Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 41

سورة الكهف

اَوۡ یُصۡبِحَ مَآؤُہَا غَوۡرًا فَلَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ لَہٗ طَلَبًا ﴿۴۱﴾

Or its water will become sunken [into the earth], so you would never be able to seek it."

یا اس کا پانی نیچے اتر جائے اور تیرے بس میں نہ رہے کہ تو اسے ڈھونڈھ لائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَوْ يُصْبِحَ مَاوُهَا غَوْرًا ... Or the water thereof becomes Ghawran, means, it disappears into the earth, which is the opposite of flowing water that seeks the surface of the earth. So Gha'ir is to go lower. as Allah says: قُلْ أَرَءَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَأوُكُمْ غَوْراً فَمَن يَأْتِيكُمْ بِمَأءٍ مَّعِينٍ Say: "Tell me! If your water were Ghawran, who then can supply you with flowing water!" (67: 30) meaning, water that flows in all directions. And here Allah says: أَوْ يُصْبِحَ مَاوُهَا غَوْرًا فَلَن تَسْتَطِيعَ لَهُ طَلَبًا Or the water thereof (of the gardens) becomes deep-sunken (underground) so that you will never be able to seek it. Ghawr is from the same root as Gha'ir and has a similar meaning, but is more intensive.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 یا درمیان میں جو نہر ہے جو باغ کو شادابی اور زرخیزی کا باعث ہے، اس کے پانی کو اتنا گہرا کر دے کہ اس سے پانی کا حصول ہی ناممکن ہوجائے اور جہاں پانی زیادہ گہرائی میں چلا جائے تو پھر وہاں بڑے بڑے ہارس پاور کی موٹریں اور مشینیں بھی پانی کو اوپر کھینچ لانے میں ناکام رہتی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوْ يُصْبِحَ مَاۗؤُہَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِيْعَ لَہٗ طَلَبًا۝ ٤١ ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے غور الغَوْرُ : المُنْهَبِطُ من الأرض، يقال : غَارَ الرجل، وأَغَارَ ، وغَارَتْ عينه غَوْراً وغُئُوراً «2» ، وقوله تعالی: ماؤُكُمْ غَوْراً [ الملک/ 30] ، أي : غَائِراً. وقال : أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً [ الكهف/ 41] . والغارُ في الجبل . قال : إِذْ هُما فِي الْغارِ [ التوبة/ 40] ، وكنّي عن الفرج والبطن بِالْغَارَيْنِ «3» ، والْمَغَارُ من المکان کا لغور، قال : لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغاراتٍ أَوْ مُدَّخَلًا [ التوبة/ 57] ، وغَارَتِ الشّمس غِيَاراً ، قال الشاعر : هل الدّهر إلّا ليلة ونهارها ... وإلّا طلوع الشّمس ثمّ غيارها«4» وغَوَّرَ : نزل غورا، وأَغَارَ علی العدوّ إِغَارَةً وغَارَةً. قال تعالی: فَالْمُغِيراتِ صُبْحاً [ العادیات/ 3] ، عبارة عن الخیل . ( غ ور ) الغور کے معنی نشیبی زمین کے ہیں محاورہ ہے غارالرجل اوغار یشبی زمین میں چلا جانا غارت عینہ غورا وغورورا آنکھ کا اندر پھنس جانا قرآن پاک میں ہے ؛ماؤُكُمْ غَوْراً [ الملک/ 30] تمہارا پانی بہت زیادہ زمین کے نیچے اتر جائے ۔ أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً [ الكهف/ 41] یا اس کا پانی زمین کے اندر اتر جائے ۔ الغار کے معنی غار کے ہیں ( ج اغوار وغیران ) قرآن پاک میں ہے : إِذْ هُما فِي الْغارِ [ التوبة/ 40] جب وہ دونوں غار ( ثور ) میں تھے : اور کنایہ کے طور پر فر ج و بطن یعنی پیٹ اور شرمگاہ کو غار ان ( تثبیہ ) کہاجاتا ہے اور مغار کا لفظ غور کی طرح اسم مکان کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ض ( جمع مغارات) قرآن پاک میں ہے : لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغاراتٍ أَوْ مُدَّخَلًا[ التوبة/ 57] اگر ان کو کوئی بچاؤ کی جگہ ( جیسے قلعہ ) یا رغار ومغاک یا زمین کے اندر ) کھسنے کی جگہ مل جائے ۔ اور غارت الشمس غیارا کے معنی سورج غروب ہوجانے کے ہیں ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (333) ھل الدھر الالیلۃ ونھارھا والا طلوع الشمس ثم غیارھا ( زمانہ دن رات کی گردش اور سورج ک طلوع و غروب ہونے کا نام ہے ) غور کے معنی پست زمین میں چلے جانے کے ہیں واغار علی الغدو ا اغارۃ وغارۃ کے معنی دشمن پر لوٹ مارنے کے قرآن پاک میں ہے ؛ فَالْمُغِيراتِ صُبْحاً [ العادیات/ 3] پھر صبح کو چھاپہ مارتے ہیں ۔ اور اس سے مراد گھوڑے ہیں ( جو صبح کو دشمن پر چھاپہ مارتے ہیں) الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ طلب الطَّلَبُ : الفحص عن وجود الشیء، عينا کان أو معنی. قال تعالی: أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً فَلَنْ تَسْتَطِيعَ لَهُ طَلَباً [ الكهف/ 41] ، وقال : ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ [ الحج/ 73] ، وأَطْلَبْتُ فلاناً : إذا أسعفته لما طَلَبَ ، وإذا أحوجته إلى الطَّلَبِ ، وأَطْلَبَ الكلأُ : إذا تباعد حتی احتاج أن يُطْلَبَ. ( ط ل ب ) الطلب ( ن ) کے معنی کسی شے کے پانے کی تلاش اور جستجو کرنا کے ہیں عام اس سے کہ وہ چیز اعیان و اجسام سے تعلق رکھتی ہو یا معانی سے قرآن میں ہے : ۔ أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً فَلَنْ تَسْتَطِيعَ لَهُ طَلَباً [ الكهف/ 41] تم اسے تلاش کے باوجود حاصل نہیں کرسکو گے ۔ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ [ الحج/ 73] ضعف الطالب والمطلوب طلب کرنے والا اور جسے طلب کیا جائے ( یعنی عابد معبود دونوں کمزور ہیں ۔ الطلب فلانا کسی کی حاجت راوائی کرنا کسی کو محتاج کرنا اور جو گھاس پانی سے بہت دور ہو اور اس تک پہنچنے کے لئے تکلیف اٹھانا پڑے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے اطلب الکلاء

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ (اَوْ يُصْبِحَ مَاۗؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِيْعَ لَهٗ طَلَبًا) اللہ تمہارے باغ پر کوئی آسمانی آفت نہ بھی بھیجے تو یوں بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے حکم سے اس کا زیر زمین پانی غیر معمولی گہرائی میں چلا جائے۔ اس کے نتیجے میں تمہارا بنایا ہوا نظام آب پاشی ختم ہو کر رہ جائے اور اس طرح پانی کے بغیر یہ باغ خود بخود ہی اجڑ جائے۔ یعنی حقیقی مسبب الاسباب تو اللہ ہی ہے۔ اسی نے مختلف اسباب مہیا کر رکھے ہیں جس سے یہ کاروبار دنیا چل رہا ہے۔ وہ جب چاہے کسی سبب کو سلب کرلے یا اس کی ہیئت کو بدل دے اور اس کی وجہ سے یہ سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے۔ یہ معاملہ تو گویا شیش محل کی طرح کا ہے کہ ایک ہی پتھر اس کو چکنا چور کر کے رکھ دے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:41) غورا۔ غار یغور سے مصدر ہے پانی کا زمین کے اندر گھس جانا۔ کسی چیز کا اندر کی طرف چلے جانا۔ نشیبی جگہ۔ گڑھا۔ غارت عینہ۔ اس کی آنکھ اندر کو گھس گئی۔ غیار بھی مصدری معنی میں استعمال ہوتا ہے بمعنی سورج کا غروب ہونا۔ کسی شاعر نے کہا ہے :۔ ھل الدھر الا لیلۃ ونھارھا والا طلوع الشمس ثم غیارھا۔ (زمانہ نام ہے صرف رات دن اور آفتاب کے طلوع و غروب کا) آیت ہذا میں مصدر بمعنی اسم فاعل استعمال ہوا ہے یعنی زمین میں گھس کر خشک ہوجانے والا پانی اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے ان اصبح ماء کم غورا فمن یاتیکم بماء معین (67:30) اگر تمہارا پانی نیچے کو غائب ہی ہوجائے تو کون ہے جو تمہارے پاس سوت کا پانی لے آئے ۔ او یصبح ماء ھا غورا یا اس کا پانی بالکل زمین کے اندر اتر جائے۔ لن تستطیع۔ استطاعۃ (استفعال) سے مضارع نفی حجد بلن صیغہ واحد مذکر حاضر تو نہ کرسکے گا۔ لن تستطیع لہ طلبا۔ جس کو تو طلب کرے تو بھی نہ پا سکے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ حاصل یہ ہوا کہ تیرا مبنائے پندار یہ دولت و ثروت ہے، جو تیرے پاس ہے، اور میرے پاس نہیں، سو اس کا منشاء سمجھنا ہی غلط ہے، کیونکہ اول تو یہاں ہی ممکن ہے کہ عکس ہوجاوے، پھر کبھی نہ کبھی تو یہ فنا ہونے والی ہے، اور آخرت کی نعمتیں کبھی فنا نہ ہوں گی، اس لئے اعتبار وہاں کا ہے یہاں کا نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

4 1 یا اس ناگہانی اور بلا سے اس باغ کا پانی زمین کے اندر اتنا اتر جائے کہ تو اس کو کسی طرح تلاش نہ کرسکے اور اس کو نکالنے کی کوشش بھی نہ کرسکے۔ یعنی تجھ کو باغ میں داخل ہوتے وقت چاہئے تھا کہ باغ کو اچھی حالت میں دیکھ کر کہتا۔ ماشآء اللہ لاقوۃ الا باللہ۔ رہی یہ بات تو مجھ کو اپنے سے مال اور اولاد میں کم دیکھتا ہے کہ میرے پاس مال کم ہے اور جتھا بھی زیادہ شاندار نہیں ہے تو اس کا مضائقہ نہیں اللہ تعالیٰ سے یہ بات کچھ بعید نہیں ہے اور امید ہے کہ وہ مجھے تیرے باغ سے بھی اچھا اور بہتر باغ عنایت کر دے اور اس تیرے باغ پر کوئی آسمانی آفت اور لو کا کوئی جھوکا بھیج دے جس سے یہ باغ ایک ٹپٹ پر میدان اور بنجر زمین ہو کر رہ جائے یا خلاف توقع یہ نہر کا پانی زمین میں اتنا نیچے اور گہرا اتر جائے کہ تو اس کو تلاش اور حاصل نہ کرسکے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب آدمی کو اپنے گھر بار میں آسودگی نظر آئے تو یہی لفظ کہے۔ ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ کو ٹوک نہ لگے۔ 12