Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 58

سورة الكهف

وَ رَبُّکَ الۡغَفُوۡرُ ذُو الرَّحۡمَۃِ ؕ لَوۡ یُؤَاخِذُہُمۡ بِمَا کَسَبُوۡا لَعَجَّلَ لَہُمُ الۡعَذَابَ ؕ بَلۡ لَّہُمۡ مَّوۡعِدٌ لَّنۡ یَّجِدُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖ مَوۡئِلًا ﴿۵۸﴾

And your Lord is the Forgiving, full of mercy. If He were to impose blame upon them for what they earned, He would have hastened for them the punishment. Rather, for them is an appointment from which they will never find an escape.

تیرا پروردگار بہت ہی بخشش والا اور مہربانی والا ہے وہ اگر ان کے اعمال کی سزا میں پکڑے تو بیشک انہیں جلدی عذاب کردے ، بلکہ ان کے لئے ایک وعدہ کی گھڑی مقرر ہے جس سے وہ سرکنے کی ہرگز جگہ نہیں پائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ ... And your Lord is Most Forgiving, Owner of mercy. means, `your Lord, O Muhammad, is forgiving and has great mercy.' ... لَوْ يُوَاخِذُهُم بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ ... Were He to call them to account for what they have earned, then surely, He would have hastened their punishment. This is like the Ayah: وَلَوْ يُوَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُواْ مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِن دَابَّةٍ And if Allah were to punish men for that which they earned, He would not leave a moving creature on the surface of the earth. (35:45) وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ But verily, your Lord is full of forgiveness for mankind in spite of their wrongdoing. And verily, your Lord is (also) severe in punishment. (13:6) And there are many Ayat which say the same thing. Then Allah tells us that He is patient, He conceals faults and forgives sins. He may guide some of them from wrongdoing to true guidance, and whoever continues in his evil ways, then there will come to him a Day when infants will turn grey and every pregnant female will shed her load. He says: ... بَل لَّهُم مَّوْعِدٌ لَّن يَجِدُوا مِن دُونِهِ مَوْيِلً But they have their appointed time, beyond which they will find no escape. meaning, they will find no way out.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

58۔ 1 یعنی یہ تو رب غفور کی رحمت ہے کہ وہ گناہ پر فوراً گرفت نہیں فرماتا، بلکہ مہلت دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پاداش عمل میں ہر شخص ہی عذاب الٰہی کے شکنجے میں کسا ہوتا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جب مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے اور ہلاکت کا وقت آجاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ مقرر کئے ہوتا ہے تو پھر فرار کا کوئی راستہ اور بچاؤ کی کوئی سبیل ان کے لئے نہیں رہتی۔ مو‏‏ئل۔ کے معنی ہیں جائے پناہ راہ فرار۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٦] اللہ کا قانون امھال و تدریج ہر بات میں حتی کہ عذاب میں بھی جاری وساری ہے :۔ جس طرح اللہ کا قانون امہال و تدریج ہر کام میں جاری وساری ہے۔ رات آتی ہے تو یکدم مکمل تاریکی نہیں چھا جاتی۔ دن آتا ہے تو یکدم تیز دھوپ اور روشنی نہیں ہوتی۔ اسی طرح اس کے عذاب کا قانون ایسا نہیں کہ ادھر کسی نے کوئی جرم کیا تو ادھر فوراً اسے سزا دے دی جائے بلکہ اس معاملہ میں اللہ کا وہی قانون امہال و تدریج کام کرتا ہے اگر اس دوران بھی مجرم اپنے جرم سے باز آجائے تو پھر سزا ٹل جاتی ہے کیونکہ اللہ بخشنے والا بھی ہے اور مہربان بھی اور اگر باز نہ آئے تو عذاب اللہ کے مقرر کردہ قانون کے مطابق اپنے مقررہ وقت پر آئے گا خواہ لوگ اس کے لیے جلدی مچائیں یا نہ مچائیں اور جب وہ وقت آجائے گا تو پھر نہ وہ مؤخر ہوگا اور نہ ہی مجرم اس سے کہیں بچ کے جاسکیں گے۔ علاوہ ازیں سب مجرموں پر عذاب نہیں آیا کرتا۔ صرف ان پر آتا ہے جو حد سے بڑھ جاتے ہیں سب پر اس لیے نہیں آتا کہ یہ دنیا دارالجزاء نہیں ہے بلکہ دارالعمل ہے نیز اگر سب پر آتا تو دنیا کبھی آباد ہی نہ رہ سکتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَرَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذو الرَّحْمَةِ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٥٦) ، سورة نجم (٣٢) اور زمر (٥٣) ۔ لَوْ يُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة نحل (٦١) اور فاطر (٤٥) ۔ بَلْ لَّهُمْ مَّوْعِدٌ لَّنْ يَّجِدُوْا ۔۔ : ” مَوْىِٕلًا “ ” وَأَلَ یَءِلُ اِلٰی مَکَانٍ “ کسی جگہ کی طرف پناہ لینا۔ ” مَوْىِٕلًا “ پناہ کی جگہ، یعنی ان کے عذاب کے وعدے کا ایک وقت ہے، دنیا میں ہو یا آخرت میں۔ جب ان کی گرفت ہوگی تو اس سے بچنے کے لیے وہ کوئی پناہ کی جگہ نہیں پائیں گے۔ تو اے کفار قریش ! تمہیں بھی ڈرتے رہنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ آخر کار تمہارا بھی وہی حشر ہو جو ان بستیوں کا ہوا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَرَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَۃِ۝ ٠ۭ لَوْ يُؤَاخِذُہُمْ بِمَا كَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَہُمُ الْعَذَابَ۝ ٠ۭ بَلْ لَّہُمْ مَّوْعِدٌ لَّنْ يَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِہٖ مَوْىِٕلًا۝ ٥٨ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ موئلا۔ اسم ظرف مکان۔ وأل مادہ۔ لوٹنے کی جگہ۔ جائے پناہ۔ وأل یئل ( ضرب) وأل وء ول مصدر وأل فلانا کسی سے پناہ لینا۔ وأل الی اللہ اللہ کی طرف رجوع کرنا۔ الوال الموئل پناہ کی جگہ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٨) اور آپ کا پروردگار بڑا مغفرت کرنے والا اور بڑی رحمت والا ہے کہ ان سے عذاب کو ٹال رکھا ہے، اگر ان سے ان کے شرک پر پکڑ کرنے لگتا تو ان ہی دنیا میں فوری عذاب نازل کردیتا بلکہ ان کی ہلاکت کے لیے ایک مقرر وقت ہے کہ اس عذاب الہی سے یہ کوئی پناہ کی جگہ نہیں پاسکتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ (وَرَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذو الرَّحْمَةِ ۭ لَوْ يُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ ) یہ مضمون سورة النحل آیت ٦١ اور سورة فاطر آیت ٤٥ میں بھی بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے ظلم اور برے اعمال کے سبب ان کا مؤاخذہ کرتا تو روئے زمین پر کوئی متنفس زندہ نہ بچتا۔ (بَلْ لَّهُمْ مَّوْعِدٌ لَّنْ يَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِهٖ مَوْىِٕلًا) جب کسی کے وعدے کی مقررہ گھڑی (اجل) آپہنچے گی تو اسے کوئی جائے پناہ نہیں ملے گی اور اس کے لیے اس سے سرک کر ادھر ادھر ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی : (فَاِذَاجَآءَ اَجَلُہُمْ لاَ یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلاَ یَسْتَقْدِمُوْنَ ) (النحل) ” پھر جب آجاتا ہے ان کا وقت معین تو نہ وہ پیچھے رہ سکتے ہیں ایک لمحہ اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

55. This is to warn the foolish people that they should not be deluded by the respite that is given to them and presume that they will never be taken to task whatever they may go on doing. They forget that Allah gives them respite because He is Forgiving and Forbearing and does not punish the evil doers on the spot, for His Mercy demands that the evil doers should be given respite so that they may mend their ways.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :55 یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جس وقت کسی سے قصور سرزد ہو اسی وقت پکڑ کر اسے سزا دے ڈالے ۔ یہ اس کی شان رحیمی کا تقاضا ہے کہ مجرموں کے پکڑنے میں وہ جلد بازی سے کام نہیں لیتا اور مدتوں ان کو سنبھلنے کا موقع دیتا رہتا ہے ۔ مگر سخت نادان ہیں وہ لوگ جو اس ڈھیل کو غلط معنی میں لیتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ خواہ کچھ ہی کرتے رہیں ، ان سے کبھی باز پرس ہوگی ہی نہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:58) موعد۔ اسم ظرف زمان۔ وعدہ کا وقت۔ موئلا۔ اسم ظرف مکان۔ وأل مادہ۔ لوٹنے کی جگہ۔ جائے پناہ۔ وأل یئل (ضرب) وأل وء ول مصدر وأل فلانا کسی سے پناہ لینا۔ وأل الی اللہ اللہ کی طرف رجوع کرنا۔ الوال الموئل پناہ کی جگہ۔ (18:59) تلک القری۔ یہ بستیاں۔ مراد ان بستیوں کے باشندگان۔ اشارہ ان سرکش اور نافرمان قوموں کی طرف ہے جن کی ہلاکت کا ذکر قرآن مجید میں بار بار آیا ہے۔ مثلاً قوم عاد۔ قوم ثمود۔ قوم لوط وغیرہ۔ مھلکہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کا ہلاک ہونا۔ مھلک مصدر میمی ہے۔ موعدا۔ وعدہ کا وقت ۔ اسم ظرف زمان۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 چاہے قیامت کے دن اور چاہے اس دنیا میں3 یعنی آخر کار ذلیل و خوار رہوں گے جب ان کی گرفت ہوگی تو اس سے بچنے کے لئے کوئی پناہ گاہ نہیں بنائینگے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ پس مہلت اس لئے دی ہے کہ اگر مسلمان ہوجاویں تو ان کی مغفرت کردوں گا دوسرے خود رحمت بھی مقتضی ہے کہ ایمان نہ لانے پر بھی دنیا میں عذاب شدید سے مہلت دی جاوے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انبیاء سے مذاق کرنے، حقائق سننے اور انہیں تسلیم نہ کرنے کے باوجود لوگوں کو نہیں پکڑتا تو اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت ہی رحیم ہے اس نے مجرموں کی گرفت کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ رب کریم نے اپنے گنہگار بندوں کو نہایت شفقت آمیز الفاظ کے ساتھ تسلی دیتے ہوئے دعوت دی ہے۔ کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے بندوں کو فرمائیں جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیے ہیں کہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سب گناہوں کو معاف کرنے والا، نہایت مہربان اور بخشنے والا ہے۔ (الزمر : ٥٣) اللہ تعالیٰ لوگوں کے گناہوں اور جرائم کی وجہ سے فی الفور گرفت کرے تو کوئی اس کے عذ اب سے نہیں بچ سکتا۔ وہ اپنی رحمت کی وجہ سے گنہگاروں کو بار بار معافی کا موقع اور مہلت دیتا ہے۔ اس نے گنہگاروں کی گرفت کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ مقررہ وقت سے پہلے کسی فرد یا قوم کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا۔ البتہ جب عذاب کا وقت آجاتا ہے۔ تو پھر کسی کو پناہ نہیں ملتی جس کی مثالیں پہلے سے موجود ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو ان کی مقررہ معیاد پر پکڑا تو انہیں اس ہلاکت سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ (وَإِذَا جَاءَ کَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ أَنَّہُ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوءً ا بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ)[ الانعام : ٥٤] ” اور جب وہ لوگ آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو کہیں تم پر سلامتی ہو۔ تمہارے رب نے رحم کرنا اپنے آپ پر لازم کرلیا ہے بلاشبہ تم میں سے جو شخص جہالت سے کوئی برائی کربیٹھے، پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرلے تو یقیناً وہ بےحد بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔ “ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی کَتَبَ کِتَابًا قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ الْخَلْقَ اِنَّ رَحْمَتِیْ سَبَقَتْ غَضَبِیْ فَھُوَ مَکْتُوْبٌ عِنْدَہٗ فَوْقَ الْعَرْشِ ) [ رواہ مسلم : باب فِی سَعَۃِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالَی وَأَنَّہَا سَبَقَتْ غَضَبَہُ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق سے پہلے لوح محفوظ میں تحریر فرمایا کہ ” میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے “ یہ اللہ کے عرش پر تحریر ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بخشنے اور رحمت فرمانے والا ہے۔ ٢۔ اگر اللہ تعالیٰ گناہوں کی وجہ سے جلد مواخذہ کرتا تو لوگ بہت جلد عذاب میں مبتلا ہوجاتے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے عذاب کے لیے ایک وقت معین کر رکھا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہوتا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے بستیوں والوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے ہلاک کیا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے ہر فرد اور قوم کے لیے وقت مقرر کر رکھا ہے : ١۔ ہم نے ان بستیوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے ہلاک کیا اور ہم نے ہر ایک کی ہلاکت کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ (الکھف : ٥٩) ٢۔ ہر امت کا ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ وقت آتا ہے تو اس میں کمی بیشی نہیں کی جاتی۔ (الاعراف : ٣٤) ٣۔ جب اللہ کا مقرر کیا ہواوقت آجاتا ہے۔ اس میں آگا پیچھا نہیں کیا جاتا۔ (یونس : ٤٩) ٤۔ جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آجاتا ہے۔ اسے موخر نہیں کیا جاتا کاش لوگ جان لیں۔ (نوح : ٤) ٥۔ کفار عذاب کی جلدی مچاتے ہیں اگر اللہ کی طرف سے وقت مقرر کیا ہوانہ ہوتاتوان پر عذاب آجاتا۔ (العنکبوت : ٢٩) ٦۔ اگر اللہ لوگوں کی ظلم کی وجہ سے گرفت کرے تو زمین میں کوئی جاندار نہ بچے۔ (النحل : ٦١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لیکن اللہ ان لوگوں کو خالص اپنی رحمت کی وجہ سے مہلت دیتا ہے اور ان پر وہ ہلاکت نہیں لاتا جس کے لئے وہ جلدی کر رہے لیکن اس مہلت کی بھی ایک حد مقرر ہے۔ یعنی دنیا میں بھی ان پر عذاب الٰہی کے نزول کے لئے وقت مقرر ہے اور پھر آخرت میں ان کے لئے ایک وقت مقرر ہے جس میں انہیں سخت سزا دی جائے گی۔ انہوں نے چونکہ ظلم کیا ہے اس لئے یہ لوگ بھی امم سابقہ کی طرح ہلاکت کے مستحق قرار پا چکے ہیں۔ لیکن اللہ نے اپنی حکمت اور تدبیر کے مطابق چونکہ ان کے لئے ایک مہلت مقرر کر رکھی ہے اس لئے اللہ ان کو اس طرح ہلاکت سے دوچار نہیں کر رہا ہے جس طرح اللہ نے ظالم امم سابقہ کو ہلاک کیا۔ ہاں ان کے لئے علیحدہ میعاد مقرر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ رَبُّکَ الْغَفُوْرُ ذو الرَّحَمَۃِ ) (اور آپ کا رب بہت مغفرت کرنے والا اور بہت رحمت والا ہے) وہ ڈھیل دیتا ہے عذاب دینے میں جلدی نہیں فرماتا۔ جب بھی کوئی شخص کفر اور شرک سے توبہ کرے وہ اسے بخش دے گا اور اپنی رحمت کے دامن میں لے لے گا۔ (لَوْ یُؤَاخِذُھُمْ بِمَا کَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَھُمُ الْعَذَابَ ) (اگر اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کی وجہ سے ان کا مواخذہ فرمائے تو ان کے لیے جلدی عذاب بھیج دے۔ ) (بَلْ لَّھُمْ مَّوْعِدٌ لَّنْ یَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِہٖ مَوْءِلًا) (بلکہ ان کے لیے ایک دن مقرر ہے کہ اس سے ورے ہرگز پناہ کی جگہ نہ پائیں گے) یہ لوگ کیسی ہی عذاب کی جلدی کریں اور کیسا ہی عذاب مانگیں اللہ تعالیٰ نے جو وقت مقرر کر رکھا ہے اسی وقت گرفت کی جائے گی اور عذاب میں مبتلا ہوں گے یہ نہیں ہوسکتا کہ اس وقت کے آنے سے پہلے کہیں چلے جائیں اور چھپ جائیں اور عذاب سے بچ جائیں۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ مِنْ دُوْنِہٖ کی ضمیر مَوْعِدَ کی طرف ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس کا مرجع عذاب ہے اور تیسرا قول یہ ہے کہ رب کی طرف راجع ہے لیکن وہ بظاہر خلاف ہے۔ (صفحہ ٣٠٦ ج ١٥)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

62:۔ یہ بھی زجر ہے۔ ” وربک الغفور ذو الرحمۃ الخ “ یعنی اللہ تعالیٰ غفور، اور ذو الرحمۃ بھی ہے، لیکن اگر لوگوں کی بد اعمالیوں پر ان کو پکڑ لے تو اس کے عذاب سے بھی ان کو کوئی نہیں چھڑا سکتا۔ 63:۔ یہ دنیا کا عذاب تو معمولی عذاب ہے آخرت کا عذاب بڑا سخت اور اس سے بچنے کی بھی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ ” موئلا “ جائے پناہ اور جائے فرار، ” و تلک القری الخ “ کا اشارہ محسوس مبصر کی طرف نہیں بلکہ معہود فی الذہن کی طرف ہے اور ” القری “ سے پہلے مضاف مقدر ہے ای اھل القری۔ اور اس سے مراد عاد وثمود اور قوم لوط ہے۔ ان اقوال کی تباہی کی داستانیں عرب میں معروف ومعلوم تھیں اس لیے انہیں بمنزلہ محسوس قرار دے کر ” تلک “ سے ان کی طرف اشارہ فرمایا۔ والاشارۃ لتنزیلھم لعلمھم بہم منزلۃ المحسوس (روح ج 15 ص 306) ۔ اہل بدعت ما تقول فی ھذا الرجل الخ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قبر میں حاضر و ناظر ہونے پر استدلال کرتے ہیں۔ مذکورہ آیت سے ان کا استدلال باطل ہوجاتا ہے کہ کیونکہ مشار الیہ کے لیے محسوس مبصر ہونا ضروری نہیں۔ جس طرح ” تلک القری “ میں تلک سے معہود فی الذہن بستیوں کی طرف اشارہ ہے اسی طرح ھذا الرجل میں بھی معہود فی الذہن کی طرف ہی اشارہ ہے۔ ” موعدا “ یعنی وقت معین، مطلب یہ کہ ان قوموں نے جب ظلم کیا، شرک و کفر اور بد عملی سے باز نہ آئے تو ہم نے ایک معین وقت میں جو ان کی ہلاکت کے لیے مقدر تھا ان کو ہلاک کردیا اور ہمارا عذاب مقررہ وقت سے ایک پل بھی مقدم یا مؤخر نہیں ہوا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

58 اور عذاب میں تاخیر ہونے کی وجہ سے یہ سمجھتے ہوں کہ عذاب آئے گا ہی نہیں تو یہ غلط ہے بلکہ تاخیر کی وجہ یہ ہ کہ اے پیغمبر آپ کا پروردگار بڑا بخشنے والا ہے اور رحمت و مہربانی اس کا شیوہ ہے اگر اللہ تعالیٰ ان کے اعمال پر دارد گیر کرتا اور ان کے کئے پر پکڑتا تو فوراً ہی عذاب بھیج دیتا اور عذاب نازل کرنے میں جلدی اور تعجیل سے کام لیتا مگر ان کے عذاب کے لئے ایکم عین وقت ٹھہرا رکھا ہ اور عذاب کا ایک وقت موعود ہے اس وقت یہ عذاب سے درے اور عذاب سے پہلے کوئی سرک جانے کی جگہ نہ پائیں۔ یعنی تاخیر کی وجہ محض شفقت اور اس کا غفور ہونا ہے اس کا یہ طریقہ نہیں کہ گنہگاروں کی گرفت میں عجلت سے کام لے۔ ہر مجرم کے لئے ایک وقت مقرر ہے اس طرح کفار مکہ کی تعذیب کا ایک وقت موعود ہے اور جب وہ وقت آئے گا تو سوائے اللہ تعالیٰ کے یا سوائے عذاب کے کوئی اور جگہ بچ جانے اور سرک جانے کو نہ پائیں گے۔