Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 54

سورة الكهف

وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنَا فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لِلنَّاسِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ اَکۡثَرَ شَیۡءٍ جَدَلًا ﴿۵۴﴾

And We have certainly diversified in this Qur'an for the people from every [kind of] example; but man has ever been, most of anything, [prone to] dispute.

ہم نے اس قرآن میں ہر ہر طریقے سے تمام کی تمام مثالیں لوگوں کے لئے بیان کر دی ہیں لیکن انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Examples put forth in the Qur'an Allah says, وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْانِ لِلنَّاسِ مِن كُلِّ مَثَلٍ وَكَانَ الاِْنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلاً And indeed We have given every kind of example in this Qur'an for mankind. But, man is ever more quarrelsome than anything. Allah says, `In this Qur'an, We have explained to mankind and given clear details of matters so that they will not stray from the truth or be misled from the path of guidance. Despite this explanation, man is very quarrelsome and opposes truth with falsehood,' except for those whom Allah guides to the path of salvation. Imam Ahmad recorded that Ali bin Abi Talib said that; the Messenger of Allah came to visit him and Fatima, the daughter of Allah's Messenger at night, and said, أَلاَ تُصَلِّيَانِ Are you not going to pray? I said, "O Messenger of Allah, our souls are in the Hand of Allah. If He wills to wake us, He will wake us." When I said that, he went away without returning. Then I heard him as he was walking away, slapping his thigh and saying, ... وَكَانَ الاِْنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلاً But, man is ever more quarrelsome than anything." It was also recorded in the Two Sahihs.

ہر بات صاف صاف کہہ دی گئی ۔ انسانوں کے لئے ہم نے اس اپنی کتاب میں ہر بات کا بیان خوب کھول کھول کر بیان کر دیا ہے تاکہ لوگ راہ حق سے نہ بہکیں ہدایت کی راہ سے نہ بھٹکیں لیکن باوجود اس بیان ، اس فرقان کے پھر بھی بجز راہ یافتہ لوگوں کے اور تمام کے تمام راہ نجات سے ہٹے ہوئے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کے مکان میں آئے اور فرمایا تم سوئے ہوئے ہو نماز میں نہیں ہو ؟ اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ ہیں وہ جب ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا بٹھاتا ہے ۔ آپ یہ سن کر بغیر کچھ فرمائے لوٹ گئے لیکن اپنی زانو پر ہاتھ مارتے ہوئے یہ فرماتے ہوئے جا رہے تھے کہ انسان تمام چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 یعنی ہم نے انسان کو حق کا راستہ سمجھانے کے لئے قرآن میں ہر طریقہ استعمال کیا، وعظ، نصیحت، امثال، واقعات اور دلائل، علاوہ ازیں انھیں بار بار اور مختلف انداز سے بیان کیا ہے۔ لیکن انسان چونکہ سخت جھگڑالو ہے، اس لئے وعظ نصیحت کا اس پر اثر ہوتا ہے اور نہ دلائل و نصیحت اس کے لئے کارگر۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٢] انسان فطرتا جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ مشیئت الہی کو بہانہ بنانا :۔ انسان کی ہدایت کے لیے اس کی عقل اور اس کے دل کو اپیل کرنے والی بہت سے دلیلیں مختلف پیرا یوں میں اور دل نشین انداز میں بیان کردی ہیں مگر انسان کچھ اس طرح کا جھگڑالو اور ہٹ دھرم واقع ہوا ہے کہ جس بات کو نہ ماننے کا تہیہ کرلے اس پر کئی طرح کے اعتراض وارد کرسکتا ہے۔ جھوٹے دلائل اور حیلوں بہانوں سے جواب پیش کرسکتا ہے۔ بات کا موضوع ہی بدل کر گندم کا جواب چنے میں دے سکتا ہے مگر حقیقت کو قبول کرلینا گوارا نہیں کرتا اور انسان کی یہ سرشت صرف ضدی، ہٹ دھرم اور مجرم قسم کے لوگوں میں نہیں ہوتی بلکہ بعض دفعہ ایک نیکو کار مومن بھی اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے کوئی عذر تلاش کرلیتا ہے۔ چناچہ سیدنا علی فرماتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہم دونوں (میں اور فاطمہ) کو مخاطب کرکے کہا کہ && تم لوگ تہجد کی نماز کیوں نہیں پڑھتے && میں نے جواب دیا && یارسول اللہ ہمارے نفس اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ چاہے گا کہ ہم اٹھیں تو اٹھ جائیں گے && یہ سن کر آپ فوراً واپس ہوگئے اور اپنی ران پر ہاتھ رکھ کر فرمایا : ( وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا 54؀) 18 ۔ الكهف :54) (بخاری، کتاب التھجد۔ باب تحریض النبی علی قیام اللیل والنوافل) گویا سیدنا علی نے اپنے قصور کا اعتراف کرنے کی بجائے مشیئت الٰہی کا عذر پیش کردیا اور اس اختیار کی طرف توجہ نہ کی جو انھیں اور ہر انسان کو عطا کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۧوَلَقَدْ صَرَّفْــنَا فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ ۔۔ : مثال سے بات بہت اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے کئی مثالیں بیان فرمائی ہیں، مثلاً دنیا کی زندگی کی مثال اور آخرت پر ایمان رکھنے والے مسکین اور ایمان نہ رکھنے والے دو باغوں کے مالک کی مثال وغیرہ۔ اس کے علاوہ دوسری سورتوں میں بھی مختلف دلیلوں، کئی طریقوں اور مثالوں سے بات سمجھائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی باتیں مچھر (بقرہ : ٢٦) ، مکھی (حج : ٧٣) کتے (اعراف : ١٧٧) اور گدھے (جمعہ : ٥) کی مثالیں دے کر سمجھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے مختار مطلق اور مخلوق کے بےاختیار ہونے کے لیے مالک اور غلام کی مثالیں کئی جگہ بیان ہوئی ہیں۔ دیکھیے نحل (٧٥، ٧٦) اور روم (٢٨) قرآن و حدیث کی تمام مثالوں کا مقصد یہ ہے کہ لوگ بات پر غور و فکر کریں اور اسے سمجھیں، مگر انھیں جاننے والے ہی سمجھتے ہیں۔ ( دیکھیے حشر : ٢١۔ عنکبوت : ٤٣) پھر ان مثالوں سے کچھ لوگ فائدہ اٹھا کر ہدایت پالیتے ہیں اور کچھ الٹی سمجھ سے گمراہ ہوجاتے ہیں۔ (دیکھیے بقرہ : ٢٦۔ رعد : ١٧، ١٨) آیت کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے بنی اسرائیل (٨٩) اس آیت میں ” فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ “ پہلے ہے، کیونکہ اس سورت کی ابتدا ہی قرآن کے ذکر سے ہوئی ہے اور یہ سورت قرآن کے وصف میں سے ہے اور بنی اسرائیل میں ” لِلنَّاسِ “ پہلے ہے، کیونکہ اس سورت کا بنیادی مضمون ” اَلنَّاسُ “ (لوگوں) کے احوال کی طرف توجہ ہے، جو فی الحقیقت ” اَلنَّاسُ “ (لوگ) ہیں، جن میں تقویٰ اور احسان پایا جاتا ہے۔ (بقاعی) وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا : یعنی جو چیزیں جھگڑا کرسکتی ہیں، انسان ان میں سب سے زیادہ جھگڑنے والا ہے، اس لیے خواہ مخواہ حیل و حجت کیے جاتا ہے اور حق بات کی طرف نہیں آتا۔ قرآن میں جا بجا ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے انبیاء کے ساتھ کفار کے جھگڑے مذکور ہیں۔ جھگڑے کی ایک مثال سورة زخرف (٥٧، ٥٨) میں دیکھیے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The statement: وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ‌ شَيْءٍ جَدَلًا (And man is the most quarrel-some of all things - 54) has been testified through a Hadith narrated by Sayyidna &Anas (رض) in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said, |"On the day of Qiyamah, a man from among the disbelievers will be brought forth. He will be asked, &what was your response to the messenger We had sent to you?& He will say, &0 my Lord, as for me, I did believe in You and in Your messenger too and that I obeyed him in everything I did.& Allah Ta` ala will say, &here is your book of deeds before you. All this you say is not there.& This man will say, &I do not believe in this book of deeds.& Allah Ta` ala will say, &what about these angels of Ours? They used to watch you. They bear witness against you. This man will say, &I do not accept their testimony as well, nor do I know them, nor have I seen them while I was doing what I did.& Allah Ta` ala will say, &if so, this Preserved Tablet (اَلَّوح المَحفُوظ) is before you. Written here too is the same thing about you.& He will say, &my Lord, have You granted me asylum from injustice or have you not?& Allah Ta` ala will say, &Of course, you have your refuge against injustice with Us.& So then, he will say, &0 my Lord, how can I accept the verdict of those unseen witnesses I am not familiar with at all? As for me, I can only accept a witness that comes from my own person.& At that time, his mouth will be sealed, and his hands and feet will bear witness against his kufr and shirk. After that, he will be released and thrown into the Hell. (The subject matter of this narrative has been reported in Sahih Muslim, also from Sayyidna Anas (رض) - al-Qurtubi)

(آیت) وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا ساری مخلوقات میں سب سے زیادہ جھگڑالو انسان واقع ہوا ہے اس کی شہادت میں ایک حدیث حضرت انس سے منقول ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز ایک شخص کفار میں سے پیش کیا جائے گا اس سے سوال ہوگا کہ ہم نے جو رسول بھیجا تھا ان کے متعلق تمہارا کیا عمل رہا ؟ وہ کہے گا کہ اے میرے پروردگار میں تو آپ پر بھی ایمان لایا آپ کے رسول پر بھی اور عمل میں ان کی اطاعت کی اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ یہ تیرا اعمال نامہ سامنے رکھا ہے اس میں تو کچھ بھی نہیں یہ شخص کہے گا کہ میں تو اس اعمال نامہ کو نہیں مانتا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ یہ ہمارے فرشتے تو تمہاری نگرانی کرتے تھے وہ تیرے خلاف گواہی دیتے ہیں یہ کہے گا کہ میں ان کی شہادت کو بھی نہیں مانتا اور نہ ان کو پہچانتا ہوں نہ میں نے ان کو اپنے عمل کے وقت دیکھا ہے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو یہ لوح محفوظ سامنے ہے اس میں بھی تیرا حال لکھا ہے وہ کہے گا کہ میرے پروردگار آپ نے مجھے ظلم سے پناہ دی ہے یا نہیں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے بیشک ظلم سے تو ہماری پناہ میں ہے تو اب وہ کہے گا کہ میرے پروردگار میں ایسی غیبی شہادتوں کو کیسے مانوں جو میری دیکھی بھالی نہیں میں ایسی شہادت کو مان سکتا ہوں جو میرے نفس کی طرف سے ہو اس وقت اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے ہاتھ پاؤں اس کے کفر و شرک پر گواہی دیں گے اس کے بعد اس کو آزاد کردیا جائے گا اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا (اس روایت کا مضمون صحیح مسلم میں حضرت انس سے منقول ہے قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ صَرَّفْــنَا فِيْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ۝ ٠ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا۝ ٥٤ قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ جدل الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] ( ج د ل ) الجدال ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٤) اور ہم نے مکہ والوں کے لیے اس قرآن کریم میں وعدے وعید کے عمدہ مضامین طرح طرح سے بیان کیے ہیں تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کرکے ایمان لائیں اور ابی بن خلف بھی باطل پر جھگڑے میں سب سے بڑھ کر ہے یا یہ آدمی جھگڑنے میں سب سے بڑھ کر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (وَلَقَدْ صَرَّفْــنَا فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ للنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ ) الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ یہ آیت سورة بنی اسرائیل میں بھی (آیت ٨٩) موجود ہے۔ (وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا) سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ٨٩ کے پہلے حصے کے الفاظ جوں کے توں وہی ہیں جو اس آیت کے پہلے حصے کے ہیں صرف لفظوں کی ترتیب میں معمولی سا فرق ہے۔ البتہ دونوں آیات کے آخری حصوں کے الفاظ مختلف ہیں۔ سورة بنی اسرائیل کی مذکورہ آیت کا آخری حصہ یوں ہے : (فَاَبآی اَکْثَرُ النَّاس الاَّ کُفُوْرًا) ” مگر اکثر لوگ کفران نعمت پر ہی اڑے رہتے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٤:۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے باغ والے شخص کی مثال بیان فرمائی جو خدا کو بھول کر اپنے مال متاع پر مغرور ہوگیا تھا آخر ایک دم میں اس کا باغ جل گیا پھر دنیا کی زیست کی مثال بیان فرمائی کہ جس طرح پیڑوں کا حال ہے کہ زمین میں بیج پڑتا ہے اور اس میں قدرت الٰہی کے طرح طرح کے تصرفات ہو کر وہ پھوٹتا ہے اور پورا ہوجاتا ہے اور روز بروز پودے کو شادابی ہوتی جاتی ہے لیکن اس شادابی کو ہمیشگی نہیں کھیتی کا پیڑ ہے تو تھوڑے دنوں میں وہ کھیتی پک کر کٹ جاتی ہے اور باغ کا پیڑ ہے تو آخر وہ بھی ایک دن سوکھ کر لکڑی ہوجاتا ہے جلنے کے کام میں مکانات بنانے کے کام میں تخت چوکی بنانے کے کام میں اور لکڑی کی چیزوں کے کام میں ہر روز جو لکڑیاں صرف ہوتی ہیں ایک دن یہ سب شاداب پودے تھے ہرے پیڑ تھے آدمی کی پیدائش کا اور زیست کا بھی یہ حال ہے ایک دن ماں کے پیٹ میں نطفہ کا بیج پڑتا ہے قدرت الٰہی کے اس میں طرح طرح کے تصرفات ہو کر پھر بچہ پیدا ہوتا ہے اور پیٹر کے پودا کی طرح دن بدن وہ بچہ بڑھتا جاتا ہے پھر کھیتی کے پیڑ کی طرح کوئی بچہ تھوڑے دنوں میں مر کر نیست ونابود ہوجاتا ہے کوئی باغ کے پیڑ کی طرح کچھ دنوں رہتا ہے پھر فرمایا کہ اس تھوڑے دنوں کی زیست میں جس کسی نے کچھ نیک کام کرلیے تو اچھا ہے نہیں تو سوکھی لکڑی کی طرح ایک دن دوزخ کی آگ ہے اور وہ ہے پھر شیطان کا حال فرمایا کہ وہ تو نافرمانی کر کے مردود بن چکا ہے جو اس کا کہنا مانے گا وہ اسی جیسا ہوجائے گا یہ سب مثالیں فرما کر اس آیت میں فرمایا کہ ہم تو طرح طرح کی مثالیں دے کر انسان کو سمجھا چکے مگر انسان اپنے جھگڑالو پن سے باز نہیں آتا کبھی اللہ کے کلام کو پچھلے لوگوں کی کہانیاں بتلاتا ہے کبھی اللہ کے رسول کو جادوگر کہتا ہے ایسی باتوں سے ہر شخص اپنے حق میں کانٹے بوتا ہے آخر کو خراب ہوگا پچھلی امتوں کی طرح کوئی عذاب آن کر سب ہلاک ہوجاویں گے اور آخرت کا مواخذہ جدا باقی رہے گا پھر آگے فرمایا کہ ہم رسولوں کو نجات کی خوشخبری اور عذاب کا ڈر سنانے کو زمین پر بھیجتے ہیں اگر لوگ وہ ڈر کی باتیں سن کر نہ ڈرے اور کافروں نے اپنے کفر سے اور گناہگاروں نے اپنے گناہوں سے توبہ نہ کی اور نافرمانی کی حد کو پہنچ کر کوئی عذاب اللہ کا آگیا تو پھر پچھتانے سے کچھ نہ ہوگا حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اپنا کلام پاک نازل فرما کر اسی کلام پاک کے ذریعہ سے اور اپنے رسولوں کے دل میں الہام ڈال کر رسول کی حدیث کے ذریعہ سے جو سمجھانے تک اثر پیدا ہوا ہے اس اثر کی ایک نشانی اللہ کے پیغمبر نے بتلائی ہے آدمی کو چاہیے کہ اس نشانی کے پتے سے اپنے دل کا حال کبھی کبھی ٹٹولا کرے وہ نشانی یہ ہے کہ معتبر سند سے صحیح ابن حبان اور مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت ابی امامہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ حضرت آدمی اپنے آپ کو کب خیال کرے کہ میں ایماندار ہوں آپ نے فرمایا کہ جب نیک کام کرنے سے تیرے دل میں ایک طرح کو خوشی اور بدکام کرنے سے ایک طرح کی ندامت پیدا ہو تو جان لیجیو کہ تیرے دل میں ایمان کا اثر ہے اور اس نشانی کے قریب وہ نشانی ہے جو صحیح میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت سے آئی ہے ١ ؎۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص میں نور ایمانی ہوتا ہے اس سے اگر کوئی گناہ ہوجائے تو وہ اپنے آپ کو ایک گر پڑنے والے پہاڑ کے نیچے کھڑا ہوا سمجھتا ہے اور ہر وقت ڈرتا رہتا ہے کہ خدا جانے کس وقت یہ پہاڑ میرے اوپر ٹوٹ پڑے اور جو شخص گناہوں کی بالکل خو پکڑ لیتا ہے اس کو گناہ کرنا ایسا ہے جس طرح ناک پر ایک مکھی بیٹھ گئی۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ١٦ کتاب الایمان۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 جیسا کہ اس سورة میں چند مثالوں کا تذکرہ گزر چکا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٨) اسرارومعارف لوگوں کو اللہ جل جلالہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرکے اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالنا چاہئے مگر ان کا حال تو ایسا ہے گویا جب اللہ نے احسان فرما کر اپنے رسولوں کے ذریعے سے ہدایت پہنچا دی تو یہ بجائے اللہ سے بخشش مانگنے کے جس کا طریقہ ایمان لانا تھا الٹا پہلی تباہ ہونے والی قوموں جیسے عذاب کا انتظار کر رہے ہیں یا یہ چاہتے ہیں کہ اللہ جل جلالہ کا عذاب انہیں سیدھے سامنے آلے ، جبکہ انبیاء کو ثبوت نبوت کے لیے معجزات اور لوگوں کی ہدایت کیلئے واضح قوانین عطا ہوتے ہیں تو یہ لوگ ناحق جھگڑا کھڑا کرنے کے لیے باتیں بناتے ہیں کہ شاید اس طرح حق کو ٹال سکیں گے اور جواب نہ پا کر مذاق اڑاتے ہیں ، دلائل کا جواب تو ہے نہیں نہ دے سکتے ہیں تو ٹھٹھہ کرتے ہیں ۔ مگر یاد رکھو جو بھی ایسا کرتا ہے وہ بڑا ظلم کرتا ہے کہ اسے اللہ جل جلالہ کے احکام پہنچائے جائیں مگر وہ ان سے منہ پھیرلے آخر یہ کس بات پہ اکڑتے ہیں کیا یہ اپنا کردار بھی فراموش کر بیٹھے اور انہیں یہ بھی یاد نہیں کہ کل ان کے اپنے اعمال بد ہی تو ان کے سامنے ہوں گے ۔ (گناہ اور کفر سے دل پہ پردہ پڑجاتا ہے اور نیکی کی عظمت واہمیت نگاہ سے مٹ جاتی ہے) مگر یہ کیا دیکھ سکیں گے کہ ان کے کفر اور گناہوں کے باعث ہم نے ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیا ہے ، لہذا بھلائی کو یہ سمجھ ہی نہیں سکتے اور ان کی سماعت کو حق سننے کی استعداد سے محروم کردیا گیا ہے اگر تو انہیں ہدایت کی طرف بلاتا بھی رہے تو اب کبھی ہدایت نہ پا سکیں گے کہ نہ تو دعوت سن سکتے ہیں اور نہ راہ ہدایت کی خوبی دیکھ سکتے ہیں ۔ اس سب کے باوجود بھی تیرا پروردگار بہت بخشش اور بڑی رحمت والا ہے ورنہ ان کا کردار تو ایسا ظالمانہ تھا کہ انہیں فورا پکڑا جاتا اور ان پر عذاب نازل کردیا جاتا کہ اللہ کو چھوڑ کر ابلیس کو دوست بنا کر اس کی اطاعت کرتے ہیں مگر انہیں پھر مہلت دے دی اور ان سب کے لیے بھی موت کا بھی اور حساب کا بھی ایک وقت مقرر کردیا مگر اس وعدے سے ہرگز نہ بھاگ سکیں گے اور نہ سرک جانے کا کوئی راستہ پائیں گے پہلے ایسی بستیاں اور ان کے نشان عبرت کے لیے ابھی موجود ہیں جن کے رہنے والوں نے ظلم کئے گمراہی اختیار کی تو اللہ جل جلالہ نے انہیں تباہ وبرباد کردیا اور ان کو بھی مہلت دی گئی مگر جب مقررہ وقت آیا تو تباہ ہوگئے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 54 تا 56 صرفنا ہم نے طرح طرح سے بیان کیا۔ جدل خوامخواہ کا جھگڑا۔ منع روکا۔ یستغفروا وہ معافی چاہتے ہیں۔ سنۃ طریقفہ، رسم۔ قبلاً سامنے۔ نرسل ہم بھیجتے ہیں۔ یدحضوا وہ ٹالتے ہیں۔ ھزوا مذاق۔ تشریح :- آیت نمبر 54 تا 56 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حق و صداقت، نیکی اور سچائی کی مثالوں کو بار بار بیان کیا ہے تاکہ ہر شخص سچائی کے راستے سے پوری طرح واقف ہو سکے۔ اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنے حسن عمل اور طرز زندگی یعنی سنت کے ذریعہ ہر اس بات کی پوری طرح وضاحت فرما دی ہے جس سے ایک انسان کو صراط مستقیم پر چلنا آسان ہوجاتا ہے۔ جن لوگوں کو اللہ نے ایمان اور عمل صالح کی توفیق اور سعادت عطا فرمائی ہے انہوں نے نہ صرف اس پر ایمان لا کر بہترین عمل کیا بلکہ اس سچائی کو ساری دنیا تک پہنچانے میں اپنا سب کچھ قربان کر کے ایک ایسا انقلاب برپا کردیا جس سے ساری انسانیت کے اندھیرے دور ہوگئے۔ انہیں کفر و شرک اور نا فرمانیوں سے نجات مل گئی اور نور ہدایت کی روشنی میں انہوں نے دنیا اور آخرت کی تمام ابدی کامیابیاں حاصل کرلیں۔ اس کے برخلاف جن لوگوں نے ضد اور ہٹ دھرمی کا طرز عمل اختیار کیا اور اپنے کفر و شرک پر جمے رہے وہ زندگی کے اندھیروں میں گم ہو کر رہ گئے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو بتایا ہے۔ ارشاد ہے کہ ہم نے اکثر مثالوں کو بار بار اس لئے بیان کیا ہے تاکہ ہر شخص ان کو اچھی طرح سمجھ کر ان پر عمل کرسکے اور اپنی نجات کا سامان کرسکے۔ لیکن اکثر لوگ وہ ہیں جو پیغام ہدایت آنے کے باوجود اپنی ضد، ہٹ دھرمی، کج بحثی اور گناہوں کی زندگی پر اڑے ہوئے ہیں اور دنیا و آخرت کی بھلائیوں سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ حالانکہ اس پیغام حق اور ہدایت آجانے کے باوجود لوگوں محض ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے نافرمانیوں سے توبہ نہیں کرتے تو پھر ان لوگوں پر اللہ کا عذاب آ کر رہتا ہے جس سے بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ گھروں اور شہروں کی بربادی ، تہذیب و تمدن کی تباہی، زلزلے ، طوفان، وبائیں، ہوا کے سخت جھکڑ، باہمی اختلافات اور جھگڑے، طرح طرح کی تباہ کن مصیبتیں یہ سب اللہ کے عذاب کی مختلف شکلیں ہیں جو گزشتہ قوموں پر اتٓی رہی ہیں۔ فرمایا کہ ہم اپنے پیغمبروں کو بھیجتے ہیں تاکہ وہ اللہ کے کلام کے ذریعہ اور اپنے طرز عمل سے اس بات کی وضاحت کردیں کہ اگر انہوں نے ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کیا تو ان کے لئے دنیا اور آخرت کی ابدی راحتیں ہیں لیکن اگر انہوں نے کفر و شرک اور اللہ کی نافرمانی کا طریقہ اختیار کیا تو ان کا انجام گزشتہ قوموں سے مختلف نہ ہوگا ۔ کفار مکہ کو خاص طور پر اور قیامت تک آنے والے ہر شخص سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اللہ نے اپنے نبی اور رسول بھیجے لیکن اب اللہ نے اپنے اس آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیج دیا ہے جن کے دامن محبت میں سب کچھ ہے۔ اگر ان کی اطاعت و فرماں برداری کی گئی تو ان کو دنیا و آخرت کی ہر کامیابی نصیب ہوگی۔ لیکن اگر ان کو اور اللہ کی آیات کو مذاق میں اڑانے کی کوشش کی گئی تو پھر ان کی زندگیاں خود ایک مذاق بن کر رہ جائیں گی اور اپنے برے انجام سے نہ بچ سکیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کو شرک سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ مختلف انداز سے سمجھاتا ہے۔ لیکن اس کے باجود مشرک لوگ سمجھنے کے لیے تیار نہیں بلکہ جھگڑا کرتے ہیں۔ عقیدہ توحید سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کئی قسم کی مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ تاکہ لوگ شرک کی سنگینی کو سمجھ کر اس سے تائب ہوجائیں لیکن شرک ایسا گناہ ہے۔ جس سے مشرک ناصرف بازآنے کے لیے تیار نہیں ہوتا بلکہ اپنا با طل عقیدہ ثابت کرنے کے لیے جھگڑا کرنے پر اتر آتا ہے حا لان کہ اللہ تعالیٰ انہیں بار با رسمجھاتا ہے کہ ہدایت قبول کرو اور سابقہ گناہوں کی معافی مانگو تمہارا رب معاف کرنے والا ہے۔ لیکن مشرک شرک سے باز آنے کی بجائے بحث و تکرار میں آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے تاآنکہ پہلے لوگوں کی طرح اسے عذاب آلیتا ہے۔ جس طرح قوم نوح اور دوسری اقوام تباہی کے گھاٹ اترگئیں شرک کی عام طور پر بنیاد کسی زندہ یا فوت شدہ بزرگ کی عقیدت پر ہوتی ہے عقیدت شریعت کی حدود سے تجاوز کر جائے تو انسان حقائق کے بارے میں اندھا ہوجاتا ہے۔ ایسے شخص کو سمجھایا جائے تو حقیقت جاننا تو درکناروہ اس بات کو توجہ سے سننا بھی بزرگوں کی توہین سمجھتا ہے جس بناء پر وہ ناصرف بحث و تکرار کرتا ہے بلکہ جھگڑا کرنے پر اتر آتا ہے۔ جس کے لیے فرمایا گیا ہے کہ انسان بڑا جھگڑالو ہے یہ روش اسے شرک و بدعت سے تائب نہیں ہونے دیتی۔ یہی وطیرہ ہر دور کے مشرک کا ہوا کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ پہلے لوگوں کے طریقہ کو اپنائے ہوئے ہیں۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ یہ لوگ اپنے پہلے لوگوں کا انجام دیکھنا چاہتے ہیں جو بالآخر دیکھ لیں گے۔ حالانکہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کھول کھول کر مثالیں بیان کرتا ہے یہاں دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ (یَا أَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہُ إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَخْلُقُوْا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہُ وَإِنْ یَسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیْءًا لَا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ )[ الحج : ٧٣] ” اے لوگو ! مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو وہ لوگ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ سب کے سب جمع ہو کر ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اور اگر مکھی ان کے کھانے میں سے کوئی چیز لے جائے تو وہ واپس نہیں لے سکتے مانگنے والا بھی کمزور اور جس سے مانگا جارہا ہے وہ بھی کمزور۔ “ (وَلَوْ شِءْنَا لَرَفَعْنَاہُ بِہَا وَلَکِنَّہُ أَخْلَدَ إِلَی الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْہَثْ أَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَثْ ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِآَیَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ )[ الاعراف : ١٧٦] ” اور اگر ہم چاہتے تو اسے ان کے ذریعے بلند کردیتے مگر وہ زمین کی طرف چمٹ گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا۔ اس کی مثال کتے کی طرح ہے کہ اگر آپ اس پر حملہ کریں تو زبان نکالے ہانپتا ہے۔ اسے چھوڑ دیں تو بھی زبان نکالے ہانپتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا آپ ان کو آیات سنائیں تاکہ وہ غوروفکر کریں۔ “ مسائل ١۔ قرآن مجید میں ہدایت کے متعلق ہر قسم کے مضامین اور امثال بیان کی گئی ہیں۔ ٢۔ اپنے رب کے بارے میں انسان بڑا جھگڑ الو ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کا مختلف انداز اور الفاظ میں سمجھانے کا طریقہ : ١۔ ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے طرح طرح کی مثالیں بیان کی ہیں۔ (الکھف : ٥٤) ٢۔ ہم نے اس قرآن میں ہدایت کے متعلقہ تمام باتیں بیان کردیں ہیں۔ (بنی اسرائیل : ٤١) ٣۔ دیکھیں ہم کس طرح آیات بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ سمجھیں۔ (الانعام : ٦٥) ٤۔ یقیناً ہم نے قرآن میں تمام باتیں بیان کردیں تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرائیل : ٨٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قرآن مجید نے یہاں انسان کو ایک چیز کہا ہے اور یہ کہ وہ بڑی جھگڑا لو چیز ہے۔ چیز سے تعبیر اس لئے کیا گیا تاکہ انسان اپنے کبر و غرور سے ذرا نیچے اترے اور یہ سمجھے کہ وہ بھی اللہ کی بیشمار مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے اور انسان تمام مخلوقات سے زیادہ جھگڑالو ہے۔ اس کے باوجود کہ اللہ نے اس قرآن میں انسان کو مختلف طریقوں سے سمجھانے کی سعی کی اور مثالوں سے اسے سمجھایا۔ اب یہ بتایا جاتا ہے کہ اکثر لوگ کیوں ایمان نہ لائے ؟ وہ کیا شبہ تھا جو رکاوٹ بنا ؟ مختلف رسولوں کے زمانے میں اکث لوگ ایمان سے محروم رہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

انسان بڑا جھگڑالو ہے، باطل کو لے کر حجت بازی کرتا ہے اللہ کی آیات سے اعراض کرنے والے بڑے ظالم ہیں ان آیات میں تو انسان کے ایک خاص مزاج کا تذکرہ فرمایا یعنی انسان کا جھگڑالو ہونا بتایا، پھر اس جھگڑے کی کچھ تفصیل بتائی ارشاد فرمایا کہ ہم نے انسانوں کے لیے اس قرآن میں ہر طرح کے مضامین بیان فرما دئیے اور طرح طرح سے بیان کردئیے اب انسان انہیں قبول نہیں کرتا اور جھگڑے بازی سے کام لیتا ہے اور جھگڑنے میں سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر ہے۔ سورة یٰسین میں انسان کے اسی جھگڑنے والے مزاج کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (اَوَلَمْ یَرَ الْاِِنسَانُ اَنَّا خَلَقْنَاہُ مِنْ نُّطْفَۃٍ فَاِِذَا ھُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ) اور سورة زخرف میں فرمایا (مَا ضَرَبُوْہُ لَکَ اِِلَّا جَدَلًا بَلْ ھُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ ) انسان کا یہ مزاج کام کرتا رہتا ہے اور موقع بےموقع جھگڑتا رہتا ہے۔ حضرت علی (رض) نے بیان فرمایا کہ ایک رات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے اور اپنی بیٹی فاطمہ (رض) کے پاس تشریف لائے اور آپ نے فرمایا کہ کیا تم نماز نہیں پڑھتے۔ (تہجد کے لیے جگانا مقصود تھا) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری جانیں اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں وہ جب چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے یہ سن کر آپ نے کوئی جواب نہیں دیا اور واپس ہوتے ہوئے اپنی ران پر ہاتھ مار کر یہ آیت پڑھی (وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا) (اور انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے) انسان کی جھگڑے بازی کی باتیں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے پاس ہدایت آچکی ہے پھر بھی ایمان نہیں لاتے اور اپنے رب سے معافی نہیں مانگتے (یعنی کفر سے توبہ نہیں کرتے) اپنی گمراہی پر جمے ہوئے ہیں، اب تو انہیں یہی انتظار ہے کہ جیسے پہلے لوگوں یعنی گزشتہ امتوں کے ساتھ معاملہ ہوا (یعنی عذاب نے ان کو آکر دبا لیا) اسی طرح ان کے ساتھ معاملہ کردیا جائے اور یا یہ انتظار ہے کہ ان کے آمنے سامنے عذاب آکھڑا ہو۔ حق واضح ہوجانے کے بعد قبول نہ کرنا اور حالاً یا مقالاً عذاب کے آنے کا انتظار کرنا یہ بھی جھگڑا کرنے کی ایک صورت ہے۔ مزید فرمایا کہ ہم پیغمبروں کو صرف ڈرانے والا اور بشارت دینے والا بنا کر بھیجتے رہے ہیں ان کے معجزات اور دلائل دیکھ کر ایمان قبول کرنا لازم ہے لیکن مخاطبین ایمان قبول نہیں کرتے اور طرح طرح کے فرمائشی معجزے طلب کرتے ہیں طرح طرح سے ناحق باتیں نکال کر جھگڑ رہے ہیں تاکہ باطل کے ذریعہ حق کو ہٹا دیں اور محض جھگڑنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اللہ کی آیات کو اور جن چیزوں سے ڈرایا گیا (یعنی عذاب کو اور یوم آخرت کو) انہوں نے دل لگی، مذاق اور تمسخر بنا رکھا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

58:۔ یہ زجر ہے، ہم تو تمام انسانوں کی مصلحت اور ان کے فائدے کے لیے واضح اور کھلی مثالیں بار بار بیان کرتے ہیں مگر انسان ان سے فائدہ اٹھانے کے بجائے کج بحثی اور جدال سے کام لے کر ہدایت سے اور دور ہوجاتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

54 اور بلاشبہ ہم نے اس قرآن کریم میں لوگوں کے لئے ہر قسم کے عمدہ مضامین نئے نئے پیرایہ سے بیان کئے ہیں اور انسان سب جھگڑنے والوں سے زیادہ جھگڑنے والا واقع ہوا ہے۔ یعنی اور مخلوق بھی جھگڑا کرتی ہے لیکن منکر انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔