Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 79

سورة الكهف

اَمَّا السَّفِیۡنَۃُ فَکَانَتۡ لِمَسٰکِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ فِی الۡبَحۡرِ فَاَرَدۡتُّ اَنۡ اَعِیۡبَہَا وَ کَانَ وَرَآءَہُمۡ مَّلِکٌ یَّاۡخُذُ کُلَّ سَفِیۡنَۃٍ غَصۡبًا ﴿۷۹﴾

As for the ship, it belonged to poor people working at sea. So I intended to cause defect in it as there was after them a king who seized every [good] ship by force.

کشتی تو چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کاج کرتے تھے ۔ میں نے اس میں کچھ توڑ پھوڑ کر نے کا ارادہ کر لیا کیونکہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک ( صحیح سالم ) کشتی کو جبراً ضبط کر لیتا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Interpretations of why the Ship was damaged Khidr gives the explanation of his actions: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا "As for the boat, it belonged to poor people working in the sea. So I wished to make a defective damage in it, as there was a king behind them who seized every boat by force." This is an explanation of what Musa found so hard to understand, and the appearance of which he condemned. Allah showed Al-Khidr the hidden reasons, so he said, "I damaged the ship to make it faulty, because they used to pass by a king who was one of the oppressors, who يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ (seized every boat), i.e., every good, sound boat غَصْبًا (by force). `So I wanted to prevent him from taking this boat by making it appear faulty, so that its poor owners who had nothing else could benefit from it.' It was also said that they were orphans.

اللہ کی مصلحتوں کی وضاحت ۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کے انجام سے حضرت خضر کو مطلع کر دیا تھا اور انہیں جو حکم ملا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس راز کا علم نہ تھا اس لئے بظاہر اسے خلاف سمجھ کر اس پر انکار کرتے تھے لہذا حضرت خضر نے اب اصل معاملہ سمجھا دیا ۔ فرمایا کہ کشتی کو عیب دار کرنے میں تو یہ مصلحت تھی کہ اگر صحیح سالم ہوتی تو آگے چل کر ایک ظالم بادشاہ تھا جو ہر ایک اچھی کشتی کو ظلما چھین لیتا تھا ۔ جب اسے وہ ٹوٹی پھوٹی دیکھے گا تو چھوڑ دے گا اگر یہ ٹھیک ٹھاک اور ثابت ہوتی تو ساری کشتی ہی ان مسکینوں کے ہاتھ سے چھن جاتی اور ان کی روزی کمانے کا یہی ایک ذریعہ تھا جو بالکل جاتا رہتا ۔ مروی ہے کہ اس کشتی کے مالک چند یتیم بچے تھے ۔ ابن جریج کہتے ہیں اس بادشاہ کا نام حدوبن بدو تھا ۔ بخاری شریف کے حوالے سے یہ راویت پہلے گزر چکی ہے ۔ تورات میں ہے کہ یہ عیص بن اسحاق کی نسل سے تھا توراۃ میں جن بادشاہوں کا صریح ذکر ہے ان میں ایک یہ بھی ہے ، واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٧] یعنی ہر اچھی کشتی کو وہ بےگار میں لے لیتا تھا اور میں نے سوچا کہ اگر یہ کشتی ان سے چھن گئی تو ان بےچاروں کا روزگار بند ہوجائے گا لہذا میں نے کشتی سے ایک تختہ توڑد یا اور وہ غصب ہونے سے بچ گئی میں نے دراصل یہ کشتی والوں سے بھلائی کی تھی۔ آخر میں نے اس میں کیا برا کیا تھا ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ ۔۔ : اس آیت میں کشتی کا مالک ہونے اور اسے کرایہ پر چلانے کے باوجود ان لوگوں کو مسکین کہا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ مسکین وہ ہے جس کی آمدنی اس کی ضروریات سے کم ہو، یعنی وہ ضرورت مند لوگ جو نہ مانگتے ہیں اور نہ کسی کو ان کی حالت کی خبر ہوتی ہے کہ ان پر صدقہ کریں۔ [ دیکھیے بخاري، الزکوٰۃ، باب قول اللہ عز و جل : ( لا یسئلون الناس إلحافا۔۔ ) : ١٤٧٩۔ مسلم : ١٠٣٩، عن أبي ہریرہ (رض) ] فقیر کی حالت مسکین سے بدتر ہوتی ہے۔ ” كَانَ وَرَاۗءَهُمْ “ کا معنی ابن عباس (رض) نے ” ان کے آگے “ کیا ہے۔ [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( فلما بلغا مجمع بینھما نسیا ۔۔ ) : ٤٧٢٦ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the first verse, it was said: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ (As for the boat, it belonged to some poor people - 79). About the poor people to whom this boat belonged, it has been reported from Sayyidna Ka&b al-Ahbar (رض) that they were ten brothers. Five of them were handicapped while the other five worked hard to eke out a living for all of them by plying a boat against whatever fare they could collect. The definition of a Miskin A miskin has been defined as one who has nothing. But, from this verse, we learn the true definition of a miskin: Anyone who does not have the amount of wealth and property that exceed his need, basic and necessary, to the limit of legal nisab (threshold of zakah). One who has less than that is also included under the definition of miskin. The reason is that people called &al-masakin& (plural of miskin: poor people) had at least one boat the price of which will not be less than the amount of nisab (threshold). But, as it was engaged in earning what those people needed, basically and necessarily, they were still called &masakin& (poor people). (Mazhari) Regarding the last sentence of verse 79: مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا ، al-Baghawi has reported from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that the direction in which this boat was sailing, there was a cruel king who used to take boats ferrying people through by force. Al-Khadir (علیہ السلام) found it expedient to pull out a plank from the boat so that the cruel king, seeing this damaged boat, would let it go and thus those poor people would remain safe from the likely mishap. Comments sage Rumi: گَر خضر در بحر کشتی را شکست صد درستی شکست خضر ہست Yes, al-Khidr did break the boat while sailing at sea But, a hundred saving graces in his breaking we see

خلاصہ تفسیر : اور وہ جو کشتی تھی سو چند غریب آدمیوں کی تھی (جو اس کے ذریعہ) دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے (اسی پر ان کی گذر اوقات تھی) سو میں نے چاہا کہ اس میں عیب ڈال دوں اور (وجہ اس کی یہ تھی کہ) ان لوگوں سے آگے سے آگے کی طرف ایک (ظالم) بادشاہ تھا جو ہر (اچھی) کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا (اگر میں کشتی میں عیب ڈال کر بظاہر بیکار نہ کردیتا تو یہ کشتی بھی چھین لی جاتی اور ان غریبوں کی مزدوری کا سہارا بھی ختم ہوجاتا اس لئے توڑنے میں یہ مصلحت تھی) اور رہا وہ لڑکا سو اس کے ماں باپ ایمان دار تھے (اور اگر وہ بڑا ہوتا تو کافر ظالم ہوتا اور ماں کو اس سے محبت بہت تھی) سو ہم کو اندیشہ ہوا کہ یہ ان دونوں پر سرکشی اور کفر کا اثر نہ ڈال دے (یعنی بیٹے کی محبت کے سبب وہ بھی بےدینی میں اس کا ساتھ نہ دینے لگیں) پس ہم کو یہ منظور ہوا (اس کا تو قصہ تمام کردیا جائے پھر) اس کے بدلے ان کا پروردگار ان کو ایسی اولاد دے (خواہ لڑکا ہو یا لڑکی) جو کہ پاکیزگی (یعنی دین) میں اس سے بہتر ہو اور (ماں باپ کے ساتھ) محبت کرنے میں اس سے بڑھ کر ہو اور رہی دیوار سو وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی جو اس شہر میں (رہتے) ہیں اور اس دیوار کے نیچے ان کا کچھ مال مدفون تھا (جو ان کے باپ سے میراث میں پہنچا ہے) اور ان کا باپ (جو مرگیا ہے وہ) ایک نیک آدمی تھا (اس کے نیک ہونے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد کے مال کو محفوظ کرنا چاہا اگر دیوار ابھی گر جاتی تو لوگ یہ مال لوٹ لے جاتے اور غالباً جو شخص ان یتیم لڑکوں کا سرپرست تھا اس کو اس خزانے کا علم ہوگا وہ یہاں موجود نہ ہوگا جو انتظام کرلیتا) اس لئے آپ کے رب نے اپنی مہربانی سے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی (کی عمر) کو پہنچ جائیں اور اپنا دفینہ نکال لیں اور (یہ سارے کام میں نے اللہ کے حکم سے کئے ہیں ان میں سے) کوئی کام میں نے اپنی رائے سے نہیں کیا یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا (جس کو میں حسب وعدہ بتلا چکا ہوں چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خضر (علیہ السلام) سے رخصت ہوگئے) معارف و مسائل : (آیت) اَمَّا السَّفِيْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ یہ کشتی جن مسکینوں کی تھی ان کے متعلق کعب احبار سے منقول ہے کہ وہ دس بھائی تھے جن میں پانچ اپاہج معذور تھے پانچ محنت مزدوری کرکے سب کے لئے معاش کا انتظام کرتے تھے اور مزدوری ان کی یہ تھی کہ دریا میں ایک کشتی چلاتے اور اس کا کرایہ حاصل کرتے تھے۔ مسکین کی تعریف : بعض لوگوں نے یہ کی ہے کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو مگر اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسکین کی صحیح تعریف یہ ہے کہ جس کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ اس کی حاجات اصلیہ ضروریہ سے زائد بقدر نصاب ہوجائے اس سے کم مال ہو تو وہ بھی مسکین کی تعریف میں داخل ہے کیونکہ جن لوگوں کو اس آیت میں مساکین کہا گیا ہے ان کے پاس کم از کم ایک کشتی تو تھی جس کی قیمت مقدار نصاب سے کم نہیں ہوتی مگر چونکہ وہ حاجات اصلیہ ضروریہ میں مشغول تھی اس لئے ان کو مساکین ہی کہا گیا (مظہری) (آیت) مَّلِكٌ يَّاْخُذُ كُلَّ سَفِيْنَةٍ غَصْبًا بغوی نے بروایت ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ یہ کشتی جس طرف جارہی تھی وہاں ایک ظالم بادشاہ تھا جو ادھر سے گذرنے والوں کی کشتیاں زبردستی چھین لیتا تھا حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس مصلحت سے کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا کہ وہ ظالم بادشاہ اس کشتی کو شکستہ دیکھ کر چھوڑ دے اور یہ مساکین اس مصیبت سے بچ جائیں دانائے روم نے خوب فرمایا۔ گر خضر در بحر کشتی را شکست صد درستی در شکست خضر ہست

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمَّا السَّفِيْنَۃُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ يَعْمَلُوْنَ فِي الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِيْبَہَا وَكَانَ وَرَاۗءَہُمْ مَّلِكٌ يَّاْخُذُ كُلَّ سَفِيْنَۃٍ غَصْبًا۝ ٧٩ سفن السَّفَنُ : نحت ظاهر الشیء، كَسَفَنَ العودَ ، والجلدَ ، وسَفَنَ الرّيح التّراب عن الأرض، قال الشاعر : فجاء خفيّا يَسْفِنُ الأرض صدره والسَّفَنُ نحو النّقض لما يُسْفَنُ ، وخصّ السَّفَنُ بجلدة قائم السّيف، وبالحدیدة التي يَسْفِنُ بها، وباعتبار السَّفْنِ سمّيت السَّفِينَةُ. قال اللہ تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ [ الكهف/ 79] ، ثمّ تجوّز بالسفینة، فشبّه بها كلّ مرکوب سهل . ( س ف ن ) السفن ۔ اس کے اصل معنی چوب اور چمڑا وغیرہ کو چھیلنے کے ہیں اور سفن الریح التراب عن الارض کے معنی ہیں ہوا نے زمین سے مٹی کو گھس ڈالا شاعر نے کہا ہی ( الطویل ) ( 230 ) فجاء خفیا یسفن الارض صدرہ وہ زمین پر اپنا سینہ رگڑتے ہوئے پوشیدہ طور پر وہاں جا پہنچا ۔ اور تراشی ہوئی چیز کو سفن ( فعل بمعنی مفعول ) کہتے ہیں جیسے نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اور السفن خاص کر اس کھردرے چمڑے کو کہا جاتا ہے جس کو تلوار کے قبضہ پر لگاتے ہیں اور چوب تراشی کے اوزار کو بھی سفن کہا جاتا ہے جیسے تیشہ وغیرہ اور چھیلنے کے معنی کے لحاظ سے کشتی کا نام سفینۃ رکھا گیا ہے ۔ کیونکہ وہ بھی سطح آب کو چیرتی ہوئی چلی جاتی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ أَمَّا السَّفِينَةُ [ الكهف/ 79] لیکن کشتی ۔ پھر مجازا کشتی کے ساتھ تشبیہ دے کر ہر آرام دہ سواری کو سفینۃ کہا جاتا ہے ۔ مِسْكِينُ قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین . المسکین المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ ) عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے بحر أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر : 39- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره . ( ب ح ر) البحر ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ عاب العَيْبُ والعَابُ : الأمر الذي يصير به الشیء عَيْبَةً. أي : مقرّا للنّقص، وعِبْتُهُ جعلته مَعِيباً إما بالفعل کما قال : فَأَرَدْتُ أَنْ أَعِيبَها[ الكهف/ 79] ، وإما بالقول، وذلک إذا ذممته نحو قولک : عِبْتُ فلانا، والْعَيْبَةُ : ما يستر فيه الشیء، ومنه قوله عليه الصلاة والسلام : «الأنصار کر شي وعَيْبَتِي» «4» أي : موضع سرّي . ( ع ی ب ) العیب والعاب نقص اور خرابی ہر وہ حالت جس سے کیس چیز میں نقص پیدا ہوجائے اور عبتہ کے معنی ہیں میں نے اسے عیب دار کردیا جیسے فرمایا : ۔ فَأَرَدْتُ أَنْ أَعِيبَها[ الكهف/ 79] تو میں نے چاہا کہ ا سے عیب دار کردوں ۔ نیز عبتہ کسی چیز کی مذمت کرنے اور اس کا عیب ظاہر کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ جیسے غبت فلانا ( میں نے اس کی مذمت کی ) اور عیبۃ ( بیگ ) ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز چھپا کر رکھی جائے اسی سے (علیہ السلام) کا فرمان ہے الانصار کر شی وعیبتی کہ انصار میرے مخزن اسرار ہیں ۔ وراء ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی: وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] ، ( و ر ی ) واریت الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ ملك) بادشاه) المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور وَالمِلْكُ ضربان : مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے . اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔ دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٩ (اَمَّا السَّفِيْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ يَعْمَلُوْنَ فِي الْبَحْرِ ) وہ بہت غریب اور نادار لوگ تھے صرف وہ کشتی ہی ان کے معاش کا سہارا تھی۔ اس کے ذریعے وہ لوگوں کو دریا کے آر پار لے جاتے اور اس مزدوری سے اپنا پیٹ پالتے تھے۔ (فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِيْبَهَا وَكَانَ وَرَاۗءَهُمْ مَّلِكٌ يَّاْخُذُ كُلَّ سَفِيْنَةٍ غَصْبًا) بادشاہ ہر اس کشتی کو اپنے قبضے میں لے لیتا تھا جو صحیح وسالم ہوتی تھی۔ ان نادار لوگوں کی کشتی بھی اگر بےعیب ہوتی تو بادشاہ ان سے زبردستی چھین لیتا۔ چناچہ میں نے اس کا ایک تختہ توڑ کر اسے عیب دار کردیا۔ اب جب بادشاہ اس عیب دار کشتی کو دیکھے گا تو اسے چھوڑ دے گا اور اس طرح ان کی روزی کا واحد سہارا ان سے نہیں چھنے گا۔ پوری کشتی چھن جانے کے مقابلے میں ایک تختے کا ٹوٹ جانا تو معمولی بات ہے۔ اس تختے کی وہ لوگ آسانی سے مرمت کرلیں گے اور یوں وہ کشتی ان کی روزی کا ذریعہ بنی رہے گی۔ لہٰذا وہ تختہ ان لوگوں کی بھلائی کے لیے توڑا گیا تھا نہ کہ کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:79) یعلمون فی البحر۔ جو دریا میں کام کرتے تھے، یعنی جو دریا میں ملاحی کا کام کرتے تھے۔ اعیبھا۔ مضارع منصوب واحد متکلم۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب۔ نصب بوجہ عمل ان ہے۔ (کہ ) میں اسے عیب دار کر دوں۔ سراء ہم۔ وری یری سے وراء مصدر ہے جس کے معنی حد فاصل ۔ آڑ ۔ کسی چیز کا آگے ہونا یا پیچھے ہونا۔ علاوہ ۔ سوا۔ ہونا کے ہیں۔ آگے کے معنی میں وکان وراء ہم ملک (ایت ھذا) اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا۔ پیچھے کے معنی میں۔ ارجعوا ورائکم فالتمسوا نورا (57:13) پیچھے کو لوٹ جائو اور (وہاں) نور تلاش کرو۔ آڑ کے معنی میں۔ او من وراء جدر۔ (59:14) یا دیواروں کی اوٹ میں۔ علاوہ وسوا کے معنی میں۔ فمن ابتغی وراء ذلک فاولئک ہم العدون (23:7) اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ خدا کی (مقرر کردہ ) حد سے نکل جانے والے ہیں۔ غضبا۔ مصدر ہے ۔ حالت نصب۔ غصب یغصب (ضرب) سے۔ زبردستی چھین لینا (بغیر حق کے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی ان کی ساری پونچی صرف یہی کشتی تھی اس کو وہ کرایہ پر چلاتے اور اپنی روزی کماتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فقیر بہ نسبت مسکین کے زیادہ تلاش ہوتا ہے۔ (شوکانی)4 یعنی میں نے اس کشتی کا تختہ اس لئے نکال دیا کہ جب یہ آگے جائے تو اس ظالم بادشاہ کی دست برد سے محفوظ رہے اور اسے عیب زدہ سمجھ کر چھوڑ دے۔ معلوم ہوا کہ کسی کی خیر خواہی کے لئے اس کے مال میں بلا اجازت صرف جائز ہے۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 79 تا 82 السفینۃ کشتی، جہاز۔ یعملون وہ محنت مزدوری کرتے ہیں۔ اردت میں نے چاہا۔ اعیب عیب دار کر دوں۔ وراء پیچھے۔ غصب زبردستی۔ یرھق ڈھانپ لیتا ہے۔ زکوۃ پاکیزگی۔ کنز خزانہ، مال گڑا ہوا۔ امری میرا اختیار۔ تشریح : آیت نمبر 79 تا 82 یہ کائنات اور اس کا نظام کیا ہے ؟ وہ کس طرح چل رہا ہے کبھی یہ سوچتے ہوئے ذہن الجھ سا جاتا ہے کبھی ہم سوچتے ہیں کہ اگر ایسا ہوجاتا تو اچھا تھا لیکن زیادہ عرصہ نہیں گذرتا کہ ہر کام کی حقیقت سامنے آجاتی ہے اور اس کام میں جو حکمت و مصلحت پوشیدہ تھی اس کے کھلنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اچھا ہوا فلاں کام نہ ہو اور نہ اس سے مجھے بہت نقصان پہنچ جاتا۔ یہی صورتحال اس وقت پیش آئی جب حضرت موسیٰ کی موجودگی میں حضرت خضر نے بعض وہ کام کئے جن کی مصلحت اور حکمت سمجھ سے بالاتر تھی لیکن جب حضرت خضر نے وضاحت فرمائی تب پوری بات سمجھ میں آسکی۔ حضرت خضر نے بتایا کہ (1) وہ کشتی جس میں انہوں نے عیب پیدا کردیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ دریا کے دوسرے کنارے پر ایک ظالم و جابر بادشاہ کے لوگ ہر اس کشتی کو چھین رہے تھے جو بالکل نئی ہو۔ میں نے اللہ کے حکم سے اس نیک شخص کی نیکی کی وجہ سے اس کشتی میں ایسی تبدیلی کردی جس سے وہ کشتی کو چھین رہے تھے جو بالکل نئی ہو۔ میں نے اللہ کے حکم سے اس نیک شخص کی نیکی کی وجہ سے اس کشتی میں ایسی تبدیلی کردی جس سے وہ کشتی بالکل نئی معلوم نہ ہو اور دور سے عیب دار نظر آئے۔ (2) فرمایا کہ اللہ کے حکم سے میں نے جس لڑکے کو مار ڈالا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس بچے کے والدین بہت ہی نیک اور صالح تھے اللہ پر کامل ایمان رکھتے ہوئے اسی کی عبادت و بندگی کرتے تھے۔ ان کا یہ لڑکا فطرت اور مزاج کے اعتبار سے ایسا اٹھ رہا تھا کہ آئندہ زندگی میں وہ اپنے ماں باپ کے لئے عذاب اور مصیبت بن جاتا۔ لہٰذا اللہ کے فیصلے کے مطابق اس کا مرجانا اس کے زندہ رہنے سے بہتر تھا۔ کہتے ہیں کہ اللہ نے اس لڑکے کی جگہ ایک نیک اور پارسا لڑکی عطا فرمائی جس سے ایک نبی پیدا ہوئے اور اس طرح اللہ نے والدین کی نیکی کا یہ صلہ ان کو عطا فرمایا۔ (3) تیسرے واقعہ کی مصلحت بتاتے ہوئے فرمایا کہ بغیر کسی معاوضہ اجرت کے جس گرتی ہوئی دیوار کو درست کیا گیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دیوار کے نیچے نیک والدین کی محنت سے کمایا ہوا خزانہ چھپا ہوا تھا اگر وہ دیوار گر جاتی اور خزانہ ظاہر ہوجاتا تو یتیم بچوں کے وارث اس کے مالک بن بیٹھتے اور یہ بچے محروم رہ جاتے اس لئے اللہ نے چاہا کہ دیوار اس وقت تک نہ گرے جب تک یتیم بچے اپنے شعور اور سمجھ کی عمر تک نہ پہنچ جائیں اور ان کے والدین کی جو خواہش تھی وہ پوری نہ ہوجائے۔ حضرت خضر نے حضرت موسیٰ کو اپنے کاموں کی مصلحت بتاتے ہوئے اس بات کو واضح کردیا کہ میں جو کچھ کرتا ہوں اس میں میرا اختیار اور مرضی شامل نہیں ہوتی بلکہ یہ سارے کام میں اللہ کے حکم سے کرتا ہوں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اور اس عیب کی وجہ سے یہ کشتی بیگار میں پکڑے جانے سے بچ گئی اور یہ عیب ایک چھوٹا نقصان تھا اور ایک بڑے نقصان سے بچنے کے لئے چھوٹا نقصان برداشت کیا جاسکتا ہے۔ اگر کشتی کو یہ تھوڑا سا نقصان نہ پہنچایا جاتا تو اس کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت خضر (علیہ السلام) کا تینوں باتوں کی حقیقت بتانا حضرت خضر (علیہ السلام) جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جدا کرنے لگے تو فرمایا کہ آپ کو ان باتوں کی حقیقت بتائے دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کرسکے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے تین کام کیے تھے جن میں سے دو تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک بہت ہی زیادہ قابل اعتراض تھے اور تیسری جو بات تھی وہ کوئی منکر نہ تھا لیکن بستی والوں نے چونکہ طلب کرنے پر بھی کھانے کو کچھ نہیں دیا اس لیے حالت اور ضرورت کے پیش نظر یوں فرما دیا کہ اگر آپ چاہتے تو ان لوگوں سے کچھ مزدوری لے لیتے جس کے ذریعہ ہم کچھ خرید کر کھالیتے۔ (فی صحیح البخاری قال سعید اجراً ناکلہ صفحہ ٦٨٩ ج ٢) کشتی کا تختہ کیوں نکالا حضرت خضر (علیہ السلام) نے تینوں باتوں کی حقیقت بیان فرما دی اور فرمایا کہ کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ یہ غریب لوگوں کی کشتی تھی جو سمندر میں کشتی کو چلاتے اور سواریاں بٹھا کر محنت مزدوری کرکے پیسے حاصل کرتے تھے۔ لیکن ساتھ ہی ایک دشمن بھی لگا ہوا تھا جو ظالم بادشاہ تھا جس کشتی کو اچھی حالت میں دیکھتا تھا اسے چھین لیتا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ یہ لوگ آگے بڑھیں گے تو ان کے ساتھ یہی معاملہ ہوگا لہٰذا میں نے ایسا عمل کیا جس سے کشتی میں عیب پیدا ہوگیا، وقتی طور پر وہ عیب کی وجہ سے خطرہ سے آگے نکل گئی اس کے بعد انہوں نے اسے درست کردیا اور آگے بڑھ گئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

72:۔ یہ پہلے واقعہ کی حکمت ہے، حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا، اس کشتی کے مالک بہت غریب اور مسکین اور یہی کشتی ان کا ذریعہ معاش تھی، وقت کا بادشاہ زبردست تھا جو ہر اچھی اور بےعیب کشتی جبراً چھین لیتا تھا اس لیے میں نے اس کشتی کو توڑ کر عیب دار کردیا تاکہ بادشاہ اسے چھین نہ لے۔ ” واما الغلم الخ “ یہ دوسرے واقعہ کی حکمت ہے، یعنی میں نے اس غلام (لڑکا یا نوجوان) کو اس لیے قتل کیا کہ وہ بدکردار اور کافر ہونے والا تھا یا وہ بالفعل بدکردار اور کافر تھا لیکن اس کے والدین نیک اور صالح تھے اور مومن تھے تو ہمیں اندیشہ لاحق ہوا کہ اگر وہ زندہ رہا تو کفر اور سرکشی سے ان کو تنگ کرے گا۔ اس لیے ہم نے ارادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس کے بدلے اس سے اچھا فرزند عطا کرے جو دین داری کے اعتبار سے اور والدین پر شفقت اور مہربانی کے لحاظ سے اس سے کہیں زیادہ بہتر ہو۔ ” و اما الجدار الخ “ یہ تیسرے واقعہ کی حکمت ہے۔ یہ دیوار دو یتیم بچوں کی تھی جن کا باپ بہت نیک تھا، اس دیوار کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا۔ اگر دیوار گر جاتی تو خزانہ ظاہر ہوجاتا جسے لوگ لوٹ کرلے جاتے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ دونوں بچے بڑے ہو کر اپنا خزانہ اپنے استعمال میں لائیں اس لیے مجے دیوار درست کرنے کا حکم دیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

79 بہرحال وہ جو کشتی تھی وہ چند غریب اور مساکین لوگوں کی تھی یہ مساکین دریا میں اس کشتی سے محنت مزدوری کیا کرتے تھے میں نے یہ چاہا اور ارادہ کیا کہ اس کشتی میں کوئی عیب پیدا کر دوں کیونکہ ان کے سامنے کی طرف ایک بادشاہ تھا جو ہر بےعیب کشتی غصب کرلیا کرتا تھا اور زبردستی چھین لیا کرتا تھا۔ یعنی کشتی تھی مساکین کی اگر ظاہری طور پر ٹھیک رہتی تو ظالم بادشاہ چھین لیتا میرے عیب پیدا کردینے سے اس غاصب کے غصب سے ان کی کشتی محفوظ رہ گئی۔