Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 78

سورة الكهف

قَالَ ہٰذَا فِرَاقُ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنِکَ ۚ سَاُنَبِّئُکَ بِتَاۡوِیۡلِ مَا لَمۡ تَسۡتَطِعۡ عَّلَیۡہِ صَبۡرًا ﴿۷۸﴾

[Al-Khidh r] said, "This is parting between me and you. I will inform you of the interpretation of that about which you could not have patience.

اس نے کہا بس یہ جدائی ہے میرے اور تیرے درمیان ، اب میں تجھے ان باتوں کی اصلیت بھی بتا دونگا جس پر تجھ سے صبر نہ ہو سکا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ ... He said: "This is the parting between you and I, meaning, because you said after the boy was killed that if you asked me anything after that, you would not accompany me any further. So this is the parting of the ways between me and you. ... سَأُنَبِّيُكَ بِتَأْوِيلِ ... I will tell you the interpretation, meaning explanation, ... مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا of (those) things over which you were not able to be patient.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

78۔ 1 حضرت خضرنے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام، یہ تیسرا موقعہ ہے کہ تو صبر نہیں کرسکا اور اب خود تیرے کہنے کے مطابق میں تجھے ساتھ رکھنے سے معذور ہوں۔ 78۔ 2 لیکن جدائی سے قبل حضرت خضر نے تینوں واقعات کی حقیقت سے انھیں آگاہ اور باخبر کرنا ضروری خیال کیا تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کسی مغالطے کا شکار نہ رہیں اور وہ یہ سمجھ لیں کہ علم نبوت اور ہے، جس سے انھیں نوازا گیا ہے اور بعض اہم امور کا علم اور ہے جو اللہ کی حکمت ومشیت کے تحت، حضرت خضر کو دیا گیا ہے اور اسی کے مطابق انہوں نے ایسے کام کیے جو علم شریعت کی رو سے جائز نہیں تھے اور اسی لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بجا طور پر ان پر خاموش نہیں رہ سکے تھے۔ انہی اہم امور کی انجام دہی کی وجہ سے بعض اہل علم کی رائے ہے کہ حضرت خضر انسانوں میں سے نہیں تھے اور اسی لئے وہ ان کی نبوت و رسالت یا دلائل کے بیچ میں نہیں پڑتے کیونکہ یہ سارے مناصب تو انسانوں کے ساتھ ہی خاص ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ فرشتہ تھے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ اپنے کسی نبی کو بعض اہم امور سے مطلع کر کے ان کے ذریعے سے کام کروا لے، تو اس میں بھی کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔ جب وہ صاحب وحی خود اس امر کی وضاحت کر دے کہ میں نے یہ کام اللہ کے حکم سے ہی کئے ہیں تو گو بظاہر وہ خلاف شریعت ہی نظر آتے ہوں، لیکن جب ان کا تعلق ہی اہم امور سے ہے تو وہاں جواز اور عدم جواز کی حیثیت غیر ضروری ہے۔ جیسے تکوینی احکامات کے تھے کوئی بیمار ہوتا ہے، کوئی مرتا ہے، کسی کا کاروبار تباہ ہوجاتا ہے، قوموں پر عذاب آتا ہے، ان میں سے بعض کام بعض دفعہ بہ اذن الٰہی فرشتے ہی کرتے ہیں، تو جس طرح یہ امور آج تک کسی کو خلاف شریعت نظر نہیں آئے۔ اسی طرح حضرت خضر کے ذریعے سے و قوع پذیر ہونے والے واقعات کا تعلق بھی چوں کہ اہم امور سے ہے اس لئے انھیں شریعت کی ترازو میں تولنا ہی غیر صحیح ہے۔ البتہ اب وحی و نبوت کا سلسلہ ختم ہوجانے کے بعد کسی شخص کا اس قسم کا دعویٰ ہرگز صحیح اور قابل تسلیم نہیں ہوگا جیسا کہ حضرت خضر سے منقول ہے کیونکہ حضرت خضر کا معاملہ تو آیت قرآنی سے ثابت ہے، اس لئے مجال انکار نہیں۔ لیکن اب جو بھی اس قسم کا دعویٰ یا عمل کرے گا، اس کا انکار لازمی اور ضروری ہے کیونکہ اب وہ یقینی ذریعہ علم موجود نہیں ہے جس سے اس کے دعوے اور عمل کی حقیقت واضح ہو سکے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٦] دنیا کے حادثات کی ظاہری شکل اور ہے اور حقیقت اور ہے :۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے سیدنا خضر کی ہمراہی کے دوران جو واقعات پیش آئے۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ کو اپنے کارخانہ مشیئت کا پردہ اٹھا کر ذرا اس کی ایک جھلک دکھائی تھی تاکہ انھیں معلوم ہوجائے کہ اس دنیا میں جو کچھ شب و روز ہو رہا ہے وہ کیسے اور کن مصلحتوں کے تحت ہو رہا ہے اور کس طرح واقعات کی ظاہری شکل و صورت اصل حقیقت سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ ایک عام انسان جب یہ دیکھتا ہے کہ ظالموں اور نافرمانوں پر اللہ کے انعامات کی بارش ہو رہی ہے اور اللہ کے فرمانبرداروں پر سختیاں اور شدائد کا ہجوم ہے ظالم مسلسل ظلم کرتے جارہے ہیں اور ان کی سزا بےگناہوں کو ملتی ہے تو ایسے واقعات سے اکثر انسان یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے اگر اللہ موجود ہوتا اور وہ عادل و منصف ہے تو ایسے جگر خراش واقعات دنیا میں کیوں وقوع پذیر ہوتے ؟ ان واقعات میں ایسے ہی حالات سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ رہا اللہ کے عدل و انصاف کا معاملہ تو اگرچہ اس کا ظہور اس دنیا میں بھی وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے تاہم عدل و انصاف کا صحیح اور مقررہ وقت روز آخرت ہے اور روز آخرت کا قیام اسی لیے ضروری ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ھٰذَا فِرَاقُ : اس پر اصل میں تنوین تھی، پھر تخفیف کے لیے مضاف کردیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَيْنِيْ وَبَيْنِكَ ۝ ٠ۚ سَاُنَبِّئُكَ بِتَاْوِيْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَيْہِ صَبْرًا۝ ٧٨ فرق الفَرْقُ يقارب الفلق لکن الفلق يقال اعتبارا بالانشقاق، والفرق يقال اعتبارا بالانفصال . قال تعالی: وَإِذْ فَرَقْنا بِكُمُ الْبَحْرَ [ البقرة/ 50] ، والفِرْقُ : القطعة المنفصلة، ومنه : الفِرْقَةُ للجماعة المتفرّدة من النّاس، وقیل : فَرَقُ الصّبح، وفلق الصّبح . قال : فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء/ 63] ، ( ف ر ق ) الفرق والفلق کے قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن معنی انشقاق یعنی پھٹ جانا کے لحاظ سے فلق کا لفظ بولا جاتا ہے اور مغی انفعال یعنی الگ الگ ہونے کے لحاظ سے فرق قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ فَرَقْنا بِكُمُ الْبَحْرَ [ البقرة/ 50] اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑ دیا ۔ اور الفراق کے معنی الگ ہونے والا ٹکڑہ کے ہیں اسی سے فرقۃ ہے جس کے معنی لوگوں کا گروہ یا جماعت کے ہیں ۔ اور طلوع فجر پر فرق اور فلق دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء/ 63] تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑا یوں ہوگیا ( کہ ) گویا بڑا پہاڑ ہے بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ عجب نہیں کہ ان اسرار کا بتلانا اس درخواست کا پورا کرنا بھی ہو جو موسیٰ (علیہ السلام) نے کی تھی تعلمن مما علمت گو نمونہ ہی کے طور پر سہی۔ اور زیادہ ساتھ رہنے میں غالبا وہ مناسب موقع پر خود ہی بتلاتے اور ہر واقعہ پر بتلاتے تو یہ علم زیادہ ہوتا۔ گو یہ علم موسوی کے برابر مفید عام نہ ہو، کیونکہ قابل اتباع نہیں تاہم اس معنی کو مفید خاص ضرور ہے کہ بعض حکمتیں مفصلا منکشف ہوتی ہیں، گو اجمالی عقیدہ کہ ہر واقعہ جو مشتمل حکمتوں پر ہوتا ہے قرب کے لئے کافی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ ہاں جو کام میں نے سفر کے دوران کیے ہیں۔ ان کے بارے میں عرض کیے دیتا ہوں تاکہ آپ کو ان کی حکمت کا علم ہو سکے جن کے بارے میں آپ صبر نہ کرسکے۔ کشتی کا تختہ میں نے اس لیے توڑا تھا کہ ظالم بادشاہ، ملاحوں کی کشتیاں جبرًا پکڑ رہا تھا۔ میں نے کشتی کو عیب دار کیا۔ تاکہ بادشاہ کے کارندے کشتی کو غیر معیاری سمجھ کر چھوڑ دیں اس طرح ان غریبوں کی مزدوری چلتی رہے۔ ثابت ہوتا ہے کہ ظالموں، حکمرانوں کا پرانا وطیرہ ہے کہ وہ ذاتی مفاد یا کسی اجتماعی مہم کے لیے بلامعاوضہ اور بلاتمیز لوگوں کے مال پر تصرف کرتے ہیں۔ جو ہرگز جائز نہیں البتہ ہنگامی حالات اور ملکی مفاد میں کچھ وقت کے لیے پبلک پراپرٹی سے فائدہ اٹھانا ناگزیر ہو تو رعایا کو اعتماد میں لے کر ایسا کرنا جائز ہے۔ اس کے باوجود غریبوں اور مجبور لوگوں کا خیال رکھنا لازم ہے۔ ورنہ شرعاً اور اخلاقاً حکومت کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کی ذاتی جائیداد پر قبضہ کرے اس کے لیے سیدنا عمر فاروق (رض) اور حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کی مثال حکمران طبقہ کے سامنے ہونی چاہیے۔ جس سے اشتراکی اور اسلامی نظام میں فرق کا پتہ چلتا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں جو مسجد نبوی کی عمارت تیار کی گئی تھی وہ اس عہد کے لیے کافی تھی۔ لیکن مدینہ منورہ کی آبادی روزبروز بڑھتی جا رہی تھی۔ اس وجہ سے نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ 17 ھ میں حضرت عمر (رض) نے مسجد کو وسیع کرنا چاہا جس کے لیے گردوپیش کے مکانات قیمت دے کر خرید لیے، لیکن حضرت عباس (رض) نے اپنا مکان بیچنے سے انکار کیا۔ حضرت عمر (رض) نے کافی معاوضہ دینے کی پیشکش کی لیکن حضرت عباس (رض) کسی طرح راضی نہ ہوئے تھے۔ آخر مقدمہ ابی بن کعب (رض) کے پاس آیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ حضرت عمر (رض) کو جبراً مکان خریدنے کا کوئی حق نہیں۔ حضرت عباس (رض) نے فرمایا کہ اب میں بلا قیمت عامۃ المسلمین کے لیے دیتا ہوں۔ اس طرح ازواج مطہرات کے مکانات کو چھوڑ کر باقی جس قدر عمارتیں تھیں انہیں گرا کر مسجد کو وسعت دی گئی۔ پہلے طول 10 گز تھا انہوں نے 140 گز کردیا۔ اسی طرح عرض میں بھی 20 گز کا اضافہ ہوا لیکن عمارت میں کچھ تکلف نہیں کیا گیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں جس طرح ستون وغیرہ لکڑی کے تھے، اب بھی لکڑی کے رہے، حضرت عمر (رض) نے مسجد کی تجدید کے ساتھ ایک کونے میں ایک چبوترہ بنوایا اور لوگوں سے کہا کہ جس نے بات چیت کرنا ہو اس کے لیے یہ جگہ ہے۔ (الفاروق : مصنف شبلی نعمانی (رض) مسائل ١۔ بہتر ہے کہ ناواقف ہمسفر کو راستے کی مشکلات سے آگاہ کردیا جائے۔ ٢۔ غیر شرعی کام دیکھ کر بڑے سے بڑے بزرگ کو روکنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ٣۔ کسی کام میں شراکت قائم رکھنا مشکل ہو تو ساتھی کو آگاہ کردینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن صبر کے معانی : ١۔ خضر نے کہا اب میرا اور تمہارا ساتھ ختم ہوا میں آپ کو ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کرسکے۔ (الکہف : ٧٨) ٢۔ آپ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ مطمئن رکھیے جو صبح و شام اپنے پروردگار کو یاد کرتے ہیں۔ (الکہف : ٢٨) ٣۔ سردار مکہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کی پرستش پر قائم رہو۔ (ص : ٦) ٤۔ جہنمی کس طرح جہنم کی آگ کو برداشت کریں گے۔ (البقرۃ : ١٧٥) ٥۔ تم کفار کی باتوں کو ہمت کے ساتھ برداشت کرو۔ (المعارج : ٥) ٦۔ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں تک حضرت موسیٰ اور ہم جو قرآن پڑھتے ہیں ، یہ حیران کن واقعات دیکھتے چلے آئے ہیں۔ یہ عجیب واقعات ہیں۔ ہم ان کے راز کو نہیں جانتے۔ لیکن ان کے بارے میں ہر قاری قرآن کی رائے دہی ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ہے بلکہ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ شخص ہے کون جو اس قسم کے عجیب اقدامات کر رہا ہے۔ کیونکہ قرآن کریم نے ہمیں اس کا نام بھی نہیں بتایا۔ نام تو قرآن نے اس لئے نہیں بتایا کہ اس عجیب اور حیرت انگیز قصے ، کی فضا مزید حیران کن ہوجائے بلکہ نام کے اظہار کی یہاں اہمیت ہی نہیں ہے بلکہ اصل اہمیت کی ہے کہ اس کائنات میں ان واقعات کی پشت پر جو حکمت ہے وہ معلوم ہوجائے اور بظاہر جو تصرفات عجیب نظر آتے ہیں وہ معقول نظر آئیں اور ان کے دور رس اسباب معلوم ہوں۔ نامع معلوم ہو کہ نہ ہو ، بلکہ ان کی پراسرار شخصیت کے ساتھ موزوں یہی ہے کہ وہ نامعلوم رہیں۔ کیونکہ پوری سورت اور اس قصے میں غیبی قوتیں کام کر رہی ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) اس بندئہ خدا سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنا سفر طے کر رہے ہیں لیکن پتھر کے پاس حضرت موسیٰ کے غلام کھانا بھول جاتے ہیں۔ بھول بھی اس لئے جاتے ہیں کہ واپس اس چٹان تک لوٹ آئیں۔ وہاں یہ شخص غائبانہ انداز میں موجود ہوجاتا ہے۔ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی غذا نہ بھولتے تو وہ ان سے نہ مل سکتے اور آگے ہی چلے جاتے۔ لیکن دست قدرت نے انہیں دوبارہ پتھر تک لوٹایا۔ غرض قصے کی تمام فضا پراسرار ہے اور ایک کردار کا نام تک معلوم نہیں ہے۔ لیکن اب ان پر اسرار واقعات کا راز کھلتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

78 حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ وقت میری اور آپ کی علیحدگی اور میرے اور آپ کے مابین جدائی کا ہے میں آپ کو ان چیزوں کی صحیح حقیقت سے آگاہ کئے دیات ہوں اور … بتائے دیتا ہوں جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا ۔ یعنی آپ کی شرط کے مطابق اس سوال کے بعد جدائی اور علیحدگی ہے۔ ہاں ! میں آپ کو ان تمام باتوں کی حقیقت اور تاویل بتائے دیتا ہوں جن پر آپ سے صبر نہیں ہوسکا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اب کی بار موسیٰ (علیہ السلام) نے جان کر پوچھا رخصت ہونے کو سمجھ لیا کہ یہ علم میرے ڈھب کا نہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ علم تھا جس میں خلق پیروی کرے تو ان کا بھلا ہو۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کا علم وہ کہ دوسرے کو اس کی پیروی بن نہ آوے۔ 12