Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 71

سورة الكهف

فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِیۡنَۃِ خَرَقَہَا ؕ قَالَ اَخَرَقۡتَہَا لِتُغۡرِقَ اَہۡلَہَا ۚ لَقَدۡ جِئۡتَ شَیۡئًا اِمۡرًا ﴿۷۱﴾

So they set out, until when they had embarked on the ship, al-Khidh r tore it open. [Moses] said, "Have you torn it open to drown its people? You have certainly done a grave thing."

پھروہ دونوں چلے ، یہاں تک کہ ایک کشتی میں سوار ہوئے تو اس نے اس کے تختے توڑ دیئے ، موسیٰ نے کہا کیا آپ اسے توڑ رہے ہیں تا کہ کشتی والوں کو ڈبو دیں ، یہ تو آپ نے بڑی ( خطرناک ) بات کر دی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Damaging the Boat Allah tells: فَانطَلَقَا حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا ... So they both proceeded, till, when they boarded the boat, he (Khidr) damaged it. Musa said: "Have you damaged it wherein its people will drown! Allah tells us that Musa and his companion Al-Khidr set out having come to an agreement and reached an understanding. Al-Khidr had made the condition that Musa should not ask him about anything he found distasteful until he himself initiated the discussion and offered an explanation. So they went on board the ship, as described in the Hadith quoted above -- the crew recognized Al-Khidr and let them ride on board free of charge, as an honor to Al-Khidr. When the boat took them out to sea and they were far from the shore, Al-Khidr got up and damaged the boat, pulling out one of its planks and then patching it up again. Musa, peace be upon him, could not restrain himself from denouncing him, so he said: أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا (Have you damaged it wherein its people will drown). The grammatical structure of the sentence in Arabic implies that this was the consequence, not the purpose, of his action. ... لَقَدْ جِيْتَ شَيْيًا إِمْرًا Verily, you have committed a thing Imr. About `Imr', Mujahid said: "An evil thing." Qatadah said, "An astounding thing." At this point, reminding him of the previously agreed condition, قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا

شرائط طے ہو گئیں دونوں میں جب شرط طے ہو گئی کہ تو سوال نہ کرنا جب تک میں خود ہی اس کی حکمت تجھ پر ظاہر نہ کروں تو دونوں ایک ساتھ چلے پہلے مفصل روایتیں گزر چکی ہیں کہ کشتی والوں نے انہیں پہچان کر بغیر کرایہ لئے سوار کر لیا تھا جب کشتی چلی اور بیچ سمندر میں پہنچی تو حضرت خضر نے ایک تختہ اکھیڑ ڈالا پھر اسے اوپر سے ہی جوڑ دیا یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ سے صبر نہ ہو سکا شرط کو بھول گئے اور جھٹ سے کہنے لگے کہ یہ کیا واہیات ہے ؟ لتغرق کا لام لام عاقبت ہے لام تعلیل نہیں ہے جیسے شاعر کے اس قول میں لدوا للموت وبنوا للحزاب یعنی ہر پیدا شدہ جان دار کا انجام موت ہے اور ہر بنائی ہوئی عمارت کا انجام اجڑنا ہے ۔ امرا کے معنی منکر اور عجیب کے ہیں ۔ یہ سن کر حضرت خضر نے انہیں ان کا وعدہ یاد لایا کہ تم نے اپنی شرط کا خلاف کیا میں تو تم سے پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ تمہیں ان باتوں کا علم نہیں تم خاموش رہنا مجھ سے نہ کہنا نہ سوال کرنا ۔ ان کاموں کی مصلحت و حکمت الہٰی مجھے معلوم کراتا ہے اور تم سے یہ چیزیں مخفی ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے معذرت کی کہ اس بھول کو معاف کرو اور مجھ پر سختی نہ کرو پہلے جو لمبی حدیث مفصل واقعہ کی بیان ہوئی ہے اس میں ہے کہ یہ پہلا سوال فی الواقع بھول چوک سے ہی تھا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو چونکہ اس علم خاص کی خبر نہیں تھی جس کی بنا پر خضر نے کشتی کے تختے توڑ دیئے تھے، اس لئے صبر نہ کرسکے اور اپنے علم و فہم کے مطابق اسے نہایت ہولناک کام قرارا دیا۔ امرا کے معنی ہیں الداھیۃ العظیمۃ، بڑا ہیبت ناک کام۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٢] سیدنا خضر سے جب ان دونوں کی ملاقات ہوگئی اور سیدنا موسیٰ اور سیدنا خضر میں ابتدائی مکالمہ ہوا اس کے بعد سیدنا یوشع بن نون کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ اگلا سفر صرف سیدنا موسیٰ اور سیدنا خضر نے کیا تھا۔ شاید سیدنا موسیٰ نے سیدنا یوشع کو واپس بھیج دیا ہو۔ [٦٣] خضر نے کشی کا تختہ کیوں توڑا ؟ کشی والوں نے سیدنا خضر کو پہچان کر ان دونوں سے کرایہ بھی نہ لیا اور کشتی میں سوار کرلیا۔ مگر جب یہ کشتی منزل مقصود کے قریب پہنچی تو سیدنا خضر نے کشتی کے پہلو سے ایک تختہ توڑ دیا۔ یہ شگاف نیچے پیندے میں نہ ڈالا گیا تھا۔ اس لیے کشتی جو پہلے ہی منزل مقصود پر پہنچنے والی تھی ڈوبنے سے تو بچ گئی مگر ڈوبنے کا خطرہ ضرور تھا اور سیدنا موسیٰ کا اعتراض صرف اس بنیاد پر نہ تھا کہ کشی والے ڈوب جائیں گے بلکہ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ کشتی والوں نے تو یہ احسان کیا کہ کرایہ بھی نہ لیا اور اس احسان کا بدلہ یوں دے رہے ہو کہ کشتی ہی کو عیب دار بنادیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ان آیات سے اولو العزم پیغمبروں سے بھول کا صادر ہونا ثابت ہوتا ہے اور کامل استاذ کا شاگرد کی غلطی پر مؤاخذہ، پہلی غلطی پر مؤاخذہ میں نسبتاً نرمی کرنے ( ” اَ لَمْ اَقُلْ “ ” اَ لَمْ اَقُلْ لَّكَ “ سے نرم ہے) اور بھول کے عذر پر درگزر کرنے کا سبق حاصل ہوتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary It was said in verse 71: أَخَرَ‌قْتَهَا لِتُغْرِ‌قَ أَهْلَهَا (Did you break it that you drown its people?). About it, it appears in the Hadith of the Sahihs of al-Bukhari and Muslim that al-Khadir (علیہ السلام) had dislodged a plank of the boat with an axe because of which there was a danger that water would fill up the boat and it would capsize. Therefore, Sayyidna Musa (علیہ السلام) had objected to it. But, according to historical reports, water did not fill into this boat. This may have happened either because al-Khadir had somehow repaired it himself soon after - as in a report carried by al-Ba¬ghawi according to which al-Khadir (علیہ السلام) had replaced the plank with glass. Or, water just did not enter the boat in the manner of a miracle. However, the context of the Qur’ an by itself is telling us that the boat did not capsize - something which supports these reports.

خلاصہ تفسیر : (غرض باہم قول وقرار ہوگیا) پھر دونوں (کسی طرف) چلے (غالباً ان کے ساتھ یوشع (علیہ السلام) بھی ہوں گے مگر وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تابع تھے اس لئے ذکر دو کا کیا گیا) یہاں تک کہ (چلتے چلتے کسی ایسے مقام پر پہنچنے جہاں کشتی پر سوار ہونے کی ضرورت ہوئی) جب دونوں کشتی میں سوار ہوئے تو ان بزرگ نے اس کشتی (کا ایک تختہ نکال کر اس) میں سوراخ کردیا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کیا آپ نے اس کشتی میں اس لئے سوراخ کیا ہے کہ اس کے بیٹھنے والوں کو غرق کردیں آپ نے بڑی بھاری (خطرہ کی) بات کی ان بزرگ نے کہ کہا کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ آپ سے میرے ساتھ صبر نہ ہو سکے گا (آخر وہی ہوا آپ اپنے قول پر نہ رہے) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ (میں بھول گیا تھا) کہ بھول چوک پر گرفت نہ کیجئے اور میرے اس معاملہ (متابعت) میں مجھ پر زیادہ تنگی نہ ڈالئے (کہ بھول چوک بھی معاف نہ ہو بات گئی گذری ہوگئی) پھر دونوں (کشتی سے اتر کر آگے) چلے یہاں تک کہ جب ایک (کم سن) لڑکے سے ملے تو ان بزرگ نے اس کو مار ڈالا موسیٰ (علیہ السلام گھبرا کر) کہنے لگے آپ نے ایک بےگناہ جان کو ہلاک کردیا (اور وہ بھی) بغیر بدلے کسی جان کے بیشک آپ نے بڑی بےجا حرکت کی (کہ اول تو یہ نابالغ کا قتل ہے جس کو قصاص میں بھی قتل کرنا جائز نہیں پھر اس نے تو کسی کو قتل بھی نہیں کیا یہ فعل پہلے فعل سے بھی زیادہ سخت ہے کیونکہ اس میں یقینی نقصان تو صرف مال کا تھا بیٹھنے والوں کے غرق کا اگرچہ خطرہ تھا مگر اس کا انسداد کردیا گیا پھر لڑکا نابالغ ہر گناہ سے بری) ان بزرگ نے فرمایا کہ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ سے میرے ساتھ صبر نہ ہو سکے گا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا (کہ خیر اس مرتبہ اور درگذر کیجئے لیکن) اگر اس مرتبہ کے بعد میں آپ سے کسی امر کے متعلق پوچھوں تو آپ مجھ کو اپنے ساتھ نہ رکھئے بیشک آپ میری طرف سے عذر (کی انتہا) کو پہنچ چکے ہیں (اس مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) نے نسیان کا عذر پیش نہیں کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال انہوں نے قصداً اپنی پیغمبرانہ حیثیت کے مطابق کیا تھا) پھر دونوں (آگے) چلے یہاں تک کہ جب ایک گاؤں والوں پر گذر ہوا تو گاؤں والوں سے کھانے کو مانگا (کہ ہم مہمان ہیں) تو انہوں نے ان کی مہمانی کرنے سے انکار کردیا اتنے میں ان کو وہاں ایک دیوار ملی جو گرا ہی چاہتی تھی تو ان بزرگ نے اس کو (ہاتھ کے اشارے سے بطور خرق عادت کے) سیدھا کردیا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر آپ چاہتے تو اس (کام) پر اجرت ہی لے لیتے (کہ اس وقت کام بھی چلتا اور ان کی بدخلقی کی اصلاح بھی ہوتی) ان بزرگ نے کہا یہ وقت ہماری اور آپ کی علیحدگی کا ہے (جیسا کہ آپ نے خود شرط کی تھی) اب میں ان چیزوں کی حقیقت بتلائے دیتا ہوں جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا (جیسا کہ آیات آئندہ میں اس کا بیان آتا ہے) معارف و مسائل : (آیت) اَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ اَهْلَهَا صحیحین کی حدیث میں ہے کہ خضر (علیہ السلام) نے کلہاڑی کے ذریعہ کشتی کا ایک تختہ نکال دیا تھا جس کی وجہ سے کشتی میں پانی بھر کر غرق ہونے کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا اسی لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس پر اعتراض کیا مگر تاریخی روایات میں ہے کہ پانی اس کشتی میں داخل نہیں ہوا خواہ اس لئے کہ خضر (علیہ السلام) نے ہی پھر اس کی کچھ مرمت کردی جیسے بغوی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ اس تختہ کی جگہ خضر (علیہ السلام) ایک شیشہ لگا دیا تھا یا بطور معجزہ پانی کشتی میں نہ آیا اتنی بات خود قرآن کریم کے سیاق سے معلوم ہو رہی ہے کہ اس کشتی کو غرقابی کا کوئی حادثہ پیش نہیں آیا جس سے ان روایات کی تائید ہوتی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَانْطَلَقَا ۝ ٠۪ حَتّٰٓي اِذَا رَكِبَا فِي السَّفِيْنَۃِ خَرَقَہَا ۝ ٠ۭ قَالَ اَخَرَقْتَہَا لِتُغْرِقَ اَہْلَہَا۝ ٠ۚ لَقَدْ جِئْتَ شَـيْــــًٔـا اِمْرًا۝ ٧١ طلق أصل الطَّلَاقِ : التّخليةُ من الوثاق، يقال : أَطْلَقْتُ البعیرَ من عقاله، وطَلَّقْتُهُ ، وهو طَالِقٌ وطَلِقٌ بلا قيدٍ ، ومنه استعیر : طَلَّقْتُ المرأةَ ، نحو : خلّيتها فهي طَالِقٌ ، أي : مُخَلَّاةٌ عن حبالة النّكاح . قال تعالی: فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق/ 1] ، الطَّلاقُ مَرَّتانِ [ البقرة/ 229] ، وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَ [ البقرة/ 228] ، فهذا عامّ في الرّجعيّة وغیر الرّجعيّة، وقوله : وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ [ البقرة/ 228] ، خاصّ في الرّجعيّة، وقوله : فَإِنْ طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ [ البقرة/ 230] ، أي : بعد البین، فَإِنْ طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيْهِما أَنْ يَتَراجَعا [ البقرة/ 230] ، يعني الزّوج الثّاني . وَانْطَلَقَ فلانٌ: إذا مرّ متخلّفا، وقال تعالی: فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخافَتُونَ [ القلم/ 23] ، انْطَلِقُوا إِلى ما كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ [ المرسلات/ 29] ، وقیل للحلال : طَلْقٌ ، أي : مُطْلَقٌ لا حَظْرَ عليه، وعدا الفرس طَلْقاً أو طَلْقَيْنِ اعتبارا بتخلية سبیله . والمُطْلَقُ في الأحكام : ما لا يقع منه استثناء «2» ، وطَلَقَ يَدَهُ ، وأَطْلَقَهَا عبارةٌ عن الجود، وطَلْقُ الوجهِ ، وطَلِيقُ الوجهِ : إذا لم يكن کالحا، وطَلَّقَ السّليمُ : خَلَّاهُ الوجعُ ، قال الشاعر : 302- تُطَلِّقُهُ طوراً وطورا تراجع«3» ولیلة طَلْقَةٌ: لتخلية الإبل للماء، وقد أَطْلَقَهَا . ( ط ل ق ) ا لطلاق دراصل اس کے معنی کسی بندھن سے آزاد کرنا کے ہیں ۔ محاورہ الطلقت البعر من عقالہ وطلقۃ میں نے اونٹ کا پائے بند کھول دیا طالق وطلق وہ اونٹ جو مقید نہ ہو اسی سے خلی تھا کی طرح طلقت المرءۃ کا محاورہ مستعار ہے یعنی میں نے اپنی عورت کو نکاح کے بندھن سے آزادکر دیا ایسی عورت کو طائق کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق/ 1] تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو ۔ الطَّلاقُ مَرَّتانِ [ البقرة/ 229] طلاق صرف دو بار ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَ [ البقرة/ 228] اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنے تئیں روکے کے رہیں ۔ میں طلاق کا لفظ عام ہے جو رجعی اور غیر رجعی دونوں کو شامل ہے ۔ لیکن آیت کریمہ : ۔ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ [ البقرة/ 228] اور ان کے خاوند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں ۔ میں واپس لے لینے کا زیادہ حقدار ہونے کا حکم رجعی طلاق کے ساتھ مخصوص ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ [ البقرة/ 230] پھر اگر شوہر ( دو طلاقوں کے بعد تیسری ) طلاق عورت کو دے دے تو ۔۔۔۔ اس پہلے شوہر پر حلال نہ ہوگی ۔ میں من بعد کے یہ معنی ہیں کہ اگر بینونت یعنی عدت گزرجانے کے بعد تیسری طلاق دے ۔ تو اس کے لئے حلال نہ ہوگی تا و قتیلہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيْهِما أَنْ يَتَراجَعا [ البقرة/ 230] میں طلقھا کے معنی یہ ہیں کہ اگر دوسرا خاوند بھی طلاق دے دے وہ پہلے خاوند کے نکاح میں آنا چاہیئے کے تو ان کے دوبارہ نکاح کرلینے میں کچھ گناہ نہیں ہے ۔ انطلق فلان کے معنی چل پڑنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخافَتُونَ ، [ القلم/ 23] تو وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے : ۔ انْطَلِقُوا إِلى ما كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ [ المرسلات/ 29] جس چیز کو تم جھٹلا یا کرتے تھے اب اسکی طرف چلو ۔ اور حلال چیز کو طلق کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے کھالینے پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہوتی ۔ عد الفرس طلقا اوطلقین گھوڑے نے آزادی سے ایک دو دوڑیں لگائیں اور فقہ کی اصطلاحی میں مطلق اس حکم کو کہا جاتا ہے جس سے کوئی جزئی مخصوص نہ کی گئی ہو ۔ طلق یدہ واطلقھا اس نے اپنا ہاتھ کھول دیا ۔ طلق الوجہ اوطلیق الوجہ خندہ رو ۔ ہنس مکھ ، طلق السلیم ( مجہول ) مار گزیدہ کا صحت یاب ہونا ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) تطلقہ طورا وطور الرجع کہ وہ کبھی در د سے آرام پالیتا ہے اور کبھی وہ دور دوبارہ لوٹ آتا ہے لیلۃ طلحۃ وہ رات جس میں اونٹوں کو پانی پر وارد ہونے کے لئے آزاد دیا جائے کہ وہ گھاس کھاتے ہوئے اپنی مرضی سے چلے جائیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ الطلق الابل یعنی اس نے پانی پر وار ہونے کے لئے اونٹوں کو آزاد چھوڑدیا ۔ ركب الرُّكُوبُ في الأصل : كون الإنسان علی ظهر حيوان، وقد يستعمل في السّفينة، والرَّاكِبُ اختصّ في التّعارف بممتطي البعیر، وجمعه رَكْبٌ ، ورُكْبَانٌ ، ورُكُوبٌ ، واختصّ الرِّكَابُ بالمرکوب، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل/ 8] ، فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ ) رک ب ) الرکوب کے اصل معنی حیوان کی پیٹھ پر سوار ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل/ 8] تاکہ ان سے سواری کا کام لو اور ( سواری کے علاوہ یہ چیزیں ) موجب زینت ( بھی ) ہیں ۔ مگر کبھی کشتی وغیرہ سواری ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ [ العنکبوت/ 65] پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔ سفن السَّفَنُ : نحت ظاهر الشیء، كَسَفَنَ العودَ ، والجلدَ ، وسَفَنَ الرّيح التّراب عن الأرض، قال الشاعر : فجاء خفيّا يَسْفِنُ الأرض صدره والسَّفَنُ نحو النّقض لما يُسْفَنُ ، وخصّ السَّفَنُ بجلدة قائم السّيف، وبالحدیدة التي يَسْفِنُ بها، وباعتبار السَّفْنِ سمّيت السَّفِينَةُ. قال اللہ تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ [ الكهف/ 79] ، ثمّ تجوّز بالسفینة، فشبّه بها كلّ مرکوب سهل . ( س ف ن ) السفن ۔ اس کے اصل معنی چوب اور چمڑا وغیرہ کو چھیلنے کے ہیں اور سفن الریح التراب عن الارض کے معنی ہیں ہوا نے زمین سے مٹی کو گھس ڈالا شاعر نے کہا ہی ( الطویل ) ( 230 ) فجاء خفیا یسفن الارض صدرہ وہ زمین پر اپنا سینہ رگڑتے ہوئے پوشیدہ طور پر وہاں جا پہنچا ۔ اور تراشی ہوئی چیز کو سفن ( فعل بمعنی مفعول ) کہتے ہیں جیسے نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اور السفن خاص کر اس کھردرے چمڑے کو کہا جاتا ہے جس کو تلوار کے قبضہ پر لگاتے ہیں اور چوب تراشی کے اوزار کو بھی سفن کہا جاتا ہے جیسے تیشہ وغیرہ اور چھیلنے کے معنی کے لحاظ سے کشتی کا نام سفینۃ رکھا گیا ہے ۔ کیونکہ وہ بھی سطح آب کو چیرتی ہوئی چلی جاتی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ أَمَّا السَّفِينَةُ [ الكهف/ 79] لیکن کشتی ۔ پھر مجازا کشتی کے ساتھ تشبیہ دے کر ہر آرام دہ سواری کو سفینۃ کہا جاتا ہے ۔ خرق الخَرْقُ : قطع الشیء علی سبیل الفساد من غير تدبّر ولا تفكّر، قال تعالی: أَخَرَقْتَها لِتُغْرِقَ أَهْلَها[ الكهف/ 71] ، وهو ضدّ الخلق، فإنّ الخلق هو فعل الشیء بتقدیر ورفق، والخرق بغیر تقدیر، قال تعالی: وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَناتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 100] ، أي : حکموا بذلک علی سبیل الخرق، وباعتبار القطع قيل : خَرَقَ الثوبَ ، وخَرَّقَه، وخَرَقَ المفاوز، واخْتَرَقَ الرّيح . وخصّ الخَرْق والخریق بالمفاوز الواسعة، إمّا لاختراق الریح فيها، وإمّا لتخرّقها في الفلاة، وخصّ الخرق بمن ينخرق في السخاء «1» . وقیل لثقب الأذن إذا توسّع : خرق، وصبيّ أَخْرَقُ ، وامرأة خَرْقَاء : مثقوبة الأذن ثقبا واسعا، وقوله تعالی: إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ [ الإسراء/ 37] ، فيه قولان : أحدهما : لن تقطع، والآخر : لن تثقب الأرض إلى الجانب الآخر، اعتبارا بالخرق في الأذن، وباعتبار ترک التقدیر قيل : رجل أَخْرَقُ ، وخَرِقُ ، وامرأة خَرْقَاء، وشبّه بها الریح في تعسّف مرورها فقیل : ريح خرقاء . وروي : «ما دخل الخرق في شيء إلّا شانه» «2» . ومن الخرق استعیرت المَخْرَقَة، وهو إظهار الخرق توصّلا إلى حيلة، والمِخْرَاق : شيء يلعب به، كأنّه يخرق لإظهار الشیء بخلافه، وخَرِقَ الغزال «3» : إذا لم يحسن أن يعدو لخرقه . ( خ ر ق ) الخرق ( ض) کسی چیز کو بلا سوچے سمجھے بگاڑنے کے لئے پھا ڑ ڈالنا ۔ قرآن میں ہے :۔ أَخَرَقْتَها لِتُغْرِقَ أَهْلَها[ الكهف/ 71] کیا آپ نے اسکو اس لئے پھاڑا ہے کہ مسافروں کو غرق کردیں ۔ خرق خلق کی ضد ہے ۔ جس کے معنی اندازہ کے مطابق خوش اسلوبی سے کسی چیز کو بنانا کے ہیں ۔ اور خرق کے معنی کسی چیز کو بےقاعدگی سے پھاڑ ڈالنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَناتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 100] اور لے سمجھے ( جھوٹ بہتان ) اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں بنا گھڑی ہیں ۔ یعنی بےسوچے سمجھے یہ بات کہتے ہیں ۔ پھر معنی قطع کے اعتبار سے کہا جاتا ہے : خرق الثوب وخرقہ کپڑے کو پھاڑ ڈالا خرق المف اور ریگستان طے کئے اخترق الریح ہوا کا تیز چلنا ۔ الخرق والخریق خاص کر کشادہ بیابان کو کہاجاتا ہے اس لئے کہ اس میں ہوائیں تیزی سے چلتی ہیں اور یا اس لئے ک وہ وسیع ریگستان کی صورت میں پھیلا ہوا ہوتا ہے ۔ الخرق ( خاص ) کپڑے میں سوراخ اور کان میں کشادہ سوراخ ۔ صبی اخرق امراۃ خرقاء جس کے کان میں کشادہ چھید ہو اور آیت کریمہ :۔ إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ [ الإسراء/ 37] کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک یہ کہ تو زمین کو طے نہیں کرسکے گا ۔ یا یہ کہ تو زمین کو پانے پاؤں سے پھاڑ نہیں ڈالے گا ۔ یہ دوسرا معنی خرق فی الاذن سے ماخوذ ہے اور بےسوچے سمجھے کام کرنے کے اعتبار سے احمق اور نادان شخص کو اخرق وخرق کہاجاتا ہے اس کی مونث خرقاء ہے ۔ اور تند ہوا کو بھی خرقاء کہہ دیا جاتا ہے ۔ اور تند ہوا کو بھی خرقاء کہہ دیا جاتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے (108) مادخل الخرق فی شئی الا شانہ جس چیز میں نادانی کا عمل دخل ہو وہ عیب ناک ہوجاتی ہے اور خرق سے مخرقۃ کا لفظ لیا گیا ہے جس کے معنی کسی کام میں حیلہ جوئی کے لئے بےوقوفی کا اظہار کرنے کے ہیں ۔ المخراق کپڑے کا کوڑا جس سے بچے کھلیتے ہیں گویا اسے بھی کسی چیز کو واقع کے خلاف ظاہر کرنے کے لئے بنایا جاتا ہے ۔ خرق الغزال ہر ن کا نادانی کی وجہ سے دوڑ نہ سکنا ۔ غرق الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، ( غ ر ق ) الغرق پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔ أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ (فَانْطَلَقَا ۪حَتّٰٓي اِذَا رَكِبَا فِي السَّفِيْنَةِ خَرَقَهَا) حضرت موسیٰ نے ان کی سوال نہ کرنے والی شرط تسلیم کرلی اور یوں وہ دونوں سفر پر روانہ ہوگئے۔ جب وہ دریا پار کرنے کے لیے ایک کشتی میں سوار ہوئے تو انہوں ( ان کو صاحب موسیٰ کہیں یا حضرت خضر کہیں) نے بیٹھتے ہی کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا۔ حضرت موسیٰ نے جب یہ دیکھا تو آپ کہاں خاموش رہنے والے تھے فوراً ان کو ٹوک دیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

38: صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ انہوں نے کشتی کا ایک تختہ نکال کر اس میں سوراخ کردیا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧١۔ ٨٢:۔ جب خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ کہا کہ تم میرے ساتھ رہو گے تو تم سے میری باتوں پر صبر نہ ہو سکے گا اسی کا یہ جواب موسیٰ (علیہ السلام) نے دیا کہ اگر اللہ نے چاہا تو میں تمہاری باتوں پر صبر کروں گا اور تمہاری کوئی بات نہ ٹالوں گا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی حدیث صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ ١ ؎، سے جو قصہ کے شروع میں گزری اس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس وعدہ کے موافق موسیٰ (علیہ السلام) اگر خضر (علیہ السلام) کی باتوں پر صبر کرکے کچھ اور خضر (علیہ السلام) کے ساتھ رہتے تو خوب ہوتا کیونکہ اس صورت میں اور نئی باتیں اللہ تعالیٰ اس قصہ میں ذکر فرماتا اسی سورة میں مسند امام احمد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے عبداللہ بن عمر کی صحیح روایت گزر چکی ہے جس میں یہ ہے کہ قسم کے ساتھ ہی اگر کوئی شخص انشاء اللہ کہہ لیوے تو قسم کے ٹوٹ جانے پر کفارہ نہیں آتا ٢ ؎ وعدے کے ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے انشاء اللہ جو کہا اس کا فائدہ اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے حضرت موسٰی (علیہ السلام) کے اس وعدے کے بعد حضرت خضر (علیہ السلام) نے یہ شرط کی کہ اگر تم میرے ساتھ رہنا چاہئے ہو تو کسی بات کو جب تک میں نہ بتاؤں اس وقت تک اس کی تفصیل تم خود مجھ سے نہ پوچھنا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی اوپر کی روایت میں ہے کہ کشتی والوں نے مفت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) کو کشتی میں بٹھا لیا تھا اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو کشتی کا تختہ توڑ ڈالنے پر بڑا تعجب ہوا کہ بھلائی کرنے والوں کے ساتھ خضر (علیہ السلام) نے یہ برائی کیوں کی اسی روایت میں یہ بھی ہے کہ کشتی کی منڈیر پر ایک چڑیا آن کر بیٹھی اور ایک بوند پانی دریا میں سے پی کر اڑ گئی اس پر حضرت خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا میرا اور تمہارا علم اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسے دریا کے مقابلہ میں چڑیا کا پیا ہوا وہ ایک قطرہ پانی کا حدیث کا یہ ٹکڑا موسیٰ (علیہ السلام) کے سفر کا نتیجہ ہے کیونکہ یہ اوپر گزر چکا ہے کہ اسرائیل میں کے ایک شخص نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ پوچھا تھا کہ بڑا صاحب علم کون ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سوال کے جواب کو اللہ تعالیٰ کے علم پر نہیں سونپا تھا۔ اسی خرابی کے جتلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سفر کرنے اور خضر (علیہ السلام) سے ملنے کا حکم دیا تھا حدیث کے اس ٹکڑے میں خضر (علیہ السلام) کی جس نصیحت کا ذکر ہے اس سے وہی خرابی جتلائی گئی ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی اوپر کی روایت میں یہ بھی ہے کہ خضر ( علیہ السلام) نے جس لڑکے کو قتل کیا اللہ کے علم غیب میں وہ لڑکا کافر ٹھہر چکا تھا اگر وہ جیتا رہتا تو ماں باپ کو بھی اپنے جیسا کرلیتا۔ حدیث کے اس ٹکڑے سے اس لڑکے کے قتل کرنے کی مصلحت سمجھ میں آسکتی ہے اس روایت میں یہ بھی ہے کہ اس گاؤں کے لوگ جبکہ ایسے بےرحم تھے مسافروں کو کھانا نہیں دیتے تھے تو ایسے لوگوں کی دیوار کو بےمزدوری کے درست کردینا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک تعجب کی بات معلوم ہوئی کشتی کی حالت پر جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اعتراض کیا تو خضر علیہ اسلام الم اقل کہہ کر ٹال گئے جس کا مطلب یہ ہے کیا میں نے یہ پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ تم سے میری باتوں پر صبر نہ ہو سکے گا لڑکے کی قتل کی حالت پر جب موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر اعتراض کیا تو خضر (علیہ السلام) نے الم اقل کے آگے لام کاف بڑھا کر تاکید کے طور پر کہا کہ تم میری باتوں پر صبر نہ کرسکو گے اس تاکید سے مطلب یہ ہے کہ جب تم میری باتوں پر صبر نہیں کرسکتے تو پھر میرے ساتھ کیوں رہتے ہو حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی اوپر کی روایت میں یہ بھی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا اعتراض بھولے سے تھا اور دوسرا جدائی کی شرط کے طور پر اور تیسرا جان بوجھ کر جدائی کے قصد سے اس سفر کا نتیجہ تو موسیٰ (علیہ السلام) سمجھ چکے تھے اس واسطے انہوں خضر (علیہ السلام) کے ساتھ اب زیادہ رہنا ضروری نہیں خیال کیا اور دوسرے اعتراض کے وقت جدائی کی شرط کو ظاہر کردیا۔ کشتی کا تختہ توڑنے کا سبب خضر (علیہ السلام) نے یہ بیان کیا کہ وہ کشتی ایسے محتاجوں کی تھی جن کی گزر اسی کشتی کے کرایہ کی آمدنی پر تھی اور دریا کے پرلے کنارہ پر ایک ظالم بادشاہ تھا جس کے حکم سے بادشاہی لوگ اچھی اچھی ثابت کشتیاں مفت بیکار میں پکڑ لیتے تھے اس واسطے میں نے اس کشتی کا ایک تختہ توڑ کر اس کو عیب دار کردیا تھا کہ بادشاہ کے لوگ اس کشتی کو نہ پکڑیں اور ان محتاجوں کی آمدنی میں خلل نہ پڑے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ جو کوئی اس بادشاہ کی طرح کسی کا کچھ مال زبردستی چھین لے گا قیامت کے دن اس کی اسی قدر نیکیاں چھین کر مالک مال کو دے دی جائیں گی ٣ ؎۔ حدیث کے اسی ٹکڑے کو پہلی آیت کے ساتھ ملانے سے ایسے ظالم لوگوں کی آخرت کی سزا کا حال اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے جس طرح کے ظالم بادشاہ کا ذکر آیت میں ہے لڑکے کے مار ڈالنے کا سبب یہ بیان کیا کہ اس کے ماں باپ ایماندار تھے اور وہ لڑکا اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں منکر ایمان ٹھہر چکا تھا اس لیے اس کے زندہ رہنے سے اس کے ماں باپ بھی اس کی محبت میں اپنی حالت پر نہ رہتے۔ دین کی حفاظت کی نظر سے یہ قتل ایسا ہی ہے جیسے مثلا کعب بن اشرف کا قتل کا قصہ صحیح بخاری میں جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت سے ہے۔ دونوں قتلوں میں فرق اتنا ہے کہ کعب بن اشرف کا دین میں خلل ڈالنا ظاہر ہوچکا تھا اور اس لڑکے کا یہ خلیل اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق آئندہ ظاہر ہوتا مگر اللہ تعالیٰ نے وہ غیب کا حال خضر (علیہ السلام) کو جتلا دیا اور انہوں نے اللہ کے حکم سے اس کو مار ڈالا حاصل کلام یہ ہے کہ شریعت اللہ کے حکم کا نام ہے خضر (علیہ السلام) کے حق میں اللہ کا وہی حکم شریعت کا حکم تھا جس کے موافق انہوں نے عمل کیا شریعت موسوی کے موافق موسیٰ (علیہ السلام) نے خضر (علیہ السلام) کے وہ کام شرعی ہوگئے ناقابل اعتراض سند سے نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اس لڑکے کے مرجانے پر اس کی ماں کے پیٹ سے ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک نبی کی ماں کردیا۔ حدیث فَاَرَدْنَآ اَنْ يُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ کی گویا تفسیر ہے۔ دیوار کے سیدھا کردینے کا سبب یہ بیان کیا کہ اس دیوار کے نیچے کا گڑا ہوا مال ان دونوں یتمیوں کو پہنچ جانا اللہ کو منظور تھا صحیح بخاری میں سہل (رض) بن سعد سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دو انگلیوں کو ذرا فرق کر کے کھڑا کر کے فرمایا میں اور یتیم کے ساتھ شفقت سے پیش آنے والا شخص جنت میں ایسے قریب ہوں گے جس طرح یہ دونوں انگلیاں ہیں ٤ ؎۔ اس حدیث کو آخری آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ یتیموں کے حال پر اللہ تعالیٰ کی ایک خاص نظر رحمت ہے جس کے سبب سے ان یتیموں کے ساتھ شفقت سے پیش آنے والے شخص کی یتیم اولاد کے مال کی حفاظت فرمائی۔ جس کا ذکر آیت میں ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٦٨٧ ج ٢ کتاب التفسیر۔ ٢ ؎ ابن ماجہ ص ١٥٣ باب الاستثناء فی الیمین۔ ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٣٥ باب الظلم۔ ٤ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٢٢ باب الشفقتہ والرحمۃ علی الخلق۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 چلتے چلتے دریا پر پہنچے پیمانہ تھا اتنے میں ایک کشتی آگئی کشتی والوں نے حضرت خضر کو پہچان کر بےکرایہ ان کو سوار کرلیا اور یہ جو تختہ نکالا تو کنارے کے قریب پہنچ کر تاکہ لوگ ڈوبنے سے بچ جائیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ١٠) اسرارومعارف چناچہ دونوں حضرات روانہ ہوئے یہاں تک کہ ایک کشتی میں سوار ہونا پڑا ، اور اہل کشتی نے دو نیک سیرت انسان دیکھ کر بہت احترام کیا بلکہ حدیث شریف کے مطابق بغیر اجرت لیے سوار کرلیا مگر حضرت خضر (علیہ السلام) نے ایک جگہ ہاتھ پھیرا تو کشتی کا تختہ چیر دیا جسے موسیٰ (علیہ السلام) دیکھ رہے تھے فورا بول اٹھے کہ یہ آپ کی کرامت ہے بھلا جن لوگوں نے بڑی عزت سے ہمیں ساتھ سوار کرلیا ان کو بھی معاف نہ کیا اور پھاڑ کر رکھ دی اب اگر یہ تختہ یہاں سے اکھڑ گیا تو یہ سب غرق نہ ہوجائیں گے ، آپ نے یہ معمولی حرکت نہیں کی بلکہ بہت بڑی زیادتی ہے ، حضرت خضر (علیہ السلام) نے عرض کیا میں نے تو پہلے یہ بات گوش گذار کردی تھی کہ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے تو فرمانے لگے اچھا آپ میری اس بات سے درگذر فرمائیں کہ مجھے وہ وعدہ یاد ہی نہ رہا تھا ورنہ تو میرا کام بہت مشکل ہوجائے گا ، آپ اتنی سی بات پہ گرفت نہ کیجئے ، چناچہ پھر روانہ ہوئے ایک جگہ سے گذرے تو ایک بچہ ملا جو کھیلتا پھر رہا تھا ، حضرت خضر (علیہ السلام) نے خرق عادت طریقے سے اسے قتل کردیا اور خرق عادت یوں کہ بچے کا قتل معروف طریقے سے نہ تھا ورنہ تو ایک اور فساد شروع ہوجاتا ، موسیٰ (علیہ السلام) سے نہ رہا گیا ، انہوں نے فرمایا بھئی وعدہ تو الگ رہا بھلا اس قدر شریعت کے خلاف ظلم و زیادتی پہ خاموش رہنا صحیح نہیں ، (علماء کا کردار) گویا علماء کو خلاف شریعت پہ گرفت کرنا ضروری ہے اور کسی بھی مصلحت کا شکار ہونا درست نہیں ، چناچہ فرمایا ایک معصوم بچے کو آپ نے قتل کردیا اور بغیر کسی وجہ کے کردیا کہ وہ کوئی قاتل یا شرعی طور پر واجب القتل تو نہ تھا اور یہ بہت ناقابل برداشت بات ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 71 تا 78 السفینۃ کشتی، جہاز۔ خرق سوراخ کردیا۔ لتغرق تاکہ تو غرق کر دے۔ امر ناپسندیدہ بات ، عجیب بات۔ نسیت میں بھول گیا۔ لاترھقنی نہ ڈال مجھ پر۔ عسر مشکل ، تنگی۔ زکیۃ پاک، ستھری۔ نکر بےجابات۔ لا تصاحبنی مجھے ساتھ نہ رکھنا۔ بلغت تو پہنچ گیا۔ استطعما دونوں نے کھانا طلب کیا۔ ابوا انکار کردیا۔ یضیفوا وہ مہمان بنائیں گے۔ جدار دیوار۔ ینقص وہ ٹوٹ جائے گا۔ اقام درست کردیا۔ فراق جدائی۔ انبی میں بتاؤں گا۔ تاویل حقیقت، انجام۔ تشریح :- آیت نمبر 71 تا 78 ان آیات میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر کے واقعہ کو بیان کیا جا رہا ہے جب حضرت موسیٰ نے یہ وعدہ کرلیا کہ وہ حضرت خضر سے کسی کام یا بات پر سوال نہیں کریں گے تب وہ دونوں سفر پر روانہ ہوگئے۔ راستے میں ایک دریا آگیا۔ دوسرے کنارے پہنچنے کے لئے کشتی پر سوار ہوگئے۔ کشتی والا جانتا ہوگا۔ یا ان کو نیک اور بزرگ سمجھ کر انتہائی شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے کرایہ لینے سے انکار کردیا۔ یہ دونوں جب کنارے پر اترے تو حضرت موسیٰ نے دیکھا کہ حضرت خضر نے اترتے اترتے اس کشتی کو ادھر ادھر سے توڑ پھوڑ دیا یا اس کا کوئی تختہ وغیرہ نکال کر اس کشتی کو عیب دار بنا دیا۔ حضرت موسیٰ یہ دیکھ کر بےچین ہوگئے ۔ کہنے لگے کہا آپ بھی عجیب آدمی ہیں اس کشتی والے نے تو ہمارے ساتھ احسان اور نیکی کا معاملہ کیا اور آپ نے اس کے احسان کا جواب یہ دیا کہ اس کشتی کا ستیاناس کردیا۔ حضرت خضر نے کہا موسیٰ ! میں نے آپ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ برداشت نہیں کرسکتے۔ حضرت موسیٰ کو اپنا وعدہ یاد آیا اور وہ اس وعدے کیساتھ کہ اب میں سوال نہ کروں گا دوبارہ روانہ ہوگئے۔ ایک جگہ کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے ان بچوں میں سے ایک کی ٹانگیں پکڑیں، زمین پر دے مارا جس سے وہ بچہ مر گیا۔ یہ ایسا واقعہ تھا کہ حضرت موسیٰ بےحال ہوگئے اور تڑپ کر پوچھا کہ آپ نے ایک بےگناہ کو بغیر کسی جان کے بدلے قتل کردیا یہ تو آپ نے بڑی ہی ناپسندیدہ بات کی ہے۔ حضرت خضر نے کہا موسیٰ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ آپ ان باتوں کو برداشت نہیں کرسکتے۔ حضرت موسیٰ کو اپنا وعدہ یاد آگیا کہنے لگے کہ اس کے بعد اگر میں آپ سے کوئی سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ مت رکھئے گا کیونکہ اب تو میرے طرف سے آپ کو عذر مل گیا ہے۔ پھر وہ دونوں چلے ۔ وہ ایک ایسی بستی میں پہنچے جہاں کے لوگوں نے اجنبیوں کو دیکھنے کے باوجود مہمان نوازی سے انکار کردیا۔ بھوک سے برا حال تھا۔ حضرت موسیٰ نے دیکھا کہ ایک دیوار گرنے والی ہے حضرت خضر کاندھا لگا کر اس کو سیدھا کردیا بس اب حضرت موسیٰ سے صبر نہ ہوسکا۔ کہنے لگے کہ اگر آپ اس محنت مزدوری پر کچھ اجرت لے لیتے تو کم از کم ان بےمروت لوگوں کے شہر میں کھانے کو تو مل جاتا اور کہنے لگے کہ یہ لوگ تو کسی رعایت کے مستحق بھی نہ تھے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے موسیٰ ! میں تو اللہ کے حکم سے ایسے ہی کام کرتا رہتا ہوں لہٰذا اب آپ اپنی دنیا کی طرف لوٹ جائیے۔ جس میں شریعت کے مطابق فیصلے کئے جاتے ہیں اور اب حسب وعدہ ہمارے اور آپ کے درمیان جدائی ہوچکی ہے۔ لیکن وہ تمام باتیں جن پر آپ صبر نہ کرسکے ان کی مصلحتیں ضرور بیان کروں گا۔ چناچہ اگلی آیات میں حضرت خضر نے ان تمام باتوں کی پوری طرح وضاحت فرما دی ہے کہ انہوں نے اللہ کے حکم سے یہ کام کیوں کئے تھے ان میں حکمت اور مصلحت کیا تھی ؟ ایک حدیث میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت موسیٰ اور حضرت خضر کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کیا اچھا ہوتا کہ حضرت موسیٰ کچھ تھوڑا سا اور صبر کرلیتے تاکہ اللہ کی بہت سی وہ حکمتیں ظاہر ہوجاتیں جو اللہ کے حکم سے ہوتی رہتی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ کشتی ان دونوں کو بھی لے جا رہی اور ساتھ ہی اور سوار بھی اس پر موجود ہیں۔ یہ سب لوگ سمندر کے درمیان موجوں میں سفر کر رہے ہیں۔ عبدصالح اس میں شگاف ڈال دیتے ہیں۔ بظاہر تو یہ نظر آتا ہے کہ اس شگاف کی وجہ سے یہ کشتی غرق ہو سکتی ہے اور مالکوں اور سواروں کے لئے مصیبت کا باعث ہو سکتی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ عبداصالح نے یہ حرکت کیوں کی ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذہن سے شرائط سفر محو ہوگئیں۔ وہ اس غیر معقول حرکت کو برداشت نہ کرسکے۔ جو عقل و نقل دونوں کے خلاف ہے۔ انسان بعض اوقات محض تصور کی حد تک بہت کچھ کہتا ہے۔ لیکن جب وہ کسی عملی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے تو اس کے تمام نظریاتی جائزے اور توقعات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ عملی میدان میں اس کا ردعمل محض نظری میدان سے مختلف ہوتا ہے۔ عملی تجربات اور ہوتے ہیں اور نظری تصورات اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نظری طور پر متنبہ بھی کردیا گیا تھا کہ تم ان امور پر صبر نہ کرسکو گے جن کے بارے میں تمہیں علم نہ ہوگا۔ وہ اللہ کے فضل و کرم سے صبر کرنے کا عزم بھی کرتے ہیں ، وعدہ بھی کرتے ہیں ، شرط قبول بھی کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ عملاً ایک منظر کو دیکھتے ہیں تو سب کچھ بھول کر اعتراض کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ کی طبیعت بھی انفعالی اور جذباتی تھی۔ اس لئے وہ صبر نہ کرسکے۔ وہ وعدے کا ایفا نہ کرسکے۔ وہ اس فعل کے انوکھے پن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی برائی کو برداشت نہ کیا۔ مثلاً مصر میں جب ایک قبطی ایک بنی اسرائیل سے لڑ رہا تھا تو آپ نے غصے میں اسے مکا رسید کیا اور وہ مر گیا۔ پھر انہوں نے اس فعل پر اللہ سے معافی مانگی۔ پھر دوسرے دن جب وہی بنی اسرائیل پھر ایک مصری سے لڑر رہا تھا تو آپ پھر غصہ ہوئے۔ بہرحال حضرت مسویٰ اپنی افتاد طبع کے مطابق ہیاں بھی برداشت نہ کرسکے۔ واقعہ عجیب و غریب تھا۔ عقل و نقل کے خلاف تھا۔ اور اگرچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے وعدہ کیا تھا اور شرط بھی قبول کرلی تھی لیکن نظریات اور ہوتے ہیں اور عملی صورت حالات اور ہوتی ہے۔ چناچہ جب عملاً موسیٰ علیہ السالم کے سامنے یہ صورت حالات پیش ہوئی تو آپ نے بےساختہ اعتراض کردیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

69:۔ یہ پہلا واقعہ ہے، دورانِ سفر وہ کشتی میں سوار ہوئے حضرت خضر نے کشتی کا ایک تختہ توڑ دیا جس سے اس میں بڑا سا شگاف پڑگیا، شرعی طور پر بظاہر یہ حرکت ناجائز تھی اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے نہ رہا گیا اور انہوں نے کہا کہ تم نے یہ کیا ناجائز حرکت کی ہے۔ اس پر حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا میں نے جو کہا تھھا کہ تم ضبط سے کام نہیں لے سکو گے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھول کا عذر کیا اور کہا کہ بھول کے بارے میں مجھ پر تنگی نہ کیجئے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

7 1 بہرحال ! اس گفتگو کے بعد دونوں روانہ ہوئے اور چل پڑے یہاں تک کہ یہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے اترتے وقت کشتی کا ایک تختہ توڑ کر کشتی کو پھاڑ دیا اور کشتی میں سوراخ کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اترتے وقت کشتی کا ایک تختہ توڑ کر کشتی کو پھاڑ دیا اور کشتی میں سوراخ کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کیا آپ نے کشتی کو اس لئے پھاڑ دیا کہ آپ کشتی کے بیٹھنے والوں کو غرق کردیں اور اس کا انجام یہ ہو کہ کشتی پر سوار ہونے والے ڈوب جائیں بیشک یہ آپ نے انوکھی اور بھاری بات کی ۔