Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 15

سورة الكهف

ہٰۤؤُلَآءِ قَوۡمُنَا اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً ؕ لَوۡ لَا یَاۡتُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ بِسُلۡطٰنٍۭ بَیِّنٍ ؕ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ﴿ؕ۱۵﴾

These, our people, have taken besides Him deities. Why do they not bring for [worship of] them a clear authority? And who is more unjust than one who invents about Allah a lie?"

یہ ہے ہماری قوم جس نے اس کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں ۔ ان کی خدائی کی یہ کوئی صاف دلیل کیوں پیش نہیں کرتے اللہ پر جھوٹ افترا باند ھنے والے سے زیادہ ظالم کون ہے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هَوُلاَء قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ الِهَةً لَّوْلاَ يَأْتُونَ عَلَيْهِم بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ ... These, our people, have taken for worship gods other than Him (Allah). Why do they not bring for them a clear authority! meaning, why do they not produce some clear evidence and genuine proof for their behavior! ... فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا And who does more wrong than he who invents a lie against Allah. They said: `but by saying that they are lying transgressors.' It was said that when they called their king to believe in Allah, he refused, and warned and threatened them. He commanded them to be stripped of their clothing bearing the adornments of their people, then he gave them some time to think about the situation, hoping that they would return to their former religion. This was a way that Allah showed kindness for them, because during that time they managed to escape from him and flee from persecution for the sake of their religion. This is what is prescribed in the Shariah during times of trial and persecution -- a person who fears for his religion should flee from his persecutors, as was reported in the Hadith: يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرُ مَالِ أَحَدِكُمْ غَنَمًا يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ القَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَن Soon there will come a time when the best wealth any of you can have will be sheep, which he can follow to the tops of the mountains and places where rain falls, (fleeing) for the sake of his religion from persecution. In such cases, it is allowed to seclude oneself from people, but this is not prescribed in any other case, because by such seclusion one loses the benefits of congregational and Friday prayers. These young men were determined to flee from their people, and Allah decreed that for them, as He says about them,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

هٰٓؤُلَاۗءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اٰلِهَةً ۔۔ : انھوں نے صرف توحید کے اعلان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی قوم کے فعل کا رد بھی فرمایا کہ یہ ہماری قوم کے لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کی کوئی دلیل کیوں نہیں پیش کرتے۔ معلوم ہوا یہ اپنے دعویٰ میں سراسر جھوٹے ہیں۔ چند آیات جن میں مشرکین سے شرک کی دلیل کا مطالبہ کیا گیا ہے، دیکھیے انعام (١٤٨) اور احقاف (٤) ۔ فَمَنْ اَظْلَمُ ۔۔ : یعنی اللہ کے سوا دوسروں کو پکارنا محض جھوٹ ہے اور جو اللہ پر جھوٹ باندھے اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہٰٓؤُلَاۗءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَۃً ۝ ٠ۭ لَوْلَا يَاْتُوْنَ عَلَيْہِمْ بِسُلْطٰنٍؚبَيِّنٍ۝ ٠ۭ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَي اللہِ كَذِبًا۝ ١٥ۭ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) القری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ صدق وکذب الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ الکذب یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥) ہماری اس قوم نے تو اللہ تعالیٰ کے علاوہ بتوں کو معبود قرار دے رکھا ہے، یہ لوگ اپنی اس پر ستش پر کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے کہ اللہ تعالیٰ نے انکو اس چیز کا حکم دے رکھا ہے، اور اس شخص سے زیادہ کون غضب ڈھانے ولا ہوگا کہ جو اللہ تعالیٰ پر تہمت لگائے اور اس کے لیے شریک تجویز کرے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(لَوْلَا يَاْتُوْنَ عَلَيْهِمْ بِسُلْطٰنٍۢ بَيِّنٍ ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کوئی دلیل یا سند وہ اپنے اس دعوے کے ساتھ کیوں پیش نہیں کرتے ؟ (فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا) شاہی دربار میں اس تند و تیز مکالمے کے بعد جب انہیں چند دن کی مہلت کے ساتھ اپنا دین چھوڑنے یا موت کا سامنا کرنے کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا گیا تو وہ آپس میں یوں مشورہ کرنے لگے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:15) ھؤلاء قومنا اتخذوا۔ ھؤلاء مبتداء قومنا عطف بیان اتخذوا خبر۔ علیہم۔ ای علی عبادتہم (ان کی عبادت کے متعلق) مضاف کو حذف کردیا گیا۔ او علی الوہیتم ان کی الوہیت پر۔ سلطان۔ بین۔ کھلی دلیل۔ فمن۔ میں من استفہامیہ ہے کون۔ کس نے۔ مثلاً قالوا یویلنا من بعثنا من مرقدنا (36: 52) کہی گے ہائے ہماری کم بختی کس نے ہم کو ہماری خواب گاہوں سے اٹھایا ؟

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 اور جب سند نہیں ملاتے تو معلوم ہوا کہ اپنے دعویٰ میں سراسر جھوٹے ہیں۔4 یعنی کسی دوسرے کو اس کا شریک قرار دے حالانکہ اس نے کسی کو اپنا شریک نہیں بنایا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ھولآء قومنا اتخذوا من دونہ الھۃ لولا یاتون علیھم بسلطن بین (٨١ : ٥١) ” یہ ہماری قوم تو رب کائنات کو چھوڑ کر دور سے خدا بنا بیٹھی ہے ، یہ لوگ ان کے معبود ہونے پر کوئی بین دلیل کیوں نہیں لاتے۔ “ اسلامی نظریہ حیات میں یہ بات عقیدے کا حصہ ہے کہ انسان جو موقف اختیار کرے اس پر اس کے پاس دلیل بین ہو۔ ایسی دلیل ہو جو دل کو لگتی ہو ، اور عقل اسے تسلیم کرتی ہو ، اگر ایسا نہیں ہے تو وہ کذب اور افتراء ہے اور یہ چونکہ کذب علی اللہ ہے ، اس لئے یہ زیادہ گھنائونا جھوٹ ہے۔ فمن اظلم ممن افتری علی اللہ کذباً (٨١ : ٥١) ” آخر اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔ “ یہاں تک تو اسے قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نوجوانوں کا موقف واضح ، صریح اور دو ٹوک ہے ، اس میں کوئی تردد یا کوئی توقف نہیں ہے۔ یہ نوجوان ہیں ، جسمانی لحاظ سے بھی قوی ہیں ، ایمان میں بھی شدید ہیں اور قوم جس غلط راہ پر چل رہی ہے ، اس سے بھی انہیں سخت نفرت ہے۔ دو گروہوں کی راہیں مختلف ہوچکی ہیں ، ان کی زندگی کے طریقے ایک دوسرے سے جدا ہوچکے ہیں ، اب دونوں کے باہم ملنے کے لئے کوئی موقف نہیں ہے۔ ان دونوں کی زندگیاں ایک جگہ نہیں گزر سکتیں۔ لہٰذا صرف ایک راہ رہ جاتی ہے وہ یہ کہ یہ نوجوان اپنے نظریات کو لے کر ہجرت کر جائیں ، یہ اپنی قوم کی طرف رسول بنا کر نہ بھیجے گئے تھے تاکہ وہ اپنی قوم کا مقابلہ کریں۔ اپنے نظریات پر جم جائیں ، غلط نظریات کے مقابلے میں صحیح نظریات پیش کریں۔ ان کو دعوت دیں اور اس انجام تک پہنچیں جن تک رسول پہنچتے ہیں بلکہ وہ کچھ نوجوان تھے ، کافرانہ ماحول میں ان کو ایمان کی روشنی مل گئی تھی۔ اگر وہ ایسے ماحول میں اپنے عقائد کا اظہار کرتے ہیں تو اس معاشرے میں ان کا زندہ رہنا مشکل ہے۔ صورت حال یہ تھی کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ مقابلہ بھی نہ کرسکتے تھے ، خود قوم کی راہ پر بھی نہ جاسکتے تھے ، قوم کو اپنی راہ پر نہ لا سکتے تھے ، نہ وہ تقیہ کر کے ان کے غلط الہوں کی عبادت کرسکتے تھے اور نہ اپنی عبادت کو چھپا سکتے تھے بلکہ راجح بات یہ ہے کہ ان کے عقائد و نظریات کے بارے میں کافروں کو علم ہوچکا تھا۔ اس لئے ان کے لئے صرف ایک ہی راہ رہ گئی تھی کہ وہ اپنے دین اور نظریات کو لے کر بھاگ نکلیں اور شہر میں پر آسائش زندگی بسر کرنے کے بجائے کسی غار میں جا چھپیں۔ انہوں نے باہم مشورہ کیا اور یہ فیصلہ کیا :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

15 یہ جو ہماری قوم کے لوگ ہیں انہوں نے خدا کو چھوڑ کر اور معبود قرار دے رکھے ہیں یہ لوگ ان غیر اللہ کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں پیش کرتے تو بھلا ایسے شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ افترا کرے جھوٹ افترا یہی کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور کسی کو معبود بتائیں اگر یہ ہماری قوم کے لوگ مدعی ہیں تو کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے جس طرح موحدین اور قائل توحید لوگ پیش کرتے ہیں اور بےدلیل ہونے کے باوجود غیر کی عبادت کا اقرار اللہ تعالیٰ کی مقدس ذات پر محض افتراء ہے۔