Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 23

سورة الكهف

وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾

And never say of anything, "Indeed, I will do that tomorrow,"

اور ہرگز ہرگز کسی کام پر یوں نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Saying "If Allah wills" when determining to do Something in the Future Allah says: وَلاَ تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا

ان شاء اللہ کہنے کا حکم اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ختم المرسلین نبی کو ارشاد فرماتا ہے کہ جس کام کو کل کرنا چاہو تو یوں نہ کہہ دیا کرو کہ کل کروں گا بلکہ اس کے ساتھ ہی انشاء اللہ کہہ لیا کرو کیونکہ کل کیا ہو گا ؟ اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے ۔ علام الغیوب اور تمام چیزوں پر قادر صرف وہی ہے ۔ اس کی مدد طلب کر لیا کرو ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کی نوے بیویاں تھیں ۔ ایک روایت میں ہے سو تھیں ۔ ایک میں ہے بہتر ( ٧٢ ) تھیں تو آپ نے ایک بار کہا کہ آج رات میں ان سب کے پاس جاؤں گا ہر عورت کو بچہ ہو گا تو سب اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے ، اس وقت فرشتے نے کہا انشاء اللہ کہہ ۔ مگر حضرت سلیمان علیہ السلام نے نہ کہا ، اپنے ارادے کے مطابق وہ سب بیویوں کے پاس گئے ، مگر سوائے ایک بیوی کے کسی کے ہاں بچہ نہ ہوا اور جس ایک کے ہاں ہوا بھی وہ بھی آدھے جسم کا تھا ۔ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر وہ انشاء اللہ کہہ لیتے تو یہ ارادہ ان کا پورا ہوتا اور ان کی حاجت روائی ہو جاتی ۔ اور یہ سب بچے جوان ہو کر راہ حق کے مجاہد بنتے ۔ اسی سورت کی تفسیر کے شروع میں اس آیت کا شان نزول بیان ہو چکا ہے کہ جب آپ سے اصحاب کہف کا قصہ دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں کل تمہیں جواب دوں گا ۔ انشاء اللہ نہ کہا اس بنا پر پندرہ دن تک وحی نازل نہ ہوئی ۔ اس حدیث کو پوری طرح ہم نے اس سورت کی تفسیر کے شروع میں بیان کر دیا ہے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی حاجت نہیں ۔ پھر بیان فرماتا ہے کہ جب بھول جائے تب اپنے رب کو یاد کر یعنی انشاء اللہ کہنا اگر موقعہ پر یاد نہ آیا تو جب یاد آئے کہہ لیا کر ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں جو حلف کھائے کہ اسے پھر بھی انشاء اللہ کہنے کا حق ہے گو سال بھر گزر چکا ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے کلام میں یا قسم میں انشاء اللہ کہنا بھول گیا تو جب بھی یاد آئے کہہ لے گو کتنی مدت گزر چکی ہو اور گو اس کا خلاف بھی ہو چکا ہو ۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ اب اس پر قسم کا کفارہ نہیں رہے گا اور اسے قسم توڑنے کا اختیار رہے ۔ یہی مطلب اس قول کا امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے اور یہی بالکل ٹھیک ہے اسی پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلام محمول کیا جا سکتا ہے ان سے اور حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ مراد انشاء اللہ کہنا بھول جانا ہے ۔ اور روایت میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے ، دوسرا کوئی تو اپنی قسم کے ساتھ ہی متصل طور پر انشاء اللہ کہے تو معتبر ہے ۔ یہ بھی ایک مطلب ہے کہ جب کوئی بات بھول جاؤ تو اللہ کا ذکر کرو کیونکہ بھول شیطانی حرکت ہے اور ذکر الہٰی یاد کا ذریعہ ہے ۔ پھر فرمایا کہ تجھ سے کسی ایسی بات کا سوال کیا جائے کہ تجھے اس کا علم نہ ہو تو تو اللہ تعالیٰ سے دریافت کر لیا کر اور اس کی طرف توجہ کر تاکہ وہ تجھے ٹھیک بات اور ہدایت والی راہ بتا اور دکھا دے ۔ اور بھی اقوال اس بارے میں مروی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۧوَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ ۔۔ : یہاں شان نزول میں ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اصحاب کہف، روح اور ذو القرنین سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : ” میں تمہیں کل جواب دوں گا “ اور ” ان شاء اللہ “ نہ کہا، تو پندرہ (١٥) دن وحی رکی رہی، پھر یہ آیت اتری : (ۧوَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا 23؀ۙاِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ ) رازی (رض) نے فرمایا کہ قاضی نے اسے کئی وجہوں سے بےکار قرار دیا ہے۔ قاسمی نے فرمایا کہ ان کی بات حق ہے، کیونکہ محمد بن اسحاق نے یہ روایت ایک مجہول شیخ سے بیان کی ہے، جیسا کہ ابن کثیر (اور طبری) میں اس کی سندیں موجود ہیں۔ (محاسن التاویل) 3 اس آیت کا ایک معنی تو مشہور ہے کہ کسی کام کے متعلق یہ مت کہو کہ میں کل یہ کام کرنے والا ہوں، مگر اس کے ساتھ ” ان شاء اللہ “ ضرور کہو، کیونکہ اللہ نے چاہا تو کام ہوگا، ورنہ نہیں۔ اس کی مثال سلیمان (علیہ السلام) کا واقعہ ہے کہ انھوں نے کہا : ( لَأَطُوْفَنَّ اللَّیْلَۃَ عَلٰی ماءَۃِ امْرَأَۃٍ أَوْ تِسْعٍ وَّتِسْعِیْنَ ، کُلُّھُنَّ یَأْتِيْ بِفَارِسٍ یُجَاھِدُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَقَالَ لَہُ صَاحِبُہُ قَُلْ إِنْ شَاء اللّٰہُ ، فَلَمْ یَقُلْ إِنْ شَاء اللّٰہُ ، فَلَمْ تَحْمِلْ مِنْھُنَّ إِلَّا امْرَأَۃٌ وَاحِدَۃٌ جَاءَ تْ بِشِقِّ رَجُلٍ ، وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ! لَوْ قَالَ إِنْ شَاء اللّٰہُ ، لَجَاھَدُوْا فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فُرْسَانًا أَجْمَعُوْنَ ) [ بخاري، الجہاد والسیر، باب من طلب الولد للجہاد : ٢٨١٩ ]” آج رات میں اپنی سو (١٠٠) یا فرمایا ننانوے (٩٩) عورتوں کے پاس جاؤں گا اور ہر عورت ایک بیٹا جنے گی، جو جہاد فی سبیل اللہ کا شہ سوار ہوگا۔ “ ان کے ایک ساتھی نے کہا : ” ان شاء اللہ کہیے۔ “ مگر سلیمان (علیہ السلام) نے (مشغولیت وغیرہ کی وجہ سے) ان شاء اللہ نہ کہا، تو ان عورتوں میں سے صرف ایک عورت کو حمل ہوا اور وہ بھی ادھورا بیٹا ہوا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! اگر وہ ان شاء اللہ کہتے تو سب عورتوں کے بیٹے ہوتے جو شہ سوار ہوتے اور سب اللہ کے راستے میں جہاد کرتے۔ “ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے نبی ! کسی کام کے بارے میں (اپنی مرضی سے) یہ مت کہیے کہ کل میں یہ کام کرنے والا ہوں، مگر یہ کہ اللہ چاہے، یعنی اللہ چاہے گا کہ آپ وہ کام کریں تو وہ آپ کو اجازت دے گا، پھر آپ اس کے اذن سے یہ کہہ سکتے ہیں۔ (قاسمی) یہ معنی ”ۙاِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ “ الفاظ کے زیادہ قریب ہے اور سورة نجم کی آیات (٣، ٤) : (وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ۝ۭاِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ) میں بھی یہی مفہوم ہے۔ وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ : یعنی جب بھول جائیں تو یاد آنے پر ” ان شاء اللہ “ کہہ لیں۔ یاد رہے کہ قسم کے ساتھ ” ان شاء اللہ “ کہہ لے تو قسم پوری نہ کرنے پر کوئی کفارہ نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر قسم سے متصل ” ان شاء اللہ “ نہ کہے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا، مگر یہ آیت دلیل ہے کہ اگر اس کا ارادہ ” ان شاء اللہ “ کہنے کا تھا مگر بھول کر نہیں کہہ سکا اور یاد آتے ہی اس نے کہہ لیا تو اس کا اعتبار ہوگا۔ مستدرک حاکم (٤؍٣٠٣، ح : ٧٨٣٣) میں صحیح سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا قول مروی ہے کہ جب آدمی کسی بات پر قسم کھالے تو وہ ایک سال تک ” ان شاء اللہ “ کہہ سکتا ہے۔ “ ابن قیم (رض) نے مدارج السالکین میں فرمایا : ” یہ نسیان کی صورت میں ہے۔ “ (محاسن التاویل ملخصاً ) وَقُلْ عَسٰٓي اَنْ يَّهْدِيَنِ رَبِّيْ ۔۔ : اور کہہ دیجیے کہ مجھے اپنے رب سے امید ہے کہ وہ مجھے اصحاب کہف کی خبر سے بھی قریب تر لوگوں کی ہدایت کا باعث بننے والی خبریں بتائے گا جن سے میری رسالت ثابت ہوگی، چناچہ اللہ تعالیٰ نے غیب کی بہت سی خبریں آپ کو بتائیں جن کی کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The story of Ashab al-Kahf is due to end on the four verses cited above. In the first two of these, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his Ummah has been taught to say ` Insha&Allah Ta’ ala along with the promise or affirma¬tion of doing something in the future. Because, who knows if one does or does not live, and even if one does, will one be able to do or not to do that? Therefore, a believer should be confident about it in his or her heart, and confess to it verbally as well that in the event of making a commitment to do something next day, what will be said will be: If Allah Ta` ala wills, I shall do this thing tomorrow.& This is what the saying of In¬sha&Allah means. In the third verse (25), a decision has been given on a controversy. This was a debate in which people had held different opinions during the time of the People of Kahf, and equally different were the sayings of the Jews and Christians of the contemporary period about it, that is, the pe¬riod of time they kept sleeping in the Cave. It was stated in the verse that those were three hundred and nine years. This is, so to say, a clarifi¬cation of the statement made briefly at the beginning of the story: فَضَرَ‌بْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا (So We veiled their hearing [ putting them to sleep ] in the Cave for a number of years - 11). After that, those who still differ with it have been warned once again that they are not the ones who know the reality of things as they are. The One who knows it all is none else but Allah with whom rests the knowledge of all that is unseen in the heavens and the earth. He is All Hearing. He is All Seeing. The time duration of three hundred nine years given by Him should be enough for their satisfaction.

خلاصہ تفسیر :۔ (اور اگر لوگ آپ سے کوئی بات قابل جواب دریافت کریں اور آپ جواب کا وعدہ کریں تو اس کے ساتھ انشاء اللہ تعالیٰ یا اس کے ہم معنی کوئی لفظ ضرور ملا لیا کریں، بلکہ وعدہ کی بھی تخصیص نہیں، ہر ہر کام میں اس کا لحاظ رکھیں کہ) آپ کسی کام کی نسبت یوں نہ کہا کیجئے کہ میں اس کو (مثلا) کل کر دوں گا مگر خدا کے چاہنے کو (اس کے ساتھ) ملا دیا کیجئے (یعنی انشاء اللہ وغیرہ بھی ساتھ کہہ دیا کیجئے، اور آئندہ ایسا نہ ہو جیسا اس واقعہ میں پیش آیا کہ آپ سے لوگوں نے روح اور اصحاب کہف اور ذو القرنین کے متعلق سوالات کئے، آپ نے بغیر انشاء اللہ کہے ان سے کل جواب دینے کا وعدہ کرلیا، پھر پندرہ روز تک وحی نازل نہ ہوئی اور آپ کو بڑا غم ہوا، اس ہدایت کے ساتھ ان لوگوں کے سوال کا جواب بھی نازل ہوا (کذا فی اللباب عن ابن عباس) اور جب آپ (اتفاقا انشاء اللہ کہنا) بھول جاویں (اور پھر کبھی یاد آوے) تو (اسی وقت انشاء اللہ کہہ کر) اپنے رب کا ذکر کرلیا کیجئے اور (ان لوگوں سے یہ بھی) کہہ دیجئے کہ مجھ کو امید ہے کہ میرا رب مجھ کو (نبوت کی دلیل بننے کے اعتبار سے) اس (قصہ) سے بھی نزدیک تر بات بتلاوے (مطلب یہ ہے کہ تم نے میری نبوت کا امتحان لینے کے لئے اصحاب کہف وغیرہ کے قصے دریافت کئے، جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مجھے بتلا کر تمہارا اطمینان کردیا، مگر اصل بات یہ ہے کہ ان قصوں کے سوال و جواب اثبات نبوت کے لئے کوئی بہت بڑی دلیل نہیں ہو سکتی، یہ کام تو کوئی غیر نبی بھی جو تاریخ عالم سے زیادہ واقف ہو وہ بھی کرسکتا ہے، مگر مجھے تو اللہ تعالیٰ نے میری نبوت کے اثبات کے لئے اس بھی بڑے قطعی دلائل اور معجزات عطا فرمائے ہیں، جن میں سب سے بڑی دلیل تو خود قرآن ہے، جس کی ایک آیت کی بھی ساری دنیا مل کر نقل نہیں اتار سکی۔ اس کے علاوہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر قیامت تک کے وہ واقعات بذریعہ وحی مجھے بتلا دئیے گئے ہیں جو زمانے کے اعتبار سے بھی بہ نسبت واقعہ اصحاب کہف و ذو القرنین کے زیادہ بعید ہیں، اور ان کا علم بھی کسی کے لئے بجز وحی کے ممکن نہیں ہو سکتا، خلاصہ یہ ہے کہ تم نے تو اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے واقعات کو سب سے زیادہ عجیب سمجھ کر اسی کو امتحان نبوت کے سوال میں پیش کیا، مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بھی زیادہ عجیب عجیب چیزوں کے علوم عطا فرمائے ہیں) اور (جیسا اختلاف ان لوگوں کا اصحاب کہف کے عدد میں ہے ایسا ہی ان کے سوتے رہنے کی مدت میں بھی بہت اختلاف ہے، ہم اس میں صحیح بات بتلاتے ہیں کہ) وہ لوگ اپنے غار میں (نیند کی حالت میں) تین سو برس تک رہے اور نو برس اوپر اور رہے (اور اگر اس صحیح بات کو سن کر بھی وہ اختلاف کرتے رہے تو) آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے (سوتے) رہنے کی مدت کو (تو تم سے) زیادہ جانتا ہے (اس لئے جو اس نے بتلا دیا وہی صحیح ہے اور اس واقعہ کی کیا تخصیص ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ) تمام آسمانوں اور زمین کا علم غیب اسی کو ہے وہ کیسا کچھ دیکھنے والا کیسا کچھ سننے والا ہے، ان کا خدا کے سوا کوئی بھی مددگار نہیں اور نہ اللہ کسی کو اپنے حکم میں شریک (کیا) کرتا ہے (خلاصہ یہ ہے کہ نہ اس کا کوئی مزاحم ہے نہ شریک، ایسی ذات عظیم کی مخالفت سے بہت ڈرنا چاہئے) ۔ معارف و مسائل :۔ مذکور الصدر چار آیتوں پر قصہ اصحاب کہف ختم ہو رہا ہے، ان میں سے پہلی دو آیتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ آئندہ زمانے میں کسی کام کے کرنے کا وعدہ یا اقرار کرنا ہو تو اس کے ساتھ انشاء اللہ تعالیٰ کا کلمہ ملا لیا کرو، کیونکہ آئندہ کا حال کس کو معلوم ہے کہ زندہ بھی رہے گا یا نہیں، اور زندہ بھی رہا تو یہ کام کرسکے گا یا نہیں، اس لئے مومن کو چاہئے کہ اللہ پر بھروسہ دل میں بھی کرے اور زبان سے اس کا اقرار کرے کہ اگلے دن میں کسی کام کے کرنے کو کہے تو یوں کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو میں یہ کام کل کروں گا، یہی معنی ہیں کلمہ انشاء اللہ کے۔ تیسری آیت میں اس اختلافی بحث کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں زمانہ اصحاب کہف کے لوگوں کی رائیں بھی مختلف تھیں، اور موجودہ زمانے کے یہود و نصاری کے اقوال بھی مختلف تھے یعنی غار میں سوتے رہنے کی مدت، اس آیت میں بتلا دیا گیا کہ وہ تین سو نو سال تھے، گویا یہ اس اجمال کا بیان ہے جو شروع قصہ میں بیان ہوا تھا، (آیت) فَضَرَبْنَا عَلٰٓي اٰذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِيْنَ عَدَدًا۔ اس کے بعد چوتھی آیت میں پھر اس سے اختلاف کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ حقیقت حال کی تم کو خبر نہیں، اس کا جاننے والا وہی اللہ تعالیٰ ہے جو آسمانوں اور زمین کے سب غائبات کو جاننے والا سمیع وبصیر ہے، اس نے جو مدت تین سو نو سال کی بتلا دی اس پر مطمئن ہوجانا چاہئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا۝ ٢٣ۙ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قسم میں استناء کا بیان قول باری ہے (ولا تقولن لشای انی فاعل ذلک غداً الا ان یشآء اللہ اور کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کروں گا (تم کچھ نہیں کرسکتے) الا یہ کہ اللہ چاہے ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس قسم کا استثناء کلام کے حکم کو رفع کرنے کے لئے کلام میں داخل ہوتا ہے اور پھر کلام کے حکم کا وجود اور عدم دونوں یکساں ہوجاتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی مشیت کے ساتھ استثناء کرنے کی تلقین فرمائی تاکہ آپ اپنی قسم میں کاذب نہ قرار دیئے جائیں یہ چیز ہماری اس بات پر دلالت کرتی ہے جو ہم نے ایسے کلام کے حکم کے متعلق ابھی بیان کی ہے۔ اس پر وہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قول کو نقل کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے (ستجدنی ان شاء اللہ صابراً اگر اللہ چاہے تو آپ مجھے صابر پائیں گے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے صبر نہیں کیا بلکہ حضرت خضر (علیہ السلام) کے ہر فعل پر انہیں ٹوکا لیکن اس کے باوجود آپ کو جھوٹا قرار نہیں دیا گیا کیونکہ آپ کے کلام میں استثناء موجود تھا۔ یہ چیز ہماری درج بالا سطور میں بیان کردہ بات پر دلالت کرتی ہے کہ استثناء کا دخول کلام کے حکم کو رفع کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے خواہ یہ قسم پر داخل ہوا ہو یا عتاق پر یا ایقاع طلاق پر ایوب نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من حلف علی یمین فقال ان شاء اللہ فلاح حنث علیہ جس شخص نے اپنی قسم کے ساتھ ان شاء اللہ کہہ دیا نہ وہ حانث نہیں ہوگا) روایت کے بعض طرق میں ہے (فقد استثنیٰ اس نے استثناء کردیا) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ارشاد میں یمین یعنی قسم کی مختلف صورتوں میں کوئی فرق نہیں کیا اس لئے اسے ان تمام صورتوں پر محمول کیا جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے اس سلسلے میں اسی قسم کا قول منقول ہے ۔ عطاء ، طائوس، مجاہد اور ابراہیم نخعی کا قول ہے ہر چیز میں استثناء ہوسکتا ہے۔ ” انشاء اللہ تجھے طلاق “ والی روایت ضعیف ہے اسماعیل بن عیاش نے حمید بن مالک اللخمی سے، انہوں نے مکحول سے اور انہوں نے حضرت معاذ بن جبل سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اذا قال الرجل لعبدہ انت حران شاء اللہ فھو حر و اذقال لامرأتہ انت طالق ان شاء اللہ فلیست بمطابق ۔ جب کوئی شخص اپنے غلام سے کہے کہ تو آزاد ہے اور ساتھ ہی انشاء اللہ بھی کہہ دے تو غلام آزاد ہوجائے گا اور اگر اپنی بیوی سے کہے کہ انشاء اللہ تجھے طلاق ہے تو اس پر طلاق واقع نہیں ہوگی) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ ایک شاذ و روایت ہے اس کی سند بھی انتہائی ضعیف اور اہل علم کے نزدیک یہ معمول بہ بھی نہیں ہے۔ استثناء کی صحت پر اہل علم کا اتفاق ہے لیکن اس وقت کے بارے میں اختلاف ہے جس میں استثناء درست ہوتا ہے اس کے متعلق اہل علم کے تین اقوال ہیں۔ حضرت ابن عباس، مجاہد ، سعید بن جبیر اور ابوالعالیہ کا قول ہے کہ اگر ایک شخص ایک سال کے بعد استثناء کرتا ہے تو اس کا استثناء درست ہوگا۔ حسن بصری اور طائوس کا قول ہے کہ جب تک اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے فقرہ کہا ہو اس وقت تک اس فقرے میں استثناء کرنا درست ہوگا۔ ابراہیم نخعی، عطاء بن ابی رباح اور شعبی کا قول ہے کہ صرف وہی استثناء درست ہوتا ہے جو کلام کے ساتھ متصل ہو۔ ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ ایک شخص قسم کھا کر کوئی بات کہتا ہے اور اپنے دل میں اس کے اندر استثناء کر لیت ا ہے تو اس کا یہ استثناء درست نہ ہ وگا جب تک وہ اونچی آواز میں اسے نہیں کہے گا جس طرح اس نے اونچی آواز میں قسمیہ فقرہ کہا تھا۔ ہمارے نزدیک ابراہیم نخعی کا یہ قول اس معنی پر محمول ہے کہ اگر یہ شخص یہ دعویٰ کرے گا کہ اس نے استثناء کرلیا تھا تو عدلات اس کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کرے گی جب کہ اس کی قسم کو لوگوں نے سنا تھا اور استثناء کسی نے نہیں سنا۔ ہمارے اصحاب اور دوسرے تمام فقہاء کا قول ہے کہ استثناء اسی وقت درست ہوگا جبکہ یہ کلام کے ساتھ متصل ہوگا اس لئے کہ استثناء کی حیثیت شرط جیسی ہوتی ہے اور شرط صرف ایسی صورت میں درست ہوتی اور اس کا حکم اسی وقت ثابت ہوتا ہے جب یہ کسی فصل کے بغیر کلام کے ساتھ ملحق کردی جائے۔ طلاق کہنے کے انداز مثلاً کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے ” انت طالق ان دخلت السداد “ (اگر تو گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق لیکن اگر اس نے پہلے ” انت طالق “ کہا پھر خاموش ہوگیا اور اس کے بعد ” ان دخلت الداد کیا تو اب طلاق کا تعلق گھر میں داخل ہونے کے ساتھ نہیں ہوگا۔ اگر یہ بات جائز ہوتی تو پھر اپنی بیوی سے یہ کہنا بھی جائز ہوتا ” ان طالق ثلاثاً (تمہیں تین طلاق) پھر ایک سال کے بعد کہتا ” انشاء اللہ “ اس صورت میں طلاق باطل ہوجاتی اور پہلے شوہر کے ساتھ نکاح کی اباحت کے لئے اسے کسی اور مرد سے نکاح کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تین طلاقوں کی وجہ سے شوہر پر اس کی مطلقہ بیوی کو حرام کردیا اور تحلیل کی صورت یہ رکھی کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح کرے اور اس سے طلاق حاصل کرنے کے بعد پھر پہلے شوہر کے عقد میں آئے، اس حکم میں سکوت کے بعد استثناء کے بطلان پر دلالت موجود ہے۔ بیوی کو طلاق دینے کی صورت میں جب یہ بات درست ہوگئی کہ اس میں استثناء صرف اس شکل میں درست ہوتا ہے جب یہ کلام کے ساتھ متصل ہو تو قسم کی صورت میں بھی اس کا یہی حکم ہوگا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کے بارے میں یہ ذکر فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کے متعلق یہ قسم کھائی تھی کہ اگر بیماری سے صحت حاصل ہوجائے گی تو اس کی پٹائی کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ گھسا کا ایک مٹھا ہاتھ میں لے کر بیوی کو ماریں اور اپنی قسم نہ توڑیں ۔ اگر قسم کھانے کے بعد وقفہ ڈال کر استثناء کرنا درست ہوتا تو اللہ تعالیٰ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو استثناء کرنے کا حکم دے دیتا اور انہیں اپنی بیوی کو گھاس کے میٹھے وغیرہ کے ذریعے مارنے کی ضرورت باقی نہ رہتی۔ قسم توڑنے کا بیان اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے (من حلف علی یمین فرأی غیرھا خیراً منھا قلیات الذی ھو خیرولیکفرعن یمینہ جو شخص کسی چیز کے متعلق قسم کھا بیٹھے اور پھر اسے دوسری صورت بہتر نظر آئے تو اسے چائے کہ دوسری صورت اختیار کرے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے ) اگر قسم کھانے کے بعد وقفہ ڈال کر استثناء کرنا درست ہوتا تو آپ اسے استثناء کرلینے کا حکم دیتے اور پھر اسے کفارہ ادا کرنے کی ضرورت نہ رہتی۔ آپ نے یہ فرمایا ہے (انی ان شاء اللہ لا احلف علی یمین فاری غیرھا خیراً منھا الا اتیت الذی ھو خیرو کفرت عن یمینی، میں انشاء اللہ کسی چیز کے متعلق قسم کھانے کے بعد اگر دوسری صورت کو اسے بہتر دیکھتا ہوں تو یہ صورت اختیار کر کے اپنی قسم کا کفارہ ادا کردیتا ہوں) آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ” دوسری صورت کو بہتر دیکھ کر انشاء اللہ کہہ کے اسے اختیار کرلیتا ہوں۔ “ اگر یہ کہا جائے کہ قیس نے سماک سے اور انہوں نے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ فرمایا :” بخدا میں قریش کے خلاف جنگ کروں گا، بخدا میں قریش کے خلاف جنگ کروں گا۔ “ اس کے بعد آپ خاموش ہوگئے اور ایک گھڑی خاموش رہنے کے بعد فرمایا۔” انشاء اللہ “ آپ نے سکوت فرمانے کے بعد استثناء کیا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا ، شریک نے یہی روایت سماک سے کی ہے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے تین دفعہ فرمایا :” بخدا میں قریش کے خلاف جنگ کروں گا تیسری دفعہ یہ فرماتے ہوئے آپ نے انشاء اللہ کہا۔ سماک نے یہ بتایا کہ آپ نے ان فقروں کے آخر میں استثناء کیا اور یہ چیز انشاء اللہ کو قسم کے ساتھ متصل ذکر کرنے کی مقتضی ہے۔ یہ روایت اس وجہ کی بن اپر جس کا ہم نے اپور ذکر کیا ہے اولیٰ ہے۔ اس روایت میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ اگر کوئی شخص بہت سی قسمیں کھائے اور آخری قسم کے ساتھ استثناء کا ذکر کر دے تو یہ استثناء تمام قسموں کی طرف راجع ہوگا۔ حضرت ابن عباس اور آپ کے ہم مسلک حضرات نے قسم کھانے کے بعد وقفہ ڈال کر استثناء کرنے کے جواز پر قول باری صولا تقولن لشای انی فاعل ذلک غداً الا ان یشآء اللہ واذکر ربک اذا نسیت) سے استدلال کیا ہے۔ ان حضرات نے قول باری (واذکر ربک اذا نسیت ) کو استثناء پر محمول کیا ہے لیکن یہ تاویل غیر ضروری ہے اس لئے کہ قول باری (واذکر ربک اذا نسیت) کے متعلق یہ کہنا درست ہے کہ اس کے ذریعے ایک نئے مضمون کی ابتداء کی گئی ہے اور یہ فقرہ ایک نئے کلام کی حیثیت رکھتا ہے اور ماقبل کے ساتھ اس کی تنظمین کے بغیر یہ مستقل بالذات ہے جس کلام کی یہ حیثیت ہو کسی اور کلام کے ساتھ اس کی تظمین جائز نہیں ہے۔ ثابت نے عکرمہ سے اس فقرے کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ ” جب تمہیں غصہ آ جائے “ اس تفسیر سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس فقرے کے ذریعے یاد الٰہی کے حکم کا ارادہ کیا ہے نیز یہ کہ سہو اور غفلت کی صورت میں یاد الٰہی کے اندر پناہ حاصل کی جائے۔ تفسیر میں یہ بھی مروی ہے کہ قول باری صولا تقولن لشایء انی فاعل ذلک غداً الا ان یشاء اللہ ) کا نزول اس سلسلے میں ہوا تھا کہ قریش نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق سوال کیا تھا اور آپ نے جواب میں فرمایا تھا کہ ” میں ت م لوگوں کو جلد اس بارے میں بتادوں گا۔ “ پھر یہ ہوا کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کئی دنوں تک آپ کے پاس وحی سے کر نہیں آئے، کئی دن گزر جانے کے بعد حضرت جبرئیل (علیہ السلام) قریش کے سوال کا جواب بصورت وحی لے کر آئے۔ اس کے بعد اللہ ت عالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا کہ آپ مستقبل کے کسی کام کے متعلق علی الاطلاق کوئی بات نہ کہیں۔ اگر کہیں تو اسے اللہ کی مشیت کے ساتھ مشروط و مقرون کر کے ہمیں اسی سلسلے کی ایک اور روایت ہے جسے ہشام بن حسا ن نے ابن سیرین سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے نقل کی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سلیمان بن دائود (علیہما السلام) نے ایک دفعہ کہا۔ آج رتا میں سو بیویوں کے ساتھ ہمبستری کروں گا، ہر بیوی کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو بڑا ہو کر اللہ کی راہ میں شمشیر زنی کے جوہر دکھائے گا۔ “ انہوں نے اس کے ساتھ انشاء اللہ نہیں کہا جس کے نتیجے میں صرف ایکبیوی کے سوا کسی بیوی سے کوئی بچہ پیدا نہیں ہو اور جس بیوی کے ہاں ب چہ پیدا ہو ! وہ بھی آدھا انسان تھا۔ “ یعنی تام الخلقت نہیں تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٣۔ ٢٤) آپ کسی کام کے متعلق یوں نہ کہا کیجیے کہ مثلا میں کل کروں گا یا کل ایسا کہوں گا مگر مشیت خداوندی کو اس کے ساتھ ملا دیا کیجیے اور جب آپ اتفاقا انشاء اللہ کہنا بھول جائیں تو بعد میں یاد آنے پر کہہ لیا کیجیے اور ان لوگوں سے یہ بھی کہہ دیجیے کہ مجھے امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے اس سے بھی زیادہ صحیح اور یقینی بات بتا دے گا۔ یہ آیت کریمہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں نازل ہوئی جب کہ آپ سے مشرکین مکہ نے روح اور اصحاب کہف کے بارے میں دریافت کیا تھا، آپ نے فرمایا کل بتا دوں گا اور آپ انشاء اللہ کہنا بھول گئے۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ الا ان یشآء اللہ “۔ (الخ) اور ابن جریر (رح) نے ضحاک (رح) اور ابن مردویہ (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) ہی سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں قسم کھائی پھر پر چالیس راتیں گزر گئیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اور آپ کسی کام کے متعلق یوں نہ کہا کیجیے کہ میں اس کو کل کروں گا مگر اللہ کے چاہنے کو ملا دیا کیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ (وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا) اس آیت میں ایک بہت اہم واقعہ کا حوالہ ہے۔ جب اہل مکہ نے رسول اللہ سے سوالات کیے تو آپ نے فرمایا کہ میں آپ لوگوں کو ان سوالات کے جوابات کل دے دوں گا۔ اس موقع پر آپ نے سہواً ” ان شاء اللّٰہ “ نہیں فرمایا۔ اس کے بعد کئی روز تک وحی نہ آئی۔ یہ صورت حال آپ کے لیے انتہائی پریشان کن تھی۔ مخالفین خوشی میں تالیاں پیٹ رہے ہوں گے آپ کو ناکامی کے طعنے دے رہے ہوں گے اور آپ کو یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہوگا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو کیسی کیسی سخت آزمائشوں سے دوچار کرتا ہے : جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے ! “ عام لوگ اپنی روز مرہ کی گفتگو میں کیسی کیسی لایعنی باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن اللہ کے ہاں ان کی پکڑ نہیں ہوتی اس لیے کہ وہ اللہ کے ہاں اہم نہیں ہوتے مگر یہاں ایک انتہائی مقرب ہستی سے سہواً ایک کلمہ ادا ہونے سے رہ گیا تو باوجود اس کے کہ معاملہ بیحد حساس تھا وحی روک لی گئی۔ بالآخر کئی روز کے بعد جب اللہ کو منظور ہوا تو حضرت جبرائیل سوالات کے جوابات بھی لے کر آئے اور ساتھ یہ ہدایت بھی کہ کبھی کسی چیز کے بارے میں یوں نہ کہیں کہ میں کل یہ کروں گا :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٣۔ ٢٦:۔ شروع سورة میں گزر چکا ہے کہ یہود کے سکھانے سے قیس نے تین باتیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھیں تو آپ نے وحی کے بھروسہ پر یہ وعدہ کیا کہ کل تک میں ان باتوں کا جواب دے دوں گا مگر اس وعدہ کے وقت انشاء اللہ کا کہنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یاد نہ رہا اس لیے پندرہ روز تک وحی نہیں آئی۔ مجاہد کے قول کے موافق اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان آیتوں کے ذریعہ حکم دیا کہ آئندہ ہر ایک وعدہ کے ساتھ لفظ انشاء اللہ کہنا چاہیے واذکر ربک اذا نسیت سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے یہ بات نکالی ہے کہ اگر قسم کھا کر کوئی شخص ایک بات کہے اور انشاء اللہ بھول جائے اور پھر جب وہ بات یاد آئے اور انشاء اللہ کہہ لیوے تو ایسی قسم کا کفارہ نہیں ہے ١ ؎۔ لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ قسم کے ساتھ ہی انشاء اللہ کہہ لیوے تو قسم کے ٹوٹ جانے پر کفارہ نہیں ہے ورنہ کفارہ ہے۔ مسند امام احمد، ترمذی، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں عبداللہ بن عمر (رض) سے صحیح روایت ہے ٢ ؎۔ جس سے جمہور کے مذہب کی تائید ہوتی ہے کیونکہ جو جمہور کے قول کا مطلب ہے وہی اس صحیح روایت کا مطلب ہے علاوہ اس کے صحیح بخاری ومسلم میں عبدالرحمن (رض) بن سمرہ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس بات پر قسم کھائی جائے اگر اس سے کوئی اچھی بات نظر آوے تو آدمی کو چاہئے کہ قسم کا کفارہ دے کر اس اچھی بات کو کرلیوے ٣ ؎۔ اس حدیث سے بھی جمہور کے مذہب کی تائید ہوئی ہے کیونکہ قسم کے بعد بھی اگر انشاء اللہ کہنا جائز ہوتا تو آپ کفارہ کا ذکر نہ فرماتے بلکہ یہ فرماتے کہ جس بات پر قسم کھائی جائے اگر اس سے اچھی کوئی بات نظر آئے تو آدمی انشاء اللہ کہہ کر قسم کے کفارہ سے بچ جائے اور اچھی بات کو کر لیوے۔ اس کے بعد فرمایا اے رسول اللہ کے ان مشرکوں سے یہ بھی کہہ دو کہ میری نبوت کا ثبوت کچھ اس پر منحصر نہیں ہے کہ مثلا تم لوگوں نے یہود کے سکھانے سے اصحاب کہف کا قصہ پوچھا اور میں نے باوجود ان پڑھ ہونے کے صحیح صحیح وہ قصہ بیان کردیا بلکہ مجھ کو تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ اس سے بڑھ کر مجھ کو نبوت کا ثبوت عنایت کرے گا۔ صحیح بخاری میں خباب بن الارت سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک روز خباب نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی کہ اب تو مشرکین مکہ بہت تکلیفیں دیتے ہیں آپ نے فرمایا ذرا صبر کرو اللہ تعالیٰ اسلام کے غلبہ کا وعدہ ایسا پورا کرے گا کہ کسی دشمن کا خوف باقی نہ رہے گا ٤ ؎۔ اصحاب کہف کے قصہ سے بڑھ کر نبوت کا ثبوت عنایت کرنے کی امید جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان آیتوں میں دلائی تھی اس قسم کی امید کی آیتوں پر بھروسہ کر کے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت سے پہلے اس طرح کی تسلی صحابہ کو فرمایا کرتے تھے جس کا ذکر خباب (رض) بن الارت کی روایت میں گزرا آخر اللہ کا وعدہ اور اللہ کے رسول کا اس وعدہ پر بھروسا کرنا یہ باتیں کہیں خالی جانے والی تھیں اللہ اکبر اسلام کے اس غلبہ کا اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امید کے پورے ہونے کا کچھ ٹھکانہ ہے کہ جن بتوں کی حمایت میں مشرکین مکہ مسلمانوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے فتح مکہ کے وقت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان بتوں کو اپنے ہاتھ سے لکڑی مار مار کر زمین پر گرا دیا اور کسی مشرک کو اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ ان بتوں کی کچھ حمایت کرتا۔ یہ بتوں کے زمین پر گرا دینے کا قصہ صحیح بخاری کی عبداللہ بن مسعود (رض) کی اور صحیح مسلم کی ابوہریرہ (رض) کی روایتوں کے حوالہ سے کئی جگہ گزر چکا ہے ٥ ؎۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اصحاب کہف کے قصہ سے بڑھ کر نبوت کا ثبوت عنایت کرنے کی امید جو اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں اپنے رسول کو دلائی تھی غلبہ اسلام کے اس طرح کے قصے اس امید کے پورا ہونے کی تفسیر ہیں۔ آگے فرمایا اصحاب کہف غار میں سو کر پھر جو جاگے یہ مدت تو شمسی سال کے حساب سے تین سو اور قمری کے حساب سے تین سو نو برس کی ہے اور ان کے دوبارہ سو جانے اور اس قصہ کے قرآن میں نازل ہونے تک کی مدت اللہ خوب جانتا ہے کیونکہ آسمان و زمین کے دیکھنے اور سننے کی سب غیب کی باتیں اسی کو اچھی طرح معلوم ہیں سوا اس کے اور کسی کا اس میں کچھ دخل نہیں ولا یشرک فی حکمہ احدا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلا جس طرح دقیانوس نے اصحاب کہف کو بت پرست بنانا چاہا اور اللہ کا حکم ان کے حق میں یہ تھا جس کا ذکر اس قصہ میں ہے کہ وہ ایک مدت تک سوئے اور پھر جاگے اور منکرین حشر کو ان کا حال دیکھ کر عبرت ہوئی غرض جو اللہ کا حکم تھا وہ ہو کر رہا یا مثلا موسیٰ (علیہ السلام) کے مار ڈالنے کے قصد سے فرعون نے بنی اسرائیل کے ہزارہا لڑکے قتل کرائے مگر جو اللہ کا حکم تھا وہ آخر ہو کر رہا غرض بادشاہ ہو یا وزیر اللہ کے حکم میں کوئی شریک نہیں اس لیے اس کے حکم کو اس طرح کوئی ٹال نہیں سکتا جس طرح ایک شریک دوسرے شریک کے حکم کو کبھی ٹال دیتا ہے مسند امام احمد اور ترمذی کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی معتبر روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام دنیا کے لوگ اکھٹے ہو کر کسی شخص کو نفع یا نقصان پہنچانا چاہیں تو بغیر اللہ کے حکم کے کچھ نہیں ہوسکتا ٦ ؎۔ اس حدیث سے ولا یشرک فی حکمہ احدا کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ اللہ کے حکم میں کوئی شریک نہیں اس لیے اس کا حکم کوئی ٹال نہیں سکتا۔ ١ ؎ تفسیر بان کثیرص ٧٩٦ ج ٣۔ ٢ ؎ ابن ماجہ ص ١٥٣ باب الاستثناء فی الیمین ٣ ؎ صحیح بخاری ص ٩٨٠ ج ٢ کتاب الایمان والنذور ٤ ؎ تفسیر ہذاص ٢٧٦ ج ٣ ٥ ؎ صحیح بخاری ص ٦١٤ ج ٢ باب این رکز النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرأیتہ یوم الفتح۔ ٦ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٥٣ باب التو کل والصبر

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:23) غدا۔ کل آئندہ۔ فردا۔ مستقبل کو کوئی زمانہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٤) اسرارومعارف آپ کے مرتبہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ آپ کہہ دیں کل یہ کام کر دوں گا کہ آپ تو سراپا ہدایت تھے اور آپ کے معجزات دیکھ کر لوگ آپ ہی کی پرستش نہ کرنے لگ جائیں ، اور یہ نہ سمجھ لیں کہ سب کچھ کرنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذاتی اختیار میں ہے ، لہذا کبھی مت کہیے کہ میں یہ کام کر دوں گا ، سوائے اس کے کہ انشاء اللہ ملا لیجئے یعنی اللہ جل جلالہ نے چاہا تو یہ کام کر دوں گا ۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ تین سوال پیش کئے گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرما دیا کہ کل جواب دوں گا اور انشاء اللہ ساتھ نہ فرمایا تو کم وبیش پندرہ روز تک کوئی وحی نازل نہ ہوئی جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی بہت افسردہ ہوئے اور کفار نے بڑا مذاق اڑایا مگر پھر اس آیۃ کریمہ کے نزول سے تسلی ہوئی اور آئندہ کے لیے ایک ضابطہ معین ہوگیا ۔ تو عام مسلمانوں کے لیے بھی انشاء اللہ کہنا مستحب قرار پایا چناچہ اگر بھول چوک ہوجائے اور بات کرتے وقت اللہ جل جلالہ کا ذکر یاد نہ رہے یعنی اتفاقا انشاء اللہ نہ کہا جائے تو جیسے یاد آئے کہہ دیجئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہی طرز عمل زیبا ہے ۔ ان لوگوں سے فرمائیے کہ تمہیں یہ قصہ بہت عجیب معلوم ہوا حالانکہ اس سے بہت زیادہ بڑی اور اہم باتیں اللہ جل جلالہ نے مجھے بتائیں اور میرے ذریعے تم تک پہنچیں ، آدم (علیہ السلام) اور ان سے بھی پہلے کا ذکر عرش اور آسمانوں ، فرشتوں کی باتیں ، موت کے ، زندگی کے احوال اور سب سے بڑھ کر اللہ جل جلالہ کی ذات اور اس کی صفات کے بیان یہ انسانی ہدایت کے لیے اس قصے کی نسبت بہت بڑی دلیلیں ہیں ۔ اور یہ جو جھگڑا ان کے غار میں رہنے کی میعاد میں کرتے ہیں تو چونکہ مدت کا دراز ہونا اس واقعہ کے خرق عادت اور کرامت کی اہمیت واضح کرتا ہے لہذا انہیں فیصلہ کن بات بتا دیں کہ وہ لوگ نیند کی حالت میں غار کے اندر تین سو نوسال رہے جس طویل عرصہ میں نہ صرف ان کے وجود اور لباس تک محفوظ رہے بلکہ بغیر کھائے پیئے ان کے وجود زندہ رہے اور وہ صرف سوتے رہے ، اگر کفار یقین نہ کریں تو کوئی فرق نہیں پڑتا ، ہاں یہ فرما دیجئے کہ اللہ ہی یقینا صحیح عرصہ قیام جانتا ہے اور وہی بتا سکتا ہے اور یہ مدت وہی بتا رہا ہے ، اور اس کی ذات اتنی عظیم ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کے سب غیب تک اس پہ آشکارا ہیں ، وہ خوب دیکھتا ہے اور سنتا ہے ، اگر یہ اعتبار نہ بھی کریں گے تو کونسا کسی کو اللہ کے مقابل مددگار بنا لیں گے کہ ان کے لیے بھی سوائے اسی کی ذات کے کوئی مددگار نہیں اور نہ کوئی اس کے احکام اور امور سلطنت میں مداخلت کی جرات کرسکتا ہے کہ کفار بھی اللہ جل جلالہ کی قدرت کو اپنے اوپر قیاس کرکے ایسے امور کی باطل تاویلیں کیا کرتے تھے جیسے آج کل کے کرامات ومعجزات کا انکار کرنے والے حیلے تراشتے رہتے ہیں مگر حق یہ ہے کہ کرامات ومعجزات خرق عادت ہوتے ہیں ، لہذا امور عادیہ پہ قیاس کرنا ہرگز درست نہیں ہو سکتا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فریضہ اس وحی الہی کو لوگوں پہ پڑھنا اور سنانا ہے جو اللہ جل جلالہ کی طرف سے آتی ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منوانے کے تو ذمہ دار نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہنچا دیا حق ادا ہوگیا کہ نزول کتاب اللہ کی شان ربوبیت کا تقاضا ہے اور انسانی تربیت کے لیے بہت اہم دولت ہے ، لہذا اس میں کفار کے رؤساء کے مطالبہ پر تبدیلی ممکن نہیں نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی فکر کریں کہ یہ لوگ ایمان نہ لائے تو اسلام کیسے پھیلے گا اور دین میں ترقی کیسے ہوگی بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تعمیل ارشاد میں بات پہنچاتے رہئے کہ اگر کوئی بھی اللہ جل جلالہ کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی کرے گا یا اللہ جل جلالہ کی اطاعت چھوڑ کر مخلوق کی طرف جھکے گا تو اسے اللہ کی گرفت سے بچنے کو کوئی پناہ نہ مل سکے گی کہ سب کی پناہ بھی اللہ جل جلالہ ہی کی ذات ہے لہذا مشرکین مکہ کا یہ مطالبہ کہ فقیر اور غیر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کو الگ کر دیجئے کہ ہم بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں تو بیٹھ سکیں ہرگز قابل توجہ نہیں ۔ (معیت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذات گرامی کو اپنی معیت ذاتی کو ان ہی لوگوں کے لیے مخصوص کر دیجئے جو اللہ جل جلالہ کے قرب کی طلب میں اور اس کی رضا کی خاطر اس کا ذکر علی الدوام کرتے ہیں اور کسی لمحے ان سے اس کی یاد نہیں چھوٹتی ۔ (ذکر دوام) ہاں علماء نے علی الدوام عبادت کرنا بھی لکھا ہے مگر حق یہ ہے کہ یہ بھی درست ہے اور حقیقی مراد ذکر قلبی ہے جو نصیب ہوجائے تو اس میں کوئی لمحہ غفلت واقع نہیں ہوتی ، نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرہ مبارک سے مسجد میں تشریف لائے تو کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین بیٹھے ذکر الہی کر رہے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ہمراہ بیٹھ گئے ، یہی آیہ مبارکہ تلاوت فرمائی اور فرمایا اللہ جل جلالہ کا شکر ہے جن لوگوں کے ساتھ رہنے کا حکم دیا وہ لوگ بھی مہیا فرما دیئے ، نیز اگلے جملے میں تقابل بھی انہی لوگوں سے ہے کہ ان کو پرکاہ اہمیت نہ دیں جن کے قلوب ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیئے ، حدیث شریف میں جہاں ذکر لسانی پر ذکر قلبی کی بہت زیادہ فضلیت ارشاد فرمائی ہے ، وہاں قرآن حکیم کے مطابق صحبت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اثر اور برکات سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کے نہ صرف قلوب ذاکر تھے بلکہ وجود کا ذرہ ذرہ ذاکر تھا جیسے ارشاد ہے (آیت) ” ثم تلین جلودھم وقلوبھم الی ذکر اللہ “۔ کہ ان کی کھال سے لے کر قلوب تک ہر ذرہ بدن ذاکر تھا ، دراصل ذکر مختلف مدارج ہیں ۔ (ذکر کے مدارج) ایمان قبول کرنا بھی ذکر ہے ، جبکہ خلوص دل سے ہو یہ کم از کم کیفیت اور پہلا درجہ ہے ۔ دوسرا یہ ہے کہ عمل سنت کے مطابق نصیب ہو تو ہر عمل بجائے خود ذکر ہے ۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ زبانی تسبیحات پڑھی جائیں یہ ذکر لسانی کہلاتا ہے اور چوتھا اور کامل درجہ یہ ہے کہ قلب ذاکر ہوجائے اور ذکر پر دوام نصیب ہوجائے یہ صحبت شیخ سے انعکاسی طور پر نصیب ہوتا ہے ، اس کے سوا اس کا کوئی اور طریقہ نہیں اور ہر درجے کے ذکر پر اسی کی نسبت سے معیت نبوت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفقت وکرم نصیب ہوتا ہے ۔ اس ادائے احسان وکرم میں کبھی یہ نہ سوچیں کہ دنیا کے اعتبار سے یا مال وزر اور اقتدار واختیار میں کون بڑا ہے اور ظاہرا اس سے دین کو زیادہ قوت ملنے کی توقع کی جاسکتی ہے لہذا اسے آپ وقت عطا کریں ، اپنی مجلس مبارک میں بٹھائیں ہرگز نہیں بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نگاہ کرم اللہ جل جلالہ کے ان بندوں کے لیے ہے جو اپنے قلوب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکات سے روشن کرکے ہر آن اللہ جل جلالہ کا ذکر کرتے ہیں ، لہذا جن لوگوں کا قلب ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہو جس کا سبب ان کی نافرمانی اور انکار کفر ہی بنتا ہے ۔ (قلب غافل ہوجائے تو انسان خواہشات کے تابع ہوجاتا ہے) اور جب قلب پہ غفلت کی موت آئے تو انسان انسانیت کے شرف سے محروم ہو کر حیوانوں کی طرح محض خواہشات کے تابع ہوجاتا ہے تو ایسے لوگوں کو آپ پرکاہ اہمیت نہ دیجئے ان کی بات سنیئے نہ ان کی طرف توجہ فرمائیے ۔ بلکہ یہ واضح طور پر ارشاد فرما دیجئے کہ یہ دین اور برکات رسالت حق ہیں جو تمہارے پروردگار کا تم پر احسان ہے اب جو چاہے انہیں قبول کرے اور اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو اور جو رد کرنا چاہے وہ بھی اپنی پسند کی راہ اپنا کر دیکھ لے ، مگر یہ یاد رکھ لو کہ اللہ جل جلالہ نے ایسے ظالموں کے لیے جہنم کی آگ بھڑکا رکھی ہے ، جہاں دیواریں یا قناتیں جو انہیں محیط ہوں گی وہ بھی آگ ہی کی بنی ہوں گی بلکہ اگر پینے کو کچھ مانگیں گے تو پیپ جیسا مایہ ملے گا جو آگ سے زیادہ گرم ہوگا کہ منہ کی طرف لے کے جائیں گے تو چہرے جھلس دے گا ، بہت ہی سخت اور تکلیف دہ شے ہوگی پینے کی بھی اور سارا ٹھکانہ اپنی تمام حالتوں میں بہت دردناک اور برا ہے ، اس کے مقابل جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اسے حسن عمل یعنی اطاعت سے سجایا تو ہم نیکی کرنے والوں کے اعمال رائیگاں نہ جانے دیں گے بلکہ عمل کے حساب سے بہت بہترین اجر عطا فرمائے گا ۔ ان کے رہنے کو بہترین اور سدا بہار باغ ہوں گے ، پانی کی نہریں ان باغوں کے تابع ہوں گے کہ ہمیشہ اپنی بہار قائم رکھیں ، اور اللہ جل جلالہ کے بندوں کو وہاں انعامات سے نوازا جائے گا ، سونے کے کنگن اور بہترین نفیس سبز کپڑے پہن کر اعلے درجے کے ریشمی تکیے لگا کر قیمتی تختوں پہ جلوہ افروز ہوں گے ، بہترین بدلہ اور اجر اور بہت ہی اعلی ٹھکانہ ہوگا ، یاد رہے یہ لباس اور زیور نیز زیب وزینت کی بات آخرت کے اعتبار سے ہو رہی ہے ، اسے دنیا پہ قیاس نہ کیا جائے کہ سونا اور ریشم مردوں کے لیے جائز ہے یا نہیں ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 23 تا 24 لاتقولن تو ہرگز مت کہنا۔ لشائ کسی چیز کے لئے۔ فاعل کرنے والا۔ غداً کل۔ اذکر یاد کر۔ نسیت تو بھول گیا۔ عسی شاید۔ توقع۔ یھدین وہ مجھے راہ دکھائے گا۔ اقرب زیادہ قریب۔ رشد سمجھنا، رہنمائی۔ تشریح :- آیت نمبر 23 تا 24 اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس نے اپنے رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کو زندگی کے ہر انداز اور معاملات زندگی کو ہر اس شخص کے لئے بہترین نمونہ عمل بنا دیا ہے جو اللہ کی رحمت کی امید، آخرت کی فکر اور خوب اللہ کا ذکر کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو منصب نبوت عطا فرمایا ہے وہ اس لئے ہے کہ آپ لوگوں تک اللہ کا پیغام پوری دیانت سے پہنچا دیں اور اللہ کے احکامات پر عمل کرانے کے بعد ایک ایسی سوسائٹی یا معاشرہ بنا دیں جو قیامت تک موجود اور آنے والی نسلوں کے لئے نشان منزل بن جائے اور ہر شخص کو اس کا خوگر بنا دیں کہ اس کائنات کا نظام اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے وہ جس طرح چاہتا ہے اس کو چلاتا ہے۔ وہ اس کے چلانے میں کسی طرح کسی کا محتاج نہیں ہے۔ ہر شخص کو اسی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہئے کیونکہ اس کائنات میں کیا چیز بہتر ہے اور کیا چیز بری اور بدترین ہے اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ فلاں کام میں کرسکتا ہوں تو بیشک اللہ نے جو اس کو طاقت و قوت اور توانائی بخشی ہے اس سے وہ اس کام کو کرسکتا ہے لیکن خود انسان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جس کام کو کر رہا ہے اس میں خیر ہے یا نہیں ۔ اسی لئے اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ انسان جب بھی کسی کام کا ارادہ کرنا چاہئے تو اللہ پر بھروسہ کرلیا کرے یعنی اس طرح کہہ دیا کرے کہ انشاء اللہ میں یہ کام کل کو کر دوں گا۔ اگر اللہ پر اعتماد اور بھروسہ کرنے کے باوجود وہ کام نہ ہو یا اس میں تاخیر ہوجائے تو یقیناً اس میں کوئی مصلحت ضرور ہوگی۔ اسی بات کو اس آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی وساطت سے آپ کی امت کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ جب بھی آئندہ کسی کام کے کرنے کا ارادہ ہو تو یہ ضرور کہہ لیا جائے انشاء اللہ یہ کام میں کل کر دوں گا۔ یعنی اپنی ذات پر بھروسہ کرنے کے بجائے اللہ پر بھروسہ کرلیا جائے۔ سورة کہف کے نزول کے وقت جب کفار مکہ نے اصحاب کہف کے متعلق پوچھا تو آپ نے یہ سوچ کر کہ کل جبرئیل آئیں گے تو میں ان سے پوچھ کر بتا دوں گا۔ آپ نے یہ کہہ دیا کہ ” میں یہ بات تمہیں کل بتا دوں گا “ چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پاک امت کے لئے بہترین نمونہ عمل ہے آپ کی امت کو سکھانے کے لئے چند روز تک وحی نازل نہیں ہوئی۔ جبرئیل امین نہیں آئے۔ کفار کو مذاق اڑانے اور جملے کسنے کا موقع مل گیا جس سے آپ کو خاصی پریشانی ہوگئی۔ چند روز کے بعد یہ آیت نازل ہوئی جس میں فرمایا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ ہے۔ لہٰذا آئندہ جب بھی مستقبل میں کئے جانے والا کام یا کوئی بات فرمائیں تو انشاء اللہ کہہ لیا کریں تاکہ اللہ پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے کام درست ہوجائیں اور ان کی رکاوٹیں دور ہوجائیں اور ہر شخص یہ بات جان لے کہ اس کائنات میں ہر کام اللہ کی قدرت، اس کے حکم اور کسی مصلحت سے ہوتا ہے۔ اس کے حکم کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دوسری تلقین۔ سورۃ الکہف کے تعارف میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ اہل مکہ نے مدینہ کے یہودیوں کے پاس ایک وفد بھیجا۔ یہودیوں نے انہیں تین سوالات بتلائے کہ اگر محمد نے ان سوالوں کا ٹھیک ٹھیک جواب دیا تو وہ حقیقی نبی ہے۔ اگر ٹھیک جواب نہ دے سکا تو نبوت کے دعوی میں جھوٹا ہے۔ وفد نے مکہ سے واپس آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوالات کیے۔ آپ نے فرمایا کہ میں کل تمہیں جواب دوں گا لیکن کئی دن تک وحی نہ آئی۔ جس پر کفار نے بغلیں بجائیں اور پروپیگنڈہ کیا کہ یہ شخص جھو ٹا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان جاری کیا ” اے نبی ! کسی کام کے بارے میں آئندہ اس طرح نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا ایسی بات کہتے وقت انشاء اللہ کہا کریں۔ جب اپنے رب کا نام لینا بھول جاؤ تو یاد آنے پر فوراً انشاء اللہ کہا کرو۔ اور فرما دیں عنقریب میر ارب میری اس سے زیادہ رہنمائی کرے گا۔ “ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کو اور آپ کے حوالے سے آپ کی امت کو یہ ہدایت فرمائی ہے۔ مستقبل کے بارے میں کسی سے عہد کرنا ہو تو اس وقت انشاء اللہ کہہ لینا چاہیے۔ کیونکہ وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ (وَمَا تَشَاءُ وْنَ إِلَّا أَنْ یَشَاء اللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ )[ التکویر : ٢٩] ” اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہی جو اللہ جہانوں کا رب چاہے۔ “ (وَمَا تَشَاءُ وْنَ إِلَّا أَنْ یَشَاء اللّٰہُ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا)[ الدھر : ٣٠] ” اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر جو اللہ کو منظور ہو، بیشک اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے۔ “ انشاء اللہ کا مقام اور احترام : انشاء اللہ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف انشاء اللہ پڑھنے والا اس لیے پڑھتا ہے کہ میرا کام کوشش کرنا ہے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ گویا کہ وہ اپنے عقیدے کا اظہار کرتا ہے کہ کام کرنے کی اصل طاقت اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ دوسرے الفاظ میں انشاء اللہ کہنے والا اللہ کو گواہ بنا کر دوسرے کو یقین دلاتا ہے کہ میں یہ کام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ لیکن افسوس آج کئی علماء اور مسلمان انشاء اللہ تاکید کے طور پر نہیں بلکہ تعلیق کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ تعلیق کا معنٰی ہے کسی بات کو لٹکانا حالانکہ وعدہ کرتے ہوئے انہیں یقین کی حد تک معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام میں نہیں کرپاؤں گا لیکن وقت ٹالنے کے لیے انشاء اللہ کہتے ہیں۔ جو شخص اس طرح انشاء اللہ کہتا ہے اسے خود ہی سوچنا چاہیے کہ وہ کس قدر ظالم ہے ؟ اپنے اور اپنے بھائی پر ظلم کرنے کے ساتھ اللہ کے مقدس نام کو کس نیت کے ساتھ استعمال کررہا ہے۔ مسائل ١۔ کسی کام کے متعلق یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں کل کروں گا۔ ٢۔ جب اللہ تعالیٰ کا نام لینا بھول جائیں تو یا دآنے پر انشاء اللہ کہنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی حق کی جانب رہنمائی کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا چاہیے : ١۔ اپنے رب کو یاد کرو جب اس کا نام لینابھول جاؤ۔ (الکھف : ٢٤) ٢۔ اے ایمان والو ! اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور اس کی صبح وشام تسبیح بیان کرو۔ (الاحزاب : ٤١) ٣۔ جب نماز پوری کرچکو تو اللہ کا کھڑے، بیٹھ اور لیٹ کر ذکر کرو۔ (النساء : ١٠٣) ٤۔ اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی اور انکساری سے یاد کرو۔ (الاعراف : ٢٠٥) ٥۔ خبردار اللہ کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں۔ (الرعد : ٢٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واقعہ یہ ہے کہ ہر حرکت اور پر سکون بلکہ زندہ انسانوں کے سا انسوں میں سے ہر سانس اللہ کے ارادے کی مرہون منت ہے۔ عالم غیب لمحہ حاضرہ کے پردے کے پچیھے مستور ہے اور انسانی آنکھ اس پر دے کے پیچھے نہیں دیکھ سکتی۔ انسان چاہے بہت ہی عقلمند ہو ، مستقبل کے بارے میں اس کی عقل کند ہے اور کچھ جاننے سے قاصر ہے۔ لہٰذا کسی انسان کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ میں کل یہ کروں گا۔ جبکہ کل پردہ غیب کے پیچھے ہے اور کل کے نتائج کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ انسان بیٹھ جائے اور مستقبل کے امور کے بارے میں کوئی غور و فکر نہ کرے۔ اور وہ اپنی زندگی کے بارے میں صرف ایک دن ہی کی منصوبہ بندی کرے یا لمحہ بہ لمحہ زندگی کے بارے میں نئی نئی سوچ سامنے لائے اور اپنی سابقہ زندگی کو حال اور مستقبل کے ساتھ مربوط نہ کرے۔ ایسا مفہوم اس آیت کا ہرگز نہیں ہے بلکہ مفہوم یہ ہے کہ وہ مستقبل کے بارے میں غیبی اور ناگہانی واقعات اور اللہ کی مشیت کا بھی خیال رکھے۔ وہ جو عزم چاہے کرے ، جو منصوبہ چاہے بنائے ، لیکن اس کے بارے میں اللہ کی مدد کا طلب گار ہو ، یہ بات ذہن میں رکھے کہ ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ اگر کام اس کے منصوبے کے مطابق ہوگیا تو بہتر ورنہ اگر اللہ کی مشیت نے اس کے لخاف کوئی اور تدبیر کردی تو اسے بھی وہ معبد نہ سمجھے ، کیونکہ اللہ کا حکم بہر حال برتر رہتا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ سوچے ، تدبیر کرے۔ لیکن اسے یہ شعور زندہ رکھنا چاہئے کہ وہ جو سوچتا ہے ، وہ توفیق الٰہی اور اللہ کی فراہم کردہ آسانیوں کے نتیجے ہی میں کرسکتا ہے۔ اس کی وہی سوچ اور وہی تدبیر کامیاب ہو سکتی ہے جس کے ساتھ اللہ کی مدد شامل حال ہو۔ یاد رہے کہ یہ کاہلی ، سستی ، ضعف اور بےتدبیری کا جواز فراہم نہ کرے بلکہ چاہئے کہ اس سے قوت ، اعتماد ، اطمینان اور عزم مضبوط ہو۔ اور اگر کام اس کی تدابیر کے خلاف ہوجائے تو بس وہ یہی کہہ دے کہ اللہ کا حکم اور فیصلہ ایسا ہی ہوگا۔ ہم اللہ کے فیصلے پر راضی ہیں مطمئن ہیں اور سر تسلیم خم کرتے ہیں کیو ن کہ ہونا وہی تھا جو ہوا ، البتہ ہمیں وہ معلوم نہ تھا وہ پردہ غیب کے پیچھے مستور تھا۔ یہ ہے وہ طریقہ کار جس پر اسلام ایک مومن کو ڈالنا چاہتا ہے لہٰذا ایک مومن تنہائی اور وحشت محسوس نہیں کرتا۔ بلکہ ہر وقت فکر و تدبیر کرتا رہتا ہے اور اگر وہ کامیاب ہوتا ہے تو وہ غرور اور سرکشی اختیار نہیں کرتا۔ نہ وہ قنوطیت اور مایوسی کا شکار ہوتا ہے۔ اگر وہ کسی منصوبے میں ناکام ہوجائے ، بلکہ کامیابی اور ناکامی دونوں میں وہ اللہ سے جڑا رہتا ہے۔ اس کا اللہ پر پورا پورا بھروسہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی توفیق پر راضی ہوتا ہے۔ اس کے فیصلوں پر راضی برضا ہوتا ہے نہ وہ متکبر ہوتا ہے اور نہ قنوطی ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27:۔ یہ جملہ معترضہ ہے ہر واعظ اور ناصح حکیم کا یہ طریقہ ہے کہ اگر وعظ کے دوران میں وعظ کے کسی حصہ پر کوئی ایسی ضروری بات متفرع ہوسکے جو سامعین سے متعلق ہو۔ تو وہ سلسلہ وعظ کو بند کر کے سامعین کو اس ضروری بات کی طرف متوجہ کرتا ہے تاکہ اسے خوب یاد رکھ لیا جائے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ اصحاب کہف کا واقعہ بیان کرنے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کر کے فرمایا کہ جو کام آپ کو کل کے دن کرنا ہو۔ اسے آپ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے متعلق فرما دیا کریں۔ اور اس کے ساتھ انشاء اللہ ضرور کہا کریں۔ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علی ہو سلم سے یہ بھول ہوگئی تھی۔ کہ جب مشرکین قریش نے بطور امتحان آپ سے تین باتیں پوچھیں تو آپ نے کل کو جواب دینے کا وعدہ فرمایا۔ اور انشاء اللہ نہ کہا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا واقعہ بیان کرنے کے بعد یاد دہانی فرمائی کہ انسان اپنے دل میں کچھ ارادہ کرتا ہے مگر ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہو اور جو کچھ ہوتا ہے محض اللہ کے ارادے اور اس کی مشیت سے ہوتا ہے چناچہ اصحاب کہف جب غار میں داخل ہوئے تو ان کا ارادہ یہ تھا کہ تھوڑی دیر آرام کر کے پھر اٹھیں گے مگر ان کے ارادے کے خلاف اللہ تعالیٰ نے ان کو تین سو نو سال سلائے رکھا۔ اسی طرح انہوں نے اپنے ساتھی کو اس ارادے سے شہر میں بھیجا کہ وہ کھانا خرید کر لائے۔ مگر ان کے ارادے کے برعکس کچھ اور ہی رونما ہوگیا۔ علی ھذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ یہ تھا کہ آج یا کل وحی کے ذریعے قریش کے سوالوں کا جواب مل جائے گا تو کل ان کو بتا دوں گا مگر اس کے برعکس ہوا یہ کہ پورے پندرہ یوم تک وحی نہ آئی اس لیے آپ ہر معاملے کو مشیت الٰہی کے سپرد فرمادیا کریں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

23 اور آپ اے پیغمبر کسی کام کے متعلق یوں نہ فرما دیا کیجیے کہ اس کام کو یا اس بات کو کل کر دوں گا۔