Commentary The story of Ashab al-Kahf is due to end on the four verses cited above. In the first two of these, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his Ummah has been taught to say ` Insha&Allah Ta’ ala along with the promise or affirma¬tion of doing something in the future. Because, who knows if one does or does not live, and even if one does, will one be able to do or not to do that? Therefore, a believer should be confident about it in his or her heart, and confess to it verbally as well that in the event of making a commitment to do something next day, what will be said will be: If Allah Ta` ala wills, I shall do this thing tomorrow.& This is what the saying of In¬sha&Allah means. In the third verse (25), a decision has been given on a controversy. This was a debate in which people had held different opinions during the time of the People of Kahf, and equally different were the sayings of the Jews and Christians of the contemporary period about it, that is, the pe¬riod of time they kept sleeping in the Cave. It was stated in the verse that those were three hundred and nine years. This is, so to say, a clarifi¬cation of the statement made briefly at the beginning of the story: فَضَرَبْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا (So We veiled their hearing [ putting them to sleep ] in the Cave for a number of years - 11). After that, those who still differ with it have been warned once again that they are not the ones who know the reality of things as they are. The One who knows it all is none else but Allah with whom rests the knowledge of all that is unseen in the heavens and the earth. He is All Hearing. He is All Seeing. The time duration of three hundred nine years given by Him should be enough for their satisfaction.
خلاصہ تفسیر :۔ (اور اگر لوگ آپ سے کوئی بات قابل جواب دریافت کریں اور آپ جواب کا وعدہ کریں تو اس کے ساتھ انشاء اللہ تعالیٰ یا اس کے ہم معنی کوئی لفظ ضرور ملا لیا کریں، بلکہ وعدہ کی بھی تخصیص نہیں، ہر ہر کام میں اس کا لحاظ رکھیں کہ) آپ کسی کام کی نسبت یوں نہ کہا کیجئے کہ میں اس کو (مثلا) کل کر دوں گا مگر خدا کے چاہنے کو (اس کے ساتھ) ملا دیا کیجئے (یعنی انشاء اللہ وغیرہ بھی ساتھ کہہ دیا کیجئے، اور آئندہ ایسا نہ ہو جیسا اس واقعہ میں پیش آیا کہ آپ سے لوگوں نے روح اور اصحاب کہف اور ذو القرنین کے متعلق سوالات کئے، آپ نے بغیر انشاء اللہ کہے ان سے کل جواب دینے کا وعدہ کرلیا، پھر پندرہ روز تک وحی نازل نہ ہوئی اور آپ کو بڑا غم ہوا، اس ہدایت کے ساتھ ان لوگوں کے سوال کا جواب بھی نازل ہوا (کذا فی اللباب عن ابن عباس) اور جب آپ (اتفاقا انشاء اللہ کہنا) بھول جاویں (اور پھر کبھی یاد آوے) تو (اسی وقت انشاء اللہ کہہ کر) اپنے رب کا ذکر کرلیا کیجئے اور (ان لوگوں سے یہ بھی) کہہ دیجئے کہ مجھ کو امید ہے کہ میرا رب مجھ کو (نبوت کی دلیل بننے کے اعتبار سے) اس (قصہ) سے بھی نزدیک تر بات بتلاوے (مطلب یہ ہے کہ تم نے میری نبوت کا امتحان لینے کے لئے اصحاب کہف وغیرہ کے قصے دریافت کئے، جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مجھے بتلا کر تمہارا اطمینان کردیا، مگر اصل بات یہ ہے کہ ان قصوں کے سوال و جواب اثبات نبوت کے لئے کوئی بہت بڑی دلیل نہیں ہو سکتی، یہ کام تو کوئی غیر نبی بھی جو تاریخ عالم سے زیادہ واقف ہو وہ بھی کرسکتا ہے، مگر مجھے تو اللہ تعالیٰ نے میری نبوت کے اثبات کے لئے اس بھی بڑے قطعی دلائل اور معجزات عطا فرمائے ہیں، جن میں سب سے بڑی دلیل تو خود قرآن ہے، جس کی ایک آیت کی بھی ساری دنیا مل کر نقل نہیں اتار سکی۔ اس کے علاوہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر قیامت تک کے وہ واقعات بذریعہ وحی مجھے بتلا دئیے گئے ہیں جو زمانے کے اعتبار سے بھی بہ نسبت واقعہ اصحاب کہف و ذو القرنین کے زیادہ بعید ہیں، اور ان کا علم بھی کسی کے لئے بجز وحی کے ممکن نہیں ہو سکتا، خلاصہ یہ ہے کہ تم نے تو اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے واقعات کو سب سے زیادہ عجیب سمجھ کر اسی کو امتحان نبوت کے سوال میں پیش کیا، مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بھی زیادہ عجیب عجیب چیزوں کے علوم عطا فرمائے ہیں) اور (جیسا اختلاف ان لوگوں کا اصحاب کہف کے عدد میں ہے ایسا ہی ان کے سوتے رہنے کی مدت میں بھی بہت اختلاف ہے، ہم اس میں صحیح بات بتلاتے ہیں کہ) وہ لوگ اپنے غار میں (نیند کی حالت میں) تین سو برس تک رہے اور نو برس اوپر اور رہے (اور اگر اس صحیح بات کو سن کر بھی وہ اختلاف کرتے رہے تو) آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے (سوتے) رہنے کی مدت کو (تو تم سے) زیادہ جانتا ہے (اس لئے جو اس نے بتلا دیا وہی صحیح ہے اور اس واقعہ کی کیا تخصیص ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ) تمام آسمانوں اور زمین کا علم غیب اسی کو ہے وہ کیسا کچھ دیکھنے والا کیسا کچھ سننے والا ہے، ان کا خدا کے سوا کوئی بھی مددگار نہیں اور نہ اللہ کسی کو اپنے حکم میں شریک (کیا) کرتا ہے (خلاصہ یہ ہے کہ نہ اس کا کوئی مزاحم ہے نہ شریک، ایسی ذات عظیم کی مخالفت سے بہت ڈرنا چاہئے) ۔ معارف و مسائل :۔ مذکور الصدر چار آیتوں پر قصہ اصحاب کہف ختم ہو رہا ہے، ان میں سے پہلی دو آیتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ آئندہ زمانے میں کسی کام کے کرنے کا وعدہ یا اقرار کرنا ہو تو اس کے ساتھ انشاء اللہ تعالیٰ کا کلمہ ملا لیا کرو، کیونکہ آئندہ کا حال کس کو معلوم ہے کہ زندہ بھی رہے گا یا نہیں، اور زندہ بھی رہا تو یہ کام کرسکے گا یا نہیں، اس لئے مومن کو چاہئے کہ اللہ پر بھروسہ دل میں بھی کرے اور زبان سے اس کا اقرار کرے کہ اگلے دن میں کسی کام کے کرنے کو کہے تو یوں کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو میں یہ کام کل کروں گا، یہی معنی ہیں کلمہ انشاء اللہ کے۔ تیسری آیت میں اس اختلافی بحث کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں زمانہ اصحاب کہف کے لوگوں کی رائیں بھی مختلف تھیں، اور موجودہ زمانے کے یہود و نصاری کے اقوال بھی مختلف تھے یعنی غار میں سوتے رہنے کی مدت، اس آیت میں بتلا دیا گیا کہ وہ تین سو نو سال تھے، گویا یہ اس اجمال کا بیان ہے جو شروع قصہ میں بیان ہوا تھا، (آیت) فَضَرَبْنَا عَلٰٓي اٰذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِيْنَ عَدَدًا۔ اس کے بعد چوتھی آیت میں پھر اس سے اختلاف کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ حقیقت حال کی تم کو خبر نہیں، اس کا جاننے والا وہی اللہ تعالیٰ ہے جو آسمانوں اور زمین کے سب غائبات کو جاننے والا سمیع وبصیر ہے، اس نے جو مدت تین سو نو سال کی بتلا دی اس پر مطمئن ہوجانا چاہئے۔