کی عبادت میں شرک کا شائبہ تک نہ ہو ایک تو خالصتاً اسی کی عبادت کرے دوسرے اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی تعظیم اور اس سے دعا کے جو طریقے مشروع ہیں وہ کسی دوسرے کے لیے بجا نہ لائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۔۔ : اللہ کے کبھی ختم نہ ہونے والے کلمات میں سے تمام پیغمبر اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کلمات لے کر آئے، کفار نے ان پر ایمان لانے سے اس لیے انکار کردیا کہ انھیں لانے والے بشر تھے۔ ان کے خیال میں بشر اللہ کا رسول نہیں ہوسکتا تھا۔ دیکھیے سورة ابراہیم (١١) اور بنی اسرائیل (٩٤) کی تفسیر۔ عقل کے ان اندھوں کو دیکھو کہ احسن تقویم والے انسان کو اللہ کا رسول ماننے کے لیے تیار نہیں، مگر بےجان پتھروں کو معبود مان رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہہ دیجیے کہ میں تمہاری طرح ایک بشر ہونے کے سوا کچھ نہیں، نہ میں رب ہوں، نہ رب ہونے میں میرا کوئی حصہ ہے، نہ عالم الغیب ہوں، نہ اپنے یا تمہارے لیے کسی نفع یا نقصان کا مالک ہوں، بلکہ میں تمہاری طرح صرف ایک بشر ہوں، آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہوں۔ میرے والدین بھی ہیں، بیوی بچے بھی، کھانے پینے کی اور دوسری بیشمار اشیاء کی محتاجی میں بھی تمہارا شریک ہوں۔ پیدائش، بچپن، جوانی، بڑھاپے، تندرستی، بیماری اور وفات سب میں تمہاری طرح ہوں، ہاں اللہ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے کہ اس نے اپنے کلمات پہنچانے کے لیے مجھے وحی کا شرف عطا فرمایا ہے، جس کا اصل الاصول ایک اللہ کی عبادت ہے۔ سو تم میری نبوت مانو اور اللہ کی توحید پر ایمان لے آؤ۔ واضح رہے کہ قرآن مجید کے مطابق رسول بشر ہوتا ہے، جسے اللہ رسالت کے لیے چن لیتا ہے۔ کوئی یہ کہے کہ بشر رسول نہیں ہوسکتا، یا یہ کہے کہ رسول بشر نہیں ہوسکتا، دونوں کا عقیدہ ایک ہے اور دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے اس آیت کی تفسیر یہ کی ہے کہ ” ان مشرکین سے جو آپ کی رسالت کو جھٹلاتے ہیں، کہہ دیجیے کہ میں محض تمہارے جیسا ایک بشر ہوں، پھر جو شخص سمجھتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں تو جیسا کلام میں لے کر آیا ہوں وہ لے کر آئے، دیکھو میں نے عالم الغیب نہ ہوتے ہوئے ماضی کے جو واقعات (اصحاب کہف، ذوالقرنین وغیرہ کے) عین واقعہ کے مطابق تمہیں بتائے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ مجھے اطلاع نہ دیتا تو میں تمہیں کبھی نہ بتاسکتا۔ “ یہ تفسیر بھی اچھی ہے۔ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ ۔۔ : ” يَرْجُوْا “ ” رَجَاءٌ“ کا معنی امید ہے، اس کے ضمن میں خوف بھی ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ امید پوری نہ ہو۔ غرض اس کے معنی امید اور خوف دونوں کرلیے جاتے ہیں۔ بندے اور اس کے رب کے تعلق کو نمایاں کرکے فرمایا کہ جو اپنے رب کی ملاقات اور دیدار کی امید رکھتا ہے، یا اس سے ملاقات کے وقت اس کے عذاب سے ڈرتا ہے، اس کے لیے دو کام ضروری ہیں، پہلا یہ کہ وہ صالح عمل کرے اور صالح عمل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعے سے بتایا ہے، اس کے علاوہ سب بدعت اور گمراہی ہے۔ دوسرا یہ کہ اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے، نہ کسی دوسرے کی عبادت کرکے اور نہ ریا کاری کرکے، کیونکہ غیر اللہ کی عبادت اگر شرک اکبر ہے تو ریا کاری (دکھاوا) شرک اصغر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( قَال اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی أَنَا أَغْنَی الشُّرَکَاءِ عَنِ الشِّرْکِ ، مَنْ عَمِلَ عَمَلاً أَشْرَکَ فِیْہِ مَعِيَ غَیْرِيْ تَرَکْتُہُ وَ شِرْکَہُ ) [ مسلم، الزھد، باب تحریم الریاء : ٢٩٨٥، عن أبي ہریرہ (رض) ] ” اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے، میں تمام حصے داروں سے کہیں زیادہ (ہر قسم کے) حصے سے بےنیاز ہوں، جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے سوا کسی اور کو حصے دار بنایا تو میں اس عمل کو اور اس کے حصے کو چھوڑ دیتا ہوں۔ “ یعنی میں وہ حصہ بھی قبول نہیں کرتا جو اس عمل میں سے اس نے میرے لیے کیا ہے، کیونکہ اس میں دوسرا بھی حصے دار ہوتا ہے، تو میں اپنا حصہ بھی چھوڑ کر اسی کو دے دیتا ہوں، اب وہ اس کا اجر اسی سے لے، میں تو صرف وہ عمل قبول کرتا ہوں جو سارے کا سارا میرے لیے ہو، کسی دوسرے کا اس میں حصہ نہ ہو۔ جندب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : ( مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللّٰہُ بِہِ ، وَ مَنْ یُرَاءِيْ یُرَاءِيْ اللّٰہُ بِہِ ) ” جو شخص سنانے (شہرت) کی خاطر عمل کرے اللہ تعالیٰ (اس کی بدنیتی) سب کو سنا دے گا اور جو لوگوں کو دکھانے کے لیے کوئی کام کرے گا اللہ تعالیٰ اسے سب لوگوں کو دکھلا دے گا۔ “ [ بخاری، الرقاق، باب الریاء والسمعۃ : ٦٤٩٩ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The cause of the revelation of the last verse of Surah al-Kahf: وَلَا يُشْرِ‌كْ بِعِبَادَةِ رَ‌بِّهِ أَحَدًا (and must not associate anyone in the worship of his Lord - 110), as mentioned in Hadith reports, shows that shirk at this place means hidden shirk, that is, hypocrisy (رِیَاء : riy& ). One such narration from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) has been reported by Imam Hakim in al-Mustadrak as being sound on the criter¬ion set forth by the two authorities, al-Bukhari and Muslim. According to the narration, one of the Muslims used to carry out Jihad in the way of Allah. Side by side, he wished that his soldiering and bravery in the cause be recognized and appreciated by the people. This verse was re¬vealed about him (which tells us that one gets no thawab (reward) by having such an intention in Jihad). In Kitabul-Ikhlas, Ibn Abi Hatim and Ibn Abi al-Dunya have reported from Tawus that a Sahabi stated before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : &There are occasions when I am ready to worship, or to do some righ¬teous deed, my aim thereby is nothing but the pleasure of Allah. But, along with it, I do have the wish that people would see me doing it.& Hearing this, he observed silence until the cited verse was revealed. And in Abu Nu&aym and in the history of Ibn ` Asakir, it appears on the authority of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that whenever the Sahabi, Sayyidna Jundub ibn Zuhayr (رض) prayed, fasted or gave in charity and then saw people admiring him for doing those deeds, he felt pleased about it and would then increase the frequency of those deeds. There-upon, this verse was revealed. The gist of narrations given above is that the shirk prohibited in this verse is the hidden shirk of showing off (riya& ). And that a deed may though be for Allah alone but, along with it, should it become associated with some selfish motive of name, fame and recognition, then, this too will be a kind of hidden shirk, something that makes one&s deed go waste, even harmful. However, there are some other Sahih Ahadith which apparently seem to indicate otherwise. For example, Tirmidhi reports from Sayyidna Abu Hurairah (رض) that he submitted before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : &There are times when I am on my prayer mat inside my house (mak¬ing Salah) and, all of a sudden, there comes someone. I like it that he saw me in that state. (Would that be riya&?) & The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, &0 Abu Hurairah, may Allah have mercy on you. Then you get two rewards, one for the deed you were already doing in secret, and the other for what you did openly after the coming of that person. (This is no riya& ).& And according to a narration of Sayyidna Abu Dharr al-Ghifari appearing in the Sahih of Muslim, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was asked, &What do you say about a person who does some good deed, then hears people praising it?& The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, تِلکَ عَاجِلُ بُشرَی المُؤمِنِ : |"This is instant good news for the believer.|" (that his deed was accepted with Allah and He had his servants praise it). The apparent difference in these two kinds of narrations has been resolved and brought in agreement in Tafsir Mazhari. It says that the first kind of narrations about the cause of the revelation of the verse apply to a particular situation. This is when one associates his intention to please people or to earn a good name for himself along with the intention of seeking the pleasure of Allah through his deed to the extent that he fur¬ther increases the frequency of that deed on being praised by people for it. This is, no doubt, hypocrisy (riya& ) and hidden shirk. And the latter narrations, those from Tirmidhi and Muslim, concern another situation. This is when one has acted for the pleasure of Allah alone without any inclination of receiving publicity or praise for it and then Allah Ta’ ala, in His grace, gives him fame by making people praise him. If so, it has nothing to do with riya& (showing off). In fact, this is spontaneous good news for the believer (that his deed has found accep¬tance with Allah). Riya& and its Evil Consequences: Stern Warnings of Hadith Sayyidna Mahmud ibn Labid (رض) reports that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, &What I fear most about you is minor shirk.& The Sahabah (رض) asked: Ya Rasulallah, what is minor shirk?& He said, &Riya|" (to do something only to show people). (Reported by Ahmad in his Musnad) After having reported this Hadith in Shu` ab-al-&Iman, Al-Baihaqi has also reported the remarks: &On the day of Qiyamah, when Allah Ta’ ala will reward His servants for their deeds, He will ask the practitioners of riya& to go for their rewards to those they wanted to impress with their deeds and find out whether or not they have any for them.& Sayyidna Abu Hurairah (رض) reports that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Allah Ta` ala says &I am free and above from associating with those asso¬ciated with Me. Whoever does a good deed and then associates in it someone else with Me, then, I leave the entire deed for the one associated.& And, according to another narration, &I withdraw from that deed making it exclusive for the person associated with me.& (Narrated by Muslim) And Sayyidna ` Abdullah ibn ` Umar (رض) reports that he heard the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) saying, &Whoever does a good deed to earn a fair name among people, then, Allah Ta’ ala too deals with him in a manner that he is disgraced before them.& (Narrated by Ahmad in Shu` ab-al-&Imn - from Tafsir Mazhari) It appears in Tafsir al-Qurtubi that Sayyidna Hasan al-Basri (رح) was asked about ikhlas (unalloyed sincerity) and riya& (showing off). He said: Ikhlas requires that your good deeds remaining hidden should be what you like and the bad deeds remaining hidden should be what you do not like. After that, if Allah Ta’ ala discloses your deeds before the people, you should say, &Ya Allah, all this is Your grace and favour, not the outcome of my deed and effort.& And Tirmidhi reports from Sayyidna Abu Bakr (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) once mentioned shirk by saying: ھُوَ فِیکُم اَخفٰی مِن دبِیبِ النَّمل (It is right there in you more stealthily than the soundless movement of an ant). Then, he added, &I tell you something which, if you do, you will remain safe against all sorts of shirk, major or minor (riya& ). Make this prayer (dua three times every day: اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوذُبِکِ اَن اُشرِکَ بِکَ وَ اَنَا اَعلَمُ وَاَستغفِرُکَ لِمَا لَا اَعلَمُ 0& Allah, I seek refuge with You lest I associate a partner with You while I know and I seek forgiveness from You for what I do not know. Some Merits and Properties of Surah al-Kahf Sayyidna Abu a1-Darda& (رض) reports that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Whoever remembers to recite the first ten verses of Surah al-Kahf will remain safe against the fitnah (upheaval, trial) caused by Dajjal (anti-Christ). (Reported by Muslim, Ahmad, Abu Dawud and al-Nasa&i) And Imam Ahmad, Muslim and al-Nasa&i have reported within this narration from Sayyidna Abu al-Darda& words to the effect that &whoever remembers to recite the last ten verses of Surah al-Kahf will remain safe against the fitnah of Dajjal.& And according to a narration of Sayyidna Anas (رض) ، the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Whoever recites the initial and the concluding verses of Surah al-Kahf will have light for him, from his feet up to his head. And whoev¬er recites this Surah in full will have light for him, from the ground up to the sky.|" (Reported by Ibn al-Sunni, and Ahmad in his Musnad) And as narrated by Sayyidna Abu Said (رض) ، the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Whoever recites Surah al-Kahf in full on the day of Jumu&ah will have light for him until the next Jumu&ah. (Reported and declared as Sahih by al-Hakim and al-Baihaqi in al-Da` awat - from Mazhari) To Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) someone said, &I resolve in my heart to wake up in the later part of night and make Salah but sleep overtakes me.& Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) said to him, &recite the last verses of Surah al-Kahf - from: قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ‌ مِدَادًا (109) to the end of the Surah (110) - before you sleep. Then, the time you intend to wake up will be the time when Allah Ta’ a1a will wake you up.& (Reported by ath-Tha` alibi) And according to the Musnad of al-Darimi, Zirr ibn Hubaish told ` Abdah, &Anyone who sleeps after having recited these last verses will wake up at the time he or she intends to.& And ` Abdah says, &we have tried this repeatedly. It happens just like that.& An important word of advice Ibn al-` Arabi quotes his Shaikh, Turtushi: &Let not the hours of your dear life pass away confronting contemporaries and socializing with friends. Watch out! Allah Ta’ ala has concluded His statement on the fol¬lowing verse: فَمَن كَانَ يَرْ‌جُو لِقَاءَ رَ‌بِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِ‌كْ بِعِبَادَةِ رَ‌بِّهِ أَحَدًا So the one who hopes to meet his Lord must do righteous deed and must not associate anyone in the worship of his Lord - 110 (Al-Qurtubi) Alhamdulillah The Commentary on Surah al-Kahf End here.

معارف و مسائل : سورة کہف کی آخری آیت میں (آیت) وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا کا شان نزول جو روایات حدیث میں مذکور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں شرک سے مراد شرک خفی یعنی ریاء ہے۔ امام حاکم نے مستدرک میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے یہ روایت نقل کی ہے اور اس کو صحیح علی شرط الشیخین فرمایا ہے روایت یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرتا تھا اس کے ساتھ اس کی یہ خواہش بھی تھی کہ لوگوں میں اس کی بہادری اور غازیانہ عمل پہچانا جائے اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی (جس سے معلوم ہوا کہ جہاد میں ایسی نیت کرنے سے جہاد کا ثواب نہیں ملتا) اور ابن ابی حاتم اور ابن دنیا نے کتاب الاخلاص میں طاؤس سے نقل کیا ہے کہ ایک صحابی نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا کہ میں بعض اوقات کسی نیک کام کے لئے یا عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور میرا قصد اس سے اللہ تعالیٰ ہی کی رضا ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ دل میں یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ لوگ میرے عمل کو دیکھیں آپ نے یہ سن کر سکوت فرمایا یہاں تک کہ یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ اور ابو نعیم اور تاریخ ابن عساکر میں بروایت ابن عباس (رض) لکھا ہے کہ جندب بن زہیر (رض) صحابی جب نماز پڑھتے یا روزہ رکھتے یا صدقہ کرتے پھر دیکھتے کہ لوگ ان اعمال سے انکی تعریف وثناء کر رہے ہیں تو اس سے ان کو خوشی ہوتی اور اپنے اس عمل کو اور زیادہ کردیتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ خلاصہ ان تمام روایات کا یہی ہے کہ اس آیت میں جس شرک سے منع کیا گیا ہے وہ ریاء کاری کا شرک خفی ہے اور یہ کہ عمل اگرچہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو مگر اس کے ساتھ کوئی نفسانی غرض شہرت و وجاہت کی بھی شامل ہو تو یہ بھی ایک قسم کا شرک خفی ہے جو انسان کے عمل کو ضائع بلکہ مضرت رسان بنا دیتا ہے۔ لیکن بعض دوسری احادیث صحیحہ سے بظاہر اس کے خلاف معلوم ہوتا ہے مثلا ترمذی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میں بعض اوقات اپنے گھر کے اندر اپنے جائے نماز پر (نماز میں مشغول) ہوتا ہوں اچانک کوئی آدمی آجائے تو مجھے یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے مجھے اس حال میں دیکھا (تو کیا یہ ریاء ہوگئی) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابوہریرہ (رض) خدا تعالیٰ تم پر رحمت فرمائے تمہیں اس وقت دو اجر ملتے ہیں ایک خفیہ عمل کا جو پہلے سے کر رہے تھے دوسرا اعلانیہ عمل کا جو اس آدمی کے آجانے کے بعد ہوگیا (یہ ریاء نہیں) اور صحیح مسلم میں حضرت ابوذر غفاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ ایسے شخص کے بارے میں فرمائیے کہ جو کوئی نیک عمل کرتا ہے پھر لوگوں کو سنے کہ وہ اس عمل کی تعریف و مدح کر رہے ہیں ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تلک عاجل بشری المؤ من یعنی یہ تو مومن کے لئے نقد بشارت ہے (کہ اس کا عمل اللہ کے نزدیک قبول ہوا اس نے اپنے بندوں کی زبانوں سے اس کی تعریف کرادی) تفسیر مظہری میں ان دونوں قسم کی روایتوں میں جو بظاہر اختلاف نظر آتا ہے اس کی تطبیق اس طرح فرمائی ہے کہ پہلی روایات جن کے بارے میں آیت نازل ہوئی اس صورت میں ہیں جب کہ انسان اپنے عمل سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے ساتھ مخلوق کی رضا جوئی یا اپنی شہرت ووجاہت کی نیت کو بھی شریک کرے یہاں تک کہ لوگوں کی تعریف کرنے پر اپنے اس عمل کو اور بڑھاوے یہ بلاشبہ ریاء اور شرک خفی ہے۔ اور بعد کی روایات ترمذی اور مسلم کی اس صورت سے متعلق ہیں جبکہ اس نے عمل خالص اللہ کے لئے کیا ہو لوگوں میں اس کی شہرت یا ان کی مدح وثناء کی طرف کوئی التفات نہ ہو پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو مشہور کردیں اور لوگوں کی زبانوں پر اس کی تعریف جاری فرمادیں تو اس کا ریا سے کوئی تعلق نہیں یہ مومن کے لئے نقد بشارت (قبول عمل کی) ہے۔ ر یاء کاری کے نتائج بد اور اس پر حدیث کی وعید شدید : حضرت محمود بن لیبد فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تمہارے بارے میں جس چیز پر سب سے زیادہ خوف رکھتا ہوں وہ شرک اصغر ہے صحابہ کرام (رض) اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ شرک اصغر کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ریاء (رواہ احمد فی مسندہ) اور بیہقی نے شعب الایمان میں اس حدیث کو نقل کرکے اس میں یہ زیادتی بھی نقل کی ہے کہ قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ بندوں کے اعمال کی جزاء عطا فرمائیں گے تو ریاکار لوگوں سے فرمادیں گے کہ تم اپنے عمل کی جزاء لینے کے لئے ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کو دکھانے کے لئے تم نے یہ عمل کیا تھا پھر دیکھو کہ ان کے پاس تمہارے لئے کوئی جزا ہے یا نہیں۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں شرکاء میں شریک ہونے سے غنی اور بالا تر ہوں جو شخص کوئی عمل نیک کرتا ہے پھر اس میں میرے ساتھ کسی کو بھی شریک کردیتا ہے تو وہ سارا عمل اسی شریک کے لئے چھوڑ دیتا ہوں ایک روایت میں ہے کہ میں اس عمل سے بری ہوں اس کو تو خالص اسی شخص کا کردیتا ہوں جس کو میرے ساتھ شریک کیا تھا (رواہ مسلم) اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اپنے نیک عمل کو لوگوں میں شہرت کے لئے کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ فرماتے ہیں کہ لوگوں میں وہ حقیر و ذلیل ہوجاتا ہے (رواہ احمد والبیہقی فی شعب الایمان از تفسیر مظہری) تفسیر قرطبی میں ہے کہ حضرت حسن بصری سے اخلاص اور ریاء کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اخلاص کا تقاضا یہ ہے کہ تمہیں اپنے نیک اور اچھے اعمال کا پوشیدہ رہنا محبوب ہو اور برے اعمال کا پوشید رہنا محبوب نہ ہو پھر اگر اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال لوگوں پر ظاہر فرما دیں تو تم یہ کہو کہ یا اللہ یہ سب آپ کا فضل ہے احسان ہے میرے عمل اور کوشش کا اثر نہیں۔ اور حکیم ترمذی نے صدیق اکبر (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ شرک کا ذکر فرمایا کہ ھو فیکم اخفی من دبیب النمل یعنی شرک تمہارے اندر ایسے مخفی انداز سے آجاتا ہے جیسے چیونٹی کی رفتار بےآواز اور فرمایا کہ میں تمہیں ایک ایسا کام بتلاتا ہوں کہ جب تم وہ کام کرلو تو شرک اکبر اور شرک اصغر (یعنی ریاء) سب سے محفوظ ہوجاؤ تم تین مرتبہ روزانہ یہ دعاء کیا کرو۔ اللہم انی اعوذبک ان اشرک بک وانا اعلم واستغفرک لما لا اعلم۔ سورة کہف کے بعض فضائل اور خواص : حضرت ابو الدرداء (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے سورة کہف کی پہلی دس آیتیں یاد رکھیں وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا (رواہ مسلم واحمد وابو داؤد والنسائی) اور امام احمد مسلم اور نسائی نے حضرت ابوالدرداء (رض) سے ہی اس روایت میں یہ الفاظ نقل کئے ہیں کہ جس شخص نے سورة کہف کی آخری دس آیتیں یاد رکھیں وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا حضرت انس (رض) کی روایت یہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے سورة کہف کی ابتدائی اور آخری آیتیں پڑھ لیں تو اس کے لئے ایک نور ہوجائے گا اس کے قدم سے لے کر سر تک اور جس نے یہ سورة پوری پڑھی اس کے لئے نور ہوگا زمین سے آسمان تک (اخرجہ ابن السنی واحمد فی مسندہ) اور حضرت ابو سعید (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے جمعہ کے روز سورة کہف پوری پڑھ لی تو دوسری جمعہ تک اس کے لئے نور ہوجائے گا (رواہ الحاکم وصححہ والبیہقی فی الدعوات) ازمظہری اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے ایک شخص نے کہا کہ میں دل میں ارادہ کرتا ہوں کہ آخرت رات میں بیدار ہو کر نماز پڑھوں مگر نیند غالب آجاتی ہے آپ نے فرمایا کہ جب تم سونے کے لئے بستر پر جاؤ تو سورة کہف کی آخری آیتیں قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا سے آخر سورت تک پڑھ لیا کرو تو جس وقت بیدار ہونے کی نیت کروگے اللہ تمہیں اسی وقت بیدار کردیں گے (رواہ الثعلبی) اور مسند دارمی میں ہے کہ زربن حبیش نے حضرت عبدہ کو بتلایا کہ جو آدھی سورة کہف کی یہ آخری آیتیں پڑھ کر سوئے گا تو جس وقت بیدار ہونے کی نیت کرے گا اسی وقت بیدار ہوجائے گا عبدہ کہتے ہیں کہ ہم نے بارہا اس کا تجربہ کیا بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔ اہم نصیحت : ابن عربی فرماتے ہیں کہ ہمارے شیخ طرطوشی فرمایا کرتے تھے کہ تمہاری عمر عزیز کے اوقات اپنے ہم عصروں سے مقابلے اور دوستوں سے میل جول ہی میں نہ گذرجائیں دیکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے بیان کو اس آیت پر ختم فرمایا ہے (آیت) فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا یعنی جو شخص اپنے رب سے ملنے کی آرزو رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ عمل نیک کرے اور اللہ کی عبادت میں کسی کو حصہ دار نہ بنائے (قرطبی) الحمد للہ حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ آج ٨ ذیقعدہ ١٣٩٠ ھ بروز جمعرات بوقت ضحی سورة کہف کی یہ تفسیر مکمل ہوئی اور اللہ کا فضل و انعام ہی ہے کہ اس وقت قرآن کریم کا نصف اول سے کچھ زائد پورا ہوگیا جبکہ عمر کا چہترواں سال چل رہا ہے اور ضعف طبعی کے ساتھ دو سال سے مختلف امراض نے بھی گھیرا ہوا ہے اور افکار کا ہجوم بھی غیر معمولی ہے کچھ عجب نہیں کہ حق تعالیٰ اپنے فضل سے باقی قرآن کی بھی تکمیل کرادیں وما ذلک علی اللہ بعزیز چلد پیجنم تمام شد :

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰـــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝ ٠ۚ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّہٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا۝ ١١٠ۧ بشر وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] ، ( ب ش ر ) البشر اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص/ 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ رَّجَاءُ ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد : إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عوامل ووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] ، وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة/ 106] ، وأَرْجَتِ النّاقة : دنا نتاجها، وحقیقته : جعلت لصاحبها رجاء في نفسها بقرب نتاجها . والْأُرْجُوَانَ : لون أحمر يفرّح تفریح الرّجاء . اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة/ 106] اور کچھ اور لوگ ہیں کہ حکم خدا کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے ۔ ارجت الناقۃ اونٹنی کی ولادت کا وقت قریب آگیا ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اونٹنی نے اپنے مالک کو قرب ولادت کی امید دلائی ۔ الارجون ایک قسم کا سرخ رنگ جو رجاء کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے ۔ لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٠) اور آپ ان سے فرما دیجیے کہ میں تم ہی جیسا آدمی ہوں میرے پاس بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) یہ وحی آئی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے جس کا کوئی شریک نہیں سو جس شخص کو مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کو منہ دکھانے کا ڈر ہو وہ خلوص کے ساتھ نیک اعمال کرے اور اپنے رب کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے یہ آیت کریمہ جندب بن زہیر عامری کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ فمن کان یرجوا لقآء ربہ “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) اور ابن ابی الدنیا (رح) نے ” کتاب الاخلاص “ میں طاؤس سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے اعمال کرتا ہوں اور مجھے اس بات کی تمنا ہے کہ میرا ٹھکانا دکھادیا جائے، آپ نے اس کو کوئی جواب نہیں یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی یعنی سو جو شخص اپنے رب سے ملنے کی آرزو رکھے، وہ نیک کام کرتا رہے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے یہ روایت مرسل ہے اور امام حاکم نے اسی روایت کو متدرک میں بواسطہ طاؤس حضرت ابن عباس (رض) سے موصولا شرط شیخین پر روایت کیا ہے اور ابن ابی حاتم (رح) نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں میں جہاد کرتا تھا اور اسے اس بات کی خواہش تھی کہ اس کا ٹھکانا دکھا دیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور ابو نعیم (رح) اور ابن عساکر (رح) نے اپنی تاریخ میں بواسطہ سدی صغیر (رح)، کلبی (رح)، ابو صالح (رح)، ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جندب بن زبیر نے کہا کہ جب آدمی نماز پڑھے یا روزہ رکھے یا کوئی صدقہ و خیرات کرے اور اس پر اس کی تعریف کی جائے اور پھر وہ لوگوں کی اس تعریف سے اپنی نیکیوں میں اضافہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی جو شخص اپنے رب سے ملنے کی آزور رکھے وہ نیک کام کرتا رہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا) یعنی عبادت خالص اللہ کی ہو۔ یہ توحید عملی ہے۔ اس بارے میں سورة بنی اسرائیل آیت ٢٣ میں یوں فرمایا گیا ہے : (وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْٓا الآَّ اِیَّاہُ ) ” اور فیصلہ کردیا ہے آپ کے رب نے کہ تم لوگ نہیں عبادت کرو گے کسی کی سوائے اس کے “۔ سورة الکہف کی اس آخری آیت اور سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت کا بھی آپس میں معنوی ربط وتعلق ہے۔ موازنہ کے لیے سورة بنی اسرائیل کی آیت ملاحظہ کیجیے : (وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا) ” اور کہہ دیجیے کہ کل حمد اور کل شکر اللہ کے لیے ہے جس نے نہیں بنائی کوئی اولاد اور نہیں ہے اس کا کوئی شریک بادشاہی میں اور نہ ہی اس کا کوئی دوست ہے کمزوری کی وجہ سے اور اس کی تکبیر کرو جیسے کہ تکبیر کرنے کا حق ہے “۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا بلند مقام اور اس کی شان بیان کر کے شرک کی نفی کی گئی ہے۔ در اصل اللہ کے ساتھ شرک کی دو صورتیں ہیں۔ یا تو اللہ کو مرتبہ الوہیت سے نیچے اتار کر مخلوقات کے ساتھ کھڑا کردیا جاتا ہے یا پھر مخلوقات کی صف میں سے کسی کو اٹھا کر اللہ کے برابر بٹھا دیا جاتا ہے۔ چناچہ سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت میں اللہ کی کبریائی کا اعلان کرنے کا حکم دے کر شرک کی پہلی صورت کا ابطال کیا گیا ہے جبکہ سورة الکہف کی آخری آیت میں شرک کی دوسری صورت یعنی مخلوقات میں سے کسی کو اللہ کے برابر کرنے کی نفی کی گئی ہے۔ دیکھا جائے تو اللہ کی مخلوق میں سے اس کے شریک بنانے کی روایت ہر زمانے میں رہی ہے۔ عیسائیوں نے حضرت مسیح کو خدا کا درجہ دے دیا اور اہل عرب نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دے دیا۔ ہمارے ہاں بھی بعض لوگوں نے حضور کو (نعوذ باللہ) خدا بنا دیا : وہی جو مستوئ عرش تھا خدا ہو کر اُتر پڑا وہ مدینے میں مصطفیٰ ہو کر ! اور کسی نے حضرت علی کو خدا کی ذات سے ملا دیا : ہر چند علی کی ذات نہیں ہے خدا کی ذات لیکن نہیں ہے ذات خدا سے جدا علی اور مرزا غالب تو اس سلسلے میں یہاں تک کہہ گئے : غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست مشغولِ حق ہوں بندگی بو تراب میں یعنی جب میں ابو تراب (حضرت علی) کی بندگی کرتا ہوں تو درحقیقت اللہ ہی کی بندگی کر رہا ہوتا ہوں۔ اسی طرح آغا خانیوں کے ہاں حضرت علی کو ” دشم اوتار “ قرار دیا گیا۔ ہندوؤں کے ہاں نو (٩) اوتار تسلیم کیے جاتے تھے ‘ انہوں نے حضرت علی کو ” دسواں اوتار “ مان لیا۔ اعاذنا اللّٰہ من ذٰلک ! ! بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١٠۔ اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا قصہ بیان کرنے کے بعد مشرکین مکہ کے قائل کرنے کے لیے فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ بشر ہونے میں تم اور میں برابر ہیں پھر تم لوگوں کو کیا اتنی سمجھ نہیں کہ بغیر پڑھے لکھے یہ غیب کے قصے میں اس طرح سے کیونکر بیان کرسکتا ہوں جو پچھلی آسمانی کتابوں کے موافق ہیں اور جو بات میں تم لوگوں کو آسمانی وحی کے موافق سمجھتا ہوں وہ بھی ہر شخص کی سمجھ میں آجانے کی بات ہے کہ جب اللہ نے تم کو تمہاری سب ضرورت کی چیزوں کو اس طرح سے پیدا کیا کہ اس میں کوئی اس کا شریک تم ثابت نہیں کرسکتے تو پھر اس وحدہ لاشریک کا تعظیم میں شریک ٹھہرانا بڑے وبال کی بات ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شرک سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گناہ نہیں ١ ؎۔ اس حدیث کو آیت کے اس ٹکڑے کے ساتھ ملانے سے وہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو اس طرح سے پیدا کیا کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں تو پھر یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں آجانے کے قابل ہے کہ اس وحدہ لاشریک کی تعظیم میں دوسروں کو شریک ٹھہرانا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی دوسرا گناہ نہیں۔ صحیح سند سے مستدرک حاکم اور تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص ثواب آخرت کے خیال سے تو نماز روزہ اور نیک کام کرے لیکن کسی قدر اس کے دل میں یہ بھی خواہش ہو کہ لوگ اس کے نیک کام کی تعریف کریں اور اس کو بڑا نیک گمان کریں ایسے شحص کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ٢ ؎۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ جس شخص کو مرنے کے بعد پھر جینے اور اللہ تعالیٰ کے روبرو حساب کتاب اور سزاو جزا کے لیے کھڑے ہونے کا پورا یقین ہے اور اس یقین کے سبب سے اس امید پر وہ نیک کام کرتا ہے کہ ایک دن اللہ کی درگاہ سے اس نیک کام کی جزا پائے گا۔ تو ایسے شخص کو چاہیے کہ اس طرح خالص نیت سے نیک عمل کرے کہ اس عمل میں سوا خدا کے کسی دوسرے کے دکھاوے کی کسی طرح کی شراکت نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر طرح کے شرک سے بیزار ہے غرض بہت سی آیات قرآنی اور احادیث سے نیک عمل کے مقبول ہونے کی دو شرطیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ عمل قواعد شرعیہ کی بنا پر صحیح ہو عقیدہ کی خرابی سے بلا اجازت شرع کے بدعت کے طور پر ایجاد کیا ہوا نہ ہو کیوں کہ اس طرح کا ایجادی عمل شرعی عمل ہی جب نہیں ہے تو شارع سے اس کے اجر کی توقع بےسود ہے۔ دوسرے دنیا کے دکھاوے یا نیک کہلانے کی شہرت کا اس میں کچھ دخل نہ ہو ہاں یہ بات اور ہے کہ عمل کرنے والے کی نیت خالص ثواب آخرت کے ہے کسی طرح کی دنیا کے دکھاوے یا نیک کہلانے کی شہرت کا اس کی نیت میں لگاؤ یا دخل نہیں ہے۔ لیکن اپنے طور پر لوگ اس کی نیکی کے سبب سے اس کو عزیز رکھتے ہیں تو یہ اللہ کی ایک نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو دنیا میں دی ہے۔ صحیح مسلم میں ابوذر (رض) سے روایت ہے۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی نے پوچھا حضرت ایک شخص بغیر خیال شہرت دنیا کے نیک نیتی سے نیک عمل کرتا ہے اور لوگ اپنے طور پر اس کی تعریف کرتے ہیں یا اس کو عزیز رکھتے ہیں تو ایسے شخص کے باب میں آپ کیا فرماتے ہیں آپ نے فرمایا اس طرح کے مومن کے حق میں یہ اللہ کی دنیا میں پیشگی خوش خبری ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں اس شخص سے راضی رہے گا۔ یہ فیصلہ آدمی اپنے دل سے پوچھ کر کرسکتا ہے کہ اس کی نیت کیا تھی اس کی خواہش کو کچھ دخل تھا یا نہیں۔ اگر دخل تھا تو جس عمل پر شہرت ہوئی ہے وہ بالکل اکارت ہے اور اگر نیت خالص تھی تو صحیح حدیث کی رو سے وہ شہرت بلاشک اللہ کی ایک نعمت ہے علاوہ اس نعمت کے دنیا میں اور یہی نعمتیں اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے خالص نیت کے عمل کرنے والوں کے لیے رکھی ہیں جن کا ذکر صحیحین کی صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ نیک عمل کا ثواب اور اجر دس سے سات سو تک اور کبھی سات سو سے بھی بڑھ کر لکھا جاتا ہے ٣ ؎۔ اور اللہ کے فرشتوں کا جان کنی کے وقت اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور جنت کے عیش و آرام کی اس طرح کی خوشخبری منانا کہ اس کی اس طرح پوری تصویر کا آنکھوں کے سامنے آجانا جس سے جان کنی کی تکلیف دنیا کے چھوٹنے بال بچوں سے جدا ہونے کا رنج سب رفع ہوجائے حاصل کلام یہ کہ اگر آدمی کا نیک عمل قواعد شرع کی رو سے صحیح ہے اور خالص اللہ کے واسطے ہے تو سب کچھ ہیں، نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت شدار بن اوس سے صحیح روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سب سے زیادہ درماندہ اور عاجز اور مصیبت زدہ قیامت کے دن وہ شخص ہے جو بغیر اجازت شرع کے اپنی مرضی کے موافق دنیا میں عمل کرے اور خواہ مخواہ اللہ تعالیٰ سے اجر اور ثواب کی توقع رکھے ٤ ؎۔ سورة کہف ختم ہوئی۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ١٦ باب الکبائر الخ ٢ ؎ تفسیر الدرا لمنثورص ٦٥٥ ج ٤ ٣ ؎ صحیح بخاری۔ ٩٦ ج بہاب من ہم بحتہ اوسئیتہ۔ ٤ ؎ تفسیر ہذاص ٥١ ج ٣

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:110) یوحی۔ مضارع مجہول واحد مذکر غائب ایحاء (افعال) مصدر۔ وحی کی جاتی ہے۔ یرجوا۔ مضارع واحد مذکر غائب رجائمصدر (باب نصر) و امید رکھتا ہے وہ امید کرتا ہے۔ رجائ اس ظن کو کہتے ہیں جس میں مستقبل میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو اگرچہ خوف و وہم کے معنی میں مستعمل ہے۔ لقائ۔ حاصل مصدر مضاف ربہ (مضاف مضاف الیہ) مضاف الیہ۔ لقی یلقی (سمع) لقاء لقاء ۃ۔ لقایۃ مصدر۔ ملاقات کرنا دیدار پانا۔ آمنے سامنے آنا اور پالینا۔ اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً قرآن مجید میں ہے ولقد کنتم تمنون الموت من قیل ان تلقوہ (3:143) اور تم موت (شہادت) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے ۔ یا اسی سورة میں آیا ہے لقد لقینا من سفرنا ھذا نصبا۔ (18:62) اس سفر سے ہم کو بہت تھکان ہوگئی ہے۔ فلیعمل۔ لیعمل۔ امر کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ پس چاہیے کہ وہ عمل کرے۔ مجزوم بوجہ عمل لام امر۔ لا یشرک۔ فعل نہی واحد مذکر غائب۔ مجزوم بوجہ لام نہی۔ چاہیے کہ وہ نہ شریک کرے 0 اپنے رب کی عبادت میں سے کسی کو) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 نہ کسی دوسرے کی عبادت کر کے اور نہ ریاکاری کر کے کیونکہ غیر اللہ کی عبادت اگر شرک اکبر ہے تو ریا کاری شرک صغر ہے حضرت شدہ اوبن اوس سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت سے یہ سنا ہے کہ نماز، روزہ اور صدقہ میں ریا کاری بھی شرک ہے۔ (بیہقی حاکم) چناچہ حضرت شداد بن اوس فرماتے ہیں ” ہم آنحضرت کے زمانے میں ریا کاری کو شرک اصغر شمار کیا کرتے تھے اور حضرت ابوہریرہ سے ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جس نے کوئی ایسا کام کیا جس میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرایا گیا ہو تو میں اس سے اور اس کے کام سے بےتعلق ہوں مسلم احمد اس طرح ریاکاری کی مذمت اور اس کا شرک اصغر ہونا متعدد احادیث میں مروی ہ۔ والحمد اللہ رب العالمین (شوکانی) لم تفسیر ھذا السوۃ یوم الجمۃ الثالث حشرمن شہر شعبان 51389 ابو ال قاسم کو دیا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار اس لیے بھی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے تھے کہ یہ تو انسانوں میں سے ایک انسان ہے۔ وضاحت کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے ہی انھیں سمجھایا اور بتلایا گیا ہے کہ میں نسل انسانی کے اعتبار سے تمہارے جیسا چلنے پھرنے، کھانے، پینے اور اٹھنے، بیٹھنے والا انسان ہوں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار مختلف قسم کے مطالبات کرتے رہتے تھے کبھی کہتے کہ ہمارے لیے چشمے جاری کیے جائیں۔ کبھی کہتے آپ کے لیے سونے کا گھر ہونا چاہیے۔ اس طرح اوٹ پٹانگ مطالبات کرتے رہتے تھے۔ جس کے جواب میں آپ کو حکم ہوا کہ آپ انھیں فرمائیں کہ میں بھی گوشت پوست کا بنا ہوا تمہارے جیسا انسان ہوں۔ انسان ہونے کے حوالے سے جو تمہاری ضروریات اور حاجات ہیں میں ان سے مبّرا نہیں ہوں۔ البتہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام کے لیے منتخب فرمایا ہے میں اس کا رسول اور بندہ ہوں۔ خدا کی خدائی میں میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور اختیارات میں خودمختا رہے وہ کسی کے تعاون کا محتاج نہیں ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق اور حاجت روا مشکل کشا نہیں۔ جو شخص اپنے رب کی ملاقات پر یقین اور اس کی امید رکھتا ہے۔ اسے چاہیے کہ صالح اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو کسی حوالے سے بھی شریک سمجھے اور نہ بنائے۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات پر بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور انبیاء (علیہ السلام) کے بارے میں واضح کیا گیا کہ تمام انبیاء کرام انسان تھے۔ لیکن یہاں تو (قُلْ ) کے لفظ کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ فرمائیں کہ میں بشر ہونے کے ناطے سے تمہارے جیسا انسان ہوں۔ لیکن ستیاناس ہو فرقہ واریت کا کہ جس میں انسان اس قدر اندھا ہوجاتا ہے کہ اسے کوئی دلیل اور حقیقت اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی۔ غور فرمائیں کہ کہاں قرآن مجید اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرامین اور کہاں ایک مفسر کی دیدہ دلیری۔ جاننا چاہیے کہ پیدائش محمدی تمام افراد انسان کی پیدائش کی طرح نہیں بلکہ افراد عالم میں سے کسی فرد کی پیدائش کے ساتھ نسبت نہیں رکھتی، کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود عنصری پیدائش کے حق تعالیٰ کے نور سے پیدا ہوئے ہیں۔ جیسے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ” خُلِقْتُ مِنْ نُوْرِ اللّٰہِ “ کشف صریح سے معلوم ہوا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش اس امکان سے پیدا ہوئی ہے جو صفات اضافیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور نہ کہ اس امکان سے جو تمام ممکنات عالم میں ثابت ہے۔ ممکنات عالم کے صحیفہ کو خواہ کتنا ہی باریک نظر سے مطالعہ کیا جائے لیکن آنحضرت کا وجود مشہود نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کی خلقت وامکان کا منشاء عالم ممکنات میں ہے ہی نہیں، کیونکہ اس عالم سے برتر ہے یہی وجہ ہے کہ ان کا سایہ نہ تھا نیز عالم شہادت میں ہر ایک شخص کا سایہ اس کے وجود کی نسبت زیادہ لطیف ہوتا ہے اور جب جہاں میں ان سے لطیف کوئی نہیں تو پھر ان کا سایہ کیسے متصور ہوسکتا ہے۔ “ (ضیاء القرآن : جلد ٣، صفحہ ٥٩) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بار، بار اقرار کہ میں بشر ہوں : ” سیدنا عبداللہ بن مسعود ہُرَیْرَۃَفرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھائی تو نماز میں کچھ کمی بیشی ہوگئی جب سلام پھیرا تو لوگوں نے عرض کیا ” یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ٗکیا بات ہے لوگوں نے کہا آپ نے اتنی رکعت پڑھی ہیں یہ سن کر آپ الٹے پاؤں پھرے قبلہ کی طرف چہرہ کیا ( سہو کے) دوسجدے کیے پھر سلام پھیرا پھر ہماری طرف چہرہ کر کے فرمایا : اگر نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آتا تو میں ضرور تمہیں بتادیتا لیکن بات یہ ہے کہ میں بھی تمہاری طرح آدمی ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔ جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو اور جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک پڑجائے تو ظن غالب کے مطابق اپنی نماز پوری کرے پھر سلام پھیرے اور سہو کے دو سجدے کرلے۔ “ [ رواہ البخاری، کتاب الصلوٰۃ : باب التوجہ نحوالقبلۃ ] (عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ أَنْ یَّکُوْنَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِہٖ مِنْ بَعْضٍ وَأَقْضِيَ لَہٗ عَلٰی نَحْوِ مَا أَسْمَعُ فَمَنْ قَضَیْتُ لَہٗ مِنْ حَقِّ أَخِیْہِ شَیْءًا فَلَایَأْخُذْ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَہٗ قِطْعَۃً مِّنَ النَّارِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الحیل، باب إذا غضب جاریۃ فزعم أنھا ماتت ] ” حضرت ام سلمہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا : تم میرے پاس اپنے فیصلے لے کر آتے ہو میں ایک بشر ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ تم میں کوئی دوسرے سے دلائل پیش کرنے میں زیادہ مہارت رکھتاہو۔ میں تو اسی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں جو بات سنتا ہوں۔ میں جس کے لیے اس کے بھائی کے حق کا فیصلہ کردوں۔ تو وہ اسے نہ لے کیونکہ میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوتا ہوں۔ “ ” سیدنا رافع بن خدیج ہُرَیْرَۃَفرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو اس وقت لوگ کھجور کی پیوندکاری کرتے تھے آپ نے فرمایا : یہ کیا کرتے ہو ؟ صحابہ کرام (رض) نے جواب دیا ہم ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم یہ کام نہ کرو تو شاید بہتر ہو۔ لوگوں نے پیوند کاری کرنا چھوڑ دی تو کھجوریں پھل کم لائی۔ صحابہ (رض) نے یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی تو آپ نے فرمایا : میں بھی ایک بشر ہی ہوں جب میں تمہیں تمہارے دین کی کسی بات کا حکم دوں تو اس پر عمل کرو اور جب میں کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو میں بھی آخر آدمی ہوں۔[ مسلم، کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ] (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ النَّارَ وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الجنائز ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا وہ جہنم میں جائے گا۔ میں یہ بھی کہتا ہوں جس شخص نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا اور اسی حال میں فوت ہوا وہ جنت میں جائے گا۔ “ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام انبیاء (علیہ السلام) انسان تھے وہ بشر ہونے کا اقرار کرتے تھے : ١۔ نوح کی قوم نے کہا کہ ہم تجھے اپنا جیسا بشر تصور کرتے ہیں۔ (ھود : ٢٧) ٢۔ اگر تم اپنے جیسے بشر کی اطاعت کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے۔ (المومنون : ٣٤) ٣۔ کیا ہم اپنے میں سے ایک بشر کی اطاعت کریں یقیناً یہ تو بڑی گمراہ کن بات ہوگی۔ (القمر : ٤٤) ٤۔ کفار نے کہا تو تو ہمارے جیسا بشر ہے اور ہم تجھے جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (الشعراء : ١٨٦) ٥۔ کفار نے کہا نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر جو کچھ تم کھاتے ہو وہی کھاتا ہے۔ (المومنون : ٣٣) ٦۔ کسی بشر کے لیے لائق نہیں کہ اللہ اسے کتاب و حکمت اور نبوت دے تو وہ لوگوں کو کہتا پھرے کہ میری عبادت کرنے والے بن جاؤ۔ (آل عمران : ٧٩) ٧۔ تمام انبیاء نے فرمایا کہ اے لوگو ! ہم تمہاری طرح کے بشر ہیں۔ (ابراہیم : ١١) غور فرمائیں ! کفار کہتے تھے کہ بشر نبی نہیں ہوسکتا اور کلمہ پڑھنے والے کچھ حضرات کہتے ہیں کہ نبی بشر نہیں ہوسکتا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ہے مقام الوہیت کا افق بعید ، افق بلند۔ اس کے مقابلے میں انسانی علم کا افق بہت ہی نیچے ہے۔ کیونکہ علم نبوی ہو ، بہرحال نبی بشر ہی تو ہوتا ہے۔ قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی (٨١ : ٠١١) ” اے نبی کہو میں تو ایک انسان ہی ہوں تم ہی جیسا میری طرف وحی کی جاتی۔ “ بس یہی فرق ہے میرے اور تمہارے درمیان کہ میں باری تعالیٰ کے بلند آفاق علم سے کچھ حاصل کرتا رہتا ہوں۔ اس دائمی سرچشمے سے میں علم حاصل کرتا ہوں۔ میں ان ہدایات سے سرمو انحراف نہیں کرسکتا جو مجھے عالم بالا سے ملتی ہیں۔ میں انسان ہوں ، پہلے خود سیکھتا ہوں ، پھر سکھاتا ہوں لہٰذا جو شخص ان بلند علوم کو حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ وہ ان علوم سے فائدہ اٹھائے جو اس سرچشمے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سکھائے۔ انسانوں کو چاہئے کہ وہ حصول علوم کے لئے سرچشمہ نبوت سے سیراب ہوں اور اس کے سواتمام سرچشموں کو چھوڑ دیں۔ فمن کان یرجوالقآء ربعہ فلیعمل عملاً صالحاً ولایشرک بعبادۃ ربہ احداً (٨١ : ٠١١) ” پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو ، اسے چاہئے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔ “ بار گاہ الٰہی کی بلند مملکت میں داخل ہونے کے لئے علم نبوت ویزا ہیں۔ اس سورة کا آغاز بھی مضمون وحی اور توحید سے ہوا تھا۔ خاتمہ بھی علوم الہیہ کے سلسلے میں ان اہم ہدایات سے ہوا اور انسانی شعور و آگہی کے تاروں کو یوں چھیڑا گیا کہ ان سے وہ نغمات حقیقت بلند ہونے لگے جو اس کائنات کے راز کو ظاہر کرتے ہیں۔ عظیم راز یعنی وحی الٰہی و توحید مطلق کے راز۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بشریت رسالت و نبوت کے منافی نہیں پھر فرمایا (قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ) آپ فرما دیجیے کہ میں تمہارے ہی جیسا بشر ہوں (کوئی فرشتہ نہیں ہوں تم ہی میں رہتا سہتا ہوں کوئی ایسی بات نہیں کہتا جس سے تمہیں وحشت ہو) البتہ یہ بات ضرور کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ پاک کی طرف سے وحی آتی ہے۔ جس میں مجھے یہ بتایا گیا ہے اور تمہیں بھی بتاتا ہوں کہ تمہارا معبود برحق ایک ہی معبود ہے۔ یہ بات کوئی ناراض ہونے کی اور متنفر ہونے کی نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے رسالت سے سرفراز فرما دیا اور میرے ذریعہ تمہیں بھی بتادیا کہ صرف معبود حقیقی کی عبادت کرو (اس میں توحید و رسالت دونوں کا اثبات ہے۔ ) جسے اپنے رب سے ملنے کی آرزو ہو وہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے پھر فرمایا (فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا) سو جو شخص اپنے رب سے ملنے کی آرزو رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کا محبوب و مقرب بن کر میدان قیامت میں حاضر ہو تو نیک کام کرے جس میں سارے نبیوں اور خاص کر خاتم النّبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا اور ان کی شریعت کے مطابق عمل کرنا بھی شامل ہے۔ (وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا) (اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔ ) مشرک اور کافر کی نجات نہیں وہ اپنے خیال میں کیسے ہی نیک کام کرلے۔ اس آخری آیت میں وقوع قیامت کے عقیدہ کی بھی تلقین فرما دی اور یہ بھی بتادیا کہ وہاں وہ اعمال صالحہ کام دیں گے جن میں شرک کی آمیزش نہ ہو۔ والحمد للّٰہ علی ان تم تفسیر سورة الکھف بحمد للّٰہ تعالیٰ وحسن توفیقہ فی العشر الاواخر من شوال المکرم ١٤١٤ من ھجرۃ خاتم الانبیاء الحمد للّٰہ اولا وآخر او ظاھرا و باطنا

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

91:۔ یہاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعلان کرایا کہ میں غیب دان اور کارساز نہیں ہوں۔ بلکہ ایک انسان ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے اعلی ترین رتبہ نبوت پر سرفراز فرمایا ہے اور میرے پاس اللہ کی وحی آتی ہے۔ یہ اعلان اس لیے کرایا کہ کہیں لوگ آپ کو غیب داں اور خدا کا شریک نہ سمجھ بیٹھیں۔ 92:۔ آخر میں مسئلہ توحید کا ذکر فرما دیا۔ جس کے بارے میں شبہات کا جواب دیا گیا۔ ” فمن کان یرجوا الخ “ جو شخص مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور اللہ تعالیٰ کے لقا کی توقع رکھتا ہے۔ اسے تو چاہئے کہ وہ نیک اعمال بجا لائے اور اپنے رب کی عبادت اور پکار میں کسی قسم کا شرک نہ کرے نہ جلی جیسا کہ مشرکین کیا کرتے تھے اور اصحاب کہف، فرشتوں جنوں اور پیغمبروں کو متصرف و کارساز سمجھ کر پکارتے اور ان کے ناموں کی نذریں منتیں دیتے تھے اور نہ خفی یعنی ریاکاری سے اپنے اعمال کو بچائے اور محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہر کام کرے۔ سورة ہف میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات 1 ۔ ” الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ الکتب “ تا ” قالوا اتخذ اللہ ولدا “ تمام صفاتِ کارسازی کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور وہی متصرف و کارساز ہے اور اس کا کوئی نائب نہیں۔ 2 ۔ ” و ربطنا علی قلوبھم اذا قاموا “ تا ” ویھیئ لکم من امرکم مرفقا “ (رکوع 2) نفی تصرف از اولیاء اللہ (اصحاب کہف) 3 ۔ ” و کذلک بعثنھم لیتساء لوا بینھم “ تا ” ربکم اعلم بما لبثتم “ (رکوع 3) نفی علم غیب از اصحاب کہف۔ 4 ۔ ” ولا تقولن لشیء انی فاعل ذالک غداً الایۃ “ (رکوع 4) ۔ نفی تصرف و اختیار از آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ 5 ۔ ” قل اللہ اعلم بما لبثوا “ تا ” ولا یشرک فی حکمہ احدا “ (رکوع 4) نفی علم غیب از غیر اللہ۔ 6 ۔ ” واتل ما اوحی الیک “ تا ” و کان امرہ فرطا “ نفی شرک فی التصرف۔ 7 ۔ ” لکنا ھو اللہ ربی “ تا ” لا قوۃ الا باللہ “ (رکوع 5) ۔ نفی شرک فی التصرف۔ 8 ۔ ” ھنالک الولایۃ للہ الحق “ (رکوع 5) ۔ نفی شرک فی التصف۔ 9 ۔ ” افتتخذونہ و ذریتہ اولیاء “ تا ” وما کنت متخذ المضلین عضدا “ (رکوع 7) ۔ نفی شرک اعتقادی و نفی نائب برائے خدا تعالی۔ 10 ۔” نسیا حوتھما “ تا ” فانی نسیت الحوت “ (رکوع 9) ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی سے علم غیب کی نفی اور ان کی احتیاج کا اثبات۔ 11 ۔ ” قال لہ موسیٰ ھل اتبعک “ تا ” ما لم تحط بہ خبرا “ (رکوع 9) ۔ نفی علم غیب از موسیٰ (علیہ السلام) ۔ 12 ۔ ” قال لا تؤاخذنی بما نسیت “ تا ” قد بلغت من لدنی عذرا “ (رکوع 10) ۔ نفی علم غیب از حضرت موسیٰ علیہ السلام۔ 13:۔ ” و ما فعلتہ عن امری “۔ نفی تصرف اختیار از خضر علیہ السلام۔ 14:۔ ” انا مکنا لہ فی الارض “ (رکوع 11) ۔ ذو القرنین کو مافوق الاسباب قدرت حاصل نہ تھی ہم نے ظاہری اسباب مہیا کردئیے تھے۔ 15 ۔ ” افحسب الذین کفروا ان یتخذوا عبادی من دونی اولیاء “ نفی شرک فی التصرف۔ 16 ۔ قل لو کان البحر مدادا لکلمت ربی۔ الایۃ۔ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اس کا علم لا محدود ہے۔ 17 ۔ ” قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی الایۃ “۔ نفی علم غیب از آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ سورة کہف ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 10 آپ ان سے فرما دیجیے کہ میں بھی تم ہی جیسا ایک آدمی اور بشر ہوں مگر ہاں میری طرف یہ وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود حقیقی صرف ایک ہی معبود ہی تو جو شخص اپنے پروردگار سے ملاقات کا امیدوار ہے اور اس سے ملنے کا آرزو مند ہے اس کو چاہئے کہ وہ نیک اعمال کرتا رہے اور اپنے پروردگار کی عبادت اور بندگی میں کسی اور کو شریک نہ کرے۔ یعنی مجھے ملکیت یا اور کوئی مخلوق ہونے کا دعویٰ نہیں میں تو تم ہی جیسا ایک بشر ہوں اور مجھ پر یہ وحی ضرور آتی ہے کہ معبود تم سب کا صرف ایک ہی ہے لہٰذا اس سے ملاقات کا جو خواہش مند ہے اس کے لئے دو باتیں ضروری ہیں ایک نیک اعمال کی پابندی اور دوسرے شرک سے احتراز۔ تم تفسیر سورة کھف